شاہد احمد دہلوی
ایک نامور ادیب اور صحافی

میں ہمیشہ انھیں شاہد چچا کہتی تھی کیونکہ ریڈیو سے میری وابستگی بخاری صاحب اور ان کی وجہ سے ہی تھی اور اکثر دونوں کی ڈانٹ سننی بھی پڑتی تھی۔ اپنی لاپروائی کی وجہ سے ریڈیو پر موسیقی میں کار ہائے نمایاں میں ان کے پروگراموں کی فہرست لمبی ہے۔ بہرحال سب سے پہلے تو حضرت امیر خسرو کے لیے جو ہر سال وہ پروگرام پیش کرتے تھے وہ بے مثال تھے جن میں حضرت امیر خسرو ؒکی تمام راگ راگنیاں، پہیلیاں، کہہ مکرنیاں اور گیت شامل ہوتے تھے اور وہ بے تحاشا پسند کیے جاتے تھے اور انھوں نے بیرون ملک جا کر موسیقی پر لیکچر دیے اور پاکستانی کلاسیکل موسیقی کو روشناس کرایا۔ پھر ریڈیو سے ایک پروگرام سرگم شروع کیا جو موسیقی سکھانے کا ایک دلچسپ اور منفرد پروگرام تھا جو بیک وقت بھارت اور بنگلہ دیش میں شوق سے سنا جاتا تھا اور کچھ لوگوں نے اس سے سیکھا بھی۔ اس کے کرداروں میں میرے علاوہ مشہور سارنگی نواز استاد بندو خاں کے صاحبزادے بلند اقبال صاحب شریک ہوتے تھے۔ ان کو (بدھومیاں) بنایا جاتا تھا جبکہ وہ بہت قابل موسیقار ہیں۔ اس نوک جھوک نے پروگرام کو اتنا مؤثر بنا دیا کہ عرصۂ دراز تک چلا۔ شاہد چچا اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان کے گھر کی محفلیں یاد گار ہوتی تھیں۔ جن کا اب فقدان ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اور بہت سی شخصیات محافل میں شریک ہوتی تھیں۔ شاہد چچا کی زندگی انتہائی سادہ تھی۔ ان کا لباس اور طریقۂ رہائش دہلی کے خاندانی لوگوں کی غمازی کرتا تھا۔ ظاہرداری اور بناوٹ سے انھیں نفرت تھی۔ بہت صاف گو تھے۔ رحمدل بھی تھے بے شمار لوگوں کی خاموشی سے مدد کرتے تھے۔ ان کے لیے ادب اور صحافت میں کچھ لکھنے کے لیے میری معلومات بہت کم ہیں۔ ہاں یہ بات قابل ذکر ضرور ہے کہ وہ شمس العلما ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے تھے اور بہترین ادب انھیں ورثہ میں ملا تھا۔ اخبار ساقی ان کی قابلیت کا ایک موقع تھا۔ جو تمام ادب سے محبت کرنے والوں کے لیے قابل ستائش تھا۔ شاہد چچا کو اللہ جوارِ رحمت میں جگہ دے اور فروغ اردو کے لیے اخبار اردو کی طرح جو لوگ بھی کام کر رہے ہیں ان کی کوششیں بار آور ہوں۔ آمین۔
٭٭٭