ڈاکٹر محمد علی صدیقی
فیضؔ احمدفیضؔ اور روایتی شعری زبان

فیضؔ ناگزیر طور پر فیضؔ ہیں۔ انھوں نے روایتی شعری زبان سے اپنے دھیمے مزاج، خوب صورت تہذیبی رچائو اور سائنسی صداقت پر قائم سائنسی ایقان کے لیے جس انتہائی منفرد انداز سے کام لیا ہے وہ نہ صرف اُن کی فن کارانہ عظمت کا ثبوت ہے بلکہ اس حقیقت کا منہ بولتا اعلان بھی ہے کہ انھوں نے روایتی زبان پر اٹھائے جانے والے جملہ اعتراضات کو بے محل اور غیر واجب قرار دے دیا ہے۔ فیض روایتی شعری زبان سے انحراف بنائے بغیر ایک بڑے فن کار کے روپ میں جلوہ گر ہوئے جبکہ جدید دور کے بعض بڑے فن کار مروجہ شعری ڈِکشن کو مسترد کیے بغیر یا اس میں دراڑیں ڈالے بغیر اپنی مخصوص طرز فغاں ایجاد نہ کرسکے۔ یہ فیض ہی ہیں جو اپنے چراغوں کو حافظ اور عرفی کے چراغوں سے جلاتے اور مصحفی کی لفظیات کی حِسی فضا میں باقاعدہ سانس لیتے ہوئے سوداؔ اور غالبؔ کی جانب بڑھتے ہیں۔
مصحفیؔ، فیضؔ کے محبوب ترین شعرا میں سے ہیں۔ وہ مصحفیؔ اور ساتھ ہی ساتھ سوداؔ کے رنگ میں اس درجہ ڈوبے ہوئے ہیں کہ غالبؔ سے اپنی تمام تر شیفتگی کے باوجود غالبؔ کی سوال انگیز فضا سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔ فیضؔ نے محبوب کو صداقت اُولیٰ مانتے ہوئے بھی اپنی کج کُلا ہی پر اصرار کرتے ہوئے مصحفی اور سوداؔ کے رنگوں سے ایک تیسرا رنگ پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ انھوں نے اپنے جام میں محبت کی سرمدی شراب کے ساتھ ایسی سیاسی بصیرت کو کچھ اس طرح حل کیا ہے کہ وہ روایتی زبان کی صدہا برس کی جادوگری کو حرزِ جاں بناتے ہوئے اسے اپنے مخصوص جادو سے آراستہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے اس اثر آفرینی کو دو چند کرنے کے لیے بین الاقوامی طور پر جلوہ گر ہم خیال شعرا سے کچھ اس انداز سے اخذ و اکتساب کیا ہے جو اردو کی شعری تاریخ کا ایک روشن باب بن گیا ہے۔ جب فیضؔ اپنے شعر میں قطعیت پیدا کرتے ہیں وہ اس کیفیت کو بڑی حد تک مذہبی علائم کے ذریعہ حل کرتے ہیں۔
فیضؔ نے متصوّفانہ اور سماجی علائم کو یکسر فراموش نہیں کیا ہے، لیکن شاید ہی اردو کے کسی اور شاعر نے بظاہر مذہبی تلازموں سے اس درجہ انقلابی کام لیا ہو جس قدر کہ فیضؔ نے۔ اُن کے جیتے جی اردو کے روایتی شعری اسلوب کے خلاف بڑی اہم بغاوتیں ہوئیں لیکن وہ بڑی حد تک صرف اس وجہ سے بے اثر رہیں کہ فیضؔ جیسے مسیحا نفس فن کار نے روایتی زبان کی خامیوں کے خلاف کوئی دلیل نہ چلنے دی۔ ایسا نہ تھا کہ یہ اعتراضات سر تا سر غلط یا غیر ضروری تھے ، لیکن فیضؔ نے ان اعتراضات کو جس طرح بے اثر بنا چھوڑا اُس کی وجہ سے فیض کے ہمعصر اور ان کے مقلدین کے لیے بہت سی منزلیں خود بخود سر ہو چکی ہیں۔ موجودہ صورت حال فیض احمد فیضؔ کے لیے بے پناہ ساز گار سہی لیکن فیض احمد فیضؔ کی غیر معمولی مقبولیت نے فیض شناسی کے راستے میں بعض رکاوٹیں کھڑی کر لی ہیں، چونکہ متعدد ادبی پنڈت اس امید موہوم میں کہ آئندہ چند برس میں ادبی زبان بدل جائے گی یا اس حد تک بدل جائے گی کہ شاید آنے والی نسل ہی فیضؔ کا شمار کلاسیکی شاعر کے طور پر کرنے لگے، فیضؔ کے شعری اسلوب پر آج بھی وہ تمام اعتراضات داغ رہے ہیں جنھیں فیضؔ جیسے شاعر کے خلاف ردِ عمل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فیضؔ کوئی جنگ لڑ رہے ہیں؟ کیا ان کی شعری لغت کے خلاف آج سے بیس سال قبل بھی نئی شاعری کے دعوے داروں نے آسمان سر پر نہ اٹھایا تھا، اور کیا آج بھی نثری نظم کے بعض وُکلا فیضؔ کی شعری زبان کو روایتی قرار دے کر اسے جدید مفاہیم کی ادائی کے لیے غیر حقیقی قرار نہیں دے رہے ہیں؟
فیضؔ کا ڈکشن لازمی طو رپر دو طرح کے رویوں کو جنم دیتا ہے، اسے پسند کیا جائے یا پھر اسے نا پسند کیا جائے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ فیض کے شعری اسلوب کو پسند کر کے اس سے دور رہا جائے۔ آج ہمارے درمیان ایسے بہت سے شعرا ہیں جنھوں نے اس سعی ناکام میں اپنا مستقبل گنوا دیا اور وہ حضرات بھی ہمارے درمیان موجود ہیں جنھوں نے فیضؔ کے فلسفۂ زبان پر کان نہ دھرا اور وہ اختلافِ رائے کی آتش بازی کی مدد سے تھوڑی سی روشنی پیدا کر کے اپنے مفروضات داخل دفتر کروا گئے۔
فیض کی شعری لغت کے بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری شعری روایات کے تسلسل میں ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر بغاوت تسلسل ہی کے کسی نہ کسی نقطہ اتصال سے پھوٹتی ہے۔ فیضؔ اپنے حریفوں کے ہر وار سے اس بنا پر محفوظ رہے بلکہ محفوظ تر ہوتے چلے گئے کہ وہ اجنبی زبانوں کی نادر تمثالوں بلکہ بعض انوکھے شعری محسوسات کو اردو کے قالب میں کچھ اس طرح تخلیقی خلوص کے ساتھ شامل کرتے ہیں کہ یہ اکتسابات کلام فیض میں شامل ہوتے ہی فیض کی اپنی ایجادات نظر آنے لگتے ہیں جب کہ فیض سے کم مشاق فن کاروں کے یہاں اس قسم کی کارروائی سرقہ نظر آتی ہے اور ان کی سطریں چیخ چیخ کر بتاتی ہیں کہ یہیں کہیں ہمارے درمیان ''بیرونی عناصر'' چھپا بیٹھاہے۔ فیضؔ کاشعری اسلوب نہ صرف روایت کے حسین ترین اجزا سے متشکل ہوتا ہے بلکہ وہ اسے اپنے مخصوص ماحول ، تہذیب ، نسلی شعور اور خیر و شر کے بارے میں روایتی تصورات سے گزرتے ہوئے نئے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیتے ہیں اور اس طرح فیض کے تصورِ روایت میں وہ سب کچھ آ جاتا ہے جو ان کے لیے سیاسی طو رپر درست بھی ہوتا ہے۔ فیض کے یہاں سیاسی طو رپر درست اور جمالیاتی طور پر خوب صورت ہونے میں کسی قسم کا تناقض نہیں ہے۔ فیضؔ کے کلام کا مطالعہ اگر صرف اس پہلو سے کیا جائے تو ان کی شاعری میں سیاست اور جمالیات ایک دوسرے کے تعلق کو واضح کرتے ہیں۔ مخصوص سیاسی نصب العین ، مخصوص جمالیاتی رویے پیدا کرتا ہے اور مخصوص رشتوں کی نشان دہی بھی۔ اس رویے سے علامتوں کو نئے سرے سے اپنانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور یہ کام اس وقت اور بھی اہم ہو جاتا ہے جب تشابہات میں ذرا سا غیر شعوری برتائو تسامحات کو جنم دے سکتا ہے۔ فیضؔ اس منزل سے اس طرح گزرتے ہیں کہ ان کی شاعری کا بین السطور بھی ساکت نہیں رہتا بلکہ ہم سے سرگوشیاں سی کرتا رہتا ہے اور بسا اوقات ان کی شاعری کا وہ چونکا دینے والا جادوئی ہالہ بن جاتا ہے جس کی تفہیم اسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب قاری فیضؔ کی Wave-Length پر آ جائے۔
فیضؔ کے شعری اسلوب کی مخالفت کا ایک سبب تو صرف اس وجہ ہی سے عیاں ہے کہ فیض نے اپنے فکر کے ساتھ جس اعلیٰ پایہ کی صناعی کو ہم رنگ کیا ہے وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ فیضؔ کے فکر پر حملہ کیا جا سکتا ہے ، فیضؔ کی صناعی پرناک بھوں چڑھائی جا سکتی اور فیضؔ کی شعری زبان کی بعض جدت طرازیوں پر انگلی بھی اٹھائی جا سکتی ہے لیکن جب یہ تمام اجزائے فکر صناعی اور ندرت جوئی بہم ہو کر اپنا Mosaic ترتیب دے چکتے ہیں تو پھر سارے حملے بے کار ہو جاتے ہیں، کیونکہ اب جنگ صرف شعری تاثیرہی سے ہو سکتی ہے اور شعری تاثیر کے خلاف جنگ روایتی شعری اسلوب کے امکانات کی جنگ کے بغیر ممکن نہیں ہو پاتی اور یہ کام فیشن ایبل بغاوتوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔
فیضؔ نے پہلی جنگ تو روایت پرستوں کے خلاف لڑی۔ وہ اس وقت، جب انھوں نے اپنی نظم میں جو غزل ہی کی روایت کاحصہ تھی، ترقی پسندانہ مفاہیم کو کچھ اس طرح سمویا کہ وہ ہماری شعری روایت پر گراں نہ گزرے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں غزل کی تمام تر چاشنی قائم رکھتے ہوئے ان مفاہیم کے لیے راہیں نکالیں جو بعض شعرا کے خیال میں صرف نظم معرّیٰ اور نظم آزاد ہی میں ممکن تھیں۔ فیض نے یہ معرکہ اپنے پہلے مجموعہ ''نقش فریادی'' میں طے کر لیا تھا۔
فیضؔ نے دوسرا معرکہ اس وقت سر کیا جب ''بادِ صبا'' اور ''زنداں نامہ'' کے پھیلائو نے کچھ اور رکاوٹیں پار کیں اور روایت پرستوں کو سخت مشکل میں پھنسا دیا کہ فرسودہ نظام کو تہس نہس کرنے کے لیے جس شعری زبان کو استعمال کیا جا رہا ہے وہ اس فرسودہ نظام کی باقیاتِ صالحات کے طور پر پیش کی جا رہی تھی۔ یہاں فیض نے زبان کے بارے میں اپنی سیاسی بصیرت سے کام لیا جس کے مطابق زبانیں سماجی ، معاشی اور سیاسی نظاموں کے ساتھ مشروط نہیں ہوتیں بلکہ ان کا ایک علیحدہ نظام ہوتا ہے اور وہ معاشرے کی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کرتی ہیں۔ فیضؔ زبان کی Functionalاہمیت کے قائل تھے۔ جاگیرداری عہد اور سرمایہ دارانہ عہد کی زبان کا فرق لغت میں بہ تدریج اضافے کے فرق سے موسوم کیا جاتا ہے۔ زبان کی گرامر اور رویے جوں کے توں رہتے ہیں۔ اگر فیضؔ کے شعری اسلوب کے مخالفین اس بنیادی سائنسی حقیقت کو نظر میں رکھتے تو انھیں اس خفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو انھیں منطقی اثباتیت (Positivism)کے مغربی وکلا کے اس دعویٰ کی وجہ سے اٹھانی پڑی کہ زبان، خواہ وہ کوئی ہو، انسانی مافی الضمیر کی ادائی سے قاصر ہے۔ فیض ان شعری بحثوں سے بخوبی واقف تھے۔ وہ اپنی شعری لغت پر ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔ وہ جانتے تھے کہ اردو شعری روایت کے اندر رہتے ہوئے فلسفیانہ اور لطیف ترین احساسات قلم بند کیے جا سکتے ہیں۔ فیضؔ نے یہ معرکہ ترسیل اور ابلاغ کی صورت پر یقین رکھتے ہوئے سر کیا۔ جب کہ فیضؔ کے شعری اسلوب کو خطرناک حد تک شیریں قرار دینے والوں نے فیضؔ کے مقابلے میں Contemporaneity)سے عاری تجرباتی کاوشیں پیش کیں جو مستجاب نہ ہو سکیں۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں یہی کاوشیں فیضؔ کے رنگ کا اثر زائل کر سکیں لیکن فی الوقت فیض ؔ کے ارد گرد ہونے والی تمام بغاوتوں کی اپیل خاصی محدود ہے۔ یہ خاص طو رپر بعض حضرات کے اس دعویٰ کے بطلان کے بعد کہ روایتی زبان دریا بُرد کر دی جائے اور ایک نئی ریاضیاتی زبان وضع کی جائے۔
فیض نے اردو کی شعری روایت کے خلاف جو معرکہ سر کیا ہے وہ ان حضرات سے بھی توجہ اور داد چاہتا ہے جو ان کے سیاسی فکر سے اتفاق رائے نہیں کرتے۔ صرف اسی طرح فیضؔ کی اُس سائنسی بصیرت کا اعتراف ہو سکے گا جس کا مقصد اردو زبان کی شعری روایت کا دفاع تھا۔ فیضؔ کی شعری لغت کا جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ ہم خالصتاً جاگیرداری دور میں سانس لے رہے ہیں۔ جب شوکت الفاظ اور مرصّع زبان کی بنیاد پر تلخ حقائق کی پردہ داری مقصود ہوا کرتی تھی، شعرا اس نوع کی زبان کا استعمال محض اس لیے کیا کرتے تھے کہ حکمران طبقے کی تواضع ہیئت پرستی اور صنائع بدائع کے ذریعے کی جا سکے۔ فیضؔ نے اس دفاعی میکانزم سے نظریاتی جارحیت کا کام لیا اور وہ کامیاب رہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ فیضؔ نے کلاسیکی لغت سے استفادہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو پیش نظر رکھا کہ ان کی نوجوانی اور جوانی کے دور کے برصغیر کی سماج کو Baseیعنی Contentمان لیا جائے، اس زمانے میں تبدیلی و تغیر کی ساری کاوشیں قوم پرستانہ سیاست ، مزدور تحریکیں اور بین الاقوامیت کا احساس ، ایک نوع کے مواد (Content)کو مناسب ہیئت (Form)دینے کی کوششیں ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ فیض کی شاعری میں انقلابی خیالات کے لیے بھی بسا اوقات مذہبی Connotationکی لغت استعمال ہوتی ہوئی نظر آتی ہے، شاید یہ کوئی شعوری انتخابیت کا معاملہ ہو۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ فیض اپنی شاعری کا جال دور تک اور غیر مبہم طو رپر پھینکنا چاہتے تھے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تُو
غُرورِ حُسن سراپا نیاز ہو تیرا
طویل راتوں میں تُو بھی قرار کو ترسے
تری نگاہ کسی غم گُسار کو ترسے
خزاں رسیدہ تمنّا بہار کو ترسے
کوئی جبیں نہ ترے سنگِ آستاں پہ جُھکے
''نقشِ فریادی''
اس بند میں خدا، جبیں اور سنگِ آستاں پر غور کیجیے۔ فیضؔ معروف مذہبی تلازموں سے خالصتاً رومانی فضا پیدا کر رہے ہیں۔ کچھ اور مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
ہر حقیقت مجاز ہو جائے
کافروں کی نماز ہو جائے
عشق دِل میں رہے تو رُسوا ہو
لب پہ آئے تو راز ہو جائے
………
کنارِ رحمتِ حق میں اُسے سلاتی ہے
سکوتِ شب میں فرشتوں کی مرثیہ خوانی
طواف کرنے کو صبح بہار آتی ہے
صبا چڑھانے کو جنت کے پھول لاتی ہے
''نقشِ فریادی''
مطلق الحکم ہے شیرازۂ اسباب ابھی
ساغرِ ناب میں آنسو بھی ڈھلک جاتے ہیں
لغزشِ پا میں ہے پابندی آداب ابھی
………
خوشا نظارۂ رُخسارِ یار کی ساعت
خوشا قرارِ دلِ بے قرار کا موسم
حدیثِ بادہ و ساقی نہیں تو کس مصرف
خرامِ ابرِ سرِ کوہسار کا موسم
………
ہمارے دم سے ہے کُوے جنوں میں اب بھی خجل
عبائے شیخ و قبائے امیر و تاجِ شہی
ہمیں سے سُنتِ منصور و قیس زندہ ہے
ہمیں سے باقی ہے گُل دامنی و کج کُلہی
''دستِ صبا''
بولو کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو
''زِندان نامہ''
مندرجہ بالا سطروں کی انتہائی روایتی لُغت حد درجہ انقلابی مفاہیم کی حامل ہے، اور یہی فیضؔ کا وصفِ خاص ہے۔ نظم بہ عنوان ''پیکنگ'' ملاحظہ ہو:
یوں گُماں ہوتا ہے بازو ہیں مرے ساٹھ کروڑ
اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے
دِل مرا کوہ و دمن، دشت و چمن کی حد ہے

میرے کیسے میں ہے راتوں کا سیہ فام جلال
میرے ہاتھوں میں ہے صبحوں کی عنانِ گُلگوں
میرے آغوش میں پلتی ہے خدائی ساری
میرے مقدّر میں ہے معجزہ کُن فَیَکُوں
''دست ِ تہِ سنگ''
فیض آخری سطر تک اس طرح آتے ہیں کہ ''معجزہ کُن فَیکُون'' کی ترکیب تک پہنچتے ہیں۔ فیضؔ نے ایک خالصتاً مذہبی تلازمہ کو کچھ سے کچھ بنا دیا ہے۔ فیضؔ کی نظم ''شورشِ زنجیر بسم اللہ'' ملاحظہ کریں یا ''آج بازار میں پابجولاں چلو'' دونوں نظموں میں اسلامی کلچر میں سانس لیتے ہوئے تلازموں کو کچھ اس طرح برتا گیا ہے کہ روایتی شعری ڈِکشن کی ممکنہ طاقت فیضؔ کے قلم میں سمٹ آئی ہے۔
ناگہاں آج مرے تارِ نظر سے کٹ کر
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر
''دستِ تہِ سنگ''
پھر ''زنداں زنداں شورِ انا الحق، محفل محفل قلقلِ مَے'' جیسی سطر پر رُکیے اور فیضؔ کے یہاں روایتی رس کی چاشنی محسوس کیجیے۔ یہ مثالیں مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر ہیں۔ ظاہر ہے کہ فیضؔ کے کلام کی شیرینی کو بمنزلہ کمزوری کے قرار دیا گیا۔ فیضؔ پر روایتی زبان کی پھبتی زیادہ اہمیت اختیار نہ کرتی اگر ان کے ایک ہمعصر ن۔م۔راشدؔ نے فیضؔ کی روایت کے ساتھ''مرنجان مرنجی'' کو ہدف ِ تنقید نہ بنایا ہوتا۔ فیضؔحلقۂ اربابِ ذوق کی بوطیقا سے مُزاحم نہ ہوتے تو یہ مسئلہ شاید زیادہ شدت اختیار نہ کرتا، لیکن جو کچھ بھی ہوا وہ بڑا ضروری ہے۔ بریخت (Brecht)اور لیوکاچ(Lukacs)کے مابین زبان کا اختلاف راشدؔ اور فیضؔ کے مابین تنازُع سے ملتا جلتا ہے۔ بس ایک بات مشترک ہے کہ لیو کاچ اور راشدؔ اپنے ہمعصر حریفوں کے بارے میں کچھ زیادہ ہی کلبی (Cynic) ہیں، لیکن دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
فیض کا بنیادی کمال یہ ہے کہ انھوں نے اکہرے مفاہیم کے تلازموں کو نئے تصورات دیے۔ روایتی تلازمے (Allegories)اور استعارے صرف اسی فن کار کے یہاں تہ دار ہو پاتے ہیں جو قدیم اور جدید کے خانوں میں منقسم نہ ہو پایا ہو۔ وہ اپنے جدید میں تمام ترصحت مند قدیم کا دلدادہ ہو اور اپنے قدیم میں تمام تر ممکنہ جدید کا وکیل ہو۔ فیضؔ نے ارنسٹ فشر(Ernst Fischer) کی طرح اپنی شعری لغت کو اپنے وقت کی نظریاتی حدود سے ماوریٰ کر لیا ہے۔ فیضؔ کی شاعری اپنے عہد کے ایک طاقت ور فکر کی عکاس ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ آزادی کے بعد شاعری میں وہ بہ تدریج زیادہ سیاسی لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے ملتے ہیں، جس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ آزادی اُن کے لیے آزادی موہوم نکلی۔ ''یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر'' اور پھرپے در پے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں جنھوں نے آزادی اور اس کی راہ میں رکاوٹوں کو کچھ اس طرح طشت ازبام کیا ہے کہ اُن کے یہاں وطن اور محبوب کے درمیان فرق ہی مٹ گیا اور ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے فیضؔ نے یہ تعریف اپنی شعری زبان کے بیان میں کی ہے۔
خود فیضؔ کی شعری زبان کے تیور میں ''شامِ شہر یاراں'' کے ساتھ ساتھ تبدیلی نمایاں نظر آتی ہے اور جوں جوں ہم آگے بڑھتے ہیں، فیضؔ کے یہاں جمال کے بجائے جلال کا رنگ نمایاں ہوتا نظر آتا ہے۔ زبان کم کلاسیکی ہوتی چلی جاتی ہے، البتہ بعض جگہ تلمیحاتی رنگ مستثنیات میں سے ہے کہ ارض فلسطین اور لبنان کے المیے حد درجہ روح فرسا ہونے کے باعث جلالی رنگ پیدا کر دیتے ہیں۔ اس معجزہ کا آغاز اقبال کے اس مندرجہ ذیل شعر سے ہوتا ہے۔
گُماں مبرکہ بپایاں رسید کارِ مغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است
اس مجموعہ میں شامل نظم''میرے درد کو جوزباں ملے'' اس طرح شروع ہوتی ہے:
مرا درد نغمۂ بے صبا
مری ذات ذرۂ بے نشاں
مرے درد کو جو زباں ملے
مجھے اپنا نام و نشاں ملے
مری ذات کا جو نشاں ملے
مجھے رازِ نظم جہاں ملے
جو مجھے یہ رازِ نہاں ملے
مری خامشی کو بیاں ملے
مجھے کائنات کی سروری
مجھے دولت دو جہاں ملے
اسی مجموعہ (شامِ شہر یاراں) کی غزل کا ایک شعرہے:
وہ بُتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال روزِ جزا گیا
اس شعر میں ''خوفِ خدا'' اور ''روزِ جزا'' کے بظاہر سادہ اور اکہرے مفاہیم کی تراکیب سے کس درجہ مختلف کام لیا گیا ہے۔
''مرثیۂ امام'' میں فیضؔ اپنے فکر کی چھاپ کا اعلان کچھ اس طرح کرتے ہیں:
طالب ہیں اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں صداقت کے پرستار
انصاف کے ، نیکی کے ، مروّت کے طرف دار
ظالم کے مخالف ہیں تو بے کَس کے مدد گار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے
جو جبر کا مُنکر نہیں وہ مُنکرِ دِیں ہے
''امیدِ سحر کی بات سنو'' بھی زیادہ گہرے Structureکی طرف سفر ہے:
اب اِلتفاتِ نگارِ سحر کی بات سُنو
سَحر کی بات، امیدِ سحر کی بات سنو
اور ''مرے دل مرے مسافر'' جس کا انتساب یاسر عرفات کے نام ہے، جلا وطنی کے زمانہ کی وطنیہ شاعری سے بھری ہوئی ہے۔ یہ مجموعۂ کلام ۱۹۷۸ء کی پہلی نظم'' مرے دل مرے مسافر'' سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں ہجر کی کیفیات ہیں اور وصل کی سرمستیاں ختم پر ہیں، یادوں کے لائو لشکر ہیں، مخدوم کی یاد ہو یا قفقاز کے شاعر قاسم قلی کی نظموں کے ترجمے، اسی خیال کی بازگشت ہیں کہ:
ہر اک دور میں، ہر زمانے میں ہم
زہر پیتے رہے، گیت گاتے رہے
بظاہر یہ پیچھے کی جانب دیکھنے کی کوشش ہے لیکن اُس دور کی شاعری میں جلال کا عنصر نمایاں ہو چکا ہے۔ بیرو ت کا قیام بذاتِ خود ایک بڑا محرک ہے۔ ''لائو تو قتل نامہ مرا'' اور ''تین آوازیں'' بظاہر سادہ ڈِکشن کی طرف قدم ہے لیکن ان نظموں میں بھی اور خاص طو رپر ''تین آوازیں'' کا آخری حصہ ''ندائے غیب'' کی مندرجہ ذیل سطریں گواہ ہیں کہ فیضؔ خالصتاً انقلابی کوشش یا مقصد کے لیے مذہبی Connotationکی لغت بہت چابک دستی اور خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے کلام کو تہ دار بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں:
ہر اک اُولی الامر کو صدا دو
کہ اپنی فردِ عمل سنبھالے
اُٹھے گا جب جمع سرفروشاں
پڑیں گے دار و رسن کے لالے
کوئی نہ ہو گا کہ جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہو گی
یہیں عذاب و ثواب ہو گا
یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ روزِ حساب ہو گا
فیضؔ کے جلال اور علی سردار جعفری کے تصورِ جمال میں مماثلت تلاش کرنے کا رجحان نظر آنے لگا ہے۔ ان دونوں ہمعصر شعرا کے تصوراتِ جلال میں خاصا فرق ہے۔ فیضؔ کے لہجے کا رویہ خالصتاً سیاسی نہیں ہے۔ ''دو نظمیں فلسطین کے لیے'' میں فیضؔ کا تصورِ جلال واضح ہو جاتا ہے۔ ''غبارِ ایام'' فیضؔ کے آخری دنوں کا کلام ہے اور ۱۹۸۳ء کے اس شعر پر ختم ہوتا ہے:
یا خوف سے درگزریں یا جاں سے گزر جائیں
مرنا ہے کہ جینا ہے اک بات ٹھہر جائے
فیضؔ غالباً واضح انداز میں وہ سب کچھ کہہ گئے جو شاعری کی زبان میں کہا جا سکتا ہے۔ شاعری کو فیضؔ نے اور فیضؔ کو شاعری نے جس طرح برتا ہے وہ ہماری قومی زندگی کا ایک اہم باب ہے۔ ایک ایسے دور میں جب ادب اور فنونِ لطیفہ کے جملہ شعبوں نے وہ سارے کام اپنے ذمے لے لیے ہیں جو دوسرے معاشروں میں تمام شعبوں کی موجودگی میں اپنے اپنے فریم ورک میں سر انجام دیے جاتے ہیں۔ یہ مشکل کام بہرطور بڑی خوبصورتی کے ساتھ انجام دیا جا رہا ہے۔ فیضؔ نے اس ذمہ داری کو جس خوش اسلوبی سے نبھایا ہے وہ نئی نسل کے ذہنوں میں اس درجہ گھر کر گئی ہے کہ اب اسلوب اور ہیئت کی بغاوتیں شاعری کی اصل غایت یعنی مواد کی بغاوتیں نہیں رہ پائیں۔ فیضؔ اپنے مقلدین اور باغیوں کے لیے صرف اس وجہ سے بھی محترم رہیں گے کہ اُن کے شعری اسلوب سے بغاوت اب خاصا مشکل کام ہو چلا ہے۔٭٭٭٭