معروضات

سوچنا یہ ہے کہ…
فروری غالب جیسے اُردو کے سرپرست سے جدائی کا مہینہ ہے۔ مگر اس برس ان دنوں ہمارے عہد کے اُردو کی سرپرستی کرنے والے محمد علی صدیقی اور رشید نثار جیسے بڑے لوگ بھی دُور چلے گئے۔محمد علی صدیقی اور رشید نثار کی خدمات اُردو اور ادارہ فروغِ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) کے لیے گراں قدر ہیں۔ ایسے لوگوں کا نام کسی تحریک کے ساتھ جُڑ جانے سے اُس تحریک کو بہت تقویت ملتی ہے اور آئندہ آنے والے ایک حوصلے سے اُس مشن کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُردو زبان صدیوں کا سفر طے کرتے ہوئے لشکریوں کی زبان سے عوام کی زبان بنی اور اب جمہوریت کی زبان ہے کیونکہ وطنِ عزیز میں کوئی فلاحی پیغام ہو ، کمرشل پیغام ہو یا سیاسی پیغام ہو جب تک اُردو میں نہ دیا جائے زیادہ مؤثر نہیں ہوتا۔ اس لیے اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی بڑی دانش کی ضرورت نہیں کہ اُردو زبان دوسری تمام بڑی زبانوں کی طرح ادب ، علم اور جمہوریت کی زبان بن چکی ہے۔ حقیقت کو تسلیم کرنا نہ صرف عقل مندی ہوتی ہے بلکہ فائدے کی بات بھی ہوتی ہے۔ اُردو سے ہم غیر محسوس انداز میں بہت سے فائدے اٹھا رہے ہیں لیکن تسلیم کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اُردو زبان کے حوالے سے کوئی سروے یا رپورٹ یہ بات ثابت نہیں کرتی کہ اس کے حلقہ اثر میں کمی واقع ہوئی ہو بلکہ کچھ حلقوں کی طرف سے تمام تر گھبراہٹ اور ہچکچاہٹ کے باوجود اردو زبان کا اثر دن بدن پھیلتا ہی جا رہا ہے، جس میں ہماری انفرادی اور اجتماعی کوششوں سے زیادہ اردو زبان کی اپنی باطنی قوت کا تعلق ہے۔اردو زبان کی اس باطنی قوت کے ساتھ اگر ہماری مکمل نیک نیتی بھی شامل ہو جائے تو اس کے ثمرات سے ہم اپنے ارد گرد پھیلے بہت سے سماجی اور سیاسی خطرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔سوچنا یہ ہے کہ فیصلہ ہم کریں گے یا وقت کرے گا۔
سید سردار احمد پیرزادہ