اردو زبان : پندرہ سال کب ختم ہوں گے
محمد رفیع ازہر
قیامِ پاکستان کے بعد سے اردو زبان کے احیا ء کے لیے جو کوششیں کی گئیں ، جو قوانین بنائے گئے، جو پالیسیاں وضع ہوئیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے جو بھی طریق ہائے کار اپنائے گئے، وہ سب قابلِ تحسین سہی لیکن جو کامیابیاں ملنی چاہیے تھیں، وہ ابھی تک سوالیہ نشان ہیں۔ اردو کے بارے میں فراق گورکھ پوری نے کہا تھا: ’’سب کچھ کھو کر بھی ’سٹ کر بھی‘ مسلمانوں نے اپنے خون سے اردو کی آبیاری کی۔‘‘ [۱] سوچنے ، سمجھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس زبان نے مسلمانانِ برصغیر کو شناخت دی، انھیں متحد کرکے مطالبۂ پاکستان کی راہ سجھا ئی اور بالآخر پاکستان قائم ہوا۔۔۔ کیا وہ زبان ملک و قوم کی ترقی کی ضامن نہیں ہو سکتی؟ جس زبان نے بیسویں صدی میں دنیا کے نقشے پر پاکستان کے وجود کو تسلیم کروالیا ۔۔۔ کیا وہ زبان اکیسویں صدی کے پاکستان کو استحکام نہیں دے سکتی؟ قیامِ پاکستان سے آج تک کیا انگریزی نے پاکستان کو دنیا میں وہ مقام دلا دیا جس کا یہ حق دار تھا ؟ ہر گز نہیں ،بلکہ انگریزی ذریعۂ تعلیم کے تربیت یافتہ نوجوان زیادہ تر انگریزوں ہی کے خیر خواہ نکلے او ر جن کی زبان میں وہ جدید علوم سیکھتے رہے، ان میں سے اکثر وہیں جا بسے۔ اس حقیقت کو ’’اوریا مقبول جان‘‘ نے خوب بے نقاب کیا ہے:۔
’’
اس ساری منافقت کا ایک اور سانحہ یہ ہے کہ اب ہر گلی محلے میں ایسے اسکول اور کالج کھل گئے ہیں جہاں پر میٹرک سے ہی امتحان، یورپ کی یونیورسٹیاں لیتی ہیں اور پھر یہ پاس ہونے والے طلبہ صرف مغرب میں تعلیم حاصل کرنے اور وہیں آباد ہوجانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اس وقت ہمارے لاکھوں ڈ اکٹر ، انجینئر، پروفیسر اور سائنس دان مغرب جا بسے ہیں۔ کیوں کہ ہم نے انھیں تیار ہی اسی معاشرے کے لیے کیا تھا۔‘‘ [۲]
ہمارے ہاں، بارہا یہ باور کر ایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ذہین لوگوں کی ہرگز کمی نہیں ۔ یہاں ہر سال بے شمار ہنر مند،ڈاکٹر، انجینئر،پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور سائنس دان تیار ہو رہے ہیں لیکن کیا کیجیے کہ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی : ’’قوم کی ذہانت اور صلاحیتوں کے قطرے انگریزی زبان کے سمندر میں گر کر معدوم ہورہے ہیں۔‘‘ [۳] کاش ہمارے راہ نما، قومی زبان کی حقیقت جان کر، جدید اور سائنسی علوم سیکھنے کے لیے اردو زبان ہی لازمی قرار دیتے تو آج جدید علوم کے ماہر پاکستانی اپنے ملک وملت کی ترقی کا ضامن ہوتے اور وطنِ عزیز کو مختلف بحرانوں کی نذر ہرگز نہ ہونے دیتے۔ اردو ذریعۂ تعلیم کے تربیت یافتہ ڈاکٹر، انجینئر اور سائنس دان دو خصوصیات کے حامل تو ضرور ہوتے۔ اوّل؛ ان میں حب الوطنی کا جذبہ بدرجہ اولیٰ ہوتا اور وہ خدمات کے لیے اپنے ہی ملک کو ترجیح دیتے۔۔۔ ان میں بھی اگر چند لوگ کسی لالچ میں آکر ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتے تو ’’اردو‘‘ ان کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر انھیں روک لیتی اور انھیں اپنی صلاحیتیں اور خدمات اسی ملک میں صرف کرنے پر مجبور کر دیتی کہ جس ملک کی زبان میں انھوں نے سائنسی علوم سیکھے تھے۔ اس طرح ان کی تمام تر صلاحیتیں ملک و ملت میں صرف ہوتیں اور یہ ملک دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہو جاتا لیکن اس گہرے شعور اور حقیقت کا ادراک پاکستانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو کیوں کر ہو؟ تعجب ہے کہ ہمارے پالیسی ساز، مغرب کے طرزِفکرو عمل کا ذرا سا بھی شعور نہیں رکھتے؟ اوریا مقبول جان لکھتے ہیں :
’’
دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک نے انگریزی کو ذریعۂ تعلیم نہیں بنایا۔ اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ کسی غیر کی زبان میں علم کی تکمیل ہو سکتی ہے اور نہ ہی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھ سکتی ہیں۔‘‘ [۴]
آج کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو:۔
’’
یورپ کے شمال میں آئس لینڈ سے لے کر ہالینڈ ، ناروے، جرمنی، فرانس، آسٹریا اور جنوب میں یوگوسلاویہ اور ترکی تک سب کے سب ملک ایسے ہیں جن میں نرسری سے لے کر ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی تک تمام کی تمام تعلیم ان کی قومی زبان میں دی جاتی ہے ... وہ ملک جن میں کسی دوسری زبان میں علم پڑھایا جاتا ہے وہ یا تو افریقہ کے پس ماندہ ملک ہیں یا پھر برصغیر پاک و ہند اور اس سے ملحقہ ممالک۔‘‘ [۵]
موجود ہ طبقاتی تناظر میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جس طرح برصغیر میں انگریزوں نے اردو زبان سے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے فورٹ ولیم کالج قائم کیا تھا اور آگے چل کر اردو ہندی تنازعہ کا ڈراما رچا کر ’’لارڈ میکالے‘‘ نے ایک حکم نامے کے ذریعے دفتروں اور عدالتوں میں’’ انگریزی ‘‘ رائج کرکے اردو اور اردو سے محبت کرنے والوں کو نیچ سطح پر رکھنے کی طرح ڈالی ، قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اس روش کو جاری رکھا گیا ہے۔ قیامِ پاکستان سے اب تک ’’اردو زبان‘‘ کو ایک ثانوی درجہ دیے رکھنا اور اسے پاکستان کی ترقی کی ضامن ٹھہرانے کی بجائے، ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے اور سمجھاتے رہنا، کوئی مخفی سازش نہیں بلکہ اعلانیہ بغاوت کے مترادف ہے۔اس حوالے سے حنیف رامے کا کہنا بالکل بجا ہے :۔
’’
اگر ہم نے پاکستان کے مطالبے کو اس کے تاریخی پس منظر میں رکھ کر اور پورے برصغیر کے مسلمانوں کی متحدہ تحریک کے تناظر میں دیکھنا ہے تو پھر ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہم اگر اردو کے مطالبے سے روگردانی کرتے ہیں تو پھر تحریکِ پاکستان کی نفی کرتے ہیں۔‘‘ [۶]
وائے ناکامی کہ اب سرسیداحمد خاں کی قیادت اور بابائے اردو مولوی عبد الحق کی لیاقت کہاں سے لائی جائے؟ اردو کی ترقی و اصلاح میں جن ’ادبا اسلاف‘ نے کوششیں کیں آج اگرپاکستان کی نئی نسل ہم سے یہ سوال کرتی ہے کہ کہاں ہے وہ ’’اردو‘‘ جو ہماری تہذیب وثقافت کی نمائندہ ہے؟ ۔۔۔جو ہماری روایات کا تسلسل اور ہماری اقدار کی ضامن ہے؟ ۔۔۔کہاں ہے وہ ’’اردو‘‘ جو سائنسی موشگافیوں کی نقیب ، ہمارے دفترو ں کی زینت اور ہمارے مقتدر اداروں کی آبروہے؟۔۔۔ کیا ہم انھیں چند بڑی جامعات میں رائج ’’ایم اے اردو‘‘ کا نصاب دکھا کر چپ کرا سکتے ہیں؟۔۔۔ یا پھر ’’دفتری اردو‘‘ کے لیے کیے گئے تمام اقدامات بشمول وضعِ اصطلاحات اور انگریزی کی سائنسی ، معاشی ، سماجی اور اقتصادی اصطلاحات کے اردو میں ڈھالے گئے محفوظ و مقفل ذخیروں کا کوئی در کھول کر انھیں مطمئن کردیا جائے؟۔۔۔ یہ سوالات آج کی منتخب جمہوری اور مقتدر ہستیوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ ماہرِ لسانیات شفیع منصور جو پچیس سال تک جی ایچ کیوکی ایک کمیٹی کے سیکرٹری رہے جس کا کام ملٹری کی سائنسی اصطلاحات کو اردو میں منتقل کرنا تھا ،ان کا کہنا مبنی بر حقیقت ہے:۔
’’
اردو کی حیثیت اور اہمیت اس وقت تک واضح نہیں ہو گی جب تک اسے صوبائی اور مرکزی سطح پر دفتروں میں رائج نہیں کیا جاتا ۔ جب تک مرکز میں انگریزی کی اجارہ داری ختم نہیں ہو گی اردو کی تدریسی حیثیت کا تعین بھی نہیں ہو سکے گا۔ ہمیں دراصل یہ تحریک چلانی چاہیے کہ مرکزی حکومت اردو کو اس کا مقام دے اور اسے سرکاری دفتری زبان بنائے۔‘‘ [۷]
مذکورہ اقتباس کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تونفاذِ اردو کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری حکمرانوں کے سر جاتی ہے۔ آل احمد سرور نے ایک مذاکرے میں بڑی عمدہ با ت کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا:’’زبان و ادب محض سرکاری علانوں سے ترقی نہیں کرتے، سرکاری اعلانوں سے مدد ملتی ہے۔‘‘ [۸] اسی طرح احمد ندیم قاسمی ایک مذاکرے میں یوں گویا ہوئے : ’’زبان اور ادب میں جبراً اور تسلط کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ [۹] لیکن یہاں ادیبوں اور دانش وروں کی سنتا کون ہے! مسلمان حکمرانوں کے وہ اعلیٰ اوصاف اب کیسے پیدا ہوں کہ جب وہ اپنے اہم فیصلوں سے قبل ملک کے نامور دانش وروں، عالموں ،حکیموں اور ادیبوں سے مشاورت کیا کرتے تھے؟
چناں چہ گذشتہ سال تعلیمی پالیسی کا قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ وفاق اور صوبہ پنجاب کے تمام سرکاری اسکولوں میں جماعت اوّل تا دہم تک کے نصابات میں شامل معاشرتی علوم کو ایک حکم نامے کے ذریعے اردو سے انگریزی میڈیم کر دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایوب خان کے دور میں جب ایک حکم نامے کے ذریعے صوبہ سندھ میں ’’اردو زبان‘‘ نافذ کی گئی تو ’’مورو‘‘ میں اس کے خلاف باقاعدہ ایک تحریک کا آغاز ہوا اور بعد ازاں حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ [۱۰] اُس وقت پاکستان کی قومی زبان ’’اردو‘‘ کے خلاف ایسا محاذ؟۔۔۔ یقینااس کے پیچھے سازشی عناصر ہی ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس آج وفاق اور پنجاب میں جب ایک غیر ملکی زبان ’’انگریزی ‘‘نے قومی زبان ’’اردو‘‘ کی جگہ لے لی تو اس کے خلاف ذرا سا ارتعاش بھی نہ آیا۔
مذکورہ ’’اردو‘‘ دشمن رویے کے بعد راقم کچھ عرصہ تو اسی خام خیالی میں رہا کہ ’’اردو‘‘ کے معروف اور ذمہ دار حلقوں میں اس اقدام کے خلاف کوئی باضابطہ مزاحمت کی جائے گی! لیکن شاید سبھوں نے ایک غیر ملکی اور مغربی کلچر کی نمائندہ زبان کو وقتی ضرورت اور قومی ترقی کی ضامن سمجھ کر چپ سادھ لی تاہم یہ خاموشی محض رضامندی کی دلیل نہیں بلکہ پاکستانی قوم کی بے حسی کی علامت بھی ہے۔ بہ قول پروفیسر فتح محمد ملک: ’’باہر سے آئی ہوئی (استعماری یادگار) انگریزی تو ہمیں اپنی دوست نظر آتی ہے مگر علاقائی زبانوں اور تہذیبوں کو ہم اپنا دشمن قرار دے کر انھیں مٹانے کے بہانے خود کو مٹانے کے در پے ہیں۔‘‘ [۱۱]
یہ جاننا نہایت اہم ہے کہ کسی بھی خطے کی زبان کو اس کی تہذیب کی نمائندہ اور ثقافت کی آئینہ دار اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کے رائج و مقبول رسم ورواج اور مذہبی و علاقائی تہواروں کے لیے جو الفاظ بولے جاتے ہیں اورجو اصطلاحات زبان زدِ عام ہوتی ہیں، ان کے ساتھ بہت سے تاریخی اور جغرافیائی حقائق بھی وابستہ ہوتے ہیں۔ بلکہ وہاں بولے جانے والے ہر ہر لفظ کے پیچھے بہت سی کہانیاں زیرِ گردش رہتی ہیں ۔ اس لیے ہر لفظ یا اصطلاح بہ وقتِ ادا،ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک زبان کو دوسری زبان میں من وعن ڈھالا نہیں جا سکتا۔ ماہرینِ لسانیات نے ترجمہ کاری کو ایک مشکل کام قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر وزیرآغا نے ایک دفعہ اپنے انٹرویو میں کہا تھا:۔ ’’ہر زبان اپنے کلچر کی بہترین سفیر ہوتی ہے۔ اگر کسی زبان کی کارکردگی کم ہو جائے تو اس سے منسلک کلچر کے نفاذ اور پھیلاؤ میں بھی رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ [۱۲ [
یہاں تہذیب ، ثقافت اور کلچر جیسے لفظوں کا مفہوم اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کیوں کہ بہ ظاہر تو یہ ہم معنی اور ایک دوسرے کے مترادف معلوم ہوتے ہیں لیکن ایسا نہیں۔ انھیں سب سے آسان لفظوں میں حکیم محمد سعید شہید نے واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’
تہذیب سے مراد شایستگیِ اطوار اور اخلاقی اقدار ہیں ۔ جب کہ ثقافت کسی گروہ کے علوم و فنون اور تکنیکی پیش رفت کو قرار دیا جاتا ہے اور ان دونوں جہتوں کے امتزاج کو کلچر سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘ [۱۳]
لفظ ’’کلچر ‘‘کی مزید تفہیم کے لیے ڈاکٹر جمیل جالبی کے درج ذیل اقتباس کو پیشِ نظر رکھنا بھی ضروری ہے:۔
’’
کلچر ایک ایسا لفظ ہے جو زندگی کی ساری سرگرمیوں کا ، خواہ وہ ذہنی ہوں یا مادی ، خارجی ہوں یا داخلی ، احاطہ کر لیتا ہے...جس طرح دورانِ خون ہماری زندگی کی علامت ہے اسی طرح کلچر معاشرے کے لیے دورانِ خون کا درجہ رکھتا ہے...کلچر کے ذیل میں انسانی سرگرمیوں کے سارے بنیادی ادارے مثلاً مذہب ، سیاست ، معیشت ، فنون، سائنس ، تعلیم، زبان وغیرہ آجاتے ہیں... کلچر اس ذہنی ، مادی ، خارجی طرزِ عمل کے اظہار کا نام ہے جو باضابطگی کے ساتھ معاشرے کے افراد میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے... طرزِ عمل کی یہ باضابطگی قومی سطح پر جس معاشرے میں جتنی زیادہ ہوگی، تہذیبی اعتبار سے وہ معاشرہ اسی قدر متحد ہوگا۔‘‘ [۱۴]
من حیث القوم آج ہم زبان کے معاملے میں جن مسائل کا شکار ہیں ، سولہویں صدی میں مغربی دنیا بھی اسی طرح کے مسائل سے دو چار تھی۔ وُہی وقت ان کے پالیسی ساز ، تعلیمی ماہرین کے فیصلہ کن اقدام کا تھا۔ چناں چہ عرب مسلمانوں کی علمی برتری کے باوجوداور تمام علوم وفنون عربی میں ہونے کے باوصف، انھوں نے اپنا ذریعۂ تعلیم ’’لاطینی زبان‘‘ کو قرار دیا جو ان کی اس وقت کی قومی زبان تھی۔ بعدازاں انگریزوں نے انگریز ی زبان کو وہ اعتبار دیا کہ جس پر وہ فخر کرنے میں حق بہ جانب ہیں۔ اس حوالے سے شاداب احسانی کی تحقیق قابلِ غور ہے:۔
’’
چھٹی صدی عیسوی تا تیرھویں صدی عیسوی مسلمانوں کے عروج کے اس دور میں عربی زبان و ادب کی دھوم تھی اور اس دھوم کا پس منظر مسلمان سائنس دان تھے یہی وہ زمانہ تھا جب لاطینی کے حوالے سے یہ سوال پیدا ہوا ہوگا کہ سائنس کے طلبہ کی لاطینی تدریس کس طرح انجام دی جائے کہ جس سے اپنا تشخص اور قومی وقار بحال ہو ۔ قابلِ قدر تھے لاطینی اساتذہ جنھوں نے لاطینی زبان کو سائنس کی کلیدی زبان بنا دیا اٹھارویں صدی ہی میں یورپ بالخصوص برطانیہ سائنسی و مادی آسائشوں کے نتیجے میں جدیدیت سے آشنا ہوا تھا اور پورا یورپ اس بات پر متفق ہو چلا تھا کہ بہترین تعلیم اپنی مادری یا قومی زبان ہی میں ممکن ہے۔ مذکورہ تمام امور کی روشنی میں لاطینی زبان کی مرکزیت کو دھچکا پہنچا اور پھر یہی سوال کہ سائنس کے طلبہ کی انگریزی تدریس اپنے منطقی انجام کو پہنچی ، یعنی انگریز اساتذہ ایک ایسی نسل تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے جسے سائنس کے میدان میں تاحال راہ نما کا درجہ حاصل ہے۔‘‘[۱۵ [
مذکورہ اقتباس سے یہ تاثر قائم ہوجاتا ہے کہ مغرب کے پالیسی ساز، تعلیمی ماہرین بہت دور اندیش تھے۔ درحقیقت یہ دور اندیشی اور عقل و دانش بھی انھوں نے عرب مسلمانوں سے سیکھی تھی۔ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے یونان اور روم کے تمام علمی سرمائے کو عربی زبان میں منتقل کردیا تھا،لہٰذا مغربی ماہرین نے مسلمانوں کے اسی طرزِ عمل سے استفادہ کیا بلکہ تحقیق کے تمام معیارات اور مسودات کے تمام مآخذ بھی مسلمانوں سے حاصل کیے۔ نتیجتاً؛ مادری اور قومی زبان میں علم کی تحصیل سے مغربی دنیا کے بچوں میں فطری اور امکانی صلاحیتوں کی نشوونما ہونے لگی ۔۔۔خیالات کا ارتقا ہوتا گیا ۔۔۔ تخلیقی قوتیں اپنا اپنا راستہ خود بناتی رہیں۔۔۔اور بالآخر سائنسی ایجادات کا ظہور ہونے لگا۔ پاکستانی معاشرے کے لیے یہ بات شاید حیران کن ہو کہ یورپ کا پہلا سائنس دان ’’ راجر بیکن‘‘ بنیادی طور پر ایک مداری تھا۔ [۱۶ [
اگر قیامِ پاکستان کے بعد ہی پاکستان کے تمام اسکولوں کا ذریعۂ تعلیم مادری اور قومی زبان کو قرار دے دیا جاتا۔۔۔ دفتری زبان اردو ہوتی۔۔۔ اور کاروباری زبان بھی اردو ہوتی تو پاکستان کے ’’مداری‘‘ بھی نہ صرف سائنس دان ہوتے بلکہ مختلف پیشوں سے وابستہ لوگ اعلیٰ درجے کے ماہر بنتے۔ مثلاً پاکستان کے نائی بہترین ڈاکٹر ہوتے۔۔۔ پاکستان کے جولاہے ، موچی ، درزی اور لوہار وغیرہ کا شمار دنیا کے عظیم ماہرین میں ہوتا۔۔۔ اور آج پاکستان بھی اقتصادی لحاظ سے چین اور جاپان کا ہم پلہ ہوتا!۔۔۔ لیکن شاید کسی سازش کے تحت پاکستانی قوم کے بہترین دماغوں کو بد ترین ناموں اور پیشوں سے منسوب کیے رکھا۔
مغرب نے سائنسی و مادی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ نکتہ بھی جان لیا تھا کہ اگر دنیا میں غالب آنا ہے تواپنی زبان اور کلچر کو ہر جگہ پھیلانا اور نافذ کرنا ہوگا لہٰذا یہ نکتہ مغرب کی پالیسی کا جزولاینفک قرار پایا۔ ۱۸۳۲ء میں ایک انگریز ماہرِتعلیم ’’الیگزینڈر ڈف‘‘ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اربابِ اختیار کو مخاطب کرتے ہوئے ایک مضمون ’’انگریزی زبان و ادب کا نیا دور۔۔۔ ہندوستان میں‘‘ لکھا اور انھیں اس اہم نکتے کی طرف متوجہ کیا۔ اس کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے جسے ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان نے اپنے ایک مضمون میں نقل کیا ہے :
’’
ہماری حکومت کے مفادات اور وقار کا تقاضایہی ہے کہ انگریزی زبان ہی کی ترویج و ترقی کی جائے... رومیوں نے جب کسی علاقے کو فتح کیا تو انھوں نے اپنے مفتوح علاقے کے لوگوں کو اپنی زبان سکھائی ... اور کچھ ایسی ہی کیفیت عربوں کی تھی ، جنھوں نے خلیفہ ولید کے زمانے میں فیصلہ کیا کہ ان کے زیرِ نگیں علاقوں میں قرآنی زبان ہی کو استعمال کیا جائے اور یوں ’عربی‘ دنیائے اسلام کی عالم گیر زبان بن گئی ... ہندوستان میں اکبر اعظم کے فرمان کے تحت جس زبان نے عروج پایا، وہ فارسی تھی... اکبر نے فارسی زبان کو نہ صرف کاروبارِ شاہی کی زبان بنا دیا بلکہ ادبیاتِ عالیہ کے لیے بھی یہی زبان قابلِ قبول گردانی گئی... جب تک کہ فارسی کے غلبے کو ختم نہیں کیا جاتا اور اس کی جگہ انگریزی زبان کو رائج نہیں کیا جاتا ... مغلوں کے اقتدار کے طلسم کو زائل نہیں کیا جا سکتا اور نہ رعایا کے دلوں کو ان کے نئے حاکموں کی جانب مائل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ [۱۷ [
قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سرسید احمد خاں اور ان کے رفقا ایسے مسلمان زعما نے انگریزوں کی اس سازش کو بہت جلد بھانپ لیا تھا۔ اس لیے انگریزی علوم کو بہت تیزی سے اردو زبان میں ڈھالا جانے لگا اور اس کے ساتھ ساتھ اردو کا رنگ روپ بھی نکھرتا گیا۔ تراجم کا یہ سلسلہ دہلی کالج، فورٹ ولیم کالج اور علی گڑھ تحریک سے ہوتا ہوا حیدر آباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ اردو زبان کی ترقی کے سبب ہی ہندوستان کے مسلمان ایک وحدت میں پروئے گئے اور بعد ازاں مطالبۂ پاکستان کے لیے آگے بڑھے۔ بہر حال پاکستان تو قائم ہو گیالیکن انگریزوں نے پاکستان پر اپنی زبان و کلچر کے اثرات ہر ممکن قائم رکھنے کی کوشش جاری رکھی۔
عصرِ حاضر کے وہ راہ نما جو مغرب کی تقلید کرنے پر بہ ضد ہیں اور ترقی کی آڑ میں پاکستانی قوم کو بھی ظاہری و باطنی طور پر مغربی بنانے پر مُصر ہیں ، ان کی خدمت میں صرف اتنا عرض ہے کہ آپ بہ صد شوق ان کی تقلید کیجیے لیکن خدارا! تقلید اور نقل میں فرق تو کر لیجیے۔ جس طرح مغرب نے اپنی قومی زبان ’’انگریزی‘‘ ہی کو اوڑھنا بچھونا بنا یا ہوا ہے، آپ اپنی قومی زبان ’’اردو‘‘ کو اوڑھنا بچھونا بنا لیجیے ۔ جس طرح انھوں نے عرب مسلمانوں سے علوم و فنون تو لے لیے مگر ان کی ثقافت کوہرگز نہ اپنایا۔ اسی طرح آپ صرف انگریزی علوم سیکھیے، ان کی ثقافت تو نہ اپنائیے۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے مسلمان قوم کو ’’پیرویِ مغرب‘‘ کا جو فلسفہ دیا تھا اس کا اصل مفہوم یہی بنتا ہے۔ اس کے برعکس آج ہر جگہ انگریزوں کی صرف نقل ہو رہی ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ نقل کے لیے عقل کا استعمال کہیں نہیں۔ آج پاکستان میں جو انگریزی بولی اور پڑھائی جا رہی ہے وہ دنیا کی تمام انگریزیوں سے مختلف ہے البتہ اسے ’’پاکستانی انگریزی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عطش درانی رقم طراز ہیں :
’’
بوم گارڈنر (۱۹۹۳ء) لکھتا ہے کہ پاکستان میں انگریزی اپنے لسانی خدوخال ، گرامر ، لفظ سازی ، لغوی ومعنوی تغیر، دخیل الفاظ وغیرہ کے حوالے سے بے حد مختلف ہو چکی ہے۔ یہ سب کچھ معیاری برطانوی یا شاہی انگریزی کے حوالے سے’اغلاط‘ کی صف میںآتا ہے۔‘‘ [۱۸ ]
بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان میں جو انگریزی وجود میں آچکی ہے، اس پر اردو اورعلاقائی زبانوں کے بہت زیادہ اثرات ثبت ہوئے ہیں۔ اردو کی بہت سی اصطلاحات جن کا انگریزی میں کوئی متبادل نہیں ، جوں کی توں انگریزی میں مستعمل ہو رہی ہیں۔ راقم کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ انگریزی میں سرکاری خطوط لکھتے وقت بعض اردو لفظوں کا نعم البدل انگریزی میں نہیں مل پاتا اور وہ مفہوم جسے اردو میں زیادہ بہتر طور پر ادا کیا جا سکتا ہے نیز دوسروں کو سمجھایا بھی جا سکتا ہے، انگریزی میں ڈھل کر اپنا اصل مفہوم کھو دیتا ہے۔ نتیجتاً؛ اردو کے وہ الفاظ ’بڑے حروف‘ کی شکل میں ویسے ہی لکھ دیے جاتے ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
سوچنے کا مقام ہے کہ جب پاکستان میں رائج انگریزی ، اب اردو کی محتاج ہو چکی ہے تو ایسی بے بس اور لاچار زبان کو ہم کب تک سینے سے لگائے رکھیں گے؟ ماہرین کے مطابق دنیا میں چھبیس اقسام کی انگریزی بولی جا رہی ہے۔ [۱۹ [ برطانیہ کی انگریزی اور ہے۔۔۔ امریکہ کی اور۔۔۔ آسٹریلیا کی اور۔۔۔ انڈیا کی اور۔۔۔ اور پاکستان کی انگریزی اور ہے۔ اگرچہ دنیا کے پینتیس ملکوں میں انگریزی موجود ہے مگر ہر جازبان دیگر است۔ [۲۰ [ ’’آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اپنی ’’کمپینیئن سیریز‘‘ میں ۱۹۹۲ء میںA Companion to English Language تیار کرائی تو اس میں پاکستانی انگریزی کو علیحدہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ [۲۱ [
بات ہورہی تھی ’’انگریزی‘‘ کی جو پے در پے تبدیلیوں کی وجہ سے اپنا کوئی مستقبل نہیں رکھتی۔ یہ تبدیلیاں ہر ملک کی اپنی اپنی علاقائی ، مذہبی ، ثقافتی اور تہذیبی ضرورتیں تھیں لیکن اب انٹر نیٹ اور سیل فون کی وجہ سے انگریزی زبان پر ایک ایسی افتاد آن پڑی ہے جس نے اس کا پورا ڈھانچا ہی ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب انگریزی کا وجود مزید خطرے میں پڑ گیا ہے۔
’’
انٹرنیٹ اور ای میل کی دنیا نے انگریزی کا جہان ہی تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ ابھی تو ملکہ کے وفا دار امریکی انگریزی کو رو رہے تھے ۔ ’ویبسٹر‘ نے اس کی علمی بنیادیں مضبوط کر دیں تو اسے انگریزی مان لیا گیا پھر تیسری دنیا کی انگریزی ! رفتہ رفتہ چھبیس مختلف انگریزیاں وجود میں آگئیں مگر اب جو افتاد پڑی ہے اس نے سب انگریزیوں کو ہضم کر لیا ہے اور یہ افتاد ہے ای میل اور انٹر نیٹ پر انگریزی الفاظ کے ہجوں میں تبدیلی۔‘‘ [۲۲ [
اس میں شک کی قطعاً گنجائش نہیں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت جب تک ان کی مادری اور قومی زبان میں نہ ہو، ان کی فطری صلاحیتیں اور تخلیقی قوتیں پروان نہیں چڑھتیں اور نہ ہی خیالات کا ارتقا ہوتا ہے۔ یہ بات محض اقوامِ متحدہ کے چارٹر ہی میں درج نہیں بلکہ تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی آموزش کا حق صرف ان کی مادری اور قومی زبان کو ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر رقم طراز ہیں :
’’
ماہرینِ تعلیم اور ماہرینِ نفسیات و عمرانیات سب اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان ہی بہترین ذریعۂ تعلیم ہے۔ اپنی زبان میں تعلیم سے آموزش کے عمل میں نہ صرف بہتری پیدا ہوجاتی ہے بلکہ وقوف اور ادراک کی صلاحیت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ [۲۳ [
راقم نے خود اس بات کا بار ہا عملی مشاہدہ کیا ہے کہ جب کوئی استاد انگریزی میں بچوں کوپڑھا رہا ہو تا ہے توانھیں یاد کرنے میں دشواری ہوتی ہے جب کہ اردو میں پڑھایا گیا سبق آسانی سے یا د ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کے ایک عملی مشاہدے کا ذکر ’’اوریا مقبول جان‘‘ نے کیا ہے:۔
’’
میرے سامنے ایک قاری کی ای میل ہے جو اس نے اس سارے گورکھ دھندے پر لکھی ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے ساری تعلیم انگریزی میں حاصل کی، سائنس پڑھی ، میں بہترین انگریزی لکھ اور پڑھ سکتا ہوں لیکن مجھے میٹرک میں ’الیکٹرومیگنیٹک بیل‘ کا اصول کتاب سے سمجھ نہ آیا کہ فزکس انگریزی میں تھی سمجھ اس وقت آئی جب ایک شخص نے وہ بیل کھول کر میرے سامنے رکھی اور پنجابی میں سمجھایا جو مجھے آج تک یاد ہے۔‘‘ [۲۴]
قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کی اچانک وفات سے بھی ایک بہت بڑا خلا پید ا ہوگیا، جسے پُر کرتے اور مسائل حل کرتے کرتے، حکمرانوں کی توجہ ان بنیادی حقائق کی طرف نہ جا سکی جن کا تعلق خاص تعمیر پاکستان سے تھا۔
۱۹۷۱ء کے سانحے میں جب پاکستان دو لخت ہوا اور اس کے دکھ میں ہر پاکستانی لخت لخت ہونے لگا تو بالآخر ۱۹۷۳ء میں پاکستان کو ایک مستحکم آئین بھی نصیب ہوگیا ۔اسی آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ آئین نافذ ہونے کے پندرہ سال کے اندر اندر تمام سرکاری کاروبار قومی زبان میں ہوگااور دیگر مقاصد کے لیے بھی اردو زبان استعمال کی جائے گی لیکن پندرہ سال پورے ہونے کے باوجود ہم آئین کی پاسداری نہیں کر سکے۔
’’
اردو ہماری قومی زبان ہے۔ ۷۳ء کے آئین کے مطابق اسے ۱۵ سال یعنی ۱۹۸۸ء میں نافذ ہونا چاہیے تھا ... مگر ۱۹۸۶ء میں یو ٹرن لیا گیاجب سینکڑوں کی تعداد میں کھلنے والے انگلش میڈیم اسکولوں کے بچوں نے او لیول (O-Level) اور اے لیول (A-Level) میں جانا تھا۔ ہمارے بہت ہی مہربان وفاقی وزیرِ تعلیم جناب نسیم آہیر بار ہا اعلان کر چکے تھے کہ اردو جلد ہی دفتری و سرکاری زبان بنا دی جائے گی لیکن ایک روز اچانک ایک جلسے میں انھوں نے صاف صاف فرما دیا کہ میں اردو کی حمایت نہیں کر سکتا، میں نہیں چاہتا کہ قوم کے ہونہار بچے ساری عمر کُرتے پجامے میں پھریں۔ ہمیں انگریزی سیکھنی ہوگی، پڑھنی ہوگی اور اس کو عام کرنا ہوگا۔‘‘ [۲۵]
۱۹۸۸ء میں آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ کے تحت نفاذِ اردو میں تساہل و تغافل کو توہینِ عدالت یا توہینِ آئین قرار نہ دینا، اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہمارے سیاست دان اور حکمران، قومی زبان کی اہمیت کا بالکل بھی شعور نہیں رکھتے۔ چلو! پہلے جو ہوا سو ہوا،موجودہ صدر و وزیرِ اعظم ہی قومی زبان کے نفاذ کا حکم نامہ جاری کردیں۔یہ تو سو فی صد آئینی اقدام ہے !
جب اٹھارہ کروڑ عوام کے منتخب نمائندے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہیں تو وہ اسی استعماری یادگار ’’انگریزی زبان‘‘ میں بولتے ہیں جسے پاکستان میں بہ مشکل ایک لاکھ سے بھی کم لوگ سمجھ پاتے ہیں۔بعض اوقات تو یہ احساس بھی گزرتا ہے کہ شاید اس خطاب میں مخاطب پاکستانی قوم نہیں۔۔۔ کوئی اور ہے ! اسی طرح پارلیمنٹ کی اکثر کارروائیاں بہ شمول وقفۂ سوالات سب ’’اس‘‘ زبان میں ہوتی ہیں جو نہ پاکستان کی قومی زبان ہے۔۔۔ نہ پاکستانی عوام کی نمائندہ ہے۔۔۔ نہ مغرب کے کسی ملک کی زبان ہے۔۔۔ نہ عالمی ہونے کی سزا واراور نہ ہی اس کا کوئی مستقبل ہے۔۔۔
’’
کوئی ہے اس قوم میں جو ایک پٹیشن لے کر جائے کہ آئین بنانے اور اس پر فخر کرنے والو! تمھارے پندرہ سال کب ختم ہوں گے۔ کب تم آرٹیکل ۲۵۱ کے تحت اس قوم کو اس کی غیرت ، حمیت، عزت، توقیر اور وطن سے محبت لوٹا سکو گے؟ لیکن ایسا کون کرے گا؟ یہ تو اس طبقے کی موت ہے جو انگریزی کا ہوّا دکھا کر سائل کو لوٹتا ہے، صرف ایک حکم کہ آئندہ مقابلے کا امتحان قومی زبان میں ہوگا۔ پھر دیکھیں کیسے صرف ایک ہفتے میں ساری کتابیں، گائیڈیں، رسالے اردو میں چھپ کر مارکیٹ میں آ جائیں! لیکن ایسا کون کرے گا؟ ایسی پٹیشن کون درج کرے گا؟ ایسا سوموٹو ایکشن کون لے گا؟ کوئی ہے جو اس قوم کے مستقبل کو ویسے بدل دے جیسے ایک ہزار سال پہلے عربوں اور تین سو سال پہلے انگریزوں نے اپنی قوموں کا بدلا تھا؟‘‘ [۲۶]
آج ہمیں بہ حیثیت پا کستانی قوم، پرائمری و سیکنڈری سطح کے نصابات پر غور وخوض کرتے ہوئے ’’معاشرتی علوم‘‘ کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر غور کیا جائے تو جماعت اوّل تا دہم تک کے تمام نصابات میں صرف ’’معاشرتی علوم ‘‘ ہی ایک ایسا مضمون ہے جس سے بچوں میں تہذیبی ، ثقافتی، سماجی اور قومی شعور پیدا ہوسکتا ہے ۔ کیوں کہ اس میں پاکستان کا جغرافیہ، محلِ وقوع، زراعت،کارخانہ جات،پیداوار، معدنی ذرائع، معاشی ذرائع، علاقائی ثقافت، قومی و مذہبی تہوار اور مختلف مذاہب وغیرہ زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس مضمون کو کس زبان میں پڑھایا جانا چاہیے؟ جواب بہت آسان ہے ! وہی زبان جس سے اس علاقے کے بچے اچھی طرح آشنا ہوں۔ یقیناًیہ وہی زبان ہو سکتی ہے جو ایک بچے نے اپنی ماں کی گود سے لے کر باپ کی انگلی پکڑنے تک سیکھی اور سمجھی ہو۔ ایسے میں قومی زبان و کلچر کی تشکیل کیسے عمل میں آسکتی ہے؟ اب بھی وقت ہے۔ حالات اتنے برے نہیں! پاکستان کے پالیسی سازوں، سیاسی راہ نماؤں اور حکومتی عہدہ داروں کے لیے قومی زبان و ثقافت کی حقیقت جاننا نہایت ضروری ہے۔
اب آئیے اصل ہدف کی طرف۔۔۔ سوال یہ ہے کہ گذشتہ سال پنجاب اور وفاق کے نصابات میں شامل ’’معاشرتی علوم‘‘ کو اردو سے انگریزی میڈیم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا اس حکم نامے سے قبل ’’معاشرتی علوم اور قومی زبان‘‘ کے حوالے سے تعلیمی و لسانی ماہرین کا کوئی علمی و تحقیقی مذاکرہ کرایا گیا؟ کیا اس اقدام سے قبل رائے عامہ کا جائزہ لیا گیا؟ جو اساتذہ یہ مضمون اردو میں پڑھا رہے تھے ، یقیناًانھوں نے ہی اب اسے انگریزی میں پڑھانا تھا۔۔۔ تو کیا ان کی تدریسی تربیت کا بھی کوئی بندوبست کیا گیا؟
جب معاشرتی علوم کی جگہ ’’سوشل اسٹڈیز‘‘ نے لے لی تو وفاقی تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ’’سوشل اسٹڈیز‘‘ کی کتاب کے آخر میں نہ تو کسی قسم کی فرہنگ دی گئی اور نہ ہی اساتذہ کی را ہ نمائی کے لیے کوئی مضمون شامل کیا گیا تھا۔نتیجتاً ؛ اساتذہ نے ایک آسان راہ یہ ڈھونڈ ی کہ طلبہ کو پوری کتاب کا مطالعہ کرانے اور سمجھانے کی بجائے چھوٹے چھوٹے سوالات نوٹس (Notes)کی شکل میں ’’رَٹّا ‘‘ لگانے کے لیے مہیا کر دیے گئے۔ مرتے کیا نہ کرتے، طلبہ نے رَٹّا لگاکر سوالات تو یاد کر لیے اور امتحان بھی پاس ہو گیا لیکن انھیں وہ تہذیبی ، ثقافتی، سماجی اور قومی شعور حاصل نہیں ہو ا جو ان کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنانے کے ساتھ ساتھ ایک محبِ وطن پاکستانی اور قومی روایات کا امین بھی بناتا۔
قیامِ پاکستان سے اب تک اس ملک میں طبقاتی نظام مضبوط بنیادوں پر استوارہو چکا ہے۔ ایک طرف معاشی ، سماجی اور اقتصادی ادارے اس نظام کے اثرات سے محفوظ نہیں تو دوسری طرف تعلیمی ادارے بھی اس کی زد میں ہیں۔ مختلف ادوار کی تعلیمی پالیسیوں میں کماحقہٗ کامیابیاں حاصل نہ ہونے کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں کے نیٹ ورک میں استحکام آیا ہے جن میں زیادہ تر امرا ء کے بچے شاہانہ ٹھاٹ سے مغربی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ نظامِ فکر کسی بھی قوم کے لیے وہ بنیادی عنصر ہے جس کی پرداخت پرائمری سطح سے ہونا ضروری ہے۔ بعض ماہرینِ نفسیات کے خیال میں پانچ سال تک کے بچوں میں شخصیت اپنی اصل صورت میں متشکل ہو جاتی ہے تاہم بعد میں اس کا ارتقا ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پرائمری سطح کے بچوں کے نصابات پر خصوصی توجہ دی جائے ۔پرائمری سطح کے نصاب کو ہر صورت مادری اور قومی زبان میں ہونا چاہیے۔ تاکہ مذہب و قوم کے تناظر میں جو بھی نظامِ فکر ترتیب دیا جائے وہ پاکستانی بچوں کے ذہنوں میں مکمل راسخ ہو سکے۔ سوال یہ ہے کہ وہ تعلیمی و تربیتی پہلوجن کا تعلق خاص قومی زبان و ثقافت سے ہے۔ ان پہلوؤں پر عمل درآمد کے لیے نجی تعلیمی اداروں کو پابند کیوں نہیں کیا جاتا؟ ہونا یہ چاہیے تھا کہ نجی تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ’’سوشل اسٹڈیز‘‘ کو بھی اردو زبان میں پڑھانے کے لیے پابند کیا جاتا اور اس پر عمل درآمد کے لیے حکومتی دباؤ بھی ڈالا جاتالیکن افسوس کہ نجی تعلیمی اداروں کے اثرو رسوخ اور ان کی پیروی میں سرکاری تعلیمی اداروں ’’ معاشرتی علوم‘‘ کو ہی انگریزی میں کردیا گیا ہے ۔
حوالہ جات
۱۔ فراق گورکھ پوری، مشمولہ: لسانی مذاکرات، مرتبہ:شیما مجید، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، طبع اوّل ۲۰۰۶ء ،ص: ۶۸
۲۔ اوریا مقبول جان، اردو سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے، مشمولہ:اخبارِاردو،
مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، جلد:۲۷، شمارہ:۶، جون ۲۰۱۰ء، ص: ۱۹
۳۔ اوریا مقبول جان، اردو سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے، ص: ۱۹
۴۔ اوریا مقبول جان، اردو سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے، ص: ۱۸
۵۔ حنیف رامے، مشمولہ: لسانی مذاکرات، مرتبہ:شیما مجید، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، طبع اوّل ۲۰۰۶ء ،ص: ۸۷
۶۔ شفیع منصور، مشمولہ: لسانی مذاکرات، ص:۱۹۰
۷۔ آل احمد سرور، مشمولہ: لسانی مذاکرات،ص:۵۱
۸۔ احمد ندیم قاسمی، مشمولہ: لسانی مذاکرات،ص:۱۲۷
۹۔ آصف خان، مشمولہ: لسانی مذاکرات، ص: ۱۰۲
۱۰۔ فتح محمد ملک، پروفیسر، مشمولہ: لسانی مذاکرات،ص: ۱۳۳
۱۱۔ وزیرآغا، ڈاکٹر،مشمولہ:مکالمات ؛وزیر آغا سے،مرتبہ: انور سدید، ڈاکٹر ، مکتبۂ فکروخیال ، لاہور، ۱۹۹۱ء ، ص: ۱۸۲
۱۲۔ محمد سعید ،حکیم،شہید،اردو ایک زندہ زبان،مشمولہ:پاکستانی اردو، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،طبع اوّل ۲۰۰۸ء ، ص: ۱۳۷
۱۳۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر،پاکستانی ثقافت،ص: ۴۲،۴۳،۴۴، ۴۶
۱۴۔ شاداب احسانی،سائنس کے طلبہ کی اردو تدریش مع حواشی و توضیحات،مشمولہ : قومی زبان،انجمن ترقیِ اردو، کراچی، جلد:۸۲، شمارہ:۶، جون ۲۰۱۰ء ، ص:۳۱
۱۵۔ شاداب احسانی،سائنس کے طلبہ کی اردو تدریش مع حواشی و توضیحات،
۱۶۔ محمد عطا اللہ خان ،ڈاکٹر،ملتِ اسلامیہ کا جدید تصور اور لسانی روابط کے امکانات،مشمولہ: اخبارِ اردو، مقتدرہ قومی زبان، جلد:۲۷، شمارہ:۱۰، اکتوبر ۲۰۱۰ء ، ص: ۵
۱۷۔ عطش درانی، ڈاکٹر،پاکستانی اردوبنام پاکستانی انگریزی، مشمولہ:پاکستانی اردو، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،طبع اوّل ۲۰۰۸ء ، ص:۷۳
۱۸۔ ایضاً ، ص: ۷۰ ۲۲۔ ایضاً ، ص: ۷۱
۱۹۔ ایضاً ، ص: ۷۰ ۲۵۔ عطش درانی، ڈاکٹر،کیسی انگریزی ، کہاں کی اردو؟،مشمولہ:پاکستانی اردو، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،طبع اوّل ۲۰۰۸ء، ص: ۸۰
۲۰۔ سلیم اختر، ڈاکٹر، لفظ ۔۔۔ آقا، مشمولہ:اخبارِاردو، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، جلد:۲۷، شمارہ:۶، جون ۲۰۱۰ء، ص: ۹
۲۱۔ اوریا مقبول جان، اردو سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے، ص: ۱۹
۲۲۔ انعام الحق جاوید، ڈاکٹر،پاکستانی زبانیں اور قومی یک جہتی، ص:۲۲
۲۳۔ اوریا مقبول جان، اردو سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے، ص: ۱۹
۲۴۔ ایضاً ، ص:۲۰۸
۲۵۔ ایضاً ، ص: ۳۲
۲۶۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر،پاکستانی ثقافت، ص:۱۸۷

پاکستان میں معدنی ساءل اور ارضیاتی سائنسی تعلیم کے حوالے سے کچھ خیالات
عظمت زہراء
امریکہ میں مقیم ماہر ارضیات ڈاکٹر غلام سرور پاکستان سے خاص جذباتی لگاؤ کی بنیاد پر یہاں قائم مختلف شعبوں سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ وطن عزیز معدنی وسائل کی دریافت اور ارضیاتی تعلیم کے حوالے سے ان کی چند تجاویز وآراء کوقارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کیاجارہا ہے :
بنیادی سطح پر بچوں کے جذبۂ جستجو کی بھرپور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ ان کے سوالات توجہ کے مستحق ہیں۔ اس سے ہمارے تعلیمی نظام میں قائم تقلیدی رجحان کے بجائے تنقیدی رجحان رواج پانے میں مدد مل سکے گی اور ہمارے ننھے طالب علم اپنی لگن سے اپنی راہ کا تعین کرسکیں گے۔ بنیادی تعلیم کے سلسلے میں نہ صرف نصاب پر نظر ثانی کی ضرورت ہے بلکہ دورحاضر میں درپیش تمام ارضیاتی چیلنجز سے متعلق آگاہی کا سلسلہ بھی شروع کیا جانا چاہیے۔ زمین کے بارے میں بنیادی معلومات کا آغاز پرائمری سطح سے ہوجانا چاہیے۔ انھیں آب وہوا ، جزیروں ، سمندروں ، پہاڑوں ، شمسی نظام ، سیاروں ، تاروں حتیٰ کہ کائنات کے بارے میں معلومات دینی ہوں گی تاکہ آغاز ہی سے وہ اس غوروفکر کے عادی ہوسکیں جس سے حیات انسانی کی معراج وابستہ ہے۔ تمام ماحولیاتی مسائل اورو سائل پر ان کی توجہ مبذول کروانے کی ضرورت ہے۔ اس سطح پر تعلیمی اداروں کو جدید ٹیکنالوجی مثلاً لیپ ٹاپ /ڈیسک کمپیوٹرز سے لیس کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بنیادی سطح پر ملٹی میڈیا کا استعمال جادوئی اثر قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ تمام موضوعات جن سے مذہب اور سائنس میں کسی قسم کی خلیج پیدا ہونے کا خدشہ ہو ، جیسے زندگی کا ارتقاء وغیرہ ، انھیں منطقی انداز سے سلجھانے ہی میں عافیت ہے۔ نوخیز ذہنوں کو وسعت دینے سے وہ آگہی کی منازل کو بخوبی طے کرنے کے قابل ہوں گے۔
یونیورسٹیوں کی سطح پر بامعنی /سیر حاصل تحقیق کا فروغ عمل میں لایا جائے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ اساتذہ کو صنعتوں سے روابط قائم کرنے ہوں گے کیونکہ اسی صورت میں تحقیق کے اطلاق کو ممکن بنایا جاسکے گا۔ صنعتوں سے روابط کے بغیر یونیورسٹی گریجویٹس میں وہ نکھار پیدا نہیں ہوسکتا جو وقت کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کو نئی ٹیکنالوجی کے تقاضوں سے مکمل ہم آہنگ ہونے کے لیے ریفریشر کورسز کی طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ ٹیکنالوجی کا سفر کبھی نہیں رکتا ہمیں تیزی سے وضع ہوتی نئی ٹیکنالوجی سے اپنے قدم ملانے کے لیے اپنی رفتار کو تیز سے تیز تر کرنا ہوگا ۔
ارضیات کے شعبے میں فیلڈ ورک اور دیگر کاموں کے لیے وسائل کی کمی کی وجہ سے خاطر خواہ ترقی دیکھنے میں نہیں آئی ، یہی وجہ ہے کہ ہم اب تک چاغی کے تانبے ، چاندی اور سونے کے ذخائر سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ وسائل کو سمجھنے والے اور ان پر کام کرنے والے افراد کامیاب ہیں۔ غیر ملکی کمپنیوں کے اپنے مفاد ہیں۔ وسائل کو وضع کرنے کے لیے صرف اور صرف ایماندارانہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
اخلاقی حدود کے اندر ایک ایسی آزاد فضا کی ضرورت ہے جہاں انسانی صلاحیتوں کے مکمل نکھار کو نمو مل سکے۔ خواتین کو بھی یکساں حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ہم اس ملک کی نصف آبادی کی صلاحیتوں کو میدان عمل میں لا کر ایک روشن صبح کے خواب کو شرمند�ۂ تعبیر کرسکتے ہیں۔ یہ بات انتہائی قابل غور ہے کہ اگر جاپان جیسا ملک دوسری جنگ عظیم کی راکھ پر سے جنم لے سکتا ہے تو ہم ایک جوہری طاقت اور بے شمار معدنی وسائل رکھنے کے باوجود کیوں نہیں ترقی کرسکتے؟