اردو زبان، عوام اور سینیٹ کے ارکان
سحر صدیقی
وطن عزیزکے سماجی، ادبی اور علمی و فکری حلقوں میں اس خبر پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اردو کو حقیقی معنوں میں سرکاری زبان کے طور پر اس کا مقام دلانے کے لیے سینیٹ کے ارکان میں گہرا شعور اور احساس پایاجاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ۲۳؍ جنوری کو اسلام آباد میں ایوان بالا کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی و دیگر اراکین سینٹ کی جانب سے اردوکوسرکاری/ دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کی قرارداد پر بحث کے دوران اراکین سینٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اردو کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا فوری طور پر نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔ اراکین نے کہاکہ آئینی طور پر اردو کو ۱۴؍ اگست ۱۹۸۸ء کو دفتری و سرکاری زبان کا درجہ دیا جانا تھا جو چوبیس سال گزرنے کے باوجود تاحال نہیں دیا جا سکا۔ حکومت اردو کو دفتری، انگریزی کو اختیاری و دیگر علاقائی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دے۔ اردو کو سرکاری و دفتری زبان کا درجہ دینے کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرارداد پر بحث کے دوران پروفیسر خورشید احمد نے کہاکہ اردو قومی زبان ہے اور سرکاری امور میں اسی زبان کو رواج دیا جائے۔ اس وقت خیبر پختونخواہ واحد صوبہ ہے جہاں تمام سرکاری امور قومی زبان میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے علاوہ انگریزی زبان کی غلطیاں موجود ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود اس پرکوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔کراچی یونیورسٹی نے درجنوں اور مقتدرہ قومی زبان میں ۷۰۰ کے قریب اردو زبان کے حوالے سے کتب شائع کی گئی ہیں جو تحقیق پر مبنی ہیں۔ یہ اہم معاملہ ہے اور یہ ایوان دو ٹوک الفاظ میں حکومت کو یہ کہے کہ وہ یہ اعلان کرے۔ اس اقدام سے لوگوں کو سہولت اور اپنی شناخت برقرار ہو سکے گی۔
سنیٹر نعیم حسین چٹھہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ زبان ایک نسل سے دوسری نسل تک پل کا کردار ادا کرتی ہے۔ انگریزی کبھی سائنسی زبان کے طور پر رائج نہیں رہی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ایک سازش کے تحت اردوکو دفتری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔ آئین کی دفعہ ۲۵۱ اس امر کی یقین دہانی کرواتی ہے کہ اردو کو دفتری زبان کی حیثیت دی جائے گی۔ ۱۹۸۸ء کے بعد اردوکو دفتری زبان کا درجہ دینے کا کہا گیا تھا تاہم ۲۴ سال گزرنے کے بعد بھی یہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے قرارداد پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ۱۴ اگست ۱۹۸۸ء سے پاکستان کا سارا کاروبار اردو زبان میں ہونا چاہیے تھا تاہم حکومت نے اب تک اس پرکوئی کام نہیں کیا ہے۔کم از کم ملک کی عدلیہ اس پرعمل کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کو اردو میں کرے۔پارلیمنٹ کا بنیادی کام اور مقابلے کے امتحان اردو میں کر دئیے جائیں۔ سنیٹر ڈاکٹر خالد سومرو نے اپنا نقطۂ نظرپیش کرتے ہوئے کہا کہ انگریزی غلامی کی علامت ہے۔ اردو ہماری مادری زبان ہرگز نہیں ہے، حکومت علاقائی زبانوں کو اب قومی زبان کی حیثیت دے۔ ہمیں سرکاری امورمیں مادری زبانوں کو اہمیت دینی چاہیے۔ سینیٹر ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ اردو مادری زبان والوں کا تناسب۵ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اس وقت پانچ ہزارزبانوں کے مرنے کا خطرہ لاحق ہے، اردو کو نہیں ہے۔
سنیٹر عبدالرحیم مندوخیل نے قرارداد پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ جب انگریز کو یہاں سے نکالا گیا ہے تو اس وقت یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے تھا۔ آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ میں اردو کوقومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے حالانکہ پشتو زبان کی اپنی تاریخ ہے جو علم و تحقیق کی زبان ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام علاقائی زبانوں کوقومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ ایس ایم ظفر نے اس موقع پر کہا کہ اراکین کی کثیر تعداد اس قرارداد کا مطلب ہی نہیں جان سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم نے اردو زبان کورابطے کی زبان کہا تھا اور ۱۹۷۳ء کے آئین میں بھی اسے سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔ آئین کی پاسداری کرنے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں۔ پروفیسر عبدالخالق پیرزادہ نے کہا کہ سندھی، پنجابی، پشتو، سرائیکی، بروہی، بلوچی زبانیں ہمارا سرمایہ ہیں۔ ان زبانوں میں بڑے بڑے شاہکار لکھے گئے مگر اردو زبان کو قومی زبان اس کی افادیت کی وجہ سے قرار دیا گیا۔ جامعہ عثمانیہ کے عدالتی قوانین بھی اردو میں نقل کر لیے گئے ہیں مگر ہم نے اسے وہ مقام نہیں دیا جو اسے ملنا چاہیے جو اس کے شایان شان ہے۔ سنیٹر ساجد حسین نے کہا کہ اردو زبان کو رابطے کی زبان ہونا چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانوں کو بھی ان کا درجہ ملنا چاہیے۔سنیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ ہم قرارداد کی مخالفت نہیں بلکہ اس سوچ کی مخالفت کررہے ہیں جس کی وجہ سے اردو زبان متنازعہ بنی۔ اردو کو متنازعہ بنانے والے سندھی، پختون، پنجابی یا بلوچی نہیں بلکہ خود اردو بولنے والی وہ ایلیٹ کلاس ہے جو اس وقت برسراقتدار تھی۔اس ایلیٹ کلاس نے علاقائی زبانوں کو پنپنے نہیں دیا۔سنیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ ہم اردو زبان کے مخالف نہیں ہیں اردوکورابطے کی زبان ہونی چاہیے مگر سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی اور پنجابی زبانوں کو بھی قومی زبانیں قرار دیا جائے۔
سنیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے لیے پورے خلوص نیت کے ساتھ اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ قاری عبداللہ نے کہا کہ چھوٹی قومیتوں اور ان کی زبانوں کو ان کی حیثیت ملنی چاہیے۔ مولانا شیرانی نے کہا کہ اردوکو سرکاری زبان کی حیثیت سے متعلق قرارداد پہلے سے آئین میں موجودہے۔ البتہ اس پر عمل اب تک نہیں ہوا۔ ہمایوں مندوخیل نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بنیاد پر قرارداد کی مخالفت کر رہا ہوں کہ اردو قومی زبان نہیں تھی مگر اسے قومی زبان بنا دیا گیا اور آج بھی اسے مقدس بنا کر پیش کیا جا رہاہے۔ اس ایوان میں وہ کچھ کہا جائے جو ممکن ہو۔ سینیٹر گلشن سعید نے کہا کہ ہمیں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور عربی پر بھی عبور حاصل کرنا چاہیے۔ سنیٹر ڈاکٹر بابر اعوان نے کہاکہ قوم کو تقسیم کرنے کی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ مجھے اردو سے محبت ہے مگر پوٹھوہاری سے بھی محبت ہے کیونکہ پوٹھوہاری میری مادری زبان ہے جبکہ آئین میں مقامی زبانوں کو بھی تحفظ حاصل ہے۔
سینیٹ میں اردو زبان کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا اور اس اہم قومی مسئلہ بارے جوجائزہ لیا گیا اس کو بجا طور پر حوصلہ افزاء اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔ عوام کی اکثریت بجا طور پر امید کرتی ہے کہ ارکان سینیٹ کی طرح ارکان قومی اسمبلی اور ارکان صوبائی اسمبلی جات بھی اردوکے سرکاری سطح پر نفاذ بارے نہ صرف مثبت رویہ اختیار کریں گے بلکہ وہ اپنے اثر و رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے اس سلسلہ میں عملی اقدامات بھی کریں گے۔