کتاب میلہ
بھول کی گھنٹیاں
وطن عزیز کے جن افسانہ نگاروں نے گزشتہ تین عشروں کے دوران اردو ادب میں افسانے کی صنف کو معتبر اور ہمہ جہت بنانے کے لئے اپنے طرز احساس اور بیان کا بھرپور مظاہرہ کیا ان میں علی تنہا کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’’کئی دنوں کا د ن‘‘ اور ’’دھوپ کے سب لوگ‘‘ علی الترتیب ۱۹۸۵ء اور۱۹۹۸ء میں اشاعت پذیر ہوئے اور اب حال ہی میں ان کا تیسرا مجموعہ ’’بھول کی گھنٹیاں‘‘ شائع ہوا ہے جس میں ان کے ۲۰ افسانے شامل ہیں۔ان افسانوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے سمیع آ ہوجا نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ علی تنہا اس طلسماتی اور دینی واہموں میں پھنسے معاشرے کے بل بوتے سے پھوٹتی تمام لالچ اور بہیمانہ خون ریزی سے حد درجہ پریشان حال ہے، مگر وہ اب بھی اس الجھن اور خرابے سے کوئی نور کی کرن پھوٹنے کا منتظر ہے۔ اس کی نثر چلت بنانے اور اسلوبی ردم اور افسانوں کی تمام تر فضا اس کے اپنے تجربے کی پیداوار ہیں، جو قابل تحسین ہے۔
علی تنہا کے فن کے حوالے سے مرزا حامد بیگ کا خیال ہے کہ علی تنہا، بیسویں صدی کے ساتویں دہے کے ان گنے چنے افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے راست بیانیہ کو ترک کرکے اپنے عہد کے انتہائی ڈھیٹائی سے سوالیہ نشان بنے۔ حریص، منافق اور آبرو باختہ انسانی کردار کی الجھی ہوئی نفسی کیفیات سے متعلق استعارہ سازی اور علامت نگاری کرتے ہوئے یکسر الگ اسالیب بیان تراشے۔ بے چہرہ انسان کی ذہنی پژمردگی اور احساساتی تناؤ علی تنہا کا موضوع خاص رہے ہیں جسے یک رخے بیانیہ میں سمیٹنا ممکن نہ تھا سو انہوں نے وضع کردہ پژمردہ کرداروں کے نفسی الجھاوُوں کے عین مطابق پیچواں لسانی پیرائیہ اظہار وضع کیا۔ علی تنہا کا ہدف عہد حاضر کے تصادمات اور موجود سے پرے کا علاقہ بھی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف عہد حاضر کے ٹیڑھے پن کو اپنے افسانوں میں سمیٹا بلکہ علاقہ چھچھ اور سرائیکی بیلٹ کی اجتماعی سائیکی اور بطور انسانی بطون میں واردشدہ روحانی واردات بھی کامیابی سے رقم کی۔ ان کے افسانوں میں انہی کرداروں سے مخصوص وہی منظرنامے خاصے کی چیز ہیں جہاں جیٹھ اور اساڑھ کی گرمی میں ببول کے چھدرے سائے اور تمباکو رنگ زمین پر ذلتوں کے مارے انسان کو بھوسے کے ذرات سے لدی گرم ہوا کا سامنا ہے۔
’’
بھول کی گھنٹیاں‘‘ میں شامل علی تنہا کے افسانوں کے درج ذیل اقتباسات قارئین کی دلچسپی اور توجہ کے لئے پیش ہیں:۔
’’
دعا بوڑھے اندھے عقاب کی صورت اس کے سر پر پھڑ پھڑاتی رہی۔ مولوی لطف اللہ کا گھر شہر کے مضافات میں ہے اور سرما کی تیزی سے گہری ہوتی شام کے باوجود کار گیراج سے نکال کے چل پڑا۔ سوچا، صبح چلا جائے مگر گومگو کی کیفیت نے تو اس کا کباڑا کر دیا تھا، اس واسطے ہمت باندھ لی۔
سارے میں تہہ در تہہ یخ ہوا کی نمی تھی۔ بوجھل پن ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ آہستہ آہستہ کار چلاتے وہ گرین سکوائر کے ختم تک آتے گاڑیوں کی رکی قطاروں کے آگے مخلوق کا اژدھام دیکھ کر رک گیا۔ سڑک پر شاید جلوس جم کے کھڑا تھا۔ گاڑی ایک طرف کھڑی کرکے، باہر نکلا، کچھ دیر انتظار کے بعد، پتھر ہوئے لوگوں کے درمیان میں سے پیدل نکلنا چاہا۔ بریف کیس لے کر مشکل سے دو قدم اٹھائے تھے کہ وہی گدڑ کپڑوں والا لڑکا اسے مل گیا۔‘‘(دعا کی بددعا۔ص : ۳۷۔۳۸ )
*
’’
زین العابدین بنچ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ پانی کا گلاس غٹا غٹ پیا اور شیخ قدیر سے ہاتھ ملا کر غائب ہوگیا۔ اندھیرا چھانے پر دکان کا شٹر گرا کر جب شیخ قدیر بڑی شاہراہ پر پانی کی طرح بہتے خلقت کے درمیان میں، بہا ہے تو اسے فصیح اللہ کا چہرہ یاد آگیا ۔ وہ دونوں اس دریا میں کتنا عرصہ بہے ہیں، اب یاد کرتا ہے تو اس کا دل بھر جاتا ہے۔ وہ اچانک بھیڑ میں چلتے چلتے رک گیا کیونکہ اس کے بالکل برابر میں زعفران بیگم پچکے گالوں والی لمبی لڑکی کے ساتھ رنگین تھیلا اٹھائے اڑتی جا رہی تھی۔ زعفران بیگم آسمان کی بلندیوں پر جب بھی نظر آئی ہے، بدلی کی طرح ایک آدھ لڑکی کو ساتھ لئے وہ زمین پر ضرور برسی ہے، ورنہ زمین، اتنی خلقت سے کیسے بھرتی۔ اس نے جھٹ راہ بدل کر شاہراہ سے بغلی گلی میں جانے والی سڑک پکڑی۔ وہ جیسے ہی گلی میں داخل ہوا ہے، اچانک بجلی چلی گئی۔ اب اندھیرے کا غبار اس کے اوپر آہستہ آہستہ گر رہا تھا اور اس کے آزو بازو زین کی باتیں دوڑ رہی تھیں۔ وہ باتوں سے ٹکراتا کان دبا کر گزرتا رہا۔ شام ڈھلے جب بھی لوٹا ہے، اسے گمان گزرتا ہے جیسے وہ د ن اور رات کے ایسے حصے میں پھنس گیا ہے جہاں کوئی حرکت نہیں کرتا، بس ایک ہی جگہ پل کی طرح جھولتا رہتا ہے۔ ‘‘
(
جھولنے والا پل۔ ص: 62 )
*
’’
ہمواری کے ساتھ چلتا ہوا کوڑے خاں کوٹھی سے بہت دور نکل آیا۔ اب اس کا سوت ہولے ہولے اترنا شروع ہوا۔ معلوم پڑا، کوئی وقت جاتا ہے کہ اس کا سارے کا سارا سوت چن لیا جائے گا اور وہ موچی کا موچی خالی ہاتھ ہی گھر جائے گا۔ کوڑے خاں کو لگا، گہری یخ ہوا میں وہ ادھڑتا جا رہا ہے اور اس کے ریشے سرمائی بے جان دھوپ کے لچھوں میں ملتے جا رہے ہیں۔ کھیت کے مختلف راستوں سے دھڑا دھڑا، دوسری عورتیں بھی آ رہی ہیں۔ ان کی نامعلوم آوازیں کسی ویران کنوئیں سے ابھر آئیں یا ان کا بھی سوت ادھڑ گیا تھا۔ ‘‘ (سوت کا فاصلہ ۔ ص : 103)
*
علی تنہا کے افسانوں کے اس مجموعہ کا ٹائیٹل سعید ابراہیم نے تیار کیا ہے اور اس کو سانجھ پبلیکشنز، لاہورنے نہایت خوشنما اور جاذب نظر انداز میں شائع کیا ہے ۔
۔۔۔ سحر صدیقی
بہاولپور کا ادب
مصنف : ڈاکٹر نوازش کاوش
زیر اہتمام : چولستان علمی وادبی فورم بہاولپور
ڈاکٹر نواز کاوش،پنجاب کی ایک قدیم درس گاہ اور تہذیبی مرکز ایس ای کالج بہاولپور میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔زیرِ نظر کتاب ان کا پی ایچ۔ڈی کا مقالہ ہے گویا ’’بہاول پور کا ادب ‘‘ ، میں اِس خطے کی تاریخ ، ثقافت ، اور علمی و ادبی دلکشی کے گہرے نقوش کو اس طرح ابھارا گیا ہے کہ بہاول پور کے تہذیبی پیراہن کا رنگ نکھرتا چلا گیا ہے ۔ انہوں نے بہاولپور کے ادبی اور شعری منظرنامے کے ساتھ علوم وفنون ، رقص و موسیقی ، غنا و گائیکی تک کو اثر انگیز انداز میں پیش کیا ہے ۔
ڈاکٹر نواز کاوش نے یہ مطالعہ اگرچہ چند برس قبل کیا تھا مگر یہ کسی حد تک مکمل اورمنضبط ہے۔ تاہم اِس میں اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بہاول پور کے ادبی منظر نامے کو بھی شامل ہونا چاہئے تھا ۔ مقالے کا تجزیاتی اسلوب قارئین کو متوجہ رکھتا ہے اور بڑے آسان، سہل، اور عام فہم انداز میں قدیم و جدید زمانے کے شعر و ادب کے ہنر کی آفاقیت کو پیش کرتا ہے ۔ یہی نہی بلکہ کئی پرلطف روائیتوں اور حکایتوں کی ترسیل کا باعث بھی بنتا ہے ۔ اس کتاب کے محقق نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے بھر پور انداز سے کام لیتے ہوئے ۱۷۲۷ء سے۱۹۵۵ء تک پھیلی ہوئی سیاسی، سماجی، ثقافتی،و ادبی تاریخ کو یکجا کیا ہے ۔’’ بہاولپور کا ادب،، ایک ایسی دستاویز ہے جس میں محقق نے بہاول پور کا تعارف اور یہاں کی متحرک زندگی کا پس منظر پیش کیا ہے ۔ اِس تحقیقی کام کے لیئے مصنف کو یقیناً بہت سی مشکلات سے گزرنا پڑا ہوگا تاہم وہ اپنی اس محنت میں کامیاب نظر آتے ہیں . کتاب میں سات ابواب ہیں جن میں بہاول پور کی سیاسی ، سماجی ، ثقافتی ، شاعری ، نثر، صحافت، اداروں، اور تہذیبی سر گرمیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس میں ناصرف دور قدیم بلکہ دور جدید کی موضوعاتی وسعتوں ، اظہار کے پیرایوں اور ہیتوں کے تجربوں کو موضوع بنایا گیاہے۔ مختلف شعراء اور ان کے کلام کا تفصیلی جائزہ اِس کتاب کا ایک ضروری حصّہ ہے تاہم اگرشعراء یا نثر نگاروں کی خدمات کی تفصیل کو تذکرے کے انداز کی بجائے اگر مختلف اصناف کی تجدید کے ساتھ پیش کیا جاتا تو کتاب کی اہمیت میں یقیناً اضافہ ہوتا ۔کتاب کے باب اوّل میں مصنف نے بہاول پور کے سیاسی ، سماجی، پس منظر ، رسوم و رواج، لباس ، خوراک ، زبانیں ،مصوری ، محل وقوع، اور دیگر پہلوؤں کے علاوہ روئے زمین پر انسانی تہذیبی ارتقاء کا جائزہ اور عظیم و قدیم ماضی کی نشاندہی کی ہے ۔باب دوم ’’ بہاول پور میں اُردُو شاعری ، عہد قدیم‘‘ میں خلافت راشدہ کے زمانے کے شعری ادب ، فاطمین کے اثرات ، اوچ کے علاقے کی زبان ، ثقافت اور ادب کے گہرے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔باب سوم ’’بہاول پور میں اردو شاعری ، عہد جدید‘‘ اس باب میں قیام پاکستان کے بعد کے حالات کی جھلک، ماضی کے واقعات ، تجربات کے علاوہ غزل اور نظم دونوں اصناف سخن کے شاعروں کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔ باب چہارم ’’بہاول پور میں اردو نثر‘‘اس باب میں مصنف نے اُردُو کی نشوو نما میں صوفیائے کرام کا حصّہ اور اُن کی جدو جہد کو صراحت سے بیان کیا ہے ۔ باب پنجم ’’ بہاول پور میں اُردُو صحافت،، میں بہاول پور سے شائع ہونے اخبارات ، سرکاری خبریں، فرامین ، مراسلوں اور مضامین کی ساتھ ساتھ ادبی تخلیقات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ باب ششم’’ بہاول پور میں اردو کی مختلف جہتیں ‘‘ ہے جس میں ریاست میں اردو زبان کو فروغ دینے اور انگریزی زبان کے الفاظ کی جگہ اردو کے الفاظ کی تلاش ، سرکاری مراسلے ، عدالتی فیصلے ، ادبی انجمنیں ، تعلیمی ادارے اور ذرائع ابلاغ کے بارے میں مفصل انداز میں لکھا گیاہے۔ ۳۳۶ صفحات پر مشتمل ہے اس خوبصورت کتاب کی قیمت ۳۰۰ روپے ہے اوریہ کتاب چولستان علمی و ادبی فورم بہاول پور یا عاتکہ پرنٹرز ملتان سے منگوائی جا سکتی ہے ۔
۔۔۔ شگفتہ طاہر
میں جس کٹیا میں رہتا ہوں
’’میں جس کٹیا میں رہتا ہوں ‘‘سلیم ناز کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ۔ کتاب کے آغاز میں سلیم ناز کے دو پیش لفظ ہیں ۔ اس کے بعد حمد باری تعالیٰ،بہت سی غزلیں اور چند نظموں کے ساتھ ساتھ کچھ قطعات اور ضروریات بھی شامل ہیں۔ سلیم ناز کا لہجہ شعر کے خارجی عوامل کی ترجمانی کرتے ہوئے براہ راست مزاحمتی شاعری کا حصہ بنتا ہوا نظر آتا ہے ۔ انہیں معاشرے کے مختلف طبقات سے ان کی منافقتوں اور کذب و ریا کی شکایات کا سامنا ہے۔ جنہیں سلیم ناز نے شعری اظہار کا جامہ پہنا دیا ہے۔ وہ نام نہاد جدیدیت کی بجائے اپنی کیفیات کو روایتی پیرائے کی خوبصورت قباؤں میں زیب دے کر شعر لکھتے ہیں۔ ان کی نظمیں بھی روایت کی ترجمانی کرتی ہوئی عموما مقفیٰ اور معرا کا سہارا لیتی ہیں۔ ان کے شعر کہنے کا انداز نہایت صاف اور سادہ دل میں اتر جانے والا ہے جو کہ آج کے مجرد دور میں نعمت دکھائی دیتا ہے۔ ایک چوبیس صفحات کی کتاب کی قیمت محض ۲۰۰ روپے ہے اور اس کو دنیا ئے ادب کراچی نے شائع کیا ہے ۔
۔۔۔ علی اکبر ناطق
جدید طبیعیات کا تعارف
ڈگری جماعتوں کے طلبہ کے لیے "جدید طبیعیات کا تعارف" اپنے خوب صورت اور باوقار سرورق اور نصابی مندرجات کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی نے اپنے قیام کے ساتھ اردو سائنس کالج اور اردو آرٹس کالج کے شعبہ ہائے تصنیف و تالیف و ترجمہ کو جس خوبی کے ساتھ یونیورسٹیِ ضروریات میں ڈھالا، وہ خود قابل ستائش ہے۔ کتاب کے ناشر اردو یونیورسٹی کے لیے سب سے پہلا کام یہی تھا کہ علوم و فنون کی نصابی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اردو کے دیرینہ خادم جناب جمیل الدین عالی نے اس جانب فوری توجہ دی اور اردو میں اعلیٰ سطح درسی کتب لکھوانے کا ڈول ڈالا۔ 'جدید طبیعیات کا تعارف' اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
مشاہدے کی بات ہے کہ ہمارا آج کا طالب علم دوران تعلیم زیادہ سے زیادہ معلومات اور فہم و فراست حاصل کرکے نئے تصورات پیش کرنے کاشدید متمنی ہے۔ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے جس سے ظاہر ہوکہ اس نے اس دنیا میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ اس فطری خواہش کے باوجود وہ غیر مطمئن دکھائی دیتا ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارے نظام تعلیم میں کیا کمی رہ گئی ہے کہ ہم اس سونے کو کُندن بنانے میں ناکام رہے۔ دوسری طرف اس بات پر ہمارا ہر ماہر تعلیم متفق ہے کہ ہمارے نوجوان کو یہ ذہنی غذا لسانی آلودگی کے ساتھ مل رہی ہے لہٰذا اس کی ذہنی بالیدگی حسب منشاء نہیں ہو پا رہی۔ مختصر یہ کہ اس کا تدارک اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس کی تعلیم و تربیت فطری طریقوں سے اپنی قومی زبان میں کریں تاکہ وہ غیر زبان کی لسانی الجھنوں سے بچ کرمحض معلومات نہیں بلکہ واقعی علم حاصل کرے اور دنیا میں نئے تصورات اور نظریات پیش کرنے کے قابل ہو سکے۔ چنانچہ اس کے لیے جب تک ذریعۂ تعلیم قومی زبان رائج نہیں ہو گا، یہ مسئلہ روز بروز بڑھتا ہی جائے گا، خواہ اس میں صدیاں لگ جائیں۔
کتاب کے مؤلف پروفیسر بدرالدجیٰ خان پاکستان کے ان معدودے چند ماہرین تعلیم و سائنس میں سے ہیں جو سائنس کے لیے اردو کو ذریعۂ تعلیم نہ صرف از بس ضروری جانتے ہیں بلکہ کم از کم گزشتہ پانچ دہائیوں سے تدریس اور تصنیف و تالیف میں اسے کامیابی کے ساتھ ثابت بھی کر چکے ہیں۔ سائنسی ادب میں ان کی منفرد نگارشات شائع ہوتی ہم نے دیکھی ہیں۔ وہ سائنسی ادب اور تدریس سائنس کے لیے زبان کے استعمال کے فرق کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں، لہٰذا زیر نظر کتاب اس کا شاہکار ہے۔ ڈگری کلاسوں کے لیے لکھی گئی اس کتاب میں ہمارے بدلتے لسانی مزاج کے تناظر میں سائنسی اصطلاحات کو خوب صورتی کے ساتھ برتا گیا ہے۔یہ اسلوب آج کے طالب علم کے لیے نہ صرف ایک گونا سہولت بلکہ اردو ذریعۂ تعلیم سے محبت بھی پیدا کرتا ہے تاکہ وہ اپنی زبان میں سائنس پڑھنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ضروریات کو بھی پورا کر سکیں۔ افسوس کہ جن اردو اصطلاحات کو اب مشکل ، نامانوس اور ناقابل استعمال قرار دیا جانے لگا ہے، بیس پچیس سال پہلے تک وہ طلبہ کے نصابات میں کسی نہ کسی صورت میں موجود تھیں اور طلبہ ان سے بخوبی واقف ہوتے تھے۔ فاضل مؤلف نے نہ صرف کتاب کی ضرورت، اردو یونیورسٹی کے مقاصدبلکہ طلبہ کی تربیت کے لیے اسے متن میں نہایت خوب صورتی کے ساتھ برتا ہے۔ طبیعیات میں ریاضیاتی طریقوں کے لیے ہندسوں ، علامتوں، ترقیمات وغیرہ کو انگریزی میں ہی دیا گیا ہے۔ کتاب میں مروجہ اور مستند اردو اصطلاحات کے ساتھ قوسین میں انگریزی اصطلاحات بھی دے دی گئی ہیں، البتہ بعض جگہ متن اور تصویری خاکوں میں انگریزی اصطلاحات کی جگہ اردو اصطلاحات درج ہونے سے رہ گئی ہیں۔ ہم آگاہ ہیں کہ ہمارے ہاں کتابوں کی اشاعت کی جلدی میں بعض اوقات ایسی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
"
جدیدطبیعیات کا تعارف" اردو یونیورسٹی کے منظور شدہ نصاب کے مطابق سات ابواب پر مبنی ہے جن میں کوانٹم نظریہ، جوہرکے مرکزہ اور بنیادی ذرات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ آخر پرضمیمہ الف میں عناصر کی دوری جدول اور ضمیمہ ب میں اکائیوں کا بین الاقوامی نظام دیا گیا ہے جبکہ ضمیمہ ج اکائیاں بدلنے کے جزو ضربی اور ضمیمہ د ایٹمی کمیتوں کی توضیحات پر مشتمل ہے۔ ۳۱۲ صفحات میں جدید نصابی کتابوں کی طرز پر نصابی تشریحات کے ساتھ طبیعیات کے نامور سائنس دانوں کے تعارف اور بعض مقامات پر دلچسپ توضیحات بھی دے دی گئی ہے۔ ہر باب کے مفصل مندرجات باب وار دیے گئے ہیں۔ طبیعیات کی ضروری تشریحات کوتصویری خاکوں اور جداول سے مزّین کیا گیا ہے تاکہ کتاب طالب علم کے لیے زیادہ سے زیادہ قابل استفادہ بن جائے۔
مجموعی طور پر کتاب ہماری نصابی کتابوں کی پرانی ڈگری سے ہٹ کر نئے اسلوب میں تیار کی گئی ہے جو ایک خوش آئند امر ہے۔ البتہ کتاب میں اندرونی سرورق اور فہرست کے درمیان کتاب کا پیش لفظ یا دیباچہ دے دیا جاتا تو قارئین اور طلبہ کے لیے بے حد مفید رہتا۔ امید ہے آئندہ اشاعت میں متعلقہ ڈگری کورس کا نام درج کرنے کی جانب بھی توجہ دی جائے گی۔
اگرچہ یہ کتاب جملہ نصابی ضروریات کو پورا کرتی ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو، اگر اردو یونیورسٹی کے اربابِ اختیار متعلقہ اساتذہ اور طلبہ سے سال بہ سال آراء لے کر مزید حک و اصلاح کریں۔ وہ دیکھیں گے کہ چند ہی سال میں ان کی نصابی کتابوں کا معیار بہت بلند ہو جائے گا۔کتاب کی قیمت ۱۵۰ روپے مناسب ہے۔ہماری ارباب اردو یونیورسٹی سے گزارش ہو گی کہ اس کی نصابی کتابیں سدا بہار ہیں، جو طلبہ نے ہر سال خریدنی ہوتی ہیں لہٰذا قیمتیں کم از کم رکھیں تو بھی انھیں کوئی نقصان نہیں ہو گا لیکن قومی زبان کا فروغ بہت بڑھ جائے گا۔ فاضل مؤلف قابل مبارک باد ہیں کہ انھوں نے اس اہم ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے کر اردو کے مضبوط مستقبل کی بنیاد استوار کرنے میں اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔
۔۔۔ محمد اسلام نشتر
فہرست کتب خانہ
مرتبہ : محمد طاہر قریشی
زیر اہتمام : نعت ریسرچ سینٹر
مضامین، موضوعات اوراسماءِ کتب کی فہرست سازی، علمی وادبی کاوشوں کے سلاسل میں سے ایک قدیم فن اور سلسلہ ہے۔ اس سلسلے میں کئی معاجم (concordances) تیار ہوچکے ہیں۔اِن میں عربی میں محمد فوأد عبدالباقی کی معجم المفہرس القرآن اور پادری احمد شاہ کی انگریزی زبان میں فہرست منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ فہرست ابن ندیم سب سے قدیم کاوش ہے۔
کتب نعت پر محترم محمدطاہر قریشی صاحب نے نہایت ہی محنت شاقہ سے فہرست تیار کی ہے۔ جو ۱۳۴۸ کتب پر مشتمل ہے۔ اسے حروف تہجی کے آئینے میں تیار کیا گیا ہے جو قارئین کتب نعت کے لیے بیش بہاء ارمغان و پیشکش ہے۔ مؤلف نے اس کار خیر کے لیے کئی سال صرف کیے ہیں اور بیسیوں کتب خانوں سے مواد حاصل کرنے کی سعئ قابلِ تعریف کی ہے۔ اپنی اس کاوش وپژوہش پر وہ حلقہ قارئین نعت کی دلی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔
ایسی تحقیقی و علمی کاوشوں کے دوران میں کچھ اغلاط بھی غیر دانستہ طو رپر یا کمپوزر کی نافہمی کی وجہ سے کتاب کے چہرے کے مہ ومہر کو گہنا دیتی ہیں۔ کتاب کو بہ امعانِ نظر پڑھتے ہوئے جو تسامحات سامنے آئے ہیں مدیران کی خدمت میں پیش ہیں جو آئندہ اشاعت میں درست کیے جاسکتے ہیں۔

صفحہ

درست لفظ

غلط لفظ

۶۔۱۰

Reference

Refference

۲۲

Cataloguing

Catalogiung

۲۶

Reference

Refference

۲۷

اِطالت

طوالت

۴۰

صلّوا علی الحبیب

صلو علی الحبیب

۵۴

صلوا علی الحبیب

صلو علی الحبیب

۷۵

وسلّموا تسلیما

وسلّموتسلیما

۷۵

صلوا علیہ وآلہٖ

صلوعلیہ وآلہٖ

۹۸

محامد محمد ﷺ

محاحد محمد ﷺ

۱۱۸

مواجَہہ

مواجہ

۱۳۲

صلّوا علیہ وآلہٖ

صلّوعلیہ وآلہٖ

۱۳۸

وسلّموا تسلیما

وسلّموتسلیما

۱۴۸

صلّوا علیہ وآلہٖ

صلّوعلیہ وآلہٖ

۱۶۰

محمد حسین عرشی

محمد حسین عرش

۱۷۶

شابیب الرحمۃ

شنا بیب الرحمۃ

۲۱۶

گنبد خضرا

گنبد خضریٰ

۲۴۹

HOMAGE

HOMMAGE

۳۱۰

صلّوا علی الحبیب

صلوعلی الحبیب

۳۱۰

صلوا علی الحبیب

صلو علی الحبیب

                                                                                                ۔۔۔ بشیرحسین ناظم
نعت رنگ
کتاب سلسلہ نمبر : ستمبر ۲۰۱۱ میلادی
مرتب وناشر : صبیح رحمانی
نعت رنگ۔نعتیہ ادب کا کتابی سلسلہ ہے جسے صبیح رحمانی صاحب کی ادارت میں ایک منتخبہ مجلس منتظمہ اور مجلس مشاورت مرتب کرتی ہے۔ نعت رنگ کی کوششوں سے تنقیدات نعت کے حوالے سے گراں قدر کام ہورہا ہے اور نئے نعت نگار بھی متعارف کرائے جارہے ہیں۔ عربی، فارسی اور اُردو نعتیہ ادب کے تعارف سے نعتیہ ادب کے قارئین کی قابل تعریف حد تک روحانی ضیافت کی جارہی ہے۔
اس وقت ہمارے پیش نظر نعت رنگ شمارہ نمبر ۲۲ ستمبر ۲۰۱۱ء میلا دی ہے۔ اسے بہ امعان نظر پڑھنے سے بہت سے تسامحات سامنے آئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔


صفحہ۱۰

پر غالب کا شعر غلط لکھا ہوا ہے جو یوں ہونا چاہیے ؂
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم
کاں ذات پاک مرتبہ دانِ محمدست

صفحہ۳۶

امام بوصیری کو البوبصری لکھا گیا ہے

صفحہ۳۷

تلبیس ابلیس کے مصنف کا نام ابن قیم الجوزی مرقوم ہے حالانکہ مصنف کا نام عبدالرحمن ابن الجوزی ہے۔

صفحہ ۳۷

صوفی کی جمع صوفیہ ہے صوفیا نہیں۔ کتاب میں بیشتر مقامات پر صوفیا لکھا گیا ہے جو غلط ہے۔

صفحہ۳۸

لفظ دُوُم ہے۔ دوئم نہیں

صفحہ ۴۷

نعوذ باﷲ کو نعوذ بااﷲ لکھا ہوا ہے۔ ۱ زیادہ ہے۔

صفحہ۵۷

اِلا باﷲ کو الا بااﷲ لکھا گیا ہے۔ ا زیادہ ہے۔

صفحہ۵۸

عبدالعزیز خالد کو عزیز خالد لکھا گیا ہے۔

صفحہ ۶۱

لولاک لما خلقت الافلاک ہے۔ لما رہ گیا ہے۔لفظ لما کے سہو سے مطلب ومعنی خطرناک حد تک بدل جاتا ہے۔

صفحہ۱۰۹

اسمائے حسنہ نہیں اسماء الحسنیٰ چاہیے

صفحہ ۱۰۹

مظہر شانِ کبریاء۔ یہ ترکیب غلط ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا نام ذوالکبریاء ہے۔ کبریا نہیں، یہ صفت ہے۔ دیکھیے سورۂ الجاثیہ اور سورۂ یونس

صفحہ ۱۱۵

ایک عام قاری یتلی کو یُتلیٰ نہیں پڑھ سکتا

صفحہ ۱۱۶

ظفر علی خان کا مصرع غلط لکھا ہوا ہے یوں چاہیے۔
وہ آیا لیکن آیا رحمتہ للعالمیں ہوکر۔ آیاندارد

صفحہ ۱۲۲

تمام نثر نگار اور شعراء نافہمی کے باعث ’’رحمتِ عالم‘‘ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں۔ آپ عالم کی رحمت نہیں۔ عالم و عالمیان کے لیے رحمت ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہیں۔ یزدانی جالندھری سمیت سب شعراء نے رحمتِ عالم کی محل نظر ترکیب استعمال کی ہے ؂
بھیجا وہ نبی ہم میں جو رحمتِ عالم ہے
کچھ حد ہی نہیں ہم پر اﷲ کے احسان کی

صفحہ ۱۵۶

اجالا کی جگہ اُجلا لکھا گیا ہے جس سے مصرع غیر موزوں ہوگیا ہے۔

صفحہ ۱۴۳

بحر زخاّر کو بحر ذخاّر لکھا ہے۔

صفحہ ۱۵۶

خیرالراحمین کو خیر الرحمین لکھا گیا۔

صفحہ ۱۶۵

حضور ﷺ’’ ایک یتیم بے سروپا‘‘ لکھا گیا ہے۔

صفحہ ۱۷۵

بِوَج58ویہٖ کو بوجہٖ لکھا ہے۔

صفحہ ۱۷۹

نظریہ کو نطریہ لکھا گیا ہے۔

صفحہ ۱۸۱

شاھِداً کو شایدً لکھا گیا

صفحہ ۱۹۴

شیخ محی الدین ابن عربی کے اس قول سے احتراز کرنا چاہیے
رب رب ہے خواہ کتنا ہی تنزل کرلے اور بندہ بندہ ہے خواہ کتنی ہی ترقی کر جائے۔
رب(اﷲ) تو ہے ہی اعلیٰ وہ تنزلی کا مصداق ہر گز نہیں ٹھہرتا

صفحہ ۱۹۵

خامہ مِرا کو خامہ میرا لکھ دیا ہوا ہے۔

صفحہ ۱۹۹

لفظ معائنہ کو معائینہ لکھا گیا ہے۔ یہ باب مفاعَلہ ہے۔

صفحہ ۲۰۰

اس صفحے پر مضمون نگار شاید لفظ infinityاستعمال کرنا چاہتا ہے مگر uncertaintyلکھا گیا ہے۔

صفحہ۲۰۰

شاعر’’وعدہ‘‘ استعمال کرنا چاہتا تھا مگر’’ وعید‘‘ لکھ گیا جو نا مناسب ہے۔

صفحہ ۲۰۱

مضمون نگار نے شاعرِ کے مصرعے کو غلط زبان و بیان پر محمول کرلیا۔

صفحہ ۲۰۱

مضمون نگار کو ’’شان کئی‘‘ترکیب سمجھ نہیں آئی اس لیے اس نے اپنی جہالت کا اظہار کر ہی دیا ہے۔ کئی سے مراد ایرانی بادشاہ کَے’’ کیقباد‘‘ ہے ’’کے وجم‘‘ سے مراد قباد اور جمشیدہیں جو صاحبان شان و شوکت تھے۔ لہٰذا ’’شان کئی‘‘ سے مراد معنوی لحاظ سے بادشاہ کیقباد کی شان ہے۔ علامہ اقبال نے اسی تناظر میں کہاہے۔ کوئی قابل ہو تو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔ چاہنے والے کو ہم شانِ کئی دیتے ہیں۔

صفحہ ۲۰۳

لفظ خضریٰ نہیں خضرأ ہے

صفحہ ۲۰۸

سنِ طباعت کو سنہ طباعت لکھا ہے۔

صفحہ۲۰۸

جناب کبریاء کی ترکیب غلط ہے اس کا لفظی معنی ہے بڑائی کی چوکھٹ۔

صفحہ ۲۰۸

’’قید حدید نار‘‘لایعنی ترکیب ہے مطلب ہے’’ آگ کے لوہے کی قید ‘‘

صفحہ ۲۱۲

حمدکبریاء کی ترکیب غلط ہے۔ کبریاء اﷲ تعالیٰ کا کوئی صفائی نام نہیں لغات نویسوں نے اپنی نافہمی سے لکھ دیا ہے۔

صفحہ۲۱۲

مدّوشد ہے۔ مدوشد نہیں ہے مدّ کی دال مشدّد ہے۔

صفحہ ۲۱۳

حضرت عثمانؓ سے حضور ﷺ کی دو دختروں کا عقد ہوا تھا اس لیے وہ ذوالنّورین کہلاتے ہیں۔

صفحہ ۲۲۰

مبادا اس سعادت سے محروم نہ ہوجائیں میں ’’نہ‘‘ زیادہ ہے۔

صفحہ ۲۲۱

راجا رشید محمود افسر تعلقات عامہ نہیں تھے Subject Specialistتھے۔

صفحہ ۲۳۲

گنبد خضرأ ہے گنبد خضریٰ نہیں

صفحہ ۲۳۶

لاہور کی جگہ ہاہور لکھا ہوا ہے۔

صفحہ۲۵۸

اندازہ کو اندازا لکھا گیا ہے۔

صفحہ۲۶۹

محمد زکریا شیخ اشرفی نعت رنگ کے مدیر کے مشیر ہیں۔ ان کا نام ذکریا لکھا ہوا ہے۔

صفحہ۲۷۰

سیدنا امام حسن و سیدنا امام حسین کے آگے رضوان اﷲ علیہم اجمعین لکھا ہے۔

صفحہ۲۸۲

محمد شفیع خادم دین حق ہے
محمد شفیع کے معیں ہیں محمدﷺ
دونوں مصرعوں میں ’’ع‘‘ خاموش ہے۔

صفحہ۲۹۹

سورۂ اللّہب درست نہیں۔

صفحہ۳۰۱

والّیل کو والّلیل لکھا ہوا ہے۔

صفحہ۳۱۵

حضرت مفتی احمد یار نعیمی کی نعت میں بے وزن مصرعے لکھ دیے گئے ہیں
صلِّ علیٰ کو صلی علیٰ لکھا گیا ہے۔

صفحہ۳۱۶

مبۂ کو مبدا لکھ دیا ہے۔

صفحہ۳۲۰

قدسی کی نعت کا مصرع غلط لکھا ہوا
اے قریشی لقب و ہاشمی و مطلّبی چاہیے

صفحہ ۳۵۸

ہوتی کو ہولی لکھا ہے

صفحہ۳۵۹

بُراق کو برّاق باندھا ہے جو غلط ہے
کیا ہی برّاق کی سواری ہے

صفحہ۳۷۳

سید احمد نہیں سیدنا احمدﷺ ہے۔

صفحہ۳۷۸

اسفل السافلین کو سالفین لکھا ہے

صفحہ۴۲۲

آخری شعروں میں گوہر ملسیانی کے غیر موزوں اشعار لکھے گئے ہیں۔
نشاط آخرت آپ کی اُلفت رسول اﷲ
خیاباں در خیاباں آپ کی محنت رسول اﷲ
ان بے وزن اشعار سے گوہر ملسیانی کی تعریفیں گہنا سی جاتی ہیں۔

صفحہ۴۲۶

کسی بھائی کی دل زاری نہ کیجیے
دل زاری کی ترکیب محل نظر ہے۔

صفحہ۴۲۷

جرأت کہاں سے لاؤں میں یا صاحب خیرالوریٰ
خیر الوریٰ حضور ﷺ ہیں تو صاحب خیرالوریٰ کون ہے؟

صفحہ۴۳۱

نعت کہتا ہوں نعت پڑھتا ہوں
دونوں اذکار دن رات کرتا ہوں
دوسرا مصرع بے وزن ہے۔ دن زیادہ ہے
اگلاشعر بھی وزن سے خارج ہے۔
اس مضمون میں اکثرغیر موزوں اشعار کا حوالہ ہے۔

صفحہ۴۴۵

اسوۂ حَسَنَہ کو اسوۂ حَس58نَہ باندھا گیا ہے۔

صفحہ ۴۶۲,۴۶۰

مصرعوں کو مرعوں لکھا گیا ہے۔ فی الحال کو فی الحا لکھا گیا ہے۔

صفحہ۴۷۸

آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ بھی اچھی شاعرات میں سے تھیں، چاہیے تھا۔

صفحہ ۴۷۹

حضرت عمر (جِن) نہیں۔ حضرت عمر والجنی ہے۔

صفحہ۴۸۳

صحرا است نہیں۔ صحراست ہے۔

صفحہ۴۸۸

اے صل علیٰ حسن فروانِ محمد (کیا ہے؟)۔فراواں

صفحہ ۴۹۸

وہ اُسوۂ رسول ہو یا اُسوۂ نبی (کیا مطلب؟ )

صبیح رحمانی سے التماس ہے کہ وہ اپنے مشیروں سے درخواست کریں کہ وہ اس قسم کی غلطیاں نہ ہونے دیں۔ معیار اس سے ہی قائم ہوگا۔
۔۔۔ : بشیر حسین ناظم
فیض احمد فیض: درد اور درماں کا شاعر
مصنف کا نام : ڈاکٹرمحمد علی صدیقی
ناشر : پیس پبلی کیشنز ،لاہور ۔
سال اشاعت : ۲۰۱۱ء
ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی کتاب’’فیض احمد فیض: درد اور درماں کا شاعر‘‘ کے عنوان سے چھپ گئی ہے۔ گزشتہ برس کو فیض صاحب سے منسوب کیا گیا تھا جس کی نسبت سے فیض صاحب کی شخصیت اور فن پر متعدد کتابیں شائع ہوئیں مگر بدقسمتی سے زیادہ تر کتابیں پرانے مضامین کی ترتیب و تہذیب کی حدوں سے آگے نہ جاسکیں۔ اس پس منظر میں اُردو کے نامور نقاد اور محقق ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی تازہ کتاب خوش گوار جھونکے سے کم نہیں۔ پہلے حصے میں فیض شناسی،فیض احمد فیض اور روایتی شعری زبان،فیض اور مارکس تنقید: حقائق کی روشنی میں، فیض احمد فیض: شاعر یا جادوگر، غالب، جوش اور فیض: تین آوازیں، تین لہجے، اقبال اور فیض : حسن و بصیرت کے داعی اور برصغیر، امن اورفیض جیسے بے حد وقیع اور قابلِ مطالعہ مضامین شامل ہیں۔پیش نظر کتاب میں موضوعات کا تنوع کتاب کی دلچسپی میں گراں قدر اضافے کا باعث ہے اور توجہ اپنی جانب مبذول کراتا ہے۔ کتاب کا دوسرا حصہ فیض صاحب کے کلام کے مجموعوں کے الگ الگ مطالعات پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں صدیقی صاحب نے جس اختصار سے کام لیا ہے شایدقاری کی ضرورت کو پورا نہیں کرتا کیونکہ صدیقی صاحب جیسا تنقید نگار اگر فیض صاحب کے مجموعہ ہائے کلام کو اس طرح سرسری انداز سے زیرِ بحث لائے گا تو تشنگی کا لفظ بھی یقیناً اس کے لیے کم پڑ جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے ان مختصر مضامین میں بہت ہی بنیادی اور بے حد اہم اور وقیع امور مجملاً بلکہ اشارۃًبیان کیے ہیں جن کی تفصیل کے لیے ڈاکٹر صاحب سے فرمائش کی جانی چاہیے۔ کتاب کا تیسرا حصہ ضمیموں پر مشتمل ہے۔ پہلا ضمیمہ باتیں فیض سے : ایک انٹرویو(صفدر میر، اشفاق احمد) ہے جو پہلے بھی کئی بار مختلف کتابوں اور رسائل میں شائع ہوچکا ہے، دوسرا ضمیمہ بین الاقوامی لینن ایوارڈ کی تقریب میں فیض صاحب کی معروف تقریر ہے جو انٹرویو کی طرح مختلف جگہوں پر چھپ چکی ہے ۔ تیسرا ضمیمہ ’’فن کار کا دائرۂ وجود‘‘ اور چوتھا ضمیمہ ’’قومی تشخص کی تلاش‘‘ ہیں جو کہ فیض صاحب کے مضامین کی حیثیت سے مختلف رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ آخر میں فیض صاحب کا کوائف نامہ فراہم کرکے کتاب کی افادیت میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ پونے دو سو سے زائد صفحات پر محیط یہ کتاب پیس پبلی کیشنز، اردو بازار لاہور نے مناسب انداز میں شائع کی ہے۔ اسے یقیناً فیض فہمی کے سلسلے میں بہت اہم کتاب سمجھا جانا چاہیے۔
۔۔۔ ڈاکٹر راشد حمید
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
تصّوف ہماری مذہبی، تہذیبی اورمعاشرتی زندگی کا ایک اہم حصّہ ہے اوراس حقیقت سے انکاربھی ممکن نہیں کہ اس نے عوام کے خیالات ، عمل ، کردار اور عقائد پر گہرا اثر ڈالا ہے اور بہترین دل و دماغ اورصلاحیت کی حامل کئی اہم شخصیات کو اپنی طرف راغب کیاہے۔ معاشرے کی تعمیر ، اصلاح ، فلاح اور بہبود کے لیے تصوف کا اہم کردار رہاہے۔اسی طرح ہماری زندگی میں صوفیائے کرام کا تاریخی کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے جس میں بزرگ اولیاء اللہ خواتین بھی نظر آتی ہیں۔
آج جب کہ خواتین زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے دوش بدوش نظر آتی ہیں اور مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں وہاں تصوّف اور روحانیات میں بھی ان کی شمولیت ایک لازمی امر ہے۔ خواتین اولیاء اللہ کے تذکرے مختلف کتب اور متفرق رسالوں وغیرہ میں انفرادی طور پر تو نظر آتے ہیں مگر اسے یکجا صورت میں پیش کرنے کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی ۔ کتاب’’ ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین‘‘کے مصنف خواجہ شمس الدین عظیمی نے جو خود ایک روحانی شخصیت ہیں اور روحانی علوم پر ۲۷ دیگر کتب کے مصنف بھی ہیں، اُردو ادب میں اس ضرورت کو محسوس کیا۔
’’
ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین‘‘خواجہ صاحب کی ایک گراں بہا تصنیف ہے اور اُردو ادب میں مذہبیات کے ایک اہم گوشے کی ضرورت کو پورا کرتی ہے ۔ کتاب کے پہلے حصے میں فاضل مصنف نے قبل از اسلام معاشرے میں عورت کے مقام و مرتبہ پر مختلف موضوعات کے تحت بیان کیا ہے کہ مختلف معاشروں میں عورت کس طرح مجبور ، مقہور ، مرعوب مگر مرغوب رہی ہے اور اسلام نے عورت کو’’ جنت ماں کے قدموں تلے ‘‘کی خوشخبری سنا کر فضیلت کے ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ دیگر معاشروں میں اس کا تصور بھی محال تھا ۔ ساتھ ہی ساتھ خواجہ صاحب نے معاشرے میں مردوں کی بے جا برتری کی نفی اور حوصلہ شکنی بھی کی ہے۔ انھوں نے معاشرے میں عورت کے عزو شرف کوقرآن و حدیث کی روشنی میں خوب اجاگر کیا ہے ۔
کتاب کے دوسرے حصے میں ایسی ایک سو ایک برگزیدہ خواتین کا تذکرہ ہے جو اولیاء اللہ کے مرتبے پر فائز تھیں ۔ مصنف نے یہ سلسلہ حضرت رابعہ بصریؒ ، حضرت بی بی تحفہ ؒ ، ہمشیرہ حضرت حسین بن حلاج ؒ سے شروع کر کے حضرت اُمّ ابو سفیان ثوری ؒ ، حضرت اُمّ امام بخاری ، اُم الابرار ( صادقہ ؒ ) ، حضرت بی بی پاک دامنؒ اور آخر میں حضرت سعیدہ بی بیؒ تک پایہ ء تکمیل کو پہنچایاہے ۔مصنف نے ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین کے حالاتِ زندگی مختصراً واقعات کے ساتھ سادہ ، شستہ اور دلنشیں انداز میں بیان کیے ہیں۔کتاب میں شامل اولیاء اللہ خواتین کے تذکرہ جات کے ساتھ ساتھ اُن کے فرمودات کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ الغرض یہ روحانیات کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والے اساتذہ کے ساتھ ساتھ طالب علموں اور عام گھریلو خواتین کی علمی ضرورت کو بھی پورا کرتی ہے اور اُن کے لیے معلومات کا ایک خزانہ ہے ۔
کتاب میں مذکور اولیاء اللہ خواتین میں سے بیشتر کا تعلق قرونِ اولیٰ سے ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا اگرتحقیق کا دائرہ قرونِ وسطیٰ بلکہ اس سے بھی آگے موجودہ دور تک بڑھا دیا جاتا کیونکہ تصوّف کا یہ سلسلہ ماند ضرور پڑ گیا ہے رُکا تو نہیں،بس کھوج لگانے کی ضرورت ہے ۔ بہر حال یہ دقت طلب موضوع تحقیق کا متقاضی ہے کہ اس روایت کو آگے بڑھایا جا سکے ۔ اپنے موضوع کی مناسبت سے سادہ سرورق کے ساتھ الکتاب پبلی کیشنز کی یہ کتاب ہماری ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کرتی ہے اورہر سطح کی خواتین کے لیے راہنمااصول متعین کرتی ہے ۔
۔۔۔ نور محمد خاور
سلطنت دل سے
مصنف : عباس خان
ناشر : کاروان ادب ، ملتان۔
سال اشاعت : ۲۰۱۲ء
عباس خان اپنی دیانت اور راست بازی کے باوجود ججوں کی پہلی صف میں تو شاید جگہ نہ پاسکے مگر افسانے اور طنز ومزاح کی دنیا میں انھوں نے بہت نام پایا۔ رام لعل اُردو کے ایک بہت سینئر افسانہ نگار ہیں جو ۳؍ مارچ ۱۹۲۳ء کو میانوالی میں پیدا ہو ئے اورانھوں نے میٹرک بھی ۱۹۳۸ء میں میانوالی سے کیا تھا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ آئینے ۱۹۴۵ء میں شائع ہوا تھا۔ چار ناول اور دوسفر ناموں کے علاوہ ان کے ۱۵ افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حسن عباس خان نے رام لعل کے خطوط کو’’ سلطنت دل سے‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے جو ملتان کے مدبر اشاعتی ادارے کاروان ادب نے شائع کیا ہے۔
چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :
۔۔۔ جب میں پیدا ہوا تو میرا ایک بھائی موجود تھا۔ میرا یہ بھائی غم تھا۔ جو نہی میں چلنے کے قابل ہوا یہ میری انگلی پکڑ کر مجھے گھر کے سامنے سے گزرنے والی گلی میں لے آیا۔ اس گلی سے اس کمرۂ عدالت تک جس میں اب میں بیٹھتا ہوں اور جس میں قاتلوں کو سزائے موت کا حکم سنا کر میں خود بھی احساس کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہوں۔ ایک طویل فاصلہ ہے جو میں نے کئی برسوں میں طے کیا ہے۔ اب یہ بھی میرے ساتھ رہتا ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اس کا رویہ دوستانہ ہوگیا ہے۔
۔۔۔ادب کی طرف میرا رجحان مجھے ادیبوں کے قریب لے آیا۔ ان لوگوں سے مل کر مگر مجھے بے حد مایوسی ہوئی ۔ تعلیمی دور کے اختتام پر میں کچھ عرصے کے لیے ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہوگیا۔ اس سارے عرصے میں مجھے ادیبوں سے ملنے کے وسیع مواقع ملے۔ ان لوگوں سے میری مایوسی یہاں بیزاری میں بدل گئی ۔ یہ لوگ اعلیٰ انسانی اقدار کا نام لیتے ہیں لیکن خود ان اقدار سے سوائے چند ایک کے محروم ہیں۔ ان کے عمامے اور قبائیں اتاری جائیں تو اندر سے یہ آدمی نکلیں گے۔
۔۔۔ ایک بار ڈاکٹر عبدالوحید قریشی کو جب وہ مقتدرہ قومی زبان کے صدرنشین تھے میں ملنے گیا تو بولے کہ اسلام آباد ایک کیمپ ہے جس میں وہ تنہا بیٹھے ہیں۔
دنیا کی سب عورتیں کوتاہ دل ہوتی ہیں سوائے بیگم ڈاکٹر جمیل جالبی کے ۔ ۔۔۔ (یہ ٹھپہ!) تو میرے حصے میں آہی گیا کہ میں ’’ ریلوے برانڈرائیٹر ‘‘ ہوں ۔ کسی ایسے ماحول کو جوپہلے کبھی نہ پیش کیا گیا ہوا گر کثرت سے پیش کیا جائے تو ایسا ٹھپہ لگ ہی جاتا ہے لیکن اس سے بددل نہیں ہونا چاہیے۔
۔۔۔افسانوں کا مجموعہ ’’ ڈکھن کنیں دیاں والیاں ‘‘ (ناشر: اکادمی سرائیکی ادب، بہاولپور)۔ ۔۔۔ ان کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ پاکستان کو اپنی قومی زبان اُردو کو یو این او سے تعلیم کرانے کے لیے پیش کرنا چاہیے۔ اس تجویز کا انھوں نے خیر مقد م کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس کا کسی کو خیال نہیں آیا تھا۔ وہ واپس جا کر حکومت ، پریس اور عوام کے سامنے یہ تجویز رکھیں گے تاکہ یہ ایک مطالبہ کی شکل اختیار کر لے۔ ہندوستان ایسی تجویز نہیں پیش کرسکتا اس لیے کہ اس کی قومی زبان ہندی جس کو یو این او میں تسلیم کرانے کی کوشش کے سلسلے میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ چند برس پہلے جتنا پارٹی کے فارن منسٹر باجپائی نے یو این او میں پہلی بار ہندی میں تقریر کی تھی ۔
۔۔۔ جن دنوں میں (مئی کے وسط تک ) اسپتال میں تھا تو تب ہی میں نے عمران خان کے زیر تعمیر کینسر اسپتال کے لیے نقوش ایوارڈ کی رقم دینے کافیصلہ کرلیا تھا اور چند دوستوں سے ذکر بھی کردیا تھا۔ اس میں میری پاکستان جانے کی معذوری کو کوئی دخل نہیں ہے۔ میرے بعض دوستوں نے کہا کہ مجھے تو خود علاج کے لے رقم کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت وہاں بھی ہے جہاں میرے لیے محبت کا دریا بہہ رہا ہے۔
۔۔۔۶۔ جنوری کو میرے دوست محمدعلی صدیقی کی بیٹی کے نکاح کی تقریب کراچی میں تھی۔ مجھے دعوت نامہ اور خط بہت تاخیر سے ملے۔ اگر ڈاک والوں نے اتنی روکاٹ نہ ڈالی ہوتی تو میں آپ سے درخواست کرتا کہ میری طرف سے بطور شگن پانچ سو روپے بھجوادیجیے ۔
۔۔۔ ہر ایک تخلیقی ادیب کی زندگی میں اس قسم کی فرسٹریشن کے لمحے آتے ہیں ۔ دراصل یہ حساسیت تخلیقیت کا ہی ایک حصہ ہے لیکن جن اہل قلم نے اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی وہ اپنی ازدواجی زندگی تباہ کر بیٹھے ۔ زندگی کی ذمہ داریوں سے بچنا غیر افادی ہے۔ ایک متوازن ذہن رکھنے والا فنکار اپنے بیوی بچوں سے بھی اتنا ہی پیار کرتا ہے۔ جن لوگوں نے یہ دونوں ذمہ داریاں نہیں نبھائیں ان کی تخلیقی سرگرمیوں پر بھی برا اثر پڑا۔ بصورت دیگر وہ کتنے بڑے بڑے شاہکار تخلیق کرسکتے تھے ۔
کرشن چندرنے اپنی پہلی بیوی ودیا کو چھوڑ کر سلمیٰ صدیقی کے ساتھ شادی کرلی جو بے حد خوبصورت تھی اور اہل زبان ہونے کے علاوہ ایک مشہور وممتاز اہل قلم باپ کی بیٹی ہے۔ پہلی بیوی ادبی ذوق نہ رکھنے کی وجہ سے اس (کرشن چندر)کے ساتھ ساتھ نہ چل سکی۔ دوسری بیوی ایک خاص ذہنی سطح سے اوپر نہ اٹھ سکی۔ نتیجتاً کرشن چندر ہمیشہ تشنہ رہ گیا یعنی ایک اچھی رفاقت سے محروم رہا۔ دوسری بیوی ، خوبصورت گڑیا زیادہ اور ’’ برین باکس ‘‘ کم تھی۔
۔۔۔ ا نوار احمد
احمد فراز ، یادوں کا ایک سنہرا ورق
مصنف : اشفاق حسین
ناشر : وجدان پبلی کیشنز ، کراچی۔
سال اشاعت : ۲۰۰۸ء
اشفاق حسین ، ٹورنٹو میں مقیم ایک ایسے پاکستانی تخلیق کار اور دانشور ہیں جو اپنے پیش قدم اور روشن خیال نقطہ نظر میں اپنی دل آویز شخصیت کا دھیمہ پن بھی شامل کر کے اپنی تحقیق اور تنقید کو ایک وسیع دائرے تک پہنچانے کا ہنر جانتے ہیں۔ فیض احمد فیض پر ان کی چارکتابیں اس کتاب سے اپنی جگہ اہم ہیں۔ ان کی ایک کتاب’’ احمد فراز :یادوں کا سنہری ورق ‘‘ تین برس پہلے چھپی تھی جسے کشور ناہید کے نام معنون کیا گیا۔
چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :
’’
۔۔۔کافی بنانے کے لیے پانی لینے جب میں واش روم گیا تو وہاں ان کے موزے گیلے پڑے ہوئے تھے جن سے پیشاب کی بو سی آرہی تھی اور شاید انھوں نے سکھانے کے لیے ڈالا ہوا تھا۔ اب مجھے کچھ کچھ اندازہ ہوا کہ انھوں نے دوپہر کے وقت صرف پیشاب کرنے کے لیے بیس پچیس منٹ کے قریب واش روم میں کیوں لگا دیے تھے۔ میں نے کافی میکر میں پانی ابالنے کے لیے رکھا اور واپس جا کر ان کے موزے دھوئے اور اس خیال سے کہ رات کو مشاعرے میں جانے تک شاید یہ موزے سوکھ نہ سکیں تو کمرے میں رکھی ہوئی استری آن کر کے اسے سکھانے لگا۔ فراز صاحب وہیں کرسی پر براجمان تھے، کہنے لگے کیا کر رہے ہو ؟ میں نے کہا موزوں پر استری کر رہا ہوں تاکہ جلدی سوکھ جائیں۔
انھوں نے جنرل ایوب خان کے حوالے سے ایک واقعہ سنایا جو ۱۹۵۸ء کے مارشل لاء سے متعلق تھا۔ کہنے لگے اس زمانے میں کراچی میں ملک ا شرف ایک بڑے بزنس مین تھے ، ان کے بھتیجے یا بھانجے نے مجھے بتایا کہ ان دنوں جنرل ایوب خان نے ملک اشرف سے ایک میٹنگ کی اور اس سے کہا کہ حکومت کی نیت کچھ ٹھیک نہیں لگتی۔ وہ شاید اس بار میری ملازمت میں توسیع نہ کرے تو میں سوچتا ہوں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی کاروبار کروں چنانچہ تم مجھے کوئی مشورہ دو ، ملک اشرف نے کہا کہ کاروبار کے لیے تو سرمایہ کار ہوتا ہے تم بتاؤ کہ تمہارے پاس کتنا سرمایہ ہے ؟ ایوب خان نے حساب کتاب لگا کر جس میں پراویڈنٹ فنڈ کی رقم اور دوسری جمع پونجی بھی شامل تھی، سب گن کر بتایا تو کل رقم تقریباً چار ساڑھے چار لاکھ روپے بنتی تھی۔( اس وقت یہ رقم بھی خاصی ہوا کرتی تھی ) ملک اشرف نے کہا یہ پیسے تو بہت کم ہیں۔ اس سے کوئی بڑی فیکٹری ویکٹری تو نہیں لگ سکتی البتہ ان پیسوں میں ایک کاروبار ہوسکتا ہے جو�آج کل بہت فائدہ مند ہے اور وہ کاروبار گارمنٹس ایکسپورٹ کرنے کا ہے۔ یورپ میں ہمارے ریڈی میڈگار منٹس کی بہت ڈیمانڈ ہے۔ ایوب خان نے کہا تو کیا میں کمانڈر انچیف بننے کے بعد اب کپڑے بیچوں گا ؟ فراز صاحب کہنے لگے: جب فوجی جنرل چھاؤنیوں سے نکل کر اقتدار کی چمک ودمک دیکھتے ہیں تو ان کے دماغ خراب ہوجاتے ہیں۔ وہ ایوب خان ہو ، یحیےٰ خان ہو ، ضیاء الحق ہو یا جنرل مشرف ، اقتدار ملنے کے بعد سب ایک ہی طرح کے ہوجاتے ہیں۔
اس نے چاہت کے عوض ہم سے اطاعت چاہی                                          ہم نے آداب کہا اور اجازت چاہی
ایک ڈاکٹر صاحبہ نے فراز کی نظم ’’کالی دیوار‘‘ کی فرمائش کردی۔ ڈاکٹر عبداللہ کو یہ نظم پوری یاد تھی۔ انھوں نے نظم سنانے سے پہلے اس نظم کی وجہ تخلیق بتائی کہ فراز صاحب جب پہلی بار واشنگٹن آئے تو ڈاکٹر عبداللہ ان کو شہر کی سیر کرانے لے گئے اور جب انھوں نے ویتنام میموریل دیکھا تو فراز صاحب پر ایک لمبی خاموشی طاری ہوگئی ۔ شام کو گھر آنے کے بعد انھوں نے کالی دیوار ‘ کے نام سے یہ نظم لکھی۔
شبلی نے بتایا کہ وہ کسی کو پہچان نہیں رہے ہیں مگر انھیں اس وقت بہت حیرت ہوئی جب انھوں نے دیکھا کہ اسٹریچر پر لیٹے ہوئے احمد فراز کی آنکھوں میں تھوڑی سی جنبش ہوئی اور انھوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنا ایک ہاتھ آہستہ سے اٹھایا۔ کچھ دیر تک وہ میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیے رہے جیسے کہہ رہے ہوں کہ اشفاق دیکھو میں نے ٹورنٹو آکر تم سے اپنا کیا ہوا وعدہ نبھا دیا۔ یہ اپنے دور کے ایک بہت خوب صورت شاعر سے میری آخری ملاقات تھی ۔ نمازِ جنازہ میں سب لوگ تھے۔
سفر طویل نہ درپیش ہو مسافر کو
جو نصف شب سے بھی پہلے جگا دیا ہے اسے
ایک بار ان سے پوچھاگیا تھا کہ ان کی پسندیدہ نظم اور غزل کون سی ہے تو انھوں نے محاصرہ والی نظم اور ’’ سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں ‘‘ والی غزل کو قرار دیا تھا۔ ۔۔۔ محاصرہ والی نظم کے پس منظر سے کون واقف نہیں لیکن پھر بھی ایک بار میں نے ان سے یوں ہی پوچھ لیا کہ کیا واقعی کسی غنیم وقت نے ان کو اس قسم کی سچ مچ کی دھمکی دی تھی یا یہ صرف زورِ تخیل والا معاملہ ہے تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ ویسے تو شاعری ہے ہی تخیل کی کارستانی لیکن اس نظم کے سلسلے میں یہ صرف تخیل والی بات نہیں ہے۔ واقعی مجھے اس قسم کا پیغام ایک بریگیڈئر کے ذریعے سے بھجوایا گیا تھا اور پھر اس کے بعد اسی نظام کا آدھا مصرعہ پڑھا کہ تمام صوفی وسالک ۔۔۔ اور پھر ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی دوڑ گئی :
سیاست کا لفظ ایک انسانی فریضہ ایک اخلاقی دار اور شعور وآگہی کے چشمے کا نام بھی ہوتا ہے۔ احمد فراز کی شاعری سیاسی شعور اور آگہی کے انھیں حوالوں اور جذبوں سے لبریز ہے۔ یہی سیاسی شعور اس کو ایک فرد ، ایک محلے اور ایک شہر یا ایک ملک اور اس کے لوگوں کے دکھ، درد کو سمجھنے اور سمجھانے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یوں ایک لکھنے والے کے یہاں سیاسی اور احتجاجی شاعری کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔
جب بھی میخانے بند ہی تھے اور وا درزنداں رہتا تھا
اب مفتی دیں کیا کہتا ہے موسم کا اشارا کیسا ہے
میخواروں کا پندار گیا اور ساقی کا معیار گیا
کل تلخی مئے بھی کھلتی تھی اب زہر گوارا کیسا ہے
ہمارے ہاں وزیر آغا صاحب ہیں اب ان کی اپنی شاعری کی سطح اتنی چھوٹی ہے کہ ان کو حق بھی نہیں پہنچتا کہ وہ شعر کے بارے میں مستند رائے یا سند نوازی سے کام لیں۔ ہمارے ایک بڑے ذہین شاعر مصطفی زیدی ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھا تھا کہ مجھے نقادوں نے نظر انداز کیا ہے حتیٰ کہ وزیر آغا نے بھی میرا ذکر نہیں کیا اور میں شاعری چھوڑتا ہوں۔
۔۔۔ یہ بات لیڈروں یا ڈکٹیٹروں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم تو دھیمے لہجے کے محبت بھرے شعر کہا کرتے تھے ۔ ’’اب کے بچھڑے ہیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں‘‘ لکھا کرتے تھے ہمیں کیا ضرورت تھی کہ ’’ محاصرہ ‘‘ اور ’’ پیشہ ور قاتلو ‘‘ جیسی نظمیں لکھتے۔ ہم تو دھیمے لہجے میں انسان دوستی کی بات کرتے تھے لیکن جب حالات بدلے تو جو محسوس کیا، وہ لکھا۔ معاشرے کا دباؤ جتنا بڑھتا ہے اتنی ہی آواز میں تبدیلی بھی آتی ہے اور چیخ بھی نکلتی ہے۔
عدو کے سامنے ہتھیار ڈالنے والا
کوئی فراز ساکافر نہیں تھا غازی تھا
مرنے سے مجھے کوئی ڈر نہیں لیکن کسی ملایا ڈکٹیٹر کے ہاتھ سے مرنا گوارا نہیں، دوست یار قتل کردیں تو اور بات ہے۔ ایک بار ہم ایک گاؤں گئے وہاں ہم نے ایک بی بی سے پوچھا کہ آپ نے قرآن پڑھا ہے تو اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا: تو بہ توبہ ہم کہاں قرآن پڑھ سکتے ہیں، یہ تو ہمارے پیر بابا ہی پڑھ سکتے ہیں۔ ‘‘
۔۔۔ایک تقریب میں ایک خاتون مجھے پان کھلانے پر بہت بضد تھیں تو میں نے انھیں بتایا کہ میں پان نہیں کھایا کرتا ۔ انھوں نے کہا کہ تم تو پان کھایا کرتے تھے ۔ میں نے کہا ہاں کھایا تو کرتا تھا مگر ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء، جب سے ڈھاکہ فال ہوا ہے اس دن سے میں نے پان نہیں کھایا کیونکہ پان سے میری ایسوسی ایشن مشرقی پاکستان سے تھی۔
۔۔۔ بہر حال وہ’’ اشتیاق‘‘ پرچہ تو ختم ہوگیا اور پھر اس کی جگہ’’ خادم ‘‘ نکلنے لگا۔ پہلے جو نکلاتا تھا وہ اپنی بیوی کے نام پر نکالتا تھا اور اب کہ جو فائی نینسر تھا اس نے اپنے ہی نام کا پرچہ نکلوایا ۔ اسے بھی کچھ شاعری کا شوق تھا ۔ اس نے ایک دن کہا کہ میرے لیے بھی ایک قطعہ لکھ دو۔ ہم نے لکھ دیا تو وہ اس کے نام سے چھپ گیا۔ اب وہ کہنے لگا کہ ہر مہینے لکھ دیا کرو اور میں تمہیں دس روپے اور دوں گا۔ تنخواہ تو ہماری سو ڈیڑھ سو روپے تھی ہم نے دھڑا دھڑ قطعہ لکھنا شروع کردیا۔ اس سے ہماراجیب خرچ نکل آیا کرتا تھا۔
سودا سے وہ بہت متاثر تھے اور صبا جوان کا ایک خاص سمبل تھا اور اپنی کتاب کا نام بھی انھوں نے پرانے شاعر سے لیا۔ خاص طور پر سودا سے بڑے متاثر تھے۔ ۔۔۔ وہ کہتے تھے کہ سودا میں بڑی زندگی تھی ، اس کی شاعری میں بھی زندگی تھی ، وہ مارکھا کے ایک کونے میں بیٹھ جانے والا آدمی نہیں تھا بلکہ وہ لڑنے والا آدمی تھا۔
۔۔۔ وہ خاک ہونے نہیں بلکہ خاک سے شرارے لے کر اٹھنے والے لوگوں میں سے تھے۔
۔۔۔ سرکاری نوکری ہے ۔ کہنے لگے بھئی ہم تو چاہتے ہیں کہ سی آئی ڈی میں بھی ہمارے آدمی ہوں ، امام مسجد بھی ہمارا ہو ، اگر تم نہیں جاؤ گے تو کوئی جماعت اسلامی والا آجائے گا یا کوئی گڑ بڑ قسم کا آدمی آجائے گا۔
۔۔۔ انوار احمد
زرگزشست
مشتاق احمد یوسفی کی سوانح عمری
آج ہم نے اپنا چہرہ دیکھا
بیگم بہت خوش خوش نظر آرہی تھیں۔ کچھ دیر بعد ہمیں کچے صحن میں لے گئیں اور کہا ’’ دیکھو آج میں نے دو ٹنکیاں پانی سے بھرلی ہیں ! بالکل موتی کی طرح! ڈھیروں کپڑے دھل جائیں گے۔ ‘‘ تین دن سے پانی بالکل بند تھا اور لوگ بُوند بُوند کو ترس گئے تھے۔ یہ دو ٹنکیاں انھوں نے برآمدے کے پرنالے کے نیچے رکھ کر پانی سے بھری تھیں۔ انھیں دیکھ دیکھ کر یہ بی بی اس قدر خوش ہورہی تھی گویا کوئی خزانہ مل گیا۔ یہ دکھانے کے لیے کہ دونوں لبَالَب بھری ہیں انھوں نے لالٹین اپنے چہرے تک اٹھائی تو مانگ میں ایک سفید بال نظر آیاجو اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پانی اولے کی طرح ٹھنڈا تھا اور موتی کی ماند جھلمل جھلمل کر رہا تھا۔ ہمیں اس میں اپنا چہرہ نظر آیا۔
مفلسی میں جُوتا گیلا
گھر کی ساری کائنات چار پائیوں پر محفوظ کرلی گئی تھی ۔ بچے ایلومینیم کی پتیلی کو تیر تا ہوا دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔ مٹی کے چولھے سے پانی ابل رہا تھا۔ دیکھا کہ آج پیروں پر ورم نہیں ہے۔ اتنی دیر ٹھنڈے پانی میں رہنے سے تلوے اتنے گورے ہوگئے کہ ہمیں شبہ ہونے لگا کہ کسی اور کے تو نہیں آگئے۔ سلوٹیں پڑنے سے ، بقول گڈومیاں ، کریپ سول بن گئے تھے۔ تھوڑی دیر میں نالا اتر گیا اور سارے گھر میں اجلی اجلی ملائم مٹی کی دبیز تہہ چھوڑ گیا۔ بچے اپنے ننھے منے پیروں کے نشان دیکھنے کے لیے اس پر خوب چلے۔ بالکل ایسے ہی بقدم خود نشان پلنگ کی چادر پر بھی تھے ، مگر وہ زیادہ واضح اور دیر پا تھے۔ سونے سے پہلے ہم نے دونوں جوتوں کو فیتے سے باندھ کر لالٹین کی گردن میں ہار کی طرح لٹکا دیا تاکہ صبح تک سوکھ جائیں۔
صبح ساڑھے چار بجے بجلی کے کڑکنے سے آنکھ کھلی تو کمرے میں چمڑا جلنے کی چراند پھیلی ہوئی تھی ۔ اٹھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ جو تا گلوب کے ٹوٹے ہوئے رخ پر تھا ، اس کی ایڑی کے اوپر کا پشتہ جل کر اب پشاوری چپل بن گیا تھا۔ ہم لالٹین اور جوتا بجھا کر ایسے سوئے کہ صبح پونے سات بجے آنکھ کھلی۔ اس وقت تک بیوی ہمارے کپڑوں پر استری کر کے اپنے اسکول پڑھانے جاچکی تھیں۔ کپڑوں پر ایک پرچہ رکھا ملا جس پرلکھا تھا کہ رات میں تمہیں بتا نہ سکی ۔ ڈاکٹر نے مجھے یرقان بتایا ہے خوا مخواہ ڈھیر ساری دوائیں اور انجکشن لکھ مارے ہیں۔ میں واپسی میں پاکستان چوک کے ہومیو پیتھ ڈاکٹر سے دوالیتی آؤں گی۔ زرد رنگ تمہارا فیورٹ (پسندیدہ ) رنگ بھی تو ہے۔
زخم کا سفر
جوتا ایسی چیز نہیں کہ زیور کی طرح مانگ تانگ کر پہن لیا جائے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ چپل پہن کر بینک جائیں اور تین دن بعد تنخواہ ملے تونیا جوتا خرید لیں۔ پھر خیال آیا کہ اگراینڈرسن پوچھ بیٹھا کہ آج انسپکشن ڈیپارٹمنٹ چپل پہنے کیوں پھر رہا ہے تو کیا جواب دیں گے۔ ایک دفعہ ایک افسر بینک میں بغیر ٹائی کے آگیا تو اینڈرسن نے اس سے پوچھا کہ آج کیا بینک ہالی ڈے ہے جو یوں ننگ دھڑنگ پھر رہے ہو ؟ اسی طرح ایک کلرک کا تین دن کا بڑھا ہوا شیو دیکھ کر دوّنی پکڑاتے ہوئے کہنے لگا کہ اپنا کیمو فلاژ منڈوا کر آؤ تاکہ چہرہ شناخت کر کے رجسٹر میں حاضری لگائی جاسکے۔
ذہن پر زور ڈا لاا تو اس کا حل بھی نکل آیا۔ چپل پہن کر ایک پیر پر پٹی باندھ لیں گے ۔ کسی نے پوچھا تو کہہ دیں گے، چوٹ لگ گئی ہے اور یہ کچھ ایسا جھوٹ بھی نہیں ۔ آخر اندرونی چوٹ تو آئی ہی تھی جس کے بارے میں حضرت نوحؔ ناردی سہلِ ممتنع میں فرما گئے ہیں :
جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے
ایک مونڈھے پر نیلے رنگ کا جھاڑن پڑا نظر آیا۔ اس میں سے ایک لمبی سی دَھجی پھاڑ کر پٹی باندھ لی۔ سہ پہر کو اینڈر سن کی نظر پڑی تو کہنے لگا کہ زخم پر کبھی رنگیں پٹی نہیں باندھنی چاہیے ۔ پک جاتا ہے ۔ خصوصاً برسات میں۔
دوسرے دن صبح دونوں کام پر جانے کے لیے تیار ہونے لگے تو بیگم دوپٹہ اوڑھے ہوئے کہنے لگیں کہ تمہارے ان لاڈلوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے اور کچھ نہیں تو کم بخت آدھا دوپٹہ ہی پھاڑ کر لے گئے ۔ ان کا دایاں کان ایک کھونتے میں سے باہر نکلا ہوا تھا۔
ہم نے پٹی بجنسہٖ واپس کردی اور جلد ی جلدی ایک پھٹے پاجامے کے لٹھے کی سفید پٹی باندھ کر بینک چلے گئے ۔ گیارہ بجے کسی کام سے اینڈرسن نے طلب کیا۔ واپس آنے لگے تو عینک کو ناک کی پھننگ پر رکھ کر اس کے اوپر سے دیکھتے ہوئے فرمایا JUST A MINUTE, TAMERLANE ۔تمہارے زخم نے چوبیس گھنٹے میں کافی مسافت طے کی ہے۔ دائیں سے بائیں پیر میں منتقل ہوگیا ہے !‘‘
اب جوہم نے نگاہ ڈالی تو دَھک سے رہ گئے ۔ افراتفری میں آج دوسرے یعنی بائیں پیرپر پٹی باندھ کر آگئے تھے۔
۔۔۔ شبنم شکیل
اقبال:ریلیجن اینڈ فزکس آف دی نیو ایج
غلام صابر کی انگریزی تصنیف ’’اقبال: ریلجن اینڈ فزکس آف دی نیو ایج‘‘ چھپ گئی ہے۔ کتاب کا اصل موضوع تصورِ زمان و مکان ہے جو مابعد الطبیعیات کا اہم ترین موضوع تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ پیچیدگی کے اعتبار سے غیر معمولی حد تک زیرِ بحث رہتا ہے۔
غلام صابر نے زیر بحث موضوع کے سلسلے میں حوالے کی بے حد بنیادی کتابوں تک رسائی حاصل کی ہے اور اس بحث کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جتنا یہ موضوع پھیلا ہوا ہے مصنف نے اُسی قدر اختصار سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔ میری رائے میں اختصار کی بجائے اگر تفصیل کی جانب توجہ دی جاتی تو قاری کے لیے اس ادق مسئلے کے مالہ،و ماعلیہ کو سمجھنے میں بہت سہولت رہتی۔ غلام صابر صاحب نے آئن سٹائن اور اقبال کو مرکزی اور محوری نقطہ خیال کرتے ہوئے پسِ منظر اور پیش منظر کو اجالتے ہوئے تصور زمان و مکان کی ارتقائی صورت بہت کامیابی سے بیان کی ہے اور اس کتاب کی اصل افادیت یہ ہے کہ انہوں نے موضوع کو عصرِ رواں سے ملا کر با معنی نتائج اخذ کیے ہیں۔
مصنف نے اقبال کے فکری سرمائے میں سے تصورِ زمان ومکان کے نشانات اٹھاتے ہوئے نثر اور شعر دونوں کو کنھگالا ہے اور بے حد کامیابی سے اقبال کے ہاں اس موضوع پر یہاں وہاں بکھرے آثار جمع کر لیے ہیں۔ مصنف نے درست طور پر اقبال کی فکر کو جدید فکر سے بھی اور قدیم اساطیری فکر سے بھی مربوط قرار دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اقبال نے سائنس اور تعقل کی دنیا میں تہلکہ مچا دینے والے نظریہ اضافیت پر بے حد اہم، وقیع اور حقیقت پر مبنی تبصرہ کیا۔
زیر بحث کتاب میں جن موضوعات کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ان میں کائنات ، کہکشائیں، کائنات میں توسیع کا جاری عمل، بلیک ہولز، فطرت کے قوانین، ذرات، وقت، کائنات میں انسان کا مقام اورر وح وغیرہ شامل ہیں۔
ان موضوعات کو الگ الگ زیر بحث نہیں لایا جاسکتا بلکہ یہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں اور ان پر گفتگو بھی اسی طرح یک جا صورت میں ہوسکتی تھی سومصنف نے اس اصول پر عمل کرتے ہوئے نتائج اخذ کیے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ زیر بحث موضوع پر یہ کتاب ایک کامیاب کوشش ہے مگر موضوع اس سے زیادہ بحث و گفتگو کو تقاضا کرتا تھا اور مصنف اس کی اہلیت بھی رکھتے ہیں، سو توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اس سلسلے کی دوسری کتاب بھی ضرور منظرِ عام پر لائیں گے۔ اقبال سے شغف رکھنے والے علما میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ زیر بحث موضوع پر بے حد کم لکھا گیا ہے اور بامعنی مطالعات اس سے بھی کم مقدار میں دستیاب ہیں۔ اقبال اکادمی نے اقبالیات کے قارئین کے لیے بہت وقیع کتاب شائع کی ہے جس پر وہ مبارکباد کی مستحق ہے۔
۔۔۔ ڈاکٹر راشد حمید
سرخ موسم (نثری نظمیں) ، کمہار کے برتن (نثری نظمیں )
شاعر : شاہد زبیر
سال اشاعت : ۲۰۱۱ء ، دستک پبلی کیشنز ، ملتان۔
شاہد زبیر ، ایک غیر معمولی شخص ہے اس کی۹ مذہبی اور ۷تخلیقی کتب شائع ہوچکی ہیں۔ اس نے نثری نظموں کے تازہ مجموعے ’کمہار کے برتن ‘کے دیباچے ’’مجھے کہنے دیں‘‘، میں لکھا ہے :
’’
آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ میر غالب پیدا ہونے بند ہوگئے ہیں۔ اب کہتے ہیں کہ نئی پیدائش بھی منع ہے کیونکہ تمہاری شکل میر سے نہیں ملتی۔ بہت شاندار نثر والے اب بھی زندہ ہیں۔ مغرب میں پابند نظم ویسے ہی ختم ہوگئی۔ وہاں ناول کا رواج ہے ، نثری نظم ہے۔ پھٹے پرانے لوگ جن کو وقت کے ساتھ چلنا نہیں آیا، اپنے روایتی تصورات سے مجبور ہو کر نئی نظموں کو نثری شعر کہنے لگے ہیں۔ جب نثر کی کوئی تفسیر ہی نہیں تو شاعری کی مفصل تفسیر کون کرے گا؟۔ صوت اور آہنگ کے دائروں میں سفر کرتے ہوئے عروض کی گدڑی پہنانے والے بتاتے کیوں نہیں کہ نثر اور نظم کے درمیان عروض کی حدِ فاصل کیوں ہے؟۔ روایت سے جڑنا لازم ہے۔ تو القائی نثر میں ، روایت حذف نہیں ہوتی۔ ۔۔۔ نئی باتیں جلد جگہ نہیں پاتیں۔ ایک دن آپ اسے اپنا ورثہ کہنے والے ہیں۔ مجھے تو نئی نسل اور اور نئی تعلیم وروشنی پر مکمل بھروسہ ہے ، نوجوان نسل تعلیم ، ہنر ، سماجیات میں بہت آگے نکل گئی ہے۔ یہ استفادہ ہمیں اب پہننا ہے ، برداشت کرنا بھی سیکھئے۔ ‘‘
اسی طرح نثری نظموں کے ایک اور مجموعے ’’ سرخ موسم ‘‘ میں سیدہ نگہت شیرازی کا دیباچہ شامل کیا ہے، اس کا ایک حصہ دیکھئے
’’
شاہد زبیر کو میں اس کے زمانہ طالب علمی ، ۱۹۶۷ سے جانتی ہوں۔ وہ ایک ہونہار طالب علم رہا جس نے بہت سی تعلیمی اسناد اعلیٰ میرٹ کے ساتھ حاصل کیں۔ وہ اس زمانے میں بھی ایک اعلیٰ درجہ کا لکھاری تھا یونین کا سیکرٹری تھا ، میگزین کا ایڈیٹر تھا، کرکٹ ٹیم کا پلےئر تھا۔ بہترین مقرر تھا۔ اخباروں میں اس کے مقالات ، شاعری اور کالم چھپتے تھے۔ ملک کے اعلیٰ ترین ادبی رسالوں میں اس کی کاوشیں شامل ہوتیں۔ ۔۔۔اتفاق زمانہ نے اسے بینکاری سے منسوب کردیا وہاں بھی اس نے جھنڈے گاڑے اور لوگ آج بھی بینکاری میں اسے ایک ذہن تسلیم کرتے ہیں۔ بینک میں ایک سازش کے بعد وہ کچھ دن جیل میں بند رہا تب میں اس سے ملنے امریکہ سے لاہورآ گئی تھی ۔ زندگی کے اس کٹھن وقفے میں اس نے قرآن ، حدیث، فقہ ، تفسیر ، تصوف کا علم حاصل کیا ۔ اس دوران اس نے دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ اس بار اس کی تحریریں دینی نوعیت کی تھیں،آج کل اس کے مضامین امریکی اُردو اخباروں میں بھی چھپ رہے ہیں۔ وہ ایک دو انگریزی روزناموں کے لیے بھی لکھتا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں اس نے کچھ لیکچربھی دئیے ہیں۔ یقیناًایک منفرد اعزاز ہے شاہد زبیر کل میرا دوست تھا۔ آج میرا فخر ہے۔ اس کی نظموں میں بے شمار چہرے، رنگ ، جذبے، تصویریں ، دکھ ، سکھ ، عفریت ، ان ہونیاں ، اسرار، محبتیں ، نفرتیں ، محرومیاں بھری ہیں۔ شاید ہی زندگی کا کوئی پہلو اس سے اوجھل رہا ہوگا۔ مشاہدے اورمطالعے سے بھرے ہوئے شخص کی وارداتیں نظموں کا روپ دھارے ، ہلا رہے دیتی ہیں، تڑپاتی ہیں ، الجھاتی ہیں ، مزا دیتی ہیں۔ ‘‘
مجھے یاد ہے کہ آج سے چالیس برس پہلے شاہد زبیر نے ایک خاتون کے عشقیہ مکتوبات مجھے دکھا کر تڑپا دیا تھا ۔ کافی دنوں بعد مجھے یاد آیا تھا کہ یہ مکتوبات اس کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے۔ خدا کرے اس مرتبہ سیدہ نگہت،شیرازی حقیقی شخصیت ہوں۔
۔۔۔ انوار احمد
سید سردار پیرزادہ کا ارتقائی سفر ’’صاف صاف ‘‘
’’
صاف صاف‘‘ سید سردار پیر زادہ کا ۳۲۸صفحات پر مشتمل پچانوے کالموں کا مجموعہ ہے ، جن میں اکیانوے کالم سیاسی، تاریخی اور تجزیاتی ہیں ، ان کالموں کا دورانیہ ستمبر ۲۰۰۷ء سے اکتوبر ۲۰۱۱ء تک کو محیط ہے ۔’’کیا آپ مصروف ہیں ‘‘یہ کالم برسوں کی تبلیغ پر حاوی ہے اور ’’ نجومی یا سیاستدان ‘‘ ان آٹھ ہزار اکتالیس لوگوں کی روداد ہے جو NRO ،جیسے نام نہاد مفاہمتی آرڈنینس کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مگن رہے اور ملک سسک سسک کر معاشی دیوالیہ پن کے قریب ہوتا چلا گیا۔
’’
صاف صاف‘‘ سردار احمد پیرزادہ صاحب کی پہلی کتاب ہے ، جس پر انگریزی میں ایک نوٹ لکھا ہوا ہے کہ ’’پاکستانی قلمکاروں میں پہلا نابینا صحافی‘‘۔ جناب منو بھائی نے بھی سردار احمد پیر زادہ کے نابینا ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’پاکستان کی قومی صحافت کے پہلے نابینا کارکن ‘‘ جبکہ جاوید چوہدری صاحب نے پیر زادہ صاحب کو اپنا راہنما اور محسن تسلیم کرتے ہوئے اپنے بارے میں انکشاف کیا ہے کہ ۱۹۹۴ء میں سردارپیرزادہ صاحب کی ترغیب و تحریک پر ہی انہوں نے کالم لکھنا شروع کیا تھا۔
فضل حسین اعوان صاحب نے چونکا دینے والا جملہ لکھا ہے کہ ’’سردار پیرزادہ بینائی سے محروم ہیں صرف اندھیرے اور روشنی میں فرق کر سکتے ہیں‘‘ مجھے نہیں معلوم اعوان صاحب کی ا س سے کیا مراد ہے لیکن میرے نزدیک سردار پیرزادہ کو اس مختصر سے تبصرے میں بہت خوبصورت خراج تحسین پیش کیا گیا ہے ۔ کیونکہ ہماری حالت صبح صادق اور صبح کاذب کے درمیان ہڑ بڑا کر اٹھنے والے اس شخص کی سی ہے جسے اندھیرے اور اجالے میں امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے ، ان حالات میں سردار پیرزادہ صاحب کا دم غنیمت ہے کہ وہ اندھیرے ،اجالے میں فرق کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔
ہم دراصل قحط الرجال کے دور سے گزر رہے ہیں،ملک،ادارے ،محلے اور گھر بڑ ے لوگوں سے خالی ہوتے جا رہے ہیں ، کوئی کسی کی سنتا ہی نہیں ، نہ کسی کو سنتا ہے ، معیار مادیت پرستی کے سامنے بونا دکھائی دینے لگا ہے۔ مسجدوں کے مینار تو ہم نے فلک بوس کر لئے، اقتدار کے ایوان بھی بلند و بالا بنا لئے مگر انسان پستی میں جاتا جا رہا ہے اپنے لئے استثناء تلاش کرنے والوں نے عوام کے لئے کچھ بھی نہ کیا ۔بڑے بڑے خورشید صفت آفتاب نا قدری کی دھند میں ہیں۔ کلفاں لگے شملے سوچوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ خوشامد رواج پا چکی ہے ، جی حضوری کا یہ عالم کہ کوئی اگر دنیا کے اس پار دوسرے سرے سے ہمیں پتھر کے زمانے میں بھیجنے کی دھمکی دے تو ہم بارہ ہزار میل دور بیٹھے تھر تھر کانپنا شروع کر دیتے ہیں ، توازن کھو بیٹھتے ہیں ، ہمارے محفوظ اور مضبوط ہاتھوں میں رعشہ طاری ہو جاتا ہے ، قومی حمیت اور اسلامی عظمت کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ، قوتِ اظہار اور جرأت انکار کا فقدان پیدا ہو گیا ہے ، اِن خزاں رسیدہ حالات اور جھلسے ہوئے ماحول میں ، سردار پیر زادہ صاحب کے کالموں کا مجموعہ ’’صاف صاف‘‘ تازہ ہو ا کے جھونکے کی مانند ہے، اس میں وہ جرأتیں ،جذبے اور ولوے موجود ہیں جن کی آج قوم کو ضرورت ہے ۔ مجھے حیرت ان احباب کی بصیرت پر ہے جنہوں نے سردار پیر زادہ کو بصارت سے محروم جانا ۔ ہم جو چیزیں عینک کے بغیر نہیں پڑھ سکتے سردار پیرزادہ وہ سار ا کچھ بغیر بینائی کے ’’صاف صاف‘‘ پڑھ لیتے ہیں۔ یہ کس طرح کی بے بصارتی ہے جو بصیرت کے چراغ روشن کئے ہوئے ہے۔ یہ کیسی کرامت ہے کہ راستہ دکھائی نہیں دیتا مگر قدم دھنک سے بھی آگے جا پڑے ہیں، حافظہ ا س قدر کہ بڑی بڑی کھوپڑیوں والے حیرت میں ڈوبے پڑے ہیں۔
ہم نے ایسی آنکھیں کیا کرنی جن پر خود غرضی کی عینکیں چڑھی ہوئی ہیں۔ وہ دوربینیں لگا کر بھی دیکھیں تو اپنے مفادات سے آگے دیکھنے کی سکت نہیں رکھتیں ، ایسی ہزاروں ،لاکھوں آنکھیں سردار پیرزادہ کی بے نور آنکھوں پرقربان۔
سردار پیر زادہ نے دراصل احساسات کو بینائی بنا لیا ہے ، وہ دنیاکو کمپیوٹر کی آنکھ سے دیکھتے ہیں ، ایف ایم ریڈیو ،سن رائز پر لائیو پروگرام کرتے ہیں، اینکر پرسن ہیں، کالم نگار ہیں ۔ اسلام آباد کے ایک انگریزی ماہنامے ’’داڈپلومیٹ ‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ مقتدرہ قومی زبان کے ’’اخبار اردو ‘‘ کے بھی مدیر و منتظم ثابت قدم اس قدر کہ گزشتہ بائیس برس سے سترویں گریڈ میں بڑے اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں ۔’’صاف صاف‘‘ میں درج ایک چینی کہاوت ہے کہ ’’ آہستہ آہستہ آگے بڑھنا بری بات نہیں رک جانا موت ہے‘‘۔
سردار پیر زادہ کا سفر بڑی جواں مردی اور ہمت سے جاری ہے ۔ انہوں نے سفید چھڑی کو مہمیز ،قلم کو تلوار اور احساس کو بصار ت بنا لیا ہے، ایسے ہمالہ صفت انسانوں کے سامنے اگر بلائیں بھولے سے آ بھی جائیں تو گھبرا کے راستے سے ہٹ جایا کرتی ہیں ۔
میں سید سردار پیرزادہ کی اگلی کتاب کا انتظار اس امید اور شدت سے کرو ں گاکہ نقش ثانی یقیناًنقشِ اول سے بہتر ہوتا ہے ۔ارتقاء کا تقاضا بھی یہی ہے۔
۔۔۔ جبار مرزا
اپنی اپنی صلیب
زیر نظر افسانوی مجموعہ ۲۰ افسانوں اور ۲ خاکوں پر مشتمل ہے ۔یہ افسانے جو ہندوپاک کے مؤقرجریدوں میں شائع ہو کر داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے عنوانات سے فرزانہ احمد کی شعوری کوشش اور عصری رویوّں کی نشاندہی ہوتی ہے۔بات یہ کہ افسانے کے مرکزی خیال کی بنیاد افسانہ نگار کے اندر کی سوچ کے تابع ہوتی ہے۔یہ بات پیشِ نظر رہے کہ افسانے میں اگر موضوع کے تعلق سے خانہ بندی اور اس کے بعد حد بندی کی جائے تو ابلاغ کا مسئلہ بھی حل ہوسکے گا اور اس طرح تخلیقی سیاق میں چُستی اور پُھرتی نظر آئے گی۔ اس مرحلے پر معاشرتی سیاق وسباق (soclological context)کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اورنسائیت (feminism) کی تحریک اپنا کرداراداکرتی ہے۔
بیسویں صدی میں جاگیر دارانہ نظام کے بعد صنعتی نظام نے نفسیاتی آویزش، عدمِ تحفظ اور خوف و دہشت کے علاوہ بے یقینی کی فضا سے ماحول کو بوجھل اور جاں گسل کردیا تھا۔اب اکیسویں صدی کا آغاز ہے ۔زندگی کی قدریں تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔معاشرہ اور وقت دونوں ہی تغیر اور غیرمتوقع حالات سے دوچار ہیں ۔عہد ساز تخلیق کاروں نے اپنے رویوں میں تبدیلی کی ہے جس کے لیے انھوں نے اسالیب ،ہیئت اور مروجہ ادبی اصول سے انحراف کر کے نئی روایات کے چراغ روشن کیے ہیں۔اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اُنھوں نے داستانی اسلوب کی جگہ انقلاب آفریں فکر سے قربت حاصل کر کے کلاسیکی رجحان کو نئے جامے پہنائے ہیں۔آج یہ سب کچھ زندگی میں شامل ہے اور زندگی وہی ہے جس میں زوال بشریت ایک بہت بڑا چلینج ہے۔ہم لوگ اپنے وجود کو زندگی کی گہری سچائیوں سے الگ تھلگ نہیں کر سکتے۔سماجی انصاف اور سماجی برابری کا فقدان سہی مگر زندگی کے بیشتر معاملات وسیع تناظر میں دیکھ کر ہی حل کیے جاسکتے ہیں۔یہاں میرے سامنے فرزانہ عقیل احمد کا افسانہ ’’ اپنی اپنی صلیب‘‘ ایسی ہی فضا لیے ہوئے ہے جس کے اختتام پر کردار کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں :
’’
میں نے سوچا ، یہاں ہماری زندگی بھی تو اُس ہائی وئے کی مانند ہے جہاں زندگی کی شاہراہ پر ہم چلتے رہتے ہیں ،دوڑتے رہتے ہیں بے حد مصروف اور اپنی دھن میں مست راہ گیر وں کی طرح جو ایک لمحے کے لیے ایک دوسرے سے ملتے ہیں ،ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں،مسکرا کرایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں پھر اپنی اپنی exit کا انتظار کرنے لگتے ہیں جو ہمیں ایک دوسرے سے دور تنہائی کے اُس بے کراں سمندر کی طرف لے جاتی ہیں جہاں ہم اجنبیت کا غلاف اپنے تن پر چڑھائے اپنے اپنے دُکھ کی صلیب اپنے کاندھوں پر اٹھائے اکیلے تنہا رہ جاتے ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے‘‘۔
فرزانہ احمد ایسی تخلیق کار ہیں جس نے حقیقت نگاری کو نئے العباد (dimensions) سے بہت قریب کردیا ہے۔ یہی اُن کی کامیابی ہے۔یہ کتاب نقش پبلیکیشنز ، کراچی نے شائع کی ہے۔
۔۔۔ عشرت رومانی
پیر سید رفاقت علی شاہ کا سفر زیاراتِ ایران
زیر نظر کتاب مخلصی فی اللہ، محبّ الفقراء علامہ افتخار احمد حافظ قادری کی پیر سید رفاقت علی شاہ مشہدی کاظمی قادری کی سفرِ ایران کی صورت میں وہاں پر مدفون اہلِ بیتِ اطہار اور بزرگان دین کے ذکر خیر پر ایک کامیاب کاوش ہے۔سفروسیلۂ ظفرہے۔دنیاوی اغراض و مقاصد کے لیے بھی ان میں کئی راہیں کھلتی ہیں مگر جب سفر کا مقصد ہی صوفیاء و صالحین کی بارگاہوں میں شرفِ بازیابی ہو تو پھر روحانی فوائد اور خزائن کس قدر دامن مراد میں میسر آئے ہوں گے اور آئینہ دل کس قدر نور عرفان کے جلوؤں سے منور و تاباں ہوا ہوگا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت بھی ساٹھ ہزار خانقاہیں اور مزارات موجود ہیں۔ روحانی تسکین اور ماہیتِ قلب میں ان کا مؤثر کردار ہر لمحہ پریشاں، منتشر الخیال اور عدم تحفظ کے ساتھ زندگی گزارنے والے لوگوں کو ذہنی یکسوئی اور سکون عطا کرتا ہے۔
راقم الحروف اور محترم حافظ صاحب جنوبی پنجاب کے ایک دورہ میں کچھ روز اکھٹے رہے۔جس ذوق و شوق اور انہماک سے وہ مزاراتِ اولیاء کے متلاشی رہتے ہیں۔میں نے خود بچشمِ خود بارہا اس کا مشاہدہ کیا ۔ آپ بڑے محنتی، خلیق، جہاں دیدہ اور متقی شخص ہیں۔ ان کا اُٹھنا بیٹھا، چلنا، پھرنا تعلیماتِ صوفیا ء کے حصول اور پرچار کے لیے وقف ہے اور یہ جستجو ان کے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے۔ آثار اولیاء تک رسائی کا جذبہ انہیں دُنیا کے بیشتر اسلامی ممالک میں لے گیا جہاں سے اُنہوں نے اپنی تسکین کا سامان اکھٹا کیا اور اپنے اَسفار کو اہل اللہ کے احوال و مناقب کے حصول کا ذریعہ بنایا۔
محترم حافظ صاحب نے زیارات اولیاء کے ہر سفر کو اہلِ محبت سے اُوجھل نہ رکھا بلکہ خوبصورت کتاب کی صورت میں انہیں بھی اس کاروانِ شوق میں ساتھ ساتھ شامل کیا۔مقاماتِ مقدسہ کی رنگین تصاویر اور نقشہ جات اپنے قارئین کو خیالوں کی دُنیا میں ان مقدس مقامات پر رسائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
۔۔۔ فقیر محمد طاہر حسین قادری
سی پی کے موتی
انیس خورشیدکو ایک دُنیا لائبریری سائنس کے حوالے سے جانتی ہے، پاکستان میں وہ جدید لائبریری سائنس کا بانی کہلایااور عالمی سطح پر وہ اس شعبہ میں پاکستان کی پہچان بنا، ادب کے حوالے سے بھی اُس کا ایک مقام رہا، برصغیر پاک و ہند میں اُس کے افسانے وہاں کے مؤقر جرائد میں باقاعدگی سے چھپتے رہے،اُس کے بعد یکے بعد دیگرے دو افسانے ’’بابو جی‘‘ اور ’’ کشتۂ محبت ‘‘ ۱۹۴۴ء میں چھپے جب وہ بیس سال کا تھا، اُس کی ایک ادبی تحریر ’’آپ سے ملئے‘‘، مطبوعہ ۱۹۴۶ء، وہاں کے ادبی حلقوں میں ایک عرصہ تک موضوع بحث بنی رہی، وُہ انجمنِ ترقی پسند مصنفین کی ناگپور شاخ کا ایک سرگرم رُکن رہا، خورشید منزل (اُس کا آبائی گھر) کی بیٹھک لکھاریوں کی تصویروں سے مزّین تھی اور اُس کا حلقہ کافی وسیع تھا۔
انیس خورشید کو سی پی کے موتی لکھنے کا خیال تو ناگپور میں ترقی پسند مصنفین کی بیٹھکوں کے دوران ہی آتا رہا لیکن حالات کے زیرو بم نے اُسے قلم نہ اُٹھانے دیا، اِس بیچ پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا، سی پی (ہندوستان کا سابق صوبہ، صوبہ متوسط و برار حالیہ مہاراشٹر) کے اکثرادیبوں نے پاکستان ہجرت کرلی اور انیس خورشید بھی بعدازاں (۱۹۴۷ء) پاکستان آ گیا اور پھر قسمت نے اُسے لائبریری سائنس کے شعبے سے وابستہ کر دیا لیکن ادب سے اُس کی وابستگی قائم رہی جو اُس کی لائبریری سائنس پر لکھی گئی تحریروں میں بھی جھلکتی ہے۔
آج اُسے ہم سے جُدا ہوئے تین سال ہو رہے ہیں تو اُس کی یہ آخری ادبی تحریر نامکمل ہی منظر عام پر لائی جا رہی ہے تاکہ ادبی حلقوں کو آگاہی ہو کہ ادب کے حوالے سے اُس پر جو قرض واجب تھااُس نے اپنے آخری وقتوں میں اُسے اُتار دیا اور لائبریری سائنس کے شعبہ کے علاوہ وہ ادب کے شعبے میں بھی سُرخرو رہا ، وُہ بھی سی پی کا ایک موتی تھاجو اپنی چھب دِکھا کر سی پی کے اور موتیوں کی طرح زمین کی تہہ میں چُھپ گیا۔
۔۔۔ قمر الدین خورشید
سریلی بانسری (لوک کہانیاں )
تحقیق و تالیف و تدوین : سجاد نعیم
دستک پبلی کیشنز ، ملتان
سجاد نعیم زکریا یونیورسٹی ملتان میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہا ہے’ اردو ناول کا انتقاد ایک تحقیقی مطالعہ ،اس سے پہلے لوک ورثہ اور اسی یونیورسٹی کے تعاون سے اس نے ایم فل کا مقالہ لکھا تھاجس میں دریائے چناب کے دونوں کناروں پر بسنے والے ملاحوں کے لوک گیت اور کہانیاں ہی جمع نہیں کی تھیں بلکہ ان کے رہن سہن کے حوالے سے بہت اہم معلومات جمع کی تھیں۔ ایک اور ریسرچ سکالر حماد رسول اور خاور نوازش ان کے اتحادِ ثلاثہ کے ارکان ہیں جو اس یونیورسٹی میں ’دبستانِ قاضی‘ کہلاتا ہے۔ اب اس نے شفیع عقیل، شاہد زبیر ، محمد اقبال جتوئی، بشیر احمد بلور ، احمد غزالی ، مقبول بیگ بدخشانی، عائشہ صدیقی، اعجاز احمد فاروقی، حمرا خلیق اور خود اپنے ایم فل کے مقالے سے چُن کر وہ لوک کہانیاں پیش کی ہیں جو سب کی سب اس سرزمین کی تو نہیں پر یہاں بسنے والوں کی تہذیبی یادداشت کا حصّہ ہیں۔ وہ اپنی دھن کا ایک پکا محقق اور تخلیق کار ہے۔ پنجابی اور اردو میں شعر بھی کہتا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ وہ اس طرح کے مفید کاموں کو کچھ وقت کے لیے مؤخر کر کے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کی تکمیل کرے گا۔
۔۔۔انواراحمد
عکاس انٹرنیشنل ، اسلام آباد
عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد سے شائع ہونے والا ایک ادبی کتابی سلسلہ ہے اور پیش نظر کتاب اسی سلسلے کا چودھواں نمبر ہے جسے ارشد خانم نے مرتب کیا ہے ۔ اس کتاب میں ڈاکٹر ظہورا حمد اعوان ، ڈاکٹر صابر آفاقی ، ڈاکٹر رؤف امیر اور ڈاکٹر افتخار نسیم کی وفات پر تاثراتی مضامین شامل ہیں جو اس جہانِ فانی سے کوچ کرنے والی ان شخصیات کی انمول یادوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ ماضی میں مختلف تعصبات کی بنیاد پر نظر انداز کیے جانے ادیبوں اور شاعروں کی فہرست میں میرا جی کا نام سرفہرست ہے۔ اس رویے میں ایک مثبت تبدیلی لانے کے لیے میرا جی کا مطالعہ خاص پیش کیا گیاہے جس میں میرا جی ، شخصیت اور فن کے حوالے سے ڈاکٹر رشید امجد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ قابل ذکر ہے۔ اسی سلسلے میں ڈاکٹر ناصر عباس نےئر نے میرا جی کی ایک نظم سمندر کا بلوا : ساختیاتی مطالعہ ، کے عنوان سے انتہائی خوبصورت تجزیہ پیش کیا ہے۔
دیگر مضامین میں ، املا میں الفاظ کی جداگانہ حیثیت سے انحراف ، پروفیسر غازی علم الدین کا ایک تجزیاتی مطالعہ ہے جو یہ دعوتِ فکر دیتا ہے کہ کسی زبان کے بولنے ، پڑھنے اور لکھنے کے طے شدہ قواعد وضوابط کو اختیار نہ کرنے سے اس زبان کو نقصان پہنچانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس مضمون میں کئی مثالوں کے ذریعے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ الفاظ کو ملا کر لکھنے سے کون کون سی الجھنیں اور معنوی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
۔۔۔عظمت زہرا
مہینہ وار ’’ ترجن ‘‘ نومبر ، دسمبر ۲۰۱۱ء
چیف ایڈیٹر : ڈاکٹر صغرا صدف
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج ، آرٹ اینڈ کلچر
پنجابی زبان ، آرٹ اور ثقافت کے فروغ اور ترقی کے لیے حکومت پنجاب نے (PILAC) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جو کہ پنجابی زبان وادب اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے بہت محنت سے کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کا مقصد پنجابی زبان کے لکھاریوں ، علم وثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے نام کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں روشناس کرانا ہے۔
مستقبل میں نہ صرف یہ ادارہ بلکہ اس کا مہینہ وار نمائندہ رسالہ ’’ ترنجن ‘‘ پنجابی زبان اور فن وثقافت کے فروغ میں نمایاں خدمات سرانجام دیتا رہے گا۔ پنجاب زندہ دل لوگوں کی دھرتی ہے۔ زرخیز زمینوں اور ذہنوں کا خطہ ارضی ہے۔ یہاں بہنے والے پانچ دریا اور انگریز دور کا بنایا ہوا دنیا کا بڑا نہری نظام اس دھرتی کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔
پنجاب کو صوفیاء کی زمین بھی کہا جاتا ہے۔ پنجاب کا مطلب پانچ دریاؤں کی سرزمین ہے پانی کا زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور روحانیت کا استعارہ بھی ہے اس سرزمین پر بہت بڑے بڑے صوفیاء کرام نے جنم لیا جو کہ آج نہ صرف ہماری پہچان ہیں بلکہ پوری انسانیت کا مان ہیں۔ ان صوفیاء کرام میں حضرت داتا گنج بخشؒ ، حضرت بہاء الدین زکریاؒ ، حضرت خواجہ غلام فریدؒ ، حضرت سلطان باہو ؒ کے نام نمایاں ہیں۔ ان صوفیاء کرام نے اپنے کلام کے ذریعے لوگوں کو ایک اللہ کی وحدانیت کا پیغام دیا اور لوگوں کو پیار محبت ، امن ، بھائی چارہ کاد رس دیا۔ ان بزرگوں نے جنگلوں ، صحراؤں میں اپنے ڈیرے جمائے اور آج وہاں انسانی تہذیب وتمدن اپنے پورے بام عروج پر ہے۔ انھیں بزرگوں میں ایک نام حضرت غلام فرید گنج شکر ؒ کا ہے۔ جن کی برکات سے ’’اجو دھن ‘‘ کا علاقہ پاک پتن کے نام سے آج کل پہچانا جاتا ہے۔ بابا فرید ؒ پنجاب کی دھرتی کے بڑے صوفی شاعر ہیں۔ جن کا لقب گنج شکر اور روحانیت کی اس شکر نے ان کے لہجے میں محبت کی مٹھاس بھر دی ہے جو کہ لوگوں کو اپنا گرویدہ کیے ہوئے ہے ، مٹھاس سے بھرے اس صوفی بزرگ ، صوفی شاعر پر ، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر نے خاص نمبر نکالا ہے ۔ جس میں ڈاکٹر صغرا صدف کا مضمون ’’ اٹھ فرید استیا ‘‘ کے نام سے ہے۔ جس میں بابا فرید کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس شمارے میں بشیر احمد شاد کا مضمون ’’ خواجہ غلام فرید ۔۔۔ نینگر روہی دا ‘‘ اس میں پنجاب دھرتی کے ایک اور عظیم صوفی بزرگ شاعر کا تذکرہ ملتا ہے۔
محمد حیات کا مضمون ’’ پکھی واس تے اوہناں دا شعری ادب ‘‘ پکھی واس یعنی خانہ بدوش جن کا کوئی مستقل وطن نہیں ہوتا آج یہاں تو کل وہاں۔ ان لوگوں کی بھی ایک خاص تہذیب وتمدن ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ان لوگوں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بہت سارا کام ہورہا ہے لیکن ہمارے ہاں پاکستان میں ان لوگوں کی طرز معاشرت پر کوئی کام نہیں ہوا۔ اس مضمون میں انھیں عوامل پر بحث کی گئی ہے۔
ہر قوم اور علاقے کے اپنے اپنے گیت ہوتے ہیں ، نت نئے نام اور گن بھی الگ ہوتے ہیں۔ دنیا کی پرانی تہذیبوں میں سے ایک تہذیب پنجاب کی ہے۔ یوں تو پنجاب کے ان گنت گیت ہیں۔ ان میں سے ایک گیت کا نام بولی ہے۔ سلطان کھاروی کا مضمون ’’ جوگی اتر پہاڑوں آیا ‘‘جس میں بولیوں پر بحث کی گئی ہے۔
جوگی اتر پہاڑوں آیا
سپ رنگی چھیٹ ویکھ
رانجھا کیل کے پٹاری وچ پایا
ہیر سیالن نے
نیلم احمد بشیر ، سلمیٰ اعوان ، محمود احمد قاضی کی کہانیاں، سلیم کاشر ، ماسٹر الطاف ، ڈاکٹر شوکت علی قمر کی غزلیں۔ اعزاز احمد آذر ، سلیم طاہر کی نظمیں بھی اس خوبصورت پر چے کا حصہ ہیں۔
۔۔۔ محمد انور سرور
ماہنامہ سنگت، کوئٹہ
زیر نظرماہتاک ’’سنگت‘‘ کوئٹہ سے عبداللہ جان جمالدینی کی سرپرستی میں دسمبر ۰۱۱ء کا شمارہ ہے ۔ یہ رسالہ ناصرف کوئٹہ بلکہ پاکستان بھر میں اشاعت علم اور فروغ فن میں متحرک کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان کی ثقافتی اور لسانی پالیسی کی واضح وضاحت کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمی ، ادبی اور عوامی حلقوں میں اس کو تائید اور پذیرائی مل رہی ہے اور مسلسل اشاعت کے پندرہ سال اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔
آغاز اشاعت میں اس مجلہ کے سامنے مشکل اہداف تھے جو رفتہ رفتہ اہل علم اور صاحبان دل کے تعاون سے آسان ہوتے چلے گئے اور بہت سے باذوق اور اہل علم و ہنر ، شاعر و ادیب ، تحقیقی، فکری اور احتراعی صلاحیتیں رکھنے والے لوگوں کی معاونت اس کے شامل حال رہی ہے ۔ فیض صدی کے حوالے سے اس رسالے میں بھی فیض کی شاعری ، وسعت فکری اور فنی کما ل کو ڈاکٹر علی کمیل قزلباش نے ’’ فیض احمد فیض کی شاعری فارسی تراکیب کے تناظر میں ،، کمال مہارت اور قرینے سے سمویا ہے ۔ انہوں نے فیض کی شاعری میں استعمال ہونے والی فارسی ترکیبات کے علاوہ فارسی اور اردو میں رائج انتہائی مروجہ اور روائتی الفاظ و تراکیب کا نئے اور مختلف معنوں میں استعمال سمجھایا ہے ۔ اسی طرح نظر ضمیر نے ’’ فیض احمد فیض بحیثیت انسانیت کے پیامر‘‘ میں فیض کی مختصر سی سوانخ عمری کے ساتھ ساتھ ان کے فن اور شخصیت کے روشن پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ۔اسی شمارے میں شائشتہ جمال ‘ کی آپ بیتی جو کہ ’’سرگزشت‘‘ کے عنوان سے ہے انتہائی خوبصورتی سے لکھی ہے جس میں انہوں نے اپنے سکول میں ملازمت کے دوران کے تجربات اور لوگوں کے رؤیوں اورتعلقات پر کمال مہارت سے روشنی ڈ الی ہے ،جدید سندھی ادب سے ’’منیر احمد مانک /جہانگیر عباسی کی تحریر ’’ اور وہ مر گیا‘‘ انتہائی توجہ کی حامل ہے جس میں سب سے بڑی سماجی بُرائی بے روز گاری کا نقشہ انتہائی مؤثر انداز میں کھینچا ہے۔
یہ مجلہ اردو کے علاوہ دوسری کئی پاکستانی زبانوں میں بھی مطالعہ ، ترجمہ کی مہارت نئے خیال کی تشکیل ، ترسیل اور ترویج کے لئے مؤثر کردار ادا کر رہا ہے ۔ یہ رسالہ مشاہیر کے تعاون سے قومی شعور اور قومی ثقافت کے باہمی ارتباط کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنا رہا ہے ۔ فکر انگیز مضامین اور ادبی فن پارے مذکورہ رسالے میں شامل ہیں ۔ جو کہ مختلف زبانوں ، لب ولہجے ،الفاظ و مہاورات اور مختلف فکر و خیال کے حامل ہیں۔ پاکستان کی ثقافتوں اورزبانوں کے حوالے سے اس ادبی رسالے نے اپنا نمایاں مقام بنایا ہے اور وہ موضوعات جو کئی عشروں سے اہل ذوق کو اپنی یک رنگی اور یکسانیت سے آزماتے تھے اس رسالے نے یقیناًانہیں کم اہم بنا دیا ہے ۔ مختلف نثر نگاروں ،شاعروں اور ادیبوں کے شاہکاروں سے سجا یہ شمارہ ادبی اور تخلیقی دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔اس رسالے میں نسبتاً غیر معروف شعرأ و اہل علم وہنر کے ساتھ ساتھ مشہور و معروف اور بہترین ادباء اور شعرأ کے خیالات اور شعری و نثری مجموعوں کو انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے ۔ کوئٹہ کی ادبی تاریخ میں یہ مجلہ ایک اہم کردار ادا کرتے ہوئے سوچ کے دھاروں کو بدلتے ہوئے نہ صرف کوئٹہ کے ادیبوں اور شاعروں کواپنی طرف متوجہ کر رہاہے ، بلکہ مختصر عرصے میں اردو کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں کے ادیبوں کو بھی مختلف شہروں اور علاقوں سے اکٹھا کر کے ترقی پسند ادب تخلیق کرنے کا موقع بھی فراہم کر رہا ہے ۔ نامور محقق اور مفکرعبداللہ جان جمالدینی کی سر پرستی اور مست توکلی کی طرح ہمہ وقتی عاشق ڈاکٹر شاہ محمد مری کی ادارت میں چھپنے والا یہ رسالہ بلاشبہ اردو ادب کی بہترین خدمت ہے جس کی قیمت صرف ۲۵ روپے جبکہ زر سالانہ صرف ۳۰۰ روپے ہے ۔اور یہ مری لیب فاطمہ جناح روڈ کوئٹہ سے بآسانی منگوایا جا سکتا ہے ۔
۔۔۔مبصر: شگفتہ طاہر