اس ماہ کی منتخب کتابیں
سائیں کمال خان شیرانی (عشاق کے قافلے ، نمبر ۱۴ (
مصنف : ڈاکٹر شاہ محمد مری
زیر اہتمام : سنگت اکیڈمی برائے سائنسز ، کوئٹہ ۔
ڈاکٹر شاہ محمدمری بولان میڈیکل کالج /یونیورسٹی میں ڈین ہیں۔ ایک کلینکل لیب بھی قائم کر رکھی ہے۔ مگر دنیائے فکر ونظر میں اس کا مقام اس وقت صف اول کے ان قلم کاروں میں ہے جس نے نہ صرف ’’سنگت‘‘ جیسا پاکستان کا ہفت زبان رسالہ شائع کیا ہے جو ہر اشاعت کے ساتھ سنور رہا ہے۔ عشاق کے قافلے کے نام سے پاکستان کی چودہ نظریاتی اور باکمال شخصیتوں پر کتابیں لکھ چکا ہے اور بلوچستان میں نوجوانوں سے لے کر بزرگوں تک کا وہ حلقہ قائم کردیا ہے جو اس وقت پاکستان کے ادبی اور فکری محاذ پر سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے عبداللہ جمالدینی کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے جن سے نیاز مندی کا مجھے بھی دعویٰ ہے۔ عشاق کے قافلے کے سلسلے کی چودھویں کتاب کامریڈ کمال خان شیرانی کے بارے میں ہے جس کے دیباچے میں ڈاکٹر شاہ محمد مری نے لکھا ہے کہ :
’’
مگر وہ عام لیڈر تو نہ تھا کہ یہ سب کچھ کرنے دیتا۔ کمال خان تو کچھ بھی نہ تھے سوائے اعلیٰ تعلیمات کے ، حسین نظریات کے اور ان نظریات پر استقلال کے ساتھ کھڑا رہنے کے۔ اس نے نقل کرنے کے لیے ، اپنی پیروی کروانے کے لیے ہمارے پاس اور کچھ چھوڑا ہی نہیں سوائے عملی انسان دوستی کے‘‘۔
ٍ اس کتاب کے چند اقتباسات دیکھئے :
سائیں کمال خان کوہِ سلیمان کے شمالی سرے پر چلغوزے اور زیتون کے جنگلات سے بھرے مون سونی علاقہ میں پیدا ہوئے۔ ژوب میں ، ژوب کے شیرانی قبائل میں ، شنہ پونگہ نامی گاؤں میں ۔۔۔۔۔۔ یہ سارا علاقہ شین (سرسبز) ہے۔ آپ کو بے شمار مقامات کے نام ’’ شین ‘‘ لفظ کے ساتھ جڑے ہوئے ملیں گے۔ یہاں کا چلغوزہ دنیا کا مشہور ترین چلغوزہ ہے۔ یہ مخصوص اور گراں بہا چلغوزہ صرف کوہِ سلیمان کے اس مخصوص حصے میں ہوتا ہے جو سائیں کمال خان کے قبیلے کی جائے سکونت ہے۔ اس کے لیے جو مخصوص بلندی ، آ ب وہوا اور ماحول کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے صرف یہیں میسر ہے۔ علاوہ ازیں زیتون ، کہو اور دیگر نباتات سے بھرے جنگلوں پر مشتمل یہ گردن اکڑائے ہوئے بلندو سربلند پہاڑ بہت ہی غربت زدہ ہیں۔ موسمِ بہار میں رنگ برنگ کے پھول پورے علاقے کو رنگے نکھارتے ہیں۔ ایسی ہوش ربا خوشبو فضا میں بکھری ہوتی ہے کہ جس کے بیان کے لیے مست توکلی جیسا دانشور چاہیے ہوتا ہے ۔ جگہ جگہ چشمے پھوٹتے ہیں اور پھر مون سون کی بارشیں ، لگتا ہے صرف اور صرف کوہِ سلیمان پہ عاشق ہوں ۔ ان زبردست بارشوں کا نتیجہ ایسا سبزہ ، ایسی سبزی کہ سائیں کبھی کبھی کہہ جاتے کہ ’’ خداسبز ے پہ عاشق ہے۔‘‘۔۔۔ہر گاؤں کے فہمیدہ انسانوں کی طرح صوفی بھی خبروں اور اطلاعات کے بھوکے تھے۔ ان کے گاؤں میں کوئی اخبار نہیں جاتا تھا۔ شہر آتے تو دوپہر میرے ساتھ گزارتے اور نئے پرانے سارے اخبار ایسے سمیٹتے جیسے قحط زدہ بلوچستان کی زمین بارش کی ایک ایک بوند جذب کرتی ہے(میں ژوب میں میڈیکل افسر تھا)۔ ۔۔۔۔۔۔کوئٹہ ۱۹۳۵ء کے زلزلے سے تباہ ہوچکا تھا اور کوئٹہ کا اچھا سکول قریب ہی واقع پشین منتقل ہوچکا تھا۔ ۔۔۔عبداللہ جان کمال خان اورخدائیداد خان پڑھا کو بچے تھے۔ یہ تینوں دوست باہم قریب تھے ۔ ان لوگوں کے بقول نہ صرف ان کا آپس میں تعارف ، بلکہ دنیا کے بڑے مفکروں اور فلاسفروں سے بھی ان کی شناسائی ، اقبال کی شاعری کے ذریعے ہوئی ۔ دراصل ان ’’ تین‘‘ کے درمیان دوستی کا بندھن اقبال کی شاعری ہی کی وجہ سے قائم تھا۔ ۱۹۴۱ء میں اسلامیہ کالج پشاور چلے گئے ۔ ان لوگوں کے ایک استاد کا نام تیمور تھا جس نے کمال خان اور عبداللہ جان پر خوب محنت کی، ایک اور اچھا استاد محمد موسیٰ کلیم تھا جس کا یہ شعر ہمیشہ ہمارے دونوں بزرگوں کی زبان پہ ہوتا تھا ؛
جی میں آتا ہے جلا دوں کوہِ طور کو
پھر خیال آتا ہے کلیم ؔ بے زباں ہوجائے گا
استاد تھے صاحبزادہ ادریس ۔صاحبزادہ ادریس نے انہیں گورکی اور گوئٹے پڑھوائے ، ہیگل واینگلز کی تصانیف دیں ، ارسطو افلاطون سے متعارف کرایا اور رسل وبرناڈ شاکا شوق دلوایا۔ ۔۔۔صاحبزادہ نے ان کی کایا پلٹ کے رکھ دی ۔ وہ خود بہت اچھے ناول نگار تھے۔ عالمی شہرت یافتہ ناول ’’ پیغلہ ‘‘ (دوشیزہ) انہی کی تصنیف ہے۔ علاوہ ازیں وہ بہت خوبصورت فلسفیانہ شاعری بھی کرتے تھے۔ ۔۔۔اس بڑے آدمی کے اثر میں آنے سے قبل عبداللہ جان باقاعدہ ملا بن چکا تھا۔ وہ معدے کی تیزابیت اور بے خوابی کا شکار ہوگیا تھا ۔ بے قراری ، اخلاقی ٹھیکیداری ، زہدوعبادت ۔۔۔۔۔۔ وہ تو پکا ملا بن گیا تھا۔ ۔۔۔پانچ برس تک نائب تحصیلداری کرنے کے دوران سائیں نے سماجی کرب کے بارے میں جو کچھ پڑھ رکھا تھا ، اب وہ ان کے سامنے رونما ہورہا تھا۔ اس نے ہر گھڑی محسوس کیا کہ عوام الناس دکھوں کے گڑھے میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اس نظام کیخلاف اتنی بڑی افسری کے باوجود کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ بلکہ الٹا یہ ا فسری اس نظام کو برقرار رکھنے میں مدد گار بن رہی تھی۔ ۔۔۔ کمال خان ہمارے خطے کے ان چند زیرک ودانا اور سچے انسانوں میں سے تھے جنھوں نے رونا دھونا اور زخم نمائی سے ہٹ کر برائی کے اس سارے نظام سے ٹکر لینے کا فیصلہ کرلیا ۔۔۔۔۔۔ اور وہ فیصلہ توازل سے موجود ہے ۔ آج بھی یہی سوال ، بقول نصرت صدیقی ہمارے سامنے ہے :
ایک ظلم کرتا ہے ، ایک ظلم سہتا ہے
آپ کا تعلق ہے کس گھرانے سے؟
دوستوں ،عزیزوں اور گھر والوں کی بے پناہ مخالفت کے باوجود کمال خان نے دوستوں میں طے شدہ منصوبے کے تحت سب سے پہلے نائب تحصیلداری کے عہدے سے استعفیٰ دیا ۔ کہتے ہیں کہ ان کا استعفیٰ سماجی ناانصافی کے خلاف ایک طویل احتجاجی مضمون کی صورت میں تھا۔ (میں نے بہت ڈھونڈا مگر اس استعفے کی کوئی نقل میسر نہ ہوسکی۔ کاش کہ یہ خوبصورت دستاویز مل جائے) ۔
کچھ عرصہ بعد نائب تحصیلدار عبداللہ جان جمالدینی نے بھی استعفیٰ دیا ۔ وہ استعفیٰ طویل مضمون کی صورت نہ تھا ۔ بہت مختصر الفاظ میں احتجاج کرتا ہوا استعفے تھا۔ اسے سائیں ہی نے لکھا تھا۔ کافی عرصہ بعد نائب تحصیلدار بہادر خان بنگلزئی بھی ملازمت سے مستعفی ہوا۔ وہ کوہلو میں متعین تھا۔ چنانچہ کتابوں کی ایک دکان کھولی گئی۔ کمال خان کے تخلیقی ذہن نے اس کا نام ’’ فی الحال اسٹیشنری مارٹ ‘‘ رکھا ۔ ۔۔۔اپنے نظریات کا پرچار کرنے کے لیے بلوچی زبان کے ادیبوں اور دانشوروں کی ایک تنظیم بنائی گئی : ’’ بلوچی زبان وادب ءِ دیوان ۔ اسی طرح لٹ خانہ کے احباب کے فیصلے کے مطابق پشتو کے ادیبوں شاعروں کی ایک تنظیم قائم کی گئی ، جس کا نام ’’ پشتو ٹولی ‘‘ رکھا گیا۔ یہ تنظیم پشتو زبان وادب کی خدمت ، تحفظ اور ترقی کے لیے قائم کی گئی ۔ ۔۔۔پہلے شمارے کاا داریہ ’’ حال احوال ‘‘ کے عنوان سے ہے جو سائیں کمال خان نے لکھا تھا (اس نے زندگی بھر بس یہی ایک اداریہ لکھا تھا ) ۔۔۔۔ لٹ خانہ کا یہ رسالہ اس قدر سنجیدہ ثابت اور مقبول ہوا کہ اس میں عبدالحئی حبیبی ، عبدالرؤف بینوا ، ہمیش خلیل ، مسکین درانی اور عبدالصمد اچکزئی بھی لکھنے لگے۔ اس ماہنامہ کا پہلا شمارہ اگست ۱۹۵۴ء میں چھپا ۔ یہ رسالہ روشن فکری اور ترقی پسندی کا گویا ترجمان تھا۔ پورے بارہ ماہ چلنے اور بارہ شمارے چھپنے کے بعد اگست ۱۹۵۵ء میں قربان علی اے جی جی کے دستخطوں سے اس پر پابند ی لگ گئی ۔ ۔۔۔ وہ سلیازہ میں اس لیے منتقل ہوئے تھے کہ وہاں شنہ پونگہ میں قبائلی دشمنیاں بہت تھیں۔ کمال خان قبائلی برادر کشی سے بہت نفرت کرتا تھا۔ اس نے نہ صرف اپنا آبائی علاقہ چھوڑا بلکہ وہ پوری زندگی قبائلی جھگڑوں کو بجھانے میں کوشاں رہا۔ ۔۔۔انھوں نے سکول کھولا اور خود ٹیچری شروع کی۔ وہاں ظالم طبقات کے خلاف ڈرامے بھی پیش ہوتے رہے ۔ پھر ایک ڈسپنسری بھی قائم کروائی۔ الغرض کمال خان اپنے معاشرے کے دماغوں سے کٹورے بالٹیاں بھر بھر کر جہالت چراتا رہا۔ ۔۔۔مست توکلی میری مدد کو آئے۔ مجھ میں دنیا بھر کی بہادری سمٹ آئی۔ میں ناقابل بیاں جرأت کا پیکر بنا۔ پتہ نہیں کس غیب سے بیک وقت کمیونسٹ کردار، بلوچی غیرت اور انسانی وقار کی ٹھاٹھیں مارتی موجیں موجزن ہوگئیں مجھ ناچیز میں۔ ۔۔۔ ملا کے پاس ایک بہت بڑی ہستی کامنبر تھا جسے اس نے ناجائز ہتھیا لیا تھا۔ ۔۔۔ جب محفل میں اس دوست کوکوئی جملہ بولنے سے قبل اپنا پورا جسم ہلاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ معصومیت کی حد تک کوئی احمقانہ بات ضرور کرنے والا ہے۔ ۔۔۔ ہرنیا کا آپریشن تو انھوں نے ہمارے سامنے عام سول ہسپتال کوئٹہ کے عام جنرل وارڈ میں کرایا تھا جہاں کے باتھ روم کی بدبو سمر قند وبخارا تک جاتی تھی ۔ ۔۔۔ ان کے کسی شرارتی مرید نے ان کی دو معصوم تصویریں اپنے موبائل سے اس وقت کھینچیں جب وہ جنگل سے جلانے کی لکڑیاں جمع کرکے پیٹھ پر لادے گھر آرہے تھے ۔ میری والدہ فوت ہوگئیں تو کمال خان نے فون پر تعزیت کی ۔ ’’ مائیں تو ہوتی ہی مرنے کیلئے ہیں ۔‘‘وہ ایک خوبصورت فقرہ کہتا : ’’ سچ صرف دو لوگ بولتے ہیں : یا زور آور یا پاگل ۔‘‘ اور جب ہم اسے یاد دلاتے کہ آپ تو خود سچ بولتے رہتے ہیں تو وہ پشتو میں یہ خوبصورت فقرہ بولتا؛ ’ ’ آخستہ یم ‘‘ (میری تو شامت آئی ہے) ۔ برائی کی جڑ روپیہ ہے۔ اور روپیہ کا فرمذہب سے ہے۔ روپیہ کومسلمان بناؤ سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔‘‘ ۔۔۔عوامی نظر آنے کے لیے چادر کندھے پر رکھ کر جئے ٹرائبل ازم کا عملی نمونہ بن کر جناح روڈ کے شمال وجنوب کا صفا ومروہ کرتے نظر آتے ۔ ۔۔۔سائیں دانشور کو ’’ دانشخور ‘‘ کہتا تھا۔ ۔۔۔وہ اس کنزیومر سوسائٹی سے سخت نفرت کرتا تھا۔ اس کی نظر میں یہ ’’"Throw away کلچر تھا۔ اس کا ایمان تھا کہ مشرق روحانی طور پر مغرب سے سیکڑوں سال آگے ہے۔ اس کا خیال تھا کہ مغرب کی سائنس وٹیکنالوجی کو مقامیائے بغیر نافذ کرنا تباہ کن ہوگا۔ وہ مغرب سے اپنی نفرت کے لیے اس موضوع پر اقبال کے سارے اشعار زبانی اور برمحل سنایا کرتا۔ ۔۔سائیں کمال خان کو اُردو بولنے والوں سے کچھ زیادہ امیدیں اور دوستی نہ تھی ۔ وہ اس زبان کو ایک رجعتی اور فیوڈل کلچر والی زبان سمجھتا تھا۔ ۔۔۔عبداللہ جان زبانوں والوں کے اوپری طبقے سے نفرت کے توحق میں ہیں مگر زبان کی دشمنی کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ مگر سائیں اُردو زبان کو محکموں پرحاکم اورحاکموں کے سامنے سجدہ ریزہ قرار دیتا۔ اس کے خیال میں یہ لکھنؤوالے ’’ صرف باتیں سناتے ہیں۔ ‘‘
۔۔۔ مبصر :انوار احمد
پاکستان کی سیاسی تاریخ ، پاکستان کیسے بنا ؟
مصنف : زاہد چوہدری
تکمیل وترتیب : حسن جعفری زیدی
زیر اہتمام : ادارۂ مطالعہ تاریخ
سال اشاعت : ۲۰۱۱ء
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شاید میری اپنی کتاب کے چھپنے کے دن قریب آگئے ہیں ۔ گزشتہ دو ماہ میں دو مرتبہ مجھے کسی اور کی کتاب پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے ۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ میری اس کتاب کے مبصر میرا کیا حشر کریں گے ۔ اس لیے اگر میر تبصرہ بے لاگ نہ لے یا میں بہکی بہکی باتیں کروں تو ازراہِ کرم برداشت کرلیجیے۔ نہ میری کوئی جماعت ہے نہ جانبدار جو مجھے بچالے ، دائیں بازو والے جیتیں یا بائیں والے ، مجھے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میں تو معدوم غیر جانبدار تحریک سے تعلق رکھتا ہوں، جس کا کیش تھا ترکِ رسوم۔ موجودہ، یعنی ، زیرِ نظر کتاب کے حق میں میرے دو تعصبات ہیں: اول یہ کہ کتاب اُردو میں ہے اور میں بھی اُردو ہی میں کتاب لکھنے کا حامی ہوں ۔ دوم یہ کہ مصنفوں نے حقائق کو جاننے کے عمل کو اولیت دی اور انہی کی روشنی میں اپنی آراء کو مرتب کیا ۔
چونکہ میرے مطالعہ اور تحقیق کا میدان تحریکِ پاکستان اور تاریخِ پاکستان نہیں رہا اس لیے میں اس کتاب میں درج معلومات کے بجائے اس کی تاریخ نگاری اور اس کے نظریات پر تبصرہ کروں گا ۔ میری گفتگو تین موضوعات پر مشتمل ہوگی :
اول یہ کہ اُردو میں کتاب ، بالخصوص ایسی کتاب لکھنے والوں کے کیا مسائل ہوتے ہیں خاص طور پر ایسی کتابیں جن کے موضوعات شاعری ، مقامی ادب اور اس کی تنقید نہ ہوں۔ دوم کہ اس کتاب کے مصنفین نے اپنے لیے کیا معیار مقرر کیے ۔ اور
سوم یہ کہ موجودہ کتاب اور پاکستانی معاشرے کے درمیان جو مکالمہ ہونے والا ہے اس میں کتاب اور پاکستانی معاشرے کے فریقین میں ممکنہ تعلق کیا ہوگا۔
اُردو میں لکھی گئی اچھی کتابیں اتنی کم بھی نہیں ہیں جتنی ہم بالعموم شکایت کرتے ہیں۔ تاہم ، ان ’اچھی‘ کتابوں کا بڑا حصہ اُردو ادب ، شاعری ، تراجم اور تنقید وغیرہ سے متعلق ہے۔ ایک اور اہم ذخیرہ مقامی یا علاقائی قبائلی اور برادریوں یا شہروں اور قصبوں کے معاشروں اور تاریخ سے متعلق ہے جن میں مخصوص گروہوں اور طبقوں کی دلچسپی کے موضوعات کو بیان کیا گیا ہے۔ ایسی تصانیف کو ’سنجیدہ‘ سماجی مفکر نہ صرف غیر اہم سمجھتے ہیں بلکہ ان کے غیر معیاری ہونے کی بھی شکایت کرتے ہیں۔ معاشرہ کے علوم سے متعلق اُردو میں لکھی گئی کتابوں کی ایک اور قسم ہے جو ان ’سنجیدہ ‘ سماجی عالموں کی نظر میں قابل استعداد ہیں۔ یہ وہ کتابیں ہیں جو نصابی موضوعات کے مطابق درسی خلاصہ کے انداز سے ، سوالاً ، جواباً یا نصابی ترتیب سے لکھی جاتی ہیں۔ انھیں بازاری کہہ کر رد کردیا جاتا ہے اور میرے جیسے اساتذہ اپنے ہونہار شاگردوں کو تلقین کرتے ہیں کہ ان کے قریب نہ جائیں۔ ان کے بعد ایک چھوٹی سی تعداد رہ جاتی ہے جسے معیاری تحقیقی قرار دیا جاتا ہے : عموماً ایسی کتابوں کو قاری نہیں ملتا کیونکہ اکثر ’ معیاری قاری ‘ انگریزی میں کتابیں پڑھنے کے روادار ہوتے ہیں۔ چونکہ انگریزی میں علم کی معیاری اور معقول خوراک بہ آسانی دستیاب بھی ہوجاتی ہے اور اس کو پڑھنے کے بعد محفل میں اس کا ذکر بغیر معذرت ، بلکہ فخریہ کیا جاسکتا ، چنانچہ کوئی ایسا شخص اُردو میں کتاب نہیں پڑھتا جس کے لیے انگریزی کی مدد سے لوگوں کو مرعوب کرنا ممکن ہو۔
انگریزی کا اکتسابی ذوق زیادہ لذت بھرا، زیادہ صحت بخش اور قابلِ نمائش ہوتا ہے ، اس لیے صرف چند ایسے قاری بچتے ہیں جو دید علوم کا انداز پسند کرنے کے باوجود، انگریزی پڑھنے میں دقت کی وجہ سے ، اُردو کی کتب خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ البتہ ، ایک آدھ ایسا سر پھرا ان کے ساتھ ہولیتا ہے جسے اُردو سے رومان کی حد تک لگاؤ ہو ۔ سائنس کے مضامین میں حال اس سے بھی ابتر ہے ، نئی تحقیق کو اُردو میں پیش کرنے کا مطلب ہے کہ آپ نے اسے قدیم عرب کی بیٹیوں کی طرح پیدا ہوتے ہی دفن کردیا ہے۔ سائنس کی کتب صرف نصابی ضرورت کے تحت اور وہ بھی بہ امرِ مجبوری، کمزور طالبعلم کو استعمال کی اجازت ہے ، تاہم ابتدائی تعلیم میں اس کا استعمال کسی حد تک قابلِ معافی سمجھا گیا ہے۔ سائنس کے علوم میں تو کسی اہلِ دل سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی تحقیق کو اُردو میں درج کر کے اس کا گلا گھونٹ دے لیکن تاریخ کے علم میں جعفر حسن زیدی صاحب جیسے چند مہربان ہیں جو ’ نیکی کر دریا میں ڈال‘ کے اصول پر ’تحقیق کر اُردو میں لکھ‘ کا طریق اختیار کرلیتے ہیں۔
اکثر اُردو کی ’اچھی ‘ کتابیں ایسے سوالات کا جواب دے رہی ہوتی ہیں جنھیں پوچھنے والے انگریزی کی کتابیں پڑھتے ہیں اور بالعموم اُردو کے قاری، جو کثیر تعداد میں موجود ہیں، ایسے سوال پوچھتے ہیں جن کے جواب اب اچھی کتابوں میں نہیں ہوتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ زیدی صاحب کی کتاب کسی حد تک پاکستانی قارئین کی ضرورت کو پورا کرتی ہے اسی لیے بیس سال کے قلیل عرصہ میں انھیں اس کی دوبارہ اشاعت کا اہتمام کرنا پڑ گیا۔ تقریباً اسی زمانے میں جب یہ کتاب پہلی مرتبہ چھپ رہی تھی استادِ محترم ڈاکٹر مشتاق گوراہیہ کے ساتھ ایک گفتگو میں انھیں نے مجھ سے پوچھ لیا کہ آپ اپنے طالبعلموں کو تاریخ نگاری کے کورس کے لیے کون سا متن پڑھنے کا کہتے ہیں۔ میں نے انھیں قدرِ بدتمیزی سے سمجھایا کہ ایم اے میں مجوزہ متن نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ دیر اور باتیں کرنے کے بعد انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ ان متعدد انگریزی کی’اچھی‘ کتابوں میں سے ، جو آپ نے اپنے کورس کے لیے طالبعلموں کو تجویز کی ہیں ، شاگردوں میں کون سی زیادہ مقبول ہے۔ میں نے شکایت کی کہ وہ تو کسی ماضی کے طالبعلم کے نوٹس کو فوٹو کاپی کر کے پڑھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے دھبے انداز میں پوچھا ’’ تو پھر آپ نے تعلیم دینے کے لیے کیا طریقہ سوچا ہے۔‘‘ میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی اورایک ہفتہ بعد میں نے تاریخ نگاری پر اپنی کتاب لکھنی شروع کردی ۔
میں گزشتہ بیس سال سے تحریکِ پاکستان کے محققوں سے درخواست کر رہا ہوں کہ مقامی آدمی یعنی ، ٹنڈوآدم ، کاہنا کاچھا ، نوشکی اور بنوں کے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے علاقوں کے مشاہیر اور باشندوں کا تحریکِ پاکستان میں کیا حصہ تھا۔ ان کے اس تجسس کی تسکین کے لیے تحریکِ پاکستان میں ان علاقوں کی کیفیت اور حصہ کے بارے میں تحقیقات کر کے کوئی بیان مرتب کرنا چاہیے لیکن وہ دہلی ، بنگال اورلاہور سے باہر نہیں نکلتے۔ میں خود اس اعتبار سے مجرم ہوں لیکن میں استدلال کرتا ہوں کہ آئندہ اُردو کے سنجیدہ محققین بھی تاریخ وتحریکِ پاکستان کے ان موضوعات کی طرف توجہ کریں جن کے بارے میں پاکستان کا عام آدمی جاننا چاہتا ہے۔ میرا روئے سخن ان تمام ممکنہ مصنفین کی طرف ہے جو معاشرے کے علوم ، بالخصوص علمِ آثار قدیم پر اُردو میں کتابیں لکھ سکتے ہیں۔
یہ جاننے کے لیے کہ زیرِ نظر کتاب کے مصنفین اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے ، میں آپ کی خدمت میں ان کی دونوں ایڈیشنوں کے دیباچوں کا جائزہ پیش کرتا ہوں تاکہ کتاب کا وہ حصہ جسے کم قاری پڑھتے ہیں آپ کے سامنے آئے اور متن کو پڑھنے کا لطف آپ خود حاصل کریں۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن ضیاء الحق کے دورکے فوراً بعد چھپا جبکہ دوسرامشرف کے چند سال بعد آرہا ہے۔ اس کے درمیان کے بائیس سال کے دوران پاکستان کے مختلف اصحابِ رائے کے دھڑوں میں ایک دوسرے کے معاملے میں تحمل میں کمی اور رویوں میں سختی پیدا ہوگئی ہے۔ اس کیفیت کا اندازہ دونوں دیباچوں کے پڑھنے سے بھی لگایا جاسکتا ہے حالانکہ یہ دونوں زیدی صاحب ہی کے قلم نے مرتب کیے ہیں۔ (ص ۱۰۔۹ اور ص ۱۵۔۱۱) ۔
یوں تو ہر ریاست درحقیقت نظریاتی ریاست ہی ہوتی ہے ، کہیں وہ نظر یہ مذہبی ہوتا ہے اور کہیں سیاسی یا سماجی ۔امریکہ اور برطانیہ کو اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اپنی جغرافیائی سرحدوں کے باہر کرنے کی ضرورت دو صدیوں سے محسوس ہورہی ہے۔ سرد جنگ میں Communism اور Capitalism کے درمیان جدال انہی مسائل کی وجہ سے بروئے کار آئے۔ ان نظریوں کی بنیاد پر بننے والی ریاستوں نے Ethno-national رنگ اختیار کیا چنانچہ وہ لسانی ، ثقافتی اور نسلی بنیادوں کے ساتھ معاشی نظریات کو مل کر اپنی اپنی ریاست کا جواز قائم کرتی ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت سامراجی طاقت نے ، جو خود کو Ethno-National بنیاد پر ہی شناخت کرواتی تھی، مذہب کی بنیاد پر دو قوموں کی تقسیم کو عملی ہےئت میں ڈھالا۔ اسی طرح جب ہم ہنٹ نگٹن کے تمدنوں کے ٹکراؤ کا ذکر کرتے ہیں تو ایک جانب غیر مذہبی شناخت کے ساتھ عیسائی تہذیب کے قالب میں ڈھالے ہوئے Secular وجود کو مغربی تمدن اور دوسری جانب مسلمان کی شناخت کے ساتھ تیل اور تجارت کے لیے اہم علاقہ کا مقابلہ سامنے آتاہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ Secularism کے مغربی علم برداروں کو اسرائیل کا مذہبی وجود نظر ہی نہیں آتا لیکن مسلمان ممالک میں اسلام کی جگہ ان کے Secular نظریات کی بنیاد پر بننے والے اداروں کے قیام کا مطالبہ ہے۔ اس کے پس پردہ یہ بات ہے کہ Secularism سے متعلق تمام معمولات یورپ کے عیسائی معاشرے کے درمیان رواداری پیدا کرنے کے لیے مرتب کیے گئے ، چنانچہ ان کی ہےئت مغربی تہذیب سے ماخوذ ہے جس میں رواداری کے معیار مسلمانوں کی تہذیب وتمدن سے بہت مختلف ہیں۔
جب کمیونزم اور سرمایہ داری کے درمیان سرد جنگ جاری تھی تو تیسری دنیا کے کچھ ممالک نے اس سے بچنے کے لیے غیر جانبدار تحریک شروع کی۔ بھٹو کے دور کے طلباء نعرے لگاتے تھے کہ ایشیا سرخ ہے ،ان کے مقابلے پر ایشیا کے سبز ہونے کے نعرے لگنے شروع ہوئے۔ میری ہمدردیاں اس جماعت کے ساتھ تھیں جو کہتا تھا کہ ایشیاء نہ سرخ ہے، نہ سبز ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آج اس جماعت کی قیادت کا خاتمہ ہوگیا ہے اور دنیا کے قائدین میں بھی غیر جانبداری کے لیے قافیہ تنگ ہوگیا ہے لیکن پاکستان کے عوام شاید کسی غیر جانبدارانہ قیادت کی تلاش کر رہے ہیں۔ ان کو ایسی قیادت چاہیے جو یہ ’’ پوچھے کہ مدعا کیا ہے ‘‘ نہ کہ ایسی قیادت جو غالب کے دوستوں کی طرح ناصح بن کر سبق سکھائیں اور اپنا شعار ترک کرنے کی تلقین کریں۔ ہمیں ضرور انسانیت کی مجموعی یادداشت اور عالمی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور دوسروں کے تجربہ سے استفادہ کرنا چاہیے لیکن یہ اسی حد تک مناسب ہے جس حد تک یہ ہماری تہذیبی بنیادوں سے متصادم نہ ہو۔
شاید پاکستان کے عوام اب ہمیں بتانے کے لیے تیار ہیں کہ انھیں صوفیانہ تحمل کس معاملے میں مناسب نظر آتاہے اور کس معاملے میں وہ بنیاد پرستون کے حامی ہیں۔ کہاں انھیں جدت اور ترقی پسند رویے قابل قبول ہیں اور کن معاملات میں اپنی قدیمی روایات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ کب کب وہ اپنی تہذیبی اساس کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کریں گے اور کیسے کیسے وہ اس میں ترمیم کرنے کی صلاحیت اور رجحان رکھتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کا وژن مسلم لیگ کی اس قیادت سے ہم آہنگ ہے جس نے پاکستان بنایا اور دورِ حاضر کے جدید تقاضوں اور زمینی حقائق نے اب ان کے اجتماعی اور ریاستی وژن کو کس شکل میں ڈھالا ہے جس کے تحت یہ ایک قوم بن سکتے ہیں۔
زیدی صاحب کی بہت سی باتوں سے اتفاق کے باوجود ان کی ایک بات سے میرا شدید اختلاف ہے۔ ان کے بقول تاریخ ایک سائنس ہے اور اس کا مطالعہ معروضیت پر مبنی ہونا چاہیے۔ نہ ہی میں تاریخ کوسائنس تسلیم کرتا ہوں نہ ہی اس کے مطالعہ کے معروضی ہونے کے امکان کا قائل ہوں۔ انسانی معاملات انسانی جذبات سے عاری نہیں ہوسکتے اور تاریخ کا مشاہدہ کرنے والا ہر فرد، حتیٰ کہ کیمرے کی آنکھ بھی ، ایک نکتہ نظر پیش کرتی ہے۔ ہرانسان اپنی ذات کے موضوعی پہلوؤں کی قید میں ، اپنے دور، پیشے اور رتبے کے اثر کو ختم نہیں کرسکتا۔ ہاں اس موضوعیت کا ایک درجہ ایسا ہے کہ جس سے حقیقت کا چہرہ مسخ ہوجاتا ہے ، اس سے گریز لازمی ہے۔ اس کا بہتر امکان [میری رائے میں ]تب ہوتا ہے جب انسان اپنے تعصبات کو تسلیم کرے اور ان کے ممکنہ موضوعی اطلاق پر کڑی نظر رکھے تاکہ حقیقت کا معقول عکس اس کی تحقیق اور اس کے بیان میں نظر آئے ۔ چونکہ زیدی صاحب نے حقائق کے بیان کو بنیادی اہمیت دی ہے اس لیے اس میں کسی بڑی غلط فہمی کے امکانات کم ہیں۔
اپنے پہلے دیباچے میں ان کے خیالات بھی میری رائے کے قریب ہی نظر آتی ہیں۔ ان کی اور میری رائے کے درمیان فرق صرف اس غصہ کا رہ جاتا ہے جو ان کے نئے دیباچے کی روح سے ’نام نہاد ترقی پسندوں‘ کے خلاف کم اور ’نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ‘ کرنے والوں کے خلاف کافی بڑھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔حالانکہ میں ایک درجہ ہمدردی ان کے ساتھ بھی رکھتا ہوں لیکن میری رائے میں تاریخی عمل کے کردار اپنے اپنے نظریاتی ، معاشرتی اور معاشی حالات کے تحت ایک تاریخی جبر کا شکار ہوتے ہیں۔ زاہد چوہدری صاحب اس جبر کی تلاش میں نکلے تھے اور زیدی صاحب کے پہلے دیباچے میں اسی جبر کا ذکر موجود تھا، لیکن شاید دورِ حاضر کے پاکستانی خواص پر اس کے مذہبی، علاقائی اور طبقاتی خول کو دیکھنا اتنا آسان نہیں جتنا ساٹھ ستر سال پہلے کی تاریخ میں انھیں تلاش کرنا تھا۔
اس کتاب کے ساتھ پاکستانی معاشرے کے مکالمے میں تین فریق مصنف کے کام کا جائزہ لیں گے۔ دراصل یہ دو فریق ہیں جن میں ایک کثیر جماعت ہے اور دوسرا خواص کا ایک چھوٹا مگر بہت نمایاں طبقہ ہے جو نمایاں طور پر دو متضاد ذیلی گروہوں میں بٹا ہواہے۔ یہ خواص کے دونوں گروہ مزید متعدد ذیلی گروہوں کی صورت میں تقسیم ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں۔ ان کا جھگڑا جس جائیداد پر ہے وہ خطہ پاکستان اور پاکستانی عوام ہیں۔ زیدی صاحب کی کتاب کو پاکستانی عوام توجستہ جستہ گویا اپنی دلچسپی کے چند حصوں کو پڑھیں گے لیکن خواص شاید مکمل کتاب کو پڑھیں۔ بہر حال خواص خواہ مکمل کتاب پڑھیں یا اپنی دلچسپی کے حصے ، ان میں سے اکثر کو اسی ایک تحریر میں مخالف دھڑے کے مقابلے میں مختلف کتابیں ملیں گی۔ ایک دھڑا کتاب کے ایک حصہ کی تائید اور تعریف کرے گا اور دوسرے حصے کی تردید وتنقید ،باقی تمام دھڑے دوسرے کی مخالفت کریں گے۔
۔۔۔ مبصر: خرم قادر
فیض : یادیں ، باتیں
مصنف : احمد سلیم
زیر اہتمام : سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور۔
سال اشاعت : ۲۰۱۱ء
احمد سلیم معروف ترقی پسند دانشور ہے جس نے اُردو اور پنجابی میں بے مثال کام کیا ہے۔ ایسے موقع پر جب فیض احمد فیض کے حوالے سے بہت ہی قابل قدر کتابیں شائع ہوئی ہیں اور مقتدرہ قومی زبان نے بھی صدر مملکت کے ایماء پر فیض احمد فیض کی ایک مستندسوانح عمری لکھنے کا کام جناب سید مظہر جمیل کے سپرد کیا ہے جنھیں احمد سلیم نے اپنے نوادرات فیض کا ایک حصہ پیش کیا ہے۔ احمد سلیم کی کتاب ’’فیض: یادیں ، باتیں ‘‘اور جس کا ذیلی عنوان فیض کا یہ لازوال مصرعہ بنا ہوا ہے : ’’کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں ‘‘ایک قابل مطالعہ کتاب ہے جسے سنگ میل، لاہور نے شائع کیا ہے۔کتاب کا انتساب پابلونرودا اور ناظم حکمت کے نام ہے جن کے ۱۱ ابواب ہیں اور دودستاویزیں بطور ضمیمہ شامل ہیں۔ اس کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں :
’’
فیض صاحب کلاسیکیت اور جدت کے خوبصورت سنگم کا نام ہی نہیں بلکہ وہ ایک ’’ فکر‘‘ کا نام بھی ہیں۔ مقتدرہ طبقہ بھی ان کی باغیانہ روش کے باوجود انھیں اپناتا ہوا نظر آتا ہے۔ مجھے فیض کے گرد ان لوگوں کا ہجوم بڑھتا نظر آرہا ہے جن کے استحصالی کردار کی فیض نے زندگی بھر مذمت کی ۔ ۔۔۔فیض صاحب نے پاکستان واپس آکر کراچی میں رہائش اختیار کرنا تھی۔ اس سے قبل وہ ، اپنی دوسری رہائی کے بعد لاہور آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے لیکن یہاں بھی انھیں چین سے بیٹھنے نہ دیا گیا ۔ انھوں نے اپنے تئیں لاہور آرٹس کونسل کو بنانے سنوارنے میں کافی اہم کردار ادا کیا لیکن مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان کو اس ’’ کنجر خانے ‘‘ کی تعمیر وترقی سے نفرت تھی اور وہاں فیض کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن ایک دن اچانک وہ وہاں سے رخصت ہوگئے ۔ ۔۔۔۔۔۔۱۹۶۲ء میں ہی میں کراچی پہنچ گیا۔ رئیس امروہوی میری نظموں، غزلوں کی اصلاح کرتے تو وہ اس قدر تبدیل ہوجاتیں کہ مجھے اپنی نہ لگتیں۔ ۔۔۔کالج میں میرا معمول تھا کہ ہر کلاس سے پہلے اور بعد میں ، میں فیض صاحب کے کمرے کے گرد چکر لگاتا اور جب فیض صاحب کمرے سے اٹھ کر جاتے تو میں فوراً کمرے میں داخل ہو کر ان کی ردی کی ٹوکری سے تمام مڑے تڑے کاغذنکالتا اور انھیں ساتھ لے آتا۔ گھر پہنچ کر ان کاغذوں کو سیدھا کرتا، ان میں سے کئی بار فیض صاحب کے ہاتھ سے لکھے ہوئے کاغذ ملتے جو کسی خط کا ڈرافٹ ، کوئی نوٹ یا اسی طرح کی کوئی چیز ہوتی۔ کئی ماہ تک میں نے یہ پریکٹس جاری رکھی اور اس طرح اچھی خاصی دو تین فائلیں بن گئیں جن میں بعض تحریریں واقعی دستاویزی اہمیت کی حامل تھیں۔ کچھ رف مسودے تو کالج کے معمولات سے متعلق ہوتے لیکن ان میں سے کئی ایک ملکی یا غیر ملکی ڈاک کا حصّہ ہوتے۔ ۔۔۔ دو تین برس بعد ایک بار میں نے مرزا ظفر الحسن مرحوم سے ان رف مسودہ کا ذکر کیا ۔ وہ انھیں فوراً ہتھیانے کے لیے میرے پیچھے پڑگئے۔ ۔۔۔مرزا ظفر الحسن فیض صاحب کے اعلیٰ درجے کے ریکارڈ کیپر کے طور پر مشہور ہیں۔ میرا خیال تھا ، وہ اس امانت میں خیانت نہیں کریں گے لیکن نہ صرف انھوں نے وہ کاغذات تلف کردئیے یا کسی طرح ان سے تلف ہوگئے ۔ ۔۔۔۔۔۔میں نے کچھ وضاحت کرنا چاہی تو اشارے سے روک دیا اور بولے ’’ کبھی کسی بات کی وضاحت مت کرو ، دوستوں کو اس طرح کی ضرورت نہیں ہوتی اور مخالف اسے مانیں گے نہیں ۔ ‘‘۱۹۷۱ء کے وسط میں ، میں خود بھی بنگالی عوام کی حمایت کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔ بعدازاں مجھے چھ ماہ بامشقت ، پانچ کوڑوں اور دو ہزار روپئے جرمانے کی سزا سنائی گئی ۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید تین ماہ قید بھگتنا تھی ۔ ۔۔۔جیل کے حکام کو میں نے درخواست دی تھی کہ مجھے رہائی کے وقت کوڑے لگائے جائیں تاکہ رہائی کے بعد میں اپنا علاج کراسکوں۔ یہ درخواست منظور ہوگئی تھی اور اب میرا ارادہ تھا کہ اگرچھ ماہ پورے ہونے کے بعد بھی مارشل لاء کی حکومت کا خاتمہ نہ ہوا تو میں جرمانے کی بجائے مزید تین ماہ جیل میں گزاروں گا تاکہ کوڑوں کی سزا کو مزید پیچھے دھکیلا جاسکے لیکن فیض صاحب نے اس خط کے ساتھ جرمانے کی رقم بھجوا دی تھی۔۔۔جنوری کے پہلے ہفتے میں مجھے رہائی ملی ، کوڑوں کی سزا ختم ہوگئی۔۔۔سٹینڈنگ کمیٹی ، جو بعدازاں فیض کلچر کمیٹی کے طور پر مشہور ہوئی ،نے کراچی ، لاہور ، حیدر آباد، ملتان، ڈھاکہ ، چٹاگانگ ، راجشاہی ، پشاور اور راولپنڈی میں کم وبیش چوہتر اجلاس منعقد کیے ، فن وثقافت سے متعلق لگ بھگ تین سو شخصیات کے انٹرویوز کیے اور ملک بھر کے تینتیس ثقافتی تنظموں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں۔ ۱۶۰صفحات پر محیط یہ جامع رپورٹ، جو فیض کلچر رپورٹ کے نام سے مشہور ہے ، جلد ہی ملک کی سیاسی اتھل پتھل کی نذر ہوگئی۔ ۔۔۔۔۔۔فیض صاحب کو فوک اور ریسرچ سنٹر کا ہر رکن پیشگی اجازت کے بغیر مل سکتا تھا خصوصاً نچلے درجے کے سٹاف کو یہ پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں تھی کہ فیض صاحب کتنے مصروف ہیں اور ان کے پاس کوئی معزز مہمان بیٹھا ہوا ہے یا نہیں ۔مثلا سوہنا مسیح صفائی ستھرائی کا کام کرتا تھا۔ فیض صاحب کا کمرہ ، ان کے آنے سے پہلے اور ان کے جانے کے بعد اکثر اس کی دسترس میں ہوتا تھا لیکن دن کے دوران ، وہ کسی نہ کسی کام سے ان کے کمرے میں جاسکتا تھا۔ وہ فیض صاحب کا پجاری تھا لیکن ’’گوری میم ‘‘ (ایلس فیض ) سے اسے بعض شکایتیں تھیں اور وہ اس بات کا جا بجا کھل کر اظہار بھی کرتا تھا۔ اسے شکوہ تھا کہ گوری میم نے ’’ اس ‘‘ کے فیض صاحب پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ فیض صاحب لوک فنکاروں اور گائیکوں کی بے حد قدر کرتے تھے اور وہ سروے ٹیم کے ارکان کو ہدایت کرتے تھے کہ فنکاروں کا احترام ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھیں کیونکہ ہمارا وجود اور بقاء ان فنکاروں کی وجہ سے ہے ، فنکار ہماری وجہ سے نہیں ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ بھیرے کی ایک لوک گائیک کو جب سروے ٹیم کے ایک رکن نے اس کے گھر میں فیض صاحب کی طرف سے پیسے دیے تو وہ دیکھ کر پریشان ہوگئی اور اپنے سادہ دیہاتی لہجے میں کہنے لگی کہ اتنے پیسے دیکھ کر اس کا شوہر شک کرے گا ۔۔۔۔ میں بھی ایک ایسا ہی انھیں چاہنے والا عام آدمی ہوں جسے فیض صاحب جیسی عظیم شخصیت کا قرب نصیب ہوا۔ محرومیوں سے بھری زندگی میں ، زندگی کی یہ عنایت سب سے بڑی ہے۔ ۔۔۔ فیض صاحب کے سامنے میں اکثر گنگ رہ جاتا ہوں ۔ اس وقت سے ، جب میں ہارون کالج کراچی کا ایک طالب عالم تھا اور اپنی نظموں پر نظر ثانی کے لیے ان کے پاس جایا کرتا تھا، اٹھارہ انیس سال بعد بھی میں ان کے سامنے ویسا ہی چھوٹا سابچہ بن جاتا تھا۔ ۔۔۔ یاد دلائی تو فیض صاحب بتانے لگے : بھئی اُردو کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ پاکستان بھر کے لوگوں کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اسے کوئی ختم نہیں کرسکتا،نہ کرنا چاہتا ہے لیکن دوسری زبانوں کا بھی حق ہے ۔ ‘‘ ۔۔۔ ہاں، اُردو کے معاملے میں سب زبانی جمع خرچ ہوتا ہے۔ ہر پانچ سال کے بعد اعلان کردیا جاتا ہے کہ فلاں سن میں اُردو کو سرکاری دفتروں میں نافذ کردیا جائے گا لیکن خود اُردو کے لیے بھی کوئی مخلص نہیں ہے۔۔۔۔۔۔’’ بھئی ان سے کہو ، پہلے کوئی شعر تو کہہ لیں ڈھنگ کا ۔ شعر لکھنا شروع نہیں کرتے اور پیش لفظ کی فکر پہلے کرنے لگتے ہیں ۔۔۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔ فیض صاحب کے بعد مجھے آہستہ آہستہ محسوس ہونے لگا کہ لوک ورثے کے تحفظ کے نام پر پرانی جاگیرداری کے ڈھانچے کو تحفظ دیا جارہا ہے۔ ۔۔۔ ذرائع پیداوار اور سیاسی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوا لیکن جاگیردار کے گھر پتلیاں نچانے والے کی جگہ ٹیلی ویژن آگیا ہے۔ ۔۔۔ جو مختلف علاقوں کے فنون ہیں ان کا آپس میں کیا رابطہ ہے۔ اس طریقہ سے قومی یکجہتی کی صورت بھی نکلتی تھی کوئی مؤلف ، کوئی نمونہ سندھ سے چلتا ہے ، پنجاب میں اس کی کیا ضرورت بنتی ہے ، سرحد میں اس کی کیا صورت بنتی ہے۔ یہ سارے مسئلے دیکھنے والے تھے۔‘‘۔۔۔افضل رندھاوا کے بھائی اسلم رندھاوا جو کارچلاکر انھیں لاہور تک لائے تھے جب راستے کے گردوغبار اور دھول کے بارے میں معذرت کرنے لگے تو فیض صاحب نے ہنس کر کہا ’’ سڑکیں کیا تم نے بنائی ہیں ‘‘؟۔۔۔ خواجہ خورشید انور کہنے لگے ۔’’ یار ! پہلے مجھے جانے دو آخر تمہارے انتظار کی خاطر بھی تو کسی کو موجود ہونا چاہیے ۔۔۔ اور خورشید انور چلے گئے ۔ لوگوں نے انھیں پہلی بار خورشید انور کے جنازے پر زاروقطار روتے ہوئے دیکھا تھا۔ کیا وہ اپنے گاؤں کالا قادر سے اپنی والدہ کے گاؤں بھی گئے تھے ؟ ‘‘ میں افضل رندھاوا سے پوچھتا ہوں ۔۔۔ ’’ ہاں ، وہ اصرار کر کے جسڑ گئے اور وہاں ایک رات قیام کیا ، مجھ سے بھی اصرار کرنے لگے کہ میں رات وہیں قیام کروں لیکن میں اپنی ہشاش بشاش ۔ وہ اپنی زمین پر واپس آگئے تھے ۔۔ ۔ ‘‘۔۔۔ ’’ فیض صاحب ! استاد دامن کی عمر کیا ہوگی ‘‘ کہنے لگے ، کچھ عمریں سال ، مہینوں میں نہیں گنی جاتیں کہ کچھ لوگوں کے سال مہینے مختلف طوالتوں کے ہوتے ہیں۔ سکھ کے دن چھوٹے اور دکھ کی راتیں لمبی ہوتی ہیں یہی فرق خوشحال اور بدحال لوگوں کی عمروں کا ہوتا ہے ۔۔ ۔ ‘‘
۔۔۔ مبصر :انوار احمد