پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی
میاں غلام رسول عباسی ۔ ملتان
۲۰جنوری ۲۰۱۱ء سہ پہر سخن فورم ملتان کے سخن دبستان ملتان کے اہم ستون ، ممتاز ماہر تعلیم ،نامور ادیب، خاکہ نگار ، افسانہ نگار اور ہر دلعزیز شخصیت پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی انتقال کر گئے۔ ڈاکٹر عاصی کرنالی قادر الکلام شاعر، نامور نثر نگار اور اردو فارسی کے کہنہ مشق استاد تھے۔ وہ نہایت خلیق اورنرم مزاج انسان تھے۔ دھیمی اور میٹھی آواز میں بات کرتے ۔ بہت بردباد اور متحمل انسان اور ادبی محفلوں کی جان تھے۔ وہ خود فرماتے تھے۔
میں محبت ہوں مجھے آتا ہے نفرت کا علاج
تم ہر ایک شخص کے سینے میں مراد ل رکھ دو
ڈاکٹر عاصی کرنالی نے ۱۹۲۷ء میں کرنال میں آنکھ کھولی۔ والدین نے شریف احمد نام رکھا لیکن انہوں نے عاصی کرنالی کے نام سے شہرت پائی۔
ابتدائی تعلیم کرنال ہی میں حاصل کی اور جب پاکستان قائم ہوا تو والدین کے ساتھ ملتان آگئے اور اسی شہر کو اپنا مسکن بنایا ۔ کچھ عرصہ ملت ہائی سکول میں پڑھاتے رہے بعد ازاں اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ ملتان سے وابستہ ہو گئے۔ یہ امر میرے لیے باعث افتخار ہے کہ جب میں اسی سکول میں جماعت ہشتم کا طالب علم تھا تو عاصی مرحوم ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ ان کا انداز تدریس بہت آسان اور شاندار تھا۔ وہ ہمیشہ آسان سے مشکل اور معلوم سے نا معلوم کا طریقہ اختیار کرتے، بہت شفیق اور نرم دل استاد تھے۔ انہوں نے ایف ۔ اے سے ایم اے (اردو ،فارسی) تک تمام امتحانات دوران ملازمت پاس کئے۔ ۱۹۶۰ء میں ولایت حسین اسلامیہ ڈگری کالج ملتان میں لیکچرارہو گئے اور پھر ترقی کرتے کرتے گورنمنٹ ملت کالج ملتان کے پرنسپل مقرر ہو ئے۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اردو حمد و نعت پر فارسی شعری روایت کے عنوان سے پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ لکھا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ خانہ فرہنگ ملتان میں پانچ سال تک ایم۔ اے فارسی کلاس پڑھاتے رہے ۔ جامعہ زکریا ملتان میں اعزازی پروفیسر کے طور پر چار سال ایم اے اردو کی کلاس پڑھائی۔ زندگی کے آخری سالوں میں لا سال ہائر سیکنڈری سکول ملتان میں تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ ۱۹۹۵ء میں انہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ حج مبارک کی سعادت حاصل کی۔ عاصی کرنالی نے دوران تدریس ماہر اساتذہ اور معروف دانشوروں کے ساتھ کام کیا۔ لیکن کبھی ہم عصروں کے ساتھ رقابت کی شکایت کی نوبت نہیں آئی ۔ وہ اساتذہ میں مقبول اور اپنے طلبا میں بہت ہر دلعزیز تھے۔ ان کی شاعری کاسفر زمانہ طالب علمی سے شروع ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ اصلاحی نظمیں لکھتے ۔ حمد و نعت میں جذبات کی گہرائی موجود ہوتی ۔ ان کی غزل میں سادگی ،روانی اور خلوص کا عنصر اور نظم میں معنویت موجود ہے۔ قدرت نے ان کے قلم میں بے پناہ قوت عطا کی تھی۔ وہ سنگلاخ چٹانوں سے گل لالہ پیدا کرتے اور کنکریوں کو موتی بنالیتے۔ طالب علمی کے زمانہ میں انہوں نے تحریک آزادی پر ایک بہت خوبصورت نظم لکھی اور مولانا ظفر علی خان کی خدمت میں بھیجی ۔ انہوں نے اسے اپنے اخبار ’’روزنامہ زمیندار‘‘ میں شائع کیا۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ ’’میں قلم کو ایک خدائی امانت سمجھتا ہوں اور میرا یقین ہے کہ مجھے ایک ایک حرف کا حساب دینا ہو گا۔ میں بے مقصدیت کا کبھی شکار نہیں ہوا۔ میں ادب کو انسانوں کی فلاح کے لیے اور رہنمائی کی خاطر لکھتا ہوں‘‘۔ ایک بار ملتان میں مسلم ہائی سکول کے کھلے میدان میں یوم بیت المقدس کے سلسلے میں ایک جلسہ ہوا۔ شورش کاشمیری اس کے خطیب تھے۔ اس جلسے میں عاصی کرنالی نے بیت المقدس کے عنوان سے ایک نظم پڑھی جو نہایت فکر انگیز تھی۔ چنانچہ اس موقع پر شورش نے اپنے خطاب میں فرمایا ۔’’ ملتان والو! عاصی کرنالی کی نظم سنی؟ تمہارے گلشن میں ایک پھول کھلا ہے اس کی قدر اور حفاظت کرو۔ اس کی خوشبو دور دورتک جائے گی‘‘۔
عاصی کرنالی نے نظم و نثر میں کئی کتابیں لکھیں ۔ جن میں رگ جاں (نظم وغزل)، جشن خزاں (نظم و غزل) مدحت (نعت)، نعتوں کے گلاب(نعت)، چمن (نظم وغزل) جاوداں(سلام ومنقبت)، حرف شیریں(نعت)، میں محبت ہوں(نظم و غزل)، چراغ نظر(انشائیے) اور تحقیقی مقالات شامل ہیں۔ نعتوں کے گلاب ا ن کی صدارتی ایوراڈ یافتہ تخلیق ہے۔ پاکستان کی کئی جامعات میں ان کی شخصیت اور فن کے حوالے سے ایم اے ،ایم فل اردو، پی ایچ ڈی کے مقالات بھی لکھے گئے ہیں۔
ان کی علمی وادبی خدمات پر انہیں تیس سے زائد ایوارڈ اور اعزازات سے نواز ا گیا ۔ وہ بے شمار ادبی تنظیموں کے صدر اور سر پرست تھے۔ شعر و ادب کی دنیا میں ان کے تلامذہ کی تعداد بے شمار ہے۔ انہو ں نے ملکی اور قومی سطح کے مشاعروں، مذاکروں اور ادبی تقریبات میں شرکت کی۔ ریڈیو اور ٹی۔وی کی زینت بنے۔ ان کی شاعری میں مولانا حالی کا رنگ اور مولانا شبلی نعمانی کا آہنگ پایا جاتا ہے۔ وہ نثر میں سرسید کی طرح سوچتے اور مولوی عبدالحق کی طرح لکھتے یہی وجہ ہے ان کی نثر روانی اور شاعری ، گوہر فشانی کے حسن سے مالا مال ہے۔
زندگی کے آخری دن ۲۰ جنوری ۲۰۱۱ء کواپنی جماعت میں درس دیتے ہوئے انہیں دل کی تکلیف ہوئی۔ انہیں ہسپتال لایا گیا۔ طبی امداد کے باوجود آپ جاں بر نہ ہو سکے۔ اس وقت ان کے پاس ان کی تخلیق ’’نعتوں کے گلاب ‘‘ موجو د تھی۔ اگلے روز شاہی عید گاہ ملتان میں ان کی نماز جنازہ سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور صاحبزادہ سید حامد کاظمی نے پڑھائی جس میں ہزاروں لوگ موجود تھے۔ بلا شبہ ان کی موت سے آسمان شعرو ادب کا تابناک ستارہ قبر کی تاریکیوں میں غروب ہو گیا۔
۱۹۶۳ء میں ملتان میں علامہ طالوت کی وفات کے بعد ڈاکٹر عاصی کرنالی کی رحلت سب سے بڑا سانحہ ہے اور یہ خلا آسانی سے پر نہ ہو گا۔