لاہور کا جو ذکر کیا تو نے

اے حمید

قیام پاکستان سے پہلے ایک خانہ بدوش لڑکے کی طرح جنوب مشرقی ایشیا کے طوفانی سمندروں ، گھنے تاریک جنگلوں ، پر خطرو یران جزیروں اور اونچی اونچی عمارتوں والے شہروں میں جہاں جہاں بھی آوارہ گردی کرتا رہا ‘لاہور کی یاد میرے دل کے ساتھ لگی رہی ۔ امر تسر میرا وطن تھا ‘وہاں میں پیدا ہوا تھا ‘ مگر یہ ایک عجیب بات ہے کہ میں جب بھی بھاگ کر کرسی دوسرے ملک گیا تو مجھے امرتسرکبھی یاد نہیں آیا تھا ۔ اگرکوئی شہر یاد آتا تو وہ لاہور تھا ۔ اس کی ایک عام سی وجہ یہی میری سمجھ میں آئی ہے کہ ایک تو میرے دادا لاہور کے ٹیکسالی دروازے کے رہنے والے تھے ۔ دوسرے یہ کہ میری سب سے بڑی ہمشیرہ شروع ہی سے لاہور آکر آباد ہوگئی تھی اور میرے بچپن کا کچھ حصہ لاہور کے فاروق گنج اور مستی گیٹ میں گزراتھا ۔اس کے علاوہ لاہور شہر کی فضاکا اپنا ایک طلسم ایک جادوتھا جو مجھے الف لیلہٰ کے بغداد کے چھتے ہوئے پر اسرار گلی کوچوں میں لے جاتا تھا ۔ یہ میری فطری رومانیت پسندی تھی جس نے مجھے لاہور کا اسیربنا دیا تھا ۔ جب کبھی آوارہ گردیوں سے منہ موڑکر امرتسر واپس آتا تو اسی روزریل گاڑی میں بیٹھ کر لاہور اپنی بڑی ہمشیرہ کے ہاں آجاتا ۔ لاہورکے بازاروں اور نیم روشن ٹھنڈی ٹھنڈی گلیوں میں گھومنے پھرنے سے مجھے بڑا سکون محسوس ہوتا۔ پردیس میں اورامر تسر کا صرف کمپنی باغ اور وہ لڑکی یاد آتی جس سے مجھے بچپن ہی میں پیارہوگیا تھا ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ لاہور کی گاڑی پکڑتا ۔ چنانچہ جب میں آخری بار پردیس سے امر تسر واپس پہنچا ہوں تو وہ دس اگست ۱۹۴۷ء کا دن تھا ۔ پنجاب میں خونین فسادات نے ایک قیامت برپا کررکھی تھی ۔ مگر میں حسب عادت اسی روزریل گاڑی میں بیٹھ کر لاہور کی طرف چل دیا ۔ چھ ہرٹہ اوزخالصہ کے سٹیشنوں پر ہندو سکھ غنڈوں نے اس گاڑی پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی مگر یہ کوشش گاڑی کے ساتھ سفر کرنے والے بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے ناکام بنا دی ۔ میں امر تسر چھوڑ کر لاہور نہیں جارہا تھا بلکہ محض لاہورشہر کے گلی کوچوں ‘ اس کے ریلوے سٹیشن ‘ اس کی سڑکوں اور مکانوں کو دیکھنے جارہا تھا ۔ لاہور پہنچا تو رشتے داروں نے سخت ڈانٹا اور کہا کہ وہ لوگ امر تسر میں اب کس لئے بیٹھے ہیں ۔وہاں تو مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے ۔ فوراًواپس جاؤ اور انہیں ساتھ لے کر لاہور آجاؤ۔ چنانچہ میں دوسرے دن صبح کی گاڑی سے امر تسر کی طرف روانہ ہو گیا ۔مجھے یاد ہے جب میں رنگون شہر میں آوارہ گردی کیا کرتا تھا تومیں امر تسرمیں نویں جماعت چھوڑ کر بھاگا تھا ۔ وہاں ہمارے ایک رشتے دار نے مجھے فوج میں بھرتی کروایا ۔ اگرچہ میری عمر کم تھی مگر جنگ بڑی زوروں پر تھی اور انگریزنے بھرتی کے تمام ضابطے اصول طاق میں رکھ دئیے تھے۔ میں سپلائی کور کے ساتھ اٹیچ کردیا گیا ۔ میں بھی ایک ایڈونچر سمجھ کر فوج میں بھرتی ہوگیا تھا۔ اگر جاپانی پہلے ہلے میں رنگوں پر قبضہ نہ کرتے اور انگریز کو وہاں سے بھاگنانہ پڑتا تو میرے لئے بعد میں بڑے مسائل پیدا ہو سکتے تھے کیونکہ فوج میں بھرتی ہونے کے بعد ازخود فوج سے ریلز ہونا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ۔ رنگون شہر سے کوئی آٹھ دس میل باہر ایک چھوٹے سے جنگل میں انڈین فوج کا گیریژن تھا جس کا پرانا نام سیلز بیرک تھا ۔ اس وقت بھی اسے سیلز بیرک کے نام ہی سے پکارا جاتا تھا ۔ یہاں ایک چھوٹے قد کا نیلی آنکھوں والا انگریزجس کا نام مجھے اسی طرح یاد رہ گیا ہے ۔ کیپٹن لیوس ہمیں سپلائی کے ضابطوں کے بارے میں روزانہ ایک گھنٹہ لیکچر دیا کرتا تھا ۔ سیلز بیرک میں گزارے ہوئے کچھ مناظر بالکل اسی طرح یاد ہیں جیسے یہ کل کی بات ہو حالانکہ یہ میرے خیال کے مطابق ۴۲۔۱۹۴۱ء کا زمانہ تھا ۔ یہاں ایک ملٹری سٹورتھا جسے نافی کہاجاتا تھا ۔ یہ آرمی ‘ائیر فورس اور نیوی کی کینٹین تھی جہاں ہمیں ہر ماہ بہت ہی سستے داموں ہر قسم کا راشن ملتا تھا ۔ جس روز مجھے راشن ملنا ہوتا تھا میرے رشتے دار جس نے مجھے بھرتی کروایا تھا وکٹوریہ گاڑی لے کر وہاں پہنچ جاتا تھا ۔ نافی کے کاونٹر پر میں اپنا فوجی کارڈدے کر خاموش کھڑارہتا اور میرے رشتے دار گتے کے بڑے ڈبوں میں راشن نکلوا نکلوا کر رکھتا جاتا ۔ اس راشن میں سب کچھ ہی ملتا تھا۔چینی ‘چائے ‘سگریٹ‘وائین‘وسکی ‘ بسکٹ‘ ٹن فروٹ اور لیکویڈ ملک اور طرح طرح کے جوس کے ڈبے ۔ میرارشتے دار شراب کارسیاتھا چنانچہ وہ زیادہ تر سکاچ وسکی اور سگریٹ ہی لیتا۔ مجھے یاد ہے گولڈفلیک اور کریون اے سگریٹوں کے گول ٹن ہوا کرتے تھے ۔گولڈفلیک کا ایک ٹن ہمیں ملٹری کی نافی سے سات آنے میں ملا کرتا تھا ۔ایک مجھے ملٹری کی یہ کینٹین یاد ہے اور دوسرے وہ گودام جہاں آٹا ‘دال ‘چاول‘ چینی کی بوریاں اور گھی کے ٹن چھت تک چلے گئے تھے ۔ کرٹر ماسٹر یہاں چل پھر کر سامان چیک کیا کرتا ۔ سپلائی ڈپو کے پیچھے ایک جگہ بانس کے درخت صاف کرکے لکڑی کا ایک چبوترہ بنا یاِ گیا تھا جس کے اوپر ناریل اور بانس کی شاخوں کی ڈھلواں چھت پڑی تھی ۔ اس چبوترے میں لکڑی کے بنچ رکھے رہتے تھے ۔ ہم ان بنچوں پر بیٹھ جاتے اور نیلی آنکھوں والا انگریزکیپٹن لیوس ہمیں فوج کو راشن سپلائی کرنے کے بارے میں لیکچر دیا کرتا تھا میرے ارد گرد وہاں کے مقامی برمی لڑکے بیٹھے ہوتے تھے مگران میں سے کسی ایک کی بھی شکل مجھے یاد نہیں ۔ مجھے یاد ہے انگریز کیپٹن خاکی نیکر کی جیب سے پلیئرزمیگنیم کی ڈبی نکال کر جب سگریٹ سلگا تا تو قضا میں بڑی انسپائر کردینے والی خوشبو پھیل جاتی تھی۔میلزبیر کس کا ذکر اس لئے کیاتھا کہ جب انگریزکیپٹن سپلائی کے موضوع پر ہو نئے رنگروٹوں کو لیکچر دیتا تھا تو میں اپنی کاپی پر لاہور کو یاد کرکے ادب لطیف کی صنف کے جملے لکھا کرتا تھا ۔ دو چار جملے مجھے آج بھی یاد ہیں ۔ مثلاً’’اے دریائے راوی کے سر سبزکنارو! ایک پردیسی تم سے ہزاروں میل دور اس جنگل میں بیٹھا تمہیں یاد کر رہا ہے ،اے راوی کے شہر لاہور کی گلیو!خوش رہو میں جلد تمہارے پاس آوں گا ‘ جب بارش ہورہی ہوگی اور لاہور کے باغ بارش میں بھیگ رہے ہو ں گے ۔ وغیرہ وغیرہ اس زمانے میں ‘ میں ڈائری ضرورلکھا کرتا تھا ۔ اس ڈائری میں روز مرہ کے واقعات تو مہینے مین شاید ایک بارہی لکھتا تھا لیکن ادب لطیف ٹائپک کے جملے اکثر لکھتا رہتا یا پھر کسی کے افسانے کا کوئی ٹکڑا ‘ کسی کی غزل کے کچھ شعر یا اقوال زریں ڈائری پر بہت خوشخط کر کے اتا ر لیتا تھا۔لاہور شہر کی محبتوں کا ذکر تو اکثر ہو تا ہی رہتا ہے لیکن آج کی تقریب لاہور اس وجہ سے بھی ہے کہ اسلام آباد سے اردو کی معروف شاعرہ شبنم شکیل صاحبہ نے لاہور کی یاد میں ایک غزل لکھ کر بھیجی ہے ۔ استاد مکرم سید عابد علی عابد کی سب سے چھوٹی صاحبزادی محترمہ شبنم شکیل کا نام اردو ادب اور خاص طور پر غزل میں کوئی نیا نام نہیں ہے ۔ وہ بہت پہلے سے شاعری کر رہی ہیں ان کے کئی ایک مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ ان کی شاعری کی توصیف شعر کے نقادوں نے اس اعتبار سے بھی کی ہے کہ شبنم شکیل غزل کی روایت میں رہ کر جدید جذبوں اور واردات کا اظہار بھی بڑی خوش اسلوبی سے کرتی ہیں۔ وہ بھی لاہور کے تیر نیم کش کی شکار ہیں اور اسلام آبادمیں بیٹھ کر لاہور کو یاد کرتی ہیں،لاہور کی باتیں کرتی ہیں ۔ اپنی تازہ اور غیر مطبوعہ غزل کا انہوں نے ایک عنوان بھی رکھا ہے ۔ عنوان ہے ؂
’’مجھ سے لاہور نے شبنم یہ غزل لکھوائی‘‘ اب شہر لاہور کی یاد میں لکھی گئی شبنم شکیل کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے ؂
غزل
ہم حد ماہ و سال سے آگے نہیں گئے
خوابوں میں کبھی خیال سے آگے نہیں گئے
کچھ ہم بھی التفات میں ایسا سخی نہ تھا
کچھ ہو بھی عرض حال سے آگے نہیں گئے
تھیں تو ضرورمنزلیں اس سے پرے بھی کچھ
لیکن ترے خیال سے آگے نہیں گئے
ہر حد سے ماورا تھی سخاوت میں اس کی ذات
ہم آخری سول سے آگے نہیں گئے
سوچا تھا میرے دکھ کا مداوا کریں گے کچھ
وہ پرسش ملال سے آگے نہیں گئے
کچھ خود سری کے فن میں نہ تھے ہم بھی کم مگر
اس صاحب کمال سے آگے نہیں گئے
کیا ظلم ہے کہ عشق کا دعویٰ انہیں بھی ہے
جو حد اعتدال سے آگے نہیں گئے
لاہور پیچھے رہ گیا ہم باوفا مگر
اس شہر بے مثال سے آگے نہیں گئے
اطالیہ کے عظیم شاعر دانتے کو بھی اپنے شہر فلارنس سے بڑی محبت تھی ۔ تیرہویں صدی عیسوی میں بھی دانتے اس شہر کا سب سے بڑا شاعر تھی ۔ یہاں وہ پیدا ہوا۔ یہاں اس نے امن دیکھا ۔ جنگ دیکھی ۔ یہاں بے وفائی اور غداری دیکھی ، یہاں سے وہ نکالا گیا اوراکیس برس تک جلاوطنی میں اس شہر کے خواب دیکھتا رہا ۔ اسی شہر میں اس نے بیاترچے سے نو سال کی عمر میں محبت کی ۔ یہ شہر اس کی تمام امیدوں کا مرکزتھا ۔ جب وہ اپنی کتاب ’’ڈیوائین کامیڈی ‘‘میں اس شہر کا ذکر کرتا ہے تو وہ اپنا سلسلہ بیان چھوڑ کے بھٹک جاتا ہے ۔ اس کتاب میں وہ اپنے شہر فلارنس کاباربار ذکر کرتا ہے فلارنس اس کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتا ۔ اس شہر فلارنس کا دانتے کے فن اور اس کی زندگی پر گہر ااثر ’’فردوس گم گشتہ‘‘میں ایک پورا قطعہ فلارنس کی تعریف میں ہے ۔ جلاوطنی کے زمانے میں دانتے ادھر ادھر بھٹکتا ہوا جب اپنی عظیم تصنیف میں مصروف تھا فلارنس شہر کے لوگ ‘اس کے گلی کوچے ‘اس کی ندیاں‘اس کے موسم دانتے کی نظروں میں بسے ہوئے تھے ۔ فلارنس کے معنی ’’پھولوں والا شہر ‘‘کے ہیں ۔ لاہورکسی طرح فلارنس سے کم نہیں ۔ یہ بھی پھولوں والا شہر ہے مگر افسوس کہ اس کے پھول دنبے کھاتے چلے جارہے ہیں اور کوئی نہیں روکنے والا ، درختوں پر کلہاڑیاں چل رہی ہیں اور کوئی کسی کا ہاتھ نہیں روکتا ۔ ایک ندی اس لاہور شہر سے بھی بغل گیر تھی لیکن محکمہ انہارکے سارے آدمی بھی اس کی تلاش میں نکلیں تو اس کا نشان نہیں ملے گا ۔ اسکے باوجود لاہور کے علم ودانش کا وقار اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ پردیس میں بھٹکتے ہوئے مجھے اس شہر کے بازار ‘دروازے اور باغ ‘سٹیڈیم اور گلی کوچے بہت یادآئے ہیں اور اس کی رونقیں میری نظروں کے سامنے رہی ہیں۔ شہر وں سے دُور جاؤ تو نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ مگر لاہور نظروں سے اوجھل ہو جانے کے بعد زیادہ قریب آ جاتا ہے۔ زیادہ روشن ہو جاتا ہے۔ جس طرح ہیرا اندھیرے میں زیادہ چمکنے لگتا ہے۔ اس میں سے ایسے ایسے رنگوں کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو روشنی میں دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ اپنے کسی گزشتہ مضمون میں سراج نظامی صاحب کے حوالے سے میں نے چوک نواب صاحب لاہور کے نامور کلاسیکل گویے کالے خاں کا ذکر کیا تھا۔ وہ کلاسیکی موسیقی کی تعلیم کا بے تاج بادشاہ تھا۔ مگر طبیعت میں درویشی اور بھولا پن غالب تھا۔ صبح صبح دریا پر جا کر بدن پر تیل کی مالش کر کے ورزش کرنا ’نہانا‘ واپسی پر چونا منڈی کی ایک خاص دکان سے آدھ سیر گوشت بنوا کر لانا اور پھر اپنی بیٹھک میں اسے روسٹ کرنا اس کا معمول تھا۔ بھنے ہوئے گوشت کی ہانڈی الماری میں رکھ کر تالا لگا دیتا اور تانپورہ لے کر گانے کی ریاضت شروع کر دیتا ۔ دو ڈھائی گھنٹے کے ریاض کے بعد ہانڈی نکال کر سامنے رکھ لیتا اور سارا گوشت قلچے کے ساتھ کھا کر سو جاتا ۔ اس کے گانے کی شہرت ریاست پٹیالے میں پہنچ گئی۔ پٹیالے کے راجہ نے اسے بھاری تنخواہ اورانعام و اکرام کا لالچ دے کر اپنے پاس درباری گویار رکھ لیا۔ کالے خان بھولپن میں اور کچھ کھا نے خوراک کے لالچ میں آگیا اور پٹیالے چلا گیا ۔ وہاں جا کر اسے احساس ہواکہ وہ لاہور سے جدا ہو گیا ہے۔ اپنی روح سے جدا ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں ایک روز مہاراجہ کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اور بولا ’’مہاراجہ‘‘ آپ نے مجھ پر بڑ ی کر پاکی ہے ‘ایک کرپا اور کردیں مجھے لاہور بجھوا دیں نہیں تو میں مر جاؤں گا ‘‘۔ مہاراجہ نے کالے خان کو مزید لالچ دے کر وہاں رہ جانے کی کوشش کی مگر کالے خان یہی کہتا رہا ’’مہاراجہ‘‘مجھے لاہور پہنچا دیں نہیں تو زندہ نہیں رہوں گا۔ چنانچہ ایک دن مہاراجہ نے اپنے خاص محافظوں کے ساتھ کالے خان کو اپنی گاڑی میں لاہور روانہ کر دیا۔ سراج نظامی لکھتے ہیں کہ جب گاڑی شالامار باغ پہنچی تو کالے خان نے گاڑی سے چھلانگ لگا دی۔محافظوں سے کہا’’ بس بھائیا جی اب تم لوگ واپس جاؤ میں اپنے گھر آگیا ہوں۔ ‘‘اور یہ کہہ کر باغبان پورے کی طرف دوڑ لگا دی۔
اسی طرح کا واقعہ قیام پاکستان سے پہلے کے مشہور پنجابی شاعر ملکھی رام کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ اس کی شہرت کی وجہ سے کسی ریاست کے راجہ نے اسے بھی اپنے پاس بلا لیا۔ وہ بھی پیسوں کے لالچ میں آ کر چلا گیا مگر ایک ہفتے کے بعد ہی وہ لاہور کیلئے اداس ہو گیا حالانکہ اس ریاست میں ہر طرح کا آرام تھا۔ روپیہ پیسہ انعام واکرام ۔ کسی چیز کی کمی نہیں تھی مگر وہاں لاہور نہیں تھا۔ ایک دن اس نے بھی ہاتھ باندھ کر راجہ سے عرض کی ’’حضور مجھے لاہور واپس بھجوا دیں۔ میں آپ کا احسان ساری زندگی نہیں بھولوں گا‘‘۔ راجہ نے کہا’’ملکھی رام! تمہیں یہاں کیا تکلیف ہے ہر چیز تمہارے لئے موجود ہے۔ ملکھی رام نے اشکبار آنکھوں سے کہا ’’حضور! صاحب حضوری باغ کے پنجابی مشاعروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا ۔ اور یہ مشاعرے تقریبا روز ہی حضوری باغ میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ راجہ مجبور ہو گیا اور ملکھی رام شاہی دربار کی ہزاروں روپے کی ملازمت اور شاہی کرسی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر حضوری باغ کے گھاس پر آکر بیٹھ گیا اور بھر کبھی لاہور سے باہر نہ گیا۔
سن ۶۵ء کی جنگ کے بعد ایک غیر ملکی نامہ نگار محاذ کے اگلے مورچوں کا معائنہ کرتا اور ایک مورچے کے پاس آکر رک گیا۔ اس مورچے میں ایک پاکستانی لانس نائیک رائفل پر اپنی گرفت مضبوط کئے عقابی نظروں سے دشمن کے علاقے کے طرف دیکھ رہا تھا۔ اس غیر ملکی نامہ نگار کو بتایا گیا کہ پاک فوج کا یہ جیالا جوان پچھلے کئی روز سے اس مورچے میں دفاع وطن کا مقدس فرض انجام دے رہا ہے۔ غیر ملکی نامہ نگار نے اپنے ترجمان کے ذریعے سپاہی سے پوچھوایا کہ جنگ میں کسی مصلحت کے تحت محاذ سے تھوڑا پیچھے ہو کر دوسرے مورچے میں آ جانا معمولی بات ہوتی ہے۔ پھر وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اتنے دن ایک ہی مورچے میں کیوں ڈٹا رہا؟ پاک فوج کے اس شیر دل مجاہد نے اسی ترجمان کے ذریعے غیر ملکی نامہ نگار کو یہ جواب دیا کہ ’’ہم یہاں سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے تھے کیونکہ پیچھے لاہور تھا۔‘‘****