رومانوی ترک شاعرہ نگار بنت عثمان

ڈاکٹر انوار احمد

تمہید

میں نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی ایک کتاب میں پڑھا تھا (ا) کہ اُردو کے نامور مفکر اور ادیب نیاز فتح پوری (۱۸۸۷ء ۔ ۱۹۶۶ء ) نے اُردو کے فکر افروز اور خیال پرور جریدے ’’ نگار‘‘ (آغاز فروری ۱۹۲۲ء سے پہلے بھوپال ، پھر لکھنؤ اور اب کراچی سے شائع ہوتا ہے) کا نام ایک ترک شاعرہ نگار بنت عثمان (۱۸۶۲ء ۔ ۱۹۱۸ء) کے نام اور شاید کلام سے متاثرہو کر رکھا تھا۔ چنانچہ انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو سے بطور سکالر وابستگی (نومبر ۱۹۹۵ء) کے بعد سے میں کوشش کرتا رہا کہ نگار خانم کے احوال اور کلام سے متعلق معلومات فراہم کی جائیں۔ ترکی زبان سے ناواقفیت کے باعث یہ کام آسان نہ تھا کہ تمام تر مواد ترکی زبان میں دستیاب ہے۔ میں شعبہ میں اپنے رفیق کار اور اقبال کے نثری کام پر پی ایچ ڈی کے مقالے کی تدوین میں مصروف جلال صوئیدان کا ممنون ہوں کہ انھوں نے نہ صرف مفید مواد کی نشان دہی کی بلکہ نگار کے منتخب کلام کے ترجمے میں مدد دی ۔ شعبے کے ایک پاکستانی ساتھی ڈاکٹر فرقان حمید نے (جنھوں نے ترکی زبان وادبیات میں ڈاکٹریٹ کی ہے اور ایک ترک خاتون برجو خانم سے شادی کر کے قابل رشک زندگی گزار رہے ہیں) ترک شاعرہ کی زندگی سے متعلق TRT(ٹرکش ریڈیو ٹیلی ویژن) پر پیش کیے جانے والے ایک مضمون کا ترجمہ فراہم کیا۔ شعبے میں حکومت پاکستان کی قائم کردہ چےئرپر میرے پیش رو اور اب نیم ترک استاد ، ڈاکٹر اے ۔ بی ۔ اشرف نے متعلقہ صفحات ، اپنی بہتر مصروفیات نظر انداز کر کے ، ترجمے کی صورت میں پڑھائے(۱۹۶۹ء میں ایم اے کے دوران ان سے جو پڑھا ۱۹۹۶ء میں اس کی تجدید ہوئی ) شعبے کی پی ایچ ڈی سکالر آسمان بیلن نے (حسینہ معین کے ڈرامے ’’ تنہائیاں ‘‘ کو ترکی زبان میں منتقل کیا ہے اور TRT سے یہ قسط وار بھی پیش ہوا) کلام کے ترجمے میں جہاں جہاں اشکال پیدا ہوا ، سہولت میں تبدیل کیا ۔
________
’’ علی گڑھ من تھلی ‘‘ کی نومبر ۱۹۰۳ء کی اشاعت میں سجاد حیدر یلدرم (۱۸۸۰۔ ۱۹۴۳ء ) کے مطبوعہ مضمون ’’ تعلیم نسواں بذریعہ ازدواج ‘‘ سے ایک اقتباس دیکھیے ’’ ذرا قسطنطنیہ جائیں اور دیکھیں کہ وہاں خاتونیں نئی اعلیٰ تعلیم سے کس قدر آراستہ ہیں ، موسیقی ، نقاشی اور مختلف زبانوں میں مہارت انھیں بدرجہ کمال حاصل ہے۔ یہی سب باتیں آج کل کے نوجوان چاہتے ہیں۔ ‘‘(۲) نیاز فتح پوری اپنی داستان حیات میں کہتے ہیں ۔ ’’ میرے ذہنی انقلاب اور ادبی رجحانات کا تعلق زیاد ہ تر مولوی اور عورت ہی سے ہے۔ ‘‘(۳)
مولوی جس جمود ذہنی اور رسم پرستی کا طاقتور مظہر تھا، اس کی قوت تکفیر کا طلسم توڑنے میں روشن خیال اور خرد افروزادیبوں نے بالعموم ترک تمدن اور ادبیات کے فیض کو ایک طرف خوابناک اور انقلاب آفریں آزاد دنیا کا دریچہ بنا کر پیش کیا اور دوسری طرف عوامی سطح پر ترکوں سے جذباتی لگاؤ کو اپنی تحریروں اور نقطہ نظر کے ردعمل (اشتعال انگیز) کے لیے ڈھال بنایا۔۔۔رام بابو سکسینہ کی ’’ تاریخ ادب اُردو ‘‘ کو فرسودہ خیال کیا جاتا ہے مگر مجھے اس میں سے ایک پر معنی بات ہاتھ لگی، وہ نیاز فتح پوری کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ ’’(انھوں نے ) ترکی زبان ایک ترک سے پڑھی ‘‘(۴)
گویا یلدرم کی طرح نیاز بھی ترکی زبان سے واقف تھے ۔ (گو ترکی اور ترکوں سے دونوں کے رابطے اور شناسائی کی سطح ایک جیسی نہیں) اس لیے یہ قیاس کرنا غلط نہ ہوگا کہ جب نیاز نے اپنے جریدے کو نگار بنت عثمان سے منسوب کرنا چاہا تو انھوں نے اس شاعرہ کا نام ہی سنا ہوا نہیں تھا، اس کی مجلسی اور تہذیبی شخصیت کے بعض گوشوں اور شاید کلام سے بھی آگاہ تھے ۔ ’’ شاعر کا انجام ‘‘ بالخصوص’’ گہوارہ تمدن ‘‘ میں عورتوں کے کردار کے مباحث جہاں تاریخی تقاضے کے مظہر ہیں وہاں انیسویں صدی کے اواخر میں ترک معاشرت میں تعلیم یافتہ اور روشن خیال ترک خواتین کا عملی کردار بھی پیش نظر رہا ہوگا۔ عثمانی سلطنت کی فتوحات اور ثمرات کے جائزے کے لیے عروج کے زمانے کی تاریخیں کھنگالی جاسکتی ہیں مگر اس شکست وریخت کے زمانے میں بھی ترک قوم کی خود شناسی اور قوت تعمیر کی نئی راہیں متعین ہورہی تھیں ، شعر وادب کی دنیا میں بھی نئے رجحانات اور فکری تحریکیں پروان چڑھ رہی تھیں ، قرۃ العین حیدر لکھتی ہیں۔
’’۱۸۳۰ء ہی سے (ترکوں کی ) نئی نسل کے ادیبوں نے روایتی دیوان ادبیات کو چیلنج کرنا شروع کردیا تھا۔اُردو میں اس نوع کا یہ عمل بہت بعد میں شروع ہوا۔ ۱۸۶۵ء سے تعلیم یافتہ ترکوں نے پریس کے ذریعے اپنی حکومت کی سخت گیر پالیسیوں کی نکتہ چینی شروع کی ۔ اس گروپ’ تحریک ادبیات جدید‘ کی قیادت ابراہیم شناسی (۱۸۲۴ء ۔ ۱۸۷۱ء ) ، ضیا ء پاشا (۱۸۲۵ء ۔۱۸۸۰ء ) اور نامق کمال (۱۸۴۰ء ۔ ۱۸۸۰ء) کر رہے تھے ۔ یہ سب فرانس سے تعلیم یافتہ ادیب اور صحافی تھے ۔ ‘‘ (۵)
ترکی زبان کے مشہور جریدے ’’ ثروت فنون‘‘ (۱۸۹۵ء ۔ ۱۹۰۰ء ) کے شعر وادب اور فکر پر اثرات کا اندازہ اسی سے لگائیے کہ جدید حیثیت ، سماجی آزاد خیالی ، تاثریت ، وفور جذبات اور رمزیت سے مملو رومانی تحریک کو ثروت فنون کی تحریک کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے ’’ تنظیمات ‘‘ دور ادب میں ترکی زبان میں سے عربی ،فارسی کے بھاری بھر کم الفاظ نکالنے کا کام زور شور سے شروع ہوا تھا مگر رومانی تحریک میں مرکب جذبات اور پہلو دار احساسات کے اظہا رکے لیے پھر کلاسیکی زبان کے سرچشموں سے مدد لی گئی اور اسی دور اور تحریک کی ایک نمائندہ آواز نگار خانم کی ہے۔
حسین وجمیل شاعرہ نگار خانم کے والد ہنگری نژاد ترک تھے ۔وہ ۱۸۴۸ء میں ہنگری میں برپا ہونے والے انقلاب کے بعد استنبول آگئے اور اسلام قبول کرلیا۔ وہ عثمان پاشا(۱۸۲۵ء ۔ ۱۸۹۵ء ) کہلائے کیونکہ انھوں نے کریمیا کی جنگ (۱۸۵۷ء ) میں سلطنت عثمانیہ کی جانب سے حصہ لیا اور پاشا کے منصب پر ترقی پائی۔ نگار نے اپنے والد کے بارے میں فخریہ لکھا ہے ’’ وہ دو مرتبہ غازی ہوئے اور تقریباً ۵۰ سال قوم کے لیے خدمات انجام دیں۔ ‘‘عثمان پاشا نے ایک اور ہنگری نژاد پاشا کی بیٹی امینہ خانم سے شادی کی جو فنون لطیف اور ادبیات عالیہ کا ذوق رکھتی تھی اور خوبصورتی سے شعر خوانی کرتی تھی ۔
Turk Edbeyat Tarihمیں نگار بنت عثمان کا سال ولادت ۱۸۶۲ء بیان کیا گیا ہے (۶) جبکہBati Tesirnde Turk Siiri Antolojisi میں ۱۸۵۶ء (۶) چونکہ ’’ ترک ادبیات تاریخ ‘‘ کو نسبتاً مستند خیال کیا جاتا ہے اور ویسے بھی خوبصورت رومانی شاعرہ کا ساٹھ برس سے زائد جینا تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے اس لیے میں اس کے سال ولادت کے لیے ۱۸۶۲ء کے بیان کو زیادہ درست خیال کرتا ہوں ۔
وہ قاضی کوئے (قاضی محلہ ) استنبول کے فرانسیسی مکتب میں پڑھتی رہی۔ متمول اور روشن خیال والدین کی بدولت اس کی تعلیم وتربیت کے لیے اتالیق بھی رکھے گئے چنانچہ شاعری ، مصوری اور موسیقی کے ذوق کے ساتھ فارسی، فرانسیسی اور جرمن ادبیات سے بھی اس کی دلچسپی بڑھی ، جس کا ثبوت وہ ادبی محفلیں ہیں جو کئی برسوں تک اس کے دونوں گھروں کے مہمان خانوں میں منگل کے دنوں میں منعقد ہوتی تھیں (گرمیوں میں وہ استنبول کے مغربی حصے میں واقع حصار محلے کی قیام گاہ میں اور سردیوں میں مشرقی حصے کی رہائش گاہ واقع ششلی میں مقیم ہوتے ) جن میں نہ صرف ترک علماء اور ادیب وشاعر بلکہ یورپ کے نامور عالم اور تخلیق کار بھی شریک ہوتے تھے ۔ کہا جاتاہے کہ موسیقی کا شوق اسے اپنے والد کی طرف سے اور شاعری کا ذوق والدہ کی جانب سے ملا۔ پھر وہ عربی ، فارسی ، فرانسیسی اور جرمن زبانوں پر نہ صرف دسترس رکھتی تھی بلکہ ان زبانوں اور تہذیب کے ادیبات اور فنون سے بھی آگاہ تھی۔ نگار کے غیر معمولی حسن، بلند پایہ ذوق اور اشرافیہ کے لیے دل پذیر رہن سہن اور برتاؤ کے باعث ترک سلاطین اور شہزادوں کے علاوہ مشاہیر یورپ سے بھی اس کی ملاقاتیں ہوئیں جن میں سویڈن کے بادشاہ اور اطالیہ کے ولی عہد شامل ہیں۔ ۲۰ جلدوں پر مشتمل اس کے روزنامچے (Almmin Yazisi) میں ان ملاقاتوں کے بارے میں تاثرات موجود ہیں۔
بیشتر رومانیوں کی طرح نگار نے ناہموار اور ناآسودہ ازدواجی زندگی بسر کی ۔ کہا جاتاہے کہ اس کے شوہر نے اپنے ذریعہ معاش پر توجہ ہی نہ دی بلکہ عیاشی اور رنگینی کی زندگی کے لیے سسرالی وسائل کو کافی خیال کیا۔ یوں ۱۵ برسوں کی ازدواجی زندگی پانچ برسوں کی علیحدگی پر منتج ہوئی۔نگار نے دوبارہ اس سے شادی کی مگر ۷ برسوں کے بعد مستقل علیحدگی ہوگئی ۔ نگار کے ہر تذکرہ نگار اور نقاد نے اس کی ناکام ازدواجی زندگی کا ہمدردی سے ذکر کیا ہے۔
مصوری سے اس کے لگاؤ کی مظہر اس کی بنائی ہوئی وہ تصویر ہے جو توپ کاپی سرائے میوزم استنبول میں موجود ہے۔ وہ ترک اور مغربی موسیقی سے بھی آگاہ تھی اور پیانو بھی بجا لیتی تھی ۔ اس کے پر معنی معمولات میں ایک یہودی دوست جوڑے کے ساتھ چاندنی رات میں فرغل پہن کر کشتی میں سمندر کی سیر شامل تھی‘۔۔۔سلطان عبدالحمید کی جانب سے ۱۵ اشرفیوں کا وظیفہ مقرر تھا جو ’’ ادارہ خدمت قلمیہ ‘‘ کی مدمیں ملتا تھا ۔۔۔تاہم پہلی جنگ عظیم کے برسوں میں تنگئ حیات کا معاشی پہلو بھی اس شاعرہ پر حاوی رہا۔ چنانچہ غازی انور پاشا کے نام اس کا ایک مکتوب ملتا ہے جس میں کچھ مقدار میں چاول فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
اسی جنگ عظیم کے آخری برس( ۱۹۱۸ء ) میں وہ ٹائیفس کی بیماری کا شکار ہوئی اور یکم اپریل ۱۹۱۸ء کو افطال ہسپتال ششلی، استنبول میں وفات پائی اور رومیلی حصار استنبول کے قبرستان میں تدفین ہوئی ۔ ازدواجی زندگی کی ناہمواری اور ناکامی کے باوجود سبھی تذکروں میں نگار کا ذکر بطور شفیق ماں کیا گیا ہے۔ اس نے تینوں بیٹوں کی تعلیم وتربیت پر توجہ دی۔ تیسرے بیٹے صالح نگار کا خصوصیت سے ذکر ملتا ہے کہ اس نے اپنی ماں کے روزنامچے کو محفوظ اور فیض رساں بنانے کے لیے کتب خانوں کو ہدیے میں دیا ۔
کتب
۱۔ افسوس (Efsus) :
نگار کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو استنبول سے شائع ہوا۔ Bati Tesirnde Turk Siiri Antolojisi میں اس کے پہلے حصے کی اشاعت ۱۸۷۷ء اور دوسرے کی ۱۸۹۱ء بیان کی گئی ہے۔ مگر ایم سیف الدین اوزگے نے ترک قدیم کتابوں کا کیٹلاگ بنایا ہے(استنبول ۱۹۹۱ء ) اس میں اس کا سال اشاعت ۱۸۸۷ء بیان کیا ہے۔ ممکن ہے کہ ان کے پیش نظر’’ افسوس ‘‘ کے پہلے حصے کا کوئی ایڈیشن ہو۔ تاہم انھوں نے اس کے ۴۱ صفحات بیان کیے ہیں اور مسطر ۵۔ ۵ ، ۵۔ ۱۳، ۱۲۔ ۱۸ بتایا ہے۔ اس مجموعے میں انشائے لطیف یا منثورٹکڑے بھی ہیں۔
۲۔ نیران(Niyran) :
فرانسیسی زبان کی بعض کہانیوں اور اشعار کا ترجمہ ہے۔ سیف الدین نے اپنے کیٹلاگ میں اس کی ضخامت ۶۸ صفحات، مقام اشاعت (استنبول) اور مسطر ۵۔۷، ۵۔ ۱۳، ۱۲۔ ۱۸ بیان کیا ہے جبکہTurk Siiri Antolojisi میں اس کا سال اشاعت ۱۸۹۶ ء بتایا گیا ہے۔
عکس صدا (Aks-i-Sada) :
نگار کا نمائندہ شعری مجموعہ جو ۳۳۵ صفحات پر مشتمل ہے، سیف الدین نے اس کا سال اشاعت ۱۸۹۸ء (استنبول ) بیان کیا ہے اور مسطر ۵۔ ۶۔ ۱۳، ۱۲۔ ۱۶ بتایا ہے جب کہ کنعان اکےئیز ن'Turk Siiri Antolojisi'میں سال اشاعت ۱۹۰۰ء قرار دیا ہے۔
صفحات قلب (Sefhat-i-Kalb) :
عشقیہ خطوط کا نثری مجموعی جو ۹۴ صفحات پر مشتمل ہے، سیف الدین نے اس کا شال اشاعت ۱۸۹۹ء (استنبول) اور مسطر ۵۔ ۶ ۔ ۱۳، ۱۲۔ ۱۷ بیان کیا ہے جبکہ کنعان اکیئیز نے سال اشاعت ۱۹۰۱ء درج کیا ہے۔
الحان وطن (Elhan-i-Vatan)
۲۴ صفحات پر مشتمل رزمیہ جو ۱۹۱۶ء میں استنبول میں شائع ہوا (مسطر ۵۔ ۵۔۱۴، ۱۲۔ ۱۸) یہ رزمیہ چناکلے کی جنگ (۱۶۔ ۱۹۱۵ء ) کے بارے میں ہے ۔ اس کے علاوہ سیف الدین کے کیٹیلاگ میں تو ذکر نہیں مگر چند اور کتابوں میں نگار کے ادبی آثار میں مندرجہ ذیل نثری تصانیف کا بھی ذکر ملتا ہے۔ ۱۔ تصویر عشق (ڈرامہ)، ۲۔ چوٹی (تین پردوں کا ڈرامہ) ،۳۔ سوئے استعمال (ڈرامہ)، ۴۔ گرد(۱۹۱۲ء نثر)
نگار کی شاعری
ترک تذکرہ نگاروں نے نگار کو جرمن تخلیق کار ہانئے ، فرانسیسی ہیوگو ، لامیر طین اور ترکی زبان کے ادیبوں میں سے فضولی ، ندیم ، شیخ غالب ، کمال اور حامد سے متاثر قرار دیا ہے۔ پہلے مجموعے ’’ افسوس ‘‘ میں غزلیات ہیں جن پر فارسی کے رنگ تغزل کی چھوٹ صاف محسوس ہوتی ہے البتہ ’’ عکس صدا ‘‘ کی منظومات میں بلا شبہ مغربی رجحانات اور اسالیب کے اثرات ہیں ، اس لیے ناقدین نے اس مجموعے کو جدیدیت اور پختگی کا مظہر قرار دیا ہے۔
نگار کی شاعری کا پہلا تاثر تویہی ہے کہ اس نے مرد شاعروں کے ’’ طے کردہ ‘‘ موضوعات اور اسالیب کی پیروی کی بجائے اپنی ذات اور محسوسات کے اظہار کے پیرائے تلاش کیے۔ چونکہ اس کی تربیت ذوق میں مشرق ومغرب کے علوم وفنون کی دل آویزی یکجا ہوگئی تھی اور موسیقی سے بھی اسے گہری واقفیت تھی اس لیے وفور جذبات، خوابنا کی اور گدازنالہ کو نغمگی اورغنا یت ملی۔ تذکرہ نگاروں نے شاعری میں اس کے دو محبوب موضوعات گنوائے ہیں ’’ وطن اور سمندر ‘‘ میں چونکہ نگار کی شاعری میں سے گنتی کی منظومات کا مطالعہ کیا ہے اور زیادہ تر میری معلومات بالواسطہ ہیں، اس لیے میں اس دعوے کی تردید یا تصدیق نہیں کرسکتا۔ البتہ جتنا میں نے پڑھا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تاثر، حسیات (محسوسات ) جوش وجدان اور سرمستی کا جب وہ ذکر کرتی ہے تو محض شعری تراکیب کے طور پر نہیں بلکہ یہ وضع زیست اور نظام فکر کے معنی خیز اشارے بن کر آتے ہیں وہ ارادے اور منشاء سے ابتلا کے راستے کا انتخاب کرنے والوں کو بادی النظر میں دکھ کے بدنصیب مسافر کہتی ہے ، مگر قلب نالہ کار کے تصفیہ یا تزکیہ اور وجدان کے عمق اور وفور اور اپنے مسلک حیات کے حاصل غم کی عطا کردہ بصیرت سے عاشق کے قالب کو ایک وقار اور تمکنت بھی بخشتی ہے۔
اس کی تخلیقی روح حسن کے سبھی ابعاد کی تفہیم میں سرگرداں نظرآتی ہے۔ کبھی سراب اور گریز پائی اسے نالہ زن کرتی ہے تو کبھی انعکاس جمال(مطلق) اسے وارفتہ وسرمست کر کے اس طرح متحرک کرتا ہے کہ وہ دھمال ڈالتی نظر آتی ہے۔ نگار کی ایک غزل اور چار نظموں کا اُردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے ؛غزل اور ایک نظم کے ترجمے کے ساتھ ترکی زبان کا موجودہ سکرپٹ اور ساتھ ہی ساتھ قیاس سے کام لے کر عثمانی رسم الخط بھی دیا جارہا ہے۔ جس میں نگار نے لکھا ہوگا اور یہ کام ۱۹۲۲ء سے پہلے اسی میں شائع ہوا ہوگا۔ غزل کی ردیف ’ ایدیجک یوک ‘ ہے (کوئی /کہیں نہیں ہوتا ) اور آزاد ،ا مداد ،�آباد، بینی داد، استاد اور اک شاد قوافی ہیں۔ غزل نگار کے مجموعے ’’ افسوس‘‘ سے لی گئی ہے جب کہ منظومات اس کے نمائنداور ضخیم مجموعے ’’ عکس صدا ‘‘ سے لی گئی ہیں۔ غزل اور منظومات کی بیشتر مفرس تراکیب اب ترکی زبان میں متروک ہیں اس لیے مروجہ لغات میں بھی نہیں ہیں جیسے منکسر الخاطرم ، مرحمت، طالع دونم ، پیک مغموم ، ساحل گزین ، ابتلائے ازل ، علائق ابدی ، سرور جناں ، بہار پر سعادت، عضو تر اور عضو زندہ دار وغیرہ ۔ تراجم نثری ہیں ، کوشش کی گئی ہے کہ نگار کی مفرس تراکیب کو جوں کا توں رکھاجائے تاکہ اس کی شعری لفظیات سے بھی شناسائی ہو ۔
غزل (Ghazel)
Feryad ki feryadima imdad edecek yok
Efsus ki gamdan beni azad edecek yok
فریاد کہ فریادما ادماد اید یجک یوک
افسوس کہ غمدان بینی آزاد ایدیجک یوک
ترجمہ :
و ائے کہ میری فریاد کی امداد کہیں نہیں (ہوتی)
اور حیف کہ اس غم کدہ سے مجھے رہائی دلانے والا کہیں نہیں (ہوتا)
Tesir-i-muhabbetle yikilmis guzel amma
virane dili bir daha abad edecek yok
تاثرِمحبتلی یکلمش گزیل اما
ویرانہ دلی ، برداہا آباد اید یجک یوک
ترجمہ :
محبت کا بکھیر دینے والا تاثر عمدہ ہے مگر
دل ایک مرتبہ ویران ہوجائے تو پھر آباد نہیں ہوتا
Kes varsa alakan bana ey Tali-i-dunum
Sen var iken alemde beni yad edecek yok
کس ورسا علاقاں بنا اے طالعِ دونم
سین واراکن المدے بینی یا داید یجک یوک
ترجمہ :
اے میرے طالعِ دوں ، اگر میرا تعلق تم سے ہے
تو پھر تمہارے سوا مجھے یا دکرنے والا کوئی (کہیں ) نہیں
Hakkiyle bilir zar gonul halet-i-aski
Mahirdir ofnde ani ustad edecek yok
حقیلی بلرزار گنل حالت عشقی
ماہر در اوفند ے آنی استادایدیجک یوک
ترجمہ :
دل زار حالت عشقی سے آگاہ ہو کر
اس فن کا ماہر ہوا جس میں استاد کوئی (کہیں ) نہیں
Ya Rab ne icin zar Nigari su cihanda
Nasad edecek coksa da bir sad edecek yok.
یا رب نے اچن زار نگاری شو جہان دا
ناشاد اید یجک چوک سادا، برشاد اید یجک یوک
ترجمہ :
یا رب تو نے نگار زار کو کیوں اس جہاں میں
ناشاد تو بہت رکھا اک شاد کہیں نہ بنایا
افسوس
گؤ جنمے (Gucenme)
خفانہ ہو
Gucenme, muztaribim, na-sekib-i-hicranim,
Gucenme, munkesirul hatirim, Perisanim,
Gucenme, merhamet et bi-nasib-i-vusalatinla,
Gucenme, yareliyim asli, istiyaak inla,
Gucenme, asli harabim senin firakinla
گؤجنمے مضطربم ، ناشکیبِ ہجرانم
گؤجنمے ، منکسر الحاطرم ، پریشانم
گؤ جنمے ، مرحمتت بے نصیب وصلت اِنلا
گؤ جنمے ، یاری لےئم اصلِ اشتیا ق اِ نلا
گؤ جنمے ، اصل حرابم سنیین فراق اِنلا
ترجمہ :
خفا نہ ہو (تو کہوں کہ ) مضطرب ہوں اور ہجر میں نا شکیب ہوں ، روٹھو نہیں (تو کہوں کہ ) پراگندہ خاطر اور پریشان ہوں۔ ناراض نہ ہو ( تو کہوں کہ ) تمہار ے کرم اور وصل سے بے نصیب ہوں ۔ خفا نہ ہو (تو کہوں کہ )تمہارے اشتیاق نے در حقیقت زخمی کیا ہے اور روٹھو نہ (تو کہوں کہ ) تیری جدائی نے ہمیں سچ مچ خراب وزبوں کیا ہے۔
Dusun.. kacar miyim ey yar, ihtiyarimla?
Mucahid olmadayim kalb-i bi-kararimla
Tahammul etmek icin iztirab-ifirkatinla
Bu Hasta kalbime dunyada tesliyet yokken
Gucenme, Kirma Beni bir de igbirar ile sen
دوشن ، کچر میم اے یار احتیارام لا
مجاہد اولمادیم قلب بے قرار ام لا
تحمل ایت مک اچن ، اضطراب فرقت اِنلا
بوحستہ ، قلبمے دنیا داتسلیت یوکن
گؤجنمے ، کرما بینی ، بردے ابرارالے سن
ترجمہ :
ذرا غور تو کر کہ میں اپنے بس میں کتنا رہا ہوں ۔ قلب بے قرار کے معاملے میں میں کوئی مجاہد بھی نہیں۔ تیری فرقت کے اضطراب میں حوصلے یا تحمل کے لیے میرے اس قلب بیمار کو دنیا میں تسلی دینے والا کوئی نہیں اور اگر تو خفا نہ ہو (تو کہوں کہ ) تو نے اپنے عتاب سے میرے دل کو ریزہ ریزہ کیا ہے۔
Tavahhusumla musebbib benim bu hicrana
Bu iztirab musabih zab-i-vicdana
Tahatturuyle bunun sizliyar cerihalarim
Nicin Bu Yareleri actin iltifatinla
Muruvvetinle o gosterdigin sebatinla?
تو حشم لا مسبب بینم بو ، ہجرانا
بواضطراب ، مشابہ عذاب وجدانا
تحاطر لی بنون سزلی یار جرا حلرم
نچن بویر یلری ای چن التفا ت اِنلا
مروت انلے اوگستردین ثبات اِنلا
ترجمہ:
میری وحشت ہی میرے ہجر کا سبب اور یہ اضطراب عذاب وجدانی سے مشابہ ہے ، اب اگر کبھی تم یاد کرتے ہو تو میرے زخموں سے ٹیس اٹھتی ہے ، زخموں کو چھیڑنے اور کریدنے والا التفات آخر کیوں ؟ (البتہ مجھے دیکھو ) میں نے محبت کا لحاظ رکھا ، کیا ثابت قدم نہیں رہی ؟
Amik huzn ile perverde kalb-i- rencidem,
Hayal u hatiram artik siyah reng-i-elem
Butun cevanibe nafiz gibi butun kederim
Senin gorunmedign yerler ah pek magmum
Gucenme asli yetisti bu tali-i-mesum
عمیق حزن الے پروردہ قلب رنجیدم
حیال وحاطرم ارتک سیاہ رنگِ الم
بطون جو انب نافذ گبی بطون کیدرم
سنین گؤردن میدین یرلر آہ پیک مغموم
گؤجنمے ، اصلی تیشتی بو طالع مشیوم
ترجمہ :
یہ حزن عمیق ، میرے قلب رنجیدہ کا پروردہ ہے ، پھر رنگ الم نے میرے خیال وخاطر تک کو سیاہ کردیا ہے ، چہار جانب مجھے درد مسلط نظر آتا ہے ، جب تم مجھے دکھائی نہیں دیتے۔ آہ (میری نظروں کے )مغموم قاصد ، اگر خفا نہ ہو تو کہوں کہ تیری رہبر میری بدبختی (نحس ستارہ) ہے۔ (عکس صدا)
اک مرتبہ پھر سے کہو (Bir Daha Soyle)
کیا ابھی دنیا میں اک یگانہ محبوب تمہارا میں ہی رہا ہوں ؟
کیا سچ مچ ، تمہارے عشق کا مخاطب اک میں ہی رہا ہوں ؟
اوہمہ حس عمیق ، اودل پرشوق
اوابتلائے ازل ، اہ علائق ابدی
Butun o' hiss-i amki fuad-i pur sevkin
O ibtila-yiezel o alaik-i-obedi
جس نے میرے وجود کو محصور کیا ہے ، اک مرتبہ پھر سے کہو
المناک سانحو ، آہ غم کی نشانیو
مجھے بھی آج اپنے جرم کا اقرار ہے کچھ تو کہو
اے میری جان ، اپنے دکھ مجھے دے دو
اگر دل میں تمہارے کچھ الم ہے یا کہ رنج پوشیدہ
جاؤ ، لے کے آؤ قلب میں میرے اس کو انڈیلو
پر اک مرتبہ پھر سے کہو (عکس صدا)
تمہیں بھی یاد ہے ؟ (Hatirindami)
میرے محبوب ، کیا تمہیں بھی یاد ہے
چار اپریل کی وہ مدھ بھری اک سیر ؟
میرے تو حافظ نے اس کو یوں مقید کرلیا
کہ یاد اس تاریخ کو کرنا
فرط مسرت سے مجھے وارفتہ کرتا ہے

کبھی اس دن کو بھلا تم یاد کرتے ہو؟
جب ہمیں بخشا تمہی نے جنت کا سرور ایسا
گویا میں کہتی رہوں ۔’’ لیجیوکہ چلی میں ‘‘
فرحت میرے دل کو ملی ایسی
کہ خبر پا کر بھی تمہاری ہی مطیع ٹھہری

اورپھر دو دن بعد، وہ شام اک بہار کی
او نسیم پر مست بہار ، جب خطروں کو یکسر ہی بھلا کر
میں نے کشی میں تمہیں اک بار بٹھایا

وہ حس گرم جو ساحل پہ سبھی کو لے جاتی ہے
ریت کے اوپر وہ انتظار اور وہ قرار جان
وہ مناظر، کیفیت ایسی اور وہ شعر بہاریہ

اور میں جو ساحل گزین وحدت ہوں بے شکایت ، منتظر ہوں
خوشا وہ شام کہ دامن امید تھامے منتظر ہوں

اے میری جان ، وہیں پہ سیر کرتی ہوں
ہاں وہیں پر غریب وسرگرداں پھرتی ہوں
ہر حجر پارہ ، ہر اک برگ پژمردہ
نظر جس پر پڑے میری ، مجھے آگاہ کرتا ہے
گزری ہوئی بہار پر سعادت سے ، یوں یہ تاثر دیرینہ

نئے سرے سے مجھ کو سودائی بناتا ہے
پھر پاؤں تلے میرے زمین زلزال ہوتی ہے
جیسے کھو بیٹھی وہ قابلیت رفتار اپنی بھی
اور یہی حاصل ہے میری عمر گزشتہ کا
(عکس صدا)
پھڑ پھڑ اؤ مت (Cirpinma)
پھڑ پھڑاؤ مت اور خود کو قید واسیری کے حوالے نہ کرو
پھڑ پھڑاؤ مت ، بے شک محبت میں تحمل اب نہیں باقی
پھڑپھڑاؤ مت کہ پھڑ پھڑاہٹ سے
بے سکونی کو عجب اکساہٹ ہوتی ہے
پھڑ پھڑاؤ مت کہ بے طرح لرزہ ، الم اک اور لاتا ہے
کپکپاؤمت اے میری نمناک ، اندوہ ناک آنکھو
پھڑ پھڑاؤ مت کہ رنج والم ، جان سے لپٹے جاتے ہیں
پھڑ پھڑاؤ مت کہ جتنے بھی غم وآلام سہنے تھے ، سہے میں نے
اف بس ، کافی ہیں وہی ، زیادہ ہیں وہی
قلب نالہ زن پہ یونہی بے سود ضربیں تم لگاتے ہو
پھڑ پھڑاؤمت کہ حزن تو تاب وتواں ہی چھین بیٹھا ہے
اب میرے تاثر جاں ، یہ گریہ کب تلک
باطن کے تاثرات سے روابط کب تلک؟
یہ عمر بے ثبات ہمیشہ رہے گی نہیں
جب اس اٹل حقیقت کی خبر ملتی ہے
تو پھر اس محتاجی پہ تعجب ہوتا ہے
جو رفتگاں کی امید سے جنم لیتی ہے
یہی ادراک انسان کو لرزہ براندام کرتا ہے
جبکہ غیر سارے ، مرے جذب دروں کو دیکھ کے حیرت میں گم ہیں
یہ حزن وغم انساں کے لیے ہیں ، وہ نہ ہوتا تو یہ بھی نہ ہوتے
اور دنیا اپنے محور پر یونہی بے الم گھومتی
اور جس نگر میں عقل نے انسان کو ظلم سکھلایا
اور آدمیت کے خلاف ایجاد کی نفرت
میری سمجھ تو ایسے نگر سے فرار کا حکم دیتی ہے
اور میرا جذب ایسے تنفر کی اطاعت کا مخالف ہے
میں نے تو اقبال عمرمیں اپنے کبھی کم ظرفوں کا خوف قبول نہ کیا
اور نہ مجھ دکھیانے چھوڑا کبھی تو کل
ہاں جو کم ظرفی کی روشن عام کا مطیع نہ ہو
تو یہ اسے اور ایذا دیتے ہیں
میں نے تو پوری عمر ، محسوسات کے ساتھ گزاری ہی نہیں
(چنانچہ) میرے اقربا کی رائے کبھی میری رائے کے مطابق نہیں رہی
جب وہ کہتے ہیں تم نے اپنی عمریو نہی رائیگاں کی
تو میں اس تذلیل پر اک زہر خند سے تالیاں بجاتی ہوں
یہ درست کہ یاس نے مجھے مقہور محنت بنا دیا
اور مؤقرو اپنے خلاف ہونے والے مظالم نے مجھے عاجز بھی کردیا
اور میرا عضو زندہ دار (دل) بازیچہ بھی بن چکا
لیکن تزکیے پر نازاں اے مرے قلب نالہ کار
گھبرا کر کبھی اپنے نظم میں خلل نہ آنے دو
انتقام جو گروہ ، توجہ کے لائق بھی نہیں
پھڑ پھڑا ؤ مت نہ خود افسردہ ہو نہ مجھے ملول کر
اے میرے ہم نوا کوئی نہیں جوا س بند کو کاٹے
پھڑ پھڑاؤ مت کہ کسی کو تمہارے حال کا ادارک نہیں
اس میلان نے جو دکھ دیا اسے وقار کے ساتھ قبول کرو
مت پھڑ پھڑاؤ، کہ اس فریاد سے سکوت بہتر ہے
اول سکوت اور پھر دائم سکوت (۱۹۰۵ء)
حواشی
* شاعرہ نے ’’ عضو تر ‘‘ کہا ہے ۔
۱۔ نیاز فتح پوری ، دیدہ وشنیدہ ، فیروز سنز لاہور ، ۱۹۹۱ء ،صفحہ ۱۳۲۔
۲۔ بحوالہ ڈاکٹر قمر رئیس ۔ یلدرم ، چند ابتدائی تحریروں کی روشنی میں ، مشمولہ سید سجاد حیدر یلدرم، (مرتب ثریا حسین ) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ ، صفحہ ۳۱۔
۳۔ نگار پاکستان ، کراچی ، جولائی ۱۹۶۶ء صفحہ ۳۲۔
۴۔ تاریخ ادب اُردو ، غضنفر اکیڈمی پاکستان ، کراچی ، صفحہ ۵۳۹۔
۵۔ یلدرم اور ترکی ، سید سجاد حیدر یلدرم ، علی گڑھ صفحہ ۳۱۔
6. Vol.ll, P. 991
7. Vol.ll, P. 217
مآخذ
1. Kenan Akyuz (ed) "Bati Tesirinde-Turk Siiri Antolojisi" (1860-1923) Inkilap Kitabevi-Istanbul 1986 (Dortuncu Bosim 4th edition)
2. Nihat Sami (ed) "Turk Edbiyat Tarih" (Vol.II) Milli Egitim Istanbul Ankara 1987.
3. M. Seyfeddm Ozegi "Eski Harflerle Basilmis, Turkce Serler Katalogu" Turkiye Diyanet Vakfi Islam-Istanbul 1991.
4. Mehmet Fuat Nigar Hanim "Bugunku Edebiyat" Ikbal Kutubhanesi, Istanbul 1924.
5. Yahya Kemal Nigar Hanimefendi Nevsal-i Milli Istanbul 1914.
۶۔ ثریا حسین (مرتبہ)، سیدسجاد حیدر یلدرم ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ(طبع اول)۔
۷۔ رام بابو سکسینہ، تاریخ ادب اُردو ، غضنفر اکیڈمی پاکستان ، کراچی (سن ندارد) ۔
۸۔ فرمان فتح پوری، ڈاکٹر ۔۔۔نیاز فتح پوری ، دیدہ وشنیدہ ، فیروز سنز، لاہور ، ۱۹۹۱ء ۔
۹۔ نگار پاکستان ، کراچی ، جولائی ۱۹۶۶ء ۔