دریافت مشرق کی روایت رہی ہے اور تہذیب سب سے زیادہ روایت کی جڑوں سے خوف کھاتی ہے۔ہم سوال پوچھنے سے ڈرتے ہیں اس لیے سوالوں کو اکثر بچگانہ اور بے ہودہ کہہ کر نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔تاریخی سیاق گواہ ہیں کہ قرآن مجید سماج کی رگوں میں جمنے والے خون پر عائد ہونے والے سوالات کے جواب کی شکل میں دھیرے دھیرے نازل ہوا۔اسی صورت ارجن کی کشمکش جب سوال کی طرح اس کے ماتھے پر شکن بن کر ابھری تو شری کرشن نے شریمد بھگوت گیتا میں اس کے جوابات دینے کی کوشش کی۔دریافت سوال کی مرہون احسان ہے اور سوال تہذیب کے ہالے پر منڈلاتے ہوئے بادل کی طرح ہے۔سوال کو رد کرنے کا ایک اور سیدھا سادا طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ صاحب سوال کی پیٹھ تھپتھپا کر اسے خاموش کردینے کی کوشش کریں۔معید رشیدی کی تنقیدی کتاب تخلیق، تخئیل اور استعارہ پر پہلا اعتراض یہی ہے کہ اس میں سوال بہت زیادہ ہیں۔لیکن سوالوں کی کثرت جوابوں کی تشنگی کو ختم نہیں کرسکتی۔کسی سوال کے اہم یا غیر اہم ہونے کا تعین تب تک ممکن نہیں ہے جب تک اس کا جواب وجود میں نہ آجائے۔ایسے اعتراضات کی کڑیاں تو خیر دور تک جاتی ہیں جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں مگر کچھ اعتراضات اس کتاب پر ایسے بھی ہیں جن کے جوابات تلاش کرنا ضروری ہیں۔پہلا اعتراض یہ ہے کہ معید رشیدی کی نثر گنجلک ہے اور اس کو سمجھنے میں دیر لگتی ہے۔تنقید افسانہ نہیں، نظم نہیں، مذہبی علائم نگاری نہیں تو پھر اسے سمجھنے میں دیر لگنے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے۔کیا یہ بھی تردید کی ایک شکل ہے؟ کیا اس طرح بھی سوالوں کی چارپائیوں پر بیٹھ کر سورۂ یٰسین پڑھی جاتی ہے۔میں نے معید رشیدی کا ہر مضمون کم سے کم تین بار تو ضرور پڑھا ہوگا لیکن میں اس مطالعے کے دوران کہیں بھی وہ خشکی محسوس نہ کرسکا جس کی نشاندہی اردو کے ایک ممتاز ناقد نے کی ہے۔ہاں جو چیز مجھے ان کے یہاں کھٹکی وہ یہ تھی کہ وہ اپنی بات کے تسلسل میں دوسری باتوں کو مدغم کرتے چلے جاتے ہیں، لیکن اس سے تحریر گنجلک نہیں ہوتی البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ تنقید نگار کی سائیکی میں سرگوشیاں کرنے والے سوالات کی کہکشاں کا ایک ہلکا سا نظارا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔معلوم ہوتا ہے یہ شخص ہمیں کسی نئی سمت لے جانا چاہتا ہے لیکن اس کے لیے سواریاں وہی پرانی ہیں جن پر ہمارے ادبا برسوں سے بیٹھتے چلے آرہے ہیں۔ذہن جب مجتہد ہوتا ہے تو اس کی تکلیف بڑھ جاتی ہے، فرد جب اپنے سماج یا اپنے پیش رو کی کسی بات کو رد کرتا ہے تو یہ دراصل اس کی اپنی تردید ہوتی ہے مگر اسی تردید کی جرأت انسان کو اپنے اثبات کا اعتمادبخشتی ہے۔دوسرا اعتراض ان پر یہ ہے کہ وہ قاری کو لے کر خلاؤں میں بھٹکتے رہتے ہیں اور اسے ایک انوکھے مگر دلچسپ سفر سے واپس لاکر اسی پہلے سوال پر پٹخ دیتے ہیں جہاں سے ان کے مضمون کا سفر شروع ہوا تھا۔اس اعتراض پر مجھے ہنسی آتی ہے ہر اہم مضمون دراصل ایک سوال ہوتا ہے اور سوال کا سفر کبھی ذہن کی پیچیدہ اور الجھی ہوئی گلیوں میں طے ہوتا ہے تو کبھی پر کھولے ہوئے تازہ آسمانوں میں۔لیکن اسے واپس تو اپنی اصل پر ہی آنا ہے۔دنیا کا کوئی بھی اہم تنقیدی مضمون سوال کا جواب نہیں ڈھونڈتا صرف سوال کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور اس کی حکمت کا اعتراف کرواتا ہے۔اس میں بھٹکنے کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا یعنی جو لوگ خود کو بھٹکتا ہوا محسوس کرتے ہیں وہ اس سفر سے لطف اندوز ہونا نہیں جانتے جو ذہن میں ارتعاش پیدا کرنے کا ہنر اپنے اندر رکھتا ہے۔ان اعتراضات سے آگے بڑھ کر معید رشیدی کے تنقیدی مضامین کی طرف بڑھتے ہیں تو سب سے پہلے ان کا نظرےۂ تنقید واضح ہوتا ہے۔لیکن اس سے پہلے میں یہ ضرور بتادوں کہ وہ تنقید میں بھی ایک طرح کی تخلیقی ہنرمندی کے قائل ہیں، ان کے بیانات میں ابہام ہے مگر ابہام ان ذہنوں کے لیے ہے جو تحریروں کو اوپر اوپر سے پڑھنے کے قائل ہیں یا دوسروں کو اس ابہام کے اندرون میں جھانکنے سے باز رکھنا چاہتے ہیں۔خیر معید کی زبانی سنیے لطف آئے گا۔
’’ابہام گھنا سایہ قائم کرتا ہے۔یہ سایہ آسودگی نہیں طوفان برپا کرتا ہے۔شاید اسی لیے کہ مفروضے کے سبب معنی ہمیشہ حاشیے میں رہتا ہے۔مرکز تک رسائی اس کے مقدر میں نہیں۔سارا کھیل مرکز؍جوہر کو پانے کا ہے۔معاملہ اسرار کی دریافت کا ہے۔استعارہ اس بھید کو سینچتا ہے۔اس کے حصول کے لیے اس میں ضم ہونا پڑے گا۔اگر آپ راضی ہیں، تو لیجیے زندگی اور فن کی دوئی ختم ہوئی۔استعارے کی زبان پر اعتراض کوئی معنی نہیں رکھتا۔اس لیے اب خون قہقہہ لگائے گا۔سمندر چیخے گا۔تجربہ آگ کو دھوسکتا ہے۔دھوپ کو سکھا سکتا ہے۔سورج اگر ٹھٹھرنے لگے تو ناممکن مت سمجھیے۔پانی آگ اگلنے لگے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔آسمان کو کورا کاغذ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔قطرہ دجلہ بن سکتا ہے اور ہاتھ خنجر۔آنکھیں سوچ سکتی ہیں۔دل آتشکدہ ہے۔محبت ایک دیوی ہے۔اس کا غم وہ امرت ہے جو زندگی کو جاوداں بنادیتا ہے۔یہ استعاروں کی دنیا ہے۔ہمارے داخل کی دنیا ہے۔‘‘
(پیش نامہ؍صفحہ-۱۲۔۱۱)
اس ادبی گفتار میں استعارے کی لازمیت پر معید رشیدی کا اصرار کیوں ہے۔یہ بھی ایک سوال ہے۔یہ کون سی تنقید کا چہرہ ہے جس میں تخلیق کے شانہ بشانہ استعارے کا اتنا گہرا دخل ہے جو استعارے کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا، وہ زندگی ہو یا ادب، کسی بھی جگہ خود کو منوا نہیں سکتا۔استعارہ کیا کوئی خدا ہے جس کو مانے بغیر چارہ نہیںیا جسے نہ مان کر بھی اس کے حصول کی خواہش میں فنکار کی عمر گزر جاتی ہے۔استعارے کی اہمیت تخلیق میں ضمنی کیوں نہیں ہوسکتی۔مبالغہ ایسا بھی کیا ضروری ہے، تشبیہ سے کون سی ندرت پیدا ہوتی ہے اور علامت کون سی عیسیٰ مسیح ہے جو مردہ لفظوں میں بیانیے کی جان پیدا کرسکتی ہے۔معید رشیدی نے ہمیں سمجھایا ہے کہ استعارہ دراصل ایک قوت ہے، پورے نظام حیات کو الٹ دینے کے باوجودبھی اس میں معنویت پیدا کرنے کی قوت ہے۔ہر کہانی ایک استعارہ ہے، ہر مذہب ایک استعارہ ہے، ہر تصویر ایک استعارہ ہے۔یہ استعارے کا ہی شعور ہے جو ہمارے ذہن کی پرواز کی حدیں طے کرتا ہے، استعارہ جبرئیل کی طرح صرف سدرۃ المنتہیٰ تک ہی نہیں جاتا بلکہ خدا بھی بجائے خود ایک استعارہ ہے ہمارے اختیار کا، ہماری تحسیب کا، ہمارے سرور کا اور ہماری تائید ذات کا۔اجتہاد کی تمام راہیں استعارے کی منزل سے ہوکر گزرتی ہیں بلکہ یہ ایک ایسی منزل ہے جو سفر میں بھی ساتھ ساتھ رہتی ہے۔تخئیل استعارہ سازی کا عمل نہیں انجام دیتی، یہ کام توفن کار کا ہے ، تخئیل اشارہ کرتی ہے اور استعارہ اس اشارے کی تہہ تک پہنچاتا ہے۔اس لیے جس نے استعارے کو پالیاوہ تہہ تک پہنچ گیا اور جو استعارے سے دور رہا اس کی سطحیت نمایاں ہوگئی۔لیونارڈ ونچی کی مونا لیزا ایک عورت ہے لیکن وہ صرف عورت کا استعارہ نہیں ہے، بلکہ عورت پن کا استعارہ ہے، اب اس کے ضمنی حوالوں پر غور کیجیے تو اس کی مسکراہٹ، ماتھا، آنکھیں ، دھڑ اور مختلف باتیں جو اس کے اندر موجود ہیں سب کی سب استعاروں سے لبریز ہیں۔کلاسیکل شاعری پر غیر افادیت اور غیر مقصدیت کا الزام کیوں عائد ہوا تھا کیونکہ ہمارے نئے ناقدین صاف طور پر بات کہنے کی عادت ڈالنا چاہتے تھے، انہیں استعاروں میں الجھنا پسند نہیں تھا، ہم ویسی شاعری سے ڈرنے لگے جن میں رعایت ہو، تعلیل ہو، علامت ہو، تشبیہ ہو، مبالغہ ہو یا استعارے کی کوئی اور شاخ ہو۔اس لیے ہم دوسرا میر پیدا نہ کرپائے،دوسرا غالب نہیں ڈھونڈ سکے اور دوسرا اقبال بھی نہ لاسکے۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے یہاں سے تخلیق غائب ہوتی چلی گئی۔ہم کھلی ہوئی باتوں کے عادی ہوتے چلے گئے، ہمیں راشد اور میراجی سے ڈر لگنے لگا اور فیض صاحب زبردستی عظیم شاعر بن بیٹھے۔معید رشیدی کے مضامین اس حوالے سے جمی جمائی باتوں کی برف پر برچھی مارنے کا کام کرتے ہیں۔استعارے سے ان کے ایسے گہرے شغف نے ہی ان کی تنقید ی زبان کو بھی متاثر کیا ہے۔خیر، یہاں ہم ان کے ایک ایسے حوالے پر نظر ڈالتے ہیں جو استعارے اور معید کے ذہنی ربط کی نشاندہی کرسکے۔
’’۔۔۔استعارے کی فہیم بندھے ٹکے خطوط پر نہیں ہوسکتی۔چندمثالوں سے اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔جس طرح زندگی ہر روز نیا لباس بدل رہی ہے، اسی طرح استعارہ بھی نئے نئے سیاق میں ظاہر ہورہا ہے۔اس کا ہر نیا روپ تنقید کو بحث اور مکالمے کی دعوت دیتا ہے۔‘‘
(استعارے کا بھید؍صفحہ نمبر-۲۸۔۲۷)
عسکری نے کہا تھا کہ استعارے سے فرار زندگی سے فرار ہے، معید بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہے اس استعارے میں جو اسے حالی بلاغت کا رکن اعظم کہتے ہیں۔سیدھی سادی بات کیا استعارے سے عاری ہے؟ نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم کوئی بات سیدھی طرح کہتے ہیں تو اس میں فن کا فقدان ہوتا ہے۔یہ اس طرح ہے کہ سیدھی بات کسی سیدھے خط کی طرح ہے جوایک جگہ جاکر ختم ہوجاتا ہے لیکن ابہام کسی ایک نقطے سے پھوٹنے والے ان خطوط کی تشکیل کا نام ہے جو گہرے، الجھے، کچے جذبوں کی گیرائی ناپنے پر مجبور کرتے ہیں۔ابہام تجسس بڑھاتا ہے، چونکاتا ہے، ذہن میں ارتعاش پیدا کرتا ہے اور ابہام کی تعمیر ، استعارے کی اینٹوں سے ہی ممکن ہے۔مثال کے طور پر غالب کے دو شعردیکھیے
طاعت میں تا رہے نہ مئے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
اور
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے وہ تری جلوہ گاہ ہو
پہلا شعر ایک عام اسٹیٹمنٹ ہے اور دوسرا شعر ایک استعارہ ہے۔بہشت خوبصورت ہے، عیش گاہ ہے، نعمت کدہ ہے، لیکن شاعر اسے محبوب کی جلوہ گاہ کا استعارہ بنانے پر بضد کیوں ہے۔اب بہشت کے تصور اور جلوہ گاہ محبوب کی زندگی کے درمیان مشابہت کے ہزار راستے کھنگالتے جائیے، بات ختم ہونے میں ہی نہ آئے گی، دو سے چار اور چار سے آٹھ کا یہ مسلسل عمل، صرف ایک استعارے کی دنیا میں ہی ممکن ہے۔اب ایسے عظیم لفظ کی تعریف چار سطروں میں کیسے ممکن ہے۔میں نہیں کہتا کہ استعارے پر معید کا مضمون حرف آخر ہے، لیکن حرف سوال ضرور ہے جو ہمیں زندگی، ادب اور استعارے کی تثلیث کی اہمیت پر غور کرنا سکھاتا ہے۔
معید رشیدی نے نثری نظم کے حوالے سے بھی اپنے دو مضامین میں اہم باتیں کی ہیں۔اول تو ان کا وہ مضمون ہے جوپہلے پاکستان میں شائع ہوا اور وہاں ان کی شناخت کا پہلا حوالہ بھی بنااور جس کا عنوان ’عروض، معروض اور نئی بوطیقا‘ ہے اور جسے ہمارے ایک اورفاضل ناقد نے ازراہ تمسخر یاجوج ماجوج سے تشبیہ دی تھی۔مگر اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر بہت سے اعتراضات ہوئے۔اعتراضات ہمیشہ زندہ لوگوں اور زندہ باتوں پر ہی کیے جاتے ہیں، زخمی، سسکتے یا مردہ اسٹیٹمنٹس اعتراض کے لائق ہی نہیں ہوتے۔ان اعتراضات کے جواب میں معید رشیدی نے ایک اور مضمون ’ نثم یا شعری مقالہ‘ لکھا جو کہ اسی کتاب میں شامل ہے۔اس طرح یہ دونوں مضامین ایک ہی قبیل کے ہیں اور ان کے درمیان ایک تسلسل موجود ہے۔’عروض ، معروض اور نئی بوطیقا‘ میں معید رشیدی نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ شاعری موزونیت کی محتاج نہیں ہے۔انہوں نے نثری نظم کے وجود اور اس کو شاعری کی ایک اہم صنف ہونے پر قائم ہونے والے سوال کا جواب دینے کی بساط بھر کوشش کی ہے۔ان کے علمی اور منطقی دلائل کئی جگہوں پر متاثر کرتے ہیں، اس ضمن میں انہوں نے شمس الرحمن فاروقی سے زبردست اختلاف کیا ہے اور ان کی تضاد بیانی کی نشاندہی بھی کی ہے۔نثری نظم کے حوالے سے معید رشیدی کا رویہ کافی حد تک مثبت ہونے کے ساتھ ساتھ جارح ہوتا ہوا بھی نظر آتا ہے مگر اس جارحیت میں بھی وہ اپنی ناقدانہ صلاحیت سے بھرپور کام لینا جانتے ہیں۔موسیقیت کے حوالے سے امداد امام اثر کے ایک بیان کو رقم کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
’’شعر میں خیال الفاظ کا جامہ زیب تن کرتا ہے۔ہر لفظ کی اپنی ساخت اور اپنا صوتی آہنگ ہوتا ہے۔جب الفاظ مصرعوں میں ڈھلتے ہیں تو اصول یا افاعیل کی تکرار سے صوتی حسن پیدا ہوتا ہے جسے خوش آہنگی کہتے ہیں۔الفاظ کے صوتی زیر و بم سے موسیقیت پیدا ہوتی ہے۔موسیقیت کسی شعر کے حسن کو دوبالا کردیتی ہے لیکن شعر میں پہلے شعریت ہونی چاہیے،بعد میں کچھ اور، اگر منظومہ شعریت سے عاری ہے تو موسیقیت اسے شعر قطعی نہیں بناسکتی۔شعریت صوتی ریاضی کی قلمرو کی محکوم نہیں۔اس کا اپنا وجود ہے جو نثر میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے اور شعر میں بھی۔‘‘
(عروض، معروض اور نئی بوطیقا؍صفحہ نمبر۵۷)
دوسرے مضمون ’ نثم یا شعری مقالہ‘ میں وہ ایک اور پتے کی بات کہتے ہیں۔
’’پٹے پٹائے فقرے مشہور تو بہت ہوتے ہیں لیکن ان میں مغز کتنا ہوتا ہے؟ یہ بھی تو دیکھنے کی ضرورت ہے۔مثلاً یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اچھا عروضی اچھا شاعر نہیں ہوسکتا۔کلام، موزوں ہو اور متکلم نے بہ ارادہ موزوں کیا ہو۔شاعری موسیقی ہے اور موسیقی شاعری۔علم عروض شاعری کے لیے ضروری علم ہے ۔شعر(شاعری)کی بنیاد عروض پر قائم ہے۔شعر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسے قصداًیا ارادتاً کسی وزن پر ڈھالا جائے یا موزوں کیا جائے۔۔یہ سب کیا ہیں؟ان میں مغز کتنا ہے؟باربار سننے کے سبب ممکن ہے سامعہ کو بھلا لگے، لیکن غور کیجیے تو معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوجاتا ہے۔اچھا عروضی اچھا شاعربھی ہوسکتا ہے۔یہ ناممکنات میں نہیں، یہ مستثنیات میں بھی نہیں۔‘‘
(نثم یا شعری مقالہ؍صفحہ۷۱)
معیدرشیدی ذہن کے سمندر میں تلاطم پیدا کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ان کے سوالات کا جواب صرف نفی و اثبات میں ممکن نہیں ہے۔اس کے لیے انہی کا دیا ہوا راستہ اپنانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔وہ اپنے پیش رو ناقدین کی طرف رخ کرتے ہیں، ان کی کہی ہوئی باتوں سے اتفاق اور اختلاف کرتے ہیں اور ان کی دلیلیں بھی فراہم کرتے ہیں۔مغربی تنقید کے حوالے ضروران کے یہاں موجود ہیں مگر وہ مغربی تنقید کی کسوٹی پر اپنے ناقدین کی تنقیدات کو کسنا نہیں چاہتے۔ان کا ماننا ہے کہ تنقید کا جغرافیائی لحاظ بھی ضروری ہے۔مغرب و مشرق کے تنقیدی زاویے مختلف ہیں اور بات بات پر عبدالرحمن بجنوری اور کلیم الدین احمد کی طرح اپنے پیش روؤں کو مغربی تنقید کا حوالہ دے کر گالیاں دینا سراسر بے وقوفی ہے۔حالی کے تعلق سے انہوں نے یہی بات لکھی ہے۔
’’حالی کی تنقید کا ڈھانچہ مشرقی بنیادوں پر ہے۔مغربی میزان سے ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوسکتا۔‘‘
(تخیل کی شرح؍صفحہ نمبر۴۳)
اسی طرح انہوں نے کلیم الدین احمد کی جانبداری کا ابطال کرتے ہوئے محمد حسین آزاد کی تنقیدی بصیرت کی بھی تعریف کی ہے۔اپنے اسی مضمون میں وہ پہلے لکھ آئے ہیں :
’’کلیم الدین احمد نے آزاد سے متعلق لکھا ہے کہ ان میں نقد کا مادہ مطلق نہ تھا۔اس لیے کہ انگریزی لالٹینوں کی روشنی ان کے دماغ تک نہیں پہنچی تھی۔ان کی یہ رائے مطلق نفی کا اعلان کرتی ہے ۔یہ درست ہے کہ وہ (محمد حسین آزاد)گول مول باتیں کرتے ہیں، لیکن یہ صورت حال یکساں نہیں رہتی۔وہ کام کی باتیں بھی کرتے ہیں۔’نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات ‘ان کا نہایت اہم لکچر ہے، جس میں اپنے ڈھب سے انہوں نے تخیل پر گفتگو کی ہے کہ شاعر تمام عالم میں اس طرح حکومت کرتا ہے جیسے کوئی صاحب خانہ اپنے گھر میں پھرتا ہے۔پانی میں مچھلی اور آگ میں سمندر ہوجاتا ہے۔ہوا میں طائر بلکہ آسمان میں فرشتہ کی طرح نکل جاتا ہے۔جہاں کے مضامین چاہتا ہے بے تکلف لیتا ہے اور بہ تصرف مالکانہ اپنے کام میں لاتا ہے۔‘‘
(ایضاً؍صفحہ نمبر۴۲)
نظری تنقید کے ایسے نمونوں کے علاوہ علمی تنقید پر مبنی ان کی کتاب ’تخلیق ، تخئیل اور استعارہ‘میں مولانا محمد حسین آزاد، فیض احمد فیض اور میراجی پر بھی ان کے مضامین ہیں۔موخرالذکر دو مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔فیض پر تو خیر ان کے مضمون نے ترقی پسندی کی بچی کچی ساکھ پر بھی زبردست اثر ڈالا اور معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اس مردہ نظرےۂ حیات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا کام کررہے ہیں۔وہ فیض کو عظیم شاعر ماننے سے انکار کرتے ہیں، پھر فیض کی ترقی پسندی پر قائم ہونے والے سوالات پر مسکراتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ کیا فیض کا شاعر ہونا کافی نہیں ہے؟فیض پر لکھے گئے ان کے اس مضمون ’ رات، احتجاج اور صبح‘ میں وہ بڑی صفائی سے فیض کی شاعرانہ صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے، شاعری اور چیخ پکار کے بکھیڑوں اور ترقی پسندوں کے پروپیگنڈوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ملاحظہ ہو:
’’جب ہم کسی شعر کو پڑھتے ہیں تو وہ شعر ہمیں بھی پڑھتا ہے۔یعنی شاعری میں ذہن کو بدل ڈالنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔یہ تبدیلی ایسی نہیں ہوتی کہ کوئی پھاؤڑا لے کر کسی سرمایہ دار کا سر پھوڑ ڈالے۔یہ کسی سیاسی لیڈر کی جذباتی تقریر سے تو ممکن ہے، شعری عناصر سے یہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔شاعری نعرہ لگانے، جوش پیدا کرنے، چیخنے چلانے اور پکارنے جیسی کوئی شے نہیں کہ آؤ، چلو، دیکھو، بڑھو۔۔۔۔‘‘
(رات ، احتجاج اور صبح؍صفحہ نمبر۱۱۸)
شاعری انقلاب لانے والی کوئی شے نہیں، نہ ہی وہ کوئی تبلیغی جماعت کی رکن ہے جو اپنے اصلاحی مقصد کی ترجمانی کے لیے پاؤں میں ایک جوڑی پھٹی اور گھسی ہوئی چپل پہنے دور تک گھسٹتی چلی جارہی ہو۔شاعری کو ایصال ثواب سے رغبت نہیں ہے رغبت ہے تو صرف فن سے ۔معید کا نظریہ صاف ہے کہ ہمیں فن چاہیے، انقلاب نہیں اور نہ ہی وہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ شاعری انقلاب کا محرک ہوتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’انقلاب نظموں سے نہیں آتا اور اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے تمام انقلابی شاعر ہوتے‘اس بات پر مجھے شمس الرحمن فاروقی کی وہ بات یاد آگئی جو انہوں نے ’شعر غیر شعر اور نثر ‘ میں لکھی تھی کہ جوش تو مزدوروں کے نعروں میں بھی ہوتا ہے تو کیا ہم انہیں شاعر کہنے لگیں۔اور دیکھا جائے تو یہ سارا چکر استعارے سے خوف کھانے ، مبالغے کو گالیاں دینے اور تشبیہ و علامت سے پرہیز کرنے کی وجہ سے طول پکڑ گیا ہے۔جدیدیت میں اس کا احیا ہوا تو لوگ بوکھلائے، ظفر اقبال، احمد مشتاق اور عادل منصوری اپنے اپنے طور پر اس سمت میں بڑھے مگر کوئی علامت کے دام میں الجھ کر رہ گیا تو کسی نے اس کی نفس کو سمجھنے کی کوشش کی۔ظفر اقبال کے یہاں یہ دونوں رویے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ابہام تو آسان باتوں میں بھی ہوتا ہے، استعارہ تو کوئی معمولی سے معمولی لفظ بھی ہوسکتا ہے، بات کی سادگی اور لفظ کا معمول اپنا حلیہ نہیں بدلتے بس لباس بدل کر خوبصورت ، حسین، مبہم اور پراسرار بن جاتے ہیں۔
معید رشیدی کے مضامین اپنی اجتہادی روشوں کی بنیاد پر دیر پا ثابت ہوں گے۔ادب میں ان کا مستقبل جیسا بھی ہو ان میں موجود سوالوں کا مستقبل ضرورروشن ہے۔کیونکہ یہ تو آنے والے عہد کے ناقد کے ذہنی وعلمی سرمائے پر بھی سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھے رہیں گے۔اس کتاب نے تنقید کے حوالے سے اردو میں ایک نئے اسلوب اور ایک اچھوتی فکر کا اضافہ کیا ہے۔اسے صرف حالی، شبلی اور آزاد سے معید رشیدی کے والہانہ لگاؤ پر محمول کرکے درکنار کرنا ہماری بدقسمتی ہے ورنہ اس میں اور بھی بہت کچھ ہے۔بس غور سے پڑھنے اور پڑھتے رہنے کی ضرورت ہے۔****
اخبار اردو کے نام
محترم و مکرم جناب ڈاکٹر انوار احمد صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ۔
ماہنامہ اخبارِ اردو ، اکتوبر ۲۰۱۲ء زیرِ مطالعہ ہے۔ مصروفیات کی وجہ سے ذرا دیر سے پڑھنا شروع کیا۔ زبانِ اردو کی ترویج و ترقی کے لیے مقتدرہ قومی زبان بے حد جامع اور وقیع انداز سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔ قومی مقاصد اور نفاذِ قومی زبان (اردو) کے لیے اس کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ ہرشمارہ متنوع مضامین کے ساتھ ساتھ شعرائے کرام اور ادبائے عظام کے تعارف و ادبی تخلیقات سے مزّین ہوتا ہے۔ بہت سے فراموش کردہ ادیبوں اور شاعروں کے متعلق بھی عصرِ حاضر کے نقد و نظرسے تعلق رکھنے والے اہلِ قلم کو دعوتِ فکر دی جاتی ہے ۔ اس شمارے میں معین الدین صاحب کا مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جناب محمد احمد سبزواری کا مقالہ بھی چشم کشا ہے۔ دیگر تمام سلسلے بھی خوب ہیں۔
خاص طور پر گوشہ ’’کتاب میلہ‘‘ ہم جیسے ادبی مراکز سے دور رہنے والے ادب کے طالب علموں کے لیے بے حد مفید ہے۔ نئی تخلیقات سے واقفیت ہو جاتی ہے اور ان پر تبصرے سے رہنمائی بھی مگر اس میں بعض کتب کے ناشرین کاتذکرہ نہیں ہوتا تاکہ رابطے کی صورت آسان ہو بلکہ اس کا ٹیلی فون نمبر، صفحات اور قیمت وغیرہ کا اندراج کیا جائے ۔ اس شمارے میں بھی یہ کمی محسوس ہوئی خصوصاً صفحہ ۲۵ پر ’’بانگ درا(بہ اعتبارِ زمانہ) از عروبہ سرور کیفی پر تفصیل پڑھ کر اس کے حصول کی خواہش پیدا ہوئی تو ناشر سے رابطہ کا ذریعہ موجود نہ تھا اور اسی طرح ایک اور اقبالیات کے سلسلے کی کتاب ’’اقبالیاتی مکاتیب (ادبی)‘‘ میں ناشر کا نام تو درج ہے مگر فون نمبر نہیں۔ مجھے اس بارے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب سے رابطہ کرنا پڑا۔ بہر کیف اخبارِ اردو بتدریجِ بہتری کی طرف گامزن ہے۔ انشاء اللہ یہ جریدہ اہلِ علم و ادب کی پیاس بجھائے گا۔
گوہر ملیسانی