اقبال اور قومی زبان اردو

سعید صدیقی


ابتلا اور مصائب کے اس دور میں جب اردو کو مٹانے کی سازشیں اپنے عروج پر تھیں مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں جس قوم کو جملہ سیاسی اور معاشی مراعات سے نوازا تھا۔ ان کا مہاتما کہتا تھا کہ اردو قرآن کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، اردو مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے، قآن کے حرفوں سے لکھی جاتی ہے، اسے مسلمان بادشاہوں نے پھیلایا لہٰذا ہندوستان کی زبان ہندی ہونا چاہیے۔ ہم کسی قیمت پر ہندی کو نہیں جھوڑ سکتے۔ اردو ہندی جھگڑا سر سید احمد خان کے زامنے سے چلا آرہا تھا ، دفتری اور عدالتی زبان اردو کو ختم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سازشیں جاری تھیں۔
سرسید احمد خان نے ۱۸۸۶ء میں بنارس کے مقام پر واشگاف الفاظ میں کہا تھا اگر ہندؤوں کی تنگ نظری اور تعصب کا یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب برصغیر ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کے درمیان بٹ جائے گا۔ گویا اردو قومی نظریہ کی اساس اردو زبان بنی جو مطالبہ پاکستان کی شکل میں ایک سیاسی تحریک کے طو رپر ملک کے طول و عرض میں پھیلتی چلی گئی۔ سر سید احمد خان کے دو ادارے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس اور سائینٹیفک سوسائٹی نے مسلمانوں میں سیاسی اور معاشی شعور بیدار کیا اور ہندوستان میں وسیع پیمانے پر مسلم سکو اور کالج کھلتے چلے گئے۔ انجمن حمایت اسلام کی بنیاد لاہور میں اسی کے سبب قائم ہوئی۔ جناب حسن علی آفندی نے سندھ مدرستہ الاسلام کی کراچی میں بنیاد ڈالی۔ علامہ اقبال نے ایک طرف بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا بھرپور ساتھ دیا۔ صوبہ پنجاب میں یونینسٹ کے سحر کو توڑ کر اس کے مقابلے میں مسلم لیگ کے لیے راہ ہموار کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ ادھر فروغ اردو کے سلسلے میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی۔ اقبال ڈے کی مناسبت سے میں نے یہاں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی ایک تقریر کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے، تحریر کر رہا ہوں۔ فرماتے ہیں ایک ایسے نازک وقت میں کہ ہم شکستہ دل اور مایوس تھے اور ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی ۔ حق تعالی ٰ نے اپنے رحم و کرم سے ہماری قوم میں اقبال جیسی عظیم المرتبت ہستی کو پیدا کیا جس کی نظیر نہ صرف اس برصغیر بلکہ اس عہد کی تمام دنیائے اسلام میں نہیں ملتی، یہاں تک کہ غیروں نے بھی اس کی عظمت کا اعتراف کیا ہے اور انھیں کہنا پڑا کہ اقبال بہت بڑا شخص تھا۔ بڑا شخص سے کیا مطلب ہے ایک صاحب جاہ و ثروت بھی بڑا شخص ہو سکتا ہے، ایک عالی دماغ فلسفی بھی بڑا شخص مانا جا سکتا ہے، ایک نازک خیال شاعر ، ایک ماہر متاع ،ایک عالم متحیر، ایک کامل سیاست داں یہ سب بڑے شخص ہو سکتے ہیں لیکن ہم جسے بڑا شخص مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ وہ جو اپنے افکار اور اپنی زندگی سے دلوں میں ولولہ اور دماغوں میں جلا اور خیالات میں انقلاب پیدا کر دے اور ان کے طرز فکر ہی کو نہیں بلکہ ان کے دماغوں کی ساخت کو بھی بدل دے اور زندگی کا نیا تصور عطا کرے، قوم کی تاریکی سے نکال کر اجالے میں لے آئے اور بستی اور ذلالت کی راہ سے موڑ کر اس راستے پر لے آئے جسے ہم صراط مستقیم کہتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے مصلحین، مفکرین نے جو کیا خلق خدا کی یہی خدمت اقبال نے انجام دی وہ بہت بڑا بت شکن بھی تھا۔ اس نے جمود، سکون کے بت کو توڑا ، فرنگی تہذیب کے بت کو توڑا، یونانی عجمی اور ہندی تہمات اور خیالات باطلہ کے بت کو توڑا اور حیرت انگیز انقلاب اس نے اپنے حیات آفریں خیالات کی قوت سے برپا کیا۔ خیال کی قوت دنیا میں سب سے بڑی قوت ہے ایٹم بم کی قوت سے زیادہ ایک ایک خیال نے دنیا کے طبقے الٹ دیے ہیں۔ قوم کی کایا پلٹ دی ہے۔ ان میں نئی زندگی بھر دی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مردوں کو زندہ کر دیا ہے۔ اقبال کے کلام میں ایسے انقلاب انگیز اور حیات آفریں خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ اس کے اندر حکمت و ہدایت کے بے بہا جواہرات بھرے ہوئے ہیں جس سے ہر شخص اپنی افتادہ طبع اور مزاج کے موافق ہدایت اور روشنی حاصل کر سکتا ہے۔ میرے دل میں اقبال کی بڑی قدر ہے وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے عالی خیالات اور افکار بلند سے ہماری قومی زبان کا مرتبہ اس قدر بلند کر دیا کہ اس سے پہلے اسے کبھی نصیب نہیں ہوا۔
ہمیں اردو کا ممنون ہونا چاہیے کہ اس کے واسطے سے ہم نے اقبال کو پہچانا۔ اگر اقبال کسی مقامی زبان میں لکھتا تو کیا یہ مقبولیت، یہ اثر، یہ جوش اور یہ بیداری پیدا ہو سکتی تھی، ہرگز نہیں۔ اگر آپ گزشتہ تاریخ پر نظر ڈالیں گے تو معلوم ہو گا کہ اس کی ابتدا بھی گو وہ کسی بھی خفیف ہو اردو سے ہوئی۔ ۱۸۶۷ء میں ہندوؤں نے اردو کو دفتروں اور عدالتوں اور مدرسوں سے خارج کرنے کی زبردست کوشش کی سر سید نے اس کا مقابلہ کیا اور آخر دم تک اس کی حمایت میں مردانہ وار لڑتے رہے۔ اپنی تعلیمی رپورٹ کے سلسلے میں لکھتے ہیں۔ میں ۳۰ سال سے ملک کی خدمت کر رہاہوں ۔ میں نے کبھی ہندو مسلمان کا امتیاز نہیں کیا لیکن جب ہندوؤں نے اردو کی مختلفت کی اور ایسی بیزاری کا اظہار کیا جس کا تعلق اسلامی عہد سے ہے تو مجھے یقین ہو گیا کہ ہم مل کر کام نہیں کر سکتے اور میں نے اپنی کوششوں کا رخ مسلمانوں کی اصلاح اور تعلیم کی طرف پھیرا دیا۔ اس وقت سے مسلمان الگ ہو گئے اور دوجدا قومیں بن گئیں۔ سر سید نے قوم اور قومیت کا مفہوم بدل دیا۔ اس وقت سے ہمارے دلوں میں ایک نیا تصور بیدار ہوا۔ غرض اگر آپ واقعات کا مطالعہ کریں اور تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں تو معلوم ہو گا کہ تصور پاکستان کی بنیادمیں جس نے پہلی اینٹ رکھی وہ اردو تھی اور اس خیال کی جو اشاعت و پروپیگنڈے میں اس نے جو بے نظری کام کیا وہ کسی دوسری طرح ممکن نہ تھا۔ اس نے پاکستان کے پیغام کو ملک کے کونے کونے اور گھر گھر پہنچایا جو کوئی دوسری زبان نہیں کر سکتی تھی۔ اردو کا پاکستان پر حق ہے اور یہی وجہ ہے کہ قائداعظم نے صاف الفاظ میں اعلان کیا کہ پاکستان کی زبان اردو ہو گی اور کوئی دوسری زبان نہیں ہو سکتی اور جو اس بارے میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا صریحی دشمن ہے۔ (ماخوذ مکتوب اقبال)
ہم نے اس کی کیا قدر کی اس کا آپ کو اندازہ اس حقیقت سے ہوگا کہ آج ۶۰ برس سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود قومی زان اردو کو وہ سرکاری مقام نہیں دیا گیا جس کا اعلان قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۴۸ء میں کیا تھا بلکہ قومی زبان اردو کی حقیقت کو کم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک انگریزی معاصر میں یکم نومبر کو ممتاز ادیب محقق سابق چیئرمین مقتدرہ پروفیسر فتح محمد ملک کا بیان شائع ہوا ہے کہ نیشنل لینگویج اتھارٹی کو ایک محکمہ تک محدود کرنے کی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں جو آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے جب تک اردو کو اس کا سرکاری مقام عطا نہیں کیا جاتا اس وقت تک اتھارٹی کا ختم کیا جانا ایک ناجائز اور غیر قانونی فعل ہے۔ یہ اتھارٹی قائم ہی اس لیے کی گئی تھی کہ ۱۹۷۳ء کے آئین کے نفاذ کے ۱۵ سال کے اندر اردو کو اس کا سرکاری مقام عطا کیا جاناچاہیے تھا۔ اب اتھارٹی کا نیا نام نیشنل لینگویج پروموشن ڈیپارٹمنٹ رکھا گیا ہے۔
فتح محمد ملک صاحب نے اس کی ذمہ داری تمام ان حکومت پر ڈالی ہے جو اقتدار کی سنگھا سن پر براجمان رہی ہیں۔ ملک صاحب نے افسوس کے ساتھ اس واقعے کا ذکر کیا ہے کہ حال ہی میں صدر افغانستان حامد کرزئی پاکستان کے دوسرے پر تشریف لائے انھوں نے اردو زبان میں تقریر کی اور ہمارے صدر آصف علی زرداری نے جواب انگریزی زبان میں دیا۔ پروفیسر فتح محمد ملک کا تفصیلی بیان یکم نومبر کے ایک انگریزی معاصر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ کالم میں جگہ نہ ہونے کے سبب میں نے اختصار سے کام لیا ہے۔ میری استدعا ہے کہ جو ہر محب وطن کی خواہش ہو گی کہ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری قومی زبان اردو کے اس مسئلے کو سوموٹو نوٹس لیں گے اور قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام عطا فرمانے میں آئیں کی پاسداری اور تقاضوں کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ ، راولپنڈی،۸نومبر۲۰۱۲ء)