بقائے باہمی کا تصور غالب کی نظر میں

مقصود الہٰی شیخ

غالب شناسی کے لئے ان کی شاعری ، شخصیت ، نظریات اور کسی حد تک ان کے خاندانی پس منظر سے واقفیت ضروری ہے ۔ شائقین ادب اور ادبی ذوق رکھنے والے طلبا یہ جاننا چاہتے ہیں کہ دو سوسال گزر جانے کے باوجود غالب کی مقبولیت اور عظمت کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ تو اس کا سبب کیا ہے ؟ ہم کو زیادہ نہیں تھوڑا سا پلٹ کر دیکھنا ہو گا ۔ اس زمانے کی تاریخ اور سیاسی حالات پر نگاہ کرنی ہو گی۔
غالب سے پہلے ان کے خاندان میں کوئی شاعر تھا ؟ اس کا کھوج نہیں ملا۔
اس کا مطلب ہے وہ اپنی صدی کی پیداوار تھے۔ ان کی قابلیت ، ذہانت اور خداداد تخلیقی صلاحیتوں سے ثابت ہوا کی وہ ایک نابعہ تھے!
ان کے دادا قوقان بیگ اپنے والد ترسم خان سے ناراض ہو کر برصغیر آئے اور رہ بس گئے۔ قوقان بیگ لاہور پہنچ کر نواب معین الملک عرف میر منو کے یہاں ملازم ہو گئے ۔ میر منو کی وفات کے بعد پنجاب میں ابتری پھیل گئی اور مرزا قوقان بیگ پھر بے گھر ہو گئے اور دہلی چلے آئے ۔ آگے چل کر اس سے زیادہ اس حوالے کی ضرورت پڑے گی نہ اس کا کوئی جواز ہو گا۔ مؤرخ و محقق تفصیلات کی گہرائی میں اتر کر اپنی تشنگی بجھا سکتے ہیں۔ بات ہے ، ہم اپنے گھروں میں پڑتال کریں تو اولاد زیادہ سے زیادہ دادا یا پر دادا کا نام جانتی ہو گی ۔ در حقیقت عام بندے کا گڑی نال کھودنے کے لئے افریقہ جانا لازم نہیں۔
مرزا غالب کے اپنے قول کے مطابق سو برس سے ان کا پیشہ سپاہ گری تھا ۔ اس کے علاوہ ان کے اجداد کی زمینداریاں بھی تھیں۔ یہ لوگ ترک تھے اور سمر قند سے بر صغیر آئے ۔ غالب کو اپنے ترک ہونے اور اپنے خاندان کی اونچان پر بڑا فخر تھا جبکہ دلچسپ بات یہ سامنے آتی ہے کہ غالب جن آباء اور ان کے پیشوں کا حوالہ دیتے اور عزت و فخر محسوس کرتے تھے ۔ان سے ان کا اپنا تعلق دال برابر نہ تھا۔ وہ کاتب تقدیر سے کچھ ایسا ویسا ہی لکھوا لائے تھے۔ بے چاروں نے مرتے دم تک غربت جھیلی اور افلاس کا منہ دیکھا ۔ مہاجن سے ادھار کھایا ، جواء کھیلا ، گرفتار ہوئے۔
مختصر ، شاعری اور خواری ہی حصے میں آئی ۔ ماتھے پر پھر بھی شکن نہ آئی۔
غالب کو مشکل وقت اور بے روز گاری میں زیست کرنا، دوسروں کے ساتھ مل جل کر امن کے ساتھ رہنا، نبھانا آتا تھا۔ تلخی ء حیات نے ان کو بقائے باہمی کے گر سکھادیئے تھے۔ ان میں ضروری لچک پیدا ہو گئی تھی اور وہ ’’کسی دوسرے‘‘ کے لئے اپنا مذہب تک ترک کرنے پر تیار ہو جاتے تھے۔
ایسی ضد کا کیا ٹھکانہ اپنا مذہب چھوڑ کر
میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
غالب سیدھے سادھے تھے نہ الٹے سلٹے ۔ وہ ان سانچوں سے ہٹ کر کچھ نئے تھے۔ شوخی شرارت ان میں کوٹ کوٹ کی بھری تھی۔ استطاعت نہ سہی استعداد تھی ۔ قدرت نے قابلیت اور لیاقت کے ساتھ نازک جذبوں کی ترسیل اور تخلیقی صلاحیتوں سے سخاوت کے ساتھ نوازا تھا ۔ شاعری میں اپنے تئیں تلمیذ الرحمان کہتے تھے ۔ معاشرے اور طبقاتی اونچ نیچ کا ادراک تھا، چلبلے تھے ، معصوم نہ تھے ۔ خود ہی سوال کرنا اور جواب دینا اورجواب میں ایک اور استفہام و استعجاب گوندھ دینا غالب کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ، کرشمہ تھا۔ جرأت اظہار و خود اعتمادی سے جھولی بھری تھی۔ واجبی سے مسلمان تھے۔ نماز سے فرار تھا۔ روزے بھی نہیں رکھتے تھے۔ قرض لے کر شراب پیتے تھے۔ گرد و پیش کا ماحول ہی کچھ ایسا تھا ’’ وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا‘‘۔
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
غالب نے عذر تو پیش کر دیا لیکن وہ اسے عیب نہ سمجھتے تھے ان کے اندر رومانیت کا انبار تھا اور وہ اس میں شرابور تھے۔ یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ وہ خود اپنی خواہش کی دونوں عوامی اور خصوصی سرور کی سطحیں ایک کر چکے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی تجزیہ کرے تو اس نوعیت کے اشعار سے غالب کے مزاج کے پرت کھل جاتے ہیں۔
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
تودوسری طرف :
اسد خوشی سے مرے ہاتھ پانو پھول گئے
کہا جو اس نے ذرا میرے پانو داب دے
نوبت اس سے آگے تک پہنچتی ہے:
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پانو
رکھتا ہے ضد سے کھنچ کے باہر لگن کے پانو
حسن پرستی غالب کا شعار تھا ۔ محبوب کی زلفیں شانوں پر پریشان دیکھنے کی آرزو کے ساتھ اسے چھونے کی لطافت سے بھی محروم نہیں رہنا چاہتے تھے۔ غالب ڈومنی سے عشق کو گراوٹ نہیں سمجھتے تھے۔ یہ اس زمانے کا فیشن تھا ۔ غالب عاشق تھے ، کافر تھے ۔اس زمانے میں ہوتے تو سنگسار کر دئیے جاتے ۔ان پر حد جار ی کر دی جاتی ۔ الٹا لٹا کر سر عام کوڑے لگائے جاتے ۔ زمانہ بقائے باہمی کا تھا اور غالب اس میں سر تا پا ڈوبتے ہوئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان حالات کے باوجود مرزا غالب کی سماجی توقیر میں کوئی کمی نہ آئی۔ بلاشبہ وہ ایک مقبول و معروف شاعر و شخصیت تھے۔ ان کے یہاں تضاد تھا تو یہ ان کی انفرادیت اور صلح کل فطرت کو اجاگر کرتا دکھائی دیتا ہے۔Sophistication ان کے کلام کو ایک حزن ، رجائیت سے مخلوط تاسف کا حسن دے رہی ہے۔
کہتا ہے کون نالہ ء بلبل کو بے اثر
پردے میں گل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے
مناسب ہو گا تھوڑا سا ذکر اس رخ کا بھی کر دیا جائے کہ بعض مقامات پر غالب نے مرد م بے زاری کا اظہار بھی کیا ہے۔
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
یہ ساری غزل یاسیت میں لت پت اور بیزاری کا نقشہ پیش کر رہی ہے ۔ ایک اور بڑی عمدہ غزل اسی رنگ کو دور تک لے جاتی ہے۔ ایک شعر بھی جذب و کیف سے خالی نہیں!آپ ہی آپ آنکھوں سے پلکوں پر گریاں کی کیفیت طاری کر رہا ہے۔
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
کیجئے ہمارے ساتھ عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار نقش محبت ہی کیوں نہ ہو
دم نہیں رہا مگر پلٹا کے ہاتھ مارتے ہیں:
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو
ڈالا نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ
اپنے سے کھنچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو
پوری غزل خلوت کو انجمن کا درجہ دے رہی ہے۔غالب کی خیال آرائیاں محض شاعرانہ بڑھکیں نہیں ہیں ان میں گہرائیاں ہیں۔
نظر میں ہے ہماری جادہء راہ فنا غالب
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا
غالب ایک سمندر ہے ۔ ہر مٹھی میں موتی بے کاوش چلے آتے ہیں او ر اس کی پہلو دار تخلیقیت کا سحر محیط ہو جاتا ہے۔
یہ مسائل تصوف ، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
توجہ فرمائیے ’’ڈبویا مجھ کو ہونے نے ۔ نہ ہوتا تو کیا ہوتا‘‘ کیا یہ سوچ نہیں آتی کہ غالب نہ ہوتا کیا ہوتا؟ کاش رضواں ہی در یار کا دربان ہوتا ۔ فرش کی بات ہو یا عرش کی شاعر کہیں پر ایا پن محسوس کرتا ہے نہ کرنے دیتا ہے ۔ از بسکہ سارا جہاں ہمارا ہے کیونکہ وہ نہ ہوتا تب کون وہی نا!! غالب یہی کہہ رہا ہے۔ اور اس دعوے کے ساتھ:
قطر ے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
اپنی تمام تر کمزوریوں کے ساتھ ، ایک گلو کارہ سے عشق ، شراب نوشی ، قمار بازی ، اسٹیبلشمنٹ سے لڑائیاں ، کفر کاریاں اور اکیلی جان غالب!! دوسرے چاہے کچھ ہی سمجھیں، سمجھتے رہیں غالب موحد تھے ۔ ھوالا ول اور ھو ولآخر پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ تاکید کی اس منزل پر بھی قدم رکھا ہوا تھا:
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
پر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
کوئی اشکال نہیں کوئی روگردانی نہیں۔ بس گفتگو ہے:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے
اور یہ بھی :
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
غالب کی فکر میں گہرائی کے ٹوے ٹبے ہوں گے مگر تسلسل ہے۔ استفسار ہے اور استغفار ہے۔ غالب فرشتہ نہیں تھے مگر زہد کا خول بھی نہیں چڑھا رکھا تھا ۔ فتنہ و فساد کے بدلے عملًا باہم دیگری ، اختلاط بین الاقوامی پر اعتقاد و اعتماد تھا۔ آپسی غیر متلاطم سلوک کا ثبوت اپنے کثیر ہمسائیوں ، رشتہ داروں اور ملاقاتیوں سے مراسم استوار کر کے دیتے ہوئے تلقین بھی ہے کہ بے شک اختلاف کرو مگر:
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
اور:
روک دو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
مرزا غالب کی سرشت میں شرافت و نجابت و اصول پرستی (شاید) گھٹی میں پڑی تھی۔ عالی ظرف ایسے کہ دوسروں کو شراب نوشی کی ترغیب نہ دیتے تھے ۔ غرض یہ کہنا تو بعید از صداقت ہو گا کہ وہ مجموعہ ضدین تھے البتہ یہ کہنا درست سمجھنا چاہیے کہ وہ منفی و مثبت صفات کے حامل تھے۔ زاہد، پرہیز گار یا متقی نہ تھے لیکن شیطان سے سجدہ کر ا آئے تھے اس لئے پختہ یقین تھے ۔ کافر تو نہ تھے اس لیے تعلی کا پیدائشی حق حاصل تھا اور اس میں زور تھا:۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
اقبال بعد میں آئے اور مولویوں سے ڈر کر معذرت بھی کر لی ۔ ان سے پہلے خانقاہ رشیدیہ (جونپور و غازی پور) کے سجادہ نشین عبدالعلیم آسی کہہ گئے تھے۔
شعر گوئی نہ سمجھنا کہ مرا کام ہے یہ
قالب شعر میں آسی فقط الہام ہے یہ
یہ غالب کی تعلی اور للکار میں زور تھا کہنے سے کہاں باز آتے:
پاتا ہوں ا س سے داد کچھ اپنے کلام کی
روح القدس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں
یا:
بازیچہ ء اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
انسان اپنے خیالات کا اسیر ہوتا ہے ۔ غالب نے فطرتی بغاوت کو دبا کر رخ بدل دیا ، حد میں رہتے ہوئے منہ چڑھ کر بولنا اپنا لیا ۔ ایک طرف مل جل کر رہنا بہر وقت اور بہر صورت مشتاق و خوش گو لیکن منافقت سے دوری کے باعث سچے اور اچھے آدمی جس میں حمیت کی کمی نہیں:
بندگی میں بھی وہ آزادہ وہ خود بیں ہیں ، کم ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
معاملات دنیا میں بھی ان کا رویہ پس رفتگی و حال کا ستھرا امتزاج تھا۔ توازن و تناسب کا خیال رکھنا عادت تھی ۔ ہر شعر میں تسلسل کے ساتھ ایک غیر انقلابی مگر تخلیقی لہر ادبی دائروں میں سر اٹھاتی دکھائی دیتی ہے۔ بعض سماجی قباحتوں سے رو گرداں نہ تھے عوامی تھے ۔ عامی نہ تھے لیکن خواص کی نقل میں حسب دستور و حیثیت و اسٹیٹس ڈومنی سے عشق کرتے تھے ۔ شاید اسی بنا پر ان کی حیثیت عامی نہ سمجھی جاتی ہو ۔ درپیش صورت حال کو لپک لیتے یعنی بعجلت جائزہ لے کر ایڈجسٹ ہو جاتے ۔ حساب چکا دیتے تھے:
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
غالب کی زندگی کا اتار چڑھاؤ ان کے رات دن چھانئیے ، برتاؤ میں یک گونہ یکسانیت کہیں غارت نہیں جاتی وہی سکون ہے جو امن کے ساتھ جی لینے کی خواہش کا پروردہ ہے:
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ
سبب کیا خواب میں آکر تبسم ہائے پنہاں کا
جدائی میں ہم آغوشی کا خیال و خواب، عمل اور رد عمل سے بالا ہے ۔ باہم دیگری کا کانسپیٹ بے کنار ہے ۔ روح القدس سے زبان کا اختلاف، مذہب پر تنقید طنز کے عواقب او ر سماجی جکڑ بندی ، فتوؤں کے خوف سے آزادی ، تہذیبوں کے ٹکراؤ سے بے خوفی ،ہر طرز جداگانہ سے وابستگی پر آمادگی ، خا ص ہے ترکیب غالبی!
گونہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
اور
بقدر ظرف ہے ساقی! خمار تشنہ کامی بھی
جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا !!
دم قدم پر یہ احساس جاگتا ہے کہ غدر کے بعد غلامی کے بادل منڈلا رہے ہوں یا اس سے قبل کی انار کی اور مغل چراغ کی ٹمٹماہٹ ! غالب راضی برضا ہیں ۔ اک ذرا اظہار کا اختیار ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، دستبردار نہیں ہوتے اور اپنی سی کہہ جاتے ہیں اور اگر کوئی ان سے زیادہ یا کم کشتہء مرور زمانہ ہے بھی تو:
ہے ایک تیر جس میں دونوں چھدے پڑے ہیں
وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا
غالب مخلوق تھے مگر ان کی ذات کے اجزائے ترکیبی میں بہت سے عناصر اور بھی شامل تھے ۔ ان کو اپنے ترک ہونے پر فخر تھا۔ خاندان کی بلند مرتبتی کا بار بار ذکر ، ان کے باطنی الجھاؤ کی غمازی کرتا ہے۔ خاندانی ناچاقیوں کی وجہ سے دیس نکالا یا نا مساعد حالات کی بنیاد پر دنیا کے ایک گوشے سے دوسرے کونے تک سفر ۔ روز گار و بے روزگار ی کا افعی، امیگیریشن کے اثرات کا آئندہ نسل پر سایہ رہنا ماضی بعید سے تاحال عالمگیر سچائی ہے۔ غالب پانچ سال کے تھے جب چچا کی کفالت میں آئے اور نو برس کی عمر میں ان کے سائے سے بھی محروم ہو گئے ۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ وہ بڑے ناز و نعم میں پلے بڑھے تھے، سچی بات نہیں ! دربدری ، یتیمی ، شب و روز کی مغائرت میں ڈھل ڈھلا کر بڑے ہونا تلخ�ئ ایام کی کہی ، ان کہی داستان ہے۔ ہم جب نئے ملک و ماحول میں ، اپنی بساط مطابق چار دیواری تعمیر کر لیتے ہیں ، اسے زبانی زبانی اپنا مکان کہتے ہیں ، وہ عام معنوں میں ہمارا گھر نہیں ہوتا ۔ اس میں ماضی کی یادوں کی مصوری کر لی جائے یا ثقافتی رنگ پوچ دیا جائے ، لاشعوری طور پر ایک عجب سا پرایا پن مسلط رہتا ہے ۔ غالب سخت جان تھے انہوں نے گرد و پیش کو ،گزارہ کرنے کے لیے بہر طور قبول کر لیا ہو گا اور ان پر غیبی سمتوں میں کھلنے والے دروازے اور کھڑکیاں بازو پھیلائے ہوئے ہوں گی تب وہ کیسے زیست کی حصہ داری کے قابل نہ بنتے ؟ ہر بار آتے سانس کے ساتھ نہ سہی اندر جاتے سانس کے ساتھ ڈھیر سارے جذبات اور احساسات کی یورش ہوتی ہو گی ۔ان میں بغاوت اور اس کو دبا کر سمجھوتا کر لینے کی ساعتیں زبر دست سکت پیدا کرنے کا باعث بنی ہو ں گی۔ اس تخریب میں غالب کے کردار کی تعمیر ہو رہی تھی ۔ اس لئے وہ اپنی شاعری میں باہم دگری کے قائل دکھائی دیتے ہیں مگر وہ ان وجہوں سے دیو بن کر جوان نہیں ہوئے بلکہ سب سہہ کر وار کرنے ، کبھی ہنس کر کبھی ذکاوت و فہم و فراست سے دوسروں کا دل جیت لینے کی مہارت کے ساتھ ساتھ غصہ نہ کرنے کی صفت سے مالا مال تھے۔ خوش مزاجی اعلیٰ حسِ مزاح، عالی ظرفی سے مسلح ، بہم مخالف کیفیات و خصائل کی ہمراہی میں بہت سے اشکال و گمان مرکب ہو جانے پر ہی کوئی غالب بنتا ہے !! وہ تپ تپا کر بقائے باہمی پریوں عمل پیرا ہوئے نظر آتے ہیں جیسے یہ سب کچھ قدرتی تھا ، معمول کے مطابق تھا ۔ کچھ انوکھا نہیں تھا ۔ اس میں قطعی کچھ اوپر ا نہیں تھا:۔
دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکلا ان کا پاسباں ، اپنا
اس ترک بچے کے تیور ملاحظہ ہوں:
موج خوں سر سے گذر ہی کیوں نہ جائے
آستاں پر سے اٹھ جائیں کیا؟
سفر عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی
ہر قدم پر سائے کو میں اپنے شبستان سمجھا
اس دل کا حال جاننے کے کوشش کیجئے جو تلخیوں اور مخالفت زمانہ کا پروردہ ہو مگر لبوں پرمسکراہٹ سے آئے گئے بلکہ غیروں کا استقبال کرتا ہو اور اتنا صادق ہو کہ آج تک کسی دشمن نے بھی اسے منافقت میں آلودگی کا الزام نہیں دیا :
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو ، کہ میں
جاں دادہ ء ہوائے سر رہگزار تھا!
غالب اپنے وقت کا نقیب تھا۔ وہ کسی عام سے شاعر کی طرح زندگی کی یک رخی کا قصیدہ گو نہیں بلکہ مہدئ فن ادب تھا:
دل ہر قطرہ ہے ساز انا لبحر
ہم اس کے ہیں ،ہمارا پوچھنا کیا؟
اس شعر کا بہت ہی خوبصورت انگریزی ترجمہ ڈاکٹر سرفراز خاں نیازی نے کیا ہے۔
The heart of every drop sings "I am the ocean" What to ask of me?I belong to Him
جس نے اپنے داتا کے ساتھ پیوستگی محسوس کر لی اور سنگ جڑ گیا اس سے بڑا Co-existenceکا حامی اور مبلغ کون ہو سکتا ہے ؟
وفاداری بہ شرط استواری ، اصل ایماں ہے
مرے بت خانہ میں تو کعبے میں گاڑو برھمن کو
غالب ثانوی اولاد کی حیثیت میں پل بڑھ کر جوان ہوئے تھے اس لئے جب دو سروں کا دل دکھتا تو ان کا اپنا من پگھل جاتا ۔ عارف ، ان کی بیگم کا بھتیجا ، منہ بولا بیٹا تھا مگر اسے سگوں سے زیادہ پیار دیا۔ مرزا غالب نے مدت تک عارف کی جوانمرگی کا سوگ منایا ، اپنا دل کچلا کچلا محسوس کیا۔ اس کی ناگہانی موت پر نوحہ لکھ کر اظہار رنج و غم کیا۔ ایسا ملال ترسیل کر پائے کہ پڑھنے سننے والا نم دیدہ ہو جاتا ہے۔ غالب ’’ماتم میں کس کے مر رہا ہوں یہ کون مر گیا؟ ‘‘ کی ہو بہو تصویر دکھائی دیتے تھے یہ کیفیت اکہرے وجود و فکر والا ، آثار و ظواہر کے ادھار پر جینے والا نہیں ، غم چشیدہ قلب و ذہن والا ہی بیان کر سکتا ہے۔ قدرت کو للکار نے والا صاف گو مسائل تصوف کے بیان میں شوخی برتنے ، چٹکی لینے ، لگانے والا عارف کے غم میں کس طرح للک للک کر جانے والے سے کہتا ہے:
لاز م تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
ہاں اے فلک پیر، جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
غالب ذاتی شخصی ، غم و مایوسی میں انتہا چھو لیتے ہیں۔
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نامیدی اس کے دیکھا چاہیے
تاہم وہ ایک رجائیت پسند خوش کلام، ہاتف غیب، نرالے انوکھے ، اپنے وقت میں بے قدری پر نالاں، آگے آئندہ، مستقبل میں سمجھے جانے اور قدرو عزت پانے اور دو سو سال بعد بھی قبول و مقبولیت پر فا ئز شاعر ہیں۔غالب کا رہن سہن مسلمانو ں کا تھا،ایسا نہیں کہ ان کوغیر مسلم یا کافر قرار دیا جاتا، خوش قسمت تھے فتوٰی نہیں لگا،کافر قرار نہیں دئیے گئے۔
طالبا ن سے بچے رہے۔جہاں تک عقید ے کا تعلق ہے غالب اپنے احدیت اور وحدانیت کے عقیدے سے مطمئن تھے مگر عبودیت کا پورا حق ریزرور کھتے تھے۔اپنے غیر روایتی اظہار پر پشیمان ہوتے نہ باز آتے۔کس آسانی سے پو چھتے ہیں:
نقش فریادی ہے کس کی شوخی ء تحریر کا
کاغذی ہے پیراہن ہر پیکر تصویر کا
وہ خالق و مخلوق کے رشتے کو تخلیقی حسن کا محدب شیشہ لگا کر میٹھی نیم نظروں سے دیکھتے ہیں۔یہ نہیں کہ تعریف اس خدا کی جس نے ہمیں بنایا!! بلکہ الٹا سیدھا ہوئے بغیر سوال اٹھاتے ہیں یہ کیا معاملہ ہے؟سب کو ایک جیسا بناکر خوش ہو لیے اور وہ بھی کسی کاغذ کی مانند نازک! آدمی نہ ہوا خاک کا ایک دیپ ہوا کہ جب چاہا آنکھ کھولی مسکرائے اور جلا دیا اور جب چاہا پھونک ماری اور بجھا دیا؟کسی شاعر نے اسی پر کہا ہے’’اس سے بہتر تویہی تھا نہ بنایا ہوتا !‘‘جب عبد کا معبود سے مکالمہ ہو تو ان میں جرأ ت کا بھی کو ئی ٹھکانہ نہیں۔
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلید تنگ ظرفی ء منصور نہیں
مروت، منافقت ،دہراپن ،دروغ مصلحت آمیز ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ بھلے یہ عمومی کلیے سے نکلتا ہو ا بیان سمجھا جائے مگر اس دھنک میں بقائے باہمی کی چھوٹی سی بدلی بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتی ۔نگاہ سے اوجھل رہتی ہے ۔جیسے غالب کو دریا میں پھنک کر مطالبہ کر دیا ۔ خبردار دامن بھیگنے نہ پائے ۔’’ ڈبویا مجھ کو ہونے نے ،نہ ہوتا میں کیا ہوتا؟‘‘ان پیچیدگیوں کے انبار میں غالب نے بقائے باہمی کا راز اور سمجھوتے کا راستہ بخوبی اور بآسانی نکالا ہے:
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا ، مری جو شامت آئی
اٹھا اور اٹھ کے قدم پاسبا ں کے لیے
اس شعر کو روایتی شارحین کو تول ترازو کو پرے رکھ کر غور کیجئے آ پ کو کچھ ملے گا تو وہ سمجھوتے کا نشان اور اشارہ ہی ملے گا۔ اب تک شار حین ،اس شعر کا ،ذرے ،رتی برابر فرق کے ساتھ ایک سا مطلب پیش کرتے رہے ہیں جبکہ غالب کا تصور قریبی لمحاتی صورت حال سے بعید ، آئندہ کی تصویر دکھا رہا ہے کہ قرب کے لیے باہمی صلح داری ہی اصل ایما ن ہے۔کسی کا دھیان اس سمت گیا یا نہیں میرے احساسات کی روسے صحیح مفہوم الٹے سلٹے غالب کی طرح اوندھا سیدھا ہو کر ہی القاء ہوتا ہے ۔ اس شعر میں کوئی انفعالت و مفعولیت نہیں ہے ،۔تاڑنے والی نگا ہ ہے کہ درمحبوب کا پہرے دار مارشل لائی اختیارات رکھتا ہے۔اس سے نمٹنے کے لیے ایسی مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے جس سے کوئی ٹنٹا کھڑا نہ ہو۔ لہٰذا پاسبا ں کے پاؤں پکڑلیے۔ذرا غالب کی انٹیگریٹی اور سٹر ٹیجی پر نظر ڈالیے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ غدر کے بعد دہلی میں جگہ جگہ پھانسیا ں گڑی اور لاشیں لٹک رہی ہیں، افراتفری اور خوف و ہراس کا عالم ہے ۔اس فضا کا قیاس کرنا محال نہیں ۔متوازی مثال خودکش اور ڈرون حملے کے بعد کے مناظر ہو سکتے ہیں۔جب قلب میں سوئیاں چبھ رہی ہو ں تو آنسوؤں کے بدلے متضاد کیفیت میں استہزائی مسکراہٹ لبوں ہر آکر جابجا خون میں نہائے ہو ئے دست و بازو پر بے بسی پرسوکھے اشک بہارہی ہوتی ہے۔کسی ایسے ہی لمحے کی موجودگی میں بے چارے غالب نے کمپنی بہادر کی خوشنودی کے حصول کے لیے اپنے آپ کو آدھا مسلمان کہا ہو گا کہ شراب پیتے تھے مگرسؤر نہیں کھاتے تھے۔وظیفے کی بحالی کے لیے دہلی سے کلکتے تک کا سفر بھی کچھ ایسے ہی سمجھوتوں کی غمازی کرتا ہے۔
جس زمانے میں شاعر دہلی سے نکل کر نواحی علاقے غازی آباد تک پہنچتے پہنچتے پکار اٹھتے تھے ۔’’ کون جائے دلی کی گلیا ں چھوڑ کر‘‘ غالب صاحب نے محمد تغلق کے الٹے پیر پکڑے اور کلکتہ جا بسرائے وہ جانتے تھے کہ نئے رابطے اور نئے رشتے فائدہ مند ہوتے ہیں ۔اور حقیقت پسند ی بتارہی تھی۔
ہے اب اس معمورے میں قحط غم الفت اسد
ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں ،کھا ئیں گے کیا؟
وہ عقلمند بے وقوف بادشاہ محمد تغلق دہلی کو کلکتہ لے جانے میں ناکام رہا تھا مگر غالب کا معاملہ کسی قدر مختلف رہا۔راستے میں نہ ان کی زبان بگڑی اور نہ کسی سے جھگڑا ہوا لہٰذا باور کرنا پڑتا ہے ان کا باہمی بر تاؤ اور آپسی میل جول کا نظریہ جھوٹا نہ پڑا ۔کام آیا ۔وہ دہلی آئے بھی تو ہم نشین کی جانب سے کلکتے کا ذکر کرنا انہیں سینے پر تیرکی طر ح لگتا تھا اور ہائے ہائے کرنے لگتے تھے ۔ اس سفر نے انہیں وژن دیا تھا کہ دلی ہی نہیں کلکتہ بھی رہنے کی جگہ ہے۔!! جہاں کے لوگو ں کا رنگ روپ اور زبان غیر ہو گی پر یہ اختلاف ان سے اختلاط میں مانع نہیں ہوگا:
ٖغالب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر
مل جل کر رہنا ہے تو اپنی لے کو غیر مناسب حد تک بلند کرنے سے گریز کرنا ہو گا:
روائی کی نہ دی تقدیر نے مقصد کو منظوری
ہم رہنے لگے دونوں تمنا اور مجبوری
بہتر ماحول اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے کچھ لو، کچھ دو کی ڈگر اپنانا پڑتی ہے۔ٹھوکر کھانے سے بچنے اور باوقار طریقے سے، بہم جینے کا یہ دستور ہے۔ کس کس طرح یہ ثابت کیا جائے کہ غالب بقائے باہمی کے نظریہ پر کار پیرا تھے۔انسان تھے۔فرشتے نہ تھے دوسرو ں کو برداشت کرنے کا ان میں حوصلہ تھا ۔ ا یسے بے خبرے نہ تھے کہ ساتھ رہنا خواہ چار دیواری میں ہو یا ماؤرا اب تب انچ نیچ ہو سکتی ہے۔پھوٹ پھٹول ہو سکتی ہے لیکن وہ دوسرو ں کو جھٹ اور فٹ الزام نہیں دیتے تھے۔
دھول دھپہ اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
غالب کی پرورش کا پس منظر اور پختگی کے دور کے منظر میں جھانکتے تو بآسانی ان کادوسروں سے تال میل اور سب کے بیچ رہ بس کر مقبولیت میں کامیابی کا راز مل جاتا ہے۔ قرب و دور ان کا رویہ یکساں ہے۔ اس کی پہچان او رتعین ان کے خطوط سے ہو جاتی ہے۔ اردو ادب کو غالب نے مکتوب نگاری کی نئی صنف عطا کی ۔ ان کے خطوط آج بھی پڑھ کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ سچ پوچھئے تو جی چاہتا ہے ای میلنگ سے جان چھڑا لی جائے کہ بقول غالب خط آدھی ملاقات ہے۔ کوئی شک نہیں وہ ایک نابغہ تھے اپنے وقت کے جینئس تھے۔ زندگی کا سرد و گرم چشیدہ تھے اور باد مخالف میں سرو کا بلند و بالا درخت تھے۔ ان کے مزاج میں توازن، تناسب، تدبیر، بردباری اور لین دین میں ایک قرضداری کے سو ااصولوں کی پاسداری کا بڑا عنصر تھا ۔ وہ باہم دگربرابر کی سطح پر جینے کا بھید پا چکے تھے۔
غالب تاریخ کی پیداوار تھے مگر ذہانت ، لیاقت اور تخلیقی صلاحیت و سفری تجربات سے اکتساب کرنے میں تیز رفتار نکلے۔ سیکھ لینے اور تجربے کی بنیاد پر تاریخ ساز شخصیتوں کی صف میں نمایاں جگہ پا سکے ۔ وہ عوام میں سے تھے اور اپنے شجرے پر ناز و افتخار کے باوجود عوام کے بن کر زندہ رہے۔ مفاد پرستی کا دھبہ ان کے دامن پر نہ لگا ۔ ان کے طور و اطوار جداگانہ تھے۔ حضور حق میں سراپا مطالبہ تو ہمسائیوں سے مساویانہ ! جادہء حق گفتاری و نگارش کو تھامے رکھا۔استعاروں کی گفتگو میں بھی بے باکی ہے:
بوسہ نہیں ، نہ دیجئے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم گر دہاں نہیں
ان کی شاعرانہ انا کہیے ،ادا کہیے بڑی کشادگی لیے ہوئے تھا ۔ مومن نے کہا :
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
غالب نے اس شعر کی داد و تحسین بھی اپنے مخصوص ، بے ریا اور مخلصانہ انداز میں کی کہ وہ اس ایک شعر پر اپنا سارا دیوان بے دریغ وارنے پر تیار نہیں !! اس شعر کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے صوفیانہ رنگ میں دیکھئے ، رومانیت طاری کیجئے بات اسی ایک روحانی نقطہ پر آکر ٹھہرتی ہے، محبوب حقیقی ہو یا مجازی جب اس کا تصور پورے وجود پر محیط ہو جائے تو من و تو کے درمیان کی لکیر مٹ جاتی ہے۔ بقا کی یہ صورت کہ دوجے میں فناہو گئے تو بقائے باہمی اپنے معراج کو جا پہنچی ۔ معاصرین سے ہم آہنگی کا مظاہرہ غالب چشمکانہ ، مربیانہ ، دوستانہ نہیں مخلصانہ انداز میں کرتے ہیں:
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے کہ بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
مومن ، میر یا ناسخ کوئی ان کے لئے تھریٹ نہیں۔ باہمی خیر سگالی لا محدود ہے اور کچھ بھی لا عبوری نہیں۔ سب کے لئے دل کی مسند بچھی ہے۔ غالب کو کسی غنچے کی ضرورت نہیں، کسی کی ہجو لکھوانے کی کبھی نوبت نہ آئی ۔ ذوق کو بھی سینئر جان کر برداشت کیا۔ ان کی ریشہ دوانی سے چشم پوشی کی۔آپ اس انٹر پرٹیشن کو اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیجئے مگر اس حقیقت کو کس نظریئے سے اور کیوں کر رد کریں گے کہ دو چار کے مل بیٹھنے کو وہی خوش آمدید کہتا ہے جو بقائے باہمی کا قائل ہے ۔ جو غزل کی طرح بکھر کر باطن سے، اندر سے، بھیتر سے دوسروں کے ساتھ ، وحدانی راہ پر چل کر کائناتی سچائیاں اور موجودات شیئر کرنے کا دل گردہ رکھتا ہے۔ کوتاہ اندیش اور تنگ نظر نہیں۔
اسد ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سروپا ہیں
کہ ہے سر پنجہء مژگان آہو پشت خار اپنا
واہ! خیال کی نزاکت کن بلندیوں تک جا رکتی ہے کہ مژگان آہو، نوکیلی پلکوں کو پیٹھ کھجانے کے دستہ کی صورت دل میں اتار کر بیک وقت جراحت و مرہم و راحت کے حصول کی تمنا کا سودا پورا ہو جاتا ہے ! کائنات کی ہر شۂ دست انساں کی رسائی میں ہے۔ ان رموز کو جاننے کے لئے تنہائی کی ،’’ جدائی کی کالی تے لمی رات‘‘ کا مسرت ناک کشٹ اٹھانا پڑتا ہے ۔ غالب اس سمت میں بھی مثبت تصورات دل میں بسائے رکھتے تھے۔ سختی کا اقرار ہے تو ۔ مگر لذت آزار کو سر آنکھوں پر خوش آمدید کہنے کی بے قراری کے ساتھ:
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا!
پیاروں کے خار مژگاں کی چبھن راحت جاں بن کر گوار ا مگر اکیلا پن ناگوار ۔غالب تن تنہا زندگی کرنے کے رودار نہیں۔ زنداں میں ہوں یا بیاباں میں ،کسی کی درمندی سے بہرہ یابی ممکن ہو ، نہ ہو وہ خیالوں میں ہی دشت و صحرا کو یکجا کرکے زندگی کرنے کی خواہش سے کسی قیمت پر دستبردار ہونے پر تیار نہیں۔ انہیں تو ساتھ سنگت چاہیے ۔ وہ باہم ہونے ، امتیاز من و تو مٹانے میں ہی انسانیت کی بقا وبھلائی سمجھتے ہیں۔ ان کے لئے ستمگر جاں و دل کا دل و جاں سے چپکا رہنا ہی مقصود حیات تھا:
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پر بھی راضی نہ ہوا
دراصل رفاقت و یکجائی کے لئے بھی تو اتفاق رائے ضروری ہے ورنہ :
بے چارگی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا؟
جبکہ سانسوں سے یہ توقع بندھی ہوتی ہے :
جراحت تحفہ، الماس ارمغاں ، داغ جگرہدیہ
مبارکباد اسد غمخوار جان درمندآیا
غالب نے ایک بار سر سید کو لکھا تھا مردہ پروری کوئی مبارک قدم نہیں ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے مرنے کے دوسوسال بعد بھی اس کا کلام قلم پروری کرتا رہے گا اور لوگ اس کے خیالات و نظریات اور تہتر سالہ سوانح زندگی کے ہر پہلو ، ہر پل سے موتی چنتے رہیں گے۔
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یا د آتا ہے
وہ ہر بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا !!۔
روٹس کے مصنف الیکس ہیلے کی طرف اشارہ ہے۔
****