ریڈیو کہانی : کشور اقبال سے باتیں

عارفہ شمسہ

دبئی جانے سے قبل فرزانہ رحمان ،اپوا کی نائب صدراور لیڈ یز فورم کی بانی نے فون پرکراچی سے بتایا کہ کشور سے مل لینا، میں نے کہا کون کشور، ارے بھئی کشور اقبال،اچھا کشور بھابی دبئی میں ہیں۔ ہاں ضرور ملوں گی۔ میں تو ان کوگمشدہ قرار دے چکی ہوں۔ ، وہ ہنس کر بولی بالکل بدل گئی ہیں ذرا سنبھل کر،کیا مطلب ہے۔کچھ نہیں بس وہ اللہ والی ہوگئی ہیں،مکمل اللہ والی۔ میرے ذہن میں کشور بھابی کی شخصیت۔ان کا انداز،اقبال بھائی کی باتیں سب کچھ یاد آنے لگا،اچھا اچھا میں انشا اللہ ان سے مل کر آؤں گی۔ذہن پہ بکھری بکھری یادوں کے نقوش ابھرنے لگے،۸اگست۱۹۸۲ء کو کراچی گورنر ہاؤس میں صدر ضیاء الحق کی پریس کانفرنس تھی جس میں صدر صاحب موجود تھے ،روزنامہ جنگ سے وابستہ معروف سیئنیرصحافی اقبال احمدخاں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے درمیان ایسا دل کا دورہ پڑا جو جاں لیوا ثابت ہوا۔اقبال احمد خاں بڑے ہردلعزیزاور اپنی ذات میں منفرد تھے،صبح دفتری کام انجام دیتے اور شام کی تقریبات میں ہر جگہ اپنی بیگم کے ساتھ نظر آتے،یہ سب کے لیے حیرت کی بات تھی۔ چونکہ عموماً صحافی بلکہ سب ہی اپنی بیویوں کے بغیر ہوتے ہیں۔میں عادتاً دوسروں کوچھیڑتی ،آپ لوگ بغیر بیگم کے آتے ہیں تاکہ ان کو آپ کے بارے میں کچھ پتا ہی نہ ہو،دیکھیں اقبال بھائی ہر جگہ بیگم کو ساتھ رکھتے ہیں۔ویسے اقبال بھائی آپ بھی جان بوجھ کر بھابی کو ساتھ رکھتے ہیں، وہ ہنستے اور کہتے ۔لڑکی تم ٹھیک ہی کہتی ہو، ایک تو بیگم کے ساتھ ہونے سے اچھا بھی لگتا ہے دوسرے یہ سوچتا ہوں کہ ان کو اگر کوئی بات بتائے گا تو یہ پہلے سے جانتی ہوگی،یہ ہی بات اب کشور بھا بی نے بتائی کہ اقبال کومجھے ساتھ رکھنے کی عادت سی ہوگئی تھی ، جب رات کو کہیں جانا ہوتا تو کبھی فون کردیتے تیار رہنا اور کبھی آتے ہی شور مچاتے جلدی تیار ہوجاؤ،کبھی میں منع بھی کرتی اچھا نہیں لگتا،تو برا مانتے،کبھی کہتے کل تم سے کوئی کہے گا کہ رات ہم نے اقبال کو شمیم آراء کے ساتھ ڈانس کرتے دیکھا، تو ہوسکتا ہے تم لڑائی کرو، ساتھ ہوگی اور بتاؤ گی کے ہاں میں تو ساتھ تھی کہنے والے کی آگے بات بنانے کی ہمت ہی نہیں ہوگی۔ کشور بھابی کی شادی ۱۹۷۰ء میں ہوئی تھی جب وہ ۲۲سال کی تھیں،اقبال بھائی کے ساتھ گزارے ۱۲سال ان کی زندگی کا سرمایاہیں،ماشا اللہ دو بیٹے راشد جو اس وقت دس سال اور ندیم شائد چھ سال کے تھے،اقبال بھائی کے بعد ان کے دوستوں اور احباب نے بہت خیال رکھا، سب ہی ان سے محبت کرتے تھے،بھابی نے بتایا کے مرحوم الیاس رشیدی نے نگار ایوارڈ کی ان کے لیے تقریب رکھی جس میں انہیں اور اقبال بھائی کی بہن کو باضابطہ ٹکٹ دیا، جبکہ وہ کسی کو ٹکٹ نہیں دیتے تھے، صلاح الدین پراچہ(مرحوم)نے بھی بڑی معاونت کی،لیکن جنگ گروپ نے اقبال بھائی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ زندگی گزارنے کے لیے دونوں بچوں کی پرورش کے لیے کچھ کرنا تو تھا ہی،اقبال بھائی کوبہت شوق تھا کے ان کا اپنا رسالہ نکلے، بھابی نے اقبال بھائی کے خواب کی تکمیل کی اور بھاگ دوڑ کر ایک رسالے کا ڈیکلریشن حاصل کرلیا۔ اور ایک دن وہ آیا کہ اپنے چاہنے والے شوہر کی تمنا پوری کی اور ’’رسالہ صبح نو‘‘ کا شمارہ لوگوں تک پہنچ گیا، یہ انہوں نے اپنے گھر سے ہی نکالا تھا۔ رسالہ نکالنا اس کے لیے جدو جہد کرنا، میلوں گاڑی چلانا، اشتہارات کے لیے دوستوں کو ساتھ لیے لیے پھرناکہ کوئی اکیلا نہ سمجھے، اپنی اور اپنے شوہر کی عزت اور نام کی حفاظت کرتے ہوئے اس معاشرے میں زندگی گزارنا،قدم قدم پہ کانٹوں سے بچنا، یہ سب بھابی نے تحمل سے برداشت کیا لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کراچی میں رہنے والوں کے لیے کراچی کے لو گوں نے ہی جینا محال کردیا، کراچی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی، اصل میں اسی وقت سے بھتہ خوری رائج ہوئی تھی ، آج بھی کوئی ان کی نشان دہانی نہیں کر رہا ۱۹۹۶ء میں بھابی دونوں بچوں کو لے کر لندن چلی گئیں،ہم بلکہ اسی وقت سے گمشدہ بھابی کی تلاش تھی ہاں تو ہم نے کشور بھابی کو فون کیا وہ بہت خوش ہوئیں اور بتایا کہ ساجدہ بھی آئی ہوئی ہے تم کھانے پر آجاؤ،فون پر ان کی بہو نے عنبرین سے بھی کافی دیر باتیں کیں،دوسرے دن دوپہر کو ہمیں شارجہ کھانے پر جانا تھا۔ جانے سے پہلے کافی سوچنا پڑا ۔چونکہ سب کاٹن کی قمیضوں کی آستینیں چھو ٹی تھیں ایک ریشمی سوٹ نکالا جس کے دوپٹے کو خوب کس کس کے سر پر منڈھا۔عنبرین نے کہا کیا ہوگیا آپ کو، ہم نے کہاارے تم نے سنا نہیں کشور بھابی بہت اللہ والی ہوگئی ہیں کیا کہیں گی دوپٹہ تک ڈھنگ سے اوڑھنا نہیں آتا ، ہم تو ٹھہرے پکے گنہگاردنیاوی جھنجٹوں میں گرفتار ہیں، ہم نے کس کس کر لپیٹ لپیٹ کر دوپٹہ اس طرح اوڑھا کہ سر سے نہ سرکے لیکن مجال ہے جو ہم اس کو ڈھنگ سے سنبھال پائے ہوں (اب کشور ہی ہمیں معاف کریں گی) اس طرح ہم بھابی تک پہنچ گئے ،ساجدہ بھی موجود تھیں۔ بھابی نے بتایا کہ لندن آنے کے بعد وہ سکون کی تلاش میں کئی اداروں وغیرہ میں گئیں، لیکن دل نہیں لگتا تھا، گھر کے قریب ایک جگہ درس میں الہدہ کے بارے میں پتہ چلا۔ ان کے درس سننے کے بعد کچھ دل کو چین ملا،بڑے بیٹے راشد کو تعلیم مکمل کرنے کے لیے امریکہ بھیجا، اس کی شادی ہوئی ماشا اللہ اس کی تین بیٹیاں ہیں، چھوٹے ندیم نے لندن میں ہی تعلیم مکمل کی ،بھابی کو اسلامی ملک میں رہنے کا شوق تھا۔ اللہ نے ندیم کی پوسٹنگ دبئی میں کرادی اور ابھی ایک ماہ قبل راشد کی بھی دبئی میں ہی پوسٹنگ ہوگئی ہے، ندیم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے اس کی موہنی سی بیوی ہے، لگتا ہی نہیں تین بچوں کی ماں ہے آج کل الہدہ کا کورس کر رہی ہے۔ کشور بھابی سے زیادہ اس نے اتنی اچھی طر ح اللہ اور رسول کی سنتوں پر سمجھایا کہ دل و دماغ پر ہر ہر لفظ نقش ہوتا جارہا تھا ، بھابی کا کہنا تھا کہ میری تمنا تھی کے میری بہو مجھ سے زیاد ہ قابل ہو۔اللہ نے ان کی سن لی اس کا لہجہ ایسا کہ جیسے پھول جھڑ رہے ہوں، ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے ہی ہمیشہ میری مدد کی۔ میں نے ا للہ پر بھروسہ کیا،اس کی رسی پکڑ لی،ساری خلقت عارضی دنیا کی طرف بھاگ رہی ہے، آخرت کے لیے ہم کچھ نہیں کر رہے ۔اسی دوران مجھ سے فرید خان کانام نکلا جو ریڈیو،اسٹیج اور ٹیلی وژن پر سب کو ہنسانے والا آج کینسر کے مرض میں مبتلا ہے،ہماری بد قسمتی ہے کہ ایسے فنکاروں کا مستقل کوئی پرسان حال نہیں،مر ض بھی ایسا جس میں بے دریغ پیسہ چاہیے، اپنے طورپرمعین اختر نے بہت کیا، تحسین جاوید،بہروز سبزواری، شہزاد رضااور بہت سے لوگوں نے کچھ نہ کچھ کیا اور کربھی رہے ہیں، لیکن کیموتھراپی وغیرہ ،سب سے بڑھ کر بڑھتی مہنگائی ، ان سب نے مزید دباؤ ڈالا ہوا ہے،کشور بھابی فرید سے واقف تھیں، اس کی حالت سن کر پریشان ہوگئیں، میں نے اس کا نمبر دیا،بات کی، انہوں نے دین کے اس رخ کو بھی سمجھایا کہ حقوق العباد کتنے اہم ہیں۔ کاش ہم سب سمجھیں۔فرید بہت اچھا کامیڈین ہے۔اس کی صلاحیتوں سے سب واقف ہیں۔ دوسروں میں مسکراہٹ بکھیرنے والا ایک مسکراہٹ کے لیے ترس رہاہے،اللہ اسے صحت دے اور وہ اپنے بچوں کے فرائض سے سبکدوش ہوسکے،اس کا نمبر درد مند لوگوں کے لیے لکھ رہی ہوں:۰۳۰۰۹۵۶۸۷۵۳ اور ۰۳۱۵۲۳۳۳۷۰۰۔ ان نمبروں پر کراچی میں اس سے رابطہ ممکن ہے۔ ندیم کی بیوی کے ہاتھ سے بنے ہوئے لذیز کھانے کے بعد سب ہمیں چھوڑنے آئے۔ اس وقت اندازہ ہوا کے سوائے آنکھوں کے ان کی بہو کو کوئی نہیں دیکھ سکتا،کشور بھابی اللہ والی ہوگئی ہیں۔ ابھی تو قارئین کو بہت کچھ بتانا ہے۔ عدنان ،دینار، غیاث ،فرحانہ ، شہناز ،ضیاء، اظفر، یاسر اور امریکہ سے ہماری خاطر آئی ہوئی خدیجہ سے ملاقاتیں وغیرہ ۔ اس مرتبہ تو اپنا وعدہ پورا کیا کشوراقبال سے بات چیت کا اور سب آئندہ۔۔(جاری ہے)
****