اپنے وقت کی نابغۂ روزگارشخصیت
علامہ نیاز فتح پوری اور ان کی ادبی خدمات

معین الدین(بنگلہ دیش)

مغلوں کے اقتدار کا سورج غروب ہوتے ہی اندھیرے کی دیوار دراز ہونا شروع ہو گئی تھی لیکن مصلح قوم سرسید کی تحریک نے اس دیوار میں روشنیوں کے روزن کھول دیے۔ قدامت کی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی روشن خیالی کی کرنیں نمودار ہونے لگیں۔ ان کی تعلیمی اصلاحات اور ان کے رسالے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی اشاعت نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا جس میں نوجوان طبقہ ہر گتھی کو عقل کے ناخن سے کھولنے کا شائق ہو گیا۔ ایک ایسی فضا تعمیر ہوئی جس میں ہر پرانی بات بہت زیادہ پرانی معلوم ہونے لگی۔ سنی سنائی باتوں پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لینے کے بجائے بحث و تکرار کے دروازے کھلنے لگے۔ لہٰذا نیاز محمد خاں بہ لحاظ عمر بہت چھوٹے تھے لیکن بہ اعتبار عقل بہت پختہ اور عمر کے اس حصے میں جب بچے صرف کھیلتے اور کودتے ہیں، وہ تعلیم کی ان منازل سے گزر رہے تھے جو سن بلوغ میں طلبہ کے سامنے آتی ہیں۔
عقل کا یہ معیار انھیں ارد گرد کے ماحول سے کس طرح بے خبر رکھ سکتا تھا، جبکہ انھیں باپ کی طرف سے روشن خیالی کے تحفے روز ملتے تھے۔
علامہ نیاز فتح پوری کا آبائی وطن فتح پور ہوہ تھا لیکن وہ ۱۳۰۲ ہجری مطابق ۱۸۸۴ء میں بمقام سنئی گھاٹ ضلع بارہ بنکی پیدا ہوئے جہاں ان کے والد محمد امیر خاں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ جناب محمد امیر خاں ۱۹۰۸ء میں مرزا غالب اور امام بخش صہبائی وغیرہ کے دوستوں میں تھے اور علم و ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹے نیاز صاحب کی تعلیم و تربیت کا نہایت معقول انتظام بچپن ہی سے کر دیا۔ چنانچہ مولوی حبیب الدین اور مولانا صدیق حسن غازی پوری وغیرہ اتالیق کی حیثیت سے سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہے۔ لیکن باقاعدہ تعلیم کے لیے نیاز صاحب مدرسہ عالیہ رامپور اور ندوۃ العلما لکھنؤ میں بھی رہے لیکن اس سلسلے میں ان کا زیادہ قیام فتح پور میں رہا۔
فتح پور کا مدرسہ اسلامیہ جو اب مسلم انٹر کالج ہے اور علی گڑھ کے بعد غالباً پہلا مدرسہ تھا جس میں عربی، فارسی اور علوم اسلامی کے ساتھ انگریزی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ اس مدرسہ کی بنیاد ۱۸۰۲ء میں مولانا سید شاہ ظہور اسلام نے ڈالی تھی جو مدرسہ دیوبند کے فارغ التحصیل عالم اور مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی کے خلیفہ تھے۔ غرض کہ مولانا موصوف انیسویں صدی عیسوی کے ایک زبردست عالم، سماجی مصلح اور تعلیمی مفکر تھے۔ یہ دراصل انہی کے فیض صحبت اور تعلیم و تربیت کا رشد تھا کہ اس مدرسہ نے مولانا عبدالرزاق کانپوری۔ حکیم مولوی عبدالحئی، مولانا حسرت موہانی، مولانا احسن الدین خاموش اور علامہ نیاز فتح پوری جیسی نامور مؤرخ مفکر، شاعر و ادیب پیدا کیے۔
نیاز صاحب کی تعلیمی زندگی کا زیادہ حصہ مولانا ظہور اسلام کی شاگردی میں گزرا۔ انہی کے مدرسہ سے نیاز صاحب نے دیوبند کے نصاب تعلیم کی تکمیل کی اور وہیں سے ۱۸۹۹ء کو میٹریکولیشن کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۰۰ء میں پولیس سب انسپکٹر نامزد ہوئے اور مراد آباد میں ایک سال کی ٹریننگ مکمل کر کے تھانہ ہنڈیا ضلع الہٰ آباد میں تعینات ہوئے۔ چونکہ ملازمت اور نیاز صاحب کی طبیعت میں بعد المشرقین تھا اس لیے دو سال میں استعفیٰ دے دیا۔ پھر چند سال انھوں نے ادھر اُدھر مختلف ملازمتوں کے سلسلے میں بسر کیے اور گزارے لیکن لکھنے پڑھنے کا شوق ابتدا ہی سے تھا۔ اس لیے بہت جلد صحافت کی طرف آ گئے اور باقاعدہ صحافتی زندگی کا آغاز ۱۹۱۰ء سے ہوتا ہے جبکہ وہ مولانا ظفر علی خاں کے ساتھ رسالہ ’’زمیندار‘‘ سے منسلک ہوئے اور ۱۹۱۰ء سے لے کر ’’نگار‘‘ کے سال اجرا ۱۹۲۲ء تک ان کا زیادہ قیام بھوپال اور دلی میں رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ان کے انشائیوں اور افسانوں کی دھوم مچ رہی تھی اور بقول مُلاّ واحدی ’’ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈپٹی عبدالرؤف اور بعض دوسرے نوجوان نیاز صاحب سے ملنے کے لیے دلی کے پھیر کیا کرتے تھے‘‘۔
فروری ۱۹۲۲ء میں نیاز صاحب نے ترکی زبان کی مشہور شاعرہ نگار بنت عثمان کے کلام سے متاثر ہو کر رسالہ ’’نگار‘‘ جاری کیا۔ ۱۹۲۶ء میں نیاز صاحب بھوپال سے لکھنؤ منتقل ہو گئے اور ’’نگار‘‘ کو بھی ساتھ لائے۔ لکھنؤ میں انھیں ذاتی مکان ، پریس اور اطمینان و آسائش کے سارے ذرائع حاصل تھے لیکن ۱۹۵۴ء میں اپنی چہیتی بیٹی شوکت جہاں کی ناگہانی موت سے سخت صدمہ پہنچا۔ اس کے بعد بعض ایسے افسوسناک خانگی واقعات رونما ہوئے کہ وہ نیاز صاحب کے لیے روح فرساالمیہ بن گئے۔ ان کے قلب و ذہن پر اس المیہ نے اتنا گہرا اثر ڈالا کہ وہ سخت علیل ہو گئے اور کئی ماہ تک صاحب فراش رہے۔ نیاز صاحب جس خانگی المیہ کا شکار ہوئے تھے وہ قانوناً اس کا دفاع آسانی سے کر سکتے تھے، لیکن ان کی اخلاقی غیرت نے اسے قبول نہ کیا۔ وہ اس زہر کو پی گئے لیکن جینے کا حوصلہ باقی نہ رہا۔ ان حالات میں ان کے بعض احباب اور اعزاء نے انھیں پاکستان آنے کامشورہ دیا اور مجیب انصاری مرحوم کی کوششوں سے وہ ۳۱ جولائی ۱۹۶۲ء میں پاکستان کے مشہور شہر کراچی آگئے۔ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے ’’نگار‘‘ کے نیاز نمبر میں بہت صحیح لکھا ہے کہ ’’ان کی نجی زندگی میں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے جن کے باعث وہ اپنا کوئی کام سکون خاطر سے نہ کر سکتے تھے‘‘۔
لکھنؤ میں جو ذہنی اذیت انھیں پہنچی تھی، اس کا ازالہ تو خیر ممکن نہ تھا لیکن پاکستان آنے کے بعد پھر بھی فضا کی تبدیلی کا خاصا اثر رونما ہوا۔ اب اس اذیت سے بہت کچھ نجات پا گئے۔ نیشنل بینک آف پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر جناب ممتاز حسین کے التفاتِ خاص نے انھیں فیرئرہال کراچی کے کتب خانے سے منسلک کر دیا چونکہ یہ کام نیاز صاحب کے مذاق اور مزاج کے عین مطابق تھا اس لیے ان کی دلچسپی اور توجہ دونوں کا مرکز بن گیا اور دو سال کی مدت میں انھوں نے عربی و فارسی کے ہزاروں مخطوطات پر مفید حواشی و اشارات مرتب کر دیے۔
پاکستان اردو ترقی بورڈ کی زیر ترتیب لغت پر نظرثانی کا کام بھی ان کے سپرد تھا اور آخری ایام تک وہ اس کام کو نہایت دلچسپی اور انہماک سے کرتے رہے۔ اس کے علاوہ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں ہفتہ وار کالم ’’رنگا رنگ‘‘ بھی پابندی سے لکھتے تھے اور اپنا رسالہ ’’نگار‘‘ کراچی کی ذمہ داریوں کا بھی انھیں پورا احساس تھا۔ سوالات و جوابات کا کالم ’’باب الاستفسار‘‘ ، ’’باب الانتقاد‘‘ وغیرہ مستقلاً وہی لکھتے تھے۔ علمی و ادبی مقالات اور مضامین کی ترتیب، پروف ریڈنگ اور کتابوں پر تبصرے کا کام انھوں نے معاون پر چھوڑ رکھا تھا لیکن پریس جاتے جاتے وہ سارے پرچے پر ایک نظر ضرور ڈال لیتے تھے۔ جو خطوط ان کے نام ہوتے تھے، ان کے جوابات بھی وہ پابندی سے لکھنے کے عادی تھے۔ یہ سارا کام وہ حد درجہ انہماک و تندہی سے کرتے تھے لیکن تھکن کے آثار ان کے چہرے پر کبھی نہیں دیکھے گئے۔
صاحب مذکور باب الاستفسار میں خصوصاً بڑے ذوق و شوق سے لکھتے تھے۔ عربی، فارسی اور اردو پر ان کی نظر وسیع بھی تھی اور گہری بھی۔ اساتذہ کے کلام کا بیشتر حصہ انھیں زبانی یاد تھا۔ صرف غزل کے اشعار نہیں بلکہ طویل مثنویاں، قصیدے، قطعات اور رباعیاں وغیرہ سبھی ان کے حافظے میں محفوظ تھیں۔ اس لیے کسی لفظ کی سند تلاش کرنے میں چنداں دقت نہ ہوتی تھی۔ علم و بیان و بدیع اور عروج و قافیہ وغیرہ کے مسائل پر بھی وہ برجستہ لکھتے تھے۔ تاریخ اسلامی قرآن و حدیث کے مباحث پر بھی ان کا قلم خوب چلتا تھا۔ وہ حافظ قرآن تو نہ تھے لیکن قرآن کے اجزا نھیں کثرت سے یاد تھے کہ کسی مسئلہ پر قلم اٹھاتے وقت انھیں دشواری نہ ہوتی تھی۔
معلومات عامہ کے استفسارات کے سلسلے میں وہ البتہ مختلف کتابوں سے مدد لیتے تھے لیکن پھر بھی معلومات عامہ کا اتنا بڑا ذخیرہ ان کے ذہن میں محفوظ تھا کہ حیرت ہوتی ہے۔ میرے خیال میں وجہ یہ تھی کہ عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی کے سارے اہم رسالے پڑھتے تھے۔ ایک مدت سے یہی رسائل، جن کا تعلق مختلف علوم و فنون سے ہوتا ہے، دراصل ان کے معلومات عامہ کے سر چشمہ تھے اور انہی کے ذریعے وہ ہر علم وفن کے جدید ترین رجحانات و انکشافات سے باخبر رہتے تھے اور کبھی کبھی ان رسائل کا اقتباس بھی لیتے تھے اور کبھی کبھی دوران مطالعہ آزاد ترجمہ کے ذریعہ اس کا رس نچوڑ لیتے تھے۔
صاحب موصوف کی زندگی برسوں سے معمولات کے ساتھ بسر ہو رہی تھی۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے،گھومنے پھرنے اور لکھنے پڑھنے وغیرہ یعنی سب کے اوقات مقرر تھے۔ گرمیوں میں روزانہ چھ سات گھنٹے اور سردیوں میں آٹھ دس گھنٹے وہ جم کر لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے۔ وہ سارا کام پابندئ وقت اور سلیقہ سے کرتے تھے اور اسی نہج سے دوسروں کو بھی کام کرنے کی ہدایت اور تلقین کرتے تھے۔
جون ۱۹۶۵ء میں جب ڈاکٹروں نے ان کے گلے کی گلٹی کو سرطان یعنی کیسنر کا پیش خیمہ بتایا تو وہ حد درجہ متفکر و مضمحل رہنے لگے۔ تقریبا ڈیڑھ دو ماہ تک برقی شعائیں (شعاعیں) دی گئیں مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ آپریشن کی نوبت آئی تو اسے بھی وہ بڑے ضبط اور ہمت سے جھیل گئے۔ آخری ایام میں چونکہ جی بھر کے لکھنے پڑھنے سے معذورہو چکے تھے۔ اس وقت ، ٹائم کاٹے نہ کٹتے تھے۔ اپنی بے عملی پر کڑھتے تھے اور مختلف اشعار سے د ل بہلاتے تھے۔ آخری وطن میں جبکہ وہ زندگی سے یکسر مایوس ہو چکے تھے۔ ’’نگار‘‘ پاکستان اور اپنے دونوں بیٹوں سرفراز نیازی اور ریاض نیازی کے متعلق وہ اکثر سوال کرتے تھے کہ اب کیا ہو گا؟ انھیں بڑا دکھ اس بات کا تھا کہ ان کے بعد ’’نگار‘‘ اپنی انفرادی روایت کے ساتھ جاری نہ رہ سکے گا اور ان کے بیٹوں کی تعلیم و تربیت کی تکمیل ان کی خواہش کے مطابق نہ ہو سکے گی۔ جب کبھی کوئی قریبی دوست یا ہمدرد ان کی عیادت کو آتا تو یہ دونوں باتیں چھیڑ کر آبدیدہ ہو جاتے اور دوسروں کو بھی آبدیدہ کر دیتے تھے لیکن افسوس بلکہ صد افسوس کہ ۲۴ مئی بروز منگل ۱۹۶۶ء کو اسی (۸۰) سال کی عمر میں صبح چار بجے انتقال کر گئے۔ مرحوم اپنی ذات سے ایک ادارہ، ایک مکتبۂ فکر اور ایک تحریک تھے۔ ہر چند کہ وہ طبیعتاً عزلت پسند اور گوشہ گیر تھے۔ کم آمیز و کم سخن تھے اور غالب کے اس شعر کے ترجمان تھے ؂
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
جناب نیاز صاحب گزشتہ ساٹھ پینسٹھ سال سے مسلسل لکھ رہے تھے اور ایسی انفرادیت کے ساتھ لکھ رہے تھے کہ ان کی کسی تحریر کو حرف مکرر کہنا مشکل ہے، صحافت ہے، ادبی تنقید ہے، انشائیہ ہے ، مکتوب نگاری ہے، تاریخ اسلام ہے، جمالیات، افسانہ، ناولٹ، تحقیق، علوم عقلیہ، مذہبیات، نفسیات اور معلومات عامہ وغیرہ سب پر انھوں نے قلم اٹھایا ہے اور اپنے مخصوص اسلوب نگاری و طرز فکر کی بدولت ایسا نقش چھوڑ گئے کہ اردو میں جب بھی یہ موضوعات مسائل علمی و فنی انداز سے زیر بحث آئیں گے تو علامہ مرحوم کا نام ضرور لیا جائے گا۔
نیاز فتح پوری صاحب جب ہندوستان میں تھے تو ۱۹۶۲ء میں حکومت کی جانب سے ’’پدما بھوشن‘‘ کا خطاب ملا اور اپنے رسالہ ’’نگار‘‘ کے تقریباً دس نمبرنکالے۔ آپ ایک اچھے معیاری رسالہ کے ایڈیٹر ہونے کے علاوہ کتابیں بھی لکھتے رہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ افسانوں کے دو مجموعے ’’نگارستان‘‘ اور ’’جمالستان‘‘۔ اور تاریخ الاولین، فراست الیہ، جذبات بھاشا اور ترغیبات جنسی وغیرہ اردو دان حضرات ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں جبکہ نیاز صاحب کا پہلا افسانہ ’’ایک شاعر کا انجام‘‘ ہے۔ رسالے اور کتابوں کی فہرست بتاتی ہے کہ نیاز صاحب اکثر موضوعات پر طبع آزمائی کرتے رہے اور ہر جگہ وہ اپنی ادبی شان کو برقرار رکھے ہیں جو ان کے لیے مخصوص ہے۔ ان کی تحریر میں بے باکی اور آزادئ رائے قدم قدم پر موجود ہے۔
جناب علامہ حقیقتاً سر سید احمد خان اور شبلی نعمانی کے ملے جلے دبستان فکر و ادب کی آخری یاد گار تھے۔ نیاز اور ’’نگار‘‘ لازم و ملزوم رہے ہیں اور شاید یہ یاد گار ان کے لائق فرزند حقیقی و معنوی کی مشترک مساعی سے سر سبز رہے گی۔
الغرض اردو زبان کے محسنوں میں ایسی ہمہ جہت اور ہمہ صفات شخصیت شاید ہی کوئی اور ہو جیسی کہ علامہ نیاز فتح پوری صاحب کی تھی۔ کئی زبانوں پر دسترس، شاعر، انشا پرداز، فلسفہ و مذہب، فقہ و حدیث، منطق و موسیقی، تاریخ و نفسیات، فن تجوید و تنقید غرض کہ کون سا باب علم تھا جو ان پر بند تھا۔ صحافت کے میدان میں ماہنامہ’’نگار‘‘ ان کی ایسی یاد گار ہے جسے صدیوں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس رسالے کو ادیبوں اور شاعروں کی نرسری کہا جاتا ہے۔ ان کے نظریات، عقائد ہر چند کہ تنازعات کا سبب رہے، مگر اس کے باوجود انھوں نے جتنا علمی و ادبی کام کیا وہ بڑے بڑوں کے بس سے باہر ہے۔ بنابریں ان کو نابغۂ روز گار شخصیت کہا جاتا ہے۔***
ڈاکٹر صابرہ شاہین
بہار آنے کی اک جھوٹی خبر سے
پرندے لوٹ آئے ہیں سفر سے

بھروسہ کیا بھلا کالی گھٹا کا
خدا معلوم اب برسے نہ برسے

وراثت میں انہیں دریا ملے ہیں
مگر ہم بوند بھر پانی کو ترسے

چمن سینچا تھا جس نے خونِ دل سے
وہی محروم ہے برگ و ثمر سے

نہ جانے کب گلی میں سو گئے وہ
کبھی جو شرم سے نکلے نہ گھر سے

مجھے شاہین اب یہ سوچنا ہے
کہیں پانی گزر نہ جائے سر سے
O
دل کا حال کسے بتلائیں ، کون کسی کی سنتا ہے
سوچ کا مکڑا بیٹھا ہر دم ، الجھن جالے بنتا ہے

اک روٹی کے جھگڑ ے میں سب پیار کی باتیں بھول گیا
لوبھ کا وحشی ناگ ، غرض کی تال پہ اب سر دھنتا ہے

تھام کے من کا پگلا پنچھی ، وہ سیدھا سا تن پنجرہ
تنہائی کی چادر اوڑھے ،وقت کی راگنی سنتا ہے

روح کا بالک روم روم سے ،ٹکڑے اندھی وحشت کے
خود غرضی کے جنگل میں ، اب ڈگر ڈگر پہ چنتا ہے