خبرنامہ
وفاقی سیکرٹری وزارت قومی ورثہ و یکجہتی کا دورۂمقتدرہ
وفاقی حکومت کی نئی قائم شدہ وزارت ’’ قومی ورثہ و یکجہتی ‘‘ کے سیکرٹری فریداللہ خان نے مقتدرہ قومی زبان کا دورہ کیا ۔ اس موقع پر مقتدرہ کے صدرنشین ڈاکٹر انوار احمد نے وفاقی سیکرٹری کو مقتدرہ میں جاری اور آئندہ کے پروگراموں سے آگاہ کیا ۔ اس اجلاس میں مقتدرہ کے سربراہان شعبہ جات بھی موجود تھے جنھوں نے اپنے اپنے شعبوں کا تعارف کرانے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے منصوبوں پر روشنی ڈالی ۔ وفاقی سیکرٹری فریداللہ خان نے خاص طور پر مقتدرہ کے شعبہ اُردو اطلاعیات میں دلچسپی ظاہر کی اور اسے مزید وسعت دینے کی ہدایت کی ۔ انھوں نے مقتدرہ قومی زبان کو براڈکاسٹنگ کے شعبہ سے منسلک کرنے کی تجویز کو بہت سراہا ۔ وفاقی سیکرٹری نے اس بات پر زور دیاکہ مقتدرہ قومی زبان کو اپنے منصوبوں میں نوجوان نسل کو زیادہ سے زیادہ شامل کرنا چاہیے ۔ اس حوالے سے انھوں نے انگریزی کے الفاظ کے متبادل کے لیے سوال و جواب کے پروگرام کی تجویز بھی پیش کی ۔مقتدرہ قومی زبان نے حال ہی میں بننے والی وزارت قومی ورثہ و یکجہتی کے زیر انتظام کام شروع کر دیا ہے اس سے قبل مقتدرہ کابینہ ڈویژن کے ما تحت کام کر رہا تھا ۔
’’
بیکن ہاؤس ،اسلام آباد کے طالب علموں کا مقتدرہ قومی زبان کا علمی دورہ ‘‘
بیکن ہاؤس ،اسلام آبادکے طلبہ نے اپنے اساتذہ کے ہمراہ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کا مطالعاتی دورہ کیا۔اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مقتدرہ کے چےئر مین ڈاکٹر انوار احمد نے کہا کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنی قومی اور مادری زبان میں بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ کرے۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں اپنے بچوں کوابتدائی تعلیم اُن کی مادری زبان میں اور اعلیٰ تعلیم قومی زبان میں دیتی ہیں جس سے اُن کے اندر تخلیق کرنے کی صلاحیت اجاگر ہوتی ہے۔ اس موقع پر سید شمس الدین کوآرڈینیٹر ہیومن رائٹس کمیشن، کراچی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قومی زبان میں تعلیم دینے سے طالب علموں میں احساس کمتری کم ہو جاتا ہے۔ بیکن ہاؤس سکول کے طالب علموں نے اپنے اساتذہ کے ساتھ مقتدرہ کے کتب خانہ اور کتاب گھر کا بھی دورہ کیا اور کتب خریدیں۔
مقتدرہ کے صدرنشین ڈاکٹر انوار احمدکا دورۂ ایران
صدر نشین مقتدرہ نے اپنے دورہ ایران میں فرہنگستان زبان و ادب ایران کے صدرنشین ڈاکٹر غلام علی حداد عادل اوربورڈ آف گورنرزکے ممبران سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران ڈاکٹر غلام علی حداد عادل نے بتایا کہ فرہنگستان زبان و ادب میں ۱۵ شعبے تحقیقی اور علمی کام کر رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ مقتدرہ کے ساتھ مل کر علمی اور تحقیقی کام کو آگے بڑھایا جائے ۔ ڈاکٹر انوار احمد نے تہران یونیورسٹی کے شعبہ اردو کا بھی دورہ کیا ، طلبہ اور اساتذہ سے ملاقات کی اور ایک علمی لیکچر بھی دیا ۔ انھوں نے تہران یونیورسٹی کے شعبہ اردو اور طلبہ کو مقتدرہ کی کتب کا ایک سیٹ بھی تحفہ میں دیا اور پیشکش کی کہ اردو کے حوالے سے مقتدرہ کی شائع شدہ جتنی کتب طلبہ یا اساتذہ کودرکارہوں تو مقتدرہ انہیں اعزازی طور پر فراہم کرے گا ۔ صدر شعبہ اردو تہران یونیورسٹی نے کہاکہ تہران یونیورسٹی میں اردو چیئر پر جلد از جلد پاکستانی استاد کا تقرر کیا جائے ۔ ڈاکٹر انوار احمد نے اپنے دورہ کے دوران آستان قدس کے سربراہ سے بھی ملاقات کی ۔ ملاقات میں طے پایا کہ آستان قدس نے جن سائنسی و تکنیکی اصطلاحات کا انگریزی سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے اس کا اردو زبان میں ترجمہ مقتدرہ کر ے گا اور بعد ازاں اسے تینوں زبانوں میں شائع کیا جائے گا ۔ انھوں نے ناشرانِ اسلام (Publishers Of Muslim World ) کی دو روزہ کانفرنس میں بھی شرکت کی ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر انوار احمد نے کہاکہ ایسے موقع پر جب مغرب عالمٍ اسلام کے حوالے سے یہ تاثر دے رہا ہے کہ فکری سطح پر کوئی قابلٍ رشک خیال یا تحریک اس کے دامن میں نہیں وہاں ۱۰۰ سے زائد پبلشرز کا اجتماع ایک فیض رساں یا قابلِ رشک لمحہ ہے اور تجویز دی کہ زبانوں ، کتب کے موضوعات اور علاقوں کے حوالے سے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر علمی اور اشاعتی ربط کو بڑھایا جائے ۔ اس تقریب میں پاکستان سے قلات پبلشرز کے منیجر نذر حسین اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر مظہر الاسلام نے بھی شرکت کی ۔
ڈراما نگار و ہدایت کار ؤف خالد کا انتقال
فن میں اعلیٰ کارکردگی پر مختلف ایوارڈ حاصل کرنے والے معروف اداکار و ہدایت کار رؤف خالد ۲۴ نومبر۲۰۱۱ء کوٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے گاڑی کا ٹائر پھٹنے سے حادثہ پیش آیا۔ صدرمملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سمیت شوبز سے وابستہ طبقے نے رؤف خالد کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ رؤف خالد نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار کلچر کے چانسلر تھے ۔ مرحوم مشہور ڈراما سیریل لاگ اور فلم لاج کے خالق تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے بنائے جانے والے ڈراموں سے انھوں نے بہت شہرت حاصل کی۔ انھیں اعلیٰ صدارتی پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا تھا۔
’’
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو مارو گے‘‘ معروف شاعر نصیر کوی انتقال کر گئے
اردو اور پنجابی کے معروف شاعر نصیرکوی انتقال کر گئے۔ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ وہ ۱۹۴۷ء میں جہلم میں پیدا ہوئے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ’’ساڈے ہتھ اگنی داتا‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے ابتدائی کارکنوں میں سے تھے۔ بینظیر بھٹو شہید نے بھی ان سے ملاقات کی تھی۔ ان کو اس شعر سے بڑی شہرت ملی تھی۔ (یہ بازی جان کی بازی ہے، یہ بازی تم ہی ہاروگے) ہر گھر سے بھٹو نکلے گا،، تم کتنے بھٹو مارو گے۔
اردو زبان کے فروغ کے لیے بیورو کریسی کی طاقت کی ضرورت نہیں، پروفیسر فتح محمد ملک
جامعہ اردو کے زیر اہتمام اسلام آباد میں دسواں یوم تاسیس منعقد ہوا جس کے مہمان خصوصی معروف دانش ور، محقق اور نقاد، ریکٹر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی پروفیسر فتح محمد ملک تھے۔ تقریب میں یونیورسٹی انتظامیہ، تمام شعبہ جات کے صدور، اساتذہ اور طلبہ و طالبات نے بھر پور شرکت کی۔ انچارج کیمپس ڈاکٹر زاہد سلیم نے مہمان خصوصی کا خیر مقدم کرتے ہوئے جامعہ اردو کی تفصیلات پر روشنی ڈالی۔ مہمان خصوصی پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو زبان کو فروغ و ارتقا کے لیے بیورو کریسی کی طاقت کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے بطور خاص اردو یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں ڈاکٹر عطاء الرحمان کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ تقریب کے آخر میں انچارج کیمپس پروفیسر ڈاکٹر زاہد سلیم نے مہمان خصوصی کو اعزازی تحائف پیش کیے۔
پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی نئی کتاب ’’منورچہرے‘‘ شائع ہو گئی
ممتاز شاعرو ادیب پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی نئی کتاب ’’منور چہرے‘‘ منظر عام پر آگئی ہے۔ بیادرفتگاں کے ضمن میں یہ ان کی ۱۳ویں کتاب ہے۔ ۲۲۴صفحات پر مشتمل یہ کتاب القمر انٹرپرائزز لاہور نے شائع کیا ہے۔ اس کتا ب میں، ڈاکٹر وزیر آغا، احمد فراز پروفیسر شوکت واسطی، نصرت چودھری، محمد طفیل ثاقب، سلیم حسن مرزا، خالد محمود شیخ ، ظفر خالق ، حوالدار نعیم اصغر شہید، ملک سلطان محمود اعوان پروانہ شاہ پوری، پروفیسر غازی احمد، شیخ محمد صابر، الحاج میاں محمد انور، خالد محمود سلیمی، ابو المعانی عصری، شیخ محمد ادریس، قاری محمد حنیف، حاجی عاشق حسین، فضل الٰہی چودھری ایڈووکیٹ، ظہیر الدین ظہیر، محمد ادریس خان، ہمایوں الطاف ،مرزاحبیب الرحمن، سید یوسف علی گیلانی قادری اور حنیف ساجد کی شخصیت اور خدمات کے بارے میں مضامین شامل ہیں۔ پروفیسر صاحبزادہ عبدالرسول ، مفتی محمد طفیل گوئندی ایڈووکیٹ، کے تاثرات بھی کتاب کی زینت ہیں۔ شمشاد حسین شاہد کا منظوم ہدیہ تحسین اور شخصیات کے بارے میں اشعار خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے گوہر شناسی، میں ان تمام مشکلات کا تذکرہ کیا ہے جو مرحومین کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے سلسلہ میں پیش آئیں۔ مضامین تاریخ وفات کے حوالے سے مرتب کیے گئے ہیں۔
غالب میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام لاہور میں دوروزہ بین الاقوامی غالب کانفرنس
غالب میموریل ٹرسٹ لاہور نے دیارِ سخن کے تاجدار میرزا اسد اللہ خاں کے ۲۱۴ ویں جشنِ ولادت کے حوالے سے لاہور کے ایک ہوٹل میں دو روزہ بین الاقوامی غالبؔ کانفرنس کا اہتمام کیا۔ جس میں پاکستان بھر سے دنیائے علم و ادب کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی اور مقالات پیش کیے جن میں: انتظار حسین، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر انوار احمد، ایران کے قونصل جنرل آقائی بنی اسدی، ڈاکٹر مجید امجد، شہزاد احمد، ڈاکٹر تنظیم الفردوسی ، ڈاکٹر عبدالکریم خالد، ڈاکٹر رشید امجد، ڈاکٹر شائستہ نزہت، ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی ، ڈاکٹر ناہید قاسمی، ڈاکٹر قاضی جاوید، ڈاکٹر محمد صفیان صفی، ڈاکٹر شاہد حسن رضوی، خالد اقبال یاسر، ڈاکٹر مظہر عباس، ڈاکٹر خورشید رضوی، خالد شریف، سعود عثمانی، سلمان صدیقی، پرتو روہیلہ، ڈاکٹر ضیاء الحسن، ڈاکٹر محمد کامران، صائمہ کامران، حامد ولید اور ٹرسٹ کے سرپرست شفیق اے صدیقی وغیرہ شامل ہیں، کانفرنس کی پہلی شام محفلِ موسیقی کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں معروف گلوکارہ ندا فیض نے کلامِ غالب سنا کر سامعین کے دل موہ لیے۔ دوسرے دن کانفرنس کا اختتامی حصہ محفلِ مشاعرہ کے لیے مخصوص تھا۔ مشاعرہ کی صدارت شہزاد احمد نے کی۔
انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیراہتمام جمیل الدین عالی کے اعزاز میں تقریب
کراچی میں وفاقی جامعہ اردو کے زیرا ہتمام ممتاز دانشو ر، ادیب و شاعر ڈاکٹر جمیل الدین عالی کی انجمن ترقی اردو پاکستان میں پچاس سالہ طویل مستقل رفاقت اور علمی و تحقیقی خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کے اعزاز میں ’’تقریب اعتراف خدمات‘‘ کا اہتمام انجمن ترقی اردو پاکستان ،وفاقی جامعہ اردو اور دائرہ ادب و ثقافت (انٹر نیشنل ) نے کیا تھا ۔ ممتاز دانشور ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنے صدارتی خطبے میں جمیل الدین عالی کے انجمن سے قدیم اور مسلسل تعلق کا حوالے دیتے ہوئے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی پاکستانیت پر خصوصی روشنی ڈالتے ہوئے ان کی تحریروں میں خرد افروزی اور پاکستانی تعلقات کے چند گوشے اجاگر کیے۔ انہوں نے کہا کہ عالی جی جیسا دوہانگا ر اب تک پیدا نہیں ہوا، اردو میں مستعمل اوزان کو استعمال کرکے وہ ہندی کے دوہوں میں بعض جگہ بڑھ گئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ صنف آنے والی نسلوں میں بھی مقبول ہو گی۔ ڈاکٹر جمیل الدین عالی نے کہا کہ میرے بارے میں اتنے اچھے الفاظ کہے گئے ہیں وہ ہضم نہیں ہو رہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ادب میں بہت زیادہ کام کیا ہے، ان کے لیے بھی ایسی ہی تقریب کا انعقاد کیا جائے۔ سامعین کے اصرار پر عالی نے ’’ترنم ‘‘ سے دوہے سنائے جس سے ایک سماں بندھ گیا۔ لاہور سے آئے ہوئے تقریب میں معروف شاعر امجد اسلام امجد،ڈاکٹر پیر زادہ قاسم صدیقی، ڈاکٹر عشرت حسین ،ڈاکٹر قمرالحق ،ڈاکٹر فاطمہ حسن ، ڈاکٹر قمر الحق اور اطفر نے بھی اظہار خیال کیا ۔ تقریب میں پروفیسر فتح محمد ملک کے مضمون سے اقتباسات مدیر قومی زبان ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے پڑھ کر سنائے جو اپنی علالت کی وجہ سے تقریب میں شریک نہ ہو سکے ،رخسانہ صبا نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا، ادارہ یاد گار غالب کی جانب سے فاطمہ ثریا بجیا نے عالی جی کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ دائرہ ادب وثقافت (انٹر نیشنل ) کی جانب سے عالی صاحب کوپھولوں کا ہار پہنایا گیا اور وفاقی جامعہ اردو کی جانب سے عالی جی کو نشان سپاس پیش کیا گیا۔ اس تقریب میں بڑی تعداد میں اہل علم و ادب نے شرکت کی۔
مجلس فروغ ادب دوہا قطر کے زیر اہتمام ڈاکٹر انواراحمد کے اعزاز میں تقریب
مقتدرہ قومی ،زبان کے صدرنشین ڈاکٹر انوار احمد نے قطر کی ادبی تنظیم مجلس فروغ ادب کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ۱۹۹۶ء سے عالمی فروغ ’’اردو ادب ایوارڈ ‘‘ کا اجراء کرنے والی اس تنظیم نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد نے ان خیالات کا اظہار تنظیم کے زیراہتمام دوہا قطر میں اپنے اعزاز میں دیے گئے ایک عشائیے میں کیا۔ انہوں نے اس موقع پرمقتدرہ کے قیام کے مقاصد اور سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ بنیادی اہداف میں صوبائی اور قومی سطح پر حکومتی نظام اور اداروں میں اردو کو رائج کر کے ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ ادارہ پوری تندہی کے ساتھ اردو کی ترقی و ترویج کے لیے کوشاں ہے۔ ایک اہم ترین کام مستحق طلبہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ’’بک بینک ‘‘ کا قیام ہے ۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ پاکستان میں نجی شعبہ بھی مقتدرہ قومی زبان کی سرگرمیوں میں اس کا ساتھ دینے کے حوالے سے پیش پیش ہے۔
قبل ازیں مجلس کے سرپرست اوراراکین نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور ڈاکٹر انوار احمد کو تقریب کی سی ڈیز اور رسائل کا تحفہ پیش کیا۔
مجلس فروغ ادب دوحہ قطر کے زیر اہتمام ڈاکٹر انوار احمد کے اعزاز میں تقریب کے دوران صاحب تقریب مجلس کے سرپرست محمد عتیق ، افضل شیخ، فرطاش سیداور دیگر اراکین کے ہمراہ
اکبر حمیدی ۔ اک اور چراغ بجھا
اردو کے استاد ، شاعر اور ممتاز انشائیہ نگار اکبر حمیدی یکم اپریل ۱۹۳۶ء کو گوجرانوالہ کے قصبے فیروزوالا میں پیدا ہوئے۔ اردو ادب کا یہ آفتاب ۱۲ دسمبر ۲۰۱۱ء کوسلام آباد کے افق سے عدم کی بے قراں وادیوں میں اوجھل ہو گیاہے۔ وہ ایک نابغہ روز گار ادیب اور عظیم انسان تھے۔ شعری مجموعوں میں لہو کی آگ، آشوب صدا، تلوار اس کے ہاتھ، شہر بدر ، دشت بام و در ،ہراک طرف خود نوشت: جست بھر زندگی شامل ہیں۔ اکبر حمیدی نے ایک سو کے قریب انشائیے لکھ کر اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا۔اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی خدمات تاریخ ادب میں آب زر سے لکھی جائیں گی۔ وہ علم و ادب کے بے لوث خادم تھے۔ انھیں ادبی حلقوں میں بے پناہ عزت و تقریم حاصل تھی۔