غزلیات


نعت
محمدؐمصطفی صلِّ علیٰ کے درپہ جاؤں میں
تو بس جائے مدینے کا ہر اک منظر نگاہوں میں

مرے دِل کے گلستاں میں خوشی کے پھول کھِل جائیں
بہل جائے مرا دل بھی مدینے کی فضاؤں میں

عطا ہو جائے مجھ پر میرے آقا کی
مزا آ جائے رہنے کا مدینے کی ہواؤں میں

کروں اَرماں اپنے دل کے پورے میں وہاں جا کر
جو گزری ہے مرے دل پر وہ آقا کو بتاؤں میں

کبھی روضے کی جالی سے مری آنکھیں لپٹ جائیں
کبھی آقا کی قربت سے مقدر کو جگاؤں میں

اگر اک بار جانا ہو مدینے کی طرف طالب
تو جاؤں ایسا جاؤں پھر کبھی واپس نہ آؤں میں
طالب حسین ہاشمی
غزل
بات رہبر سے پوچھ لیتے ہیں
اپنے اندر سے پوچھ لیتے ہیں

قتل پر دکھ تجھے بھی ہوتا ہے؟
نوکِ خنجر سے پوچھ لیتے ہیں

بُت سے الفت ہے یا تجارت ہے؟
ایک بت گر سے پوچھ لیتے ہیں

دیوداسی ہے کیوں تری مظلوم؟
چل کے مندر سے پوچھ لیتے ہیں

رائے بارے میں کیا ہے شاہیں کے؟
اک کبوتر سے پوچھ لیتے ہیں

آج محفوظ ہے کہ پہلے تھا؟
ہم کسی گھر سے پوچھ لیتے ہیں
منظور ثاقب
غزل
برگد کی چھاؤں میں بیٹھا اک بے نام فقیر
اپنے سر لے لیتا ہے ہر اک الزام فقیر

سوچ نگر میں گلیوں گلیوں گھومے وہ دن رات
چِنتا کے ساگر میں ڈوبا صبح و شام فقیر

سوچ سمندر میں جب اُترے موتی ڈھونڈ کے لائے
رکھتا ہے پیاسوں کی خاطر بھر کے جام فقیر

لوگوں کے دُکھ سہہ کر بھی وہ سُکھ کی دولت دے
’’
خیر رہے‘‘ کی بولی بولے سُن دُشنام فقیر

چلتے چلتے راہ کے سارے کانٹے چنتا جائے
پھول بچھاتا جائے ثاقب ہر ہر گام فقیر
منظور ثاقب
غزل
شہرِ تا خیر کا خدا ہونا
کتنا مشکل ہے دوسرا ہونا

پھول کھِلنا سنہری ٹہنی پر
اور اس میں بھی واقعہ ہونا

دیکھنے کے لیے ضروری ہے
آنکھ ہونا یا آئینہ ہونا

دفن ہونا زمین کے اندر
اور مٹی سے رونما ہونا
بن کے دریا سکون سے بہنا
اور کہیں برف سا جما ہونا

بچ گیا انکسار سے کامی
عشق کا کارِ کبریا ہونا
سید کامی شاہ
غزل
سو میں نے عشق کیا، صبر اختیار کیا
اور ایک سبز صحیفے کا اعتبار کیا

وہ سب سے قیمتی شَے تھی بدن خزانے کی
چراغِ دل، کہ جسے ہم نے نذرِ یار کیا

مجھے سمیٹ لیا مہربان بانہوں نے
کہ میرے گرد گُل و نور نے حصار کیا

کھُلا کہ باغِ یقیں میں ہی ملنا تھا خود سے
گمان و وہم کا دریا جو ہم نے پار کیا

بچھڑ گئے تھے کسی زرد لمحے میں ہم تم
سو، اِس پہ رنج کیا اور بار بار کیا
سید کامی شاہ
غزل
میَں جب لفظِ شہادت سوچتا ہوں
اَدب میں ایک طاقت سوچتا ہوں

کروں ہر بات میں بس ذکر تیرا
اسی کو میں عبادت سوچتا ہوں

یزیدِ وقت کے حربے نئے ہیں
نئی طرزِ عدالت سوچتا ہوں

جہاں میں جس قدر بھی روشنی ہے
لہو کی ہے حرارت سوچتا ہوں

کرے گا بادباں کا ایک ٹکڑا
ہواؤں کی سفارت سوچتا ہوں

چراغوں کی طرح جیتا ہوں کاظمؔ
اسے میں دل کی عادت سوچتا ہوں
کاظم جعفری
غزل
یہاں تو ہم تھے ہمارے چراغ جلتے تھے
ہمارے گھر تھے ، ہمارے درخت پھلتے تھے

ہم ان چھتوں پہ منڈیروں پہ بھاگتے تھے کبھی
ہم آنکھیں بند کیے سیڑھیوں میں چلتے تھے

ہمارے صحن میں خرگوش تھے ہمہ تن گوش
ہماری سیٹی کی آواز پر اچھلتے تھے

ہمارے پاؤں پہ بنتے تھے ریت کے گھر بار
گھروں کے نیچے خزانوں کے راز پلتے تھے

غدر کے بعد مہاجر گھروں کی اینٹوں میں
سنا ہے سونے کے زیور چھپا نکلتے تھے

خدا کو باندھ کے رکھا ہوا تھا کمرے میں
خدا سنا ہے سنبھالے نہیں سنبھلتے تھے

شکستہ چمنی سے گیندے کے خشک ہار ملے
یہاں حسد کی چتا میں وجود جلتے تھے

ہماری راہ میں خانہ بدوش ٹیلے تھے
جگہ بدلتے تھے ، صحرا نہیں بدلتے تھے

اِن آئینوں سے ہی پوچھو گواہ یہ بھی ہیں
یہاں گرے تھے تو گر کر یہیں سنبھلتے تھے
عدنان بشیر
شہرآشوب
مجھے ہے قسم اس دیار کی
یہ نگر تو باغِ بہشت تھا
یہ وہ بستیاں تھیں جو آفرینش کے تذکروں کی نشانیاں
یہ وہ بستیاں تھیں جو قافلۂ حیات کی تھیں کہانیاں
یہاں ہُمہماتی تھی زندگی
یہاں رقص کرتی تھی روشنی
یہاں کھیت کرتی تھی چاندنی
یہیں تھے پرندوں کے چہچہے
یہیں کھنکھناتے تھے قہقہے
یہاں رودِ باری کے پانیوں میں محبتوں کی مٹھاس تھی
یہاں بھوک رہتی تھی دید کی یہاں چاہتوں کی پیاس تھی
یہ ہنر وروں کا وہ دیس تھا
جہاں صبح ملتی تھی شام سے
یہاں روز ہوتی تھی گفتگو
یہاں خوب سجتے تھے رتجگے
یہاں دوستی کارواج تھا جو عبارتوں میں شمار تھا
یہاں خود سری کا مزاج تھا کہ ہر ایک سر میں خمار تھا
یہاں پھول کھِلتے تھے نور کے
یہاں سب گھروں میں چراغ تھے
یہاں رزق ملتا تھا فکر کو
یہیں فلسفے کے دماغ تھے
یہاں وصفِ حسن و جمال تھا
یہاں علم و فن پہ کمال تھا
یہ نگر جو اپنی مثال تھا
مجھے ہے قسم اِس دیار کی
کہ اسی دیار کی خاک میں تھا چُھپا ہوا کوئی حادثہ
یہاں ایک خاکی ہوا چلی
وہ ہوا جو بادِ سموم تھی
وہ ہوا جو آئی تھی جُہل سے وہ ہوا جو طرزِ ظلوم تھی
وہ جلا گئی مرے شہر کو وہ مزاج رُت کا بدل گئی
رہا سنگ و خشت میں رابطہ ولے روح یہاں سے نکل گئی
سبھی حُسن ظلم میں ڈھل گیا کہ قضا کا تیرتھا چل گیا
یہاں جال پھینکا فریب نے
یہاں گھیرا سب کو آسیب نے
یہاں سانحوں کی دھمال ہے
وہ کمال تھا یہ زوال ہے
جو دلوں کے غنچے مسل گیا کڑا موت سے وہ ملال ہے
مجھے ہے قسم اس دیار کی
میں ہوں اپنے شہر میں اجنبی
میں گلی گلی میں ہوں گھومتا پھروں ڈھونڈتا وہی صورتیں
جو سنہری لمحوں کے پیڑ تھے انھیں کھاگئی ہیں ضرورتیں
میں شجر شجر سے ہوں پوچھتا گئے موسموں کی کہانیاں
کہ بتاؤ مجھ کر کہاں گئیں میرے عہد کی وہ نشانیاں
وہی رات دن ہیں مگر یہاں کوئی اُن دنوں کا سماں نہیں
میں ہوں اپنے آپ سے پوچھتا کہ میں ہوں یہاں کہ یہاں نہیں
مجھے ہے قسم اس دیار کی
میں ہوں اپنے شہر میں اجنبی
ہوں اسی نگر کی تلاش میں وہ نگر جو باغِ بہشت تھا
جہاں پیار تھا میرا یار تھا، مرا یار تھا یہ دیار تھا
مجھے ہے قسم اس دیار کی
فضل احمد خسرو
چلے آؤ
میں ایسی سر زمیں پر آ کھڑا ہوں
کہ جہاں
چراگاہوں میں چوپائے نہیں
گھنے اشجار کے سائے نہیں
اور بنجر بانجھ سب اذہان
کہ جن میں
اب نمِ تخلیق تک باقی نہیں
دھواں ہے معبدوں میں
کہیں محراب میں ٹوٹا دیا ہے
چمکتی اور کڑکتی دھوپ میلوں تک
جہنم زندگی ہے
بدن پھٹتے ہیں
کہ خوفِ مرگ میں اب دن گزرتے ہیں
مگر میں دَم بخود تنہا
تمھارا منتظر ہوں
چلے آؤ
کاظم جعفری
نقل مکانی
سہیلی !دنیا بدل گئی ہے
ہمارے کچے گھروں کے کمروں میں سوکھے پتوں کا کوئی پنکھا نہیں پڑا ہے
ہماری خستہ چھتیں جو گزری تمام راتوں کا آئینہ تھیں،
وہاں پہ کالے نحیف جالے لٹک رہے ہیں
ہماری آنکھوں کے خواب گلیوں میں پا برہنہ بھٹک رہے ہیں
پرانے مٹی کے اور پیتل کے برتنوں سے سجے ہوئے طاقچوں پہ گردیں پڑی ہوئی ہیں
ہمارے کوزوں میں آبِ وحشت بھرا گیاہے
سہیلی!گلیوں میں بدروحیں غموں کی ڈھولک پہ ناچتی ہیں
ہماری سب کھڑکیوں میں روشن حسین لمحے ،
سمے کے سانپوں نے جانے کیسے نگل لیے ہیں
سہیلی! ہم نے عزیز خیمے بدل لیے ہیں
حماد نیازی
سفر
آوازیں رات کی خاموشی میں اوجھل ہونے کا سندیسہ لائی ہیں
چاند کے آدھے ٹکڑے پر کچھ خوابوں کی تدفین ہوئی ہے
گھڑے کا پانی قطرہ قطرہ ڈول رہا ہے
دیواروں کی مٹی میں برسوں سے گوندھی کچھ پوروں کا لمس اچانک
قلب کدے میں چیخ پڑا ہے
رات کے کالے توّے پر وحشت کی روٹی پکنے کو تّیار پڑی ہے
گھڑی کی دیمک سانس کا نادیدہ دروازہ چاٹ رہی ہے
میں یادوں کی تختی لے کر اس پر اپنے گھگھو گھوڑے،
پریاں ،جگنو، تتلی ، گڑیا، بنٹے ، ریت گھروندے
مور کے پر، بوسوں کی ٹافی، خواب کھلونے،
اور حرفوں کا پاک صحیفہ ،تصویروں میں ڈھال رہا ہوں
کل اور آج کے سارے رستے چل آیا ہوں
تنہائی کے چوراہے پر آن کھڑا ہوں
چاروں جانب اشکوں کی اک برف جمی ہے
سانس تھمی ہے
او ر میرے ہاتھوں سے کوئی بوڑھی انگلی چھوٹ رہی ہے
حماد نیازی
پرندو ! مرے ساتھ آؤ
خُنک بار چشموں کے چوڑے کناروں پہ اپنے پروں کو سمیٹے ہوئے
اور سہے ہوئے امن کی وادیوں کے سفیرو مرے ساتھ آؤ
مرے ساتھ آؤ سُبک بارشانوں کے مالک
ہُنر آفریں ، قوس منقاروالوگلابی پرندو
میں تم کو تمہارے بلند آشیانوں تلک چھوڑ آؤں
زمانے کے زیروزبر مجھ پہ شاہد، حفاظت کروں گا تمہارے پروں کی
سموء ل کی ماننداُن پانچ زرہوں کے جتنی جنہیں اک معلق کا شاعر امانت بنا کرکہیں جا چکا تھا
تمہیں کیا بتاؤں امیں لُٹ گیا تھا مگر اُس کی زرہیں سلامت رہیں تھیں
نشیبی زمینوں کے رزق آفرینو
چھپا کر اُڑوں گا تمہیں اپنے سینے کی چوڑی سپر میں
کسی ایسے بے سمت تیرِ جفا سے ، جسے دستِ قاتل کی گہری لکیروں نے پورا چھوا ہو
تکبر سے پھیری گئیں تیز دھاروں کے کہنہ ذبیحو
مجھے خوف آتا ہے تکبیر کی اُن صداؤں سے
جن کے سبب ناتواں آشیانوں پہ صدمے گرے ہیں
پرندو تمہیں سانحے کھا گئے
پے بہ پے سانحے جو مرے ہی قبیلے کی ٹاپوں سے اُترے سناتے ہوئے جشنِ شب خوں کی آیت
جسے اہلِ ناخن کی ہونکوں نے جکڑا ہوا تھا
پرندوتمہیں کیا خبر میں وہ مظلوم تھا ایک رائے تھی جس کی
مگر شورایسا کہ خود وہ مجھے بھی سنائی نہ دی اور میں خامشی کی سزاؤں کا مارا ہوا
ڈھونڈتا رہ گیااپنی آنکھوں کی کرچیں
سو اب اے پرندو ! میں اپنے قبیلے کا باغی
تمہارا زباں آشنا ، میری آواز سمجھو
کہ مجھ کو گوار نہیں وہ ندامت جسے میرے ہم نسل اکثر مرے نام کرتے رہے
اور دیتے رہے وہ گراں بار اُجرت کا حصہ کہ جس کے لئے میں نے محنت نہیں کی
نہ میری معیشت میں شامل رہے تیز لوہے کے آلے
پرندو مرے ساتھ آؤ
میں تم کو تمہارے بلند آشیانوں تلک چھوڑ آؤں
علی اکبر ناطق
ورثہ
تم آکے دیکھو کہ میرے مکے کے موسم
ابھی بدلنے میں وقت لگے گا
وہ معرکہ حق و باطل
جو مجھ کو تابندہ میراث میں ملا تھا
میں اب بھی نیک جذبوں کے لاؤ لشکر
اور روشن ضمیر ساتھیوں
کی قلیل ٹولی کے ہمراہ
اسی جوانمردی سے لڑ رہا ہوں
غینم اب بھی انا کے جھنڈے
ہر ایک ٹیلے پہ لہرا رہا ہے
کمک تمام بستیوں سے بدستور
اسے اب بھی پہنچ رہی ہے
سفید گھوڑوں اور فربہ اونٹوں
کی لمبی قطاریں
چالاک مخبروں کے گروہ
اور تازہ دم خونخوار و مسلح عساکر
ابھی میرے مکّے میں ہر سمت
فریبی فقیہوں کے ٹولے
صداقتوں کے پاسباں
اور خبیثانِ شہر
شرافتوں کے معلم بنے ہوئے ہیں
تمام خائن وحشتوں کے دستور
مقدس صحیفے سمجھ کر پڑھا رہے ہیں
گروہِ شب پریشاں
جہالتوں کے مکتبوں کے پشتبان بن کر
جنوں خیزیوں کو
نوید فردا کہہ رہے ہیں
خباثتوں کے اصول اب بھی معتبر ہیں
نظامِ کہنہ کے سارے برتر نسب شہ دماغوں نے
دارِ ندوہ کو مسکن بنا لیا ہے
کہ جس میں سارے جابر تمام خائن اکٹھے ہوئے ہیں
سو یہ جنگ اپنے منطقی انجام کی سمت بڑھ رہی ہے
وہ شعبِ ابی طالبؑ کی ویرانیوں کوطاقت بنا رہے ہیں
ہم دارِ ارقم سجا رہے ہیں
وہ ہجرتوں اور اذیتوں کے نئے سلسلے تخلیق کر رہے ہیں
اور ہم روشنی کے مینار بنا رہے ہیں
اس طرف ہماری صداقتوں کا فردِ جرم تحریر ہو رہا ہے
اور اس طرف روشنی کا سیلاب امڈ رہا ہے (نثری نظم )
حماد حسن، پشاور