زمین پر لکھی کہانی
شاہد زبیر


غلطیاں
امریکہ میں رہتے ہوئے ۔ جب مجھے عرصہ گزرگیا تومیں نے وہاں کے آداب معاشرت اور گفتگو کے انداز سب سیکھ لیے ۔انتہائی نرم لہجے میں بڑی شائستگی سے گفتگو کرنا ۔ مخاطب کی دل جوئی اور اپنی نرم خوئی کا اظہار ،گفتگو کا لازمی حصہ ہے۔ ویسے تو میرالباس ان کے لیے عجیب ہے،جو مجھے خودوہاں کی معاشرت سے فی الفورالگ کردیتاہے ۔میری شلوار قمیص دیکھ کرمجھ سے بات کرنے والے کو یکا یک ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن دوسرے ہی لمحے میری ا مریکن لہجے پرعبوررکھنے والی انگریزی انہیں متاثر کردیتی ہے اور وہ مزیدبھی دھیمے پڑجاتے ہیں۔
ایک روز میں ایک آئس کریم پارلر میں گیااوراپنے لیے ایک پسندیدہ فلیورجس کو Hot-Fudge Sundae with chocolate ice creamکہتے ہیں ،کا آرڈردیا۔اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگا ۔ تھوڑی دیر میں ایک کالی ویٹرس میرے سامنے ونیلا آئس کریم کا باول لے کر آگئی۔ میں یہ دیکھ کر بڑا بھنا یا ۔ قریب تھا کہ میں حسب عادت پھٹ پڑتا،شائستگی میرے آڑے آگئی مگر میں نے تو چاکلیٹ فلیور کی آئس کریم آرڈر کی تھی ۔ ’’نہیں ۔ اچھا‘‘اس نے حیران ہو کرکہا، پھر میں نے بڑی نرم خوئی سے کہا،اچھا چلو چھوڑو اسے ضائع نہیں کرتے اسے یہاں میرے سامنے رکھ دو۔
اس نے حیرانی جتاتے ہوئے اپنا آرڈر پیڈ چیک کیا اور محبت سے بولی آئی ایم سوری سر،آپ نے واقعی چاکلیٹ کے لیے کہا تھا میں ا بھی سے تبدیل کرکے آتی ہوں
لیکن یہ ضائع ہوگی۔ میں نے کہا۔
ہرگز نہیں سرہم کچھ ضائع نہیں کرتے۔ہم اپنی غلطیوں کو اس طرح کھا جاتے ہیں کہ ان کا نشان نہیں بچتا۔
دوبارہ
میں ہڑبڑاکراٹھ بیٹھا ۔ میرے ساتھ والے کمرے سے میرے چھوٹے تین سالہ بیٹے روفی کی چیخنے اور دھاڑنے کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں ۔ وہ زاروقطار رورہا تھا ۔ میں جب اس کے پاس پہنچا تو اس کا چہرہ خوف سے زرد پڑچکاتھا۔ اس کی آنکھیں باہر نکلی پڑرہی تھیں۔ میں سمجھا کہ شاید اسے کسی چیزنے کاٹ لیا ہے۔ میرے مختلف سوالات پر سوالات کی بوچھاڑنے اس کو اور بھی ہر اساں کردیا تھا ۔ میں جوکچھ بھی پوچھتا وہ نفی میں سرہلادیتا۔ بڑی کوششوں کے بعد اس نے بتایا کہ اس نے ایک روپے والا سکہ نگل لیا ہے ۔ اسے یقین تھا کہ وہ بس اب مرنے ہی والاہے ۔ اس نے ہمیشہ ہم سے سنا تھا کہ سکوں کو منہ میں نہیں ڈالتے اس سے بچے مر سکتے ہیں۔یہ خوف اسے لرزا رہا تھا ۔ میں سمجھ گیا کہ وہ سکہ نگل چکا ہے ورنہ اب تک وہ سانس گھٹنے سے مر گیا ہوتا۔
اسے چپ کرانے کی تمام کوششوں کے بعد آخر مجھے ایک ترکیب سوجھی ۔ میں نے جیب سے ایک روپے والا سکہ نکالا اسے دکھا کر مٹی میں بند کیا پھر مٹی کھول کر دکھائی ۔ سکہ گم ہو چکا تھا۔ پھر میں نے اس کے کان کے قریب لے جاکر اس کا کان کھینچ کرمیں نے اس کے سامنے مٹھی کھول دی اور ثابت کیا کہ میں نے وہ سکہ جو اس نے نگل لیاتھا، نکال دیا ہے ۔ لہٰذا اب کوئی فکر کی بات نہیں۔ سکہ دیکھ کروہ چپ ہوگیا اور پھر پھرتی سے آنکھ بچا کر اس نے سکہ ایک جھپٹ میں میری تلی سے اڑایا اور منہ میں ڈال کرنگل لیا ۔ پھر مسکرا کر بولا ۔ ’’ڈیڈی ۔ذرا دوبارہ کر کے دکھاؤ ‘‘
انتخاب
ابابڑے ہردل عزیز ہیں ۔ کیا بڑا کیا چھوٹا،سب ان کے مرید ہیں ۔وہ انہیں مشفق ترین انسان سمجھتے ہیں ۔ ان کو ان کے تجربے کی بنیاد پرایک عظیم فلسفی اور دانشورمانتے ہیں۔خاندان کے لوگ ہی نہیں باہر سے آنے والے، ملنے والے سب ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان سے مشورہ کرنا،اپنی ترجیح تصور کرتے ہیں۔ہمارے گھر میں ایک پارٹی چل رہی تھی،لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو کرسیاں گھسیٹ کرلان میں ابا کے سامنے بیٹھ کر ان کی دانشوری کی باتیں سننے لگے ۔ ان کو قرآن،حدیث اور فقہ پر بھی عبورحاصل ہے ۔ دنیاوی معاملات کرنا، کسی مشکل ترین سچویشن سے نکلنا ، گھر کابجٹ بنانا سے لے کر وہ تعلیمی نظام تک کی خوبیاں ، خامیاں بیان کرسکتے ہیں۔ اپنی گفتگو کو کبھی لچھے دار اور کبھی سہل بناکرپیش سکتے ہیں۔ان کی باتوں میں سنجیدگی کے ساتھ ساتھ مزاح بھی شامل ہوتا ہے جس پربعض اوقات سامعین دل کھول کرقہقہہ لگا سکتے ہیں ۔وہ ایسی ہی ایک شام تھی جب سب جمع ہو کرچائے کے دور میں ان کی موجودگی اور باتوں سے لطف اندوزہو رہے تھے ۔ میں بھی ہمہ تن گوش تقریباًسب سے پیچھے کرسی ڈالے بیٹھا تھا ۔صرف اماں تھیں جو موجود نہیں تھیں،وہ باہر آئیں اور میرے کندھے کے ساتھ کچھ دیرکھڑی رہیں ۔ پھر دھیرے سے بولیں ، دیکھوبیٹا ،یاد رکھنا۔ جب کبھی تقریر کرنی ہو تو ایک مرد کا انتخاب کرو اور جب تم چاہو کہ کسی کام کی تکمیل کرنی ہے تو اس کے لیے عورت کا انتخاب کرو۔