غمخوار جان درد مند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عطاء الحق قاسمی

اے۔بی۔ اشرف

کسی باغ و بہار شخصیت کے بارے میں (اور جب وہ دوست بھی ہو) کچھ لکھنے کے لیے جس رعنائی خیال اور لفظی جمال کی ضرورت ہوتی ہے، وہ مجھ میں باقی نہیں۔ غالب نے اکہترویں(۷۱) سال میں داخل ہوتے ہی کہہ دیا تھا کہ ’’طاقت سلب، حواس مفقود، امراض مستولی‘‘ میں تو ماہ و سال کے لحاظ سے ان سے بھی آگے جا چکا ہوں تو پھر رعنائی خیال ، شوخیِ گفتار اور قلم کی رنگینی کہاں سے لاؤں، لیکن ایک ایسے دوست کو ، جو مصیبتوں میں گھِرے ہوئے معاشرے کے کم نصیب لوگوں کی دلجوئی میں لگا ہو۔ ان کے خشک ہونٹوں پر مُسکان، ان کے مرجھائے چہروں پر امید کی کرنیں اور بجھے ہوئے دلوں میں آس کی جوت جگا رہاہو، اُس کے بار ے میں اپنے جذبات کا اظہار نہ کرنا زیادتی ہے، اس جواز کے ساتھ اپنے محب کی کچھ یادیں اور کچھ باتیں قلم بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
میرے علاوہ ترکی اور ترکوں کے تین عاشق صادق اور بھی ہیں---- ایک تو سنگ میل والے نیاز احمد، دوسرے فرخ سہیل گوئندی اور تیسرے عطا الحق قاسمی۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ میں ان تینوں کو اپنا رقیب نہیں شریک محبت سمجھتا ہوں۔ میں نے تو اس دیارِ الفت کو اپنا مستقل مسکن ہی بنا لیا۔ دل کا روگ بھی یہیں لگا اور اس درد کا درماں بھی یہی دیارِ خُوباں ہی بنا۔ البتہ میرے شریک محبت بار بار اس ’’کوچے‘‘ میں آتے، دیدار کرتے اور اپنی دنیا کو لَوٹ جاتے ہیں۔ فراق کا درد جب حد سے بڑھتا ہے تو پھر ٹکٹ کٹا کر آ جاتے ہیں، کچھ روز دیارِ حُسن کی کوچہ گردی کرتے ہیں اور پھر دردِ فراق کی لذت سے لطف اندوز ہونے کے لیے اپنی پاک سر زمین کو چلے جاتے ہیں پھر لوٹ آنے کو۔ جب کہ میری کیفیت یہ ہے کہ
پایم بیک قدم ازیں کُو نہ پیش رفت
یاراں خبر دہید کہ ایں جلوہ گہۂ کیست
اوراسی لیے یہاں کے یاروں کو غالب کی زبان میں یہ نصیحت اور وصیت بھی کرتا ہوں کہ
گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ مَیں
جان دادۂ ہوائے سرِ راہگذار تھا
عطا ؔ سے میری یاد اللہ تو پینتیس چالیس سال سے ہے جب وہ اور امجد اسلام امجد ایم اے او کالج میں تھے تو وہاں میرے ایک ہم جماعت ارشدکیانی بھی لیکچرار تھے۔ میں جب بھی لاہور جاتا ارشد سے ملنے ایم اے او کالج ضرور جاتا۔ وہاں ان دونوں لائق فائق اور ادب و شعر کی دنیا میں اپنا مستقل مقام بنانے کی دُھن میں مصروف نوجوانوں سے بھی ملاقات ہو جاتی، حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں شگفتہ مزاج اور لطیفہ طراز نوجوانوں کے ساتھ چند لمحوں کی ملاقات دل پر دیر پا نقش چھوڑ جاتی۔
پھر یوں ہوا کہ ملتان یونیورسٹی کے عارضی کیمپس میں جہاں میں استاد تھا اور سٹوڈنٹ یونین کا انچارج بھی، یہ دونوں حضرات احمد ندیم قاسمی مرحوم اور دلدار بھٹی مرحوم کے ساتھ ہماری سالانہ تقریبات میں شرکت کے لیے ملتان تشریف لائے۔ ایک تقریب میں نقیبِ محفل دلدار بھٹی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ مائیک پر آئے تو جمعیت کے بعض طلبہ نے شور مچانا اور ہوٹنگ کرنا شروع کر دی۔ اس پر دلدار بھٹی نے انھیں مخاطب کر کے یہ کہا کہ ’’یار لگتا ہے تم لوگ تو مجھ سے بھی بڑے میراثی ہو‘‘ تو ناظرین کے قہقہوں کے ساتھ ان طلبہ کو سانپ سونگھ گیا۔ ہماری تقریب کو ان بڑے لوگوں کی شرکت نے چار چاند لگا دیئے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی اور دلدار بھٹی تو واپس لاہور چلے گئے مگر عطا اور امجد کو ہم لوگوں نے روک لیا۔ دوسرے روز شاہ محمود قریشی کے والد نواب سجاد حسین قریشی مرحوم نے،جو پنجاب کے گورنر بھی رہے، ان دونوں کو ناشتے یا کھانے پر بلایا اور ملتان کے بہت سے ادیبوں اور شاعروں کو بھی مدعو کیا۔ عرش صدیقی، عاصی کرنالی،ارشد ملتانی، غضنفر مہدی ، انوار احمد اور میرے علاوہ اور بھی بہت سے شاعراورادیب اس ضیافت میں موجود تھے۔ اس کی ایک یاد گار تصویر بھی میرے پاس ابھی تک محفوظ ہے۔
عطاؔ میں اور مجھ میں بعض خوبیاں یا کمزوریاں مشترک ہیں۔ مثلاً سب سے بڑی مشابہت حسن پرستی کی ہے۔ میں تو ویسے بھی پُنوں کی اولاد میں سے ہوں اور عطاؔ ازل سے حسن پرست واقع ہوئے ہیں۔ عطا کے ایک دوست نے انکشاف کیا تھا کہ کسی بھی حسین چیز کو دیکھ کر احمد ندیم قاسمی ’’ ماء شااللہ‘‘ کہتے تھے تو عطا الحق قاسمی کی زبان سے ہمیشہ ’’ انشا اللہ‘‘ نکلتا تھا ---- کبھی میری بھی عطا جیسی کیفیت تھی لیکن اب عمر کی اس منزل پر پہنچ چکا ہوں کہ احمد ندیم قاسمی مرحوم کی طرح ’’ما شا ء اللہ‘‘ کہہ کر دل مسوس کر رہ جاتا ہوں۔ عطا کے بارے میں نہیں معلوم کہ وہ اب بھی ’انشاء اللہ‘ ہی کہتے ہیں یا کچھ اور۔
میں نے شروع میں عطا کے ساتھ دوستی کے بجائے ’’یا داللہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ بات یہ ہے کہ شروع شروع میں اُن سے یاد اللہ ہی رہی۔ البتہ یہ یاد اللہ دوستی میں اس وقت بدلی جب وہ نوے کی دہائی میں انقرہ تشریف لائے۔ اُس وقت میاں نواز شریف کی حکومت تھی اور عطا الحق قاسمی ناروے میں پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے تھے۔ میرے شاگرد، رفیق کار، عزیز دوست ڈاکٹر انوار احمد اس وقت میری جگہ انقرہ یونیورسٹی کی اردو چیئرپر فائز تھے۔ میں زکریا یونیورسٹی کی پروفیسر شپ سے ریٹائر ہو کر انقرہ یونیورسٹی کی ملازمت اختیا رکر چکا تھا اور شعبہ اردو ہی میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ ڈاکٹر انوار احمد نے شعبہ اردو میں ایک تقریب کے سلسلے میں عطا الحق قاسمی کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا۔ وہ ہماری دعوت پر انقرہ تشریف لائے، انھوں نے اسے سرکاری دورہ نہیں بنایا (جو وہ آسانی سے بنا سکتے تھے) بلکہ خود اپنے خرچ پر آئے۔ وہ تقریب اتنی یادگار ثابت ہوئی کہ آج تک ہمارے پرانے طلبہ و طالبات اور شعبۂ اردو کے اساتذہ اسے یادکرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ عطا کی باغ و بہار اور خوبصورت شخصیت کے علاوہ ان کی وہ شگفتہ تقریر تھی جس نے محفل کو زعفران زار بنا دیا تھا۔
اس موقع پر انھوں نے دو روز میرے فلیٹ میں بھی گزارے۔ میں کرائے کے فلیٹ میں اکیلا رہ رہا تھا، ان دو دنوں میں ہماری ’’یاد اللہ‘‘ دوستی میں بدل گئی اور اس دو روزہ قربت میں، مَیں نے ایک نئے عطا کو دریافت کیا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس سے پہلے میں انھیں اپنی طرح پانچوں عیب شرعی کا حامل انسان سمجھتا تھا ( یہ پانچ عیب کیا ہیں، میں نہیں جانتا)۔ البتہ میں تو ان میں سے بعض کو خوبیاں سمجھتا ہوں۔ حسن پرستی اور وہ بھی نسوانی حُسن کی۔ میں سمجھتا تھا کہ باقی سب ’’خوبیاں‘‘ بھی ان میں موجودہوں گی کیونکہ ان کا لائف سٹائل ہی کچھ اس قسم کا ہے پھر ان کی گُلوں کی خوشبو سے پُر باتیں اور حکایتیں۔۔۔ مگر جب قریب سے انھیں دیکھا تو وہ پانچوں انگلیاں پانچوں چراغ نکلے۔ تردامن نظر آنے والے اگر دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ مجھے خوشی بھی ہوئی اور مایوسی بھی۔ مثلاً ترکی میں بار، ناچ گھر، نائٹ کلب، بیلی ڈانس اور پینے پلانے کی محفلیں عام ہیں۔ میں نے مہمان نوازی کے تقاضے کے پیش نظر انھیں دعوت دی تو مجھے حیرت ہوئی۔ جب انھوں نے بتایا کہ اُم الخبائث سے انھیں اجتناب ہے۔ حسن پرست ضرور ہیں کہ اللہ کی بنائی ہوئی خوبصورت چیزوں کی تحسین و آفرین مباح اور جائز ہے مگر ہوس پرستی سے دُور ہیں۔ ترکانِ خوش جمال کو دیکھ کر حُسن کی داد دی اور خوب دی کہ جہاں گرد ہیں۔ پوری دنیا گھوم چکے ہیں اور ہر نوع کے حسن و جمال کا نظارہ کر چکے ہیں مگر ’’چہرہ ہائے ترکانِ خطائی‘‘ کو دیکھ کر پکار اٹھے۔
آفاق ہا گردیدہ ام، رُوئے بتاں ور زیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام، اما تو چیزی دیگری
پانچوں عیبوں سے پاک مولانا حالی نے بھی تو کہا تھا ع
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
میں ان کو ایک روز مولانا جلال الدین رُومی کے مزار پر حاضری کے لیے قونیہ لے گیا۔ انقرہ کی میٹرو کے ذریعے ہم بسوں کے اڈے پر پہنچے۔ انقرہ کا اڈا کیا ہے۔ ایئرپورٹ لگتاہے۔ مرسڈیز بنز بس یہاں کے رواج کے مطابق عین وقت پر چلی۔ بس ہوسٹس نے روانگی کا اعلان کیا۔ راستے میں چائے کافی کیک بسکٹ سے تواضع کی۔ قونیہ میں ٹرام پر بیٹھ کر مقبرے پہنچے۔ یورپ کے معیار کی شاہراؤں، ٹریفک کے عمدہ نظام، بازاروں کی وسعت ، دکانوں کی سجاوٹ، ماحول اور فضا کی صفائی ستھرائی، ہر شے میں ذوقِ جمال کی نمود اور حُسنِ انتظام کو دیکھ کر عطاؔ کہنے لگے کہ ’’ترکی تو ہم سے سو سال آگے ہے‘‘۔ ان کا کہنا غلط نہیں تھا۔ ترکی میں صرف بسوں کے نظام ہی کو لے لیں تو حیرت ہوتی ہے۔ جتنا عمدہ نظام یہاں ہے خود میں نے اور کہیں نہیں دیکھا۔ میں نے نیویارک میں ’’گرے ہاؤنڈ‘‘ پر بھی سفر کیا۔ انگلستان کے سب سے بڑے بس سٹاپ وکٹوریہ سے کئی بار نیو کاسل اور ڈربی تک گیا۔ رُوم کی بسوں میں بھی سواری کی مگر بسوں کا جو سسٹم اور نظام ترکی میں ہے اس کا جواب نہیں۔ جو بات تجھ میں ہے کسی اور میں نہیں۔
ناروے میں عطاالحق قاسمی کی سفارت کا دور ناروے میں پاکستانی سفارت کاری کا یادگار دور ہے۔ عطا ؔ نے پہلی بار سفارت خانے کے دروازے نہ صرف نام نہاد شرفاء اور معززین پر کھولے بلکہ پاکستانی لیبر طبقے پر بھی در وا کر دیئے۔ پاکستانی فخر کے ساتھ سفارت خانے کی تقریبات میں شریک ہونے لگے اور کھل کر اپنے دانشور، صحافی، مزاح نگار، استاد، ادیب اور شاعر سفیر کو اپنے مسائل بیان کرنے لگے اور سفیر محترم بھی ان میں گھل مل جانے لگے۔ پہلی باران غریب اور غریب الوطن پاکستانیوں کو عزتِ نفس ملی۔ ناروے میں پاکستانی چینل کی آمد بھی قاسمی صاحب کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ناروے میں پاکستان کا امیج بلند کیا۔
میرے خیال میں سفارت خانوں میں سفیر کے عہدے پر بیوروکریٹس یا جرنیلوں کو نہیں بلکہ پرانے با ضمیر اور پڑھے لکھے سیاست دانوں ، دانشوروں، صحافیوں اور نامور پروفیسروں کو تعینات کیا جانا چاہیے، بیورو کریٹ اور جرنیل (ماسوائے چند ایک کے) معاملات کو حسبِ حال اور جوں کا توں(status quo)رکھتے ہیں اور کوئی بڑا معرکہ سر (Break through)نہیں کر سکتے بلکہ ملکوں کے تعلقات بڑھانے میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔ پھر اپنی اکڑی ہوئی گردنوں اور ایک خاص نوعیت کی ٹریننگ کے سبب اس ملک میں بسنے والے پاکستانیوں سے فاصلہ قائم رکھتے ہیں اور ان کو ادنیٰ مخلوق تصور کرتے ہوئے ان سے غلاموں جیسا سلوک روا رکھتے ہیں۔ لیکن ان کے مقابلے میں سیاست دان، دانشور، صحافی، پروفیسر زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو خوبی سے نبھاتے ہیں بلکہ اپنے پاکستانی بھائیوں سے قریبی تعلقات رکھتے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ملیحہ لودھی، شیری رحمن ، واجد شمس الحسن، حسین حقانی، عطا الحق قاسمی، پروفیسر علقمہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ماضی میں میاں بشیر احمد (ہمایوں والے) راجاغضنفر علی، میاں ممتاز دولتانہ، گل محمد جوگیزئی بھی سفارت کاری کے منصب کو کامیابی سے نبھا چکے ہیں۔
پاکستان کی پینسٹھ سالہ تاریخ میں وطنِ عزیز کو جتنا نقصان بیورو کریٹوں اور طالع آزما جرنیلوں نے پہنچایا اتنا سیاست دانوں نے نہیں پہنچایا۔ پاکستان بننے کے چند سالوں بعد ہی بیورو کریٹ حکمران بن بیٹھے۔ غلام محمد، سکندر مرزا، محمد علی بوگرہ، محمد علی چوہدری اور بعد میں غلام اسحاق خان سب بیورو کریٹ تھے۔ انھوں نے ہی جرنیلوں کو سیاست اور حکومت کا چسکا لگایا اور پھر مارشل لاؤں گا غیر مختتم سلسلہ شروع ہوا۔ سیاسی حکومتیں آئیں بھی تو پیچھے جرنیل ڈور ہلاتے رہے اور اسٹیبلشمنٹ کے نام سے حکومت کو میوزیکل چیئر بنا کر اقتدار کا تماشا رچاتے رہے۔ سیاست دانوں پر کیا کیا کیچڑ نہ اچھالے گئے، ان کو قید و بند کی صعوبتوں میں ڈالا گیا۔ انھیں قتل کیا گیا۔ ان کو پھانسی پر چڑھایا گیا مگر دستور کو توڑنے ، مارشل لا لگانے اور ملک کے لیے تمام بڑے مسائل کھڑے کرنے والے جرنیلوں اور ان کا ساتھ دینے والے کرپٹ بیورو کریٹوں کا مواخذہ کسی نے نہ کیا۔
خیر تو بات ہورہی تھی عطاالحق قاسمی کی ناروے میں سفارت کاری کی۔ ناروے میں دو سال کا دورانیہ پورا کرنے کے بعد ان کو تھائی لینڈ میں سفیر مقرر کر دیا گیا۔ مگر وہاں گئے ہوئے ابھی انھیں دو ماہ ہی گزرے تھے کہ میاں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا اور محترمہ بے نظیر وزیراعظم بن گئیں۔ اس کے باوجود کہ نئی حکومت نے انھیں سفارت پر برقرار رہنے کا اذن دے دیا مگر عطا نے اصول کے مطابق انکار کر دیا اور سفارت کا عہدہ چھوڑ دیا۔ اُس وقت ان کے بعد سید افتخار حسین شاہ چارج ڈی آفیئر بن گئے۔ حیرت ہے کہ بیورو کریٹ ہوتے ہوئے بھی انھوں نے قاسمی صاحب کی عزت اور احترام میں فرق نہ آنے دیا اور جب تک قاسمی صاحب وہاں رہے ان کو وہی پروٹوکول دیتے رہے جو ان کو پہلے حاصل تھا جبکہ باقی لوگوں نے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاسمی صاحب ہمیشہ شاہ صاحب کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں بلکہ انھوں نے ایک کالم بھی ان کی تعریف میں لکھا۔
گزرے ہوئے ایام اور ماضی کی یادیں ایک جذباتی اور حساس انسان کے لیے عذاب بن جاتی ہیں۔ عطاؔ جب بھی آئے ایسی حسین یادیں چھوڑ کر گئے کہ میرے لیے عذاب بنی رہیں۔ عطا انقرہ میں آ کر زیادہ تر ڈاکٹر فرقان حمید اور ان کی اہلیہ بُرجو کے گھر قیام کرتے رہے۔ ڈاکٹر فرقان حمید پہلے تو انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں میرے رفیق کار رہے۔ اب ریڈیو ترکی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ترکی میں ان کے قیام و دوام، ملازمتوں میں ان کی تقرری و ترقی کا سبب ان کی ترک اہلیہ برجو خانم ہیں۔ جس طرح پریم چند اپنے ارتقا کا سبب ماں سے زیادہ اپنی بیوی کو سمجھتے تھے اسی طرح فرقان حمید ترکی میں اپنی بقا اور خوشحالی کا سبب اپنی محبوب بیوی برجو خانم کو سمجھتے ہیں۔ برجو خانم نے انقرہ یونیورسٹی کے ہندویالوجی ڈیپارٹمنٹ سے گریجویشن کی۔ پہلے انقرہ یونیورسٹی کے ریکٹر کے دفترسے وابستہ تھیں، اب وزیراعظم کے سیکرٹریٹ میں ملازمت کرتی ہیں۔ خوش حال اور خوش جمال بھی ہیں اور خوش خصال بھی۔ مہمان نواز، ملنسار، شائستہ اور لبرل خیالات کی حامل خاتون ہیں۔ ڈاکٹر انوار احمد اور طلعت ، اصغر ندیم سید اور ان کی مرحومہ بیگم فرزانہ، ڈاکٹر اسلم ادیب اور نصرت کے علاوہ فرقان اور برجو کی جوڑیاں بھی فلکِ کج رفتار نے میرے وسیلے سے بنائیں۔ پُنوں کی اولاد ہونے کی نسبت سے سسّی کی بددعائیں تو پہلے ہی میرے نصیب میں لکھی گئی تھیں اب یہ جوڑیاں بنا کر میں نے اپنی عاقبت پوری طرح بگاڑلی ہے۔
عطا جونہی برجو اور فرقان کے گھر پہنچتے ہیں، برجو فوراً مجھے فون کر کے ان کی آمد سے مطلع کر دیتی ہیں اور میں بغیر کسی تاخیر کے ان کے ہاں پہنچ جاتا ہوں۔ ان کے سیلون (ترکی میں بیٹھک یا ڈرائینگ روم کو کہتے ہیں) میں خوب محفل جمتی ہے اور قہوے کے دور چلتے ہیں۔
عطأ الحق قاسمی ترک معاشرے کے مداح ہیں۔ بے شمار کالم اس معاشرے کی تعریف میں لکھ چکے ہیں۔ ترکوں کو بہت پسند کرتے ہیں اور ان کے حسن ، ان کی وضع قطع، چال ڈھال، لباس اور ان کی اچھی عادتوں اور مثبت سوچ کے شیدائی ہیں۔ انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے ڈاکٹر آسمان بیلن اور ڈاکٹر گلسرین ہالی جی کو اپنے خرچ پر پاکستان کی سیر کرا چکے ہیں۔ ڈاکٹر جلال صوئیدان کو انقرہ سے اور ڈاکٹر خلیل طوق آر کو استنبول سے ایک تقریب کے سلسلے میں بلوایا۔ دونوں نے مقالات پیش کیے اور عطا الحق قاسمی کی مہمان نوازی اور ضیافت کے لطف بھی اٹھائے۔ عطا جیسے وضع دار اور محبت کرنے والے لوگ ہی پاکستانیوں کا بھرم قائم کیے ہوئے ہیں۔
عطاؔ اچھے کھانوں کے شوقین ہیں لیکن بسیار خور نہیں ہیں۔ یہاں انقرہ میں ایک ریسٹورنٹ ’’رجب استالوکنتسی‘‘ (یعنی استاد رجب کا مطبخ) کے نام سے مشہور ہے، جہاں دُنبے کی پسلیوں میں بادام اور چلغوزے ملے چاول بھر کر اسے تندرو میں روسٹ کیا جاتا ہے۔ یہ ترکی کے مشرق کی طرف کا روایتی اور پسندیدہ کھانا ہے۔ اس کے علاوہ کئی قسم کے کباب، تکے، کڑاہی، قورمہ اور خاص طور پر سوجی کا مزیدار حلوہ اور جھاگ والی لسی چاندی کے کٹوروں میں پیش کی جاتی ہے۔ جب پہلی بار عطا ؔ میرے پاس آئے تو میں انھیں وہاں لے گیا۔ انھیں وہ چاول ، تکے ، حلوہ اور لسی اتنے پسند آئے کہ جب بھی آئے اس کی فرمائش کی۔ گویا دل پھر طواف کوئے لطافت کو جائے ہے۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ نیاز صاحب کی طرح مختلف قسم کے کھانے منگوا تو لیتے ہیں مگر خود بہت کم کھاتے ہیں البتہ دوستوں کو کھاتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ عطا کی عادت ہے کہ بس ایک حد تک کام و دہن کو لذت پہنچا کر فوراً ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔
عطا ؔ دل کا سخی اور فیاض انسان ہے۔ جب بھی آتا ہے لدا پھندا----دوستوں کے لیے تحفے تحائف لے کر آئے گا۔ میرے لیے ہمیشہ خوبصورت تحفے لاتے ہیں۔ منع کرتا ہوں کہ کیوں بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں مگر وہ نہیں مانتے اور مجھے زیر بار کرتے رہتے ہیں۔
پچھلے سال وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ساتھ عطأ الحق قاسمی بھی آئے۔ ان کا قیام ہلٹن ہوٹل انقرہ میں تھا جو میرے گھر کے بالکل قریب ہے۔ انھوں نے فون پر اپنی آمد کی اطلاع کر دی۔ میرے عزیز شاگرد اور سابقہ رفیق کار ڈاکٹر جلال صوئیدان کو بھی انھوں نے خبر کر دی تھی۔ چنانچہ وہ میرے پاس آگئے اور ہم دونوں مل کر ان کے پاس ہلٹن پہنچے۔ پھر ان کی خواہش پر انھیں رجب استاد کے ریسٹورنٹ لے گئے جہاں دنبے کی پسلیوں میں بھرا ہوا پلاؤ، سیخ کباب، حلوے اور لسی کے مزے اڑائے گئے۔ دوسرے روز انھیں میاں صاحب کے ساتھ یہاں کے ایک صنعتی شہر قیصری جانا تھا۔ میں انھیں ملنے کے لیے ہوٹل گیا تو وہ لابی میں بیٹھے میاں شہباز شریف کا انتظار کر رہے تھے۔ میاں صاحب تیار ہو کر اپنے کمرے سے نکلے اور لابی میں تشریف لائے۔ بو شرٹ پتلون میں بڑے سمارٹ لگ رہے تھے۔ عطاؔ نے میرا تعارف کرایا اور اس کے باوجود کہ انھوں نے میرا کچا چٹھا میاں صاحب کے سامنے کھول کر رکھ دیا کہ میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کا عاشق اور پیپلز پارٹی کا حامی ہوں، وہ نہایت محبت اور شفقت سے پیش آئے اور بتایا کہ وہ خود بھی بھٹو کی سحر انگیز شخصیت کے اسیر رہ چکے ہیں۔ پھر فرمایا کہ جب لاہور آؤں تو اُن سے مِلوں۔
عطا ؔ کی محفل میں بیٹھنے سے انسان کی عمرکا عرصہ بڑھ جاتا ہے، جتنی دیر ان کی صحبت میں بیٹھے رہیں گل و گلزار کا سا ماحول رہتا ہے۔ اُن کی خوش گفتاری، لطیفہ طرازی، جملہ سازی، فقرے بازی محفل میں قہقہوں کو جنم دیتی ہے۔ پھیپھڑوں کی ورزش بھی ہوتی ہے اور تازہ آکسیجن بھی ملتی ہے۔ یبوست اور کھنچاؤ تناؤ کے اس دور میں ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات حاصل زیست بن جاتے ہیں۔ انسان کو جینے کا حوصلہ ملتا ہے اور زندگی سے لگاؤ پیدا ہوتا ہے۔
دو سال پہلے پاکستان گیا تو انھوں نے مجھے ملتان سے بلوایا اور میرے اعزاز میں ایک خوب صورت محفل سجائی۔ الحمرا میں مجھے ترک میں فنون لطیفہ کی صورتِ حال پر بولنے کا حکم دیا۔ میرے عزیز شاگرد اصغر ندیم سید نقیب محفل بنے اور صدارت میرے محترم دوست ڈاکٹر سلیم اختر کی تھی۔سب سے پہلے قاسمی صاحب نے، پھر اصغر ندیم سید نے اور آخر میں ڈاکٹر سلیم اختر نے جس محبت اور الفت سے اور جن اچھے الفاظ میں میرا تعارف سامعین سے کرایا وہ میرے لیے اعزاز سے کم نہ تھا۔
اس سال جب میں اپنا صدارتی ایوارڈ لینے لاہور گیا تو سب سے پہلے قاسمی صاحب کے پاس الحمرا پہنچا۔ میرے ہم جماعت اور ہمدم دیرینہ ڈاکٹر محمد خان اشرف بھی میرے ساتھ تھے۔ انہی کے ہاں میں ٹھہرا ہوا تھا۔ خوب محفل جمی۔ مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی اور فخر محسوس ہوا کہ قاسمی صاحب کا رویہ اپنے عملے کے ساتھ اس قدر دوستانہ اور شفقت آمیز تھا کہ سب کے سب ان کے گرویدہ اور مداح دکھائی دیتے تھے اور یوں لگتا تھا کہ وہ سب ان کے فیملی ممبر ہیں اور ان سے خلوص دل سے پیار کرتے ہیں۔
دوپہر کو انھوں نے ایک خاص جگہ سے نہاری منگوائی اور اس کی تعریف کر کے اس اصرار سے کھلائی کہ من و سلویٰ کا سا مزہ آیا۔ پھر لذیز کافی کی چسکیوں کے ساتھ ان کی من بھاتی باتوں کا ذائقہ آج دو تین ماہ گزر جانے کے باوجود محسوس کرتا ہوں۔
عط�أالحق قاسمی کی شخصیت دل موہ لینے والی ہے۔ پھر اس شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ شروع شروع میں وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ صفِ اول کے ڈراما نگاروں میں ان کا شمارر ہا۔ ان کے لکھے ہوئے ٹی وی ڈرامے بے حد مقبول ہوئے۔ شاعر رنگین نوا بھی ہیں اور نہایت خوبصورت غزل کہتے ہیں۔ نہایت وقیع ادبی جریدے معاصر کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ لیکن عالمی سطح پر ان کی شہرت ایک بڑے کالم نگار اور مزاح نگار کی ہے۔ اُن کے کالم خواہ ان کی نوعیت سیاسی ہو، معاشرتی ہو یا ادبی اور صحافتی، طنزو مزاح اور شگفتہ ظرافت کا اعلیٰ نمونہ ہوتے ہیں۔ وہ کسی کا دل نہیں دکھاتے بلکہ ان کے طنز میں بھی ہمدردی اور اصلاح کا پہلو چھپا ہوتا ہے۔ جتنی دلچسپی اور شوق سے ان کے کالم پڑھے جاتے ہیں اتنے شاید ہی کسی اور کے پڑھے جاتے ہوں، پھر ان کی ایک اضافی خوبی یہ کہ وہ اعلیٰ درجے کے منتظم ہیں۔ ان کی سفارت کاری کا ذکر میں کر چکا ہوں۔ جب سے آرٹ کونسل کی سربراہی سنبھالی ہے اس کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ الحمرا اتنا فعال کبھی نہ تھا جتنا ان کی سربراہی میں ہوا ہے۔ بہترین تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس وقت فنونِ لطیفہ کی ترویج میں سب سے بڑھ کر یہ ادارہ فعال ہے اور اس لیے فعال ہے کہ اس کے سربراہ عطأ الحق قاسمی ہیں۔
مجھے نہیں معلوم عطاؔ کے آباؤ اجداد کس سر زمین کے باسی تھے مگر عطا خالصتاً کشمیری الاصل دکھائی دیتے ہیں (عین ممکن ہے ہوں بھی) ۔ ترکوں کی طرح کی سُرخ و سفید رنگت، گلابی شرابی آنکھیں، نکلتا ہوا قد جو گھیر کی وجہ سے دب سا گیا ہے۔ خوش جمال،خوش خصال، خوش پوش، خوش گفتار، خوش مزاج، خود بھی حسین اور دل بھی حسین ہے۔ عمر کے مطابق بڑھاپا ان پر طاری نہیں ہوا۔ آج بھی جوانوں کی طرح چونچال ہیں۔ مردانہ وجاہت ابھی تک قائم و دائم ہے۔
تقریبات اور محفلوں میں اُن کے پڑھے ہوئے مضامین مزاح و ظرافت ، شگفتگی، نکتہ سنجی اور دلچسپی کی عمدہ مثالیں ہیں۔ ان کی شگفتہ کلامی محفل کو اس طرح لُوٹ لیتی ہے جس طرح کوئی شاعر رنگین نوا مشاعرے کو لُوٹ لیتا ہے۔ ادبی، تنقیدی اور تعارفی محفلوں میں، جو عموماً خشک اور بیزار کن ہوتی ہیں، نثری مضامین پڑھ کر بھی محفل کو مشاعرے جیسا مزہ عطا کرنے والوں میں عطا الحق قاسمی اور ڈاکٹر انوار احمد پیش پیش ہیں۔ وہ ایسے ایسے نکتے نکالتے ہیں کہ سامعین ہمہ تن متوجہ ہو جاتے ہیں اور خوب داد دیتے ہیں۔
عطأ الحق قاسمی ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے مرحوم والد محترم ملائے مسجد تھے لیکن میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ روایتی مولویوں کی طرح انتہا پسند اور تنگ نظر ہرگز نہیں تھے بلکہ وہ ایک روا دار، بے تعصب اور ترک مولویوں جیسی خُو رکھنے والے لبرل مولوی تھے۔ غالباً وہی روا داری، بے تعصبی، آزاد منشی عطا کو وراثت میں ملی ہے۔
اپنے ایک انٹرویو میں عطا نے کہا تھا کہ وہ سیکولر نظام کے حامی ہیں۔ ترکی اور ترکوں کے لیے میری طرح ان کے دل میں جو پیار ہے اس کا ایک سبب شاید یہ بھی ہو کہ ترک کا معاشرہ سیکولر اور لبرل ہے اور میرے خیال میں اس وقت ترکی مسلمان ممالک کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔
عطا کوئی انقلابی نہیں اور نہ ہی اس میں انقلاب برپا کرنے کا اضطراب ہے۔ وہ نہ تو ناصح مشفق ہے اور نہ سیاسی جوش و جنوں پیدا کرنے والا سرگرم عمل طراز۔ وہ تو محض جدید تر ذہن رکھنے والا ایک نارمل انسان ہے۔ با ضمیر، امن پسند، صلح جُو----اس کی گھریلو زندگی بھی پُرسکون ہے اور معاشرتی زندگی بھی۔ وہ تو شیفتگی اور شگفتگی کے ساتھ معاشرے کی بوالعجبیوں، خود غرضیوں، مطلب پرستیوں کو بے نقاب کرتا اور مذاق مذاق میں ہمارے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگاتا ہے ہمیں شرمندہ کرنے کے لیے نہیں، صرف احساس دلانے کی خاطر تاکہ ہم بھی معاشرے کی بھلائی کی خاطر اپنا حصہ بٹا سکیں۔
اخبار اردو ملا۔ ایک سے ایک بڑھ کر دلچسپ تحریر۔ مگر سچ پوچھیے تو سب سے زیادہ لطف عارفہ شمسہ کی ’’ریڈیو کہانی‘‘ پڑھ کر آیا۔ میری طرف سے بھی چھوٹی آپا سے کہلادیجیے کہ وہ اس خوبصورت داستان کو اپنے ہاتھوں سے لکھنا شروع کریں۔ بڑے معرکے کی چیز ہوگی۔ فلم ’’روحی‘‘ ۱۹۵۴ء میں نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی۔ فلم تو زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی مگر اس کے گانے ۱۹۶۰ء کے بعد تک سنے جاتے رہے۔ میرے پاس بھی اس کے چار گانوں کے ’’توے‘‘ موجود تھے مگر مشرقی پاکستان سے واپس آتے ہوئے راستے میں جہاز والوں کے ہاتھوں ٹوٹ گئے۔ عارفہ شمسہ صاحبہ کو ایک کے سوا باقی کسی گانے کے بول تک یاد نہیں۔ ایک خاتون کی آواز میں تین گانے مجھے یاد ہیں۔ پہلا تھا۔ ’’کوئی کیسے تمہیں سمجھائے دل کی لگی تم کیا جانو‘‘۔ دوسرا انہی کی آواز میں تھا۔ بول تھے ’’مانو بات ہماری مانو پیا تم بن ناہیں چین رے‘‘ تیسرا ’’خوب سنا ری میں راتوں کہروا‘‘ ایک میل سنگر کی آواز میں نظم نما گانا تھا۔ اچھی طرح سے یاد نہیں غالباً عنایت حسین بھٹی نے گایا تھا۔ بول تھے ’’میری دنیا میں انقلاب آیا۔اس طرح کوئی بے نقاب آیا‘‘۔ اُس زمانے میں ریڈیو پر فقط فلم کا نام اور گانے کے بول سنائے جاتے تھے۔ کسی گلوکارہ ، گلو کار یا شاعر کا نام نہیں اناؤ نس ہوتا تھا۔ بعد میں ان لوگوں نے شور مچایا تو تفصیل بھی دی جانے لگی۔
ہاں جہاں تک ’’روحی‘‘ کے ’’بین‘‘ (Ban) ہونے کا تعلق ہے اس کی صرف ایک وجہ عارفہ صاحبہ نے تحریر کی ہے کہ ہمالیہ والا اور ڈبلیو زیڈ احمد میں جھگڑا ہو گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ احمد صاحب نے کو اپریٹو بینک سے فلم کے لیے جو قرضہ لیا تھا وہ ادا نہ کر سکے چنانچہ بینک نے فلم پر قبضہ کرلیا اور اسے ڈبوں میں بند کر دیا۔
ویسے بھی جب یہ فلم تیار ہو کر سنسر بورڈ کے سامنے پیش ہوئی تو بورڈ نے اس پر بہت اعتراضات کیے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے عوام کے لیے یہ تھیم بالکل ناقابل قبول تھی کہ ایک منکوحہ امیر زادی کو خاوند کے ہوتے ہوئے دوسرے نوجوان سے عشق کرتے دکھایا جائے۔ چنانچہ اس میں بہت قطع و برید کے بعد اس کو نمائش کی اجازت دی گئی۔ حالانکہ طبقاتی نظام نے ہمارے معاشرے میں جن برائیوں کو جنم دیاہے وہ آدھی صدی پہلے احمد صاحب نے فلم میں دکھا دیں تھیں۔ یہ فلم ایک اکیڈیمی کی حیثیت رکھتی تھی مگر بد قسمتی سے اسے دیکھنا ہمارے نصیب میں نہیں تھا۔ ڈبلیو زیڈاحمد انتہائی ذہین اور بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے۔ مولانا صلاح الدین احمد کے بھائی تھے غالباً ان کی بیگم نینا یوپی کے بہت اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ شکیل صاحب کی والدہ کی کزن تھیں۔ اُن کی بیٹی عافیہ کوئین میری کالج میں میری شاگرد تھی۔ وہ بھی بہت مہذب لڑکی تھی۔
خدا جانے یہ سب کچھ کیوں لکھ رہی ہوں مگر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ ہماری نسل کے بعد کوئی یہ باتیں بتانے والا بھی نہیں ہوگا۔
شبنم شکیل، اسلام آباد
O
میں آنجناب کا دل کی گہرائیوں سے ممنون و مشکور ہوں کہ آپ صاحبان علم و دانش اس علمی ادارہ کے لیے اپنا مؤقر اخبار اردو ارسال فرماتے ہیں۔ اخبار اردو میں جہاں جدت اور دلکشی ہے وہاں ایک تشنگی باقی بھی ہے۔ وہ یہ کہ گوشۂ ’’کتاب میلہ‘‘ اور ’’رسائل پر تبصرہ‘‘ میں کتاب /جرائد کے ملنے کا پتہ درج نہیں ہوتا کہ یہ کتاب کہاں دستیاب ہے۔ تبصرے کے آخر میں ناشر کاپتہ درج ہونا چاہیے تاکہ میرے جیسے دور دراز کے لوگوں کی ان کتابوں، رسائل تک رسائی ہو سکے۔ قوی امید ہے کہ آپ اس طرف توجہ فرمائیں گے۔
فضل اللہ مہیسر
مولوی ایم اسماعیل میموریل لائبریری ، سندھ