کتاب میلہ

 

تاریخِ ادبِ اردو (جلد چہارم)
از : ڈاکٹر جمیل جالبی
مجلس ترقیِ ادب، لاہور ۔۲۰۱۲ء
طویل انتظار کے بعد تاریخِ ادبِ اردو کی جلد چہارم منظر عام پر آچکی ہے۔ ادب کی اس تاریخ کا موازنہ دیگر بڑی زبانوں میں لکھی گئی تواریخ ادب سے کیا جاسکتا ہے۔ اردو زبان و ادب کی ابتدا کے بارے میں کچھ ابہام موجود ہیں اور بہت سی گمشدہ کڑیاں بھی ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی ان مقامات سے ابتدائی جلدوں میں احسن طریقے سے گزرے ہیں۔ اب تک شائع شدہ چار جلدوں میں اردو ادب کی انیسویں صدی تک کی مستند ادبی تاریخ ہمارے سامنے موجود ہے۔ تمام جلدوں کی ایک بڑی خوبی اصل مآخذ سے رجوع ہے۔
جلد چہارم کا آغاز ۱۹ ویں صدی کے نصف آخر سے ہوتا ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں کہ جلد سوم کی ’’تمہید‘‘ پڑھ کر پھر جلد چہارم کی ’’تمہید‘‘ پڑھی جائے تاکہ انیسویں صدی کی پوری تصویر اجاگر ہو سکے ، یعنی ڈاکٹر صاحب پورا اہتمام کرتے ہیں کہ قاری کسی قسم کے ابہام کا شکار نہ ہو۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہماری ادبی تاریخ بہت حد تک واضح ہے اور اردو ادب کے حوالے سے یہ بہت تابناک دور شمار ہوتا ہے۔ ۱۶۰۰ سے زائد صفحات کی اس جلد میں غالب اور اس کے ہم عصر شعرا، اردو مرثیہ، اردو عناصر خمسہ، اردو داستانوں ، تذکروں وار نعت گوئی کے عنوانات باندھے گئے ہیں۔
راجپوت از: عبید اللہ بیگ
نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد۔ ۲۰۱۰ء
’’راجپوت‘‘ حقیقی واقعات پر مبنی ناول ہے۔ یہ واقعات ۱۹۴۵ء میں پیش آئے تھے۔ قیام پاکستان کے دس سال بعد ان کو قلم بند کیا گیا تاکہ برصغیر کی تاریخ کو محفوظ کیا جاسکے اور عبید اللہ بیگ نے انہیں ناول کے روپ میں پیش کیا۔ ۱۹۴۵ء میں آزاد ہندوستان کے امکانات واضح ہو چکے تھے لیکن برصغیر میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود تھا جو آزادی ملنے کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان تھا۔ یہ طبقہ برصغیر کی پانچ سو سے زیادہ ریاستوں کے حکمران کا تھا۔ جن میں زیادہ تعداد راجپوتوں کی تھی۔ان کا خیال تھا کہ انگریز کے بعد برصغیر پر جو گروہ برسراقتدار آئے گا وہ یہاں کے عوام کا خیرخواہ نہیں ہو گا اور ساتھ ہی ہندوستان کی قدیم تہذیب بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس لیے آزاد ہندوستان میں راجپوتوں کی حکومت قائم کرنے کے لیے ایک خفیہ تحریک شروع کی۔یہ داستان اسی خفیہ تحریک اور اس کی کارروائیوں کے بعض اہم واقعات کی روداد پر مشتمل ہے اور بعض اہم سوالوں کے جوابات بھی فراہم کرتی ہے۔ اگرچہ بیان کردہ واقعات سچے ہیں لیکن ضرورت کے تحت اہم کرداروں اور واقعات کے نام تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔ناول سپنس سے بھرپور ہے۔ محیرالعقول واقعات رونما ہوتے ہیں، جن کی گتھیاں آخر میں سلجھتی ہیں۔ مدتوں تک کرنل کیانی، عیسیٰ خاں اور آغا صادق کے کردار ذہن میں منڈلاتے رہتے ہیں۔
مبصر: صفدر رشید
کتابیں اپنے آباء کی از:رضا علی عابدی
واجد علی شاہ کا شعر ہے ؂
بچپن سے ان کے دامِ سخن کا اسیر ہوں
میں کمسنی سے عاشق نظم دبیر ہوں
وہ واجد علی شاہ تھے جو کمسنی سے دبیر کی شاعری کے عاشق تھے اور ہم کمسنی سے نہ سہی لڑکپن سے رضا علی عابدی کی آواز اور نثر کے قتیل ہیں۔
یہ غالباً ۱۹۷۵ء یا ۱۹۷۶ء کی بات ہے جب ہم نے بی بی سی سے ایک شب یونہی اتفاقاً رضا علی عابدی کا پروگرام کتب خانہ سن لیا ، پروگرام ہر ہفتے باقاعدگی سے نشر ہوتا تھا اور اس میں انڈیا آفس لائبریری یا برٹش میوزیم میں محفوظ اُردو کی ان کتابوں کا تعارف کروایا جاتا تھا جو انیسویں صدی میں ہندوستان میں شائع ہوئی تھیں اور اب جن میں سے اکثر کیا بیشتر کا کوئی نسخہ ہندوستان کی کسی لائبریری میں محفوظ نہیں ۔
کتابوں سے عشق ہمیں ابتداء سے تھا ۔ اس پروگرام نے ہمیں ایسا اسیر کیا کہ ہر ہفتے ہم اس مقررہ دن اور مقررہ وقت پر ریڈیو کے سامنے موجود ہوتے تھے ۔ نہ کمپیوٹر تھا ، نہ انٹرنیٹ ، نہ ریکارڈنگ کی کوئی سہولت اور نہ یوٹیوب کہ اگر کوئی پروگرام سننے سے رہ جائے تو اسے دوبارہ سن لیا جائے۔ اس وقت تو پروگرام سننے کے لیے اس کے نشر ہونے کے وقت ریڈیو یا ٹی وی کے سامنے حاضری ضروری ہوتی تھی ۔ جبھی تو کہا جاتا ہے کہ جب ٹیلی ویژن سے خدا کی بستی اور وارث یا ریڈیو پاکستان سے اسٹوڈیو نمبر ۹ نشر ہوتا تھا تو سڑکیں سنسان ہوجاتی تھیں۔
خیر ، کتب خانہ سننے کے لیے سڑکیں تو سنسان نہیں ہوتی تھیں ، لیکن رضا علی عابدی کا ایک دیوانہ ، اپنی ساری آوارگی چھوڑ کر مقررہ دن اور مقررہ وقت گھر ضرور وقت پر پہنچ جاتا تھا اور ریڈیو کے سامنے حاضر ہوجاتا تھا۔
رضا علی عابدی کا کتب خانہ کوئی ڈھائی تین سال جاری رہا ۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ہم اس سلسلے کے تمام پروگرام تو نہیں سن سکے تھے مگر اب جب ان تمام پروگراموں کے مسودے کتابی شکل میں سامنے آئے ہیں تو لگتا ہے کہ پچھلا وقت واپس لوٹ آیا ہے ، رضا علی عابدی کی آواز کان میں گونج رہی ہے اور سبھی مسودے سنے سنے سے لگ رہے ہیں۔
ہمیں یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ عابدی صاحب کا یہی پروگرام تھا جس سے ہمیں مطالعے کی صحیح معنوں میں چٹیک لگی۔
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی میں
یہ کتب خانہ اب’ کتابیں اپنے آباء کی‘ کے نام سے ایک جہان حیرت آباد کیے ، آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
مبصر: عقیل عباس جعفری
لا لۂ طور مترجم : حکیم سروسہارنپوری
اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۲۰۱۰ء
اردو کے نام ور شاعر، مذہبی سکالر، دانش ور، مترجم اور نقاد حکیم سروسہارنپوری کی تازہ کتاب لالہء طور پیش نظر ہے۔ اس کتاب میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے فارسی شعری مجموعے پیام مشرق کی فارسی رباعیات کا منظوم اردو ترجمہ شامل ہے۔ یہ ترجمہ فارسی متن کے ساتھ فراہم کیا گیا ہے جس سے کتاب کی افادیت دو چند ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ پیام مشرق کی رباعیات " لالہء طور " کے نام سے ہی مجموعے میں شامل ہیں جب کہ حکیم صاحب نے پیام مشرق کا مکمل منظوم اردو ترجمہ کر رکھا ہے جس میں سے ابھی صرف لالہء طور ہی چھپ کر منظر عام پر آیا ہے۔ لالہء طور کی رباعیات کا اردو ترجمہ ۱۹۶۲ء میں شروع ہوا اور ۱۹۶۸ء میں مکمل ہوا۔ یہ ترجمہ روزنامہ تعمیر اور روزنامہ نوائے وقت سمیت متعدد اخبارات میں چھپتا رہا ہے اور اہل نظر سے داد پا چکا ہے۔ ۱۶۳ رباعیات کے منظوم اردو ترجمے کے بارے میں نام ور شاعر اور دانش ور افتخار عارف نے لکھا ہے:
" لالہء طور " کے عنوان سے علامہ محمد اقبالؒ کی ۱۶۳ رباعیوں کا منظوم اردو ترجمہ حکیم سہارنپوری صاحب نے جس ہنروری کے ساتھ کیا ہے وہ آپ اپنی مثال ہے۔ آپ ان رباعیوں کو بابا طاہر عریاں کی دو بیتوں کے ذیل میں رکھنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا ۔ منظوم ترجمے میں کہیں کہیں رباعی کی بحر استعمال کی ہے اور کہیں اظہار مطلب کے لیے دوسرے عروضی اوزان کا بھی استعمال کیا ہے۔ ترجمے کے لیے دونوں زبانوں پر دسترس کی شرط اپنی جگہ، مگر میں دو ایک اور عناصر کو بھی بہت اہمیت دیتا ہوں اور وہ ہیں ذوق شعر و مذاق آہنگ۔ صرف زبانوں کا جاننا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اعلیٰ درجے کی تفہیم متن اور شعور نغمگی بھی لازم و واجب ٹھہرتے ہیں ۔ مسلم دنیا کو درپیش مسائل سے حد درجے کی وابستگی اور درد مندی کے ساتھ فکری اور جمالیاتی سطح پر اس کے مسائل کا بیان اقبال کو بیسویں صدی میں جس عظیم مرتبے پر فائز کرتا ہے اس کی نظیر ہماری ادبی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ مترجم کے لیے کسی حد تک اس فکر کے سرچشموں سے تخلیقی سطح کا تعلق قائم ہو سکے تو ترجمانی میں آسانی ہوتی ہے کہ ترجمہ بھی کسی سطح پر اسی وابستگی اور درد مندی کا مطالبہ کرتا ہے جو اصل شعر کا اختصاص ہے۔ مترجم کی کامیابی کا راز اپنی دینی ، تہذیبی اور فنی روایت سے وابستگی اور تخلیقی دسترس میں پنہاں ہے‘‘۔
حکیم سید محمد محمود احمد سرو سہارنپوری کی شخصیت کی اتنی زیادہ جہتیں ہیں کہ انہیں شخص نہیں بلکہ ادارہ سمجھنا چاہیے۔ وہ اپنے کردار و عمل سے قرون اولیٰ کے مسلمان بزرگوں کی مثال پیش کرتے ہیں۔ علم و عمل کا ایک حسین امتزاج ان کی شخصیت کا خاص امتیاز ہے۔ ان کی زیر نظر کتاب اقبالیاتی ادب میں بے حد سنجیدہ علمی اضافہ ہے جو عہد حاضر میں ایک اہم واقعے کی حیثیت سے تادیر یاد رکھا جائے گا۔
جدید ادبی تناظر از : ڈاکٹر رشید امجد
الفتح پبلی کیشنز ، راولپنڈی ۔۲۰۱۲ء
نام ور افسانہ نگار ، محقق ، نقاد ، استاد اور مدیر ڈاکٹر رشید امجد کے تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب " جدید ادبی تناظر " چھپ گئی ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر رشید امجد کے سترہ مضامین شامل ہیں۔ عنوانات میں غالب: جدید اُردو ادب کا پیش رو ، راشد کے فکری رویے ، راشد کا تصورِ خدا ، راشد (اجتہاد، ارتقا اور مغالطے )، ن م راشد اور میرا جی: ایک تقابل ، عصری آگاہی اور اردو افسانہ ، اردو افسانہ: ایک تاریخی تناظر ، جدیدیت : ایک مطالعہ ، پاکستان کی اردو شاعرات ، وزیر آغا کی انشائیہ نگاری ، فیض کا علامتی نظام ، پریم چند لاہوری: منشی پریم چند کا ایک ہم عصر، پریم چند لاہور ی (۲)، آزاد کا تذکرۂ علماء ، وزیر آغا: چند باتیں ، چند یادیں، ایوب میرزا: اب کہ ٹھہرے اجنبی اور محمد منشا یاد : چند یادیں، چند باتیں شامل ہیں۔
غالب ، فیض ، راشد ، وزیر آغا ، پریم چند لاہوری ، آزاد ، محمد منشا یاد اور ایوب مرزا سمیت متعدد شخصیات ان مضامین میں زیر بحث ہیں۔ بعض کی شخصی تصویر کشی کی گئی ہے اور بعض کے آثار کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔ ڈاکٹر رشید امجد کی تنقید اور تحقیق ، رائج اسلوب سے اس لیے ہٹ کر ہے کہ وہ دعوے نہیں کرتے اور اپنی رائے بغیر کسی لگی لپٹی کے بیان کرتے ہیں تاہم مروت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ۔
پریم چند لاہوری پر دو مختصر مگر جامع تحقیقی مضامین اور آزاد کا تذکرۂ علما ایسے مضامین ہیں جن سے ڈاکٹر رشید امجد صاحب کے تحقیق سے گہرے شغف کا پتا چلتا ہے۔ جو ایک استاد کی حیثیت سے ان کی ذات کا لازمی حصہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے تنقیدی مضامین کے عنوانات میں بھی کوئی نہ کوئی وضاحت ضرور موجود ہوتی ہے اور وہ سیدھے سبھاؤ بات کہنے کی روایت کے علم بردار ہیں حالانکہ اردو افسانے کی تاریخ میں ڈاکٹر رشید امجدکا نام علامت سے جڑا ہوا ہے اور ان کی یہ شناخت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب معاشرے پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اپنے تجربات و مشاہدات کے حوالوں سے ایک مثالی معاشرے کے خواب دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر رشید امجد صاحب نظر تنقید نگار اور محقق ہیں۔ جدید ادبی تناظر ڈاکٹر صاحب کا تازہ تنقیدی مجموعہ ہے ۔ جو قارئین اردو ادب کے لیے بیش بہا تحفے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے الفتح پبلی کیشنز ، راولپنڈی نے شائع کیا ہے۔
مبصر: ڈاکٹر راشد حمید
’آفتابِ آگہی کا سلسلہ‘ از :گوہرؔ ملسیانی
رنگِ ادب پبلی کیشنز ، کراچی۔ ۲۰۱۲ء
کتاب کاانتساب پروفیسر ڈاکٹر عاصیؔ کرنالی مرحوم کے نام ہے۔ گوہر ملسیانی (میاں طفیل محمد) نہ صرف شاعر ہیں بلکہ وہ ایک کہنہ مشق معلم بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شعری مجموعوں کے علاوہ وہ بچوں کے لیے چھ کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ’انگریزی اُردو بول چال‘ اور’ اقبال علامہ اقبال کیسے بنے‘ جیسی کتاب بھی لکھی راقم کے علاوہ ڈاکٹر شفیق احمد ، ڈاکٹر قاسم جلال نے ان کے اس مجموعے کے بارے میں توصیفی آراء بھی دی ہیں۔
جب ہم اس کی غزلوں کو پڑھتے ہیں تو اس میں آگہی کے ساتھ ساتھ عشق وجنوں کا سلسلہ بھی دراز نظر آتا ہے۔ ۔۔گوہر ملسیانی نے بھی اپنی غزلوں میں حقیقت وحسیت، فکر وتخیل اور آگہی درجنوں کے پیچ درپیچ سلسلوں کو ہی بیان کیا ہے۔۔گوہر ملسیانی کی غزلوں کو بڑی آسانی سے وارداتی غزلیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کی غز ل کے اشعار میں عشق وجنوں ، جذب وکیف اور من وتو کے مضامین سلسلہ در سلسلہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی صوفیانہ وارادت ، ذاتی وحقیقی معلوم ہوتی ہے۔ وہ وحدت الوجود کی فکر کا داعی ہے جو وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کا جلوہ دیکھتا ہے اور ہمہ اوست کی تصدیق کرتا نظر آتاہے اور وہ اس ہنر سے اپنے زخموں کا مداوا کرتا ہے۔ شب تاریک میں مسکراتی چاندی میں دلِ مضطرکے زخموں کو جگ مگ دیکھتا ہے اور خوابِ دل کش کی تعبیریں تلاش کرتا ہے۔ اس کا عشق ، تہذیب رسمِ عاشقی کی ان قدروں کا پاسبان ہے جو اہلِ دل کا شیوہ رہا ہے۔ اس کے قلب وقدم ہر لحظہ حالتِ رقص میں رہتے ہیں اور دوری اور ہجر کے ہوتے ہوئے بھی قربِ وصال کے مزے لیتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔گوہر ملسیانی کی غزل کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ انسان اور انسانیت سے محبت کے مضمون کو پہلو بد ل بدل کے بیان کرتا ہے۔ بیسویں صدی کے نصف سے کچھ ادھر اور کچھ ادھر ادب میں انسان دوستی کا بہت ذکر رہا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ دو عالمی جنگوں نے دنیا کو جو زخم دیے ان کے نتیجے میں انسانیت سسکتی دکھائی دی۔ اس پر طرہ یہ ہوا کہ مشینوں کی گڑگڑاہٹ اور سرمائے کے ارتکاز نے سرمایہ دار اور مزدور طبقے کو جنم دیا۔ لوہے کی ناف سے پیدا ہونے والی خوش بونے جہاں سرمایہ دار کی زندگی میں مہک پیدا کردی وہاں مزدور کی بے بسی ، غربت اور افلاس نے اس سے خون تھکوایا۔ احساسِ مروت کو آلات نے کچل ڈالا۔ ایسے میں شاعر ایک ہیومنسٹ کے طور پر نمودار ہوا جو محبت، مروت اور وفا کے قط کی تصویریں بنانے میں مصروف ہوگیا۔
جب ہم اس کی غزلوں کو پڑھتے ہیں اس مجموعے کی سرسری خواندگی کے لیے جو اشعار ان کے فکر وفن کے نمائندہ محسوس ہوئے وہ آپ کے لئے بھی نوٹ کرلیے گئے ۔ ملاحظہ ہوں :
عجب تم نے تماشا کردیا ہے
گلوں کا رنگ گہرا کردیا ہے

جہاں تھا تتلیوں کا رقص ہر سو
اُسی گلشن کو صحرا کر دیا ہے

کھو گئے شہرِ پندار میں اہلِ فن
بے عمل رہ گئے ، بے ثمر رہ گئے

وہاں جا کے ڈوبے تھے اکثر سفینے
جہاں اب دریا بھی گہرا نہیں تھا

قول سادہ تھا مگر وہ یاد آتا بھی نہیں
اس لیے ہوں مطمئن وہ بھول جاتا بھی نہیں

کھنڈر بن گیا ہے مکاں آرزو کا
یہ بغداد کا ایک حصہ بنا ہے

مرے بس میں بھلا دینا نہیں ہے
مگر خط بھی جلا دینا نہیں ہے

شجر امید کا تو بے ثمر تھا
مگر کانٹوں پہ جوبن آرہا تھا
مبصر : ڈاکٹر نجیب جمال
برف کی کشتی از: پروفیسر بشیر احمد بشرؔ
اظہار سنز ، لاہور۔ ۲۰۱۱ء
بشیر احمد بشر ؔ بھکر کے ریگ زاروں میں علم وفن کے موتی بکھیرتے رہے ۔ وہ وہاں کے پوسٹ گریجویٹ کالج کے پرنسپل رہے اور ایک زمانہ ان کا شاگرد اور مداح ہے۔ عبدالوہاب بشر کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ انھوں نے اس مجموعے کو مرتب کرلیا ہے۔ ان کے چند منتخب اشعار ملاحظہ ہوں ۔ سماجی عدل کا خواب دیکھنے والا شاعر غالب،اقبال اور فیض کے قبیلے کا شاعر محسوس ہوتا ہے
رنگ کی صورت نہ چہرے پر بکھرنا چاہیے
درد خوشبو کی طرح دل میں اترنا چاہیے

برف کی کشتی میں ہوں اور حکم ہے اُس کا بشرؔ
آگ کے دریاؤں سے مجھ کو گزرنا چاہیے

اب چٹائی سے بھی کم ذات ہے تختِ قیصر
اب فقیروں کی طرح تاجِ شہاں بولتا ہے

کتنا دشوار ہے یوسف سی امانت رکھنا
قافلہ کوئی بھی گزرے تو کنواں بولتا ہے

جہاں بھی آدمی سے دیوتا ٹکرانے لگتے ہیں
قسم اللہ کی میں آدمی کا ساتھ دیتا ہوں

سوزنِ فکر ہے بے چشم ، پشیماں روحیں
طالبِ بخیہ گری ، چاک گریباں روحیں

جو کچھ بھی ہے ، ایک ہی کچھ ہے ! کیونکر ہو انکار میاں
عرش پہ کوئی پائیل باجے دل میں ہے جھنکار میاں

مذہب ، دین شریعت ، ساری اچھی باتیں ہیں لیکن
دنیا کی ہے اصل حقیقت تیرا میرا پیار میاں

وقت کی کون سی کروٹ ہے کہ سیلاب نہیں
لیکن اکِ دشتِ تمنا ہے کہ سیراب نہیں

فخر سے لاش اٹھا ، رستمِ شمشیر بکف
باعثِ ننگ ترے واسطے سہراب نہیں

بات تو ہم گنہگاروں کی سن لیتا کبھی
وعظ ہم نے تو ترے دن رات مولٰنا سنے

ہے شعر گوئی پسِ لفظ جھانکنے کا عمل
اگرچہ لفظ ہی صورت گرِ معانی ہے

ہر ایک دور کے کردار مختلف ہیں بشرؔ
ہر ایک دور مگر ایک ہی کہانی ہے

ترے کرم سے ہی ساری علالتوں کا نزول
ترے مطب سے ہی ساری دوائیں آتی ہیں
ادا اللہ کا حقِ نیابت کر نہیں سکتے
جو ظالم کے لیے برپا قیامت کر نہیں سکتے

وہ جن کا ماچسوں کے کھیل ہی سے دل بہلتا ہو
وہ اپنے گھر کے جلنے کی شکایت کرنہیں سکتے

وضو کرنا جنھیں آتا نہیں اشکوں کے پانی سے
ترے معصوم چہرے کی تلاوت کر نہیں سکتے

ہاری میرا راہ نما ہے ، رہبر ہے مزدور مرا
ہر محنت کش ہاتھ کے اوپر لکھا ہے منشور مرا

میں تو نچلے لوگوں ہی کی عظمت کے گن گاؤں گا
ہے تو! ہو اونچے لوگوں کو ہونا نامنظور مرا

میں ہوں اس تقسیم پہ راضی اے جنت کے متوالو
سب ملاؤں کو تم لے لو ، لیکن ہے منصور مرا

کچھ نمازی بھی کیجیے پیدا
ایک مسجد اگر بنائی ہے

بمباری و خود سوزی و دہشت کا تسلسل
غاروں کے زمانے میں پلٹنے کے لیے ہے

آئے ہیں قصرِ جہانگیر گرانے کے لیے
ہم نہیں عدل کی زنجیر ہلانے والے

میرے منصور انالحق کی صدا زندہ ہے
مر گئے ہیں تجھے سولی پہ چڑھانے والے
بن باس کا جھوٹ از خلیل مامون
افلاک پبلی کیشنز گلبرکہ ، انڈیا۔ ۲۰۱۱ء
خلیل الرحمن مامون اُردو کے منفرد شاعر ہیں ، وہ کرناٹک اُردو اکادمی بنگلور کے چےئرمین اور روزنامہ ’ سالار‘ بنگلور کے معاون مدیر ہیں ۔ ان کا شعری مجموعہ ’ بن باس کا جھوٹ‘ نہ صرف اپنے عنوان کے لحاظ سے چونکاتا اور بن باس سے وابستہ رومانوی اور وجدانی تلازمات کو مسترد کرتا دکھائی دیتا ہے بلکہ اپنے انتساب ’ انا ہزارے کے نام ‘ سے بھی اک عجب ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔
اس کی پہلی حمدیہ نظم ہی اپنے قاری کو مبہوت کردیتی ہے جو بلا شبہ کسی عازم حج کے ’ لبیک اللھم لبیک ‘ کے ورد کو جلو میں لیے ، ’میں آرہا ہوں‘ کا عنوان رکھتی ہے۔ اس کے چند حصے اور چند دیگر نظموں کے کچھ ٹکڑے دیکھئے ۔غزلوں اور قطعات میں سے پیش کرنے والی مثالیں نہیں ملیں کہ اس حوالے سے وہ کمزور شاعر محسوس ہوتے ہیں اور خیال آتا ہے کہ نثری نظم نے اس طاقت ور شاعری کو محفوظ کرلیا ہے ، جسے پابند شاعری بحسن وخوبی قبول کرنے سے گریزاں تھی ۔
چند اشعار ملاحظہ ہوں :
’ میں آرہا ہوں‘
میں آرہا ہوں
میں آرہا ہوں
میں آرہا ہوں اے خدا
میرا انتظار کرنا میں آرہا ہوں اے خدا
میں آرہا ہوں
تیرے شہر کی بڑی بڑی عمارتیں دیکھنے کے لیے
تیری چمچماتی سڑکوں کا لطف لینے کے لیے
تیرے شہر کے انواع واقسام کے
کھانوں کی لذت سے آشنا ہونے کے لیے
تیرے سوق میں جگمگاتے سونے کے
زیورات خریدنے کے لیے
لیکن یہ سب کام میں بعد میں کروں گا
پہلے میں تیرے گھر کی زیارت کروں گا
جو سیاہ مخمل پر زردوزی سے
بہت حسین نظر آتا ہے
تیرے دروازہ پر نظر پڑنے سے
پہلے میں دل میں نیت کرلوں گا کہ
تو مجھے دولت وزر سے مالا مالا کردے
اس سے پہلے میں تجھ پر ہرگز نظر نہیں ڈالوں گا
تیرے گھر کی سنگ مرمر کی فرش پر
چلتے ہوئے جنت کی ٹھنڈک کا اندازہ ہوتا ہے
مانا کہ آج حجاج زیادہ
اور مسلمان کم ہوگئے ہیں
ماناکہ تو ہر جگہ ہے
صرف یہیں نہیں
لیکن یہاں جو بات ہے وہ کہیں نہیں
یہاں کی چکا چوند یہاں کے سوق
یہاں کے مشروبات
یہاں کے کھانے
وہ اور کہاں ملتے ہیں
اور سب سے زیادہ
وہ سکون کا احساس کہ میں تمہارے گھر گیا تھا
وہ اطمینان کہ جنت میں ہونے کا احساس
یہیں پورا ہوگیا
ایسی جنت کہ جس میں بار بار جایا جاسکتا ہے
اور واپس دنیا میں آیا جاسکتا ہے
میں آرہا ہوں اے خدا
میں تمہاری سمت آرہا ہوں
****
’مرجانے کو جی چاہتا ہے ‘
کورے کاغذپر
مسلسل ہاتھ پھیرنے سے
اس میں لکیریں نہیں اگتیں
لفظ نہیں پیدا ہوتے
پتھر کی سخت دیواروں کو
تکتے رہنے سے
ان میں دریچے نہیں کھلتے
کاغذ بے داغ ہی رہتا ہے
دیواریں زنداں کی طرح
سخت اور بے جان ہی رہتی ہیں
****
’ بند دروازوں پر بھکاری‘
ہم فٹ پاتیے بھکاری ہیں
بڑے بڑے اسپتالوں میں
خوبصورت نرم ونازک نرسوں کے
سڈول ہاتھوں میں نہیں
سڑکوں کے کھردرے پتھروں پر
مزدوروں کے بے ہنگم گندے ہاتھوں میں
پیدا ہوتے ہیں
جھونپڑپٹیوں کے میلے کچیلے فرش
پر مرجاتے ہیں
ہم بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں
اور چھوٹے چھوٹے کام
****
’ایسا بھی کیا سویرا ‘
تم سویرے کے ساتھ
صرف روشنی کے ہمراہ
سارا دن
سڑکوں پر بھاگے رہو گے
پتھر کی عمارتوں میں
اندھیرے کے خلاف
صف آراء ہوتے رہو گے
ایسے اجالے کے بیج بوتے رہو گے
جس سے روشنی کامینار توپیدا ہوسکتا ہے
دل کا قرار نہیں
مبصر : انوار احمد
’معراج نامہ‘۔۔۔۔۔۔ دودھ فروشی
سے وزارتِ عظمٰی تک
( یاد رفتگاں)
یہ ملک معراج خالد کے حالات زندگی پر مشتمل وہ تاریخی دستاویز ہے،جس میں شا مل حالات و وا قعات کو خود ملک صاحب نے اپنی زندگی میں مرتب کیا تھا۔جس کو ان کی وفات کے بعد قیوم نظامی نے ’’معراج نامہ ۔۔۔دودھ فروشی سے وزارتِ عظمٰی تک‘‘کے نام سے شا ئع کرایا ہے۔۴۰۸ صفحات پر مشتمل یہ کتاب جہا نگیر بکس کے تعاون سے دسمبر ۲۰۰۷ء میں چھپ کر منظر عام پرآئی ہے ۔قیوم نظامی لکھتے ہیں:
’’میں زبیر خالد کا ممنون ہوں کہ ا نھوں نے چار سو فائلوں پر مشتمل معراج خالد کا ذاتی ریکارڈمیرے حوالے کیا ۔معراج نامہ اسی تاریخی ر یکارڈ کانچوڑہے‘‘(ص:۶)
پیش لفظ میں قیوم نظامی لکھتے ہیں:
’’ معراج نامہ ایک ایسی تاریخی دستاویزہے،جس کی روشنی میں انسان اور معا شرے کی تشکیلِ نوکی جا سکتی ہے۔ معراج خالد نے اپنی نا یا ب تحر یر وں میں قومی بیماریوں کی نشاندہی اور ان کا علاج تجو یز کیا ہے ۔یہ کتاب سیا سی اور سماجی کارکنوں کے لئے ایک بہترین رہنما ہے۔معراج نامہ ہر اس گھرانے کی ضرورت ہے،جو نئی نسل کی مثالی نشوونما اور تعلیم و تربیت کا آرزو مند ہے۔جو افراد پا کستان کے سا تھ محبت کرتے ہیں اوراپنے ملک کو آنے والے چیلنجوں سے محفوظ رکھنے کے خواہش مند ہیں،ان کے لئے معراج نامہ کا مطا لعہ نا گزیر ہے‘‘ (ْ قیوم نظامی)
معراج خالد خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ میرا گاؤں ڈیرہ چا ہل لا ہور سے تقریباََ ۱۳ کلو میٹردورمشرق کی جانب واقع ہے ۔اس کی آبادی اس زمانے میں تقر یباََ دو سو نفوس پر مشتمل تھی۔ہم چار بہن بھائی تھے۔بڑا بھائی ایک دوست کے ہا تھوں قتل ہو گیا تھا۔میں سب سے چھوٹا ہو ں۔ پرائمری سکول گھر سے پا نچ میل کے فا صلے پر تھا۔گاؤں اور سکول کے درمیان ہڈیارہ نالہ بہتا تھا۔سال میں تین مہینے اس میں پا نی رہتا تھا۔اس پانی سے گزر کرہم لوگ سکول جاتے تھے ۔اپنے باپ کے بے پناہ شوق کی وجہ سے میں سکول سے کبھی غیر حاضر نہیں ہوا۔ہم لوگ ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔گاؤں کے لوگ اپنے مسائل حل کرنے کے لئے اسا تذہ کی رہنمائی حا صل کیا کرتے تھے۔میں بچپن سے اپنے کام شیڈول کے مطابق کیا کرتا تھا۔بچپن سے اپنی صحت کا بھی خیال رکھتا تھا۔والدہ جو کچھ دیتی آرام سے کھالیتا تھا،لیکن دودھ زیادہ شوق سے پیا کرتا تھا۔دہی مکھن بھی مجھے پسند تھا ۔چھٹی جما عت پاس کرنے کے بعد اپنے گاؤں سے سات میل دور مڈل سکول گھو نڈ میں داخلہ لیامڈل کے امتحان میں وظیفہ حاصل کیا ۔۱۹۳۱ میں میٹرک کے امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔کھیلوں میں نمایاں کامیابی کی بناء پر ۱۹۳۵ میں سکول کی طرف سے رول آف آنر دیا گیا ۔ما ڈل ہائی سکول میں پہلے دیسی ہیڈما سٹر لالہ دھنی رام بہت متعصب اور کینہ پرور انسان تھے۔جب میں نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ حیثیت سے پاس کیا تو ان کے دو لڑکوں نے بھی ا چھے نمبروں سے میٹرک پاس کیا تھا،مگر ہیڈ ما سٹر نے مجھے پیار کیا اور میری حوصلہ افزائی کی کہ تم بڑے آدمی بنو گے ،اس کے بعد وہ مجھے گورنمنٹ کالج لا ہور کے پرنسپل کے پاس لے کر گئے اور ان سے کہا کہ’’اس بچے کو صرف اس کی بہتری کے لئے آپ کے کالج میں داخل کروانے نہیں لا یا ،بلکہ کالج کی بہتری کے لئے لا یا ہوں ۔اس لئے کہ یہ بچہ کھیل اور تعلیم میں کالج کا نام روشن کرے گا۔‘‘(ص:۱۳)اگرچہ مجھے کالج میں داخلہ مل گیا تھالیکن اپنے چند قریبی دوستوں کی و جہ سے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ چلا گیا ۔ان دنوں علامہ اقبال بھی کالج کے جلسوں میں آیا کر تے تھے ،مجھے ان کے کلام سے بھی فیضیاب ہونے کا موقع ملا ۔ سکول کے زمانے ہی میں شیکسپیئر،ہارڈی اور ٹیگورکی کتابوں کو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں سے انسانیت کے بارے میں ایک عالمی رویئے نے جنم لیا۔میرا ذہن یہ طے کر چکا تھاکہ دنیا میں بہترین کامیابیوں کے لئے ان تھک محنت ضروری ہے ۔زمانہ طالبعلمی میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔جن میں معاشی مسائل زیادہ اہمیت کے حامل تھے،لیکن میں نے حصول علم کی کوششوں کو ترک نہ کیا۔مثلََاکالج میں بوٹ پہننا لازمی تھے ،میں نے بڑی مشکل سے بوٹ خریدے ،انھیں صرف کالج کے قریب جا کر پہنتا،تاکہ وہ گھس کر خراب نہ ہو جائیں،کیو نکہ نئے بوٹ خریدنا میرے لئے ہر گز ممکن نہ تھا۔۱۹۴۶ میں مجھے ایکسٹراسسٹنٹ کمشنر نا مزد کیا گیالیکن میں ان دنوں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا،اس لئے نو کری کو قبول نہ کیا ،جبکہ گھر میں مفلسی اور تنگ دستی کا ڈیرہ تھا،میں اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے گاؤں سے ر یڑھے پر لاد کر دودھ لاتا۔نواب مظفر علی قزلباش کی حویلی اور کچھ دکانوں پر دودھ بیچتا،اس کے بعد قریبی مسجد میں کپڑے بد لتا اور کالج چلا جاتا۔۱۹۳۹ میں گاؤں کے لو گوں کی فلاح و بہبودکے لئے انجمن اخوان اسلام کی بنیاد رکھی۔۲۳مارچ ۱۹۴۰ کوقائداعظم کی قیادت میں قرار داد لاہور منظور ہوئی تو حیرت انگیز طور پرمعاشرہ تعصبات اور ذات و برادری کے امتیازات سے با لا تر نظر آنے لگا۔اس دوران قانون کی ڈگری حاصل کر کے میں بھی اس قابل ہو گیا تھاکہ وکالت کر سکوں ،لیکن ۱۹۴۶ اور ۱۹۴۷ کے واقعات نے میری ساری توجہ مہاجرین کی آباد کاری کی طرف مبذول کر دی۔لیکن میں نے ۱۹۵۲ میں سنجیدگی سے وکالت کا پیشہ اپنالیا۔میرے والد کا کل رقبہ چھ ایکڑ اراضی پر مشتمل تھا،میںآج تک اس رقبے میں اضافہ نہ کر سکا ۔میں نے ۱۹۴۱میں انجمن اخوان اسلام کو متحرک کیا ۔یہ تنظیم اخوان ایجوکیشنل کمپلیکس کی صورت میں آج تک کام کر رہی ہے۔ اس کے زیر ا ہتمام اخوان ہائی سکول ،اخوان سا ئنس کالج اور اخوان انڈسٹریل سکول برائے خواتین قائم ہوئے ۔نواب مظفرعلی قزلباش کے گھرانے سے میرے والد کے پرانے مراسم تھے۔میں نے کچھ عرصہ قز لباش کے سیکریٹری کے طور پر بھی کام کیا۔میں میاں افتخار ا لدین سے متاثر تھا،چنانچہ میاں محمودعلی قصوری اور شیخ محمد رشید کے ساتھ مل کر ’ کسان کمیٹی‘ کے لئے کام کیا۔اس طر ح کسان کمیٹی کسانوں کی نمائندہ تنظیم بن گئی۔ پی پی پی کے قیام کے بعد یہ اس میں مد غم ہو گئی۔ ۱۹۶۳ میں بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت برکی سے انتخابات میں حصہ لیا اور مغربی پا کستان اسمبلی کا رکن منتخب ہو کر کنو نشن مسلم لیگ میں شر کت کی ۔۱۹۶۷ میں ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو ضمیر کا بحران کے نام سے پمفلٹ تحریر کیا ، جسے قرار داد کے طور پر مسلم لیگ کی اسمبلی میں پیش کیا۔گور نر مو سٰی نے ا س مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ
’’یہ دو ٹکے کا آدمی ہماری حکومت کا کیا بگاڑ سکتا ہے‘‘
’ضمیر کا بحران ‘صدر ایوب کے طویل دور میں جنم لینے والی محرومیوں ،ان کے اسباب اور علاج کا احاطہ کرتا ہے۔۱۹۵۶ء میں ضلعی اور صوبائی سطح پر پنچایت کا نفرنسیں منعقد ہوئیں۔پاکستان میں ایوب کے ما رشل لاء کے بعد پنچائیت سسٹم کو مضبوط بنا نے کے لئے میں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں ۔پنچائیت کے نظام نے تحریک پا کستان کو کا میاب اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے ا ہم کردار ادا کیا ۔۱۹۵۷ میں تحریک ایفرو ایشیائی عوامی استحکام کی بنیاد پڑی۔ اپریل ۱۹۶۰ میں مجھے گِنی جانے کا موقع ملا ۔واپسی پر میں نے پا کستا ن میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی ۔اس وقت ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ تھے ،ا نھوں نے اس کا نفر نس کا افتتا ح کیااور اپنی پر جوش تقریر سے ترقی پسند عناصر کو بہت متاثر کیا۔تیسری دنیا کی سیاسی اور معاشی آزادی اور تہذیب و ثقافت کے بارے میں بھٹو صاحب کا ذہن بہت واضح تھا،ان کے پاس ایک ایسا ٹھوس پروگرام موجودتھا،جس پر عمل کرکے تیسری دنیا کے ممالک سیاسی اور معاشی آزادی حاصل کر سکتے تھے ۔اس تقریر کے بعد بھٹو کا تر قی پسندوں کے ساتھ گہرا نظریاتی و قلبی رشتہ قائم ہو گیا ،میں اس تحریک کا جنرل سیکریٹری تھا ،اس طرح میرا بھٹو کے ساتھ رابطہ استوار ہو گیا ۔جب بھٹو ایوب کابینہ سے مستعفی ہو کر لاہور پہنچے، تو ایفرو ا یشیائی استحکام تحریک سے وابستہ افراد نے بھٹو صاحب کو مذاکرات کی دعوت دی۔حیات احمد خان اور ممتاز احمدخان کے گھروں پربھٹوسے مشورے ہوتے رہے،تمام رفقاء کاخیال تھا کہ بھٹو نئی جما عت تشکیل دیں گے۔ ابتدائی طور پر بھٹو کالج اور یونیور سٹی کے طلبا پر تو جہ دیتے رہے اور ان کو بیدار اور متحرک کرتے رہے۔پھر مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کو اپنی تحریک کا ہر اول دستہ بنانے کی کوشش کی۔ ایم ایس ایف کا دفتر ایفرو ایشیائی تحریک کے دفتر میں قائم ہوا۔میں بھٹو صاحب کو طلبہ کی شخصیات اور نظریات سے آ گا ہ کرتا رہا ۔نو مبر ۱۹۶۷ میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھرپی پی پی کا کنونشن ہوا۔میں اسمبلی کے اندر پی پی پی کے نظریات کو روشناس کرانے کے لئے سر گرم کردار ادا کرتا رہا۔اسی نظریے کے تحت ضمیر کے بحران کے نام سے ایک قرار داد مسلم لیگ کی اسمبلی میں پیش کی ،جو پی پی پی کے پروگرام کے مطابق تیار کی گئی تھی ۔اس قرار داد کے بعد مجھے بھٹو کے رفقاء میں شامل کیا جانے لگا اور میں نے پی پی پی میں با قا عدہ شمولیت اختیار کر لی ۔مجھے پی پی پی ضلع لا ہور کا چیئر مین نامزد کردیا گیا ۔پی پی پی ڈسٹرکٹ لا ہور کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے پارٹی کے ۳۹ یونٹ بنائے ۔اس دوران پارٹی میں ساینٹفک سو شلزم اور اسلامی سوشلزم کی بحث چل نکلی،میراذاتی مؤقف یہ تھاکہ پاکستان میں معاشی اور معاشرتی انصاف کی حدود و قیود اسلام کے عالمگیر اصولوں کے تحت ہی شکل پذیر ہوں گی ۔میری اس کاروائی کو پارٹی کے بنیادی تصور سیاست کے منافی خیال کیا گیا ۔ڈاکٹر مبشر حسن کے ذریعے جب اس اجلاس کی رپورٹ بھٹو تک پہنچی،تو ان کی خواہش پر میں ضلع لاہور کی سر براہی سے الگ ہوگیا ۔میں پارٹی میں اختلاف کا با عث نہیں بننا چاہتا تھا۔بھٹو نے کراچی سے میری بر طر فی کا حکم دیا اور وہیں سے بیرونی دورے پر چلے گئے ۔میں نے ان کی غیر مو جو دگی میں ہفت روزہ ’نصرت‘میں ایک مقالہ ’اسلام ہمارا دین ہے‘شا ئع کرایا۔واپسی پر بھٹو نے اپنے فیصلے پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا تو میں نے ان کی توجہ اپنے مذکورہ مقالے کی جانب کرائی ۔بھٹو نے اتفا ق کیاکہ’اسلام ہمارا دین ہے‘کی روشنی میں پارٹی کے مقاصد کی جو تشریح میں نے کی ہے وہ درست ہے ۔ڈاکٹر مبشر حسن اور حنیف رامے نے بھی میرے خیال کی تائید کی ،جس کے بعد طے پا یا کہ۔۔۔۔’’چونکہ اسلام ہمارا دین ہے ،اس لئے جمہوریت ہماری سیاست،سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں‘‘
یہ پارٹی کے لئے دوررس نتا ئج کی حا مل تشر یح تھی۔اس دوران نیلا گنبد لاہور میں قرآن کو نذر آتش کیا گیا،اسی قسم کا دوسرا واقعہ ملتان میں بھی ہوا۔یہ ایک خطرناک سازش تھی جس کی زد میں پارٹی آرہی تھی۔نہ صرف اس واقعے کے ذمہ دار افراد کو بے نقاب کیا گیابلکہ ایک قد آدم پو سٹر چھپوا کر لاہور شہر کی دیواروں پر لگوا دیا گیا ،اس طرح پی پی پی کے خلاف ایک بڑی سازش نا کا م ہوگئی ۔۱۹۷۰ میں پا ر ٹی کے ’ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست کے لئے انتخاب لڑا اور ا کثر یت سے سیٹ جیت لی ۔اگست ۱۹۷۱ میں مجھے یہ ذمہ دا ری سونپی گئی کہ فکری ا نتشار کو ختم کرنے اور ا تفاق رائے پیدا کر نے کے لئے سیاسی حکمتِ عملی کے بارے میں ایک مقا لہ تحر یر کروں ۔میں نے سیا سی لا ئن کیا ہے ؟ کے عنوان سے ا یک پمفلٹ تحریر کر کے شا ئع کرا یا ۔پمفلٹ کو سنٹرل کمیٹی کو ئٹہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا سنٹر ل کمیٹی کے ارکان نے ا تفاق رائے سے اس سیاسی لا ئن کو حتمی قرار دیا ۔میرا ایمان ہے کہ مختلف اوقات میں میں نے اور میر ے سا تھیوں نے جو مؤ قف ا ختیار کیا ،بھٹو صاحب اس کی دل سے قدر کرتے تھے ۔دسمبر ۱۹۷۱ میں سقوط ڈھاکہ کا المیہ پیش آیا ۔معراج خالد کا خیال ہے کہ اگر قا ئد اعظم کے اصولوں اور نظریات پر عمل کیا جاتا تو سقوط ڈھاکا کا المیہ کبھی رونما نہ ہوتا ۔ایوب خان کی استحصالی پا لیسیوں اور یحٰیی خان کے فوجی آپریشن اور ہوس اقتدار نے پا کستان کو دو لخت کر دیا تھا ۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعدپا کستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پا نے کے لئے جدہ میں مسلمان وزرائے خارجہ کی دوسری کانفرنس ہوئی ،پاکستان سے میری سر براہی میں سترہ افراد پر مشتمل وفد نے شر کت کی ۔جدہ کا نفرنس کی کاروائی کا نتیجہ یہ نکلاکہ ۱۹۷۴ میں ا سلا می سر براہی کا نفر نس منعقد ہوئی اور بنگلہ دیش کی منظوری حکو مت پا کستان کی توقعات کے عین مطابق عمل میں آئی ۔۱۹۷۲ میں مجھے پنجاب کا وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا ،میری عوامی مقبولیت گورنر پنجاب مصطفٰی کھر کو پسند نہ آئی ۔عوام کی بھلائی کی خاطر میں نے اکتوبر ۱۹۷۳ میں استعفیٰ دے دیا ۔
تم بھی اچھے،رقیب بھی اچھا
میں برا تھا میرا نباہ نہ ہوا
۱۹۷۴ میں بھٹو نے ملک صاحب کو پی پی پی پنجاب کا صدر نا مزد کر دیا۔۱۹۶۵ کے جنگی واقعات نے بھٹو کو ایک طلسمی کردار بنا دیا تھا۔قومی غیرت، جرأت مندی اور عوام کے جذبہ حب الوطنی کی سچی تر جما نی کی بدولت بھٹو نے عوام کے دلوں میں محبو بیت کا احساس پیدا کردیا تھا۔بھٹو نے نہایت دور اندیشی سے ۔۔۔۔۔ ’اسلام ہمارا دین ہے‘جمہوریت ہماری سیاست ہے،سو شلزم ہماری معیشت ہے ،طا قت کا سر چشمہ عوام ہیں ،،۔کے اصول اور نظریہ کی بناء پر آئین میں سیاسی،معاشی، معاشرتی،عدالتی اور آئینی تحفظات کا اہتمام کیا اور ابتدائی چند سالوں میں اپنے منشور پر سختی سے عمل کیا لیکن پاکستان کے سر مایہ دار اور جاگیر دار ،جو عوامی قوت سے شکست کھا چکے تھے ،بھٹو کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گئے ۔بھٹو عوام دشمن قوتوں کے جھانسے میں آگئے اور سا زشوں کا شکار ہو کر پھانسی کے تختے تک جا پہنچے ۔قوم ایک ایسے قائد سے محروم ہو گئی ،جو پا کستان کو دنیا کا عظیم ملک بنا نے کے لئے جدوجہد کر ر ہا تھا۔۔۔۔بے نظیر بھٹو نے ۱۹۸۸ کے انتخابات کے بعد معراج خالد کو قو می اسمبلی کا سپیکر نامزد کر دیا ۔۱۹۹۶ میں فاروق لغاری نے بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا تو معراج خالد کو نگران وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا ۔وہ ۵نومبر ۱۹۹۶ سے ۱۷ فروری ۱۹۹۷ تک نگران وزیر اعظم رہے اور شکوک و شبہات کے با وجود مقررہ وقت پر انتخابات کرا کے خوش اسلوبی سے الگ ہو گئے ۔۱۹۹۳ کے انتخا بات میں بے نظیر بھٹو نے معراج خالد کو پارٹی ٹکٹ نہ دیا ۔معراج خالد نے اپنے حلقہء انتخاب کے ووٹروں کے دباؤ کے با و جو د آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے سے انکار کر دیا ۔بے نظیر بھٹو نے جب دوسری بار اقتدار سنبھالا تو معراج خالد کی تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو انٹر نیشنل اسلامی یو نیو رسٹی کا ر یکٹر نامزد کر دیا ۔یہ منصب ان کے مزاج کے عین مطابق تھا ۔ان کی نگرانی میں یونیورسٹی نے خوب ترقی کی ۔طلبہ کی تعداد ۸۰۰۰ تک پہنچ گئی ،جن میں ۸۰۰ طلبہ کا تعلق بیرون ملک سے تھا ۔معراج خالد نے چھ سال یو نیور سٹی کی خدمت کی ۔صدر پا کستان نے ان سے مشورے کے بغیر ایک بیرونی سکالر کو یو نیورسٹی کا مشیر نا مزد کر دیا ،تو اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے معراج خالد مستعفی ہو گئے۔
معراج خالد کو ز ندگی بھر فروغ تعلیم سے شغف رہا۔پاکستان کے تعلیمی حلقوں نے انھیں بابا ئے تعلیم کا لقب دیا۔ ایک موقع پر اساتذہ کے نام پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔
’’ ہر معلم اپنے فکر کے لحاظ سے معلم اول ﷺکی سچی پیروی کا فرض ادا کرنے کا پا بند ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہم جن معاشرتی اور اخلاقی زبوں حا لی کا شکار ہیں، جن کی وجہ سے خود معلمین بھی لا تعداد پریشانیوں کا شکار ہیں۔ تاہم بحیثیت معلم ان کے منصب کا تقد س تقا ضا کرتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی پر یشانیو ں کی پرواکئے بغیر اپنے زیر اثر طلبہ و طالبات کی سیرت و کردار میں وہ خو بیاں پیدا کریں ،جن کی نشوو نما کے بغیر قومی تعمیر و ترقی کا مقصد عظیم حاصل نہیں کیا جا سکتا ،ایسا کرنا بجائے خود ان کے مشن کا اجراء ہو گا ،جس کی حصول کی خواہش کرنا ہی اصل زندگی ہے۔ان نہا یت نا مساعد حا لات کے باوجود اسا تذہ کی عظیم اکثریت اپنے مقدس مشن کی تکمیل کے لئے تگ و دو میں ہے اور یہی زندگی بخش حقیقت ہم جیسے لوگوں کوباور کراتی ہے کہ ہمارا قو می مستقبل روشن ترین ہے۔ ‘‘(۲۶۳)
معراج خالد نے ۸۷سال کی عمر میں ۱۳جون ۲۰۰۳ء کی سہ پہر وفات پائی ۔معراج خالد کی وفات پر ہر صاحب شعور کی آ نکھ اشکبار تھی۔مستنصرحسین تارڑ کے بقول۔۔۔۔’’پاکستانی سیاست کے کیچڑ میں جو کنول کا پھول تھا ، وہ مر جھا گیا ،مگر پیپلز پارٹی کے ہی بہت سے لوگ ملک معراج خالد کو فاروق لغاری کی طرح اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ خیال کرتے ہیں اور بے نظیر بھٹو کے خلاف قائم ہونے والے بہت سے کیسوں کا محرک اور سلطانی گواہ خیال کرتے ہیں اور یوں ان کی سادگی اور درویشی کو بھی عیاری خیال کرتے ہیں۔
مبصر: ڈاکٹر ارشد خانم
زنجبیل از: علی احمد قمر
اصنافِ ادب میں نعت در حقیقت محبت و الفت ، عقیدت و اطاعت اور ریاضت و ودیعت کا ایسا فن ہے جس میں اگرعشق و مستی کی گرمی درکار ہے تو قلب و نظر کی بے انتہا پارسائی و نرمی بھی درکار ہے بلکہ قرآن کریم کے فرمان کے مطابق خلوص دل سے نعت کہنے کی ہدایت ہے ۔
ترجمہ : بلاشبہ اللہ اور اُس کے فرشتے نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے اہلِ ایمان تم بھی خوب اُن پر درود و سلام بھیجا کرو ۔
یوں نعت حکم خداوندی کی اطاعت اور نماز نیاز بن جاتی ہے۔ جذبوں کی سرسراہٹ ، سرمدی خیالوں کی جگمگاہٹ اور باد صبح گاہی کی گدگداہٹ نعت کے خمیر کی ٹمٹماہٹ میں ڈھل جاتی ہے اور یہی وہ روشنی ہے جو طلوع سحر کی پیشانی پر ہویدا ہوتی ہے اور لبوں پر سلک عقیدت بن کر چمکنے دمکنے لگتی ہے ۔ تخلیقی صلاحیتیں ، جذبوں کی بشارتیں اور تحقیقی صداقتیں عہد بہ عہد اِس فنِ نعت گوئی249 کے افکار و انوار کی زینت بنتی رہیں اور آج بھی یہ ضیا بار صنف سلطنتِ سخن پر حکمرانی کر رہی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عصرِ حاضر میں اِس گلزارِ سدا بہار کے مختلف پھول رنگ و رنگ و نور کی صد ہا شعائیں ، اسلوب کی متنوع پر بہار ردائیں اور نفیس خیالات کی پارسا ادائیں لئے عشق و عقیدت نبی رحمت ﷺ کو نکہتِ نشان بنا رہے ہیں ۔ جن میں سے ایک مہکتا ہوا نام علی احمد قمر کا بھی ہے ۔ اُنہوں نے شعرگوئی کا آغاز تو طالب علمی کے زمانے سے ہی کیا تھا لیکن نعت گوئی کا شرف قدرے تاخیر سے حاصل ہوا ۔ نعت خوانی کی محفلوں میں شرکت نے انھیں اِس جانب مہمیز کا کام دیا ۔ اُن کا پہلا نعتیہ مجموعہ اُن کی اپنی مادری زبان بلتی میں شائع ہوا ۔ اب کا اُردو نعتیہ کلام پر مشتمل مجموعہ’’زنجبیل‘‘ شائع ہو گیا ہے ۔ علی احمد قمر کا یہ مجموعہ کلام شاعرانہ اسلوب ، زبان کی پاکیزگی و شگفتگی ، الفاظ کی راست سمتی اور بیان کی سادگی سے بھرپور ہے ۔ اِس کتاب میں اکثر نعتیہ اشعار کا متن یہ بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمتوں سے صرف محمد مصطفی ؐہی واقف ہیں اور محمد کی شان صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔ علی احمد قمر نے اس متن کو بڑی خوبی سے شعری پیکر دیا ہے وہ فرماتے ہیں ۔
میرا اوجِ بیاں محمد ہیں
میرے وردِ زبان محمد ہیں
چاند تارے طواف میں جن کے
جادۂ کہکشاں محمد ہیں
اُن کے اشعار میں اخلاق کے درخشاں پہلوؤں کا اظہار جگہ جگہ ملتا ہے بلکہ اُنہوں نے مدنی تاجدار کے اخلاقِ حسنہ کو اپنے جذبہ کی آنچ میں ڈال کر کندن بنا لیا ہے اور افلاک کی ان اقدار سے انسانیت کو وہ ضیائیں فراہم کی ہیں جو تاریک فضاؤں کو منور کرتی ہیں ۔
علی احمد قمر صنفِ نعت کا ایک درخشاں ستارہ ہیں۔ جدید اسلوب ان کی نعت کاجمال ہے ۔ مدحت کے گہرہائے گراں مایہ لٹانے والوں میں وہ اپنی ایسی تخلیق لے کر شامل ہوئے ہیں جن میں جذبات کی صداقت ، اسلوب کی ندرت ، فکر کی عظمت ، فن کی قدرت بھر پور انداز سے جھلکتی ہے ۔ اُنہوں نے اپنی فکر کے مطابق تحقیق و تحسین اور تعریف کا حق ادا کر دیا ہے۔وہ خیال کی طہارت اور الفاظ و تراکیب کی جدت میں خلوص و صداقت پر گہری نظر ڈال کر عالمانہ مباحث نوکِ قلم پر لائے ہیں ۔ اُنہوں نے نعت شناسی کے کینوس پر گویا قوس و قزاح کے رنگ بھر دئیے ہیں ۔
و ہ دشتِ نعت گوئی میں عشقِ رسول میں دیوانہ اور شمعِ حبِ رسول کا پروانہ محسوس ہوتے ہیں اور فروغ نعت میں ایک جذبہ ساحرانہ رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی کا سفر اب گلشنِ نعت میں رواں دواں ہے اور اِسی نکہت جانفزا میں بسر ہوتا ہے بلکہ ہر لمحہ مرہونِ خیالات طیبہ نگر محسوس ہوتا ہے ۔پھر قرینہ اظہار بھی بہ کرم ایزدی حاصلِ ہنر ہے ۔
نعت گوئی دراصل اپنے وجود کی تمام تر سچائیوں کے ساتھ ممدوحِ کائنات کی خدمتِ اقدس میں قلبی و قلمی حاضری اور باریابی کا نام ہے جو شخص حاضری کے آداب سے واقف نہیں اسے مقامِ حضوری نصیب نہیں ہو سکتا۔ جب تک روح میں طہارت ،خیال میں پاکیزگی اور مقام نبوت سے مکمل شناسائی نہ ہو نعت گوئی کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ نعت محض مصرع تراشی ، شعر سازی ،لفاظی اور سخن آرائی کا نام نہیں بلکہ یہ عطائے ربی ہے ۔ اُردو ادب کے مستند اساتذہ نے نعت گوئی کو بجا طور پر مشکل فن قرار دیا ہے
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کہتے ہیں :
’’نعت کے موضوع سے عہدہ بر آ ہونا آسان نہیں ۔اِس کی فضا جتنی وسیع ہے اتنی ہی اس کی پرواز مشکل ہے ۔‘‘مگر علی احمد قمر اِس صنف میں بے بال و پر ہی محوِ پرواز نظر آتے ہیں اُن کی کتاب ’’زنجبیل‘‘ کا اسلوب تحریر مدلل ، معتدل اور دلنشین ہے ’’زنجبیل ‘‘ میں شامل بہت سی نعتوں پر سرسری سی نظر ڈالنے سے ہی کتاب کے مجموعی مزاج اور منہاج کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ اِس کتاب کے مطالعے کے بعد قارئین کے دلوں کے تاریک ایوانوں میں راستِ فکرِ نعت یقیناعقیدت اورارادت کے چراغ روشن ہو جائیں گے یہ کتاب انسانی قلوب کو پیغام مصطفوی سے مربوط اور منسلک کر کے حضورِ اکرم کے انقلابی پروگرام کی پیامبر ہو کر ہمارے فکری انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے ۔علی احمد قمرنے اِس کتاب میں شامل نعتوں کو جہانِ رنگ و بو کی ہر چیز اور ہر چیز کے اچھے پہلو تک پھیلانے کی کامیاب سعی سعید کی ہے ۔اپنی نعتوں میں انھوں نے عشقِ رسول کو صرف اپنی ذات میں مضمر اور دل میں ملفوف نہیں رہنے دیا بلکہ اس جذبے کو کائنات کے ذرے ذرے میں ضوفشاں دیکھنے کی تمنا کی ہے وہ ذاتِ ختمی مرتبت کو باعثِ ایجاد کن فکاں سمجھتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے نعت گوئی میں نہ تو معنویت کا خون ہونے دیا ہے اور نہ ہی شعریت میں کمی آنے دی ہے۔ نہ اُن کی عقیدت کسی مقام پر ڈگمگاتی ہے ۔ زیرِ نظر کتاب میں اُنہوں نے نعت کو صنف ہزار رنگ ثابت کرنے کے لئے خون جگر صرف کیا ہے ۔اُن کی نعت میں عقیدت و عقیدہ اورواقعات واحوال کے بے شمار رنگ ہیں۔ اُن کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی کسی نعت کے کسی بھی پہلو کے کسی رنگ میں حب نبی کو پھیکا نہیں ہونے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں عہد حاضر میں اُردو نعت گو شعرا نعت میں ذات ختمی مرتبت کے حضور اِس نوعِ استمداد و استغاثہ کا دروازہ کھولنے کی جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔ علی احمد قمر اس فن و ہنر میں بازی لے گئے ہیں کیونکہ وہ اِس صنف پر گہری نظررکھتے ہیں ۔ اُن کا مشاہدہ تیز ہے اور وقت کی نبض پر ان کی انگلیاں مضبوط ہیں ان کی قوتِ فیصلہ صائب ہے اور شدید حساسیت نے ان کی فکرکو تاثیر بخشی ہے ۔ ملاحظہ ہو ان کا یہ شعر :
اُن کے در تک تو موت ٹل جائے
پھر تو روضے پہ جاں نکل جائے
ہر گھڑی دھیان میں رہے طیبہ
کیوں تغافل میں کوئی پل جائے
فیض سے آپ کے ہوا ممکن
ہر بلا راستہ بدل جائے
علی احمد قمر نے غزل کی فارم میں نعتیں کہی ہیں اور بہت اچھے شعر لکھے ہیں۔ اُن کے اشعار میں عشقِ رسول کی صداقتیں ، تلمیحات کے پیکر میں ڈھل کر عقیدت کی جان بن گئی ہیں غالباً ایسے ہی طرز شعر گوئی کے حوالے سے فلپ سڈنی نے کہا تھا کہ :
’’ شاعری بحیثیت معلم اخلاق ، فلسفہ اور تاریخ سے برتر ہے کیوں کہ فلسفے کی طرح محض مجردقضیوں سے سروکار نہیں رکھتی بلکہ مخصوص مثالیں رکھتی ہے اور چوں کہ اس کی مثالیں حقائق سے براہِ راست جڑی نہیں ہوتی ہیں اِس لئے یہ انھیں تاریخ کے مقابلے میں زیادہ موزوں اور دل نشین بنا سکتی ہیں ((Critical approaches to literature,David Douches۔سڈنی کی اِس رائے کی روشنی میں جب ہم علی احمد قمر کے نعتیہ کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حقائق ، حب ، عشق اور عقیدت ، اطاعت و ریاضت اور ودیعت کو شعری زبان کس طرح دی جاتی ہے ۔نعت گو کا اولین فریضہ حضور کی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے ان ثمرات کا بیان ہے جو سیرت پاک کے توسط سے انسانیت کو عطا ہوئے اور یہ انداز بیان ، تبلیغی لہجے کی بجائے فنی اسلوب چاہتا ہے ۔علی احمد قمر اِس ذمے داری سے بخوبی آگاہ نظر آتے ہیں ۔ وہ حضور کی تعلیمات کے ذریعے انسانیت کو ملنے والے انعامات کا تذکرہ ، فنی خوبیوں کے ساتھ اِس طرح کرتے ہیں کہ اُن کے نعتیہ اشعار لطافتِ اظہار کا نمونہ بن جاتے ہیں ۔ جب تک نعت گو کے افکار میں نعت کی تعریف اور اس کا تصور واضح نہ ہو وہ نعت گوئی کا حق ادا نہیں کر سکتا ۔نعت شاعر کے بطن سے پھوٹتی ہے ، اُس کے افکار سے نمو لیتی ہے اور اُس کی249 قبولیت عام کا سامان مہیا کرتی ہے ۔’’ زنجبیل ‘‘ میں علی احمد قمرنے ہر نعت میں اپنی انفرادیت کو بر قرار رکھا ہے مگر اِس کے باوجود اِس مجموعہ میں کچھ کمی سی ہی محسوس ہوتی ہے شائید اِس لئے کہ نعتیہ مجموعہ کبھی مکمل نہیں ہو سکتا ہے جب کہ ہر لمحہ نبی اکرم سیّدِ عالم کی شان نئے انداز و آہنگ سے رقم ہو رہی ہے ۔ہر لمحہ نئی نعتیں اور نئے نعت گو نئے نئے زاویوں کے ساتھ بارگاہ رسالت پر نعتیں رقم کر رہے ہیں ۔سرکار دو عالم کی تعریف و توصیف ہی مکمل نہیں ہو پاتی تو کوئی نعتیہ مجموعہ کس طرح مکمل و کامل ہو سکتا ہے ۔ اِس کے باوجود علی احمد قمر نے نغمۂ درود و سلام کو جو درحقیقت نغمۂ عقیدت و محبت کا سرتاج ہے ۔ اسے زیور طباعت و حسن ترتیب کا شہکار بنایا ہے۔ عشقِ رسول کی وہ شمع روشن کی ہے جو نغمۂ جانفزا سے روشن و منور ہے ۔
نعت حضورِ اکرم کی مدح ہی کا نام ہے لیکن اگر عربی، فارسی اور اُردو میں موجود نعتیہ کلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اِس موضوع کی عظمت اور وسعت کااندازہ ہوتا ہے ۔ جب عربی زبان میں باقاعدہ نعت گوئی شروع ہوئی تو کفار مکہ کی ہجو اور گستاخئ رسول کے جواب میں مسلمان شعرا نے مؤثر طورپر حضور اکرمؐ کا دفاع کیا ۔ نعت اسی لسانی جہاد کی پیداوار ہے ۔ دیارِ رسالت مآب کے شاعروں نے کفار کے ردمیں حضور اکرم کے حسب و نسب اور کردار و صفات کی توصیف اور ستائش میں جو مدحیہ منظومات لکھیں انھیں عربی نعت کے اولین نمونوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔یہ سنتِ ملائکہ بھی ہے ، سنتِ صحابہ بھی اور سنتِ اولیا و اصفیا بھی ۔اِن تمام پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہی علی احمد قمر نے مدح سرائی میں محض قلم کو رواں دواں نہیں کیا بلکہ اِس میں وہ خصوصیات بھی مدِ نظر رکھیں ہیں جو عام قاری کے زیر نظر نہیں ہوتی ۔ انہوں نے ہر مقام پر نعت کے حقیقی مقاصد اور محامد و محاسن سے مکمل کام لیا ہے ۔ در حقیقت سرکارِ رسالت مآب کی ذاتِ اقدس سے سچی محبت اور منصب رسالت کا حقیقی عرفان وہ کلید ہے جو در نعت گوئی کا قفل کھولتی ہے اور فکری گمراہی اور شعری بے راہ روی کے دروازوں کو مقفل کرتی ہے۔ جب تک نعت گو شعرا عشق رسول میں ڈوب کر توحید و رسالت ، عقیدے اور عقیدتِ شریعت اور شعریت عبد اور معبود کے حساس اور نازک رشتوں میں واضح امتیاز نہ کر لیں اور جب تک انھیں شعری اسلوب اور اظہار پر خلاقانہ قدرت حاصل نہ ہو جائے وہ صداقت بیان ، حسن ذوق ، جذبات عالیہ اور سوز و گداز کی صفات سے متصف نہ ہو جائیں اُس وقت تک وہ نعت گوئی کی نازک ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ بر آ نہیں ہو سکتے۔ اِن معروضات کو پیش نظر رکھ کر ہی زیر تعارف کتاب کے مندرجات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ کتاب زیر تبصرہ فیض الاسلام پرنٹنگ پریس راولپنڈی نے شائع ہے ۔ کتاب۱۴۴ صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت صرف۲۰۰ روپے ہے ۔
’’تارا سرگی دا ‘‘ از:علی احمد قمر
غزل عربی زبان کا لفظ ہے مگر ا س کی ابتدا ایران سے ہوئی۔ لغوی اعتبار سے اِس کا مطلب عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کے حسن و جمال کا ذکر کرنا ہے ۔ ہےئت کے اعتبار سے یہ قصیدے کے ابتدائی اشعار یعنی تشبیب کی بدلی ہوئی شکل بنتی ہے جس میں جمال ، جذبے یا موسم کے حسن کا ذکر ملتا ہے ۔ گویا حسن کی تعریف اور درد کا بیان غزل کے بنیادی عنصر ہیں۔پنجابی شاعری نے نظم کی حویلی میں جنم لیا اور ابھی وہ علامتیں گھڑی جا رہی ہیں۔ جو تغزل کی روح کہلا سکیں ۔ غزل شاعروں کا زیادہ تر کلام حسن و عشق کے ارد گرد ہی منڈلاتا نظر آتا ہے ۔ لیکن غزل شاعروں کے اِس قافلے میں علی احمد قمر بڑے منفرد کھڑے نظر آتے ہیں کیونکہ انہوں نے پنجابی غزلوں کو ایک نئے انقلاب سے دو چار کیا ہے۔ ان کی حیثیت ایک مشعل بردار کی بنتی ہے ۔ ان کی کتاب ’’سرگی دا تارہ‘‘ جو کہ پنجابی غزلوں پر مشتمل ہے، شائع ہو گئی ہے جس کے مطالعہ کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی غزلوں میں اُردو تلازمے اور پنجابی محاورے ایک ہو کر سامنے آگئے ہیں ۔یعنی انہوں نے ہےئت و روایت اُردو مگر زبان پنجابی بولی ہے جس کا نتیجہ ایک ملی جلی کیفیت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔
پنجابی غزل کی روایت میں الگ الگ انداز نظر آتے ہیں اور غزل کہنے والے ہر شاعر کے کلام میں ایک الگ ہی فضا ملتی ہے جو اُس شاعر کے داخلی ماحول سے تعلق رکھتی ہے ۔ لیکن بعض شاعر ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی خاص فنی بڑائی یا فکر کی نئی لہر کی وجہ سے اظہار کا نیا ڈھنگ اپنا لیتے ہیں جو کسی نمایاں تبدیلی کا حامل بن جاتا ہے ۔یہ تبدیلی اگر جاندار ہو تو روایت بن جاتی ہے جس کے نتیجے میں اُن کا شمار ابتدا کرنے والوں میں ہونے لگ جاتا ہے ۔علی احمد قمر بھی بلاشبہ ایسے ہی شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے نئے اور جدید اسلوب کے ذریعے پنجابی غزل کو نئی نسل کے دکھوں اور زندگی کی پریشانیوں کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا ہے اور اِسے اُردو کے انتہائی قریب کرکے لطیف طرز احساس سے ہمکنار کر دیا ہے ۔ اُنہوں نے عام بحر کے ذریعے صاف اور سہل زبان اِستعمال کرتے ہوئے لفظوں کو اُن کے مخصوص وزن پر لانے کی طرف خصوصی توجہ دی ہے جس کی وجہ سے ان کی غزلیں فنی طور پر نکھری اور سنوری نظر آتی ہیں ۔
یہ ایک اصولی بات ہے کہ جو کوئی صنف ابتدائی منزلیں طے کر رہی ہوتی ہے تو اُس میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہر زبان و ادب اِس صورت حال سے گزرکر ہی آگے بڑھتا ہے۔ پنجابی غزل بھی اِسی اصول اور قاعدے کے تحت جدید غزل تک پہنچی ہے ۔ علی احمد قمر نے بھی پنجابی غزل کی روایت سے ہٹ کر ایک نیا منظر نامہ بنانا شروع کیا ہے اور اپنی ایک الگ سی شناخت کی طرف قدم بڑھایاہے۔ یہ شناخت لفظوں کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہے اور اُن علامتوں کے حوالے سے بھی جو انہوں نے اپنی غزلوں میں شامل کی ہیں ۔ اُن کی غزلیں عام انداز یعنی گل و بلبل ، حسن و عشق، ساقی و میخانہ جیسے تخیلاتی رنگ سے ہٹ کر معاشرے میں موجود عام کرداروں کے دکھ سکھ ، مہنگائی ، نیکی ، بدی نیز عام معاشی و معاشرتی پہلوؤں کو موضوع سخن بنایا ہے ۔ اُن کے تاثرات ایک نیا اسلوب لئے ہوئے ہیں ۔ قمر نے پنجابی غزلوں میں رواں بحر سے کام لیتے ہوئے پنجابیت کا جذبہ ، اٹل اور تلخ حقیقتوں کے بیان اور روز مرہ کے استعمال سے ایک نئے اسلوب کو جنم دیا ہے۔ اسی وجہ سے ان کے اکثر شعر ضرب المثل کی سطح تک جا پہنچے ہیں اور معاشرتی پس منظر میں داخلی تجربے اور انسانی کرب کے فکری اظہار کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اُن کے اشعار میں سماج کے ساتھ شکوے کا انداز گیتوں کی لے سے نکل کر خالص غزل کے آہنگ میں ڈھلتا ہوا نظر آتا ہے۔
غزل کا تعلق خارج کی بجائے داخل سے زیادہ ہوتا ہے یعنی شاعر منظر کشی کی بجائے اُس کیفیت اور بیان پر زیادہ زور دیتا ہے جو کسی اچھے بُرے منظر کو دیکھنے سے اُس پر طاری ہوتی ہے ۔ رمز ، ایما اور اختصار کو غزل کی جان سمجھا جاتا ہے یعنی براہ راست یا واضح انداز میں بات کرنے کی بجائے علامتوں اور اشاروں کے ذریعے بات کی جاتی ہے اور دریا کو کوزے میں بند کرکے یا آسمان کو آنکھ کے تِل میں سمیٹ کر دو مصرعوں کے ذریعے پورے مضمون کو بیان کر دیا جاتا ہے۔ اسی لئے اسے ریزہ کاری کا عمل بھی کہا جاتا ہے اور یہ عمل ، یہ انداز علی احمد کی زیرِ تبصرہ کتاب میں جابجا بکھرا نظر آئے گا ۔ اُن کی تمام غزلوں کا ہر شعر اپنی جگہ مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے شعروں سے ایک داخلی ربط بھی رکھتا ہے جس کی وجہ سے ایک ہی موڈ میں لکھی جانے والی غزل کا تاثر بڑا گہرا دکھائی دیتا ہے۔ اُنہوں نے غزل میں پرانے لفظوں اور علامتوں کو ایک نیا رنگ دے کر نیا مفہوم اور سوچ کے انوکھے ڈھنگ کو ابھار کے رجائی انداز اختیار کیا ہے اور زندگی کی مشکلوں اور مصیبتوں کو برداشت کرکے نئے خوابوں تک پہنچنے کے لئے دلیری کے جذبے کو ابھاراہے اور نئی اُمید کی شمعیں جا بجا اپنے اشعار میں روشن کی ہیں ۔ صوبہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے علی احمد قمر دنیا کے بلند ترین برف سے ڈھکے میدانِ جنگ سیاچن کے قدموں میں واقع گاؤں گوما کے رہنے والے ہیں۔ اُس علاقے کی چاشنی ،حسن اور ساتھ ساتھ وہاں کی غربت اور محکومی کا کرب بھی اُن کے اشعار میں واضح طور پر نظر آ تا ہے ۔اُن کی غزل ’’ میرا دکھ ونڈاوے کون ‘‘ ،’’ظلم دی دھرتی اتے خیر دی منگے کون ‘‘ اور ’’ توں دُکھاں دی گٹھڑی آکے کھول کُرے ‘‘معاشرتی رویوں ، معاشرے میں پھیلے دکھ ،کرب اور مشکلات کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں ۔علی احمد قمر کے دیگرشعری مجموعوں میں زخمگل ، لمس ، گرد وملال ، لوح ، پچھاوا اور زنجبیل شامل ہیں ۔ اُن کی زیرتبصرہ کتاب ’’ تارا سرگی دا ‘‘ پنجابی غزلوں پرمشتمل ہے جس کا انتساب اُردو اور پنجابی کے مشہور شاعر احمد راہی کے نام ہے ۔ اِس کتاب کو فیض الاسلام پرنٹنگ پریس راولپنڈی نے شائع کیا ہے اِس میں کُل ۱۴۴ صفحات ہیں اور اِس کی قیمت صرف ۲۰۰ روپے ہے ۔
مبصر : شگفتہ طاہر
داستانیں اور حیوانات از : سعید احمد
اردو داستانوں میں حیوانات کی علامتی حیثیت
مقتدرہ قومی زبان، پاکستان۔۲۰۱۲ء
داستانیں اور حیوانات میں سعید احمد نے اردو داستانوں میں حیوانات کی علامتی حیثیت پر قلم اٹھایا ہے۔ داستانوں کی علامتی معنویت سے بات شروع کرکے عالمی ادب میں حیوانات کا ذکر پھرفورٹ ولیم کالج کی داستانوں کے ماخذ کے بعد اردو داستانوں میں حیوانات کی علامتی حیثیت کو مختصر حیوانی کہانیاں اور طویل داستانوں کے ذریعے واضح کیا ہے۔ حیوانات اردو ادب میں دو طرح سے اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں ایک تو انسانی برادری کے طور پر اور دوسرا مثبت اور منفی خصوصیات کو واضح کرنے کے لیے ان کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ قرآن پاک سے بھی مختلف قصوں میں حیوانات کے ذکر کی طرف ہماری توجہ مبذول کروائی ہے اس کے علاوہ داستانوں کے حوالے سے قصہ گل بکاؤلی ، سنگھاسن تہسی، توتا کہانی، بتیال پچیسی، باغ و بہار، آرائش محفل، داستان امیر حمزہ، حسن و عشق، گلشن ہند، ہفت پیکر، باغ عشق کے ذریعے حیوانات کی علامتی حیثیت کو بیان کیا گیا ہے۔
جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے انسان محدود سے محدود تر ہوتا جارہا ہے۔ پہلے پہل اس کی برادری میں شجر، حجر اور حیوانات سب شامل ہوتے تھے مگر آہستہ آہستہ جدید دور کی انسانی برادری کو مختصر کر دیا ہے۔ حد بندیاں کر دی گئی ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی برادری کو وسعت عطا کی جائے اور ایسے موضوعات پر مزید لکھا جائے۔
مبصر: سعدیہ
اردو افسانے میں جلا وطنی کا اظہا ر
از : روبینہ الماس
ناشر مقتدرہ قومی زبان ۔ ۲۰۱۲ء
جلا وطنی/ ہجرت انسانی فطرت میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حوّا علیہ السلام کو جنت سے نکال کر سب سے پہلے جلا وطنی کی مثال پیش کی۔ یوں حضرت آدم و حوّا علیہم السلام پہلے جلا وطن تھے جن کو اس زمین پر بھیجا گیا۔ اس طرح ابن آدم کو جلا وطنی ورثے میں ملی اور اسی امر میں زندگی کی حرارت پوشیدہ ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا(ہجرت ہو یا جلا وطنی) انسانی زندگی کو تازہ خون مہیا کرتا ہے۔ تازہ خیالات اور مشاہدات سے انسان روشناس ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہوتا ہے جس سے انسانی زندگی میں اکثر مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
’’اردو افسانے میں ہجرت‘‘روبینہ الماس کا ایم فل کا تحقیقی مقالہ ہے جس کو مقتدرہ نے کتابی شکل میں قارئین کی نذر کیا ہے۔ چھ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں روبینہ الماس نے بڑی عرق ریزی سے کام لیا۔ جلا وطنی کو تاریخی تناظر میں دیکھا اور پھر ۱۹۴۷ء کے فسادات میں اردو افسانہ نگاروں نے کس طرح اثر قبول کیا۔ اس میں اردو افسانے کے بڑے نام قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کو خصوصی طور پر شامل کیا۔ پھر سانحہ بنگال کے تناظر میں اردو افسانے کو عمیق نظری سے دیکھا گیا اور علامتی افسانے اور جلاوطنی کے انفرادی احساس پر بحث کی گئی ہے۔
اردو افسانے میں جلا وطنی کے اظہار میں مصنفہ نے بہترین پیرائے میں افسانہ نگاروں کے ہاں جلاوطنی کے اظہار کو اجاگر کیا۔جلا وطنی صرف افسانہ نگاروں یا شاعروں ہی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ہر انسان کا مسئلہ ہے اور ہر انسان اپنی زندگی میں اس تجربے سے گزرتا ہے۔ جس کا اظہار ہر شخص تو نہیں کر پاتا۔ یہ شاعر اور ادیب اس تجربے کو بہترین پیرائے میں بیان کرتے ہیں جس سے دوسرے لوگ بھی استفادہ کرتے ہیں۔زیر نظر کتاب طلبہ کے ساتھ ساتھ ریسرچ اسکالر کے لیے ایک حوالہ جاتی کتاب ثابت ہوگی اور اس موضوع پر مزید تحقیق میں معاون ثابت ہو گی۔
مبصر: نبی احمد
اردو ناول میں فطرتِ انسانی کے زوال کی تمثیلات از: بازغہ قندیل
مقتدرہ قومی زبان ، پاکستان۔ ۲۰۱۲ء
سوچتے ہوئے انسان کی جس قدر توجہ اس کے وجود سے باہر پھیلی کائناتِ اکبرنے کھینچی ہے، اتنا ہی قتیل وہ اس تجسس کا بھی رہا ہے جس کا تعلق اس کے اندر پھیلی کائناتِ اصغر سے ہے۔ علم کی وحدت اور کلیّت کو تفہیم کی آسانی کے لیے جب مختلف شعبوں میں بانٹا گیا تو مختلف ادوار میں انسان کے اندر جھانکنے کے علم کو علمِ روح، علمِ ذہن یا علمِ نفس کا نام دیا جاتا رہا۔ جدید دنیا میں اس شعبۂ علم کو ہم نفسیات کہتے ہیں۔ بازغہ قندیل کی یہ کتاب اردو ناول میں انسانی نفسیات کے اس پہلو کی عکاسی کی تفہیم اور تجزیے سے متعلق ہے جسے ہم مذہبی اصطلاح میں نفسِ امّارہ کہتے ہیں۔ یعنی انسانی فطرت کا رذیل پہلو۔
کتاب کی بنیاد چونکہ ایک تحقیقی مقالہ ہے اس لیے ابتدائی باب میں عنوان میں موجود لفظ ’’انسان‘‘ کو مصنفہ نے تحقیق کے منشور سے گزارا ہے اور اس کے مختلف معنیاتی رنگ ہمارے سامنے رکھے ہیں۔ زیادہ تر مثالیں قرآنِ مجید سے ہیں اور قرآن میں انسان کے لیے استعمال کیے گئے دیگر مترادفات عبد، بشر وغیرہ کو بھی زیرِبحث لایا گیا ہے۔ اس مطالعے سے یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قرآن میں جتنی بار انسان کے بارے میں بات کی گئی ہے، زیادہ تر اس کی فطرت کو موضوع بنایا گیا ہے اور اس میں بھی غالب حصہ وہ ہے جو انسانی فطرت کی کج روی کے بارے میں ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا شاید غلط نہ ہو کہ سرکشی، بغاوت اور ناشکری انسانی فطرت پر حاوی ہے۔ نفسِ امّارہ منہ زور گھوڑے کی طرح ہے جس پر بیٹھے ہوئے انسان کی حالت زیادہ تر وہی ہوتی ہے کہ ع نَے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ انسان عبادت و ریاضت، زہد و تقویٰ، مجاہدہ اور دیگر کوششوں سے اس منہ زور گھوڑے کو قابو میں لانے کی کوششیں کرتا رہا ہے، مگر جتنے معاشروں کا احوال تاریخ میں بیان ہے، اور جو معاشرے ہمارے مشاہدے اور تجربے میں ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اس میں کامیابی کا تناسب کم ہی رہا ہے۔
ہمارے ناول نگاروں نے اردو میں اس صنف کے آغاز ہی سے انسانی فطرت کی کج روی کے اس پہلو کو دھیان میں رکھا ہے اور اردو کے پہلے اہم ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ کا ایک اختصاص نفسیاتی مطالعے کی طرف رغبت بھی ہے۔ مصنفہ نے ابتدائی دور میں پریم چند کے ناول ’’گؤ دان‘‘ سے لے کر دورِحاضر میں محمد الیاس کے ناول ’’کہر‘‘ تک منتخب ناولوں کا اپنے موضوع کے حوالے سے تجزیہ کیا ہے۔ کتاب کے چار ابواب ہیں جن میں پہلا باب نظری بحث کے لیے مختص ہے اور باقی تین باب اردو ناول کو تین ادوار میں منقسم کرتے ہیں یعنی پہلا دور۔تقسیم سے پہلے، وسطی دور۔تقسیم کے اثرات اور جدید دور۔جدیدذہن کی الجھنیں۔ کتاب میں جن ناولوں کو زیرِبحث لایا گیا ہے ان میں پہلے دور میں پریم چند کا ’’گؤ دان‘‘، مرزا ہادی رسوا کا ’’امراؤ جان ادا‘‘، دوسرے دور میں فضل کریم احمد فضلی کا ’’خونِ جگر ہونے تک‘‘، ڈاکٹر فہیم اعظمی کا ’’جنم کنڈلی‘‘ اور ’’ڈسٹی نیشن مین ہول‘‘ شامل ہیں۔تیسرے یعنی جدید دور میں ممتاز مفتی کا ’’علی پور کا ایلی‘‘، بانو قدسیہ کا ’’راجہ گدھ‘‘، اکرام اللہ کا ’’گُرگِ شب‘‘، عبداللہ حسین کے ’’اداس نسلیں‘‘، ’’باگھ‘‘اور ’’قید‘‘، مشرف عالم ذوقی کا ’’پوکے مان کی دنیا‘‘، اور محمد الیاس کا ’’کہر‘‘ شامل ہیں۔ اگرچہ ان ناولوں کے انتخاب کی وجوہات پر مصنفہ نے روشنی نہیں ڈالی لیکن جن ناولوں پر لکھا گیا ہے ان کا تجزیہ بہت نتائج افزا رہا ہے۔مصنفہ نے باریک بینی کے ساتھ ان عناصر کی نشاندہی کی ہے جن کا تعلق بشری کمزوریوں کے ساتھ ہے۔ مجموعی طور پر کتاب اپنے موضوع سے انصاف کرتی ہے۔
مبصر : عابد سیال
تنہائیاں بولتی ہیں از: ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ
نیشنل بک فاؤنڈیشن ، اسلام آباد۔۲۰۱۲ء
ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کی کتاب ’’ تنہائیاں بولتی ہیں ‘‘ چھپ گئی ہے۔ اس کتاب میں اسلام آباد میں دفن پانچ سو اہم شخصیات کے احوال ، کوائف اور کتبوں کی تفصیلات شامل ہیں۔ ان پانچ سو میں سے ۳۶۷ شخصیات کے احوال ، تصاویر ، الواح قبور کی عبارات اور عکس فراہم کیے گئے جب کہ باقی ۱۳۳ شخصیات کے مختصر حالات بیان کرنے کے علاوہ قبروں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ان پانچ سو شخصیات میں ایسے افراد شامل ہیں جنھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کار ہائے نمایاں سرانجام دیے۔ ان شعبوں میں صاحبان شریعت وطریقت ، علمائے کرام ، مفتیان عظام ، شاعر ، افسانہ نگار ، ناول نگار ، نقاد، موؤخ ، صحافی، سائنس دان، ماہرین تعلیم ، ڈاکٹر، صاحبانِ اقتدار، ماہرین معاشیات ، اداکار ، گلوکار ، مصور، کارکنانِ تحریک پاکستان، جرنیل ، سفرا ، بیوروکریٹ اور درجنوں دوسرے شعبے شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس سے پہلے بھی اس موضوع (وفیات ) پر چار کتابیں تخلیق کرچکے ہیں اور اس تجربے کی روشنی میں ان کی یہ کتاب تحقیقی حوالوں سے بے حد وقیع ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اسلام آباد کے تمام قبرستانوں کی تفصیلات الگ الگ فراہم کردی ہیں۔ بیشتر شخصیات کی تصاویر اور قبروں کی الواح فراہم کر کے کتاب کی افادیت دو چند ہوگئی ہے۔ اگر اس کتاب میں شامل ان ناموں کی فہرست بنائی جائے تو بے حد نام ور شخصیات کی تعداد سینکڑوں میں ہے ، جن کے ناموں پر نظر رکتی ہے لہٰذا یہاں ان کے نام نمونے کے طور پر فراہم کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ڈاکٹر صاحب نے ان شخصیات کے بارے میں تفصیلات جس محنت ومشقت سے جمع کی ہیں اس کا میں خود گواہ ہوں، ایک زمانہ ہوا شاید کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ ڈاکٹر صاحب نے اسلام آباد میں مدفنون نام ور شخصیات کے بارے میں کوئی نہ کوئی پیش رفت نہ کی ہے۔قلم کاغذ ، کیمرہ اور لیپ ٹاپ لے کر وہ اسلام آباد کی ایک ایک گلی میں گئے اور ہر قبر کا مشاہدہ کیا۔ بعض شخصیات کے کھوج کے لیے بعض اوقات انھوں نے درجنوں ٹیلی فون کیے اور سینکڑوں کلو میٹر سفر کیا۔ درجنوں افراد سے ملے اداروں اور کتب خانوں کی خاک چھانی ، حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ کتاب تخلیق کرتے ہوئے تحقیق کا صحیح طور پر حق ادا کیا اور جہاں یہ کتاب اپنی حوالہ جاتی حیثیت میں بے حد اہم ہے وہاں اُردو وفیات نگاری کے میدان میں اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے ۔ اس پہلو سے کتاب کی اہمیت کو جانچنے کے لیے وفیات کے موضوع پر اُردو میں پہلے سے موجود کتابوں کو ایک نظر دیکھنا ضروری ہے۔ ان کتابوں کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ اُردو ادب میں وفیات نگار کی حیثیت سے کامیاب ترین مصنف ہیں۔ انھوں نے وفیات نام ور انِ پاکستان اور وفیات اہل قلم سمیت چار بہت اہم کتابیں تخلیق کیں جنھیں بجا طور پر اُردو وفیات نگاری کے سنگ میل کہا جاسکتا ہے۔ مصنف نے آخر میں ’’ شخصیات کی الف بائی ترتیب کے لحاظ سے فہرست، شخصیات کی تاریخ وفات کے لحاظ سے فہرست ، شخصیات کے شعبہ ہائے زندگی کے لحاظ سے فہرست ، شخصیات کے پیدائشی /آبائی شہر کے لحاظ سے فہرست جیسے عنوانات سے اشاریے فراہم کر کے قارئین کے لیے ایسی سہولیات فراہم کردی ہیں جو اس سے پہلے کم از کم وفیات کی کتابوں میں ضرور عنقا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی محنت سے یہ اشاریہ مرتب کیے ہیں جس کے لیے ان کا ذوق اور محنت دونوں دادوتحسین کے مستحق ہیں۔
شخصیات کی نشاندہی ، قبروں کی تلاش ، شخصیات کے احوال وآثار کے حوالوں سے کھوج سمیت جتنے مراحل اس کتاب کی اشاعت تک ڈاکٹر صاحب کو درپیش تھے ، یقیناًیہ انھیں کا کام تھا جو انھوں نے دن رات ایک کر کے کرلیا ورنہ آج کل تو ذاتی سطح پر اور جامعات میں ہونے والی تحقیق میں یہ کاتا اور لے دوڑی کا جو رویہ تحقیق کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے، اس سے کیا امید اور کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب میں یہاں وہاں بے شمار ایسی خوبیاں پیدا کردی ہیں کہ اُردو وفیات نگاری کی تاریخ میں اس کتاب کے ذریعے بے حد وقیع اضافے کا سہرا انھیں کے سر سجتا ہے۔ جہاں ڈاکٹر صاحب نے مرحومین کی قبروں کے کتبوں کے عکس فراہم کیے ہیں وہاں کی خواندگی کر کے متن بھی دے دیا ہے۔ سات سو سے زیادہ صفحات کو محیط یہ کتاب نیشنل بک فاؤنڈیشن نے بہت عمدہ طریقے سے چھاپ کر بلاشبہ اشاعت کا حق ادا کیا ہے۔
مبصر: ڈاکٹر راشد حمید
عظیم تر پاکستان از: سید مسعود اعجاز بخاری
پیش نظرکتاب میں ۱۹۷۰ سے ۲۰۱۲ء تک کے عرصے میں سید مسعود اعجاز بخاری کی لکھی گئی تحریروں کا یہ اولین انتخاب ہے۔ یہ تحریریں مختلف قومی روزناموں، اخبارات و رسائل اور جرائد میں شائع ہو چکی ہیں۔ اس سے قبل ان کا شعری مجموعہ ’’اس عہد کے ابر ہہ کے لشکری‘‘ منظر عام پر آ چکا ہے۔ جو عہد حاضر کی صورت کشی کرنے والی نظموں پر مشتمل ہے۔ کتاب ’’عظیم تر پاکستان‘‘ کے مقدمے سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
قیام پاکستان میں اسلام کے بعد اردو زبان نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ یاد رہے کہ زبان محض زبان نہیں ہوتی بلکہ تہذیبی و ثقافتی، دینی نظریاتی یکجہتی اور ہمہ گیر قومی ترقی کا مؤثر ترین ذریعہ اور علمی و ادبی اور سائنسی ترقی کا جواز بھی فراہم کرتی ہے۔ ہمارے اتحاد و یکجہتی اور علمی ترقی، اسلام اور اردو زبان کی بدولت ہی بروئے کار آ سکتی ہے۔ اگر اردو زبان کا نفاذ عمل میں آ چکا ہوتا تو آج ہم علمی اور سائنسی ترقی کی معراج حاصل کر چکے ہوتے۔ابھی سے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں ایک زندہ و بیدار قوم کی مانند جینا ہے یا مردہ قوم کی حیثیت سے اپنی جگ ہنسائی، ذلت اور بربادی کا سامان کر کے تاریخ کے کوڑے میں دفن ہونا ہے۔ نہ کوئی ہمارا نظریہ ہے نہ تعلیمی مقاصد ہیں اور نہ کوئی ایک ذریعہ تعلیم، قومی وملی یکجہتی آخرکس طرح پروان چڑھے اور فروغ پائے۔
دراصل اسلام دو قومی نظریہ، اردو زبان، اقبال، قائداعظم ناموسِ رسالتؐ اور عشق مصطفی وہ عناصر ترکیبی ہیں جن سے نظریۂ پاکستان ظہور پذیر ہوتا اور تشکیل پاتا ہے۔ گویا یہ عناصر ترکیبی نظریۂ پاکستان کی قومی نظریاتی ترجیحاتی اولیات ہیں۔ دو قومی نظریہ، پاکستان کی نظریاتی تنقیدی شعوری آنکھ ہے جو ہر دم اس کی نگرانی پر مامور ہے۔ اردو زبان ہمیں نظریاتی قومی اظہاراتی عجزسے بے نیاز کرتی ہے۔ اقبال اور قائداعظم کی شخصیات ہمیں قومی افتخار عطا کرتی ہیں۔ ناموس رسالت ؐ حمیت و غیرتِ دینی، قومی انا اور خودی سے آراستہ و پیراستہ کرتی ہے اور عشقِ مصطفیؐ نظریہ پاکستان کو جلال و جمال اور تہذیب و وقار سے آشنا کرتا ہے۔ ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ اسلام اور پاکستان دشمن قوتیں ہماری ان قومی نظریاتی اوّلیاتی اساسیات کو ایک دوسرے سے متصادم کر کے قومی وحدت کی زنجیر کو توڑنے میں مصروف ہیں۔
نام کتاب: عظیم تر پاکستان مصنف: سید مسعود اعجاز بخاری
پتا: مجلس تحقیق فکرو فلسفہ پاکستان، ۲۳ اے، سیکٹر بی۔۳ پارٹ سیکنڈ میرپور، آزاد جموں و کشمیر
مبصر:تجمل شاہ
غم نیلگوں
م۔ حنیف کا شعری مجموعہ ہے۔ وہ شاعر ہونے کے ساتھ افسانہ نگار بھی ہیں۔عرض حال میں انھوں نے لکھا ہے مجموعہ میں شامل غزلوں کا انتخاب ساٹھ کی نصف دہائی میں شروع کیا اور یہ کڑا انتخاب ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سی غزلیں تین او ر چار اشعار پر مشتمل ہیں جو شاید غزل کہلانے کی مستحق نہیں،لیکن ہیں تو اشعار۔ جدت اور اختراع میری طبیعت کا خاصہ ہے۔ مثلاً اردو اور غالباً فارسی میں بھی مجھ سے پہلے کسی شاعر نے اضافت سے قافیہ کا کام نہیں لیا۔ منظر اور ستارہ ہم قافیہ نہیں لیکن منظرِ شام اور ستارہ شام صوتی اعتبار سے ہم قافیہ ہیں ’دیکھیے:
نظارہ صبح خندہ نثار منظرِ شام
کہ چشم یار میں دیکھا گیا ستارۂ شام
میں نے بھی قصیدہ لکھا ہے آم پر نہیں ۔ چائے اورسگریٹ پر۔ میں نے دو مرثیے بھی کہے ہیں جو میرے ذاتی غم کے آئینہ دار ہیں۔ عام روش پہ مجھے بھی چلنا نہیں آتا۔ یقیناًآپ غزل کی زمین تشبیہیں استعارے اور قوافی کو محسوس کریں گے۔ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہر شعر میں کوئی نہ کوئی بات ہو۔
علاقائی زبانوں کے ایک آدھ مصرع یا لفظ اپنے اشعار میں لانا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی لذیذ مٹھائی کھاتے کھاتے زبان کے نیچے کبھی پستہ ،کبھی بادام، کبھی چرونجی، کبھی کشمش کبھی ناریل آجائے۔‘‘
کتاب کے لیے رابطہ :بابر حنیف، جامعہ دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک ، نوشہرہ
اسم اعظم پڑھ لیا کرتا ہوں میں
نجف علی شاہ بخاری فراخ دل، بے تعصب اور محبتوں کو عام کرنے والے انسان ہیں۔ انھیں نفرتوں سے سخت نفرت ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کو ادب کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ بھکر جیسے دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ میں ادبی خدمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ خوش اخلاق، خوش آواز اور خوش نویس کے طور پر شہرت رکھنے والے نجف علی شاہ بخاری کے اوصاف پر ان کی شاعری غالب ہے۔ اب تک ان کی پانچ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ پیش نظر کتاب ’’اسم اعظم پڑھ لیا کرتا ہوں میں‘‘ ان کا تازہ شعری مجموعہ ہے۔ کئی اعزازات لینے والا نجف شاہ اپنے ہاتھ، زبان اور عمل سے اندھیروں میں اجالوں کی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں فکر انگیزی اور تبسم ریزی نمایاں ہے۔ بھکر کے شعری افق پر ضیاء پاشیاں بکھیرنے والے نجف علی شاہ بخاری کے بارے میں احمد فراز مرحوم نے ایک محفل میں کہا کہ ان کی جاندار اور شاندار نظامت سن کر خوشی اور طمانیت کا احساس ہوا۔ میں نے اپنی فنی زندگی میں شاید ہی ایسی خوبصورت نظامت سنی ہو۔ لہجے کی شرینی، الفاظ کا برتاؤ اور چناؤ ان کا خاصہ ہے۔ ان کی شاعری پڑھ کر مزید خوشی ہوگی۔
اشک آنکھوں کے پیا کرتا ہوں میں
یوں علاجِ غم کیا کرتا ہوں میں
جب مصائب حد سے بڑھ جائیں نجف
اسمِ اعظم پڑھ لیا کرتا ہوں میں
انتخاب: اظہر حسین
اقبال کا شعری نظام از: ڈاکٹر اسلم ضیاء
ناشر: بزم اقبال لاہور
علامہ اقبالؒ نے آزادی کا جوخواب دیکھا تھا اس کی تعبیر جب قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں چند سالوں کی جدوجہد سے بصورت پاکستان جلوہ گر ہوئی تو اصحاب دانش و بینش نے اپنے خامہ ء عنبرشامہ سے ان کی صلاحیتوں کی خوشبو کو چہار سو منتشر کرنے کے لیے پر مغزمقالات ومضامین ہی حیطہء تحریرمیں نہیں لائے بلکہ مبسوط کتب بھی سپردقلم کیں ۔ یہ لامتناہی سلسلہ ابھی تک اسی جوش وجذبہ سے جاری ہے جس کے باعث علامہ کے جوش آفرین خیالات وپیغامات مسلمانان جہاں کا لہو گرمارہے ہیں۔ پچھلے پچاس باون برسوں میں ان کی زندگی اورکارناموں پر اس قدر لکھا گیا ہے کہ کوئی گوشہ ایسا نہیں رہا جو تاریکی سے روشنی میں نہ آیاہو ۔فی زمانہ کسی نئے زاویے سے اس نابغہ ء روزگار اور منفرد شخصیت کی شاعری کے وہ پہلوتلاش کرنا جو قارئین کلام اقبال کی نگاہوں سے پنہاں رہے ہوں، ممکن نہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ انہیں نئے انداز سے جانچنا اور پرکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تاہم حصول مقصود کے لئے مگن اور محنت شاقہ اولین شرط ہے ۔ ڈاکٹر اسلم ضیاء کی کاوش و کوشش رنگ لائی اور انہوں نے علامہ اقبال کی شاعری کو نئے زاویوں سے دیکھا تو انہیں تحقیق و تنقید کی بھی ایک نئی راہ سجھائی دی۔ یہ راستہ بلا شبہ دشوار گزار تھا اور وہی شخص اس پر گامزن ہو سکتا تھا جس کو اوزان بحور پر عبور،کلام اساتذہ سے کامل آشنائی اور محاسن شعری سے پوری آگاہی ہو۔
تحقیق وتنقید کی نئی راہ تلاش کرنے اور اس راستے کی مشکلات جاننے کے باوجود انہیں صرف نظر نہ کرنا بڑی ہمت جرأت اور حوصلے کی بات ہے۔ ڈاکٹر اسلم ضیاء نے اس راہ پر گامزن ہونے کے لیے کمر ہمت باندھی۔ توفیق حق ان کی رفیق راہ ہوئی ۔ اس جادہ پیمائی میں آبلہ پائی تو مقدر راہرو ہوتا ہے لیکن گونا گوں مشکلات کے باوجود دامن مقصود نہ چھوڑا اور بالآخر اپنی منزل پانے میں کامیاب ہوئے۔یہ کتاب ان کی تحقیقی صلاحیت اور تجسس کی روشن دلیل ہے۔
مبصر: ڈاکٹر محمد ظفر خان
رسائل پر تبصرہ
بنیاد ششماہی علمی و تحقیقی مجلہ
گورمانی مرکز زبان و ادب، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ، لاہور۔ ۲۰۱۲ء
’’بنیاد‘‘ لمز کے گورمانی مرکز زبان و ادب سے شائع ہونے والا پہلا علمی و تحقیقی مجلہ ہے۔ اس مرکز کا قیام لمز میں ۲۰۱۰ء میں گورمانی فاؤنڈیشن کے تعاون سے ہوا۔ جس کا مقصد اردو زبان کی تدریس اور اعلیٰ سطح کی تحقیق اور ادبی تقریبات کا انعقاد اور پھر ’’بنیاد‘‘ کے ذریعے اسے قارئین تک پہنچانا۔
بنیاد کا اجرا ۲۰۱۰ء میں ن ۔م راشد کے صد سالہ جشن ولادت کے موقع پر کیا گیا۔ لمز نے باقاعدہ جشن صد سالہ کے سلسلے میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا اور بنیاد کے پہلے شمارے کو راشد ہی سے منسوب کر کے ن م راشد (خصوصی شمارہ) جاری کیا ۔یوں بنیاد کی ابتدا ہی بڑی پروقار اور بھرپور انداز میں ہوئی۔ ایسے میں یہ پہلا شمارہ ہے جس کی ابتدا ہی خاص نمبر سے ہوئی۔
بنیاد کے اب تک ۴ شمارے منظر عام پر آ چکے ہیں۔بنیاد میں علمی و تحقیقی مضامین کے ساتھ ساتھ تراجم شائع کرنے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ بنیاد کو عصر رواں کے بہترین ادیبوں اور محققین کا تعاون حاصل ہے، جن میں شمس الرحمٰن فاروقی ، ڈاکٹر تبسم کشمیری، سعادت سعید، ضیاء الحسن ، محمد سعید، خورشید رضوی اور معین الدین عقیل ۔ یوں مجلے میں بہترین تحقیقی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ صدف چغتائی کا ڈیزائین کردہ ٹائٹل صفحہ اور اس میں ایڈیٹنگ اور رموز اوقاف کا خاص طور سے خیال رکھا جاتا ہے تاکہ قارئین کو پڑھنے سمجھنے میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بنیاد اردو رسائل و جرائد کی فہرست میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ ادارے کی اس مجلے کو شائع کرنے میں دلچسپی اور اچھے قلمکاروں کاتعاون دیکھ کر لگتا ہے کہ بنیاد بہت جلد اردو کے اچھے رسائل کی فہرست میں اپنا نام شامل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
مبصر : نبی احمد
ما ہنامہ سنگت
کوئٹہ،بلوچستان سے شائع ہونے والا ماہنامہ’’ سنگت ‘‘ جون۲۰۱۲ء اس وقت پیش نظر ہے جس کے سر پرست بلوچستان کے معروف ترقی پسند، انسان دوست، ادیب اور دانشور عبداللہ جان جمالدینی ہیں۔ عبداللہ جان جمالدینی کو کون نہیں جانتا ہوگا۔ شاید وہی نہ جانتا ہوگا جو بلوچستان کونہ جانتا ہو جناب عبداللہ جان جمالدینی اور ان کے دیرینہ رفیق سائیں کمال خان شیرانی نے بلوچستان میں ترقی پسندانہ نظریات اور علم و دانش سے محبت کی روایت قائم کرنے میں اپنی ساری عمر کپھا دی۔ ان لوگوں نے ایسے ہی بلند آدرش رکھنے والے اورعلم و آگہی پھیلانے والے ادیبوں اور دانشوروں کا جو معتبر اور نیک نام گروہ تشکیل دیا اس کے سر خیل ڈاکٹر شاہ محمد مری ہیں جو اس رسالے ’’ سنگت ‘‘ کے مدیر ہیں۔ یہ ماہنامہ اپنے اعلیٰ نصب العین اور بہترین معیار کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑی باقاعدگی سے ہر ماہ شائع ہوتا ہے۔یہ شاید پاکستان کا واحد رسالہ ہے جس میں مختلف پاکستانی زبانوں یعنی اردو، براہوئی ،بلوچی،پشتو،پنجابی،سرائیکی،سندھی اورفارسی کے ساتھ ساتھ انگریزی کی تخلیقات بھی شائع ہوتی ہیں۔
’’سنگت‘‘ کے اداریے اعلیٰ فکری موضوعات اور منفرد اسلوب کے باعث بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ تاہم اب کچھ عرصے سے سنگت کے قارئین ان اداریوں سے محروم نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر مری سے التماس ہے کہ وہ پہلے کی طرح ’’سنگت‘‘ کا اداریہ ضرور لکھا کریں ۔شمارہ کے سر ورق پر مشہور انقلابی رہنما ٹا مسں پین کی تصویر ہے جبکہ اس کی ابتداء معروف شاعر گلزار کی ایک بہت ہی خوبصورت نظم’’ کتنی گرہیں کھولی ہیں میں نے‘‘ سے ہوتی ہے جس میں عورت خوبصورتی کے ایک سنگی مجسمے کے بجائے بطور انسان اپنی شناخت طلب کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے بعد جینی کا ایک خط مارکس کے نام ہے جو انتہائی دلچسپ اور دو عظیم انسانوں کے محبت آمیز جذبات سے مملوہے یہ خط اردو میں ہے تاہم مترجم کا نام ندارد ہے۔ اس کے بعد مشہور ناول و افسانہ نگار رضیہ فصیح احمد کا مشتاق احمد یوسفی پر لکھا ہوا ایک مضمون ہے جو تاثراتی تنقید کا خوبصورت نمونہ ہے اس میں یوسفی صاحب کی تحریروں سے مثالیں بھی دی گئی ہیں اس شمار ے کے دیگر اہم مضامین میں لینن اورجمالیات از جاوید اختر صنعتی یورپ سے بلوچ کا تعلق واسطہ از ڈاکٹر شاہ محمد مری اورشال ٹرایالوجی وغیرہ ہیں جبکہ راقم کا ایک مضمون بھی اس میں شامل ہے۔ شخصی احوال کے ضمن میں تین اہم مضامین ہیں جن میں سے ایک گہر ہونے تک از برکت شاہ جو کہ سائیں کمال خان کی شخصیت پر لکھاگیا ہے جبکہ دیگر دو مضامین میں سے ایک سی آر اسلم اور دوسرا عطاء اللہ ملک کے بارے میں ہیں۔ ان مضامین میں تینوں بزرگوں کے بارے میں کچھ نئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ اس شمارے کا ایک قابل لحاظ حصہ اردواور بلوچی شاعری پر مشتمل ہے۔ اس میں نمایاں نام گلزار، زہرا نگاہ، عرفان صدیقی ،ڈاکٹر منیر رئیسانی ،کا می شاہ، دانیال طر یر اور عمران ثاقب کے ہیں۔ شمارے کے آخری صفحے پر سٹیزن ٹام پین کے بارے میں جاوید اختر نے مختصر مگرجامع معلومات دی ہیں اور اس طرح اس انقلابی رہنماء کوگوشہ گمنامی سے نکالنے کی سعی کی ہے۔ اس شمارے میں مختلف صفحات پر بعض بلوچ قبائل اوران کی ذیلی شاخوں کا مختصر تعارف بھی دیا گیا ہے ۔اس طرح یہ شمارہ مختلف تحریروں کا ایک خوبصورت مرقع بن گیا ہے جو کوئی بلوچستان کے مزاج کو سمجھنا چاہتا ہے اس کے لئے سنگت کا مستقل طورپر مطالعہ ازبس ضروری ہے ۔
سلسلہ وار’’فرد‘‘
رسالہ فرد کا شمارہ نمبر۳،مئی ۲۰۱۲ء پیش نظر ہے اسے انڈو یجوئل لینڈ نامی ادارہ مختلف موضوعات کے تحت اسلام آباد سے شائع کرتا ہے اور اس کے مدیر حمزہ خان ہیں اس شمارے سے ادارے کے متعلق جو آگاہی ملتی ہے اس کے مطابق یہ ایک غیر جماعتی اور غیر منافع بخش ادارہ ہے جو قانون کی بالادستی ،آزادمیڈیا،سول سوسائٹی کے استحکام اور جمہوریت کی ترقی کے لئے کام کرتا ہے۔ یہ ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے افراد کی تربیت بھی کرتا ہے اس کا موجودہ شمارہ بلوچستان کے حوالے سے ہے اور اس کا موضوع ’’بلوچستان میں میڈیا کی حالت‘‘ ہے حالانکہ اسے بلوچستان میں میڈیا کی حالت زار ہونا چاہیے تھا۔ مدیر کے مطابق’’ اس شمارے کا مقصد صوبے میں ذرائع ابلاغ کے مختلف عناصر کا جائزہ اور ان کے بارے میں سمجھ پیدا کرنا تھا ‘‘اس کا پہلا مضمون’’ بلوچستان میں داستان صحافت کی‘‘ کے عنوان سے ہے جس کے مصنف ارشاد مستوئی ہیں۔ یہ ایک طویل مضمون ہے جس میں بلوچستان میں صحافت کی بالخصوص اردو صحافت کی تاریخ تفصیل سے بیان کی گئی ہے اور اس میدان میں کا م کرنے والے اولین اور اہم ترین صحافیوں کی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ صحافت ان لوگوں کا پہلا یا بنیادی کام نہیں تھا ان میں سے اکثر لوگ میدان سیاست کے شاہ سوار تھے یا پھر ادب پڑھنا اور لکھنا ان کی زندگی کا اہم قرینہ تھا۔ صحافت کو انہوں نے اپنے مشن تک پہنچنے کا زینہ بنایا اور اسے اپنے عہد ، معاشرے اور عوام کو شعور عطا کرنے کا ایک وسیلہ بنایا ۔بلوچستان میں صحافت کے ارتقاء کو اس تناظر میں دیکھنا بہت ضروری ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ یہ لوگ ادب و سیاست کے ساتھ ساتھ صحافت کے بھی مرد میدان رہے۔ یہ اکابر ین بلوچستان کے نمائندہ ترین لوگ تھے ان میں عبدالصمد خان اچکزئی، میرعبدالعزیز کرد، یوسف عزیز مگسی ،محمد حسین عنقا، بابو عبدالکریم شورش، ملک محمد پناہ اور ملک محمد رمضان وغیرہ شامل ہیں۔ناموں کی یہ کہکشاں صاف بتاتی ہے کہ یہ لوگ بلوچستان میں سر سید احمد خان کے مکتب فکر کے پیروکار تھے۔ سر سید بر صغیر کے پہلے شخص تھے جن کی ذات میں ادب، سیاست اور صحافت یکجا ہوگئے تھے۔ مضمون میں بلوچستان سے جاری ہونے والے ابتدائی اخبارات کے نام اور ان کے مالکان و مدیران کا تفصیلی ذکر ملتا ہے جبکہ آج کے حوالے سے بلوچستان میں اہل صحافت کو در پیش مسائل اور صحافت کے معیار پر بلوچستان کے مختلف صحافیوں کی آراء بھی پیش کی گئی ہیں جبکہ مضمون کے آخر میں بلوچستان کے ان بیس صحافیوں کا تفصیلی تعارف و تذکرہ کیا گیا ہے جو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران مختلف اوقات میں ہلاک کیے گئے جس سے بلوچستان کے صحافیوں کو در پیش زندگی کے خطرے اور مشکل حالات کا واضح اظہار ہوتا ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ فاٹا اورسوات کی طرح بلوچستان بھی صحافیوں کے لئے ایک خطرناک علاقے کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔
اس کے بعد جو دو مضامین ہیں وہ ’’کارکن صحافیوں کو در پیش چیلنجز اور مواقع ‘‘اور ’’بلوچستان میں صحافت کو در پیش خطرات‘‘ کے عنوانات کے تحت ہیں جو بالترتیب شہزادہ ذوالفقار اورسلیم شاہد کی تحریریں ہیں۔ ان مضامین میں بلوچستان میں صحافت سے متعلق مسائل کو تفصیلاً زیر بحث لاتے ہوئے یہاں کے صحافیوں کو در پیش دو طرفہ خطرات یعنی علیحدگی پسند قوتوں اور حکومتی اداروں کی طرف سے آنے والے دباؤ کے بارے میں بتایا گیا ہے جبکہ یہاں زرد صحافت اور ڈمی اخبارات کی بہتات کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس میدان میں آنے والی کالی بھیڑوں کا احوال بھی قلمبند کیا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں بہت کم لوگ صحافت کو بطور پیشہ اور بطورایک نصب العین اختیار کرتے ہیں صحافیوں کی اکثریت اسے جزوقتی یا پارٹ ٹائم جاب کے طورپر اختیارکرتی ہے ایسے لوگ زیادہ تر غیر تربیت یافتہ بھی ہوتے ہیں جن کا مدعا محض شہرت کا آسان حصول اور سرکار دربار میں اثر و رسوخ حاصل کرنا ہوتا ہے اس شمارے کے ان مضامین میں کوئٹہ سے باہر اور بلوچستان کے چھوٹے چھوٹے شہر وں میں رہنے والے صحافیوں کے مسائل اور صحافت کے معیار پر بھی بیباکانہ اظہار خیال کیا گیا ہے کہ انہیں کیسے مقامی سرداروں ،نوابوں اور مذہبی رہنماؤں کے دباؤ کا بیک وقت سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اخبارات کے مدیر اور مالکان بھی ایسی صورتحال سے آئے دن گزر تے ہیں۔
اگلے دو مضامین میں مجموعی طورپر پرنٹ میڈیا کے حوالے سے بلوچستان کی خبر نگاری اور یہاں کے مسائل کی عکاسی پر تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے اور اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ چاہے نو بجے کے قومی خبروں کے بلیٹن ہوں یا دوسرے اوقات ان میں بلوچستان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے حالانکہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی ،لا قانونیت ،بد امنی اور سماجی انتشار کے باعث اب یہ قومی سطح سے اٹھ کر عالمی سطح کا مسئلہ بنتا نظر آتا ہے اس حوالے سے میڈیا کے کردار پر بھی نکتہ چینی کی گئی ہے ۔اس شمارے میں شامل آخری مگر ایک مختصر مضمون بلوچستان کے مختلف شہروں میں قائم پریس کلبوں کے جائزے پرمشتمل ہے۔ اس میں تفصیلی جائزہ تو نہیں ہے البتہ صرف ان پریس کلبوں کے نام اور ان کے قائم ہونے کی تاریخ بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اس شمارے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں پاکستان کے مشہور کارٹونسٹ فاروق قیصر کے بنائے ہوئے انتہائی معنی خیز اور بلوچستان کے حالات و مسائل کی صحیح طورپر نشاندہی کرنے والے رنگین کارٹون شامل ہیں جو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ معنی خیز تبصروں سے مزین ہیں ۔
اس طرح یہ شمارہ نہ صرف بلوچستان میں میڈیا کی حالت زار کو اجاگر کرتا ہے بلکہ بعض اہم سوالات اٹھاتے ہوئے ان کے حل کے لئے ملک اور معاشرے کے اہم طبقات کو مختلف اقدامات کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے جس سے اس کی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔ اس کے مدیر حمزہ خان یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔
مبصر: فیصل احمد گوندل
ار قم
’’ارقم‘‘ دارِ ارقم ماڈل کالج راولا کوٹ کا مجلہ ہے۔ پیش نظرمجلہ اس سلسلے کا تیسرا شمارہ ہے۔ ۴۳۲صفحات پر مشتمل اس ضخیم مجلے میں عقیدت ، تحقیق، فکرونظر، یادرفتگان، سفرنامہ، آتے ہیں غیب سے، ماں بولی، تعارف و تبصرہ ، ارقم کے لیے مراسلت اور مشاہیر کے عنوانات جیسے گراں قدر مواد کو یکجا کیا گیا ہے۔ ’’مشاہیر نمبر‘‘ کے اس خصوصی شمارے میں ڈاکٹر رفیع الدین احمد، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، سید مظفر حسن شاہ ندوی جیسے ۱۲ اہل علم و دانش پر تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں۔ ارقم کی پہلی بات میں لکھا ہے کہ: تخلیق کے ساتھ تحقیق و تنقید میں بھی ہر مرحلہ، گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ تحقیق میں اصل مآخذ تک رسائی، اور تنقید میں بے لاگ رائے کا اظہار (کسی مروّت کے بغیر) کوئی سہل کام نہیں ہے۔
’’ارقم‘‘ کا دائرہ بھی تخلیق، تحقیق اور تنقید ہے۔ ان موضوعات پر ریاست کے دونوں حصوں کے علاوہ بیرون ریاست کے ممتاز اہلِ قلم کی تحریریں ’’ارقم‘‘ کے صفحات کومحیط ہیں۔ گزشتہ شمارے کو ملنے والی پذیرائی اور موصول ہونے والے تبصروں سے ہمیں حوصلہ ملا ہے کہ جدیدیت کی چکا چوند سے مرعوب معاشرے میں کتاب سے تعلق اور طلب آج بھی موجود ہے۔اس جہانِ رنگ و بُو میں ’الکتاب‘ کے حرف و لفظ جب تک موجود ہیں اُس وقت تک انسانی ذہن کتاب کی گرفت سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ ’’ارقم‘‘ میں منقسم ریاست جموں و کشمیر کے دونوں اطراف کے نمائندہ اہلِ قلم (بلاامتیاز مذہب و مسلک) کی تحریریں اُس تاریخی المیے کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ریاست کے قلب پر کھینچی لکیر(LoC)ایک جبری سرحد ہے، ورنہ پونچھ، مظفر آباد، میر پور، سری نگر اور جموں کے اہل قلم کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ جسمانی دوری کے باوجود ان کے درمیان روح کا رشتہ تابندہ ہے۔
ارقم کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر جبکہ مدیر فیاض نقی ہیں۔ ملنے کا پتا دارارقم ماڈل کالج سی ایم ایچ روڈ، راولا کوٹ آزاد کشمیر ہے۔
مبصر: تجمل شاہ