اس ماہ کے منتخب مصنفین

پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ

 

معاصر تنقیدی رویےّ اور ناصر عباس نےئر
اس حقیقت سے انکا رنہیں کیا جاسکتا کہ ادبی تنقید اب بین العلومی( Interdisciplinary) بن چکی ہے اور معاصر سماجی علوم سے اس کا رشتہ کافی حد تک استوار ہوچکا ہے۔ تنقید کا اب وہ مفہوم ، مقصد اور فنکشن نہیں رہا جو پہلے متصور کیا جاتا تھا۔ تنقیدی رویوں میں اس انقلابی نہج کی تبدیلی کا آغاز گزشتہ صدی کی دوسری دہائی سے ہوتا ہے جب سوویت یونین میں ہےئت پسندی (Formalism) اور فرانس میں لسانیاتِ جدید (Modern Linguistics) کی داغ بیل پڑتی ہے۔ فرڈی نینڈ ڈی سسیور(م: ۱۹۱۳ء ) لسانیاتِ جدید کا ابو الآباتسلیم کیا گیا ہے جس کے فلسفۂ لسان نے معاصر تنقیدی رویّوں کو گہرے طور پرمتاثر کیا ہے۔
ناصر عباس نےئر کا شمار عہد حاضر کے دور کے ان کشادہ ذہن ناقدین میں ہوتا ہے جو نہ صرف نئی ادبی تھیوری کی آگہی رکھتے ہیں بلکہ جنھیں نئے تنقیدی رویوں کے لسانیاتی مضمرات کا بھی احساس ہے۔ اس احساس وآگہی کے بغیر نہ تو ساختیات وپس ساختیات سے انصاف کیا جاسکتا ہے اور نہ نشانیات واسلوبیات سے اور نہ ہی کسی اور معاصر تنقیدی رویّے سے۔
گزشتہ صدی کے آخری چند دہوں کے دوران مختلف سائنسی وسماجی علوم میں جو غیر معمولی پیش رفت ہوئی ہے اس کے ا ثرات عالمی سطح پر تنقیدی رویوں پر بھی چیلنج کی صورت میں مرتسم ہوئے ہیں ۔ ناصر عباس نےئر اُردو کے تناظر میں ہر نئے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کی بھرپورعلمی وفکری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی حالیہ تصنیف ، لسانیات اور تنقید (اسلام آباد: پورب اکادمی ۲۰۰۹ء ) ان کی اس صلاحیت کا بین ثبوت ہے۔ اس کتاب میں ۱۴ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ بہ قولِ مصنف ’’ دو مختلف موضوعات پر نظری اور عملی تنقیدی مضامین ہیں ، مگر ان میں باطنی سطح پر ایک ہم آہنگی نظر آئے گی ، ایک خاص تنقیدی مؤقف دکھائی دے گا ، ادب ، تاریخ ، زبان نظریات کو جانچنے کی ایک ’پوزیشن‘ محسوس ہوگی۔ ‘‘(ص۸) اس کتاب کے مضامین کے بارے میں ستیہ پال آنند (جنھوں نے اس کتاب کا دیباچہ تحریر کیا ہے ) لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے ان مضامین کو اپنی علالت کے باوجود بے حد خوشی سے پڑھا۔ کچھ نکتے تو ایسے تھے جن کے بارے میں میری واقفیت محدود تھی اور ان مضامین نے اس میں اضافہ کیا۔ ان کی Range and Reach اتنی وسیع ہے کہ انھیں پڑھنے اور سمجھنے کے لیے Encyclopedic Knowledge کی ضرور ت ہے۔‘‘(ص ۲۲)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ناصر عباس نےئر کا نئی تنقیدی تھیوری اور اس کے مضمرات کا مطالعہ نہایت وسیع ہے۔ وہ نئے ذہنی فکری رویوں کے زیرِ اثر فروغ پانے والے تنقیدی رجحانات کے نظری پہلوؤں سے کماحقہ ٗ واقفیت رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے عملی واطلاقی نمونے پیش کرنے کی بھی غیر معمولی اہلیت واستعداد رکھتے ہیں۔ ان کا ذہنی افق ساختیاتی ، پس ساختیاتی اور رد تشکیلی نظریات سے لے کر مابعد جدیدیت ، مظہریت ، نو تاریخیت اور تانیثیت ، نیز گلوبلائزیشن اور مابعد نوآبادیاتی صورتِ حال تک پھیلے ہوئے تمام تصورات اور فکری جہات کا بہ خوبی احاطہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں انھیں ادبی تاریخ ،ادبی تحریک اور تحقیق وتنقید کے نئے پراڈایم کا بھی فہم وادراک ہے اور ادب ، لسانیات اور تنقید کے باہمی رشتوں پر بھی ان کی نظر بہت گہری ہے۔
متذکرہ کتاب کے ایک سیر حاصل مضمون ’’ ساختیات۔۔۔ حدود اور امتیازات‘‘ میں ناصر عباس نےئر نے ساختیات کی بنیادی فکرسے بحث کرتے ہوئے ان اعتراضات کا کافی وشافی جواب دیا ہے جو ساختیات پر اکثر کیے جاتے رہے ہیں۔ انھوں نے اس ضمن میں ہمارے یہاں ساختیات کے دیر سے فروغ پانے کی ثقافتی ، فکری اور علمی وجوہ بھی بیان کی ہیں۔ ان کے خیال میں ہمارے یہاں ساختیاتی مباحث اسّی کی دہائی میں اس وقت شروع ہوئے جب مغرب میں پس ساختیاتی مباحث کا آغاز ہوچکا تھا۔ ہر چند کہ پس ساختیاتی فکر ، ساختیات کے بعد معرض وجود میں آئی تاہم ساختیات کے مباحث ختم نہیں ہوئے۔ ساختیاتی فکر آج بھی پس ساختیات اور مابعد جدیدیت کے مباحث میں پس منظر کے طور پر جاری وساری ہے۔ ناصر عباس نےئر کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ ’’ جملہ پس ساختیاتی نظریات (جیسے ڈی کنسٹرکشن ، نو تاریخیت ، نور ماکسیت ، نو تحلیلِ نفسی ، تانیثی تنقید وغیر ہم) پر مدلل گفتگو ساختیات کی کامل تفہیم کے بغیر ممکن نہیں ‘‘(ص ۶۶) ناصر عباس نے بجا طور پر سوس ماہر لسانیات فرڈی نینڈ کو ’’ ساختیات کا بانی ‘‘ قرار دیا ہے۔
اپنے ایک اور مفصل مضمون ’’ مابعد جدیدیت کا فکری ارتقا‘‘ میں ناصر عباس نےئر نے مابعد جدیدیت کے نئے چیلنج سے مدلل انداز میں بحث کی ہے۔ ان کے خیال میں مابعد جدیدیت کا ڈسکورس ۱۹۶۰ء کی دہائی میں قائم ہوا۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اس کا ’’ چرچا‘‘ جامعات کی سطح پر ہونے لگا اور زیادہ تر’’ ثقافتی مطالعات ‘‘ تک محدود رہا، لیکن ۱۹۸۰ء کی دہائی میں مابعد جدیدیت آرٹ ، ادب، فلسفے اور دیگر شعبوں میں زیرِ بحث آنے لگی۔ یہ بات نہایت دل چسپ ہے اورجس کی طرف اشارہ ناصر عباس نےئر نے بھی کیا ہے کہ مابعد جدیدیت کا ڈسکورس اولاً آر کی ٹیکچر میں رائج ہوا تھا۔ اس کے بعد دوسرے شعبوں میں اس کی پذیرائی ہوئی۔ ناصر عباس نے نہایت پتے کی بات کی ہے کہ مابعد جدیدیت اور پس ساختیات کے مباحث میں ’’ معاصریت ‘‘ یعنی ہم زمانی کا رشتہ ہے ، کیوں کہ ان کے بہ قول’’ جب آر کی ٹیکچر میں مابعد جدیدیت موضوع بحث بن رہی تھی ، تب یورپ کی دانشورانہ فضا پر ساختیات کا غلبہ تھا اور جب مابعد جدیدیت جامعات میں پہنچ رہی تھی اس وقت پس ساختیات کے مباحث عام ہورہے تھے (اور پس ساختیات میں دریدا کی ڈی کنسٹرکشن اور میشل فوکو [کے] نظریات بہ طور خاص اہم ہیں)‘‘(ص ۹۵) ۔ اپنے ایک اور مضمون ’’ مابعد جدید عہد میں ادب کا کردار ‘‘ میں ناصر عباس نےئر نے مابعد جدیدیت کے فکری مباحث کا رخ ادب کی جانب موڑتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ مابعد جدید عہد میں ادب کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ ان کا یہ سوال تمام مابعد جدید ناقدین کو دعوتِ فکر دیتاہے۔
ناصر عباس نےئر نے اس کتاب میں جدیدیت کی فکری اساس کو بھی اپنی بحث کا موضوع بنایا ہے۔(دیکھیے مضمون ’’ جدیدیت کی فکری اساس‘‘) جدیدیت کے موضوع پر اُردو میں اب تک جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اس سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں جدیدیت پر اُردو میں لکھے گئے مقالات ایک ’’عجیب انتشار‘‘ کو پیش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ’’ جدیدیت کے مرکزی تعقلات کی وضاحت میں خوب آزادی سے کام لیا گیا اور ان تعقلات کی تعبیر میں من مانی کی گئی ہے۔‘‘ (ص ۱۵۶) ناصر عباس نے آل احمد سرور ، ن م راشد،و زیرآغا شمیم حنفی اور محمد حسن کی تنقیدی تحریروں سے اقتباسات پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ ’’ اُردو میں جدیدیت کو All-Inclusive اصطلاح کے طور پر برتا گیا ہے۔ اس ایک اصطلاح سے وہ سارے مطالب وابستہ کردیے گئے ہیں جو جدیدیت کے ممکنہ اور لغوی معنی ہیں ؛ جو بیک وقت ماڈرینٹی اور ماڈرن ازم کے ہیں اور وہ معانی بھی جو نہ ماڈرنیٹی کے ہیں نہ مادرن ازم کے، محض ایجاد بندہ ہیں۔ ‘‘(ص ص ۵۷۔۱۵۶) ۔ ناصر عباس نے بڑی وضاحت اور دلائل کے ساتھ انگریزی اصطلاحات ’’ ماڈرنیٹی ‘‘ اور ’’ ماڈرن ازم ‘‘ کے درمیان فرق کو بتلایا ہے ۔ ہمارے اکثر ناقدین انگریزی کی مذکورہ دونوں اصطلاحوں کے لیے لفظ ’’ جدیدیت ‘‘ ہی استعمال کرتے رہے ہیں ، ناصر عباس نے ماڈرینٹی کے لیے ’’ جدیدیت اول ‘‘ اورماڈرن ازم کے لیے ’’ جدیدیت دوم ‘‘ کی اصطلاحیں استعمال کی ہیں تاکہ خلطِ مبحث نہ ہونے پائے۔
ناصر عباس نےئر نے اپنی متذکرہ کتاب کے ایک مضمون ’’ اقبال اور جدیدیت ‘‘ میں یہ خیال پیش کیا ہے کہ ہر چند کہ اقبال مغربی ادبیات سے پورے طور پر واقف تھے ، تاہم ماڈرن ا زم ، جو اقبال کی معاصر یورپی تحریک تھی ، کے براہِ راست اثرات ان کی شاعری پر نظر نہیں آتے۔ اس سلسلے میں ناصر نے یہ سوا اٹھایا ہے کہ کیا قبال اس تحریک سے آگاہ نہیں تھے اور اگر آگاہ تھے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی نظرِ انتخاب اس تحریک کو ان کی شعری مقاصد سے ہم آہنگ نہ محسوس کرتی ہو۔ کافی بحث وتمحیص کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اقبال پر مغربی جدیدیت کے اثرت نہیں تھے ان کے خیال کے مطابق اقبال نے مغربی ادبیاتی سے اخذ واستفادے کا عمل اپنے ابتدائی دور میں شروع کیا تھا اور ۱۹۱۰ء تک ان کا شعری مائنڈسیٹ متشکل ہوچکا تھا۔ واضح رہے کہ مغرب میں ماڈرن ازم کی تحریک کا زمانہ ۱۹۱۰تا ۱۹۳۰ء قرار دیا گیا ہے۔ ناصر عباس لکھتے ہیں کہ ’’ جن دنوں [مغرب میں ]ماڈرن ازم کی تحریک زور شور سے جاری تھی ، اقبال مغربی تہذیب پر تنقید کا آغاز کرچکے تھے اور ماڈرن از مغربی تہذیب ہی کا جمالیاتی مظہر ہے۔‘‘(ص ۱۲۷) اقبال کے ماڈرن ازم سے راست ربط وضبط نہ رکھنے کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اقبال ’’ ایک مختلف تصور کائنات اور مائنڈ سیٹ کے علمبردار تھے ۔‘‘، اسی لیے انھوں نے ماڈرن ازم سے کوئی سروکار نہیں رکھا۔
اپنی کتاب ’ لسانیات اور تنقید ‘ میں ناصر عباس نےئر نے فکشن کی تنیقد ، ادبی تاریخ نویسی میں تنقید کی اہمیت اور ادبی تحریک جیسے مباحث سے بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ فکشن کی تنقید کے سلسلے میں انھوں نے پرانے اور نئے دونوں نظری مباحث اٹھائے ہیں۔ پرانے نظریے (روسی ہےئت پسندی اور ساختیات کے ارتقاء سے قبل کا نظریہ ) کی رو سے فکشن کا زندگی سے گہرا اور اٹوٹ رشتہ سمجھا جاتا تھا لیکن نئے نظریے نے ، جو روسی ہےئت پسندوں کا نطریہ تھا ، ’’ فکشن کو زندگی اور خارجی حقیقت سے الگ کر کے دیکھا اور اس امر کو باور کرانے کی سعی کی کہ فکشن کی ایک اپنی حقیقت ہے اوروہ کسی دوسری اور خارجی حقیقت پر منحصر نہیں‘‘(ص۲۲۵) ۔ ادبی تاریخ نویسی کے سلسلے میں ناصر نے تنقید کی اہمیت پر زور دیا ہے ان کا موقف ہے کہ’’ تنقید کو تاریخ سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘انھوں نے اس امر کا بھی ذکر کیا ہے کہ کچھ لوگ ادبی تاریخ نویسی میں تحقیق کو تنقید پر فوقیت دیتے ہیں ، مثلا گیان چند جین اور رشید حسن خاں کا موقف ہے کہ تحقیق سے صرفِ نظر کر کے ادبی تاریخ نہیں لکھی جاسکتی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں اصلاً’’ محقق‘‘ ہیں۔
ناصر عباس نےئر کی علمی دلچسپی کا موضوع ’’ نو آبادیاتی صورتِ حال ‘‘ بھی ہے۔ چنانچہ اس عنوان سے لکھے ہوئے اپنے ایک مضمون میں انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جہاں ایسی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے وہاں ’’ دود نیاؤں ‘‘ کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ ایک دنیا وہ ہوتی ہے جو نوآباد کار کی دنیا کہلاتی ہے اور دوسری دنیا نو آبادیاتی مقامی باشندوں کی دنیا ہوتی ہے۔ یہ دونوں دنیائیں ایک دوسرے کی ’’ ضد‘‘ ہوتی ہیں۔ البرٹ میمی (Albert Memmi) کے خیال سے اتفاق کرتے ہوئے ناصر عباس کہتے ہیں کہ نوآبادیاتی باشندوں کے لیے دوہی صورتیں ہوتی ہیں ، ’’ انجذاب‘‘یا ’’ بغاوت‘‘۔ انجذاب کی صورت میں ’’نوآبادیاتی باشندہ یا تو نو آباد کار جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے ، اس کی شخصیت ، ثقافت ، نظامِ فکر ، اقداری نظام کو مکمل طور پر جذب کرنے کی سعی کرتا ہے ، یا پھر اس کے خلاف بغاوت کرتا اور اپنی بازیافت کے عمل سے گزرتا ہے۔‘‘(ص ۲۸)
آج کی دنیا گلوبلائزیشن یا عالم کا ریت کی زد میں آکر ایک گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے جس سے چھوٹی اوراقلیتی زبانوں کو شدید خطرہ لاق ہوگیا ہے ۔ ناصر عباس نےئر نے اپنے مضمون ’’ گلوبلائزیشن اور اُردو زبان ‘‘ میں اسی مضمون پر اظہار خیال کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ’’ گلوبلائزیشن ثقافتی ولسانی یکسانیت کی زبردست مداح اور مابعد جدیدیت کے برعکس ثقافتی ولسانی تنوع ( Diversity) کی مخالف ہے۔ ‘‘(ص ۱۹۱) گلوبلائزیشن نے اُردو زبان کو کئی زاویوں سے متاثر کیا ہے جن کا ذکر ان کے اس مضمون میں ملتا ہے۔
متذکرہ کتاب کے آخری دو مضامین جن میں افسانوی تنقید اور تحقیق کے پیراڈایم کی بات کہی گئی ہے انتہائی فکر انگیز ہیں اور نہایت توجہ سے پڑھے جانے کے متقاضی ہیں۔ یہ مضامین جامعاتی سطح پر کام کرنے والے تحقیق کاروں کے لیے نئی روشنی فراہم کرتے ہیں اور تحقیق طریقِ کار کے نئے دروا کرتے ہیں۔
مذکورہ کتاب کا ایک اور مضمون بھی لائق توجہ ہے جس میں ناصر عباس نےئر نے فراق ؔ گورکھپوری کے لفظی پیکروں (تمثالوں) کواپنے مطالعے اور تجزیے کا موضوع بنایا ہے۔ فراقؔ کی شاعری کی خاطر خواہ تحسین اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہم ان کے شعری پیکروں کو Appreciate نہ کریں۔ ہمارے ناقدین فراق کی شاعری پر گفتگو کرتے وقت اکثر اس پہلو سے صرفِ نظر کر جاتے ہیں ، لیکن ناصر عباس نے بڑی دقتِ نظر اور انتہائی معروضیت کے ساتھ ان پیکروں(Images) کا مطالعہ اپنے مضمون ’’ کلامِ فراق کے لفظی پیکر ‘‘ میں پیش کیا ہے۔ اس مطالعے سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ یہ کہ فراق کے لفظی پیکروں میں ’’ ہندوستانیت کی بوباس ‘‘ رچی بسی ہے ، اس میں ’’ ایمائیت ، تمثیلیت اور استعاراتی پہلو ‘‘ پائے جاتے ہیں ، نیز یہ شاعری کے ’’ جمالیاتی تجربے ‘‘ کی عکاسی کرتے ہیں اور شاعرانہ تخلیق عمل سے ایک ’’ نامیاتی ربط ‘‘ رکھتے ہیں۔
ناصر عباس نےئر کی زیر مطالعہ کتاب ’ لسانیات اور تنقید ‘ نئے تنقیدی رویوں اور معاصر تنقیدی میلانات ورجحانات پر ایک نہایت قابل قدر علمی دستاویز ہے۔ اس کے تمام مقالات ایک عالمانہ شان اور دانشورانہ آن بان رکھتے ہیں اور مصنف کے گہرے اور وسیع مطالعے کے غماز ہیں۔ ناصر کا طرزِ استدلال سائنسی ومعروضی ہے۔ وہ کسی موضوع پر قلم اٹھاتے وقت تحقیق اور چھان بین سے کام لیتے ہیں ۔ نئی ادبی تھیوری اور اس کے مضمرات پر ان کی نظر بہت گہری اور گرفت کافی مضبوط ہے۔ انھوں نے نئی تھیوری کے تمام معاملات پر انتہائی سنجیدہ غور وفکر سے کام لیا ہے۔
یہ کتاب نئی ادبی تھیوری ، نئے ڈسکورس ، نئے مباحث اور نئے تنقیدی رویوں کی افہام وتفہیم کی ایک کامیاب کوشش سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔