شاعری اور زبان احتساب کی زد میں

انتظار حسین

 

ابھی ابھی ہم نے ایک ایسی کتاب پڑھی ہے۔ ارے پوری کتاب کہاں پڑھ پائے، پہلا باب ہی پڑھا تھا کہ ہمارے دل و دماغ کے چودہ طبق روشن ہوگئے اور قدموں تلے سے زمین کھسکتی نظر آئی۔ حافظ ،مولانا جلال الدین رومی، غالب پہلے ہی ہلہ میں ہمارا کیسا کیسا جلیل القدر شاعر احتساب کی زد میں آگیا۔ اور محتسب کون ہیں۔ایک ہیں پروفیسر غازی علم الدین۔گورنمنٹ کالج میر پور، آزاد کشمیر میں تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔
خالی غازی علم الدین صاحب کا معاملہ ہوتا تو ہم یہ سوچ کر چپ ہو جاتے کہ یہ افر ا تفری کا زمانہ ہے۔ ہر قسم کی مخلوق اپنی دانست میں قاضی اور مفتی بنی ہوئی ہے۔ جیسی جس کے خیال میں آئی اس نے لکھ ڈالا ۔پرنٹنگ پریس اندھی مشین ہے۔ جو تحریر اس کی زد میں آ جائے چھاپ ڈالتی ہے اور کہنے والے کی زبان پکڑی جا سکتی ہے مگر لکھنے والے کا قلم نہیں پکڑا جا سکتا۔ مگر ہم نے دیکھا کہ ان بزرگوار کو تو ایک جانے مانے نقاد کی کمک بھی حاصل ہے۔ خیر پہلے سن لیجئے کہ یہ شاعر کس جرم میں پکڑے گئے ہیں۔ حافظ اور غالب کا تو گناہ سیدھا ہے ۔ ان کی شاعری میں شراب خوری کا پروپیگنڈا کیا گیا ہے۔ حافظ شیرازی اپنے دیوان کے پہلے ہی شعر پر پکڑے گئے
الایا ایہالساقی ادرکاساً وناولھا
کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا
اور غالب ۔ الزام ہے کہ بلا کے بادہ خوار تھے۔ ان کی شاعری میں جا بجا شراب کا ذکر ہے۔ ایک غزل کی ردیف ہی شراب ہے اور علی الاعلان کہتے ہیں۔
ع بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
کہتے ہیں کہ ’’اسلامی عقائد و شعائر کی تضحیک اور توہین کے عنصر سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ اس بنیاد پر انہوں نے حافظ اور غالب کی ٹھیک گرفت کی۔ ایک مجرم کا پتہ ہم انہیں دیتے ہیں۔ ان سے چوک ہوئی یا جان کر کسی مصلحت سے صرف نظر کیا۔ وہ علامہ اقبال ہیں۔ غازی صاحب ان کے یہ شعر ملاحظہ فرمائیے۔
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا

میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
علامہ اقبال سے انہوں نے کیا سوچ کر درگزر کیا۔ مگر ان کے مرشد جلال الدین رومی کو تو نہیں بخشا ۔ کون سے شعروں پروہ پکڑے گئے۔ ایسے شعروں پر ؂
دل بدست آور کہ حج اکبر است
از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است
لیجئے ایک اور شاعر اس زد میں آگیا ۔ شعر یوں ہے ؂
مسجد ڈھادے، مندر ڈھادے، ڈھادے جو کجھ ڈھیندا
اک بندے دا دل نہ ڈھاویں رب دلاں وچ رہندا
خود اردو زبان کے محاوروں اور ترکیبوں میں کیسا کیسا کفر بھرا ہوا ہے، اس کی مثالیں بھی انہوں نے دی ہیں۔ ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیے۔
قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے ۔ فرماتے ہیں کہ اس محاورے میں منصب قضا کے حامل یعنی قاضی کی تذلیل کی گئی ہے۔
حکمتی۔ مراد چالا ک شخص ۔ کہتے ہیں کہ یہ حکمت جیسے مقدس لفظ کی توہین ہے۔
یہ جو ہم بولتے ہیں کہ اس کی تو ہمارے فرشتوں کو بھی خبر نہیں۔ یا یہ کہ وہاں تو فرشتوں کا بھی گزر نہیں۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ایسے محاوروں کا استعمال فرشتوں کی حیثیت کو کم کرنے بلکہ گرا دینے کے مترادف ہے۔
بسم اللہ ہی غلط ۔ مراد ابتدا ہی غلط ہو جانا۔ فرماتے ہیں کہ اس میں ذہنی خباثت اور دین اسلام کے خلاف سازش واضح اورعیاں ہے۔
مولا بخش ۔ استاد کا ڈنڈا ۔ اور مولا دو لا مطلب بھولا بھالا، لا پروا۔ فرماتے ہیں کہ لفظ مولا کو جواللہ کے معنی میں ہے استہزا کے انداز میں نئے معنی پہنائے گئے ہیں اور مولا دو لا کی ترکیب میں کس ڈھٹائی سے دولا کا استعمال کر کے عامیانہ انداز اختیار کیا گیا ہے۔
نوج ۔ اردو میں یہ کلمہ پناہ اور کلمہ نفی ہے اور غازی صاحب کی دانست میں یہاں ’’نعوذ ‘ کو بگاڑ کر جو نوج بنایا گیا ہے و ہ نعوذ باللہ لفظ نعوذ کی صریحاََ توہین ہے۔
غازی علم الدین صاحب محاوروں، ترکیبوں روزمرہ کے لفظوں لہجوں میں سے کھود کھود کر کفر برآمد کرتے چلے گئے ہیں اور ہم سوچ میں پڑ گئے کہ انہوں نے تو پوری اردو زبان ہی کو کفر کے کھاتے میں دھکیل دیا۔ مگر ان کا اور ان کے دیباچہ نگار کا دعوٰی یہ ہے کہ وہ اردو کے بہت بڑے محب ہیں ۔
ویسے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمارے بیچ ایسے نابغے آئے دن نمودار ہوتے رہتے ہیں جو شاعری اور زبان میں سے اس طرح کفر برآمد کرتے رہتے ہیں اور ایسی شاعری اور ایسے لفظوں محاوروں کو ممنوع قرار دینے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں اس قماش کا نابغہ جو نمودار ہوا تو وہ تو جرنیل ضیاء الحق صاحب تھے۔ اوراس جرنیل کو حکم صادر کرنے کا اختیار بھی حاصل تھا۔ اس نے اپنے محکموں کو خاص طور پر ٹی وی اور ریڈیو کو حکم دیا کہ شراب اور اس کے متعلقات کاذکر ان کے کسی پروگرام میں نہیں ہونا چاہیے۔ مر تا کیا نہ کرتا ۔ بیچارے ریڈیو کے پروڈیوسر اپنے پروگراموں میں شریک ہونے والوں سے گزارش کرتے تھے کہ دیکھئے شراب کے لفظ سے تھوڑا اجتناب کیجئے ۔ ہم نے پروڈیوسر صاحب سے کہا کہ مئے عرفان یا شراب طہور کا ذکر آ جائے تو اس پر توشاید اعتراض نہیں ہو گا۔ پروڈیوسر ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ مجھے نوکری کرنے دیجئے۔
پھر جرنیل صاحب کے دماغ میں یہ سمائی کہ اللہ تعالیٰ کو خدا کہنا بہت غلط بات ہے۔ سو انہو ں نے حکم جاری کیا کہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ ہی کہاجائے خدا نہ کہا جائے ۔ اس کو تاہ نظر جرنیل نے ذرا تو سوچا ہوتا کہ مسلمانوں کی ساری شاعری میں حمد و نعت تک میں خدا سمایا ہوا ہے۔ تیرا حکم کہاں کہاں چلے گا اور کیسے چلے گا۔
غازی علم الدین صاحب بھی جرنیل ضیاء الحق کے نقش قدم پر چلتے نظر آرہے ہیں۔ لیجئے ایک اور نابغہ ہمیں یاد آگیا۔ ہفتہ وار زندگی میں جواب بند ہو چکا ہے، ایک نابغہ نے ایک مضمون لکھا اور احتجاج کیا کہ نصاب میں یہ کیسی غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ ان میں تو کفر بھرا ہوا ہے۔ اس ذیل میں اس نے علامہ اقبال کی’ بال جبریل‘ والی غزلوں کا حوالہ دیا اور بتایا کہ ان میں اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کی گئی ہے۔
ایسی تحریروں کو یہ کہہ کر درگزر کیا جا سکتا ہے کہ
ع سخن شناس نہ دلبر خطا اینجاست
مگر جب ایسے تصورات کو سند مل جائے کسی ممتاز نقاد کی طرف سے تو بتائیے ہم کیا کریں۔ اس کتاب کا جس کا عنوان ہے ’لسانی مطالعے‘ دیباچہ لکھا ہے ڈاکٹر انوار احمد نے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’پروفیسر غازی علم الدین اردو زبان سے محبت کرنے والے ایک درد مند محقق و زبان شناس ہیں۔ وہ بیان و گفتار میں اردو زبان کے درست استعمال پر نہایت زور دیتے ہیں۔‘‘ واقعی زبان کے درست استعمال پر تو انہوں نے بہت زور دیا ہے اتنا کہ اردو زبان کی اچھی خاصی درستی ہوتی نظر آرہی ہے۔
بشکریہ: روز نامہ ایکسپریس۱۳ جولائی ۲۰۱۲ء
****