عبیداللہ بیگ کی یاد میں

آغا ناصر

نیک دلی، سچائی ، حوصلہ مندی کی جیتی جاگتی تصویر۔ عبید اللہ بیگ آج ہمارے درمیان نہیں ہے۔ ان کے کئی روپ تھے، محقّق، مترجم ، ناول نگار، ڈرامہ نگار، تبصرہ نگار، ریڈیو اور ٹی وی مبصرپروگرام کے میزبان، دستاویزی فلموں کے پروڈیوسراور اس کے علاوہ بہت کچھ۔
عبید اللہ بیگ صحیح معنی میں ایک بے حد ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے زندگی میں بہت کچھ کیا اور بہت نام کمایا مگر میرا خیال ہے اُن کا "کام" اُن کے "نام" سے کہیں زیادہ ہے۔ عبید اللہ بیگ کا اصلی نام حبیب تھا۔ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ انھوں نے اپنا قلمی نام عبیداللہ کس لیے رکھا۔ حالانکہ ان کا اصلی نام بھی بہت خوبصورت تھا۔
وہ ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوئے ان کا وطن مالوف رامپور تھا جہاں سے آزادی کے بعد ہجرت کرکے وہ پاکستان آئے۔
جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ کراچی میں مقیم تھے اور مختلف النوع کا موں میں مصروف رہتے تھے ۔ان سارے کاموں کا تعلق علم و ادب اور تہذیب اور ثقافت سے ہوتا۔ عبید نے کسی کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہیں کی لیکن دینی مدارس ، علمی اور تہذیبی اداروں سے وابستگی نے انھیں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی فہرست میں شامل کردیا۔ انھوں نے بہت ہی ابتدائی زمانے سے لکھنا شروع کیا۔ وہ ہر طرح کی چیز لکھنے پر قدرت رکھتے تھے۔ افسانہ ، ناول ، ڈرامہ اور مقالے وہ ہر موضوع پر لکھتے تھے۔ مگر ان کی اکثرتخلیقات پر ان کا نام درج نہیں ہوتا تھا۔ یہ سب تحریریں ان کے لیے روزگار کا ذریعہ تھیں۔خاص طو رپر مختلف نوعیت کی کتابوں ، مضامین اور تقاریر کا اردو میں ترجمہ کرنا ان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔اس طرح ترجمہ کرنے میں انھیں اس قدر مہارت حاصل ہوگئی کہ وہ صفحوں کے صفحے بہت ہی کم وقت میں مسلسل ترجمہ کرنے پر قادر تھے۔ زبان و بیان پر عبید کو اس قدر قدرت حاصل تھی کہ ترجمہ بھی ان کی اپنی تخلیق معلوم ہوتا تھا۔
میں ان دنوں کالج کا طالبِ علم تھا اور گاہے گاہے عبید سے ملاقات ہوتی رہتی تھی ان کے دوستوں کا ایک مخصوص حلقہ تھا جن میں غازی صلاح الدین ، غیاث الدین احمد اور سہیل ظہیر لاشاری وغیرہ شامل تھے۔
ان بکھری بکھری ملاقاتوں نے ایک باقاعدہ صورت اس وقت اختیار کر لی جب۱۹۶۷ء میں عبید نے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے کام کا آغاز کیا۔
ٹی وی کے ساتھ ان کی وابستگی دو پروگراموں کے ذریعہ سے ہوئی۔ ایک کسوٹی دوسرے سیلانی کے ساتھ ۔ کسوٹی ایک انتہائی مقبول سوال و جواب کا معلوماتی پروگرام تھا ۔ جسے تینوں دوست قریش پور، افتخار عارف اور عبید اللہ بیگ مل کر کرتے تھے ۔ یہ معلوماتی پروگرام ایک طویل عرصہ تک پی ٹی وی سے جاری رہا ۔ اپنی مقبولیت کی بنا پر یہ کراچی کے علاوہ مُلک کے دوسرے ٹی وی مراکز سے بھی نشر ہوتا رہا۔ نجی چینل کے آنے کے بعد سے کسوٹی نام کی تبدیلی کے بعد ان چینلوں پر بھی دکھایا جانے لگا۔اس طویل عرصہ میں عبیداللہ بیگ نے اس پروگرام میں کئی ہزار سوالوں کے جوابات بوجھے۔ اِنھیں زبان و بیان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اسی لیے اس پروگرام میں ان کی گفتگو ناظرین کے لئے بے حد دلچسپی کا باعث ہوتی تھی۔
عبید کا دوسرا پروگرام علیحدہ نوعیت کا تھا ۔اس کا عنوان"سیلانی کے ساتھ" تھا۔ یہ ایک طرح کا سفری پروگرام تھا جس میں سیلانی قریہ قریہ بستی بستی گھومتا ہے اور مختلف موضوعات پر اہم معلوما ت پیش کرتا ۔ عبید کو خاص دلچسپی تاریخ، مذہب اور تہذیب کے موضوعات سے ہے اور اس طرح ’’سیلانی کے ساتھ‘‘ ان موضوعات پر ایک بہت اہم اور بڑا خزانہ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوا۔
’’سیلانی کے ساتھ‘‘ کے علاوہ انھوں نے مختلف موضوعات پراور بھی بہت ہی اعلیٰ معیاری نوعیت کی دستاویزی فلمیں بنائیں۔ میرے خیال میں پاکستان میں ٹیلی وژن کی دستاویزی فلمیں بنانے والوں میں عبید کو سب سے زیادہ بلند مقام حاصل ہے۔ ان کی بنائی ہوئی بہت سی دستاویزی فلموں نے بین الاقوامی انعامات بھی حاصل کیے۔
عبید کو خاص دلچسپی "شکاریات" اور "مذہبیات" سے تھی اور یہی سبب ہے کہ انھوں نے ہر دو موضوعات پر بڑی خوبصورت اور انتہائی معلوماتی فلمیں بنائیں۔ ایسی ہی دستاویزی فلموں میں "Life in Stone" ، "Wild life" in Sindh" ، "Aqua city" میر بحر، گیم وارڈن اور حضرت امیر خسرو کی سات سوویں برسی کی تقریبات کے دوران ان کی زندگی پرمبنی ایک بڑی جاندار فلم شامل ہے ۔ان کے علاوہ تقریباً سو سے زیادہ فلمیں اور ہیں۔ عبید اللہ بیگ نے دو ناول بھی لکھے ہیں۔ ''انسان زندہ ہے" اور "راجپوت" ۔
عبید ایک طویل عرصہ پی ٹی وی کے صدر دفتر میں بھی کام کرتے رہے۔وہ تعلقاتِ عامہ کے شعبے سے وابستہ تھے ۔اسی زمانے میں پی ٹی وی نے ایک In-house Journal کا اجرابھی کیا جو نہ صرف پی ٹی وی کے عملے کے لیے بلکہ ٹی وی کے باہر کے لوگوں میں بھی بے حد مقبول تھا۔
بحیثیت انسان عبید اللہ بیگ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ بے حد با اخلاق، مُہذبّ اور ہر کسی کے لیے ادب واحترام کے قابل تھے۔ طبعاً شرمیلے انسان تھے مگر جب گفتگو کرتے تو بے تکان بولتے تھے۔ ان جیسی معلومات میں نے کم آدمیوں میں دیکھی ہے۔ اسی وجہ سے ان سے اکثر ٹی وی کے لیے رواں تبصرہ کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ اس سلسلہ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ اسلامی سربراہی کانفرنس کی تقریبات پر رواں تبصرہ ہے۔ خاص طور پر لاہور کی شاہی مسجد میں جمعہ کے روز اجتماع ،نماز، جس میں اسلامی ملکوں کے سربراہان اور دوسرے نمائندے شریک تھے۔ اس موقع پر عبداللہ بیگ کمینٹری کرتے ہوئے بہت جذباتی ہوگئے۔ جب خادمِ حرمین شریفین نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو عبید اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور اقبال کا یہ شعر پڑھتے ہوئے بے ہوش ہوگئے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کا شغر
عبید اللہ بیگ کی کمی مدتوں محسوس کی جاتی رہے گی۔ اب تو ان کے لئے صرف یہی کہا جاسکتا ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا