ڈاکٹر اسلم انصاری

اُردو زبان اور عصری آگہی

پچھلے کئی ہزار سال سے زبان اور انسان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ترقی یافتہ انسانی شعور کے ہمہ گیر مظہر کے طور پر زبان ایک ایسا نظامِ علامات ہے جس کے ذریعے معانی کی تخلیق اور ترسیل ممکن ہوتی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دوسوسال سے زبان کے بارے میں جو کچھ کہاگیا ہے، اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ دنیا کی ہر زبان ایک مخصوص نظریۂ حیات و کائنات کی ترجمان ہوتی ہے۔ دنیا کی معدوم ہوتی ہوئی زبانوں کے تحفظ کی ضرورت کے حوالے سے سب سے زیادہ اسی حقیقت پر زور دیا جاتا ہے کہ ہرزبان ایک خاص عالمی منظر نامہ World) (View کا مظہر ہوتی ہے۔ ہر زبان انسان کے رِشتے کو اشیاء کے ساتھ ایک خاص طرح سے بیان کرتی ہے لیکن اس یکتائی کے باوجود تجربے کی بے شمار صورتیں ہیں جو دنیا کی ہر زبان میں قدرِ مشترک کے طور پر نمودار ہوتی ہیں۔ اگرچہ زبانوں کی تفہیم اور باہمی ابلاغ کا عمل اسی طرح مکمل ہوتاہے، پھر بھی زبانوں کا ، اپنے بولنے والوں کے تمدن اور اُن کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ بہت گہرا رِشتہ ہوتاہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک زبان، کسی بھی تہذیب و ثقافت کا مکمل اور جامع مظہر ہوتی ہے، اسی لیے کسی زبان کی روح ، اس کے اصل (Genesis) کو سمجھنے کے لیے اس کی ثقافت کو سمجھنا ضروری ہوتاہے، جس کے تحت وہ زبان پروان چڑھتی ہے۔
یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اردو برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی پروان چڑھنا شروع ہوئی اور اس کے مزاج کی تشکیل میں امتزاجیت کا رجحان شروع ہی سے شامل رہا۔ اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امتزاجی میلانات کے باوجوداُردو شروع ہی سے غالب طور پر عالم اسلام کے منظر نامہ (Predominantly Muslim World View) کی ترجمان تھی، ثبوت میں پورے اُردو ادب کو دیکھ ڈالیے، یہی حقیقت واضح ہوگی۔ اس کے اسباب میں مسلمانوں کا طویل سیاسی اقتدار اور برصغیر میں پیدا ہونے والے ہند اسلامی تمدن کی انسانیت پسندانہ وسعت پذیری اور اس تمدن کے جدید جمالیاتی آداب و انداز تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت حد تک تمدن کی مشترکہ اساس کے باوجود پنڈت دیا شنکر نسیم نے گلزارِ نسیم میں حمد و ثنا کا آغاز اس طرح کیا:
ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری
ثمرہ ہے قلم کا حمدِ باری
کرتا ہے یہ دو زباں سے یکسر
حمدِ حق و مدحتِ پیمبر
پانچ انگلیوں میں یہ حرف زن ہے
یعنی کہ مطیعِ پنجتن ہے
یا یہ دُعا کہ :
یا رَب، مرے خامے کو زباں دے
منقارِ ہزار داستاں دے
بیسویں صدی میں پنڈت برج نرائن چکبست نے ’’رامائن کا ایک سین‘‘ لکھا تو آغاز اس طرح کیا:
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
راہِ وفا کی منزلِ اول ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام
دامن سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام
اِظہارِ بے کسی سے ستم ہو گا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہو گا اور بھی!
اس حقیقت کے باوجود کہ مسلمانوں کے تمدن کی آب و تاب ایسی تھی کہ اس سے نظر ہٹالینا بہت مشکل تھالیکن بعض بڑے شاعروں نے اردو کے کئی ایک بنیادی عناصر کو نظر انداز نہیں ہونے دیا۔ یہ بھی اسی تمدنی تال میل کا نتیجہ تھا کہ نظیر اکبر آبادی اور بہادر شاہ ظفر نے اردو کے ہندی عنصر کو زبان کے تخلیقی مزاج کا حصہ بنانے کی سعی کی۔ غرض اردو زبان نے شروع ہی سے آفاقی میلانات کو ظاہر کرنا شروع کردیاتھا۔ انیسویں صدی عیسوی میں مرزا غالب نے فارسی عنصر کے نمایاں اضافے کے ساتھ اردو زبان کو ایک اور طرح کی وسعت بخشی جو بعد ازاں علامہ اقبال کی آفاقی شاعری کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ انیسویں صدی عیسوی ہی میں سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کے بنیادی معاشرتی مسائل پر ایک ایسے وسیع تر نقطۂ نظر سے گفتگو کی جس کی تشکیل میں ان کی عصری آگہی نے بہت اہم کردار ادا کیاتھا۔ دیکھا جائے تو سرسید احمد خاں اورمولانا حالی اردو میں عصری آگہی کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے علمبردار تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے بھی ایک خاص مفہوم میں عصری شعور کی ترجمانی کی۔ مجموعی طور پر سرسید اوران کے رفقأ کے بعد اردو کی علمی وسعت میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد (دکن) نے سب سے زیادہ اضافہ کیا۔ مغربی کلاسیک کے تراجم کے ذریعے جامعۂ عثمانیہ نے اُردو نثر کو اس قابل بنادیا کہ سائنس، انجینئری، طب، فلسفہ، تاریخ، نفسیات، اخلاقیات، سیاسیات اور سماجیات وغیرہ جیسے علوم وفنون میں قدیم وجدید دانش کو اپنے دامن میں سمو سکے۔ اردو کی جدید علمی زبان کی تشکیل میں جامعۂ عثمانیہ کے نثری سرمائے نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ بیسویں صدی عیسوی میں علمی نثر میں جن اصطلاحات سے کام لیا گیا، وہ بہت حد تک جامعۂ عثمانیہ کے دارالترجمہ ہی کی رہینِ منت تھیں۔ ان اصطلاحات کا ایک معتدبہ حصہ آج بھی ہماری علمی نثر کے تشکیلی اجزاء میں شامل ہے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد اردو زبان میں جو وسعت پیدا ہوئی، وہ محتاجِ بیان نہیں۔ آج اگر کوئی بھی شخص، جو مناسب حد تک با شعور ہے اور صرف اُردو اچھی طرح جانتاہے، اُردو کے توسط سے دنیا کے بیشتر علوم سے آگاہ ہو سکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ انگریز اقوام کی لسانی جدوجہد اور تیسری دنیا کی محکوم رہنے والی نو آزاد اقوام کی تاحال ابتر معیشت اور دیگر متعدد وجوہ کے باعث انگریزی اب علمی رابطے اور جدید ترین علوم و فنون کی زبان بن چکی ہے چنانچہ مزید علمی ترقی ، عالمی ادب تک رسائی اور عالمی سیاسی صورت حال کو سمجھنے کے لیے اور سب سے بڑھ کر عالمی سطح پر اپنی بات دنیا تک پہنچانے کے لیے انگریزی جانے بغیر چارۂ کار نہیں۔ دیکھا جائے تو برِ صغیر کی سطح پر اور بعض عرب ممالک میں اسی طرح کا مقام اردو کو بھی حاصل ہو چکا ہے۔ برِ صغیر کا میڈیا اس وقت اردو کی صلاحیتوں اور اردو کی رسائی کی وسعتوں سے پوری طرح فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ابھی تک پاکستان کی صورتِ حال میں اسے اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ نہیں بننے دیا گیا ، حالانکہ حالات کی موافقت کے پیشِ نظریہ بات کسی طرح نا ممکن نہیں تھی۔ اس بات کو سب اہلِ نظر تسلیم کرتے ہیں کہ اردو زبان میں اس کی پوری صلاحیت موجود ہے کہ یہ ٹھیٹھ علمی موضوعات کے علاوہ بلند پایہ افکار کی بہتر سے بہتر ترجمانی کر سکے ۔یہ حقیقت ہے کہ جب بھی تاریخ ، فلسفہ ، نفسیات ، اخلاقیات ، مابعد ا طبیعیات ، جمالیات ،لسانیات ، ساختیات کے کسی عالم نے چاہاہے، اردو میں بلند ترین خیالات اور دقیق ترین نکات کو کامیابی کے ساتھ بیان کر دکھایا ہے۔ تراجم کی صورت میں نیز تحقیقی کاموں میں سقراط، افلاطون ، ارسطو، ابو نصر فارابی، بوعلی سینا، ابنِ عربی اور ابن رشد کے علاوہ کانٹ، شاپن ہائر، نطشے اور گوئٹے جیسے مفکرین کے افکارِ عالیہ کی ترجمانی اردو میں کی جا سکتی ہے تو اردو کے دامن کو کسی طرح بھی تنگ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ آج کی علمی دنیا میں وجودیت ، جدیدیت، ساختیات اور ردِ تشکیل کے موضوعات و مسائل اردو میں فطری اور بے ساختہ انداز میں بیان ہو رہے ہیں۔ ان تمام عصری موضوعات کے پس منظر میں بیسویں صدی عیسوی میں ابھرنے والی ادبی، معاشرتی اور سیاسی تحریکوں کا بھرپور شعور اور انعکاس موجود ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سے علوم جو مغرب میں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں ، ہمارے ہاں ابھی تعارفی مطالعات کی منزل سے گزر رہے ہیں ۔آج کے پاکستان میں پڑھے لکھے لوگوں کے علاوہ عام افراد کے شعور کی تربیت میں اردو ذرائعِ ابلاغ جو کردار ادا کر رہے ہیں، اس کی اہمیت کو ابھی پوری طرح سمجھا نہیں جا رہا ۔ اگر انصاف اور حق بینی سے کا م لیا جائے تو اردو میں علمی او رصحافتی سطح پر ایسی صراحت ، اشاریت اور اثر آفرینی پیدا ہو چکی ہے کہ اگر کوئی چاہے تو آپ عین اس سطح کا اداریہ یا مقالۂ خصوصی لکھ سکتے ہیں جس سطح پر ٹائم کا مدیر اس کا مقالہ لکھتا ہے ، بشرطیکہ اردو کے مختلف پیرایہ ہائے اظہار اس کے سامنے ہوں۔ آج کی اردو شاعری اور افسانہ اورکسی حد تک تنقید عصری آگہی کی ترجمانی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا ناول اس معاملے میں بہت پیچھے ہے، سوانح نگاری میں بھی تحقیق و تجزیہ کے جدید ترین ذرائع اور اسالیب سے کام نہیں لیا جا رہا۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میدانوں میں کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ اردو کی جدید ادبی صحافت نے پچھلے دس بیس برسوں میں یقیناًًایک نئی کروٹ لی ہے اوریہ جدید ترین ادبی اور تنقیدی رجحانا ت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اگر خطرہ ہے تو وہ کتاب کلچر کو انٹرنیٹ سے ہے لیکن ہر طرح کی اتھل پتھل میں نئی تشکیلات کے امکانا ت موجود ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کتاب کلچر کے فروغ میں یا اس کی حفاظت میں خود انٹر نیٹ ہی کوئی بنیادی کردا ر ادا کرنے لگے۔ اُردو زبان آج مجموعی طور پر جوعالمی منظرنامہ (world view)پیش کر رہی ہے، وہ اگرچہ ماضی سے کلی طور پر منقطع نہیں لیکن اس میں انسان دوستی ، انسانی ہمدردی ، وسعتِ نظر اور ہمہ گیر انسان پرستی کے اجزأ نے اِسے ایک عالمگیر زبان ضروربنا دیا ہے یا کم ازکم یہ ایک بین الاقوامی زبان بننے کے عمل سے کامیابی کے ساتھ گزر رہی ہے ۔ اس کی اس نئی تشکیل میں اُردو بولنے والوں اور اُردو دانوں کے پھیلاؤ (Diaspora)کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو مغرب کے بعض اہم خطوں میں اردو کی جوت جگائے ہوئے ہے۔ اس وقت دُنیا میں پاکستان کا امیج اسی پھیلاؤ (Diaspora) کی بدولت زیادہ سے زیادہ متعارف ہو رہا ہے۔
عصرحاضر کی فکرو دانش کے تناظر ات میں اس حقیقت پر بہت زور دیا جاتا رہا ہے کہ انسانی ذہن کی ابتدائی نشوونما میں مادری زبان کے ذریعے حاصل کردہ علم و آگہی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، ہمارے ہاں بھی اس امر میں زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اُردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تمام زبانوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں ، راقم بھی اس رائے سے کامل اتفاق رکھتا ہے، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان کی تمام زبانیں ، جن کا حق ہے کہ وہ قومی زندگی کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں، اردو کی روشنی میں ہی خود شناسی کا سفر طے کر رہی ہیں۔ وہ اصنافِ نظم ونثر جو اُردو زبان کا طُرۂ امتیاز ہیں، علاقائی زبانوں میں بھی قبولیت اور مقبولیت کی منزلیں طے کر چکی ہیں یا طے کر رہی ہیں۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ نظر آتا ہے کہ جہاں اُردو بذاتِ خود قومی یک جہتی کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے، علاقائی زبانوں میں اس کا اثر ونفود بھی باہمی افہام وتفہیم اور یک جہتی کاضامن ہوگا۔ البتہ اس اہم مقصد کے حصول کے لیے جو بات بہت ضروری ہے وہ ایک قومی سطح کے دارالترجمہ کا قیام ہے ، جس کا واحد مقصد ہمہ جہتی تراجم ہوں، جو مختلف زبانوں کو قریب لانے میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔ یہ کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا لیکن اگر اب بھی ہوجائے تو غنیمت ہوگا۔حیدر آباد دکن کی جامعہ عثمانیہ کی جن علمی خدمات کا ابھی ذکر کیا گیا ،وہ بیشتر تراجم ہی کی صورت میں تھیں ۔ اصل میںآج ہماری جامعات میں جو اہمیت تحقیق کے کام کو دی جاتی ہے، جامعہ عثمانیہ میں یہی اہمیت تراجم کوحاصل تھی۔ میری معلومات کی حد تک اگرچہ ہماری جامعات میں ایم اے کی سطح پر تحقیقی مقالے کے مقابلے میں ترجمے کا اختیار موجود ہے لیکن تحقیقی کام کی زیادہ حوصلہ افزائی کے باعث ترجمے کے اختیار کوکم ہی اپنایا جاتا ہے ۔ تراجم زبان کی ثروت مندی کے ضامن ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اُردو زبان بیش از بیش عصری آ گہی سے مالا مال ہو تو ہمیں دو زبانوں کی تدریس کو بہتر بنانا ہوگا ۔ ایک تو خود اُردو اور دوسرے انگریزی ۔ اس مبحث میں انگریزی سے قطعِ نظر کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ جب تک اُردو کی تدریس میں کاملیت کے نئے اہداف حاصل نہیں کیے جائیں گے، زبان کی ہمہ جہتی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو گا۔ یہ اہداف کیسے مقرر کیے جائیں اور اُن کو کیسے حاصل کیاجائے ،یہ ایک الگ موضوع ہے۔
گمان مبر کہ بہ پایان رسید کارِ مغان
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است