غزلیات


غزل
یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں

پھر اس کے بعد مجھے حرف حرف ہونا ہے
تمہارے ہاتھ میں دیوان کچھ دنوں کا ہوں

کسی بھی دن اسے سر سے اتار پھینکوں گا
میں خود پہ بوجھ مری جان کچھ دنوں کا ہوں

زمین زادے مری عمر کا حساب نہ کر
اٹھا کے دیکھ لے میزان، کچھ دنوں کا ہوں

مجھے یہ دکھ ہے کہ حشراتِ غم تمہارے لیے
میں خورد و نوش کا سامان کچھ دنوں کا ہو
اطہر ناسک
غزل
وقتِ جدائی سر پہ ہے اے یار دوستو
اتنا بھی اب کرو نہ مجھے پیار دوستو

غربت کے دن امید کی راتیں گزار کے
ہم لوگ آ گئے ہیں یہ کس پار دوستو

میں نے پناہ لینے کا سوچا ہی تھا ابھی
سایہ اٹھا کے چل پڑی دیوار دوستو

چپکے سے جنگ جیت لی چاہت کی اس دفعہ
سر پر لٹکتی رہ گئی تلوار دوستو
اطہر ناسک
غزل
خود کو بلند کر لیا عالم ممکنات میں
مل گیا رب سے جو نہ تھا میرے تصورات میں

عالمِ آب و گل ہے سب اُس کی تجّلیات میں
ذاتِ اَحَد مدد کرے کتنی ہی مشکلات میں

جس کی نگاہِ ناز ہے محورِ عشق و آگہی
ہے کوئی مثل مصطفیٰؐ عالمِ شش جہات میں

مولا صفات ہے علی، ادنیٰ غُلامِ مصطفیؐ
ایسا بشر کہاں ملا، پوری کائنات میں

ایک ہے سجدۂ بشر جس پہ ہے بندگی کو ناز
تیغ تلے حسین ہے ساری کائنات میں

گردِ سفر کو بھول کر عزم جواں لیے ہوئے
بڑھتے ہیں مثلِ آفتاب، سب کی توقعات میں

عظمتِ رفتہ کے نشاں کیسے مٹے ہیں سب یہاں
اُمتِ مُسلمہ کہاں، گھر گئی مشکلات میں

دور ہے رضّا نیا سارے نشاں مٹا گیا
ہو گیا ذکرِ انقلاب آج بات بات نہیں
سید جاوید رضا
غزل
تم ہوئے جب سے خفا اپنے گرفتار کے ساتھ
کچھ سرو کار نہیں رونق بازار کے ساتھ

کتنے انمول ہیں یہ مہرو وفا کے موتی
کوئی پرکھے نہ انھیں درہم و دینار کے ساتھ

کب سے ٹھہری ہے مرے دل میں ادھوری خواہش
کاش دیکھے وہ مجھے ایک نظر پیار کے ساتھ

ہم کو معلوم نہیں عشق کے اسرار و رموز
کس نے فرہاد کو ٹکرایا ہے کہسار کے ساتھ

کیسے کٹتی ہے اُداسی میں ہر اک شام فراق
دو گھڑی تم بھی گزارو کسی نادار کے ساتھ

دل کے ایوانوں میں ہے کب سے بپاشورش عشق
ایک ماتم کی صدا ہے مرے اشعار کے ساتھ

سوہنیاں ڈوب رہی ہیں ابھی دریاؤں میں
کوئی مہینوال نہیں موج کی للکار کے ساتھ
نجمہ شاہین
غزل
نہ ہلاؤ گوشۂِ چشم و لب اے ندیم ابھی
مرے دوستوں میں چھپے ہوئے ہیں غنیم ابھی

وہ نکل تو آئے ہیں دفعتاًبھری بزم میں
نہیں جانتے ہوا کون دل میں مقیم ابھی

وہ نفیس پیکرِ خواب ہے میرے سامنے
اسے چھو کے دیکھوں نہیں ہے عزمِ صمیم ابھی

کڑی دھوپ میں کسی برگزیدہ شجر کے دام
وہ لگائیں گے جو ہوئے ہوں تازہ یتیم ابھی

وہ گرہیں جو میری زباں پر آکے کُھلیں خرامؔ
انہیں دیکھنے کو نہیں ہے عقلِ سلیم ابھی
خرم خرامؔ صدیقی
غزل
رسمِ تسلیم کے آداب بنا رکھتے ہیں
لوگ پیشانی پہ محراب بنا رکھتے ہیں

ہاں اسی قربتِ بے نام کی حسرت ہے ہمیں
وہ جسے جان کے نایاب بنا رکھتے ہیں

دل کے صحراؤں میں اک گوشہ تری یاد کا ہے
اشک ہر دم جسے شاداب بنا رکھتے ہیں

جیسے ہر زلف پریشاں ہو ہماری خاطر
دل کی دھڑکن یونہی بے تاب بنا رکھتے ہیں

آنکھ ملنے سے فزوں تر ہو دمک جن کی خرامؔ
کچھ بہ انداز دِگر خواب بنا رکھتے ہیں
خرم خرامؔ صدیقی
غزل
دامنِ کوہ میں مور کے رقص کی دلکشی دیکھ کر
روح شاداب ہے ایک معصوم سی سر خوشی دیکھ کر

وقتِ شب تھا سفر پر روانہ میرا قافلہ اور میں
راہ میں رک گیاتیرے رخ کی حسیں روشنی دیکھ کر

کھو گیا میراحسنِ تخاطب کسی ملگجی خواب میں
اس کی خوابیدہ آنکھوں میں فرقت کا نم سرُمئی دیکھ کر

اتنے مانوس ہم ہوگئے موت کے بے یقیں خوف سے
مسکراتے نہیں اپنے اطراف میں زندگی دیکھ کر

اب سفر کی روانی میں ہے عافیت جان ودل کی خرامؔ
لوٹ آیا ہوں ہرسمت سے میں رہِ واپسی دیکھ کر
خرم خرامؔ صدیقی
اعجاز رحیم
TAXILAS OF TIME

You lived for centuries
Under the earth's roof
And having consummated
Your round of silence
Are up again
Erect and eloquent
Even though in stone

We who are ruin-deaf
Delude ourselves to think
We are listening
Across Taxilas of time
وقت کے ٹیکسلا
اَن گِنَت زمانوں سے وقت کے تسلسل میں
جی رہے ہو صدیوں سے
خاک کی رِدا اوڑھے
تُم کہ آگئے باہر خامشی کے گُنبد سے
سنگِ سخت کی صُورت
جیسے بولتی مُورت
ہم کہ سُن نہیں سکتے
اس کھنڈر کی آوازیں
پھر بھی ہم سمجھتے ہیں
سُن رہے ہیں آوازیں
دُور کے زمانوں کی ٹیکسلا سے بھی آگے
ترجمہ: فیاض تحسین
موسم بے قراری کا
موسم بے قرار ی کا
سمندر میں تلاطم ہے
یہ موسم بے قراری کا ہے
ہر ساحل پہ بکھرے
سیپیوں کے جسم ہیں
اور چاٹتی پھرتی ہیں لہریں ریت کے گھر کو
اور اک طوفان کی آمد ہے
بے حِس ہے ہوا اور ہر شجر آشفتہ سر ہے
ہر بشر حیران ہے اس بے قراری پر
سہم کر بادلوں کے جھنڈ ہر جانب لپکتے ہیں
سمیٹو بادباں اپنے
کنارہ کش رہو۔ جب تک سمندر تھم نہیں جانا
یہ موسم بے قراری کا
عباس شاہ
وعدے
یہ تلچھٹ ہے تصّور کا
تری تصویر کا رُخ
جل پری سے فاصلوں پر ہے
مگر ساگر کی لہریں شور کرتی ہیں
یہ خوابوں کا سفر ہے
جس میں سب کچھ بھول جاتا ہے
اگرتاروں کی چادر بادلوں کی اوٹ ہو جائے
نظر سے خواب زاروں سے
ابھی تلچھٹ میں باقی ہے سرورِ زندگی
اور پے بہ پے وعدے
محبت کے
عباس شاہ
موسموں کا مزاج پڑھ لو
کنارِ دریا پہ موسموں کامزاج پڑھ لو
جو موجِ دریا کی بے بسی کا سوال بن کر
قدامتوں میں ابھرنے والی ہر اک لہر سے
یہ پوچھتی ہے
کہ ساعتوں میں
بہکتے موسم کی شام غم اب کہاں چلی ہے
قدامتوں میں ابھرنے والی
ہر اک لہر اب
اتر چکی ہے سنہری کرنوں میں
با زوؤں میں
کہ اس سے پہلے بھی موسموں میں
یہی ہوا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔عباس شاہ
آنیے ریس

نارویجن شاعرہ آنیے رِیس ۱۹۲۷ میں پیدا ہُوئیں۔اپنی نسل کے دیگر ممتاز شعرا کے بر عکس آنیے نے اپنے اشاعتی سفر کا آغازقدرے تاخیر سے،۱۹۷۵ میں کیا۔ ‘ساتُرا‘، اُن کی پہلی کتاب تھی۔ چار برس بعد ، دوسرا شعری مجمو عہ بلند اشجار کے مابین‘ شائع ہُوا۔اِس اِنعام یافتہ کتاب نے اُنہیں لکھنے والوں کی صف میں نمایاں جگہ دِلوادی۔ مترجم سے اُن کا غائبانہ تعارف اتّفاق سے اُن کی اِنہی اوّلین کاوشوں کے وسیلے سے ہُوا۔پیش کئے گئے تراجم شاعرہ کے نقشِ اوّل سے ماخوذ ہیں۔چوتھائی صدی سے زیادہ عرصہ میں آنیے رِیس کی نظموں کی چھ مزید جلدیں شائع ہُوئیں۔ ہر عمر کے بچّوں کیلئے لکھی گئی آٹھ کہانی کتابیں اِس کے علاوہ ہیں۔ آنیے کی تحریریں اِس دوران متعدّدانتخابوں ، درسی اور معاون نصابوں میں شامل کی جاتی رہیں۔اچھّی طرح یاد ہے جب ان کے تاحال آخری مطبوعہ دیوان، ‘آسماں فولاد کا‘ پر اُنہیں ایک بڑا ادبی اعزاز پیش کیا گیاتھا۔
آنیے اوسلو میں رہتی ہیں، معمّر ہو چکی ہیں، صحّت بھی ویسی ہی ہے، اِس کے باوجود جب اُنہیں بتایا گیاکہ اُن کی نظموں کے تراجِم اُردو میں کئے جا رہے ہیں، تو وہ نہال ہو گئیں،نیک خواہشات سے نوازا اور اپنے رابطہ کار کا نام پتا بتایا۔ اِس طرح نور لا کے تعاون سے یہ تھوڑے بہت ترجمے پڑھنے والوں تک پہنچانا ممکن ہو سکا۔

طنز کا موسم
سیلِ آب، زلزلہ
زمین کی جڑیں ہلا چکا
آسماں کو خاک میں ملا چکا
بستیاں،اور اُن کی باہمی حدیں مِٹا چکا
پہاڑ ڈھا چکا
پانی چل کھڑے
نئی ڈھلانوں ، وادیوں کی سمت
جزیرے، با دلِ نخواستہ بہے
نئے سمندروں کی سمت
یہ سب ہُوا، یہی ہُوا
تو لازمی ہُوا
کوئی ہنسے
ہنسے کوئی بہت
نئے پرانے والوں پر
آزمودہ نقشوں کو آزمانے والوں پر
ریت میں کشتیاں چلانے والوں پر
پتھروں میں غوطے کھانے والوں پر
پانیوں میں سیڑھیاں لگانے والوں پر
ہنسے کوئی بہت شدید
سب یہ جان مان لیں
نئے بنانے ہوں گے
رکھنا ہوں گے اپنے پاس سب
نقشے، زاویے،ستارے، کمپاس سب
ترجمہ: ادریس بابر
شعریات
محاورے کے بطن میں
قید میں پڑا ہے لفظ
تہ بہ تہ بہ تہ
اسیر، جیسے ہوکنویں کی تہ میں
صندوق،جس میں
ایک زخمی دل سکون پا رہا
ہمیں یہ صندوق کھینچ لانا ہو گا
محاورے کی قید سے
چُھڑانا ہو گا
لفظ کو،
خوداپنے پاؤں پر کھڑا ہو،
لڑکھڑائے بھاگ کر دکھائے
اِسے یہ سب سِکھانا ہو گا
لفظ پھر بنانا ہو گا
ترجمہ: ادریس بابر
بِنتی
سمے کی کھڈّی پر کَتا
رخنوں، درزوں سے اَٹا
یہ قالین ،
اِس کی ایک سطح پر
ابھی گُلاب کھِل رہے ہیں
ابھی کنارے سے لگی ہے
ناؤ تمہاری
دریچے کی سنو بھری سِل پر
ہاتھ رکھے دل پر
میں زرا جھُکوں
تو دیکھ لوں
تمہارے بال،سمندری ہوا
میں لہریے بناتے بال
چمکتے سرخ ہیں
جڑوں کے پاس
ترجمہ: ادریس بابر
غائب ہونے والے حاضر ہیں

آئی جے پی کے دونوں جانب
دو متوازی براعظم
اتفاقات کا دباؤ
دہراتا ہوا قلم کانب

کان، مدھم پڑتی ہوئی چیخ
کس کاشناختی نشان ہوگی
قید، آہنی دیواروں کے بیچ
کیا وہ شے پاکستان ہو گی

تن توس وقت پہ سینکا گیا
ایسے رئیس کون لوگ ہوں گے
با ادبی سے پھینکا گیا
بھائی کہیں، جون لوگ ہوں گے

سانپ، سیڑھی میں بدلتے ہوئے
بند رستے کے چند عجائب
خاص رفتار سے چلتے ہوئے
غائب حاضر، حاضر غائب

راہ کاٹنے والوں کا ناتا
کون سے زمان، کس زمین سے تھا
جھوٹ باٹنے والوں کا رشتہ
دین ، دنیا، کس مشین سے تھا

ہم پہ سب سوچتے نہیں ہیں
بغلوں میں دبے ہاتھ چلتے
ہم سب یہ دیکھتے نہیں ہیں
خار دار تار کے ساتھ چلتے
ادریس بابر