میری عزیز حامد مدنی سے صرف دو ملاقاتیں رہیں، ایک کراچی میں ریڈیو پاکستان کے دفتر میں اور دوسری اسلام آباد میں، میرا اُن سے اصل تعارف تو اُن کی شاعری کے حوالے سے اُس وقت ہوا جب مجھے انیس خورشید کے لکھے ہوئے ’’سی پی کے موتی‘‘ کے مسودے کو پڑھنے کا موقع ملا، جس میں اُن ادیبوں، شاعروں اور دیگر اہلِ فن کا ذکر ہے جو سی پی (ہندوستان کا سابق صوبہ، صوبہ متوسط اور برابر، حالیہ مہاراشٹریہ) سے پاکستان بننے کے بعد یہاں ہجرت کر گئے۔ سی پی کے موتی میں انیس خورشید نے عزیز حامد مدنی کے بارے میں بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مدنی اُن کے عزیز ترین دوستوں میں سے تھے۔
مدنی نے غزلوں کے مقابلے میں نظمیں زیادہ کہیں ہیں اور یوں وہ نظموں کے شاعر نظر آتے ہیں اور نظمیہ شاعری میں اُن کا ایک منفرد مقام ہے۔ غزلیں بے شک انھوں نے کم کہی ہیں لیکن اُن کی اپنی انفرادیت ہے، محبوب کا ذکر ہر غزل گو شاعر کے ہاں ملتا ہے لیکن جدید شعراء میں مدنی نے جس انداز میں اسے اور اس کی خوبصورتی کو بیان کیا ہے ۔ اس کا جواب نہیں۔ پرچھائیاں، میں ساحر کہتا ہے :
حسین پھول، حسین پتیاں، حسین شاخیں
لرز رہی ہیں کسی جسم نازنین کی طرح
اب دیکھیے مدنی کیا کہتے ہیں :
وہی ہیں آج بھی اُس جسم نازنیں کے خطوط
جو شاخِ گل میں، جو موجِ گُہر میں ہوتے ہیں
جسمِ نازنین کو جس انداز سے مدنی نے اپنے اس شعر میں ڈھالا ہے یہ اُن کا ہی کمال ہے۔
اب تو غزل کا کینوس بہت وسیع ہو گیا اور اب اس میں غالب کی تنگنائے غزل والی بات نہیں رہی لیکن روایتی غزل میں فراق اور وصال، محبوب کی ناز برداریاں وغیرہ ۔ اس جدید شاعری کے دَور میں بھی موجود ہیں، اس ضمن میں بھی مدنی کا اندازِ بیاں دیکھیں :
فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے
سُبک ہوئے ہیں تو عیش و ملال سے بھی گئے
اس درجہ محرومی کا بیان کسی اور شاعر کے ہاں کہاں ملے گا، مدنی کا یہی انداز بیاں اُسے دوسرے شاعروں سے مختلف بناتا ہے، پھر اسی غزل میں وہ آگے کہتا ہے :
غمِ حیات و غمِ دوست کی کشاکش میں
ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے
یہ پوری کی پوری غزل اپنے اندازِ بیان میں ایک انفرادیت رکھتی ہے :
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے
چراغِ بزم ابھی جانِ انجمن نہ بُجھا
کہ یہ بجھا تو ترے خط و خال سے بھی گئے
فیض نے محبوبہ کے بام پر آنے کو بہار کا نام دیا ہے :
رنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
مدنی کہتے ہیں :
حدیثِ لالہ و گل کا جب اختصار ہوا
بہار تیرے تصور کا ایک نام ہوئی
غالب نے رفتگاں کے بار ے میں کہاہے اور کیا خوب کہا ہے :
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
مدنی اسے اس انداز سے بیان کرتے ہیں :
کسی کی خاک سے میناکسی کی گِل سے سبو
جو میکدے میں تھے لوٹ آئے جا کے دنیا سے
سنگ تراش پتھر کو تراشتا خراشتا ہے لیکن درحقیقت مجسمہ پتھر کے اندر موجود ہوتا ہے، یہی بات کوزہ گری کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے جسے مدنی نے یوں کہا ہے :
سرشت گِل ہی میں پنہاں ہیں اس کے سارے نقوش
ہُنر یہی تو کفِ کوزہ گر میں ہوتے ہیں
لوگ بچھڑ جاتے ہیں، محفلیں لُٹ جاتی ہیں لیکن اُن کی یادیں ساتھ رہ جاتی ہیں۔ تڑپانے کو، منیر نیازی کی طرح :
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو !
اور مدنی اس بارے میں یوں استفسار کرتے ہیں :
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے
مدنی کی غزل کے اور اشعار دیکھیے :
نرم ہوا سے جل اٹھیں نبضِ جنوں میں مشعلیں
اور اگر برس گیا ابر کہیں بہار کا
اُس کے پیکر کی جھلک راہوں پہ تھی نزدیک و دُور
کل غروبِ مہر تھا اک آئینۂ خانہ مجھے
گل کا وہ رُخ بہار کے آغاز سے اُٹھا
شعلہ سا عندلیب کی آواز سے اٹھا
اُس نے کچھ پچھلے پہر گوشِ محبت میں کہا
نرم شبنم کی طرح شوخ صبا کے مانند
بہت نازک ہے اُس نوخیز کا آئینِ آرائش
حیا پہلے سے بڑھ کر اور سرِ ناخن حنا کم کم
حنائے پا سے کُھلا اُس کے شوق آرائش
نکل چلی تھی دبے پاؤں سادگی آخر
اک درِ نیم باز تک ساتھ ہوا کے ہو لیا
وحشتِ دشت کی خبر لے کے قدم غبار کا
بہار چاک گریباں میں ٹھہر جاتی ہے
جنوں کی موج کوئی آستیں میں ہوتی ہے
ظلمت و نور کو پیالوں میں سمو دیتی ہے
شام پڑتے ہی تری چشمِ غلافی ساقی
اٹھی ہے صیقلِ دیوانگی کے بعد نگاہ
یہ آئینہ بھی اُسی محوِ ناز تک پہنچے
پہلے مری وحشت کے یہ انداز بھی کم تھے
پہلے مجھے اندازۂ صحرا بھی نہیں تھا
ترے ہی تذکرے دیوارِ زنداں سے بھی ہوتے ہیں
کہاں تک ہیں بتااے فصلِ گل آخر ترے محرم
انھیں بھی گردشِ پرکارِ آرزو جانو
وہ دائرے جو کھنچے میری لغزشِ پا سے
میں نے اب گھر سے بھی زنداں کی ملادی ہیں حدیں
یوں الگ بیٹھ کے جینے میں بھی رسوائی ہے
کس انتظار میں تھی روحِ خود نمائی گل
برس کے ابرِ بہاراں کُھلے تو بات چلے
یہ شکایتِ در و بام کیا، یہ رَباط کُہنہ کی رات کیا
کوئی بے چراغ شبِ وفا ترے شہر میں بھی گزر گئی
مدنی کی غزل گوئی کی یہ چند مثالیں ہیں جن سے اُن کی غزل کا منفرد انداز سے سامنے آتاہے، میری نظر میں ان کی غزلیہ شاعری نظمیہ شاعری سے بہت آگے نکلتی نظر آتی۔ اگر وہ غزلیہ شاعری پر وہی توجہ دیتے جو انھوں نے اپنی نظمیہ شاعری پر دی۔
مدنی کی غزل گوئی کا آغاز تو پاکستان میں ۱۹۵۰ء سے ہوا لیکن ہر چند سال کے بعد وہ ایسی بلند سطح کی غزلیں کہتے رہے جو کافی عرصے تک ادبی حلقوں میں ایک ’غلغلۂ ستائش‘ برپا رکھا کرتیں، یہی الفاظ حمید نسیم صاحب نے ’دشتِ امکاں‘ (۱۹۶۴ء) کے اس ابتدائی شعر سے شروع ہونے والی غزل کے حوالے سے کہی ہے :
تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقۂ گردشِ حال لے گئی
اُن کی ایسی ارفع سطح کی غزلوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے حمید نسیم نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے: ’’مدنی اپنی غزل سے حالی کے بعد سب سے برتر شاعر ہے۔ کوئی اس کے جمالِ صوت‘‘ ندرتِ فکر اور وسعتِ خیال سے قریب تر نہیں آیا (جنگ، جہانِ ادب، مڈویک میگزین، ۶ ستمبر ۲۰۰۰ء ص، ی )
مدنی آج ہم میں نہیں لیکن وہ اپنی شاعری کے حوالے سے ہم میں زندہ ہیں، وہ بہت ہی خوبصورت شاعری کے شاعر تھے، حمید نسیم صاحب کا انھیں حالی کے بعد سب سے برتر شاعر گرداننا بجا ہے، یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ اُن کو وہ شہرت نہ مل سکی جو اُن کا حق تھا۔
****