مرزا ابن حنیف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خرابوں کا محرم
ڈاکٹر انوار احمد


جب انہوں نے اپنی نحیف آواز میں میرا ہاتھ دبا کر مجھے کہا کہ میں یونیورسٹی ضرور آؤں گا، تب میرے آنسو اُن کے ہاتھوں پر ٹپک پڑے، انہوں نے حسبِ عادت چنگیز خان والی آنکھوں سے مجھے دیکھنا چاہا‘ مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ آنکھیں بھی محبت اور شفقت کی نمی سے بھیگ گئیں۔ اتنے برسوں کی رفاقت میں یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے پتہ تھا کہ اب اِس آہنی عزم والے کے ارادے میں تکمیل کی سکت نہیں رہی اور شاید اُنہیں بھی پتہ تھا کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے اِس دوست اور مداح کو مزید خود فریبی میں مبتلا نہیں کر سکتے، جس کو ایک برس پہلے انہوں نے اعتماد میں لیتے ہوئے کہا تھا کہ انوار میاں مجھے کینسر ہے میں بہت عمر جی لیا، میں اپنا گھر بیچ کر علاج معالجہ نہیں کرانا چاہتا اور اپنے بچوں کے لیے مزید پریشانیاں پیدا نہیں کرنا چاہتا، مگر تم یہ بات کسی سے نہیں کرو گے میرا ساتھ دو گے میں جو کام کرنا چاہتا ہوں، وہ کم سے کم وقت میں مکمل کرادوں گا۔ چند ہفتے تو اس خبر کے زیرِ اثر میں اُداس اور بوکھلایا ہوا پھرا ، پھر میں نے ڈین آفس کے پرائیویٹ سیکرٹری جمیل قریشی سے درخواست کی کہ وہ ہفتے میں دو مرتبہ مرزا ابنِ حنیف کے گھر جاکر اُن سے ڈکٹیشن لے لیا کریں،یوں وہ شخص موت،بیماری اور عسرت کے روبرو اس وقت تک لکھواتا رہا،جب تک بولنے کا اس میں دم تھا۔ چند ماہ کے بعدمیں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے ان کے جگر کے کینسر کا راز اصغر ندیم سیّد کو بتا دیااور اس نے اپنے کالم میں ذکر کر دیا، جس پر میاں نواز شریف کے کسی معتمد نے عطاء الحق قاسمی کے ذریعے رابطہ کر کے کہا کہ ان کے سفری کاغذات اور رپورٹیں انہیں بھجوائی جائیں،تاکہ بھارت میں ان کے جگر کے ٹرانسپلانٹ کا اہتمام کیا جا سکے،مگر اس وقت ان کے اس آخری سفر میں ایک ہفتہ باقی تھا ،جس کے لئے مرزا صاحب کے پاس زادِ راہ کی کمی نہیں تھی، دیانت،راست بازی،سادگی اور محنت۔
اپنے زمانہ طالب علمی میں میں ’دانش کدہ‘ کے نام سے ان کی کتابوں کی دکان میں ایک کتاب کی تلاش بلکہ زیارت کی حسرت میں گیا تھا، کیونکہ خریدنے کی استطاعت نہیں تھی، مطلوبہ کتاب وہ خود پڑھ رہے تھے،میں نے انہیں پیشکش کی کہ یہ میں ان کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں، انہیں میرے وہاں تک پیدل آنے، ہوائی چپل اور شایدشکل و صورت اور لباس کی بد وضعی سے بھی اندازہ ہو گیا کہ میں نے انہیں یہ پیشکش کیوں کی ہے؟ انہوں نے مجھے یہ کتاب ایک کاغذ میں لپیٹ کر دے دی،جس کی قیمت کی ادائیگی میں نے ایک برس کے بعد وظیفہ ملنے پر کر دی،پھر رائٹرز گلڈ اور اردو اکادمی کے ادبی اجلاسوں میں ان سے ملاقاتیں ہوئیں پر شاید اس سے بھی پہلے میں نے انہیں ملتان کرکٹ کلب کے گراؤنڈ میں کلب کے میچ بڑے انہماک سے دیکھتے پایا، وہ گنڈیریاں چوستے جاتے تھے اور چھلکے اپنے رومال میں رکھتے جاتے تھے،ان کی صورت اوروضع سے لگتا تھاکہ انہیں یرقان ہے۔اسی گراؤنڈمیں خواجہ خورشید،معراج الدین اوربٹ صاحبان کے چٹکلے مجھ ایسے سکول کے طالبِ علموں کو سننے کے لئے مل جاتے تھے۔پاکستانی ٹیم کے کسی کھلاڑی کی عدم شرکت پر خواجہ صاحب نے پوچھا،اسے کیا ہوا ہے؟بٹ صاحب نے کہا ’مسل پُل ہو گیا ہے‘،معراج صاحب نے کہا’اساں وی کھیڈدے رہے آں،ساڈے زمانے مسل ای نئیں ہوندے سَن۔ ‘‘ اسی طرح ایک کھلاڑی صفر پر آؤٹ ہوکر آیا تو خواجہ صاحب نے کہا ’’ اوئے کاکا، ایناُ کو سکور تے اِسی وی کر لیندے‘۔‘ مگر مرزا صاحب کی مجلس عموماً کرسی نشینوں سے دور اپنی عمر کے ایک آدھ ایسے بزرگ کے ساتھ ہوتی تھی جو آلتی پالتی مار کے گراؤنڈ پر بیٹھ سکتا ہو اور جو گنڈیریاں چوس چوس کر چھلکے میدان میں پھینکنے کی بجائے مرزا صاحب کے رومال پر نفاست سے رکھ سکتا ہو۔
ادبی مجالس میں مرزا صاحب نوجوانوں کے لیے کوئی زیادہ پسندیدہ شخصیت نہیں ہوتے تھے، کیونکہ اُن کا جلالی پہلو اجلاس کے دوران کوئی جملہ چست کرنے، اپنے ساتھی کے کان میں کھسر پھسر کرنے یا خود کلامی کی بھی اجازت نہیں دیتا تھا، وہ عموماً کسی کا مضمون آنکھیں بند کر کے سنا کرتے تھے، مگر اجلاس کی صدارت کے دوران وہ بے حد چوکس ہوتے تھے، میرا خیال ہے اُن کے جلال یاعتاب کا ہدف میں تو کبھی نہیں بنا، مگر میرے دائیں بائیں بیٹھے وہ معصوم لوگ ضرور ڈانٹ ڈپٹ سن لیتے تھے جو اپنے کانوں میں اُنڈیلے ہوئے میرے تبصرے کو خاموشی سے پی نہیں سکتے تھے، لیکن جب مرزا صاحب سے ملاقاتیں شروع ہوئیں تو میں حیران رہ گیا کہ اُن کی دلچسپی کے موضوعات، کتابوں، رسالوں اور متعلقہ اقتباسات کو سنبھالنے کی نفاست اور اپنے علمی کاموں میں انہماک کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ مجھے مرزا صاحب کے مشاغل، عادات اور شخصیت کے بہت قریب سے مطالعے کے کئی مواقع ملے، اُردو اکادمی کی ہفتہ وار تنقیدی مجالس ہی ایک تو بڑا حوالہ تھیں، پھر ۱۹۷۵ء میں جب گورنمنٹ کالج کوئٹہ اور گورنمنٹ کالج رحیم یار خان میں پانچ برس پڑھانے کے بعد سید صفدر امام کی کوشش سے میرا تبادلہ ملتان ہوا تو میں چند ماہ تو سلام المنان مرحوم کے گھر میں کرایہ دار رہا، جو عرش صدیقی صاحب کے ہم زلف تھے اور لالہ زار کالونی میں عرش صاحب کے گھر سے دو گلی دُور رہتے تھے۔ پھرکچھ عرصے کے بعد جب مرزا ابن حنیف گلگشت میں اپنے گھر میں منتقل ہوئے تو عرش صاحب کے گھر کا وہ حصہ خالی ہوا جو وہ وضع داری اور دوست داری میں کرائے پر دیتے تھے، تاہم مالک مکان کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے اور اُن کے اطوار اور محبت بھرا رویہ بھی مالکانِ مکان سے یکسر مختلف تھا، چنانچہ میں مرزا صاحب کے خالی کیے ہوئے حصے میں منتقل ہوا یہاں ابھی مرزا صاحب کا حیرت انگیز کتاب خانہ موجود تھا، کتاب خانے تو میں نے اپنی طالبِ علمی کے زمانے سے ہی بہت سے دیکھے تھے مگر اب تک اس احتیاط اور نفاست سے کسی کو اپنی کتابیں اس طرح رکھتے نہیں دیکھا تھا۔ ان کتابوں کے موضوعات ایسے تھے جن میں مجھے بہت زیادہ دلچسپی نہیں تھی، تاہم میں ایک مرتبہ پھر اُن سے بے پناہ مرعوب ہوا، اور پھر چند برس کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ میں گلگشت میں مرزا صاحب کے بالکل برابر والے گھر میں کرایہ دار کے طور پر منتقل ہوا اور پھر اُن کے لکھنے پڑھنے اور دیگر معمولات سے میری شناسائی اس طرح ہوئی جیسے گھر کے کسی فرد کی ہوتی ہے۔ مرزا صاحب کی جب کوئی بچی مجھے انکل کہتی تو وہ محبت بھرے جلال سے اُس سے کہتے کہ چچا کہو، اِس میں اپنائیت اور محبت زیادہ ہے۔ وہ تمام ادب پرور دوست جن کی منشا کے مطابق پذیرائی ہو تو دنیا میں اُن کے سوا کوئی مصنف بن ہی نہ سکے، وہ جب مرزا صاحب کے گھر آتے تھے تو یہ سوچے بغیر کہ یہ پورا دن دفتر میں کام کر کے آئے ہیں اور اب رات کو بیٹھ کر ’’دُنیا کا قدیم ترین ادب ‘‘ جیسی بے مثال اور ضخیم تصنیف کا مسودہ لکھ رہے ہیں اُن کی خلوت اور انہماک میں مخل ہوتے، رات گئے دروازہ کھٹکھٹاتے، بیل دیتے یا آواز دیتے تو مرزا صاحب باہر آتے اور پورے بحرِ منجمد شمالی کو اپنے چہرے پر سجا کر کہتے فرمائیے ‘ یا ایک لمبی سوالیہ ’جی ‘ کرتے۔ وہ ادب پرور دوست کہتے۔ ’’مرزا صاحب یہ ہم ہیں آپ کا احوال پوچھنے آئے تھے ‘‘ مرزا صاحب کہتے ’’جی، احوال آپ پوچھ چکے اب فرمائیے؟‘‘ چنانچہ ڈھیٹ سے ڈھیٹ آدمی بھی اُن کے تیسرے جواب پر ڈھیر ہوجاتا اور پھر مجروح حالت میں میرے پاس پہنچ جاتا، جہاں میں اُن کی تھوڑی بہت مرہم پٹی کرتا مگر مرزا صاحب کی بھی صفائی دیتاجاتا کہ اُن کے علمی کام اپنی تکمیل کے لیے اُن سے ایسے ہی رویے کے خواہاں ہیں۔
مرزا صاحب کو کھنڈرات، خرابوں اور ٹیلوں سے جو دلچسپی تھی اُس کے باعث اُنہیں ہماری دانست میں جو اذیتیں اُٹھانی پڑتی تھیں انہیں خود اُن سے بے پناہ مسرت ہوتی تھی۔ ٹیکسلا یا ہڑپہ کے کسی ٹیلے پر وہ رات بھر استراحت کے ارادے سے مقیم تھے کہ نصف شب کے قریب انہیں ایک زہریلے سانپ نے کاٹ لیا وہ تو اتفاق سے اُسی ٹیلے پر منڈلانے والی انہی کی طرح کی کسی بے چین روح نے اُنہیں دیکھ لیا اور قریبی بستی میں پہنچایا جہاں وہ کئی روز تک زیر علاج رہے یوں نہ صرف شفا یاب ہوئے بلکہ اِس سانپ کی بدولت اُن کے بدن نے توانائی کے کچھ نئے معنی بھی سیکھے۔ عرش صاحب نے اس حوالے سے ایک مرتبہ میرے سامنے مرزا صاحب کو چھیڑا تو میں نے اُنہیں باقاعدہ شرماتے دیکھا۔ ایک ملاقات میں مَیں نے بھی اُنہیں کریدا تو انہوں نے شرما شرما کے بتایا کہ انوار میاں اِس سانپ کے کاٹنے کے کچھ برس تک تو یہ حالت تھی کہ میں کہیں کوئی دوپٹہ دیکھتا تھا تو اپنے آپ میں نہیں رہتا تھا۔ مرزا صاحب کے اِس اساطیری سانپ کی شہرت سن کر ڈاکٹر اے بی اشرف بھی اُن کے پاس آئے اور سانپ کے بارے میں کافی دیر تک کچھ تکنیکی معلومات حاصل کرتے رہے‘ آخر میں بڑی معصومیت سے پوچھا ’’ مرزا صاحب یہ سانپ زیادہ زور سے تو نہیں کاٹتا؟ ‘‘
مرزا صاحب کی غیر معمولی شخصیت اپنے احباب پر عیاں تھی اور اِس سلسلے میں بہت سے واقعات ایک دور میں افسانوی محسوس ہوتے تھے مگر آج کی عملیت پسند دُنیا میں یہ لطائف یا حماقتوں پر محمول کیے جائیں گے۔ مرزا صاحب اپنے دفتر میں بائیسکل پر آتے تھے اور اکثر اُسے ہاتھ میں لے کر گھر سے دفتر تک کا فاصلہ طے کرتے تھے، پھر اُن کی صفائی پسندی اور نفاست الگ، چنانچہ اُن کی سائیکل نئی سائیکلوں سے بھی زیادہ نئی دکھائی دیتی تھی، اُس زمانے کے چور بھی کوئی زیادہ بے درد نہیں ہوئے تھے، چنانچہ کوئی اپنی پرانی سائیکل کے عوض اُن کی نئی سائیکل دفتر سے لے گیا وہ اُس سائیکل کو ہاتھ میں لیے ہوئے تھانہ کوتوالی پہنچے، رپورٹ درج کرائی اور وہ سائیکل کوتوالی میں جمع کروادی۔ محرر نے کہا کہ جب تک سائیکل نہیں ملتی، آپ اسے استعمال کیجئے۔ مرزا صاحب نے کہا ’’ نہیں میں اخلاقاً اِس سائیکل کو استعمال نہیں کر سکتا‘‘ محرر نے مرزا صاحب کی اصول پسندی کی داد دی اور سائیکل ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھ لی۔ اسی طرح ان کی سب سے چھوٹی بچی کا آپریشن امریکہ میں ہونا تھا،مسعود اشعر نے بہت کوشش کرکے ایک لاکھ روپے سے زائد رقم ’امروز سے منظور کرائی،ظاہر ہے کہ اس میں کچھ وقت لگا،اس دوران بچی کے ایک ماموں نے اپنی بہن اور بھانجی کے لیے امریکہ کے ٹکٹوں کا اور آپریشن کا بھی بندو بست کرا دیا، مرزا صاحب نے اپنے ادارے کا چیک واپس کر دیا،اور ظاہر ہے کہ سبھی احباب نے انہیں ’کودن ‘ قرار دیا۔
امروز سے وابستگی کے دوران مرزا صاحب کوئی ایسا کام بھی کرتے تھے جو اس خطے کی تاریخ و تہذیب کی اجزا بندی کے ذیل میں آتا ہے، تو وہ اپنے دفتر سے بلا تنخواہ رخصت لیتے تھے۔ مجھے یاد ہے قلعے پر جب سٹیڈیم کی توسیع کے لیے سیڑھیاں بنی تھیں اور وہاں ڈرلنگ ہو رہی تھی تو وہ ہفتوں وہاں ایک معصوم بچے کی طرح بیٹھے رہے، مزدور جو کچھ گیلی ریت، کیچڑ نکال رہے تھے۔ مرزا صاحب اُس میں اپنے ہاتھ کو غوطہ خوروں کی طرح سے تہہ میں اُتار دیتے تھے اور کبھی کبھار اُن کی آنکھیں مسرت سے چمک اُٹھتی تھیں، جب اُنہیں کچھ مٹی یا پتھر کی اشیاء کے ٹکڑے ملتے تھے جو ملتان کی گمشدہ تاریخ کی گواہی دیتے تھے۔ ایسے موقعوں پر میں نے کبھی کبھار ایک دو لوگوں کو اُن کے پاس کچھ دیر کے لیے بیٹھتے تو دیکھا ہے مگر جس شان سے اِس ملتانی جوگی نے وہاں دھونی رمائی تھی وہ سرائیکی شناخت کے کسی چمپئن کو کبھی نصیب نہ ہوئی۔ اس طرح کی چھٹیوں کے سبب مرزا صاحب کا پنشن کے حوالے سے بڑا نقصان ہوا۔ ضیاء الحق کے زمانے میں امروز کی بندش ہوئی تو مرزا صاحب بھی شبیرحسن اختر، حنیف چوہدری، سلطان سیّد، نوشابہ نرگس، سعید صدیقی، ولی محمد واجد، مظہر عارف، مسیح اللہ جامپوری اور ایم اے شمشاد جیسے کئی احباب کی طرح بے روزگار ہوگئے اور پھر اُن میں سے بیشتر نے بڑی صعوبتیں برداشت کیں، مرزا صاحب کے بہت سے اقربا اور احباب کافی متموّل ہیں مگر اُن کی خودداری نے ہمیشہ اپنے بہت سے دکھ اپنے سینے میں ہی مدفون رکھے۔ اس سلسلے میں اُن کی با سلیقہ اور وفاشعار بیوی نے بھی اُن کا پورا پورا ساتھ دیا۔ ایک مرتبہ مجھے حسین آگاہی بازار میں رہنے والے ایک شاگرد نے بتایا کہ مرزا صاحب کئی دکانوں پر گئے ہیں کہ اُنہیں سیلز مین رکھ لیا جائے اور کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ تین ہزار روپے ماہانہ دئیے جائیں کہ اُن کے اندازے کے مطابق یہی اُن کو درکار ہیں۔ میں یہ بات سُن کر لرز گیا، اتفاق سے میرے ایک شاگرد علمدار حسین بخاری نے ایک پوسٹ گریجوایٹ کالج کی تجویزمیرے سامنے پیش کی، میں نے اُسے کہا کہ اگر تم مرزا ابن حنیف کو تین ہزار روپے ماہانہ پر اپنے دفتر، لائبریری یا اسی طرح کے کسی شعبے کا انچارج بنا دو تو میں تم سے تمام تر تعاون کروں گا، عرش صاحب کو بھی آمادہ کروں گا کہ وہ اعزازی طور پر پرنسپل کی خدمات سرانجام دیں اور دیگر احباب سے بھی درخواست کروں گا۔ بخاری صاحب یہ بات مان گئے اور پھر مرزا صاحب کے حوالے سے میری ’’ ڈیل‘‘ کا سن کر عرش صاحب بھی مان گئے اور یوں یہ کالج شروع ہوا، اور میرے نزدیک مرزا صاحب اور عرش صاحب کی برکت سے یہ چلنے بھی لگا اور کچھ رونق کے آثار پیدا ہوئے بلکہ یہ ملتان میں ایک ادبی اور ثقافتی مرکز کی حیثیت بھی اختیار کر گیا اور پھر یہیں وہ وقوعہ پروان چڑھا جس میں خالد سعید جیسے مہم ُ جو اورُ سورماکومیں نے اپنے روبرو گھگھیاکر یہ اپیل کرتے دیکھا کہ میں نے تمہاری جس شاگرد سے شادی کاوعدہ کیا تھا اُسے باور کراؤ کہ روئے زمین پر خالد سے زیادہ گھٹیا کوئی شخص نہیں کہ وہ اوّل تو شادی کرے گا نہیں، اگر کرے گا تو اپنی بیوی سے زد و کوب ہونے کے بعد علیحدگی اختیار کر لے گا اِس لیے اُسے فراموش کر دو۔کالج کے اسی ثقافتی عروج کے زمانے میں مرزا صاحب کی تنخواہ میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کر دیا گیا، جو انہوں نے واپس کر دیا کہ طے شدہ معاوضے سے زائد نہیں لوں گا ، دوسرے اُن کی ضرورت بھی تین ہزار روپے ماہانہ کی ہے اور تیسرے کالج کے اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں،اس کے باوجود کچھ عرصے بعد علمدار حسین بخاری کو بطور منتظم مرزا صاحب سے کچھ شکایتیں پیدا ہونے لگیں، اُس کا کہنا تھا مرزا صاحب داخلے کے خواہشمندوں کے سامنے بڑے بڑے تکلیف دہ اور غیر کاروباری سچ بول دیتے ہیں اُنہیں بتا دیتے ہیں کہ یہاں ہاسٹل کا کوئی انتظام نہیں اور ہمارے وعدوں پر نہ جائیں اِس کا بندوبست آپ کو خود کرنا ہوگا، اسی طرح سے دیگر معاملات میں بھی اُن کی راست بازی بخاری کے خیال میں کالج کو غیر معمولی نقصان پہنچا رہی تھی، میں نے ایک دو مرتبہ بخاری سے کہا کہ خانقاہوں کے کبوتروں کو جو چوگا دیا جاتا ہے اُسے کبھی اپنے حساب کے کھاتوں میں مت لکھو اور نہ کبھی اُن کی بنیاد پر خسارے کا تعین کرو، مگر بخاری کی تلخی بڑھتی چلی گئی اور آخر کار مرزا صاحب اِس کالج سے چلے گئے ‘ اور میرے دل میں علمدار کے لیے بال سا آگیا۔
کئی برسوں کے بعد پھر ایسا ہوا کہ ہمارے وائس چانسلر ڈاکٹر غلام مصطفی چودھری نے اپنے پیش رو اور’زمیں زاد‘ ڈاکٹر محمد عاشق دُرانی کو اپنی دانست میں زک پہنچانے کی خاطر اعلان کیا کہ میں سرائیکی تو نہیں مگر دیکھو میں سرائیکی ریسرچ سنٹر بنا رہا ہوں۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے بطور ڈین مجھے اِس سنٹر کا اضافی چارج دیا تو میں نے پہلی شرط یہی رکھی کہ مجھے امروز مرحوم سے اپنی مرضی کے تین ایسے بزرگ چننے دیں جنہوں نے اِس خطے کی تاریخ اور زبان و ادب کا کام کیا ہو اور جنہیں ہم اعزازیہ اور احترام و محبت پیش کر کے اِس سنٹر کی بنیادیں اِس طرح سے استوار کریں کہ چرس پینے والے مجنوں جو چاہے کہتے رہیں یہاں ایک اچھا کتاب خانہ چھوٹا سا میوزیم اور اشاعتی پروگرام بن جائے تاکہ بعد میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کو علمی ماحول مل سکے۔ چنانچہ سب سے پہلے میں مرزا ابنِ حنیف کو اِس سنٹر میں لایا اور پھر اُن کی محنت، دل نواز مسکراہٹ اور اس خطے کی تاریخ و تہذیب سے اُن کی ان مٹ محبت کو اس سنٹر کی پہلی اینٹ بنایا۔ اس کے کچھ عرصے بعد پنجابی زبان و ادب کے نامور سکالر حنیف چوہدری کو یہاں رکھا گیا اور پھر کیفی جامپوری کے نامور صاحبزادے شبیر حسن اختر کو۔ سرائیکی احباب کی طرف سے میری اس ترتیب پر بہت تنقید ہوئی لیکن غلط یاصحیح میرا مؤقف یہی ہے کہ ہم فطرت کے جبر کو انسان کی شناخت کا بنیادی حوالہ نہیں مان سکتے۔ اگر کوئی اُردو بولنے والے گھر میں پیدا ہوا اور کوئی پنجابی یا سرائیکی تو ،ہم اُنہیں الگ الگ زمروں میں تقسیم کرنے کو ہی نوشتۂ تقدیر کیوں بنا لیں؟ ہاں اِس تفریق کے نتیجے میں وہ اہلِ ملتان سے نفرت سے پیش آئیں اور خود کو مہذب اور بر تر سمجھیں تو پھر ہمارا حق ہے کہ اُن کے خلاف ہر طرح سے مزاحمت کریں، مگر مرزا ابنِ حنیف کو ہم کیسے سرائیکی نہ کہیں جو ملتان کا شیدائی تھا، جس نے سات دریاؤں کی سر زمین لکھی، جس نے نواب پور، ہڑپہ، چولستان، گنویری والا میں کئی بے خواب راتیں گزاری یہاں کے چپہ چپہ پر موجود کھنڈرات کی سرگوشیاں سُنیں اور نظر انداز ہوجانے والے لوگوں اور جگہوں سے والہانہ محبت کی۔ مجھے یا د ہے کہ وفات سے کوئی ایک سال پہلے مرزا صاحب نے چھوٹے معصوم بچے کی طرح مجھے اپنی ان مسرتوں میں شریک کرنا چاہا،جو بستے میں تتلی کے ایک پر،یا کانچ کے رنگین ٹکڑے کی بدولت نصیب ہوتی ہے،انہوں نے اپنے بستر کے نیچے سے ایک صندوقچہ نکالا،اس میں سے ایک ڈبیا بر آمد کی، چمکتی مسکراتی آنکھوں سے اس میں سے ایک بالی نکال کر میری جانب بڑھائی۔پہلے میں نے دل میں کہا اور پھر زبان پر لے آیا’’مرزا صاحب،آج اپنی زندگی کے اس رومانوی باب کو کھول ہی دیجئے کہ یہ بالی کس کو اور کب آپ نے دی تھی؟ ‘‘ مرزا صاحب نے اپنے صندوقچے سے ایک محدب شیشہ نکالا اور کہا ’’بات اس بالی کی نہیں اس کے کنڈے میں پھنسے دھاگے کے اس ٹکڑے کو غور سے دیکھو،یہ کپڑے کی دھجی کا نشان ہے اور یہ ہڑپہ میں استعمال ہونے والے کپڑے کی نشانی ہے جو اس علاقے کو معاصر خطوں میں مہذب اور ہنر مند ثابت کرتی ہے۔ ‘‘
ان کا اصل نام ظریف بیگ تھا،اردو سیاق و سباق میں لفظ’ظریف‘ کے جومعانی ہیں، اور جنہیں نامور کامیڈین ’ظریف‘ نے جس طرح راسخ کر دیا تھا،غالباً اسی خیال سے انہوں نے ابنِ حنیف کا قلمی نام اختیار کیا،اور یہ ان کے وجود کا ایسا حصہ بنا کہ ایک مرتبہ ان کی طبیعت بگڑنے پرجب میں انہیں ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرانے گیا اور نرس نے مجھ سے مریض کا نام پوچھا، میں نے کہا’ابنِ حنیف‘،اس نے ولدیت پوچھی تو میں نے پریشانی کے عالم میں کہا’وہ ہوش میں آئیں گے،تو لکھوا دیں گے‘،یہ اور بات کہ مرزا صاحب ہوش میں آئے تو اس وقت تک میرے حواس بھی ٹھکانے پر آچکے تھے،اور مرزا صاحب کو میں نے یہ لطیفہ سنایا،تو وہ کافی تکلیف کے باوجود مسکرا دئیے۔میں ترکی میں گیا تو میں نے مرزا صاحب کو لکھا کہ چنگیز خان بلاشبہ ترک تھا اور آپ کے بزرگوں نے بھی آپ کا نام درست رکھا تھا،کیونکہ ترکی زبان میں ’ظریف‘،ذکی اور ذہین کو کہتے ہیں۔
مرزا صاحب کو تاریخِ انسانی میں سے چار شخصیتیں پسند تھیں،فرعون (توتمس ) ، بابلی شہزادی سیمی رامس، چنگیز خان اور قائدِ اعظم،وہ مرزا غالب کو سخت نا پسند کرتے تھے کیونکہ اُن کے نزدیک وہ مغل ہو ہی نہیں سکتا جو انگریزوں کی خیر خواہی کا دم بھرتا ہو، میں کوشش کرتا تھا کہ اپنے پسندیدہ شاعر غالب کے شعر موقع بہ موقع انہیں سناؤں اور اس کی نثر کے کچھ ٹکڑے بھی ایسی تشریحات کے ساتھ پیش کروں کہ اُن کے غبار میں کچھ کمی آئے مگر وہ میرے ایسے بیانات کے دوران حقارت سے مسکراتے رہتے تھے اسی طرح وہ ذوالفقار علی بھٹو کو ناپسند کرتے تھے،بھٹو کی پھانسی پر میں نے ایک افسانہ لکھا تھا ’درداں دی ماری دلڑی علیل اے‘ (بھٹو نے سپریم کورٹ میں اپنے سہ روزہ تاریخی بیان کا اختتام اس مصرعے پر کیا تھا)،جب میں نے اردو اکادمی میں یہ افسانہ پڑھا،تو کافی جذباتی اور سوگوار فضا تھی،سو اس وقت احباب کو یہ افسانہ کافی موثر محسوس ہوا،مرزا صاحب بس چپ سے ہو گئے،پھر چند دن کے بعد کہا’مجھے کافی صدمہ ہوا ہے۔‘میں نے امیدبھرے لہجے میں پوچھا’بھٹو کی پھانسی سے؟‘ کہنے لگے’نہیں،اس بات سے کہ تم جیسا آدمی وڈیروں سے سماجی انقلاب کی توقع رکھتا ہے‘ میں کئی دنوں تک جماعتِ اسلامی اور ضیاء الحق کی ڈھونڈ ڈھونڈ کے برائیاں بیان کرتا رہا سو ایک دن چڑ کر بولے اگر تو تم یہ سمجھتے ہو کہ میں بھٹو کو ان کی وجہ سے نا پسند کرتا ہوں تو تم میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
ایک مرتبہ میں نے ڈاکٹر نجیب جمال کے ساتھ مل کر مرزا صاحب کو مصر کی سیر کرانے کا منصوبہ بنایا، نجیب اُس زمانے میں اُردو چیئر پر مصر میں تھے مگر عین موقع پر مرزا صاحب نے غالباً ہماری زیر باری کے پیش نظر معذرت کر دی، مگر میں اُنہیں چھیڑتا تھا کہ آپ کی رومانوی طبیعت حقیقت کا براہِ راست سامنا نہیں کر سکتی اِس لیے اہرامِ مصر کی تصویریں اور تذکرے آپ کے تخیل کی رنگ آمیزی کے ساتھ جیسے دل آویز ہوئے ہیں آپ اُنہیں کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ مرزا صاحب نے آخری برسوں میں بے پناہ تنگ دستی دیکھی مگر اُن کے اندر غیرت اور استغنا جس درجے کی تھی آج کے معاشرے میں بہت سے لوگ اُس کے بیان کو مبالغے پر محمول کریں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک مرتبہ میں نے افتخار عارف کو لکھ کر ’اکادمی ادبیات ‘کی جانب سے یک مشت مالی اعانت کا چیک منگوایا مگر مرزا صاحب نے وہ واپس کر دیا، دوسری مرتبہ میں نے اُن کے ڈر سے اُن کی بیگم صاحبہ کے نام منگوایا اور اُن سے درخواست کی کہ مرزا صاحب کے علاج معالجے پر جو خرچ ہو رہا ہے اُس کے پیش نظر اسے جزوی اعانت خیال کریں میری بار بار کی درخواست پر وہ نیم آمادہ ہوگئیں مگر جب اُن کے نام چیک آیا تو وہ انہوں نے ایک سعادت مند بیگم کی طرح مرزا صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا انہوں نے بڑے جلال کے عالم میں مجھے طلب کیا اورکسی قدر سخت لہجے میں کہا ’’ انوار میاں تم نے ایک مرتبہ مجھے حیات اللہ انصاری کا ایک افسانہ ’’آخری کوشش‘‘سنایا تھا۔ اب تم مجھ سے وہی سلوک کرنا چاہتے ہو جو اپاہج ماں کو ایک ٹھیلے میں ڈال کر اُس کے بیٹے کر رہے تھے۔ ‘‘ میں نے اُنہیں قائل کرنے کی کوشش کی یہ ریاست کا فنڈ ہے اور اہلِ قلم کا اس پر حق ہے اور یہ کوئی اتنی بڑی رقم بھی نہیں، اسے اپنی عیادت کے لیے آنے والوں کی طرف سے گلدستہ سمجھ لیجئے، میری خطابت کے بعد وہ ایک کرب ناک مسکراہٹ کو اوڑھ کر لیٹ گئے اور میں نے یہ خیال کیا کہ مردِ ناداں کی خطابت بالآخر پہاڑ کے دل میں بھی جگہ بنا چکی ہے مگر کچھ عرصے بعد اکادمی ادبیات کی طرف سے خط ملا کہ مرزا صاحب نے اپنی بیگم کے نام بھجوایا جانے والا چیک بھی واپس کر دیا ہے۔
مرزا صاحب کے استغراق کے سبب غیر حاضر دماغی کے لطائف، پروفیسروں کے واقعات کو بھی مات دے چکے تھے، اسی لیے اُن کی عادت تھی کہ وہ اپنے رومال میں کچھ گرہیں ڈالتے جاتے تھے کہ ہر گرہ کھلنے پر اُنہیں کام بھی یاد آجائے یہ اور بات کہ وہ اپنا رومال بھی کہیں رکھ کر بھول جاتے تھے،اور آخری ملاقات میں جب وہ نحیف آواز میں کہہ رہے تھے کہ میں سرائیکی ریسرچ سنٹر میں ضرور آؤں گا، اور میرے آنسو بے قابو ہو رہے تھے،تو میں نے ان کے تکیے کے قریب رکھے ان کے رومال کو لرزتے ہاتھوں سے گرہ لگائی کہ وہ کھولیں تو انہیں مجھ سے کیا وعدہ یاد آجائے،مگر یہ رومال ان کے سرہانے دھرا ہی رہ گیا ہو گا،ورنہ وہ ایسے وعدے نہیں کرتے تھے،جنہیں وہ ایفا نہ کر سکتے ہوں۔