ترجمہ اور لسانیات
نصیر احمد خان


دوسرے فنون کی طرح ترجمہ بھی ایک باقاعدہ فن ہے اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو اس میدان میں اترتے ہی ہمیں مختلف پل صراطوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جگہ جگہ ایسے مسائل سامنے آتے ہیں کہ انہیں سلجھانا بظاہر نا ممکن معلوم ہوتا ہے۔ اس فن سے متعلق جو ذمّہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں ، وہ نازک بھی ہیں اور دقّت طلب بھی۔ اب تک بہت کم کامیاب ترجمے دیکھنے میں آئے ہیں، ہومرؔ کے نغمے ہوں یا شیکسپیئر کے ڈرامے، ابونوؔ اس کے اشعار ہوں یا خیّام کی رباعیاں، غالب کی شاعری ہو یا کالیؔ دا س کی شکنتلا یا ٹیگور کے پیغامات، ابھی تک ہم یہ دعویٰ کرنے سے قاصر رہے ہیں کہ ان شاہکاروں کو دوسری زبانوں میں من و عن انہی خیالات، انہی احساسات انہی کیفیات اور شّدت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جیسی کہ وہ اصل زبانوں میں ملتی ہیں۔ یونانی زبان میں ارسطو کے بکھرے ہوئے خیالات کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے۔ آئن سٹائن کے کارناموں پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ ٹالس ٹائے، بال زک، موپساں، آرٹ، ایمیلی برونٹے وغیرہ کے شہ پاروں اور فاکس، آرنلڈ، رچرڈس اورایلیٹ وغیرہ کے تنقیدی کارنامے بھی اس الزام سے بری نہیں ہیں۔ ان کوتاہیوں کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جن پر ذیل میں لسانیات کی مدد سے چند اشارے کیے جاتے ہیں۔
درحقیقت صحیح اور کامیاب ترجمے اسی صورت میں ممکن ہیں جب ہم لکھنے والے کے ذہن میں نہ صرف سفر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں بلکہ ان کیفیات اور احساسات سے بھی گزر سکیں جو تصنیف کا ذریعہ بنی ہیں۔ ترجمہ محض ایک جسم کو دوسرا لباس پہنا دینے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک جسم کے مقابلے میں بالکل ویسا ہی جسم تراش کر اسے دوسرے لباس میں اس طرح لے آنا ہے کہ دونوں قالبوں میں ایک ہی روح ہو۔ یہاں لباس، جسم اور روح سے مراد ترجمے کی زبان، اصل عبارت کا مرکزی خیال اور وہ تاثر ہے جو پڑھنے کے بعد دل و دماغ میں قائم ہوتا ہے۔
ترجمے کے وقت جو مسائل سامنے آتے ہیں انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی ادبی شاہکاروں کے ترجمے سے متعلق مسائل جس میں نثر اور شاعری دونوں شامل ہیں۔ دوسرے وہ مسائل جو علمی یا ٹیکنیکل مضامین کا ترجمہ کرتے وقت درپیش ہوتے ہیں۔ اول الذکر میں مرکزی خیال، مجموعی ثاثیر، خیال کی شدّت ، تخیّل کی پرواز، الفاظ کی نشست و برخاست، صوتی آہنگ، بحری تناسب اور ہیئت وغیرہ کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ جب کہ مسائل کی دوسری قسم میں مرکزی خیال، مجموعی تاثر، سیاق و سباق اور اصطلاحات پر ہماری خاص توجہ ہوتی ہے، ہر اعتبار سے ترجمے میں مرکزی خیال کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یعنی جس چیز کو ہم مواد کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اس کے ذریعے مصنّف کیا کہنا چاہتا ہے اُسے گرفت میں لینے کے لیے ترجمے والی زبان پر عبور حاصل ہونا چاہیے۔ نثر، خواہ وہ کسی ادبی ، علمی یا ٹیکنیکل کارنامے پر مشتمل ہو، شاعری کے مقابلے میں نسبتاً آسان ہے۔ اس لیے اس میں مرکزی خیال کو پا لینے میں زیادہ دقّت نہیں ہوتی۔ نثر میں مرکزی خیال مختلف پیراگرافوں میں بکھرا ہوا ہوتا ہے۔ یہ پیراگراف بالکل ان لکیروں کی طرح ہوتے ہیں جن کی مدد سے تصویر بنائی جاتی ہے۔ جس طرح لکیروں کا ہر خم، ہر زاویہ بامعنی ہوتا ہے اور اپنی مختلف کروٹوں سے وہ تصویر کاڑھنے میں مدد دیتا ہے، اسی طرح تحریر کا ہر پیراگراف مرکزی خیال کو واضح کرنے میں معاون ہوتا ہے۔
شاعری میں مرکزی خیال کو ڈھونڈ نکالنے میں ہمیں ایک ایک لفظ پر توجہ دینی پڑتی ہے۔ شاعر کے دل میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ ان کیفیات اور احساسات سے گزرنا پڑتا ہے۔جو مرکزی خیال کی تحریک کا باعث بنے ہیں۔ یہاں ترجمے کی زبان بولنے والوں کی تاریخی، تہذیبی اور سماجی قدروں کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے تب کہیں جا کر مرکزی خیال سامنے آتا ہے۔ دوسری اہم چیز ترجمے میں مجموعی تاثیر کو پیش کرنا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم دونوں زبانوں کی ساختوں اور ان کی ادبیات سے پوری طرح واقف ہوں، زبانوں کے مزاج کو پہچانتے ہوں، ان کے اشاروں، کنایوں اور استعاروں کو سمجھتے ہوں۔ جسے مواد کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اس کی جزیات سے پوری طرح باخبر ہوں۔ صحیح تاثر پیش کرتے وقت ایک بڑی دشواری اس وقت سامنے آتی ہے جب ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ اس کا دامن، سرمایہ الفاظ، خیال اور معنی مطالب کے اعتبار سے ، اس زبان کے مقابلے میں جس کا ترجمہ کیا جا رہا ہے تنگ ہے۔ اس کمی کو زبان کے مزاج کے مطابق الفاظ مستعار لے کر یا اختراع کر کے ہم کام چلا سکتے ہیں۔ تیسری بنیادی چیز ’’ شدّت ہے ‘‘ یعنی جس شدّت کے ساتھ مصنّف یا شاعر نے اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ تقریباً وہی بات ترجمے میں بھی آنی چاہیے۔ اگر ترجمے میں ہم ایسا کرنے سے قاصر رہے ہیں تو بلاشبہ وہ صحت مند ترجمہ نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں الفاظ کا اس طرح انتخاب کرنا چاہیے کہ ترجمے کے الفاظ کے معنی و مطالب اپنے استعمال کی وجہ سے اس طرح قید ہو جائیں کہ وہ الفاظ ویسا ہی مفہوم ادا کریں جیسا کہ ہم چاہتے ہیں۔ تشبیہات و استعارات کا بھی مناسب ترجمہ ہونا چاہیے تاکہ ’’شدت‘‘کو صحیح غذا ملتی رہے۔
ترجمے میں الفاظ کا صحیح استعمال بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ایسا کرنے میں ہم ناکام رہے ہیں تو مرکزی خیال، مجموعی تاثر اور خیال کی شدّت تینوں چیزیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ اس لیے اس منزل سے گزرتے وقت (خاص کر شاعری کے ترجمے میں) بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ہر لفظ معنی کے اعتبار سے اپنا ایک حلقہ رکھتا ہے اس لیے یہ حلقے اصل کے جتنے مطابق ہوں گے ترجمے کے لیے سود مند ہوگا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زبان میں وہ الفاظ نہیں ملتے جنہیں کسی خیال کو ادا کرنے کے لیے ہم ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں زبان کی ساخت سے مطابقت رکھنے والے لفظ کو کسی قریبی زبان سے مستعار لے سکتے ہیں۔ یہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس زبان سے ترجمہ کیا جا رہا ہے اس کے اس لفظ کو ہی اپنا لیں جس کے لیے ہمیں ضرورت ہے بہرحال دونوں صورتوں میں ترجمہ کی جانے والی زبان کی انفرادیت، مزاج، صوتی آہنگ اور گردانوں میں اس لفظ کی ساخت کے اصولوں کو مدّ نظر رکھنا مناسب ہوگا۔۔۔ عام طور پر سادہ (Simple)الفاظ کو مستعار لینا چاہیے۔ اگر مختلف گردانوں پر مشتمل پیچیدہ (Complex) یا مرکب (Compound)الفاظ کو لیا جائے گا تو ہو سکتا ہے آگے چل کر جب مختلف معنوں کے لیے ان الفاظ کی مزید گردانی شکلیں مہیّا کرنی ہوں تو وہ ساخت کے اعتبار سے ہمارا ساتھ نہ دیں۔
ترجمے کے وقت اگر سیاق و سباق کی مدد سے الفاظ کا انتخاب کیا جائے تو ہم اپنے مقصد میں زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ یہی واحد ذریعہ ہے جو لفظ کے صحیح معنی ہم تک پہنچاتا ہے۔ انگریزی کے لفظHouseکا اُردو میں ترجمہ کرنا بہت آسان ہے یعنی گھر یا مکان۔ لیکن کبھی کبھی یہ لفظ منفرد حیثیت سے یا دوسرے الفاظ کے اشتراک سے تحریر میں دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اب اس عبارت میں کیا معنی ہو سکتے ہیں یہ سیاق و سباق ہی سے واضح ہو سکتا ہے۔
اگر لفظ کسی کردار سے منسوب ہے تو ترجمے کے وقت اس پر ہوشیاری سے ہاتھ ڈالنا چاہیے اردو میں ہندی سے ترجمے کرتے ہو ئے اگر کوئی جملہ’’ سمراٹ اشوک‘‘ نے پرستھان کا آدیش دیا ہے‘‘ تو اس کا مناسب ترجمہ ’’ شہنشاہ اشوک نے کوچ کا حکم دیا ہے‘‘ کے بجائے ’’ سمراٹ اشوک نے کوچ کا حکم دیا۔ ‘‘ زیادہ مناسب ہوگا۔ یہاں اشوک کے ساتھ شہنشاہ کے بجائے سمراٹ کا لفظ زیادہ فصیح ہے۔ عام طور پر رسوم و رواج اور تہوار کے اسما بھی ترجمہ نہیں کیے جاتے اور حاشیوں میں ان کی تشریح کر دی جاتی ہے۔ یہ اسی صورت میں صحیح ہے کہ جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے اس میں ان رسوم و رواج یا تہواروں کا چلن نہ ہو۔ جس سے ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک تشبیہوں اور استعاروں کا تعلق ہے یہ احساس کو شدید کرنے اور خیال کو واضح طور پر پیش کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان کے ترجمے میں کوئی خاص دقت نہیں ہوتی سوائے اس وقت کے جب وہ ترجمہ ہونے والی زبان میں نہ ملیں۔ ایسی صورت میں انہیں زبان کے مزاج کے مطابق اس طرح ڈھالنا کہ ان سے وہی مقاصد پورے ہوں، جن کے لیے مصنف نے انہیں استعمال کیا ہے۔ ایک ذمّہ داری کا کام ہے۔ تشبیہات اور استعارات کا بہت بڑا تعلق اس زبان کے بولنے والوں کے رجحانات، احساسات اور سوچنے کے اندازوں سے ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر زبان میں یہ چیزیں یکساں نہیں ہوتیں اس لیے ضروری نہیں ہے کہ کسی تشبیہ یا استعارے سے ایک زبان میں جس طرح کام لیا جا رہا ہے، دوسری زبان میں بھی وہی تاثر پیش کرے۔
جہاں تک شاعری کا تعلق ہے یہ ترجمے میں سب سے مشکل مہم کہی جا سکتی ہے۔ یہاں کئی لغزشیں ہونے کے امکانات رہتے ہیں۔ اس میں جتنی محنت ایک شاعر اپنے اشعار کے لیے کرتا ہے، اس سے کہیں زیادہ کاوشیں مترجم کو کرنی پڑتی ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جتنے اچھے ترجمے نثری شہ پاروں کے ہوئے ہیں، اتنے اچھے اور نہ تعداد میں ان سے زیادہ شعری ترجمے ہو سکے ہیں۔ شعری ترجمے میں اچھے شعر کے تمام لوازمات اور ان کے نازک مراحل سے مترجم کو گزرنا پڑتا ہے۔ وہ ایک اچھے شاعر سے زیادہ ذمّہ داریاں نبھاتا ہے۔ اسے شاعر کے دل و دماغ میں گھنٹوں سفر کر کے ان کیفیات سے گزرنا پڑتا ہے جن کے تحت شعر کہا گیا ہے۔ یہاں آورد کو آمد بنانا بھی اسی کا کام ہوتا ہے۔ شاعر کے محسوسات کو گرفت میں لانے کے لیے مترجم کو ترجمے کی زبان کے سرمایۂ الفاظ کو کھنگالنا پڑتا ہے۔ الفاظ کے معنی و مطالب سے صلح کرنے کے لیے جنگ کرنی پڑتی ہے۔ صوتی آہنگ کے لیے الفاظ کی ایک ایک آواز کو ناپنا اور تولنا پڑتا ہے۔ غرض ایک لمبی تراش خراش ، تلاش اور کاوش کے بعد روح کو صحیح قالب ملتا ہے۔ ایسے موقعوں پر ہیئت یا فارم کا صحیح فیصلہ کرنا بھی اہمیت رکھتا ہے۔ اُردو میں غزل، نظم ، رباعی، مثنوی، مرثیہ قصیدہ وغیرہ مختلف اصناف سخن ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی الگ الگ خصوصیات اور اپنا الگ الگ طرز بیان ہے۔ ظاہر ہے ہر ادب میں یہ اصناف رائج نہیں ہیں اس لیے ترجمے والی زبان میں مروّج اصناف میں سے اپنے مقصد کے لیے کسی ایک کو اس طرح چننا چاہیے کہ وہ سارے تقاضے پورے کرے۔ شعری ترجمے میں مرکزی خیال کو گرفت میں لے کر اسے متعلقہ زبان میں ظاہر کر دینا ہی کافی نہیں ہے۔ ہمیں اس تاثر کو بھی پیش کرنا ہوگا جو اصل کو پڑھ کر قاری کے ذہن میں قائم ہوتا ہے۔ زہر عشق میں وصیت نامے کے ترجمے کے بعد مرکزی خیال کے ساتھ اگر وہ شّدت، تاثر اور احساسات ہمارے اندر بیدار نہیں ہوں گے جو اسے پڑھ کر ابھرتے ہیں تو یہ ترجمے اور اصل دونوں کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔
ترجمے میں ایک خاص پریشانی محاورات کے ساتھ درپیش آتی ہے۔ہر زبان میں محاورے بولنے والوں کی روایات اور تہذیبی قدروں کے مطابق ہوتے ہیں وہ جو مفہوم ادا کرتے ہیں، ان کے پیچھے ایک تاریخ ہوتی ہے۔ایک خاص محاورے کے ذریعے ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں بہت ممکن ہے دوسری زبان میں اس خیال کو ادا کرنے کے لیے کوئی محاورہ سرے سے ملتا ہی نہ ہو۔ ایسی صورت میں زبردستی عبارت کے حسن کو بگاڑ دیتی ہے۔ اس لیے ہمیں اعتدال سے کام لیتے ہوئے محاورے کی جگہ محاورے کی جستجو کی بجائے اپنی ضرورت کے مطابق محاورے کے مفہوم کو۔۔۔ الفاظ سے اور الفاظ کے معنوں کو محاورے کی مدد سے پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ ترجمہ ہونے والی زبان میں کسی خاص محاورے کا مفہوم ملتا ہے تو اس کے لیے صحیح قالب ڈھونڈ نکالنا یقیناًایک دشوار کام ہوگا۔ انگریزی کے قالب میں اردو کے محاورے’’بھاگتے بھوت کی لنگوٹی‘‘ کی رُوح اتارنا، یا دائے بھینا منہ سے بولو، سر سے کھیلو، کے لیے صحیح قالب ڈھونڈنا----------- اردو میں بیگمات کی زبان کے ساتھ بھی تقریباً یہی بات ہے جس میں کتنے ہی ایسے الفاظ، فقرے اور جملے مل جائیں گے جنہیں روسی، فرانسیسی، جرمنی یا انگریزی کے قالب میں اتارنا تقریباً نا ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو کے مقابلہ میں ان زبانوں کی عورتوں کی طرزِ زندگی، عادات و اطوار، سوچنے اور بات کرنے کے انداز قطعی مختلف ہیں۔ اس کے علاوہ مشرق میں بعض رسومات، خاندانی روایات اور رشتوں کے اعتبار سے بہت سی باتیں اور ان کے بیان کرنے کے انداز ایسے ہیں جو مغرب والوں سے میل نہیں کھاتے ۔ترجمے کے وقت اگر ان چیزوں کو نظر انداز کردیا جائے تو بہت ممکن ہے کہ عبارت کے منتہائے کمال پر اثر پڑے یا وہ فضا ہی قائم نہ رہے جو اس تحریر کی جان ہے مثال کے طور پر عصمت چغتائی کے ’’ چوتھی کا جوڑا‘‘ یا ڈپٹی نذیر احمد کے ناول۔’’توبتہ النصوح‘‘ کو لیجئے، ان دونوں میں اتنی ہندوستانیت ہے کہ انہیں مغرب کی کسی زبان میں لانے کے لیے اس زبان کو ’’اردو ‘‘ بننا پڑے گا۔
ترجمے کے وقت دونوں متعلقہ زبانوں کی ادبیات پر پہلے سے نظر ہونی چاہیے۔ جس مصنّف یا شاعر کے کارنامے کا ترجمہ کیا جا رہا ہے اس کے دوسرے شاہکاروں سے واقف ہونا چاہیے ۔ اس اسلوب کی خصوصیات بھی ذہن میں رہنی چاہئیں۔ یہاں متعلقہ زبانوں کی مختلف بولیوں کے فرق سے بھی واقفیت ضروری ہے کیونکہ نثری شہ پارے کے ترجمے کے دوران بہت ممکن ہے کہ مصنّف نے اعلیٰ سوسائٹی اور دیہاتی لوگوں کی زندگیوں پر روشنی ڈالی ہو اور اپنی تحریر میں جگہ جگہ ان کرداروں سے مکالمے بلوائے ہوں۔ مکالموں کے اس فرق کو زبان اور بولی کے فرق کو سمجھنے کے بعد ہی صحیح ترجمے میں پیش کیا جا سکتا ہے اورجس زبان میں ترجمہ کیا جارہا ہے ۔ وہاں اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرداروں کے مکالمات کے ساتھ انصاف کیا جا سکتا ہے۔
ترجمے میں جملہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر جملے کی ساخت کو پوری طرح دھیان میں نہ رکھا جائے تو مفہوم کی روح تو متاثر ہوتی ہی ہے، تحریر میں خیال کا تسلسل بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ ہر پیراگراف کا آخری جملہ عام طور پر اس پیراگراف کا نچوڑ ہوتا ہے۔ اس لیے اس جملے کے ترجمے میں بڑی مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے موقعوں پر جہاں جملے کا مفہوم سمجھ میں نہ آرہا ہو، وہاں جملے کو چھوٹے چھوٹے بامعنی حصّوں میں تقسیم کر کے عمل (Function) اور ان کی مطابقت (Agreement)کے اعتبار سے جملے کے معنوں کو سمجھنا چاہیے۔ عمل اور مطابقت کو مارفیموں سے لفظوں میں ، لفظوں سے فقروں اور فقروں سے نیم جملوں (Clauses)میں دیکھنا کارآمد ہو سکتا ہے۔