اردو زبان کی لسانی مفاہمت
ڈاکٹر سلطانہ بخش


اردو پاکستان کی قومی، علمی اور ثقافتی زبان ہے۔ اگر چہ اس زبان کو سرکاری حیثیت حاصل نہیں ہے تاہم یہ بڑی جامع زبان ہے۔ اس کی اپنی تاریخ ہے اور اس کے دامن میں بڑی وسعت ہے۔ اردو زبان کا شمار بھی دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ یونیسکو کے اعداد دوشمار کے مطابق عام طور پر بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعدیہ تیسری بڑی زبان ہے اور رابطے کی حیثیت سے دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے ۔ کیونکہ برصغیر پاک و ہند اور دنیا کے دوسرے خطوں میں ۸۰ کروڑ سے زیادہ افراد اسے رابطے کی زبان کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں ۔ اردو مشرق بعید کی بندرگاہوں سے مشرق وسطی اور یورپ کے بازاروں ، جنوبی افریقہ اور امریکہ کے متعدد شہروں میں یکساں مقبول ہے۔ یہاں ہر جگہ اردو بولنے اور سمجھنے والے مل جاتے ہیں۔ یہ زبان ایک جاندار اظہار اور اظہار کا جان دار ذریعہ ہے۔
اردو زبان کو تو عام طور پر سولہویں صدی سے ہی رابطے کی زبان تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ اس رابطے کی توسیع عہد مغلیہ میں فارسی زبان کے واسطے سے ہوئی۔ اردو زبان کی ساخت میں پورے برصغیر کی قدیم اور جدید بولیوں کا حصہ ہے۔ یہ عربی اور فارسی جیسی دو عظیم زبانوں اور برصغیر کی تمام بولیوں سے مل کر بننے والی ، لغت اور صوتیات کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اور قبول عام کے لحاظ سے ممتاز ترین زبان ہے۔
اردو ایک زندہ زبان ہے اور اپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے۔ یہ زبان غیر معمولی لسانی مفاہمت کا نام ہے۔ اس کی بنیاد ہی مختلف زبانوں کے اشتراک پر رکھی گئی ہے۔ اردو گویا بین الاقوامی زبانوں کی ایک انجمن ہے۲؂ ۔ ایک لسان الارض ہے۳؂ جس میں شرکت کے دروازے عام و خاص ہر زبان کے الفاظ پر یکساں کھلے ہوئے ہیں ۔ اردو میں مختلف زبانوں مثلاً ترکی ، عربی فارسی ، پرتگالی، اطالوی، چینی ، انگریزی ، یونانی، سنسکرت اور مقامی بولیوں اور بھاشایا ہندی سے لیے گئے ہیں۔
غیر زبانوں سے جو الفاظ براہ راست اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں شامل ہو گئے ہیں ان میں ۴؂ ۷۵۸۴ الفاظ عربی کے، ۶۰۴۱ الفاظ فارسی کے، ۱۰۵ الفاظ ترکی کے، گیارہ الفاظ عبرانی کے اور سات الفاظ سریانی زبان کے ہیں۔ مزید یہ کہ یورپی زبانوں میں سے انگریزی کے پانچ سو، اور ایک سو ترپن ایسے ہیں جو مختلف یورپی زبانوں ، یونانی، لاطینی ، فرانسیسی، پرتگالی ، اور ہسپانوی زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں ۔
اردو میں شامل اصل دیسی الفاظ کا تناسب سواتین فیصد ، سامی ، فارسی، اور ترکی زبان کے الفاظ تقریباً ۲۵فی صد اور یورپی الفاظ کا تناسب صرف ایک فی صد ہے۔ اس جائزے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو ایک بین الاقوامی مزاج کی حامل زبان ہے۔ اس میں نہ صرف عربی، فارسی یا مقامی بولیوں کے الفاظ ہیں بلکہ دنیا کی ہر قوم اور ہر زبان کے الفاظ کم و بیش شامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے مزاج میں لچک اور رنگارنگی ہے لیکن وہ کسی زبان کی مقلد نہیں ہے، بلکہ صورت اور سیرت دونوں کے اعتبار سے اپنی ایک الگ اور مستقل زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔
غیر زبانوں کے جو الفاظ اردو میں شامل ہیں وہ سب کے سب اپنے صلی معنوں اور صورتوں میں موجود نہیں بلکہ بہت سے الفاظ کے معنی، تلفظ، املا اور استعمال کی نوعیت بدل گئی ہے ۔ اردو مخلوط زبان ہونے کے باوجود اپنی رعنائی، صناعی اور افادیت کے لحاظ سے اپنی جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ اس نے اپنی ساخت ، مزاج اور سیرت کو دوسری زبانوں کے تابع نہیں کیا۔ ان ہی ظاہری ومعنوی خصوصیات اور محاسن کے اعتبار سے یہ دنیا کی اہم زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔
’’
کسی زبان کی آوازوں اور کلمات کوضبط تحریرمیں لانے کے لیے جو مربوط نظام وضع کیا جاتا ہے اسے رسم الخط کہتے ہیں ۔ علمائے لسانیات کے نزدیک ایک اچھے رسم الخط کے لیے ضروری ہے کہ اس میں زبان کی ہر آواز کے لیے ایک مخصوص نشان ہو جو اس آواز کو واضح طور پر ادا کر سکے اور دوسرے وہ رسم الخط کی صورت کے لحاظ سے جاذب نظر اور عملی لحاظ سے سہل ہو‘‘ (۵ )
اردو رسم الخط زبان کی ساری مروج آوازوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اردو کے حروف بناوٹ کے لحاظ سے حددرجہ سادہ اور اشکال کے اعتبار سے بہت کم ہیں ۔ اردو زبان اپنے الفاظ کی بناوٹ کی بناء پر دنیا کی ہر زبان کے مقابلہ میں لکھنے ، پڑھنے اور سیکھنے کے حوالے سے آسان ترین زبان ہے۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں اخذ و جذب کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ یہ ایک قائم بالذات زبان ہے۔ اس میں یہ صلاحیت ہے کہ دوسری زبانوں سے مفید مطلب الفاظ لے لیتی ہے۔ اگر وہ لفظ اس کے مزاج کے ہم آہنگ ہے تو جوں کا توں رہنے دیتی ہے اور اگر ہم آہنگ نہیں ہے تو اس کو ہم آہنگ بنا لیتی ہے۔ اردو اپنے مزاج میں وسیع القلب زبان ہے۔
اردو میں الفاظ سازی کی بھی گنجائش ہے۔ کسی زبان کی ترقی کا انحصار اس کی الفاظ سازی کی اہلیت اور انھیں برتنے کی قوت پر ہوتا ہے ۔ اردو میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت اردو زبان میں عام طور پر استعمال ہونے والے لفظوں کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ ہے۔ اصطلاحی الفاظ ان کے علاوہ ہے۔ الفاظ کا اتنا بڑا ذخیرہ انگریزی کے علاوہ غالباً کسی اور زبان میں نہیں ہے۔ اور چونکہ بین الاقوامی مزاج کی حامل زبان ہے اور اس حیثیت سے اصلاحات سازی کی عالمی کوششوں سے یکساں استفادہ کر سکتی ہے۔
اردو زبان اپنی لسانی مفاہمت اور افادیت کے علاوہ اپنے اندر ایک تہذیبی اور ثقافتی پہلو بھی رکھتی ہے۔ یہ اپنے علمی ، ادبی اور دینی سرمائے کے اعتبار سے بڑی باثروت زبان ہے ۔ اردو میں وسعت پذیری کی بے پناہ طاقت موجود ہے۔ یہ جتنی وسیع ہے اتنی ہی عمیق بھی ہے۔ دینی اور دینوی علوم و فنون کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پھر بھی اس کی گنجائش بے اندازہ ہے ۔ اردو زبان ہماری تہذیب و ثقافت کی آےئنہ دار ہے ۔ دنیا کی قدیم زبانوں کے مقابلے میں اگرچہ یہ کم عمر ہے لیکن ادبی اور لسانی حیثیت سے اس کا پلہ سینکڑوں زبانوں پر بھاری ہے۔ اردو زبان میں ہماری تہذیب و ثقافت کی تاریخ محفوظ ہے۔ اس کی بدولت ہم اپنے آپ کو ایک متمدن اور ترقی یافتہ قوم کا جانشین خیال کرتے ہیں۔
اردو چونکہ بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے اس لیے نہ وہ مغرب کے لیے اجنبی ہے نہ مشرق کے لیے۔ یورپ کے لوگ کئی صدیوں سے اردو زبان سے واقف ہیں اور انہوں نے اس زبان میں گراں قدر علمی و ادبی کارنامے بھی یادگار چھوڑے ہیں۔ یورپ کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں اردو زبان و ادب کے تراجم پر کئی زبانوں میں کام ہو رہا ہے ۔ اسی طرح اردو میں بھی متعدد زبانوں کی تخلیقات کے تراجم ہوئے اور ہو رہے ہیں ، لیکن اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر زبانوں کے تکنیکی، سائنسی اور علمی و فنی کتب و مضامین کو زیادہ سے زیادہ اردو کے قالب میں ڈھالا جائے تاکہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکے۔ عصر حا ضر میں مختلف ملکوں پر زبانوں اور ان کے ادبی خزانوں تک رسائی آسانی سے ممکن ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کے ذریعے مختلف علاقوں کے رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے مزید قریب آسکتے ہیں اور ایک دوسرے کے لسانی واادبی سرمائے کو سمجھ کر تہذیبی حوالوں ے ایک دوسرے کی شناخت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
اردو زبان محبت کی سفیر ہے ۔ یہ مختلف ذہنی دھاروں سے تعلق رکھنے والے ، مختلف عقائدسے وابستہ ، مختلف مزاجوں کے حامل بڑے گروہوں کی تخلیقی و تصنیفی زبان ہے اور بول چال کی سطح پر دنیا کے لاتعداد ممالک میں وہاں کی گلیوں، کوچوں ، بازاروں اور گھروں میں اپنی زندگی کا ثبوت دے رہی ہے اور عالمی سطح پر اپنے حلقہ اثر میں وسعت پیدا کر رہی ہے۔
اگرچہ اس میں شک نہیں کہ اردو ایک جامع زبان ہے۔ تاہم اردو زبان کے تحفظ اور اس کی اہمیت کو تسلیم کروانے کے لیے ہمیں چند نکات پر سنجیدگی سے غور کرنا چائیے اور اس کے لیے لائحہ عمل مرتب کیا جانا چائیے۔ اول یہ کہ غیر ملکی زبانوں کے سائنسی علوم و فنون کو اردوکے قالب میں ڈھالا جائے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دوئم اردو کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہونی چائیے تاکہ عالمی سطح پر اس کی اہمیت واضح ہو سکے اور اس کا وقار قائم ہو۔اس کے علاوہ اردو دشمنی کے روئیے اور رجحان کا سدباب ضروری ہے۔
حواشی
۱۔ تاثرات گوپی چند نارنگ، اخبار اردو، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، مئی ۱۹۸۲ء
۲۔ تدریس اردو، ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۶ء ص:۴
۳۔ اردو میں اصطلاحات سازی، ڈاکٹر عطش دُرّانی، اسلام آباد، انجمن شرقیہ علمیہ، ۱۹۹۲ء ص: ۳۲
۴۔ اردو زبان اور سماجی سیاق وسباق، پروفیسر عبدالستار دلوی، بمبئی، اقلیم پبلی کیشنز ۱۹۹۲ء ، ص: ۴۵
۵۔ کشاف تنقیدی اصطلاحات، مرتبہ ابوالاعجاز، حفیظ صدیقی، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۸ء، ص: ۸۸
O ’’
اخبار اردو‘‘ کا نیا انداز ایسا خوبصورت اور پُرکشش ہے کہ میں تعریف کے لیے یہ خط لکھے بغیر رہ نہ سکی۔ پہلے بھی یہ رسالہ محققین، معلمین و متعلمین اور ادیبوں کے لیے خاصا وقیع تھا لیکن آپ نے اب اسے ہر صاحب ذوق اُردو دان کے لیے دلچسپی اور اپنائیت سے بھر دیا ہے جبکہ آپ نے علم و ادب اور زبان اردو کے سلسلے کی قیمتی معلومات کی ترسیل بھی جمیل و متاثر کن انداز میں جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ سب کام بہت اہم ہیں۔ میں اسے پاکستانی معاشرے میں خیر اور اچھائی کی تقسیم کرنے کا درجہ دوں گی۔
۔۔۔۔۔۔ناہید قاسمی،مدیرہ فنون، لاہور
O "
اخبارِ اُردو " اردو زبان کا منفرد رسالہ ہے جو اردو کی خدمت ،ترویج اور ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔اس کاہر شمارہ اپنے تحقیقی ،علمی اور ادبی تخلیقات کے لحاظ سے ملک کے ممتاز ادبی جرائد کے ہم پلہ ہوتا ہے۔فروری۲۰۱۲ء کا شمارہ ادب، لسانیات، سائنس، نفسیات، تاریخ اور ترجمے کے فن پر مشتمل پاکستان کے نامور قلم کاروں کی تخلیقات کاگلدستہ ہے۔ ڈاکٹر انواراحمد ،سید سردار احمد پیرزادہ،سحر صدیقی، محمد رفیع ازہر، عظمت زہرا، ڈاکٹر نصراﷲناصر ،محمد اسحاق نقوی،ڈاکٹر آغا ناصر،عائشہ تنظیم، زکریا چودھری، ڈاکٹر ارشد خانم، قمرالدین خورشید،میاں غلام رسول عباسی،غازی علم دین،نیرّ عباس زیدی، ڈاکٹر غلام سرور،منیر احمد اور نبلیٰ پیرزادہ کی تحریریں قابل تحسین ہیں۔سید سردار احمد کا ابتدائیہ" خود انحصاری کا سفر " قومی زبان کے عاشقوں کے لیے خوش خبری ہے۔ سحر صدیقی کے مضمون " اردو زبان، عوام اور سینٹ کے ارکان‘‘ کا ایک جملہ" اس وقت پانچ ہزار زبانوں کے مرنے کا خطرہ لاحق ہے،اردو کو نہیں ہے،" اپنی امید افزائی کے اعتبار سے شاید کئی صفحات پر بھاری ہے۔محمد رفیع ازہر کا تحقیقی مضمون " اردو زبان: پندرہ سال کب ختم ہوں گے !" ہرذی شعور پاکستانی کو پڑھنا چاہئے۔اس کے مطالعہ کے بعد قومی زبان کی اہمیت ،اس کی ترویج اور ترقی میں اپنا کردار کرنا شاید ہر زندہ ضمیر کے لئے ضروری ہو جائے۔عظمت زہراء نے امریکہ میں مقیم ماہرِ ارضیات ڈاکٹر غلام سرورکے پاکستان سے جذباتی لگاؤ اور پاکستان میں معدنی وسائل ،جدید ٹیکنالوجی اور ارضیاتی سائنسی تعلیم کے حوالے سے خیالات پیش کیے ہیں۔ڈاکٹر نصراﷲ خان ناصر نے " سرائیکی دھرتی اور زبان سے اردو کے رشتے" میں سرائیکی اور اردوزبان کی تاریخ اور اردو زبان کی بناوٹ ، تخلیق اور ترویج میں سرائیکی کے کردار کے شواہد تلاش کیے ہیں۔سید محمد اسحاق نقوی نے " انگریزی زبان میں دعوت ناموں کا رواج " میں ایسے پڑھے لکھے لوگوں اور اداروں پر تعجب و ت�أسف کا اظہار کیا ہے جو قومی زبان کو نظرانداز کر کے غیر ملکی زبان میں دعوت نامے تیار کرتے ہیں۔ ایسے رویے ہم سب کے لیے المیے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر آغاناصر نے بلوچستان میں اردو شاعری کے درخشاں مستقبل کے امکانات کا احاطہ کیا ہے۔ زکریا چوہدری نے اردو زبان کے مستشرق ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز کی کہانی بیان کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ اگر ہم اپنی قومی زبان سے دلی رشتہ استوار کریں تو یہ صرف وفاقِ پاکستان کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے اربوں لوگوں کو بھی ایک کر سکتی ہے۔" ایک جنم دو یادداشتیں " میں ڈاکٹر ارشد خانم نے انتظار حسین کی دو آپ بیتیوں " جستجو کیا ہے؟" اور" چراغوں کا دھواں " کو ان کی پریم کتھا قرار دیتے ہوئے ان پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔قمرالدین خورشید نے حافظ شیرازی اور اسداﷲ خان غالب کے اندازِ بیان اور شعری غنائیت کا ایک مختصر مگر جامع موازنہ کیا ہے۔فارسی شاعری میں حافظ کو جو مقام حاصل ہے وہی مقام اردو شاعری میں غالب کا ہے۔ " لاہور ،لاہور اے " میں عطاء الحق قاسمی نے لاہور کی عظمتِ رفتہ اور حا لیہ جدید ترقی کا ذکر کیا ہے۔ میاں غلام رسول عباسی نے ڈاکٹر عاصی کرنالی (مرحوم) کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے فکروفن کا احاطہ کیا ہے۔پروفیسر غازی علم دین نے الفاظ کے ا خلاقی انحطاط کا نفسیاتی پسِ منظر تلاش کرنے کی دل فریب کاوش کی ہے۔" گم شدہ جنگل " کے عنوان سے نیرّ عباس زیدی نے نوبل انعام یافتہ ادیب جوھینزوجینسن کے ایک افسانے کا خوب صورت ترجمہ کیا ہے جس پر طبع زاد ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ ڈاکٹر غلام سرور نے مارک ٹوئین کی تمام تر ذہانت ، قابلیت اور علمیت کوچند جملوں میں پیش کر کے عمدہ کام کیا ہے۔اس کے علاوہ جوش ملیح آبادی کے ادبی کارناموں پر مفصل مضمون ، عاشق لکھنوی کا خاکہ، غزلیات، نئی کتابوں کا تعارف اور ان پر تبصرے ، یاد یں، ادبی خبریں اور تصویری حصہّ اردو ادب کے قارئین کے لیے تحفہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔ریاض قدیر
O
محترم جناب انوار احمد صاحب ، سلام مسنون
شاید نوبت کبھی نہ آتی اگر اخبار اردو ، ادبیات کے علی اکبر ناطق اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہے ہوتے !
’’
اخبار اردو‘‘ شمارہ فروری صفحہ نمبر ۳۸ ’’غزلیات‘‘ میں میری ایک غزل میں چار جگہوں پر مصرعوں کو لاپرواہی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث بے وزن کر دیا گیا ہے۔ میرا اصل پروف فائل میں موجود ہوگا۔ آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ گمان ہے کہ انھوں نے دانستہ ایسا کیا ہے۔ اخبار اردو کے قارئین میں غزل کی بے ہنگم اشاعت سے میرا ادبی کیرئیر متاثر ہوا ہے۔ مزید یہ کہ مسعود احمد جوان کے شہر اوکاڑہ سے تعلق رکھتے ہیں، وہ مجھ سے جونیئر شاعر ہیں انھیں مجھ سے پہلے لگایا گیا ہے۔ اس جانبدارانہ اقدام کے لیے میں احتجاج کا حق رکھتا ہوں اور استدعا کرتا ہوں کہ میری شکایت کے ضمن میں مدیر موصوف سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔
شوکت مہدی،صدرادبی تنظیم ادراک راولپنڈی، ممبرپاکستان رائیٹرز گلڈ
O
اخبار اردو کا شاندار تزئین کے ساتھ فروری ۲۰۱۲ء کا شمارہ نظر سے گزرا۔ادارتی نوٹ میں اطلاع تھی کہ’’۲۰۱۲ء کے ابتدا ہی میں مقتدرہ نے پنشن یافتہ سرکاری ادارہ ہونے کا شرف حاصل کر لیا‘‘۔ ادارے کے ملازمین کو پنشن کا حق ملنا یقیناً ایک بڑی خوش خبری ہے۔ دوسرے یہ کہ انگریزی تراکیب اور الفاظ کو اردو کے قالب میں ڈھالنا قابل صد ستائش اور نہایت ضروری ہے جس پر بہت دیر سے عمل درآمد کی صورت نظر آ رہی ہے تاہم’’ کمپوز کاری‘‘، ’’ویب گاہ‘‘ قسم کی آدھا تیتر، آدھا بٹیر ٹائپ تراکیب کسی طور پر موزوں دکھائی نہیں دیتی۔ ۔۔۔۔۔۔ اعظم حسین گیلانی، آزاد کشمیر