سندھ میں اردوشاعری
ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ


مُلّا عبدالحکیم عطا ٹھٹوی
۱۰۴۰ھ-۱۱۴۰ھ
قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالحکیم ’عطا‘ سنہ ۱۰۴۰ھ کے لگ بھگ ٹھٹہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد اور بڑے بھائی عالم فاضل اور شاعر تھے۔ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ’عطا‘ نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا۔ بقول میر علی شیر قانع، ٹھٹہ کے گورنر نواب مظفر خاں (۱۰۶۳ھ۔۱۰۶۹ھ) نے اپنی سرپرستی میں ان کے شاعرانہ ذوق کی آبیاری کی۔ ’عطا‘ کی شاعری کا آغاز سنہ۱۰۶۰ھ سے ہوتا ہے۔
عطا‘ نے بڑی عمر پائی۔ ان کی ولادت شاہ جہانی دور میں ہوئی اور وفات عالمگیر کے بعد ٹھٹہ میں۔ ’عطا‘ نے ملک میں انتظامی اور سماجی خلفشار دیکھا تھا۔ چنانچہ اُن کے کلام میں سیاسی بے چینیوں اور بد نظمیوں کی طرف بھی اشارے پائے جاتے ہیں۔
سنہ ۱۱۱۸ھ سے لے کر ۱۱۲۹ھ کا زمانہ اُن کے لیے مصیبتوں اور تکلیفوں کا دور تھا۔ اس کا اعتراف وہ یوں کرتے ہیں کہ :
’’
داغ دل عطائی‘‘ تاریخ حال تست
از خار خار سینہ خراشیدہ بودہ ای
’’
داغ دل عطائی‘‘ سے سنہ ۱۱۲۹ھ برآمد ہوتا ہے۔ آپ کا ایک قطعہ ’’جھوک‘‘ کے بزرگ صوفی شاہ عنایت اللہ کی گرفتاری اور شہادت (۱۱۳۰ھ) پر ملتا ہے۔ ایک دوسرے واقعے کا مادۂ تاریخ ۱۱۳۵ھ ہے۔ یہ آخری سال ہے جو آپ کے اشعار میں ملتا ہے۔ غالباً اس کے بعد جلد ہی ’عطا‘ کا انتقال ہو گیا۔
بقول میر علی شیر قانع، ’عطا‘ ایک پاک باز، عبادت گزار اور پرہیز گار شخص تھے اور وہ صوفی مشرب رکھتے تھے۔ ’عطا‘ کو اپنے سخنور ہونے پر ناز تھا۔ وہ خود کو یکتاے روزگار سمجھتے تھے اور متمنی تھے کہ قدردان ان کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کریں۔
’’
عطا‘ کے فارسی کلام کا مخطوطہ، جو ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور جس سے ’’دیوان عطا‘‘ چھایا گیاہے، اُس میں آٹھ نو سو کے قریب غزلیں، قریباً ایک سو رباعیاں، ترجیع بند، مخمس اور ۱۴۱ اشعار پر مشتمل ایک ’ساقی نامہ‘ ہے۔
اس مخطوطے میں ’عطا‘ نے اپنا اردو کلام بھی کہیں کہیں قلم بند کیا ہے اور یہ کلام سنہ ۱۱۰۰ھ تک کا ہے۔ ۲؂ کچھ اردو کلام حواشی میں اور بین السطور لکھا ہوا ہے ۳؂ جس کو ’’دیوانِ عطا‘‘ کے فاضل مرتب نے یکجا کر دیا ہے۔ ۴؂ افسوس کہ بعض اشعار ناقص مخطوطے کی وجہ سے مٹ کر رہ گئے ہیں :
(
۱ )
عطا اس بھوک سوں ہم لوک رہتا
ز خوردن ساگ لونی سوک رہتا

مری جاں دیکھنا پھر دکھ نہ دینا
کہ محتاج تو کے مفلوک رہتا

دو کلجگ از دعا گویاں مقابل
مدد پایا مراد چوک رہتا

ز با افراط افطار فقیراں
کیؤں رجنا بہ آدھی بھوک رہتا

ترا پیوستہ جشن است و مرا فقر
نہ یاد از گریۂ صعلوک رہتا

کہاں وہ پوچھنا ہنسنا کھلانا
نظر بر مور کی مملوک رہتا
(
۲ )
عطا خبطا کہاں خاموش رہتا
سخن گر از زباں برگوش رہتا

ازیں کلجگ گزرنا۔۔۔۔۔۔
کہ اس دکھ سو ۔۔۔ کوش رہتا

ز سوز سینہ دم ۔۔۔۔۔۔
اگر از گرمئ دل جوش رہتا

چو مجنوں ذو فنونِ زار اینجا
کہ بے پرواز خود بے ہوش رہتا

ز خود خونِ جگر پیتا و جیتا
بہ درد و داغ ہم آغوش رہتا

مسافر را ہمیں آب و غذا خوش
کز اشک و آہ دوشا دوش رہتا

چو گل رنگ حنا بندی بدزدید
چو نیلوفر کہ نیلی پوش رہتا
بہردم آدمی بے چارہ بے تاب
بغمہا غوطہ نوشا نوش رہتا
(
۳ )
حیف است اے عطا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ لاچار لادنا و لت پت لپیتنا

جو وے سدھار جاگ کیا نیند بایلی
صد بار ہارنا، نہ کبھی داؤ جیتنا

ہشیار کھیلنا، دکھ اپنا نہ سوجھنا
سب چھوڑنا نہ مال پرایا سمیٹنا

۔۔۔ ناو جھولنا نہ لڑکپن گیا ابھی
۔۔۔ اتیت کلجگ و پردیس چیتنا

۔۔۔ کیا کہہ گیا کھیت کا سمے
۔۔۔ تکے ۔۔۔ کھلیاں دیکھنا

۔۔۔ دن گیا کہ پوت کلا تور پھٹ پڑی
۔۔۔ چو تانت سری پاپ کھینچنا

۔۔۔ کہنا کہ آگا پیچھا پکا رہے
۔۔۔ پھرے کہ دینا لینا نہ پہنچنا

۔۔۔ ملہارے پر گھٹ پڑا رہا
۔۔۔ دل نہ مانکے رجنا و چھوٹنا

۔۔۔بھولنا کہ ابھی رات ہے نہ دن
۔۔۔ حالیانہ کا نہ سپنا نہ آکھنا

۔۔۔ غزل کہنا بات چیت سن
۔۔۔ پیا کچھ اپنا حال دیکھنا
حوالہ جات
۱۔ ماخوذ از ’’دیوانِ عطا‘‘، تصحیح و تحقیق سید محمد مطیع اللہ راشد برہانپوری، مطبوعہ سندھی ادبی بورڈ۔
۲۔ ملاحظہ ہو فاضل مرتب کا مقدمہ، ص ۱۳۴
۳۔ ایضاً مقدمہ، ص ۱۳۴
۴۔ ایضاً مقدمہ، صفحات۱۲۰، ۱۳۴، ۱۳۷، ۴۵۹، ۴۶۱
***

 

خیبر پخپونخوا لینگو یجز اتھارٹی کا قیام
رحمت عزیز چترالی
پاکستان کے صوبوں میں خیبر پختونخوا کو جہا ں سب سے زیادہ کثیر لسانی صوبہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ، وہاں اس کا ضلع چترال بھی پاکستان بھر میں سب سے زیادہ کثیر لسانی ضلع ہونے کا اعزاز رکھتا ہے جہاں صوبہ پختونخوا کی کل ۲۸زبانوں میں سے ۱۴زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ تاہم یہ ستم ظریفی ہے کہ کسی بھی حکمران نے ان زبانوں کے فروغ کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی زبان وادب کی ترویج کے لیے قائم اداروں نے اس ضمن میں اپنا حق ادا کیا ہے۔
ضلع چترال کی مذکورہ ۱۴زبانوں میں سب سے بڑی زبان کھوار ہے جو کھوار شناخت کی ایک علامت ہے جبکہ دیگر چترالی زبانیں کھوار بہنیں ہیں۔ انجمن ترقی کھوار اور کھوار اکیڈمی ایک عرصہ سے کھوار کی یہ حیثیت تسلیم کروانے اور اسے ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے کوشاں ہے ۔ اس سلسلے میں کھوار اکیڈمی نے ۲۵اپریل ۲۰۱۰ء کو ایک مراسلہ میں کھوار زبان کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے اور قرآن مجید کو کھوار ترجمے کے ساتھ چترال کے تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے سلسلے میں ایسی سفارشات حکومت سرحد کو پیش کیں ۔ جس کے بنیادی نکات یہ تھے :
(
الف)کھوار زبان کا بطور لازمی مضمون مرحلہ وار تعارف
(
ب ) اکیڈمیوں اور بورڈوں کی تشکیل اور قیام اور ان کے اختیارات و فرائض
(
ج ) حکومت کے دفاتر ، محکموں ، اسمبلی اور عدالتوں وغیرہ میں کھوار کا استعمال
کھوار اکیڈمی اور انجمن ترقی کھوار کی ان سفارشات کی روشنی میں سرحد حکومت نے کھوار زبان کے ساتھ ساتھ سرحد کی دیگر زبانوں کو بھی تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے انجمن ترقی کھوار ، کھوار اکیڈمی اور چترالی ادباء حکومت خیبر پختونخوا کے احسان مند ہیں کہ ان کا یہ دیرینہ مطالبہ پورا کیا گیا تاہم اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خیبر پختونخوا لینگویجز اتھارٹی کے نام سے ایک ایسے آزاد ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں خیبر پختونخوا کی تمام ۲۸زبانوں کو مناسب نمائندگی دی جائے اور متعلقہ قانون کے ذریعے اسے صوبہ کے آرٹ اور ثقافت کی ترقی اور اجراء کی ذمہ داری سونپی جائے۔ اس ادارہ میں ہر زبان کے کم از کم پانچ ادیبوں کو جگہ دی جائے اور یہ ادارہ صوبہ پختونخواکی تمام زبانوں سے متعلق پالیسی معاملات پر حکومت کو مشورہ دے ۔ ادارے کی مینجمنٹ ، کنٹرول اور نگرانی کے لیے ایک بورڈ آف گورنر ز تشکیل دیا جائے جس کا چےئر مین وزیر اعلیٰ سرحد ہو۔ بورڈ ایک ایگزیکٹیو کمیٹی تشکیل دے جس کا کنوینر ڈائریکٹر جنرل ہو ۔