اس ماہ کی تین منتخب کتابیں


دانی کی کہانی ، دانی کی زبانی
از:ڈاکٹر احمد حسن دانی
سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور۔ ۲۰۱۱ء
ادبیات کے طالب علموں کو فرحت اللہ بیگ کا لازوال خاکہ’نذیر احمد کی کہانی،کچھ ان کی،کچھ میری زبانی‘ اگر یاد ہے تو اس خاکے میں مصنف کے ہم زاد میاں دانی بھی یاد ہوں گے،جو ،ان کے ہم درس میاں غلام یزدانی تھے،اس لئے اس کتاب کا نام ہی کسی مانوس اجنبی کا احساس دلاتا ہے اور جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو پاکستان کے ماہرِ آثاریات اور موؤخ احمد حسن دانی کی وہ آپ بیتی ہے،جو انہوں نے ۲۰۰۸ء میں مکمل کی،یعنی ۸۸ برس کی عمر میں انہوں نے اپنی اور اپنے خاندان کی آثار کاوی کا فیصلہ کیا۔شواہد یہ ہیں کہ اردو بول چال میں تو وہ رواں تھے مگر سہولت کے ساتھ اردو زبان لکھ نہیں سکتے تھے،اس لئے انہوں نے متکلم راوی کے طور پر اپنی یہ آپ بیتی لکھوائی تھی،اس لئے کتاب میں موجوداملا اور کمپوزنگ کی غلطیوں کی افراط قابلِ فہم ہے۔
کتاب کی ابتدا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک عالم اس مخمصے کا شکار ہے کہ وہ اپنی اس آپ بیتی کے ذریعے اپنی نجی زندگی کے جذباتی رخ سے متعلق معلومات کو عیاں کرے یا اس غیر جذباتی اور معروضی اسلوب میں ہم کلامی کرے،جس کی توقع دنیائے تحقیق میں کی جاتی ہے،تاہم آپ بیتی لکھنے کا تو مطلب ہوتا ہے،غیر رسمی اور بے تکلف ہو کر اپنی دلی کیفیت میں کسی کو شرکت کا اذن دینا،سو اس کتاب کے آخر میں جب انہوں نے لکھا : ’یہ وہ ماں تھی جو میری خاطر اپنے شوہر سے سر پر ضرب کھاکر ہمیشہ کے لیے اپنے کانوں سے محروم ہوگئی‘۔(ص:۱۶۵) تو اک دم سے صاحبِ کتاب کے گھر کی فضا اور ان کی اپنی شخصیت کے بارے میں کچھ معنی خیز پہلو سامنے آتے ہیں،اسی طرح وہ نو عمر کی معصومیت کے ساتھ بتاتے ہیں کہ فلم ’پکار‘ کی ہیروین پری چہرہ نسیم کے خال و خد ان کے اعصاب پر چھا گئے اور وہ ایسے نین نقش رکھنے والی اپنی عم زاد کی محبت میں گرفتار ہو گئے،اس اعتراف کے بعد یہ کتاب اس اعتبار سے دل چسپ ہو جاتی ہے کہ قاری یہ سننے کا منتظر رہتا ہے کہ کشمیر کا یہ احمد حسن،جو وقتاً فوقتاً کچھ جذباتی الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے بالآخر اپنی عم زاد صفیہ سے شادی بھی کر سکا ،یا نہیں،کیونکہ اسے زندگی میں اکثرایسے سوالات کا سامنا کرتا پڑا :
۔ ۔۔۔’آخر یہ گڑھ کن لوگوں کے ہیں اور کب بنے ہیں ۔ یہ کیوں ویران ہوگئے ۔ وہاں مجھے کوئی نہ ملا ۔ جو مجھے ان سوالوں کے جواب دے سکتا تھا۔ انوکھی اور عجیب دیواروں میں گم ہوجاتا اور یہ سوچتا کہ کاش یہ میرے اپنے گھر ہوتے ، کم از کم مجھے ان کی کہانی تو معلوم ہوتی‘(ص: ۴۹)۔ ۔۔۔’سوال بے شمار ،بڑھتے جاتے ۔ جستجو مجھے پریشان کرتی۔ دوڑتا بھاگتا ، ڈھونڈتا ، تلاش کرتا ، کیا پاتا اور کیا نہیں پاتا۔ یہ مجھے نہیں معلوم ، اندھیرے میں ایک انجان انسان کی طرح گم ہوجاتا ۔ا نجانے کی تلاش تھی لیکن کوئی روشنی دکھانے والا نہیں تھا اور نہ میری پیاس کو بجھانے والا کوئی بچپن میں مجھے ملا۔ یہ پہیلی بن کر رہ گئی ۔ شاید اسی راہ میں بھٹکتے بھٹکتے قسمت نے مجھے آثار یات کی طرف کھینچ لیا‘(ص: ۵۰)۔’زمانے کے دھارے میں واپس آنا بڑا مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے کیونکہ منجمد گندگی ہمارے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ اس سے کس طرح چھٹکارا حاصل کیا جائے ؟ یہ سوال مجھے ہمیشہ ستاتا رہتا ہے‘ (ص:۱۱۷)یا پھر اس طرح کے تجربات:’معمول کی طرح سویا ہوا تھا کہ اچانک میں نے خواب دیکھا ، روشنی چھا گئی۔ میں نے ایک محفل میں اپنے آپ کو بیٹھا پایا۔ سرنِگوں اور دست بستہ ،ایسا معلوم ہوا کہ میں نورانی نور کے سامنے مخاطب ہوں اور شاید کوئی میرے حق میں پیروی کر رہا ہے۔ مجھے بہت تسکین ہوئی اور اطمینان ہوا کہ میں سیدھے راستے پر ہوں لیکن روشنی نے مجھے چکا چوند کردیا۔ میں ڈرگیا اور ڈر سے چیخ ماری اور پھر اٹھ کھڑاہوا کہ یہ کیا ماجرا تھا۔ میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا ہوں لیکن اس خواب نے میری زندگی پر روحانی طاقت کے اثر مضبوط کردئیے‘۔(ص: ۵۵،۵۶ )،’ ۔۔۔میں بھی نیچے الٹ گیا اور میرا سرپہیے کے عین سامنے آلگا ۔ گاڑی رک گئی ورنہ گلا میرا پہیوں کے نیچے کچل جانا تھا‘(ص: ۴۸،۴۹ )
ان کی سنجیدگی،علم طلبی اور فکری پختگی کے متوازی ایک اور راہ بھی،وہ بار بار بیمار پڑتے ہیں،بہت مشفق استادوں اور دوستوں کے ساتھ ساتھ نامہرباں اور متعصب لوگوں اور نظام سے واسطہ بھی رہا،مگر وہ اس کا شکوہ بلند آہنگ طریقے سے نہیں کرتے :
۔۔۔’ ایک دن حساب کا پرچہ تھا جو کہ تین گھنٹے میں کرنا تھا۔ میں نے اسے ایک گھنٹے سے پہلے ختم کرلیا اور اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے سپرنٹنڈنٹ کو دینا چاہا۔ وہ بہت ناراض ہو ااور ڈانٹ کر کہنے لگا کہ میں نکما ہوں اور ایک گھنٹہ کے اندر ہی بھاگنا چاہتا ہوں‘(ص : ۵۹ ) ۔ ۔۔۔’میں نے ان سے کہا کہ پہلے بھی مجھے یہ سب یاد ہوتے تھے لیکن کسی طرح استاد کا چہرہ مجھے سے کچھ بھلا دیتا۔ شاید یہ نفسیاتی اثر ہو‘۔(ص : ۶۱ )
اسی سفر میں وہ سنسکرت زبان میں مہارت حاصل کرتے اور ’مہا بھارت‘ کے ذریعے اپنی دھرتی کے عظیم ذہن میں جھانکنے کے تجربے کا ذکر کرتے ہیں،بنارس یونیورسٹی کے رادھا کرشنن اور پھر مدن موہن مالویہ کی سحر انگیز شفقت اور اپنی سپردگی یا عقیدت کا حوالہ دینے کے بعد ان امتیازات اور تعصبات کا ذکر کرتے ہیں،جن کا سامنا خود انہیں کرنا پڑا اور جو تقسیمِ ہند کے عوامل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
ایک طالب علم کے طور پر ان کی ذات میں قیادت اور اپنے دائرہ احباب کو وسیع کرنے اور اسے فعال بنانے کی صلاحیت بھی سامنے آتی ہے،
ہم خود بھی یہ سستی کتابیں خریدتے ا ور پھر آپس میں تبدیل کرلیتے ۔ اس طرح علمِ عامہ کا بڑا اضافہ ہوتا چلا گیا اور ہمارا ایک چھوٹا سا علمی دائرہ بن گیا جو آپس میں کافی علمی بحث مباحثہ کرتے تھے‘۔(ص: ۶۹) ۔۔۔’ میرے دوستوں کے کئی حلقے تھے۔ ایک وہ جن کے ساتھ پکنک مناتا تھا، باغوں میں جاتا تھا، سینما دیکھا تھا۔ دوسرا وہ جن کے ساتھ علمی بحث اور مباحثہ کرتا تھا۔ تیسر ا وہ جو میرے ہم جماعت تھے اور جن سے میں زبانوں پر اور فلسفہ پر بحث ومباحثہ کرتا تھا۔ چوتھا وہ جن کو پڑھنے لکھنے میں دلچسپی نہیں تھی لیکن چونکہ وہ اچھے گھرانوں سے آئے تھے وہ بہت ہی ملنسار تھے۔ ملنے ملانے ، ہوٹلوں میں جانے ، کھانا کھلانے میں بہت زیادہ لگے رہتے تھے اور ساتھ ہی کالج کی سیاست میں لگے رہتے تھے‘(ص: ۶۹ )
تاریخ،فلسفے اور تہذیب پر گہری نظر ان میں وہ باوقار معروضیت پیدا کرتی ہے،جس کے سبب وہ بڑے سے بڑے معترض اور متعصب کے روبرو معصومانہ ایقان کے ساتھ یہ کہہ دیتے ہیں :
میں نے اس سے کہا’ یہ تمہارا قصور نہیں یہ تاریخ کا معمہ ہے جسے ہم دونوں مل کر سلجھا سکتے ہیں۔ ہم سب انسان ہیں ۔ اسی دنیا میں ہم سب کو رہنا ہے۔ یہ دیکھو دویدی میرا ہندودوست ہے‘۔ (ص:۷۷) ۔۔۔ ’ عربوں کے زمانے سے لے کرامیر تیمور کے زمانے تک میرے بھی آباؤ اجداد کشمیری برہمن تھے اس لیے ان حملہ آوروں کا تعلق نہ مجھ سے اور نہ میرے دادا پردادا سے تھا۔ میں ان وسط ایشیاء سے آنے والے حملہ آوروں کے متعلق سوچتا رہا ۔ میں انھیں دنیا کی وسیع تاریخ کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کر تا رہا۔ جب بات بہت بڑھنے لگی ،تو مدبرانہ آواز میں کہا کہ وسط ایشیاء سے حملہ آور ہمیشہ ہندوستان آتے رہے ہیں۔ سکندر اعظم بھی اسی راستہ یہاں آیا۔ جیسا آپ نے پڑھایا۔ آریا قوم بھی یہاں آکر اس وقت کی قوموں پر ظلم ڈھاتی رہی۔ انھیں محکوم بنایا ۔ ان کے قلعوں کو توڑا۔ ان کی تہذیب کو نیست ونابود کیا۔ اسی طرح ہونوں نے کیا۔ اسی طرح وسط ایشیاء سے حملہ آور آتے رہے ہیں۔ یہ حملہ آوروں کی ایک لمبی کڑی ہے۔ بعد کے لوگ مسلمان تھے لیکن دونوں کا ایک ہی تاریخی تسلسل تھا۔ اس میں اسلام کا کوئی دخل نہیں‘۔(ص: ۸۸ )
تہذیبی نقطہ نظر سے تیمور کازمانہ ایشیاء کا دورِ زریں کہلانے کا مستحق ہے جو لوگ صرف امیر تیمور کے حملوں کا ذکر کرتے ہیں وسط ایشیاء کے شاہی خاندانوں کی پستی کا بیان کرتے ہیں۔ انھیں اس کا کوئی علم نہیں ہوتا ، کہ امیر تیمور نے کوئی نظام دنیا میں رائج کیا۔ اس کی حکومت کے نتیجہ میں مغلوں نے ہندوستان میں ایک نیا ڈھنگ شروع کیا جسے بہت سے مورخ دوپہر اور شام کی دھوپ سے تشبیہ دیتے ہیں‘۔(ص: ۹۷ )
انہیں جب یورپ میں پہلی مرتبہ جاکر پڑھنے اور سیکھنے کا موقعہ ملا تو وہ وہاں کے بعض اہم سماجی اور ثقافتی رویوں کا بطرزِ تحسین ذکر کر دیتے ہیں :’ ’وہاں گئے تو مسز منہاس نے کہا کہ اس انگریز عورت کا بوڑھا خاوند مر گیا ہے چلو ہم افسوس کرنے چلیں۔ ہم اس کے پاس گئے اور اس سے افسوس کرنے کی خواہش کی ۔ ابھی ہم افسوس کے کلمات کہہ رہے تھے کہ اس عورت نے ہم سے کہا کہ وہ اتنی مشغول رہی کہ ابھی تک اسے رونے کی فرصت ہی نہیں ملی‘(ص:۱۱۰ )
اسی طرح یہ ان کی عالمانہ عظمت ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا بھی اعتراف کرتے ہیں ’بعد کے زمانے میں سوات، دیر ، بجور ،چترال وغیرہ کے علاقوں میں بہت سی قبریں ملی ہیں۔ اس کا نام میں نے غلطی سے گندھارا قبروں کی ثقافت رکھا‘۔(ص:۹ )
یہی نہیں ،وہ اپنی بعض جذباتی کمزوریوں کا اعتراف بھی کرتے جاتے ہیں،جب وہ مراٹھی ماں،بیٹی میں سے فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ماں ۔بیٹی میں سے محبوب تر کون ہے،یا ایک متوقع ساس کی وہ حکمتِ عملی جب وہ ایک عشائیے میں اپنی بیٹی کو دانی صاحب کی قریب کی نشست پر بیٹھنے سے پہلے خود وہاں بیٹھ جاتی ہیں،تاہم یہ ان کی استقامت ہی ہے کہ وہ شادی اپنی پسندیدہ عم زاد سے کرتے ہیں اور عمر بھر اپنے فیصلے پر نازاں رہتے ہیں،انہیں ایک گونہ لگاؤ تھا۔
مبصر : انوار احمد
پہلی سی محبت از : راشدہ قاضی
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ، ملتان۔ ۲۰۱۲ء
داجل کی بیٹی ڈاکٹر راشدہ قاضی حریتِ فکر اور روشن خیالی کی نقیب ہیں۔ اچھی بیوی ، ماں اور منتظم بننے کی چاہ میں راشدہ قاضی اس شعلہ بار تخلیق کار کو کوسوں پیچھے چھوڑ آئی تھی، جس سے مےَں واقف ہوں اور جس پرا ب تک جو گزری ہے ، جو اس نے دیکھا ہے اور جو کچھ وہ کہہ سکتی ہے وہ افسانے میں وہ کہہ ڈالے تو سچ مچ چوٹی کے نام نہاد سرداروں اور کمزوروں کو پابہ زنجیر کرنے والوں کو کہیں پناہ نہ ملے مگر فی الوقت راشدہ قاضی کو اپنی وہ کہانیاں عزیز ہیں جس میں اس کے مرکزی کرداروں کوا پنی جذباتی ، الجھنوں کا سامناہے۔ وہ تذبذب اور وسو سے کاشکار ہو کر ایک رومانوی ایثار کی نیت تو کرلیتے ہیں مگر مصنفہ کی بے صبری انھیں اپنا حقیقی نقش نہیں بنانے دیتی۔ اس مجموعے کے آخری افسانے میں کہیں کہیں اس فن کار کی وہ جھلک ہے جس کے طلوع ہونے کا میں ہی نہیں اس کی صلاحیت سے واقف ہر شخص منتظر ہے۔ ابھی انڈس یونیورسٹی ، ڈیرہ غازی خان میں اس کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں ڈاکٹر نجیب حیدر ملغانی ، اور آفتاب حسین سرائی نے بھی مقالات پڑھے۔ ان کے کچھ اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔ جب کتاب کا عنوان ’پہلی سی محبت ‘رکھا جائے تو ہر ایک باذوق کے حافظے میں فیض احمد فیض کی لازوال نظم ’’ مجھ سے پہلی سی محبت میری محبوب نہ مانگ ‘‘ ابھرے گی اور ساتھ ہی ساتھ وہ عوامل بھی جنھوں نے ہمارے سماج میں بچوں کو بچپن اور نو عمروں کو بے ساختہ اور والہانہ جذبات کے اظہار سے محروم کردیا۔
مبصر: انوار احمد
برگد کے سائے میں گلاب
سرائیکی وسیب جو محبت امن اور صوفیوں کی سرزمین ہے جہاں آلاتِ حرب نہیں آلاتِ موسیقی طاقتور ہتھیار ہیں جہاں وفا عارضِ محبوب کی گل رنگ فضاؤں میں سانس لینے کی حسرت کا نام نہیں جہاں وفا محبوب کے کنج لب کی روشنی کا پرتو نہیں بلکہ بقول عطا شاد اس دھرتی میں صرف ایک گلاب پانی کا بدل عمر بھر کی وفا ہے۔
دمان کی بیٹی کا نوحہ کس طرح سنگلاخ پہاڑوں میں بازگشت بنا ،میں کوشش کروں گا کہ آپ کو اس سفر میں شریک کرسکوں میں کامیاب نہ بھی ہوں تو راتوں کے پچھلے پہر آپ کو یہ سایہ فگن سنگلاخ چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی ایک چیخ ضرور سنائی دے گی اور آپ جانتے ہیں کہ چیخ آدابِ تکلم کی پابند نہیں ہوتی۔
راشدہ کی داخلی تخلیقی توانائی انسانی رشتوں کی پاکیزگی اور ان سے وابستہ ماورائی تصور کی بجائے ان الجھنوں کو اپنا محور بناتی ہے جن کا اظہار کسی حبس زدہ معاشرے میں بغاوت اور فحاشی کے زمرے میں آتا ہے ان کے پہلے افسانے ’’ پہلی سی محبت ‘‘ کا ایک پیرا ملاحظہ فرمائیے۔ جس میں کہانی کے ہیرو شہر یار کی نفسیاتی الجھنوں کا پس منظر راشدہ کچھ یوں بیان کرتی ہے :
’’
لیکن پھر بھی میرے نزدیک ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں مجھے اس بات سے بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ میرے بڑے بھائی کے میری بیوہ ممانی سے ناجائز تعلقات تھے یہ اور بات ہے کہ جب اس حقیقت کا مجھ پر انکشاف ہوا میرے اندر کچھ دیر تعفن اٹھتا رہا۔ ‘‘
فیض صاحب نے خدیجہ مستور کے بارے میں کہا تھا کہ وہ مصوری کم اور کشیدہ کاری زیادہ کرتی ہیں راشدہ نہ تو مصوری اور نہ ہی کشیدہ کاری کرتی ہے بلکہ وہ ان سب پر جراحی کو ترجیح دیتی ہے۔ [راشدہ قاضی نے خدیجہ مستور کے افسانوں پر ہی ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا ہے ]
فیوڈل سماجی ڈھانچے میں عورت کی شخصیت عزتِ نفس اور حقِ رشتگی صرف اور صرف مرد کی خوشنودی سے جلا پاتے ہیں راشدہ کے افسانے ’’امان‘‘میں اس سماج کا وہ چہرہ دکھائی دیتا ہے جو انسانی تہذیب اور اکیسویں صدی کے تصور شعورِ آگہی کیلئے باعث شرم ہے۔ فیوڈل سماجی ڈھانچے کے خلاف راشدہ کا ردِ عمل اس قدر شدید ہے کہ وہ کہانی کے کرداروں کو ان کے فطری تقاضوں کے مطابق پروان نہیں چڑھنے دیتی بلکہ پوری کہانی اس نفرت کی لپیٹ میں آجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ راشدہ کی فکری کائنات پر لطیف جذبوں کی بجائے شدید ر دعمل کا عکس ملتا ہے۔ وہ نازکی اور دردِ محبوب کی لذتوں سے ناآشنا ایک پر تشدد فضا تشکیل کرتی ہے۔ بیدی نے افسانے کی تکنیک پر بات کرتے ہوئے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ان کا کہنا تھاکہ افسانے میں ایک بڑی چیز ’’ گریز ‘‘ ہے۔ مگر راشدہ گریز سے نا آشنا ہے وہ تلخ حقیقتوں کا بر ملا اظہار کرنا زیادہ پسند کرتی ہے۔
اس نے کبھی پلاسٹک سرجن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا کہ آپ کو معاشرے کا وہ چہرہ دکھائے جو آپ کو پسند آئے۔ یہ اختیار صرف آپ کے پاس ہے کہ آپ معاشرے کے اس چہرے کو بدل دیں جس کی جھلک راشدہ کی تحریر میں نظر آتی ہے۔
مبصر : ڈاکٹر نجیب حیدر
پہلی سی محبت، ایک بے باک آواز
افسانوی مجموعے کے آخری دو افسانے اپنی طوالت کے باعث کچھ بوجھل سے ہوگئے ہیں اگر ان میں کچھ تفصیلات کو پس پردہ رہنے دیا جاتا تو حسن اختصار کے ساتھ افسانے کی معیاری تعریف میں زیادہ وسیع جگہ حاصل کرسکتے تھے۔ میرے سامنے ’’ پہلی سے محبت ‘‘ کے صفحات کھلے ہیں۔ راشدہ نے ایک حساس موضوع کو اس افسانے میں مہارت کے ساتھ پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
وہی اس عمر میں ، اس عہد میں ڈرا، سہما ہوا جذبہ ، یعنی محبت اس کا موضوع ہے ۔ مگر میں حیران ہوں کہ کہانی کا مرکزی کردار محبت کے اظہار سے اس قدر خائف کیوں ہے ، اس کا رویہ منیر نیازی کے الفاظ میں :
’’
یہی اک لفظ کہنے میں
لگے بارہ برس مجھ کو
مجھے تم سے محبت ہے ‘‘
اور جب اظہار کرنا بھی چاہ رہا ہے تو وہ بھی چڑیوں کے کھیت چگ جانے کے بعد، عدیلہ سے بھی نہیں بلکہ اس کی معصوم بچی کے ذریعہ وہ اپنے جذبات عدیلہ تک پہنچانا چاہ رہا ہے۔ کہانی کے اس حصے میں معیار نام کی جو بچی سامنے آتی ہے وہ اپنی عمر سے بہت جنم بڑی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے کردار میں بچوں والی معصومیت نہیں ملتی ، ملاحظہ فرمائیے جو س کا ڈبہ لینے سے انکار کرتے ہوئے وہ کہتی ہے :
’’
مجھے یہ لیکچر دینے لگی کہ یہ جوس اچھا نہیں ہوتا صحت خراب ہوتی ہے آپ بھی نہ پیا کریں ۔۔۔ میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مربیانہ انداز میں کہنے لگی۔ سوری سر ! میں نے آپ کو ہرٹ کیا لیکن آپ کو تو پتہ ہی نہیں تھا ۔ اس لیے آپ نے مجھے دیا ۔ آپ کی اماں کو یہ بات آپ کو بتانا چاہیے تھی ۔ ‘‘
افسانہ نگار اگر اس کردار میں دادی اماں کی جگہ اس کی معصومیت کو برقرار رکھتیں تو زیادہ پرکشش کردار بن سکتا تھا۔
مبصر : آفتاب حسین سرائی
یہ بازی عشق کی بازی ہے از : فرخندہ بخاری
سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور۔ ۲۰۱۲ء
نامور شاعرشہرت بخاری نے جب اپنی آپ بیتی ’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘ لکھی تھی تو اس میں والہانہ سرشاری کے ساتھ اپنی بیوی فرخندہ بخاری کا ذکر کیا تھا اور انھیں حاصلِ حیات قرار دیا تھا۔ ان کے یہ جملے ہم ایسے نیم آزردہ شوہروں کے لیے قابلِ رشک کم اور موجبِ حسد زیادہ تھے شاید اسی وجہ سے اس کتاب کی اشاعت کے بعد خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ دونوں میاں بیوی کی داخلی تلخی اور کشیدگی گھر سے باہر آگئی ہے اور کسی قدر نیم علیحدگی ہوگئی ہے۔ تب یہ خیال کیا گیا تھا کہ انسان کو اپنی آپ بیتی مکمل کرتے وقت اور اپنے بعض قریبی احباب کو خراجِ تحسین پیش کرتے وقت محتاط ہونا چاہیے کہ کہیں کلماتِ توصیف پر نظرثانی نہ کرنی پڑ جائے۔
دوسرے مارچ ۱۹۸۱ء پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم مہینہ ہے جب پی آئی اے کا طیارہ ہائی جیک کر کے کابل لے جایا گیا تھا اور جہاز اغوا کر نے والوں کے مطالبے پر ۵۳ سیاسی قیدیوں کو دمشق منتقل کیا گیا تھا۔ ان میں ایک خاتون فرخندہ بخاری بھی تھیں جسے ہتھکڑیوں میں جہاز پر سوار کیا گیا تھا۔ تاہم بے نظیربھٹو کے دونوں ادوار حکومت میں یہ خاتون کسی اہم عہدے پر متمکن ہوئی اور نہ کسی منتخب ایوان کی زینت بنی۔ اس اعتبار سے فرخندہ بخاری کی آپ بیتی ’یہ بازی عشق کی بازی ہے‘ بعض تاریخی تصاویر اور دستاویزات کے ساتھ تازہ کتابوں میں خصوصیت رکھتی ہے،جو شاہد محمود ندیم کے دیباچے کے ساتھ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور کے ذوقِ طباعت سے آراستہ ہو کر شائع ہوئی ہے، میَں نے اس قابلِ فخر خاتون کی شخصیت کو اس کی اپنی آپ بیتی کے ذریعے دریافت کرنے کی کوشش کی تو احساس ہوا کہ بنیادی طور پر اس کے بچپن کا ایک واقعہ اس کی شخصیت کو سمجھنے میں بہت مدد دیتا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ جب لاہور میں تھانہ ٹبی سے باہر سکھوں اور مسلمانوں کا فساد اس علاقے میں ہوا یہاں فرخندہ کے نوعمر بھائی اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیلنے گئے تھے اور اب گھر کے بڑے بوڑھے ان کی سلامتی کی دعائیں کر رہے تھے مگر پولیس انھیں فساد زدہ علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ اس وقت ایک چھوٹی سی لڑکی بھاگتی ہوئی اس علاقے میں گھس گئی اور آوازیں دے دے کر اپنے بھائیوں کو وہاں سے بچا کے لے آئی۔ یہ فرخندہ بخاری کی نڈر مگر قربانیاں دینے والی ذات کی بنیادی طاقت کا مظہر واقعہ ہے۔ پھر اس کی شخصیت کا ایک اور روپ سامنے آتا ہے جب اس کی بڑی بہن کو ٹیوشن پڑھانے ایک بڑی عمر کا شاعر پروفیسر گھر میں آتا ہے اور اسے بھی اصلاحِ سخن یا تربیتِ ذات کے لیے مشورے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ پروفیسر ایک روشن خیال شاعر ہے ، شیعہ ہے اور اپنی کمزور حالت کے باوجود بڑی گرم جوشی سے اس کا طلب گار ہے اور یہ لڑکی اس تجویز کی حمایت اسی استقامت سے کرتی ہے جس کی توقع اس کے افرادِ خانہ نہیں کر رہے ہوتے ۔، بہرطور وہ یہ معرکہ سر کرتی ہے تب شہرت بخاری کا ایک اور روپ سامنے آتا ہے جو ان کی روشن خیالی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ اسے شادی کے بعد برقعہ پہناتے ہیں اور اس کی کشش اور جاذبیت کو صرف اپنے تک مرتکز کرنے کی وہ ساری کوششیں کرتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں کسی خوبرو خاتون کا کوئی بھی شوہر کرتا ہے۔ تاہم وہ اپنے سیاسی لگاؤ کے سبب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے ابتدائی مرحلے میں فرخندہ کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ ان کے قائد کی جان بچانے کے لیے سیاسی مہم کا آغاز کر سکیں۔ پھر اس لڑکی پر عقوبت کا وہ دروازہ کھلتا ہے،جسے حاکموں کی ’سا لمیت‘ اور رعایا کی بے بسی پر مبنی حبِ وطن کے لئے ضروری خیال کیا گیا،مگر میرے لئے کتاب کا افسردہ ترین حصہ وہ ہے،جہاں شہرت بخاری یادادشت اور شاید ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں اور اچانک کھوئی ہوئی فرخندہ کو تلاش کرتے اس کے سر پر پہنچ کے پوچھتے ہیں کہ تم بیچ بازار میں کیوں لیٹی ہو؟ اب اس کتاب کے کچھ اقتباسات دیکھئے :
مجھے پتنگ اڑانے کا شوق شروع سے تھا۔ ۔۔۔ میں اپنی بہنوں کے بجائے بھائیوں کے زیادہ قریب تھی۔ جو کھیل وہ کھیلتے میں بھی وہی کھیلنے کی کوشش کرتی ۔ وہ ورزش کرتے میں بھی ورزش کرتی ۔ وہ گلی ڈنڈا کھیلتے میں بھی وہی کھیلتی ۔ وہ کرکٹ کھیلتے میں بھی کرکٹ کھیلتی ۔ (ص۱۹) ۔۔۔میں نے ابا جی سے شیعہ مسلک اور غربت کے بارے میں جوش میں بڑا مکالمہ کیا، ساری صورتِ حال ایسی انہونی تھی جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے یہاں تک کہا کہ مجھے غریب لوگ اچھے لگتے ہیں ، مجھے فنکار ، شاعر ادیب لوگ اچھے لگتے ہیں ، مجھے شیعہ بھی اچھے لگتے ہیں بلکہ مجھے لگتا ہے کہ میں خود شیعہ ہوگئی ہوں۔ ۔۔۔ ہم کہاں کے رئیس ہیں ۔ میرے نزدیک اردو سپیکنگ ، شیعہ اور غریب ہونا کوئی جرم نہیں ! اور آخر میں کہہ دیا ابا جی مجھے افسوس ہورہا ہے کہ آپ کے قول اور فعل میں تضاد ہے ۔۔۔ (ص ۴۲) ۔۔۔ جب وہ باجی کو پڑھانے آیا کرتے تھے لیکن ان سے کبھی بات نہیں کی تھی غزلوں پر اصلاح ضرور لی تھی وہ بھی باجی کے سامنے ۔ ۔۔ پھر کہنے لگے تمہیں معلوم ہے وہ ایک معمولی حیثیت کا ایک غریب شاعر ہے۔ کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ ایک بہن ہے ۔ وہ تمہیں کیا خوش رکھ سکے گا۔ بھوکا رکھے گا ؟ اور ہمارے خاندان میں شیعہ مسلک اور اُردو بولنے والوں سے آج تک کوئی شادی نہیں ہوئی ۔ تم عمر میں اس سے بہت چھوٹی ہو۔ کم از کم ۱۶ سال ۔۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ تم اس کے ساتھ ہر گز خوش نہ رہ سکو گی اور میں تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔ تم جو دیکھ رہی ہو اور جہاں تک دیکھ رہی ہو۔ میں اس سے بہت آگے دور تک دیکھ رہا ہوں ۔۔۔ یہ درست ہے ہم سیدوں کی عزت کرتے ہیں مگر شیعہ سے شادی نہیں کرتے ۔۔۔ اور اگر میں تمہاری بات مان لوں تو میری صرف ایک شرط ہے کہ تم شادی کے بعد کبھی بھی اور کسی بھی قسم کی شکایت نہیں کروگی۔ وعدہ کرو کہ ہر حال میں تمہیں ایڈجسٹ کرنا ہوگا ۔۔۔ میں چپ رہی انھوں نے کہا زبان سے کہو میں نے کہا ٹھیک ہے ۔۔۔ (ص ۴۴) ۔۔۔ ایک دن شہرت ایک پنجرہ جس میں بے حد خوبصورت آسٹریلوی طوطا تھا لائے اور کہا کہ یہ تمہارا گفٹ ہے اور باقی چار پانچ پلاسٹک کے پنجرے انھوں نے دو کھڑکیوں اور ایک دروازے پر لٹکا دئیے۔(ص ۴۸) ۔۔۔ میں تمہارا باہر جانا پسند نہیں کرتا۔ تم جتنا چاہو پڑھو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن تم پرائیویٹ پڑھو۔ کالج نہیں جانا ۔۔۔ میں سخت مایوس تھی میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ شہرت اتنے پرانے خیالات کے ہوں گے۔ (ص ۴۹) ۔۔۔شہرت کے پاس چار پانچ
لڑکیاں اُردو پڑھنے آیا کرتی تھیں ۔ شروع شروع میں تو میں چپ رہی لیکن اب مجھے بھی غصہ تھا ایک دن دل کڑا کر کے میں نے ان لڑکیوں سے کہا اردو کوئی مضمو ن ہے جسے کے لیے تم روزانہ یہاں آجاتی ہو۔ ابھی اٹھو اور چلی جاؤ آئندہ کبھی میرے گھر نہ آنا اور شہرت ہکا بکا میرا منہ دیکھ رہے تھے ۔ میں نے اسلم کا بدلہ لے لیا تھا[اسلم وہ لڑکا تھا،جو شادی سے پہلے ہمارے گھر پڑھنے کے لئے آتا تھا مگر اب شہرت نے اسے بھگا دیا تھا]۔ اور وہ سب چلی گئیں۔ (ص ۵۱) ۔۔۔شہرت کو سمجھ آگئی کہ میں کوئی موم کی گڑیا نہیں ہوں جیسا چاہا ویسے موڑ لیا اور میں نے یہ بھی بتا دیا کہ میں یہ پابندیاں برداشت نہیں کرسکتی میں انسان ہوں پرندہ یا موم کی گڑیا نہیں ہوں اگر آپ کو اپنا طرزِ زندگی پیارا ہے تو مجھے اپنا۔ خیر انھوں نے سمجھ لیا کہ اس طرح میں گزارا نہیں کرسکتی اور آہستہ آہستہ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی حدود کو سمجھ کر قبول کرلیا۔ (ص ۵۱) ۔۔۔ تاہم تحریک پیسوں سے چلتی ہے اور ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ سب سے پہلے بیگم خاکوانی کے پاس گئے تھے مگر انھوں نے کہا یہ پارٹی کی لائن نہیں ہے اس لیے فنڈ نہیں مل سکتے۔ (ص ۷۰) ۔۔۔میں اکھڑ چکی تھی میں نے [خالد عثمان سے]کہا کہ میں نہ آپ کو نہ آپ کی بہن [ڈاکٹر کنیز یوسف]کو جانتی ہوں اس لیے مجھے اسی پاسپورٹ پر واپس پاکستان بھیجا جائے۔ عثمان نے کہا ’’ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، ہمارا پروگرام لیبیا میں لیکچر بننے کا ہے ہم وہاں سے ایک ہفتے کے بعد پاکستان چلے جائیں گے۔ (ص ۸۹) ۔۔۔پتہ نہیں منصور شیخ نے ، کس کے کہنے پر ،کسی عناد کی بنا پر یا کسی بڑے منصوبے کے تحت ،کہ اپنی خالہ کے ذریعے ہمارے گھر پیغام پہنچا دیا کہ فندی سیر کرنے پیرس گئی ہوئی ہے۔ شہرت میرے بارے میں ہمیشہ ہی بہت حساس رہے ہیں ، بھائی افتخار بھی بار بار پوچھتے فندی کہاں ہے ، شہرت کہتے کراچی گئی ہے لیکن ایک دن انھیں یقین ہوگیا کہ میں ترکی وغیرہ کی طرف نکل گئی ہوں ۔ (ص ۹۱) ۔۔۔رات کی فلائٹ سے ہم لاہور پہنچے ۔ ڈیرھ دو بجے کا وقت تھا ۔ ۔۔۔ مجھے اچانک دیکھ کر سبھی بہت خوش ہوئے مگر شہرت نے خاص لہجے میں کہا ’’ کرلیں سیریں ، دیکھ لیا پیرس ۔ ‘‘ میں نے کہا کیسا پیرس اور کیسی سیر ۔۔۔ مگر شہرت کا پارہ چڑھتا گیا، میں نے کہا اگر پیرس گئی تھی تو پاسپورٹ پر کچھ مہریں بھی ہوں گی ، وہ دیکھ لو ۔۔۔ شہرت نے پاسپورٹ دیکھے بغیر پھاڑ دیا اور ٹکٹ بھی ۔۔۔ شہرت بھو ل گئے کہ میں انہی کی مرضی سے گئی تھی بلکہ وہ مجھے بھیجنے والے تھے ۔۔۔ شہرت نے یہاں تک کہہ دیا کہ میرے گھر سے نکل جاؤ ۔۔۔ میں کہتی رہی میری بات تو سن لو مگر وہ حد سے باہر ۔۔۔ بیٹیاں درمیان میں آگئیں ۔۔۔ بیٹے علی جی نے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔ میں کیا کرتی ۔ اوپر والی منزل میں چلی گئی اور تھوڑا بہت قصہ ان کو سنایا کہ میں تو ایک خوفناک عذاب سے گزر کر آئی ہوں ۔۔۔ صرف ایک رات عثمان خالد کے گھر گزاری ہے اور وہ بھی اس لیے کہ اکی بھائی گھر پر نہیں تھے ۔۔۔میں کہاں جاتی؟ ۔ (ص ۹۳ )۔۔۔ان کو بس میں بیٹھا کر واپس آ رہے تھے کہ گرجے کی دیوار کے ساتھ ایک لڑکا لڑکی کھڑے بوس وکنار کر رہے تھے ۔ ہم تو انھیں سرسری طور پر دیکھتے ہوئے گزر گئے لیکن شہرت وہاں لمحہ بھر کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس نوجوان کے ہاتھ میں ہیلمٹ تھا۔ اس نے شہرت کے سر پر مارا خون کا فوارہ بہہ نکلا۔ میں نے اپنی دونوں بیٹیوں سے کہا بھاگو اور شہرت کو گھیسٹ کر چرچ کے اندر لے گئے۔ وہ نوجوان خون کو دیکھ کر وہاں سے رفو چکر ہوگئے۔ چرچ والوں نے پٹی تو باندھ دی لیکن پھر ایمبولینس بلاکر ہسپتال لے گئے ٹانکے لگے اور ہم نے شہرت سے کہا کہ آپ بھلا ان کا نظارہ کیوں کرنے کھڑے ہوگئے تھے ۔ (ص ۱۵۰ ) ۔۔۔ اتوار کو عبادت کا وقت بتایا سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا Don't Worry my Child , God will look after you. اور میں رو پڑی ابھی تک کسی نے بھی اس طرح سے ہمدردی کا اظہار نہیں کیا تھا ۔کوئی تسلی دینے والا نہیں ، کوئی غم سننے والا نہیں ، کوئی پہچاننے والا نہیں یہ کیسا نگر ہے یہ کیسی دنیا ہے کوئی تو ہو جو کہے کہ تم آگ کا دریا پار کر کے آئے ہو۔ تھوڑی دیر ہمارے ساتھ گزار و ہم تم بے گھروں کی بپتا سنیں گے۔ کوئی نہیں ہم جس کے پیروکار تھے اسے تو پھانسی پر لٹکادیا گیا ہمارا سورج تو غروب ہوچکا تھا لوگ چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں ڈوبنے والوں کا کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ ہم جیسے دیوانے کئی اور بھی تھے جو اپنا سب کچھ لٹا چکے تھے۔ (ص ۱۴۲) ۔۔۔ فوجی بڑے خفیف ہورہے تھے وہ جان بوجھ کر میرے سامنے سگریٹ پیتے اور اس کا دھواں میرے منہ پر پھینکتے ۔۔۔ یہ بھی کسی عورت کے لیے تشدد سے کم نہیں ہوتا۔ میں نے ان سے کانسٹیبل عورتوں کی شکایت کی کہ یہ میری انگلیوں کو مروڑتی ہیں ، پٹاخے بجاتی ہیں ، مجھے مارتی ہیں اور میرے کپڑے اتارنے کی کوشش کرتی ہیں، انتہائی نازیبا حرکات کرتی ہیں۔ کیا یہی آپ کی ہدایت ہے ؟ یہ سنتے ہی ایک فوجی نے میرا ہاتھ پکڑا اپنی طرف کھینچا اور سلگتا ہوا سگریٹ میری کلائی پر رکھ دیا۔ ۔۔۔مجھے شدید دکھ ہوا ، غصہ بھی آیا اور میں نے دوسری کلائی اس کے آگے رکھ دی۔ اس نے اس پر بھی سلگتا ہوا سگریٹ رکھ دیا مگر اس مرتبہ میں نہ چیخی نہ میں نے کلائی ہٹائی اور جب تک سگریٹ بجھا نہیں اس نے بھی اسے اٹھایا نہیں ۔ (ص ۱۰۱) ایک فوجی جوان سے میں نے پوچھا کہ تم مجھے کہاں لے
جارہے ہو ؟ اس نے کہا معلوم نہیں ، میں نے کہاکہ تمہاری عمر کا میرا بیٹاہے۔ اس کا نام علی جی ہے ۔ تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا علی جی ! اس نے دوسرے فوجی سے کہا کہ خاتون کے ہاتھ اور آنکھیں کھول دو ۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا دعائیں دیں لیکن وہ کہنے لگا کہ ائیر پورٹ کے پاس پہنچ کر مجھے دوبارہ آپ کے ہاتھ اور آنکھیں باندھنی ہوں گی۔ اس کے پاس پانی کی بوتل تھی کہا پانی پی لیں۔ اور وہ زاروقطار رو رہا تھا۔(ص ۶۵۔۔۔گھر میں شہرت اور میں تھے۔ دوپہر کے بعد مجھے ایمنیسٹی کے کچھ کاغذات پہنچانے جانا تھا۔ دروازہ بجا، میں نے کھولا ، کیا دیکھتی ہوں کہ بے نظیر اور یاسمین پھول لیے کھڑے ہیں ۔میں مارے خوشی کے پاگل ہوگئی ،ہکا بکا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ ۔۔۔ پھر [بی بی نے]کہا وہ لال دال گھر میں ہے، میں نے کہا جی ۔۔۔ جی جلدی سے پندرہ منٹ میں دال چاول پکاؤ میں نے دونوں چولہے جلا کر پندرہ منٹ میں دال چاول تیار کیے، کھا کر بہت خوش ہوئیں اور کہا تم توبہت اچھا پکالیتی ہو۔ (ص ۱۵۴) ۔۔۔
۔۔۔[بھٹو نے جیل سے اپنی عظیم بیٹی کو جو خط لکھا تھا،وہ ایک عظیم ادبی دستاویز ہے،اس میں یہ لکھا تھا] ایک خوفزدہ کرنے والا معاشرہ ایک مہذب معاشرہ نہیں ہوتا۔ مہذب کے معنی ہیں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ وہ ہوتا ہے جس نے قوم کے خصوصی جذبہ کی شناخت کرلی ہو۔ جس نے ماضی ،حال سے مذہب اور سائنس سے جدیدیت اور تصوف سے مادیت اور روحانیت سے سمجھوتہ کرلیا ہو۔ ایسا معاشرہ ہیجان وخلفشار سے پاک ہو اور ثقافت سے مالا مال ہوتا ہے۔ (ص ۲۴۶) ۔۔۔ کبھی کبھی ایک مقبول فیصلہ بالآخر عوام کے لیے مفید نہیں ہوا کرتا ہے نہ تو عملیت کا نظریہ اور نہ ہی عوامی مقبولیت کا نظریہ بنیادی ،
سیاسی اور سماجی واقتصادی اصول ہیں۔(ص ۲۴۷ ) ۔۔۔یہاں اسلام کی تاریخ جس قدرجذبات میں تموج پیدا کرتی ہے اس قدر کسی اور ملک میں نہیں کرتی۔(ص ۲۴۸ ) ۔۔۔ مگر ہمارے ملک کو آمریت کینسر کی طرح کھا گئی۔ ڈکٹیٹروں نے اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹا یحیےٰ خان سے پرویز مشرف تک سب کھوکھلا کر گئے ۔ کلاشنکوف ، ہیروئن ، کرپشن ، دہشت گردی سب آمروں کے تحفے ہیں۔ (ص ۲۶۲) ۔۔۔ غریب بھی بے زبان ہوتے ہیں خاص کر جب وہ راہنما جنھوں نے ان کو بولنا سکھایا ہو ، ان کو شہید کردیا گیا ہو مگر وہ زندہ ہیں اور یہ قوم انہی کی طرح زندہ ہے۔ چاہے جتنی شہادتیں کر لیں ان کو چپ کرانے والو۔۔۔ تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا!، (ص ۲۶۵) ۔
مبصر : انوار احمد