غافر شہزاد

لمحۂ موجود میں تحلیل شخص

۴۔ ابوالاعجاز حفیظ، صدیقی:''کشاف تنقیدی اصطلاحات''، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، سن ۱۹۸۵ئ، ص: ۱۰۲
۵۔ شہزاد احمد: ''آنے والا کل'' ، لاہور، رائٹر ایسوسی ایشن، ۲۰۰۵ئ، ص نمبر: ۶۰ ٭٭٭٭
جیل روڈ پر ٹریفک کا ازدحام تھا۔ ایک ہجوم بے کراں، گاڑیاں ہی گاڑیاں اور گاڑیوں کے بیچ میں بچ جانے والی جگہ پر موٹر سائیکلیں، اگر کوئی رفعت آسمان سے پرندے کی آنکھ سے اس منظر کو دیکھتا تو اسے سڑک کے بجائے گاڑیوں کی چھتیں اور موٹر سائیکل سواروں کے کالے سر اتنی تعداد میں نظر آتے کہ ان کا شمار کرنا مشکل ہو جاتا۔ البتہ ایک قرینہ تھا، ساری ٹریفک کی روانی کی سمت ایک ہی تھی۔ سب لوگ ایک جانب ہی جانا چاہتے تھے۔ اگرچہ آگے چل کر ان کی منزلیں اور راستے جدا ہو جاتے تھے۔ مگر فی الحال ٹریفک جام کی وجہ سے سب کا قبلہ ایک ہی لگ رہا تھا۔ کہیں سے اگر کوئی گنجائش نکلتی تو سڑک پر کھڑی گاڑی یا موٹر سائیکل میں ایک جنبش پیدا ہوتی مگر چند گز چلنے کے بعد پھر وہی خاموشی، ہر شے ساکت و جامد، وقت جیسے ٹھہر گیا تھا، ہر شے رک سی گئی تھی البتہ گھڑی کی سوئیاں اپنی رفتار سے چل رہی تھیں۔
انہی گاڑیوں میں سے ایک گاڑی کے اندر وہ بھی بیٹھا تھا، بلکہ نیم غنودگی کے عالم میں تھا۔ دفتر سے نکلتے وقت اس کا خیال تھا کہ گھر جا کر کھانا کھا کر تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد الحمراء ہال جائے گا جہاں مقامی تھیٹر یکل کمپنی نے معروف افسانہ نگار منٹو کے حوالے سے ایک پروگرام تشکیل دے رکھا تھا۔ مگر گزشتہ دو اڑھائی گھنٹوں سے ٹریفک کے اس ازدحام میں وہ کچھ ایسی بے بسی کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا جیسے کسی عدالت نے اس کو گاڑی کے اندر عمر قید کی سزا سنا دی ہو۔ اپنے کردہ اور نا کردہ گناہوں کی سزا وہ بھگت رہا ہو۔ بار بار اس کا دھیان سامنے لگے ایک پوسٹر کی جانب چلا جاتا '' وقتی تکلیف کے لیے معذرت، اس لیے کہ اس کے بعد آپ کوسہولت میسر آ جائیگی''۔ عجب فلسفہ تھا، جسے حکومتِ وقت اپنے سیاسی نعرہ کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔'' تھوڑی سی تکلیف اور عمربھر کا آرام''۔ تو کیا واقعی آنے والے دنوں میں سڑکوں پر ٹریفک کے مسائل حل ہونے والے ہیں۔ ٹریفک کی روانی میں تسلسل آجائے گا کراسنگ اور اشاروں پر گھنٹوں پٹرول اور وقت ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ عام لوگوں کو بھی بسیں میسر آ جائیں گی اور گاڑیوں والے بغیر تعّطل کے اپنی منزل تک پہنچ سکیں گے۔
جب سے عوامی حکومت نے شہر میں سڑکوں کی گنجائش بڑھانے، کراسنگ پر فلائی اوور اور انڈر پاس تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا پورا شہر ٹریفک کے بے قابو عفریت کی زد میں آ گیا تھا، معاملہ تو محض ایک سڑک پر بس چلانے کے خواب سے شروع ہوا تھا اور بات بڑھتے بڑھتے فلائی اوور تک آن پہنچی تھی۔اول یہ خیال کیا گیا تھا کہ دو رویہ سڑک کے درمیان سے اگر سڑک کا کچھ حصہ لے لیا جائے اور اس کو اسٹیل کے قد آدم بلندجنگلے لگا کر پیدل سڑک کراس کرنے والوں سے محفوظ کر دیا جائے تو بس کی روانی میں تسلسل پیدا ہو جائے گا اور مسافراپنی گاڑیوں میں اشاروں پر رک کر وقت ضائع کرنے کے بجائے براہ راست گزر سکیں گے۔ ان کا وقت بچے گا اورسہولت بھی میسر آئے گی۔ مگر اس وقت کسی کے ذہن میں ایک معمولی سی بات نہ آئی کہ اس جنگلہ کی وجہ سے پورے کا پورا شہر دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا اور یہ سڑک دیوار ِ چین بن جائے گی۔عملی طور پر جنگلے لگائے گئے اور سڑک بس کی روانی کے لیے تیار کی گئی تو مسئلہ پیدا ہو گیا کہ دیگر بے شمارسڑکیں جو اس بڑی سڑک کو مختلف جگہوں پر کراس کر رہی ہیں ،ان کا کیابنے گا۔ درجنوں ہسپتال تھے کہ یو ٹرن نہ ہونے کی وجہ سے شہر کے دوسرے حصے سے کٹ کر رہ گئے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ان سڑکوں پر فلائی اوور اور انڈر پاس بنا دئیے جائیں۔اب ان کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو بس کا منصوبہ پھر ادھورا رہ گیا، کہ جب تک یہ انڈر پاس اور فلائی اوور تعمیر نہیں ہو جاتے بس نہیں چلائی جا سکے گی۔ ایک چوک جہاں سات سڑکیں آکر ملتی تھیں، اس کے لیے زیرِ زمین سگنل فری سہولت مہیا کرنے کے لیے منصوبہ اس وقت شروع کر لیا گیا جب دیگر منصوبہ جات تکمیل کے آخری مراحل میں تھے اور بس چلنے میں چند ہفتے باقی رہ گئے تھے۔ شہریوں کو ہر بار یوں لگتا کہ ٹریفک کا عذاب ختم ہونے والا ہے، مگر ساتھ ہی ایک نیا آئیڈیا ان کے اعصاب کو پھر سے آزمائش میں ڈال دیتا اور یہ سب کچھ گزشتہ ڈیڑھ برس سے ہو رہا تھا اور ابھی مزید چار چھ ماہ لگ جانے تھے۔ اس طویل سڑک کے منصوبے کی تکمیل کے التواء میں پڑنے کی وجہ سے شہر کی ٹریفک کا لوڈ دیگر سڑکوں پر بہت بڑھ جاتا تھا۔ خصوصاََ جب طلباء و طالبات کے اسکول کا وقت ہوتا، صبح آغاز یا دوپہر چھٹی کا وقت تو ٹریفک وارڈن کے لیے ایک کڑی آزمائش ہوتی۔ لوگ گھنٹوں گاڑیوں میں اور موٹر سائیکلوں پر بیٹھے رہتے۔
اس نے اس ڈیڑھ برس میں شہر کی مختلف جگہوں پر آمدورفت کے لیے نئے نئے راستے دریافت کیے تھے مگر پھر بھی ایک دو جگہیں یا چوک ایسے آ جاتے کہ ان سے گزرتے ہوئے بعض اوقات اسے دو تین گھنٹے لگ جاتے اور آج بھی وہ ایسی ہی صورت حال سے دو چار انتہائی بے بسی کے عالم میں اپنی گاڑی میں بیٹھا راستہ ملنے کا انتظار کر رہا تھا۔ ٹریفک میں تھوڑی سی جنبش ہوئی تو اس کو بائیں ہاتھ پر ایک چھوٹی سی سڑک نظر آئی جو کہیں آگے جا رہی تھی۔ اس نے گاڑی اس سڑک پر ڈال دی ۔ یہ سڑک آگے چل کرایک اور سڑک سے مل جاتی تھی جو کہ پہلے والی بڑی سڑک کے متوازی چلتی تھی اس کا خیال تھا کہ شاید وہاں سے گزر کر وہ گھر جا سکے گا مگر آگے سیکیورٹی والوں نے اس سڑک کو اس طرح بند کیا ہوا تھا کہ گاڑیاں یک طرفہ ٹریفک سے ہوتی ہوئی مخالف جانب نکل جاتی تھیں۔وہ بھی اس بہاؤ میں اس جانب چل نکلا،گھڑی پر وقت دیکھا تو معلوم ہوا پانچ بج چکے ہیں اور سات بجے اسے الحمراء ہال میں منٹو کے حوالے سے ڈرامہ دیکھنے دوبارہ اسی جانب آنا تھا ، صرف دو گھنٹے رہ گئے تھے، اس نے سوچا گھر جانے کا رسک لینے کے بجائے کیو ںنہ ابھی الحمراء کی جانب نکل جاؤں وہیں جا کر دو گھنٹے گزار لوں گا کوئی نمائش چل رہی ہو گی۔ یا ہو سکتا ہے الحمراء ہال میں کوئی کلچرل پروگرام چل رہا ہو۔ اگر کچھ بھی نہ ہوا تو کنٹین پر بیٹھ کر چائے کا کپ تو پی ہی سکوں گا۔ اس خیال نے اس کو شدید پیاس کا احساس دلا دیا اور ساتھ ہی چائے کی طلب بڑھ گئی اور کوئی انتخاب بھی موجود نہ تھا۔ فوراََ گاڑی اس سڑک پر ڈالی جس نے اسے الحمراء لے جانا تھا۔ اس جانب ٹریفک کا دباؤقدرے معمول پر تھااوروہ بغیرخواری کے الحمراء آرٹس کونسل پہنچ گیا۔ گاڑی کھڑی کرنے کے لیے مناسب جگہ بھی مل گئی ۔ وہ گیٹ میں داخل ہوا۔ سورج اپنا سفر مکمل کرنے کے آخری مراحل میں تھا، درختوں کے سائے لمبے ہو گئے تھے ، لوگ لان میں کھڑے تھے ،کچھ آ جارہے تھے، گویا ایک پرسکون ماحول تھا۔ چند کلو میٹر کے فاصلے پر پھنسی ہوئی ٹریفک سے دور، یہاں تو اسے کچھ پرندوں کے بولنے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھی۔ وہ کنٹین کی جانب ہی جانا چاہتا تھا مگر راستے میں اس کی نظر نمائش گیلری پر پڑ گئی جہاں کسی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تصاویر کی نمائش کا افتتاح ہو رہا تھا۔ نمائش کا افتتاح ملک کے معروف مؤرخ سے کروایا جا رہا تھا اس مورخ نے ملک میں تاریخ نویسی کو بالکل نئے انداز سے روشناس کروایا تھا۔ اس کاخیال تھا کہ تاریخ بادشاہ یا حکمران نہیں بناتے بلکہ ہر عہد کے عام لوگ اپنے عہد کی تاریخ مرتب کرتے ہیں مگر تاریخ کی کتابوںمیں نام صرف حکمرانوں کا زندہ رہتا ہے۔ اس لحاظ سے ہمیں عام آدمی کی تاریخ لکھنی چاہیے۔ مؤرخ نے تاج محل کے معماروںپر ایک تفصیلی کتاب بھی تالیف کی تھی اس کا بنیادی مقالہ یہ تھا کہ لوگ تاج محل کے حوالے سے شاہ جہاں اور ممتاز بیگم کو تو یاد رکھتے ہیں، وہی ممتاز بیگم جو شاہ جہاں کے تیرھویں بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کی آغوش میں چلی گئی تھی مگر ان معماروں کو جن میں استاد احمد بخش لاہوری کا نام شامل تھا، بھول جاتے ہیں، حالانکہ یہ سنگ مرمر کا بے مثال شاہکار معماروں اور مزدورں کے ہاتھوں سے متشکل ہوا تھا وہی ہاتھ جن کے بارے میںکہا جاتاہے کہ تاج محل کی تیاری کے بعد بادشاہ نے کٹوا دیئے تھے حالانکہ یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا جھوٹ ہے، شاہ جہاں جیسا جمال پرست اور محبت کرنے والا شخص خوبصورتیاں تخلیق کرنے والوں پر کبھی ایسا ظالمانہ قدم نہیںاٹھا سکتا۔
معروف مؤرخ کے چہرے سے نظریں ہٹا کر اس نے نمائش میں آویزاں تصاویر کو دیکھنا شروع کر دیا۔ یہ ہاتھ سے بنائی ہوئی آبی رنگوں کی خوبصورت تصاویر تاریخی عمارات کوان کی موجودہ کھنڈر کی شکل میں پیش کر رہی تھیں۔ اگرچہ عمارات کے خدوخال ان کے عہد کی عظمت کی جھلک دکھا رہے تھے مگر یہ دیکھنے والوں کا تخیل اور تاریخی شعور تھا وگرنہ ان تصاویر سے تو خستگی اورخجستگی ٹپکتی تھی۔ ہر عمارت اپنے اندر ایک عہد کی تاریخ لیے ہوئے تھی۔ کہاں کہاں بادشاہ جلوہ افروز ہوتے رہے، فاتح اور محصور افواج کہاں کہاں قلعہ بند رہیں۔ فوارے اور تالاب، پھل اور پھول، عمارتوں کی دیواروں پر رہ جانے والی تزئین و آرائش ،غرض کیا نہیں تھا ان آبی رنگوں سے بنائی گئی تصاویر میں ، ہاں اگر کچھ نہیں تھا تو اس عہد کے لوگوں کی جھلک، ان کی معاشرت، طرز رہن سہن، طرز تعمیرات کہیں نظر نہیں آتا تھا کہ جس کی خاطر اس معروف مؤرخ نے اپنی زندگی کے چالیس سال قلم اور تحریر کے ساتھ لوگوں میں تاریخی شعور اجاگر کرنے میں صرف کر دئیے تھے اور آج اسی کے ہاتھوں سے حکمرانوں کے زیر استعمال تاریخی عمارات کی تصاویر کا افتتاح، اسے ایک عجیب سا تضاد محسوس ہوا۔ وہ کچھ زیادہ دیر اس فضاء میںٹھہر نہ سکا اگرچہ لوگ بڑے ذوق و شوق سے میڈیا کے لیے تصاویر بنوا رہے تھے۔ یہ تصاویر کل کے اخبارات میں شائع اور رات کے الیکٹرونک میڈیا میںنشر ہونا تھیں۔ حالانکہ نمائش میں پر تکلف چائے کا بھی اہتمام تھااور چائے کی اسے حاجت بھی ہو رہی تھی مگراس کو آرٹسٹ کے حلیے اور تصاویر کے درمیان کوئی تعلق نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ مزید ذہنی اذیت میں خود کو نہ ٹھہراسکا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا کیفے ٹیریا کی طرف چلا گیا۔
چائے پینے کے دوران میں ساتھ والی میز پر بیٹھے تین چار لوگوں کی باہم گفتگو سے اسے معلوم ہوا کہ اس وقت الحمراء ہال میں پنجابی زبان کے معروف شاعر استاد دامن کی ستائیسویں برسی منانے کے لیے استاد دامن اکیڈیمی نے ''استاد دامن دیہاڑ'' منانے کا اہتمام کیا ہے۔ اس کا استاد دامن سے تعارف اس زمانے کا تھا کہ جب استاد دامن نے عسکری استعمار کے خلاف پنجابی میں خوبصورت نظمیں ہزاروں سامعین کے مشاعروں میں پڑھی تھیں کہ آج ان نظموں کی لائنیں ضرب المثل کا درجہ حاصل کر گئی تھیںاور زبان زدِ عام تھیں۔ گھڑی پر پونے چھ بجے تھے ، منٹو کے حوالے سے تھیٹریکل کمپنی نے جو دستاویزی پروگرام پیش کرنا تھا اس کے شروع ہونے میں ابھی سوا گھنٹہ باقی تھا۔ چائے پی کر وہ کچھ دیر کے لیے ''استاد دامن دیہاڑ ''کی تقریب میں شامل ہو سکتا تھا۔
الحمراء ہال میں داخل ہوا تو اس کے سامنے معاشرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کا ایک اکٹھ تھا۔ یہ لوگ نہ تو لباس سے مہذب اور نہ زبان سے شائستہ لگ رہے تھے۔ اس نے پہلے سنا تھا مگر آج دیکھ بھی لیا کہ پنجابی زبان اور اس کے ادب کا بیڑا جن لوگوں نے اٹھایا ہوا ہے ان کا ایسا ہی تعارف ہے ان کی کمٹمنٹ اپنی جگہ مگر ان کے اندر خالص پنجابی کلچر نظر آتا تھا۔ دو لوگوں کے درمیان ایک خالی سیٹ پر جب وہ بیٹھ چکا تو اسے احساس ہوا کہ غلط جگہ کا انتخاب کر بیٹھا ہے۔ دونوں اطراف بیٹھے اصحاب سے عجیب سی بو آ رہی تھی جیسے کئی دن نہ نہانے والے مزدوروں کی بو کے مختلف ذائقے ان کے کپڑوں میں رچ بس گئے ہوں۔ کوئی اور سیٹ خالی نظر نہیں آ رہی تھی کہ وہ فوری طور پر اٹھ جاتا لہٰذا یہاں بیٹھنا مجبوری تھی۔
اس وقت اسٹیج پر آٹھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان میں مرکزی سیٹ پر استاد دامن اکیڈیمی کے سرپرست اعلیٰ براجمان تھے جہاں بیٹھنا ان کا استحقاق تھا۔ ان کے ساتھ ایک صاحب جنہوں نے قرآن مجید کا پنجابی میں منظوم ترجمہ کیا تھا اوران کے ساتھ استاد دامن کے ہم دم دیرینہ بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ آگے جو صاحب تھے انھوں نے سکھوں کے آثار اور عمارات پر ایک کتاب لکھ کر خوب رقم اکٹھی کی تھی اور اب اپنی اکیڈیمی کے لیے دو ایکڑ زمین بھی خرید لی تھی۔دوسری جانب مزدوروں کی آواز ایک شاعر تھے جنہیں استاد دامن سے ملنے کا صرف اوائل عمری میں ایک مرتبہ موقع ملا تھا اور پھرآخری ایک حکیم صاحب کہ جن کے مطب میں استاد دامن اکثر بیٹھتے تھے۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض کوئی بٹ صاحب سر انجام دے رہے تھے۔ اس نے بہت کوشش کی کہ ان مہمانان ِگرامی کا تعلق استاددامن کے تخلیقی کام اور فکر کے ساتھ جوڑ سکے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ یوں تو اس کا تعلق بھی استاد دامن سے کچھ نہ تھا، کہ سوائے ایک مرتبہ کہ جب وہ ٹیکسالی دروازے کے اندر واقع ایک مسجد کے پاس کھڑی پالکیوں کو دیکھنے گیا تھا، جب اس کے باس نے اپنی بیٹے کی شادی پر روایتی پالکی کہ جس کے آگے چار گھوڑے جتے ہوتے ہیں ،کی فرمائش کی تھی۔ وہیں کسی نے بتایا تھاکہ استاد دامن نے اپنی تما م حیاتی مسجد کے ساتھ ملحق ایک حجرے میں گزاری تھی کہ جہاں اب استاد دامن اکیڈیمی والوں کا مرکزی دفتر ہے، آج اس انجمن کی تقریب میں بیٹھ کر اسے کسی اجنبیت کا احساس نہ ہو رہا تھا۔
ایک اور صاحب نے گفتگو کے دوران استاد دامن کی شاعری کے اس پہلو کو اجاگر کیا جس میں عسکری آمریت کے خلاف احتجاج پیش کیا گیا تھا۔ ملک میں گزشتہ دس سالوں سے عوامی جمہوریت کے سبب یہ شاعری اور یہ صاحب دونوں ہی موجودہ صورت حال سے غیر متعلق لگ رہے تھے۔یوں لگاجیسے انھوں نے آمریت کو دوبارہ ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہو۔ یہ سب ماضی کا حصہ لگ رہا تھا۔ آج کے دور کے مسائل بالکل مختلف تھے یوں لگ رہا تھا جیسے استاد کی شاعری عہد موجود میں غیر متعلق ہو گئی ہو۔ گلو کاروں نے استاد دامن کے رسیلے گیتوں کا انتخاب کیا تھا وہ ضرور ہمارے معاشرے کے کلچر کو پیش کر رہے تھے مگر شہر میں جب خود کش حملہ آور اور ان کے دھماکوں کی دہشت پھیلی ہو، لوگوں کو گیس پانی اور بجلی نہ مل رہی ہو، قطاروں میں کھڑے ہو کربھی آٹانہ مل رہا ہو، معروف شاہراہوں پر دوپہر اور شام کو فری کھانے کے ٹوکن حاصل کرنے کے لیے بھوکے عوام قطاروں میں کھڑے ہوں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی ہے جو مزدورکی اجرت پر ڈاکہ مار کر اب سخاوت کے نام پر اسی کا محنتا نہ واپس کر رہا ہے ایسے حالات میں گیتوں میں رسیلا پن کہاں محسوس ہوتا ہے۔
اس کو یک دم ٹریفک کے ازدحام کا خیال آ گیاکہ جس سے گزر کر وہ گھر جانے کے بجائے سیدھا وقت سے پہلے الحمراء پہنچ گیا تھا، گاڑیوں کی قطاریں، سڑک پر پٹرول کی صورت میں جلتا ہوا ملک کا زرِمبادلہ، دائیں اور بائیں سے گزرتے ہوئے موٹر سائیکل سوار اور اب یہاں ہال میں بیٹھے ہوئے پنجابی کلچر کے گرویدہ لوگ، جو معاشرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے جن کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ تھی اور اس سے قبل تاریخی عمارات کی آبی رنگوں سے بنائی ہوئی تصاویر کی نمائش پر آنے والے خوشبو دار اور خوش لباس لوگ، آرٹ کے دلدادہ، فکر معاش سے آزاد، تخلیقی نمونوں کو داد دینے والے باذوق صاحبان ِ علم و فن، کیسا عجب سا تضاد تھا دونوں طبقوں میں ، دونوں کے ہیرو الگ تھے دونوں کے مسائل الگ تھے مگر دونوں اپنے اپنے انداز میںتقریب کا مزہ لے رہے تھے۔
استاد دامن کے کلام اور اس کے فکرو فن پر گفتگو کے علاوہ استاد دامن کے رنگ میں لوگوں نے شاعری پیش کر کے استاد کو خراج تحسین پیش کیا۔ وہ استاد یا اس کی شاعری کے بارے میں کچھ زیادہ نہ جان سکا مگر استاد دامن کے کلام کی تحسین کرنے والوں کے فکری رحجان اور سوچ کا اسے خوب اندازہ ہو گیا ۔ایک شاعرہ نے جب اپنا کلام پیش کیا اور اسے لوگوں نے جس مضحکہ خیز اور پر معنی انداز میںپسند کیا اور داد دی، اس نے حاضرین کی تہذیب و معاشرت اور اخلاقی اقدار کی قلعی کھول دی۔ اس نے سوچا کہ ایک زمانے میں صوفیاء پنجابی زبان کے وارث تھے جنہوں نے اعلیٰ پائے کے تخلیقی فن پارے اس طرح پیش کیے کہ اپنے عہد کی دانائی کو اشعار میں ڈھال دیا اور ایک یہ پنجابی کلچر اور ادب کے وارث ہیں کہ جن کا اپنا کوئی کلچر اور تہذیب نظر نہیں آرہی بلکہ اخلاقیات سے بھی محروم یہ لوگ معلوم نہیں کس دنیا میں رہتے ہیں۔
پروگرام اپنے اختتام کی جانب رواں تھا کہ جب اسے احساس ہوا کہ سات بجنے والے ہیں۔ وہ ہال سے باہر نکلا تو میزوں پر چائے اور اس کے لوازمات سج چکے تھے وہ چائے کا ایک اور کپ پی سکتا تھا مگر جیسا کلچر وہ اندر ہال میں دیکھ آیا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ جیسے ہی تقریب ختم ہو گی، یہاں ایسی ہڑ بونگ مچے گی کہ اس کے ہاتھ خالی کپ بھی آنے والا نہیں تھا۔
اس نے ہال نمبرII کا رخ کیاجہاں لوگ ڈور سکینر سے گزر کر ہال میں داخل ہو رہے تھے ۔حکم ہوا اپنا موبائل فون بند کر لیں یا اس کو خاموش کر دیں، فوراََ تعمیل کر دی گئی۔ ہال میں ابھی چند نشستیں خالی تھیں ایک مناسب جگہ پر وہ بھی بیٹھ گیا جہاں ایک طرف نوجوان جوڑا بیٹھا رازونیاز میں محو تھا اور دوسری جانب کوئی اور صاحب تھے تراش خراش سے پڑھے لکھے اور شکل و صورت سے خوشحال۔ ہال میں بیٹھے باقی لوگ بھی ایسے ہی تھے۔ ان کے لباس، گالوں کی لالی، ماتھے کی چمک، خوشبوئیں ، گویا یہ لوگ اسی شہر میں ،اس معاشرے کا بالکل مختلف حصہ تھے۔ اسے یوں لگا جیسے وہ کچی آبادی سے نکل کر یک دم ڈیفنس یا گلبرگ میں آگیا ہو ،جہاں سڑکیں پختہ اور کشادہ، درخت سر سبز و شاداب، خوبصورت عمارتیں نئے نئے ماڈل کی گاڑیاں، خوش شکلی اور خوش بختی نے جہاں ڈیرے ڈال رکھے تھے ،ان کا تعلق ایسے ہی رہائشی سیکٹر سے تھا۔
منٹوکی زندگی اور فن پر پیش کیے جانے والے دستاویزی پروگرام کے پہلے حصے میں اس کی بمبئی شہر کی زندگی کو دکھایا گیا تھا اور دوسرے حصے میں پاکستان میں منٹو کے ان برسوں کا ذکر تھا کہ جب وہ لاہور میں رہائش پذیر ہوا تھا اور اس دوران اس کے لکھے گئے افسانوں کا ذکر تھا۔ منٹو کا کردار ادا کرنے والا اداکار اپنے قدوقامت میں تو منٹو جیسا تھا مگر اس کا قدرے فر بہی صحت مند جسم اور چہرے کی بشاشت بالکل مختلف تھی۔ یہاں بیٹھے لوگوں کو اس بات سے کچھ غرض نہیں تھی اور نہ یہ بات تھیٹریکل کمپنی کے لیے اہم تھی۔ وہ منٹو شو پیش کر کے کچھ کمانے کی فکرمیں تھے۔ اس سے قبل انھوں نے بلھے شاہؒ ، غازی علم دین شہیدؒ، بھگت سنگھ جیسے کرداروں کی مسخ شدہ شخصیات کو پیش کر کے تاریخ کا عوام کے ساتھ رشتہ جوڑنے کی کوشش کی تھی۔ یہ عوامی ہیرو لوگوں کی امنگوں کے ترجمان کردار اپنے وقت کے حکمرانوں کے خلاف احتجاج کی علامت تھے۔ عوام کے نچلے طبقے کے لوگوں کے ہیرو یہ کردار اسٹیج پر تھیٹریکل کمپنی نے زندہ جاوید کر دئیے تھے مگر تاریخ اب ایسی نہ تھی جو پیش کی جارہی تھی۔ تھیٹریکل کمپنی کے مالکان عوامی خدمت کے جذبے کی آڑ میں لاکھوں کما رہے تھے،یہاں ٹکٹ خریدنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی اور سپانسر کرنے والی عالمی کمپنیاںموجود تھیں۔ تھیٹریکل کمپنی سارا سال دنیا بھر میں اپنی ٹیم کے ہمراہ کھیل پیش کرتی رہتی۔
منٹو کے جن افسانوں کا انتخاب یہاں پیش کیا گیا تھا، معلوم نہیں اسے وہ کیوں آج کے عہد کے متروک کردار لگے۔ اگرچہ سال ۲۰۱۲ء کو منٹو صدی کے نام سے تعبیر کیا گیا تھا مگر منٹو کے افسانوی کرداروں کے خدوخال کو جن زاویوں سے اجاگر کیا گیا تھا وہ نصف صدی گزرنے کے بعد آج کے حالات و معاشرت سے مطابقت نہ رکھتے تھے۔ جب ٹھنڈا گوشت کے ہیرونے اپنی داستان سنائی تو اسے شدید کوفت ہوئی، پاکستان بنے پینسٹھ سال ہو گئے، قیام پاکستان کے دوران میں وقوع پزیرہونے والے واقعات کو افسانوںکے روپ میں پیش کر کے معاشرے کی کون سی خدمت کی گئی ہے۔ ویسے بھی آج کی پڑھی لکھی عورت کہاں ایسی محدود نظر ہو سکتی ہے کہ اس کو اپنے عاشق سے پوچھنا پـڑے کہ وہ ایسی صورت حال سے کیوں دو چار ہو ا ہے اور پھر ایک مردہ عورت کو اپنے کاندھے پر اٹھائے پھرنے والا شخص اس بات سے آگاہ ہی نہ ہو سکا کہ کب وہ لڑکی مری اور اسی طرح ''لائسنس'' کی ہیروئن کو تانگے کے بجائے جسم فروشی کے پیشے کا لائسنس مل جاتا ہے۔آج پینسٹھ سال کے بعد لاہور کے طرزِ معاشرت کے ساتھ اس کی کیا مطابقت بنتی ہے کہ جب شہر کی سڑکوں پرہر طرف چنگ چی رکشے چل رہے ہیں۔ پیشے کے لیے خواتین کو اب کسی لائسنس کی ضرورت نہیں اور نہ ہی حکومتی تقاضا ہے۔ ایسے ہی ''نیا قانون ''کا کردار عہد ِموجود میں بالکل غیر متعلق لگتا ہے، ''کالی شلوار'' کی ہیروئن یا ''موذیل''ہو ، یا '' ہونہہ'' کا مرکزی نسوانی کردار ہو یہ سب عہد ِپارینہ کا قصہ ہیں۔ اسی طرح ''ٹھنڈا گوشت ''پر چلنے والے فحاشی کے مقدمے کی صورت حال بہت ہی مزاحیہ لگ رہی تھی کہ جس کے سبب منٹو کو تین ماہ قید اور تین سو روپے جرمانہ ہوا تھا۔ ہمارے آج کے معاشرے کے فرد کے لیے انتہائی غیر دلچسپ اور بے معنی کردار تھے۔ تو پھر ان کو یہاں اسٹیج پر دوبارہ زندہ کرنے کا کیامقصد ہے؟ اس کا دماغ اس تمام عرصے کے لیے اسی نقطہ پر اٹکا رہا۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والے یہ کس معاشرے کے فرد ہیں۔ کیا کسی کے دماغ میں یہ پریشانی نہیں ہے کہ تھیٹر ختم ہونے کے بعد ٹریفک کے کس بہاؤ سے گزر کر گھر جانا ہے، کسی موڑ پر، کسی سنسان سڑک پر کوئی دو نوجوان موٹر سائیکل پرسوار ہاتھ میں ریوالور لیے پہلے ان سے موبائل چھینیں گے پھر ان کا پرس مانگیں گے یا اگر اشارے پر کھڑے کھڑے گاڑی کا پٹرول یا گیس ختم ہو گئی تو رات کے اس درمیانے حصے میں وہ کیسے گھر پہنچیں گے۔
وہ سوچتا رہا اور الجھتا رہا، کیا یہ ماضی پرستی ہے؟ کیا ہم مردہ پرست ہو گئے ہیں ، ہمارا ماضی جو مردہ ہو چکا ہے، اس کی پرستش کر کے ہم لمحہ موجود کے لیے کون سا نسخہ ہائے کیمیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟کیا یہ زندہ لوگوں کا مُردہ معاشرہ ہے؟ یا لوگوں نے مسائل کو لاینحل سمجھ کر ہتھیار پھینک دئیے ہیں اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے سمجھتے ہیں کہ بلی ان کو نہیں دیکھ رہی، کیا یہ فرارکی کوئی شکل ہے؟
اسے ہال میں بیٹھے لوگ یک دم مردہ نظر آنے لگے، زندہ صرف وہ کردار تھے جو اسٹیج پر پرفارم کر رہے تھے، منٹو کے کردار، عہد ماضی کے متروک کردار، نصف صدی قبل کے کردار جو آج اچانک زندہ ہو گئے تھے، یا انھوں نے سامنے بیٹھے آج کے جیتے جاگتے کرداروں کو مرُدہ کر دیا تھا۔منٹو کے کردار تو احتجاج کرتے ہوئے زندگی کے متحرک کردار تھے مگر آج کے مسائل میں گھرے نامرد اور مردہ کردارہیں کہ جن کی رگوں میں زندگی کی کوئی رمق باتی نہیں رہی۔ خود کو مرُدوں کے درمیان میںبیٹھے پا کر اس کو بھی یوں لگنے لگا کہ اس کا بدن پتھر کا ہوتا جا رہا ہے اس نے اپنا دائیاں ہاتھ اٹھا نے کی کوشش کی، مگر اس کا ہاتھ نشست کے بازو پر ہی ٹکا رہا، اس نے پاؤں ہلا نے کی کوشش کی مگر تب تک شاید جسم کا نچلا حصہ پتھر کا ہو چکا تھا۔کہتے ہیں کہ موت پہلے بازؤوں اور ٹانگوں میں اترتی ہے اور پھر دل کی جانب بڑھتی جاتی ہے، دل کی دھڑکن تو بالکل آخر میں خاموش ہوتی ہے،اس سے پہلے آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔ اس نے ہاتھ بڑھا کراپنی دھڑکن کو ٹٹولنے کے بارے میں سوچا ،مگر موت ہاتھ اور بازو میں اتر چکی تھی۔
تھیٹر ختم ہوا، سب لوگ اپنی نشستوں سے اٹھے، بھر پور تالیاں بجا کرکامیابی سے کردار نبھانے والے فن کاروں کوداد دی اور پھر اپنی اپنی گاڑیوں کی جانب بڑھے مگر وہ ابھی تک اپنی نشست پر اسی طرح بیٹھا ہواتھا۔ ہال خالی ہو گیا، کسی کی اس پر نظر ہی نہیں پڑی ۔ اگلے دن جب صبح صفائی کا عملہ ہال میں داخل ہوا تو انہیں تمام نشستیں خالی ملیں، عہد موجود کے کسی لمحے میں تحلیل ہو کر وہ ماضی کا کوئی کردار بن چکا تھا۔ اسکی تلاش میں اب ہمیں شاید ماضی کے کرداروں میں جھانکناپڑے۔ ہو سکتا ہے اس کی شناخت ہو جائے اور ممکن ہے شناخت نہ بھی ہو کہ لمحوں میں تحلیل ہو کر بھیس بدل لینے والوں کی کوئی مستقل شناخت نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭