پروفیسر سید مشکور حسین یاد
سائنس اور ادب __ایک غلط فہمی کا ازالہ
نسٹ کے ادبی مجلہ''دی نسٹیئن'' پر پروفیسر سید مشکور حسین یاد کی ایک تحریر

کالجوں کے ادبی مجلّوں سے میرا جذباتی تعلق ہے۔ اسی لیے سائنسی تعلیم کے ایک ادارے کے ادبی مجلّے پر لکھنے کے لئے خود کو مجبور پاتا ہوں۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی المعروف نسٹ، کا ادبی مجلّہ ''نسٹیئن،، میرے سامنے ہے اور مَیں مسلسل حیران ہو رہا ہوں کہ سائنس کے طلبا ایسا وقیع ادبی مجلّہ نکال سکتے ہیں تو یہ جویار لوگوں نے اُڑا رکھی ہے کہ سائنس کا ادب سے تعلق برائے نام ہوتا ہے، اُس میں گہرائی اور گیرائی اور پہنائی نہیں، یہ سراسر جگ ہنسائی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ایک سائنسدان اس طرح خیالی پلائو نہیں پکا سکتا جس طرح ایک ادیب یا ادبی ذوق رکھنے والا شخص زمان و مکان کو اِدھر کا اُدھر اور اُدھر کا اِدھر کرتے ہوئے اپنا فن دکھا سکتا ہے۔ سائنس براہِ راست سامنے کے حقائق کو قابو میں رکھنا چاہتی ہے، اگر قابو نہ پایا جا سکے تو کم از کم اُنہیں اپنی نگاہ میں رکھتی ہے، لیکن ان تمام حقائق کے باوجود نیشنل یونیورسٹی آف سائنسزاینڈ ٹیکنالوجی کے ادبی مجلّہ میں وہ سب کچھ پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے جو ادب اپنے قاری کو مہیا کرتا ہے۔
بہت سے ادبی جرائد کو ہم پڑھتے ہیں لیکن اِن کا کچھ پتا نہیں چلتا، اور پتا چلتا بھی ہے تو اتنی جلدی سے نہیں جس قدرنسٹیئن کا۔ اس کا کوئی سا بھی صفحہ اپنے قاری کو بغیر پڑھے آگے نہیں جانے دیتا۔ جس طرح اِس پرچے کو مختلف حصوں میںتقسیم کیا گیا ہے، اُس سے یہ تقسیم ہونے کے بجائے مزید واحد ہو کر سامنے آیا ہے۔ ہر حصے کی نشاندہی کے لیے امتیازی ورق( سپریٹر ) پر علامہ اقبالؒ کا حسبِ حال شعر دیا گیا ہے۔ اس حصے کے موضوع کی عمدہ تصوراتی تخلیق اور ڈیزائننگ کمالِ فن کا لاجواب شاہکار ہیں۔ موزوںو برمحل اشعار کے انتخاب پر کتنی محنت کی ہو گی؟اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بے شک یہ پرچہ نسٹ کی علامہ اقبالؒ سے محبتوں کا عنوانِ جلی ہے۔
سب سے پہلے حمد کے حصہ_ الحمد للہ رب العالمین _ میں بالکل اچھوتی سوچ اور ادبی ذوق کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ایک ہی شاعر کی کئی حمدوں کو مجتمع کیا گیا ہے۔ ہر حمد، حمد و ثنا کے روایتی انداز سے بہت مختلف قسم کی حمد ہے۔ ان سے حمد و ثنا کے بہت سے پہلو ہمارے سامنے آ کر ہمارے قلب و نظر کو حکمت و عقیدت سے بہرہ یاب کرتے ہیں۔
پھر ذِکرِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ اس میں شاہ احمد رضا خاںؒ کا مشہور و معروف سلام بھی ہے جس کی ردِیف لاکھوں سلام ہے۔ یہی ایمان افروز سلام، جس کو ہم نجانے کتنی بار پہلے پڑھ چکے ہیں، ہر روز سنتے ہیں، مگر جب اِس مجلّہ میں پڑھتے ہیں تو ایک نیا لُطف آتا ہے۔ ذکرِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کر کے قاری خود کو قریۂ حُبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضائوں میں موجود پاتا ہے۔ چند سطور پڑھ لیجئے: ''نبی کریمؐ کی رحلت کے بعد حضرت بلالؓ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طلب فرمانے پر ملک شام سے مسجد نبویؐ میں پہنچے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ اورامام حسینؓ کے اصرار پر اذان دیتے ہوئے اشہدان محمد الرسول اللہ کہتے ہوئے بے ہوش ہو کر گر جاتے ہیں ۔ اذانِ بلال ؒ سُن کراہلِ مدینہ روتے دھوتے مسجدِ نبویؐ کی جانب لپکتے ہیں۔ ننھے منے بچوں کا بے حال مائوں سے پوچھنا کہ امی! بلالؓ تو آ گئے، رسول ؐاللہ بھی مدینے آ جائیں گے، پلکوں کو آنسو تھامنے کی قوت سے محروم کر دیتا ہے۔ اس طرح ''ایسی محبت_ اتنی محبت!''میں جانثارانِؓ رسولِ مقبولؐ کی آقاؐ سے وفائوں کے بے بدل، واقعات کی تفصیل روح کو نڈھال اورجسم وجاں کو یکدم توانا و بحال کر دیتی ہے کہ الحمد للہ!ہم وارث ہیں ان جذبوں کے!
مجلّے کو ترتیب دینے والوں نے اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریمؐ کے بعد اپنے وطن کو پیش پیش رکھا ہے۔اس حصے کا نام''تابندہ باد،، ہے۔ یہاں پاکستانیت کے پھول مہک رہے ہیں۔ دو قومی نظریے ، نظریۂ پاکستان، پاکستان، بانیانِ پاکستان، مسئلہ کشمیر، دفاعِ پاکستان اور ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لیے جو کچھ لکھا اور کہلوایا جا رہا ہے، نسٹیئن نے ہر لفظ کا شائستگی اور دلیل سے جواب دے کر لاجواب کیا۔ قائدِ اعظمؒ اور مشاہیرِ پاکستان کے حصے کا عنوان ''رُخِ آفتاب''ہے۔ رُخِ آ،فتاب میں قائدِ اعظمؒ کو سیکولر ہونے کی گالی دینے والوں کا مؤثر آپریشن کیا گیا ہے ۔ یہیں ہماری ملاقات راجہ تری دیو رائے سے ہوتی ہے:''متحدہ پاکستان کے آخری عام انتخابات میں جناب نور الامین کے علاوہ چٹا گانگ میں آباد چکما قبیلے کے سربراہ راجہ تری دیو رائے عوامی لیگ کے بھارت نژاد سیلاب کا منہ پھیر کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور جناب نورالامین کی طرح'' بنگلہ دیش نامنظور- پاکستان زندہ باد،، کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے راج گھاٹ چھوڑ کر پاکستان میں آبسے۔ بنگلہ دیش کو اقوامِ متحدہ کی رکنیت دلوانے کے لیے جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں صدرِ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے راجہ تری دیو رائے کو پاکستانی وفد کی قیادت اور پاکستان کی ترجمانی کا علم سونپا۔مجیب الرحمن نے بنگلہ دیشی وفد میں جواں سال راجہ کی معمر والدہ محترمہ کوشامل کیا۔ سرکاری طور پر پیش کش کی گئی کہ بنگلہ دیش چکما علاقے کی داخلی خود مختاری اور آپ کو اس کا جائز اور قانونی راجہ تسلیم کرے گا، آپ پاکستان کی وکالت نہ کریں۔ راجہ صاحب نے مختصرجواب دیا: ''مَیں پاکستانی ہوں''۔بھارت، نواز عالمی لابی کی ہر کوشش بنگلہ دیش کو رکنیت نہ دلوا سکی۔ فتح یاب راجہ چک لالہ ائیر پورٹ پر اُترے تو صدر ذوالفقار علی بھٹو جو اپنی پوری کابینہ کے ساتھ اس مردِ بے پناہ کے استقبال کے لیے موجود تھے، جھپٹ کر راجہ تری دیو رائے سے لپٹ گئے۔ محبِ وطن پاکستانی راجہ تری دیو رائے نے کہا: جنابِ صدر! بہت شکریہ اس اکرام کا،پذیرائی اور اہتمام کا۔ آپ نے شدید موسم میں تکلیف اٹھائی۔ میں نے جو کیا، وہ ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ میں یہیں جیوں گا، یہیں مروں گا۔،صدرِ پاکستان نے رُندھی آواز میں کہا: ''جو آپ نے کیا، وہ کوئی نہیں کر سکتا، آپ پاکستان کے سدا بہار مُحسن ہیں۔''،بعد ازاں راجہ تری دیو رائے نے لاتعداد ممالک میں پاکستان کی سفارتی ذمہ داریاں نبھائیں اور وہاں کبھی بھی بنگلہ دیشی سفارت خانے کی کسی بھی تقریب میں شرکت نہ کی۔ گزشتہ چند برس سے مستقلاً پاکستان میں مقیم تھے۔ پاکستان کو درپیش حالات سے دل گرفتہ رہنے لگے اور پاکستان میں جینے اور پاکستان میں مرنے کے عہد کو وفا کرتے ہوئے سترہ ستمبر ۲۰۱۲ء کو پاکستان کے ہنگامہ خیز دارالحکومت اسلام آباد کے ایک خاموش کونے میں سپردِ خاک ہو گئے!''
بات طویل ہو رہی ہے بس اتنا ہی پوچھوں گا کہ اس سچے پاکستانی کے لیے بھلاکتنا کچھ کہا یا لکھاگیا؟
حصہ نظم کے ساتھ ساتھ مقالوں اور افسانوں میں بھی کشمیر اور کشمیریوں کو تواناانداز میں یاد رکھا گیا ہے۔ ''بزمِ ادب،، کا آغاز حفیظ تائب کی نعت پر ایک بھرپور مقالے سے ہوتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کو ''پیامبرِ اُمید''کہہ کر عصرِ حاضر کے نومید نوجوانوں کو علامہؒ کی زبانی پیامِ زندگی دیا گیا ہے۔ علامہ اقبالؒ سے خواب میں ملاقات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حوالے سے مدیر کے سوالوں کا جواب علامہ اقبالؒ کے شعروں کی صورت میں درج ہے۔
قیامِ پاکستان اور دفاعِ پاکستان کے غازیوں اور شہیدوں کو پاکیزہ خراجِ عقیدت بھی شاملِ اشاعت ہے۔دنیا کے بلند ترین محاذِ جنگ_سیاچن_ پر سات اپریل ۲۰۱۲ ء کو ایک ہولناک برفانی پہاڑ نے پاک فوج کے ۱۴۰ مجاہدوں کو نگل لیا۔ اگلے ہی روزپاک فوج کے مردانِ دلیر بے رحم موسم اورخونخوار برفانی پہاڑ سے بھِڑ گئے اور شہیدوں کے جسدِ خاکی خونیں پہاڑ کے جبڑوں سے نکال لائے۔ ایثارو محبت کی بے مثل مہم جاری ہے! کتنی اور کس نوعیت کی قربانیاں دے کر ؟ محبتوں میں حساب کتاب ' جمع تفریق نہیں ہوتی! اس سلسلے میں نسٹیئن میں بڑی ہی پُرتاثیر تحریریں شامل ہیں۔ دفاعِ پاکستان کے حوالے سے نسٹیئن میں شامل پروفیسر مرزامحمد منور مرحوم کے ایک چشم کشا مضمون کی چند سطریں :''...اپنی کتاب Inside Story of Hinducracyمیں اجیت سنگھ ڈھلوں انکشاف کرتے ہیںکہ:ڈی پی دھراور پی این ہسکرنے سپین جا کر مسلمانوں کے عروج وزوال کے اسباب جمع کئے اور ان کے تجزیے کرتے رہے۔پھر انڈیا آفس لائبریری لندن میں خفیہ سروسز کے کاغذات چھان پھٹک کر پاکستان کی فوجی قوت کو محدود کرنے کی تدابیر سوچیں۔ ان کی مرتب کردہ طویل رپورٹ کے مندرجہ ذیل نکات اب بھی بھارت کی ہر حکومت کی سرکاری پالیسی کا حصہ ہیں: (۱) حُبِ پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کے جسم و جان سے نکال لی جائے۔ اس کے لئے پاکستان کی جہاد مخالف، قوتوں،خصوصاً مسلمانوں کے آخری نبی (حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نبوت کے دعویدار کو ماننے والے گروہ کو مضبوط کیا جائے، آگے بڑھایا جائے اورکام میں لایا جائے۔ (۲) پاکستان کے اندر بھارت سے دوستی کی تحریک اور بھارتی ثقافت کو فروغ دینے والے پاکستانیوںکا ایک ایسا ٹولہ تیار کیا جائے جو اثر و رسوخ کا حامل ہو۔ (۳) پاکستان کے اندر پاکستانیوں پر مشتمل افواج مخالف لابی قائم اورمستحکم کی جائے جو دفاعِ پاکستان کے لئے مخصوص کیے جانے والے وسائل کے خلاف مسلسل پراپیگنڈہ اور ہنگامہ آرائی کرتی رہے اور اپنی افواج کے خلاف نفرت پھیلا کر افواج کو شہریوں کی محبت سے محروم کرنے میں کوشاں رہے....''
اس کے بعد کے عنوانات بھی اپنے موضوع و مضامین کے اعتبار سے خُوب لُطف اندوز ہونے سے تعلق رکھتے ہیں۔ رشکِ چمن، بدلتے رنگ، بیانِ فطرت، شعلۂ آواز، موتی مالا، گفتارِ شیریں اور جہانِ نَو وغیرہ وغیرہ۔ افسانے پڑھئے تو پتا چلتا ہے کہ مجلّہ ترتیب دینے والوں نے باقاعدہ پڑھ کر اِن کو منتخب کیا یا باضابطہ درخواست کر کے لکھوایا ہے۔ یہ ادب برائے ادب نہیں، ادب برائے زندگی کی تفسیر ہیں_ پاکستانیت اور حُبّ ِ وطن سے لبالب تحریریں افسانوی انداز میں راہِ راست دکھارہی ہیں نوجوانوں کو۔ آخر میں ''انتظاریہ''، ہے' اس میں وہ تحریریں شامل ہیں جو جریدے کے دورانِ اشاعت موصول ہوئیں اور پھر ان کی افادیت کے پیشِ نظر اس میں شامل کیا گیا ۔
شعر و ادب پر سائنس اور آرٹس کے طلبہ کے مالکانہ استحقاق یا حقِ وراثت کا مقدمہ برس ہا برس سے ادبی پنچائتوں میں زیرِ سماعت ہے۔مَیں نسٹیئن کی زیرِ نظرمِثل کے بغور مطالعہ سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جیسے عشق کسی کی میراث نہیں، شعر و ادب بھی صرف آرٹس کے طلبا کا موروثی یا خاندانی ورثہ یا جائیداد نہیں۔ مجھے نسٹیئن کی کسی نثری تحریر یا شعری تخلیق میں کوئی جھول نظر نہیں آیا۔ ''جہانِ نو''میں سات صفحات پر مشتمل طلبا کے پسندیدہ اشعار میں سے کوئی ایک بھی وزن اور اخلاق سے گِرا ہُوانہ پایا گیا ۔ قابلِ ستائش پہلو یہ کہ ہر شعر بلند پایہ ہے' اور اس کے ساتھ ساتھ حق بحق دار رسید کا خصوصی اہتمام یعنی شعر کے ساتھ حقیقی شاعرہی کا نام درج ہے۔
اس کے خصوصی تذکرے کا ایک دلچسپ پس منظر ہے۔ مشرقی علوم کے ایک بہت بڑے ادارے کے سالانہ مشاعرے میں مہمان شعرا میں فیض صاحب بھی شامل تھے۔ ایم اے فائنل کی ایک طالبہ نے اُن سے عرض کیا:'' جنابِ محترم ! بمہربانی اپنی وہ مہدی حسن والی غزل عطا فرمائیے۔ وہی پُھولوں میں رنگ بھرے اور پتہ نہیں کونسی بہار چلے والی''۔ صاحبزادی کا اشارہ فیض صاحب کی ایک مشہور غزل جسے مہدی حسن نے گایا تھا، کے اس شعر کی جانب تھا:
گُلوں میں رنگ بھرے بادِنَو بہار چلے
چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے
اس پس منظر میں نسٹ کے طالب علم واقعتًا شاباش کے حق دار ہیں۔
ایک محفل میں کچھ احباب نے ، ہائر ایجوکیشن کمشن HEC) (کے بارے میں کہا کہ وہ نسٹ کو اس کے حق سے زیادہ فنڈز فراہم کرتا ہے۔ اب جو نسٹیئن کے آ ئینے میں دیکھا تو قرار آیا کہ یہاں صرف ادبی مجلّے، تحقیقی جرنل، ہوشربا ریسرچ، نصابی و ہم نصابی سرگرمیاں ہی نہیں، ہر تفویض شدہ مشن خونِ جگر دے کر پایۂ تکمیل کو پہنچایا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نسٹ میں آئے۔ اس سے پہلے بوسنیا اور مصر کے سربراہانِ مملکت کو نسٹ نے اعزازی ڈگریاں دیں۔ جب کہ اس سے پرانی یونیورسٹی بھی اسلام آباد ہی میںعلم و فضل کی روشنی پھیلا رہی ہے۔جدید سائنسی تعلیم و تحقیق کے حوالے سے ہر ماہ ایک آدھ بین الاقوامی کانفرنس نسٹ میں برپا ہوتی ہے، جس میں صدرِ پاکستان یا وزیرِ اعظم پاکستان اوردیگر بلند پایہ ملکی وغیر ملکی شخصیات بھی شریک ہوتی ہیں۔ فیصلہ سازوں نے یہ فیصلے یہ حقیقت سامنے رکھ کر کیے کہ نسٹ میں ہر کام سلیقے ، قرینے اور بہتر طریقے سے کیا جاتا ہے۔
اس طرح کی سب ادائیں نسٹیئن کے بارے میں یہ رائے قائم کرنے میں مدد دیتی ہیں کہ اس کے تمام جلوے، حرف اور نقطے اسلام، پاکستان ، علامہ اقبالؒ، قائدِ اعظمؒ، کشمیر، دفاعِ وطن اور ملک و قوم کو درپیش اندرونی مسائل اور بیرونی سازشوں جیسے معاملات پر جرأت مندانہ انداز میں ملّی مؤقف کا اعلامیہ، اظہاریہ اور بیانیہ ہیں۔ پاکستان کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے والوں کی خوب خوب خبر لی گئی ،مگر حقائق اور تاریخی حوالوں سے۔ اس اقدام کی ضرورت پہلے کبھی اتنی زیادہ نہ تھی جتنی آج ہے، نسٹیئن نے یہ حق ادا کر دیا۔ یوں یہ صرف ادبی نہیں، ملّی افکار کا مستقل نوعیت کا ترجمان ہے۔
اتنے بامقصد مواد ، جاذبِ نظر لے آئوٹ، خوش کُن تزئین، انتہائی عمدہ پرنٹنگ اوربے عیب پروڈکشن کے لیے درکار وسائل کی فراخدلانہ فراہمی سے متعدد امتیازات جیسے مالا مال نسٹیئن کو جدید ترین سائنسی علوم کی تعلیم میں مسلسل آگے بڑھنے والی یونیورسٹی نسٹ کو تعلیمی اداروں کے ادبی مجلّوں کے معیار کے وکٹری سٹینڈ پر بھی بلند مقام پر لا کھڑا کیا ہے، ریکٹر نسٹ انجینئر محمد اصغر اس کے لئے لائقِ مبارک با دہیں۔ کیا ہی اچھا ہو دوسرے تعلیمی ادارے بھی اپنے طلبہ کو اسلام و پاکستان سے محبت کو جزوِ ایمان بنانے اور برملا اظہار کرنے کے لئے اسی معیار کے مجلّوں کی ترتیب و اشاعت کو یقینی بنائیں۔