نصرت جاوید
سچ تو یہ ہے کہ
سچ تو یہ ہے کہ میں بیگم نصرت بھٹو کو بہت سالوں سے بھول چکا تھا۔ کل جب ایک دوست نے دوبئی سے فون کر کے خبر بتائی تو کچھ دیر سکتہ طاری رہا۔مگر اس وقت سے اب تک تصویریں اور آوازیں ایک ہجوم کی صورت ذہن میں ابھرتی چلی آرہی ہیں۔ سب سے پہلی تصویر اس وقت کی ہے جب وہ لاہور آئیں ۔ ایوب خان کا زمانہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو گرفتار تھے۔ ۔ہم چند لڑکے بالے جو ایوب خان کے خلاف جلوس نکال کر پولیس کو لاٹھی چارج پر اکسانے کی ہر ممکن کوشش کیا کرتے تھے ۔ بڑی پریشان حالت میں کسی ’’ہیرو ‘‘ کے متلاشی تھے۔ ان کے آنے نے حوصلہ دیا اور ہم متحدہ حزب اختلاف کے جلوسوں میں،جسے اسلامی جمعیت والے ’’ اپنا‘‘ بنالیا کرتے تھے، نیلا گنبد کے ارد گرد کی گلیوں سے نکل کر گھس جایا کرتے تھے۔ ’’ بھٹو کو رہا کرو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے۔ ذاتی تعارف ان سے بہت سالوں بعد ۱۹۷۸ء کے آخری مہینوں میں ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت بھی گرفتار تھے اور میں ایک طالب علم جیالا نہیں رہا تھا۔ بڑی محنت سے کوشش کر رہا تھاکہ صحافت میں کوئی جگہ مل جائے ۔ آغا مرتضی پویا کو انگریزی روزنامہ نکالنے کی اجازت نہیں ں مل رہی تھی۔ انہوں نے اردو کاایک ہفت روزہ نکال لیا۔ مجھے اس میں نوکری مل گئی ۔ میں نے بیگم صاحبہ سے انٹرویو مانگ لیا۔ اسلام آباد کے واحد پنج ستاری ہوٹل کی کافی شاپ میں وہ ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ انٹرویو سے پہلے بہت اصرار سے انہوں نے دوپہر کے کھانے کا کہا اور تین سے چار مرتبہ سر زنش کی کہ کھانا کم لیا ہے۔ ایک بار اس بات پر بھی ڈانٹا کہ نیپکن پر سالن کیو ں گرایا ۔ کانٹے سے چمچ میں کتنا نوالہ ڈالنا چاہیے ،اس کا عملی مظاہرہ کیا اور سخت گیر استانی کی طرح مجھے اپنی ہدایات پر عمل کرنے کی نگرانی بھی کی۔
پھر انٹرویو شروع ہوا۔ اِدھر اُدھر کے سوالوں کے بعد میں ایران میں چلنے والی تحریک پر آگیا۔ افغانستان میں نور محمد ترہ کئی کا لایا انقلاب بھی زیر بحث آیا۔ بیگم صاحبہ نے دونوں سوالوں کو نظر انداز کرنا چاہا۔ اس وعدے کے ساتھ کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے اگلی ملاقات میں ان دونوں واقعات کے بارے میں پوچھ کر ہی رائے کا اظہار کریں گی۔ ان کی رائے کو چھاپنے یا نہ چھاپنے کا فیصلہ بھی وہ خود کریں گے۔ ‘‘ بیگم صاحبہ کی ذاتی رائے البتہ یہ تھی کہ شہنشاہ ایران اپنی اوقات سے زیادہ اڑان لینا شروع ہو گیا ہے۔ شاید عالمی طاقتیں گڑ بڑ پھیلا کر اسے کنٹرول کرنا چاہتی ہیں۔ مگر یہ ان کی ذاتی رائے تھی۔’’ پتہ نہیں صاحب کا کیا خیال ہے۔‘‘ یہ بات کہنے کے بعد وہ گھبرا گئیں۔
انہیں ڈر لگا کہ ان کاانٹرویو کرنے والا ایک بچہ سا صحافی جو نیپکن پر سالن گرا دیتا ہے ،ایران میں جاری تحریک کے بارے میں ان کی ذاتی رائے شائع نہ کر دے ۔ ’’ میں غلط ہوئی تو صاحب ناراض ہو جائیں گے۔ ‘‘ بڑی بے بسی سے انہوں نے کہا۔ ویسے بھی ان کے انٹرویو کا مقصد دینا اور خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہ نماؤں کو یہ بتا نا تھا کہ ضیاء الحق ہر صورت میں ذوالفقار علی بھٹو کو مارے گا۔ انہیں بہت افسوس تھا کہ پارٹی کے عام کارکن تو شاید یہ بات سمجھ نہیں سکتے ۔ مگر اچھے خاصے تجربہ کار لیڈروں کو کیا ہو گیا۔ ،وہ کیوں اس تاثر کو پھیلا رہے ہیں کہ بہت سے عرب سربراہوں کے دباؤ پر ضیا ء الحق بھٹو کو پھانسی دینے سے باز رہے گا۔ ہر دوسرے لمحے وہ بھی بہت غصے اور کبھی بہت بے بسی سے ایک ہی فقرہ کہتیں ۔’’ ضیاء صاحب کو نہیں چھوڑے گا۔ کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا۔ ‘‘ میں نے انٹرویو لکھا تو اسی پہلو کو اجا گر کیا۔
ان کی ایران میں جاری تحریک کے بارے میں ذاتی رائے بھی نہ لکھی ۔ ان کے’’صاحب‘‘ نے انٹرویو دیکھا تو بیگم صاحبہ کو سیاسی طور پر ’’ اتنا میچور ‘‘ انٹرویو دینے پر شاباش دی۔ دی شاباش نے مجھے بیگم صاحبہ کا چہیتا بنا دیا۔ ان کے لیے سب سے کڑا دن وہ ہوتا تھا جب وہ ہفتے میں ایک مخصوص دن کچھ گھنٹوں کے لیے اپنے ’’ صاحب ‘‘ سے ملنے جاتیں ۔۔ جیل سے آنے کے بعد وہ کسی سے بات نہ کرتیں ۔ ڈاکٹر ظفر نیازی کے گھر ایک کمرے میں خود کو بند کر لیتیں ۔
میرے انٹرویو سے ملنے والی شاباش کے بعد انہوں نے معمول بدل لیا۔ جیل سے واپسی پر وہ مجھے کار میں بٹھا لیتیں ۔ ان دنوں ان کے استعمال میں شیخ زائد کی دی ہوئی جیگو کار تھی۔ وہ اسلام آباد کی اداس اور طویل سڑکوں پر دوڑتی کار کے ڈرائیور کو حکم دیتیں کہ ان کے تعاقب میں سرگرداں موٹر سائیکل والوں کو ’’گم ‘‘ کر دیا جائے ۔ ڈرائیور تو جیسے اشارے کا منتظر ہوتا۔ پل بھر میں تیزی سے بہت سارے موڑ کاٹتا اور موٹر سائیکل والوں کو ’’گم ‘‘ کر دیتا ۔ وہ شرارتی بچوں کی طرح کھل کھلا اٹھتیں ۔ چند ہی لمحوں بعد ان کا فوکس صرف ایک ہوی موضوع پر ہوتا۔ ’’ صاحب کی صحت گر رہی ہے۔ آج انہوں نے وہ سینڈوچز بھی نہیں چکھے جو میں نے خود بنائے تھے اور انہیں کبھی بہت پسند بھی تھے۔ ان کے مسوڑھے سیاہ ہو گئے ہیں۔ وزن تیزی سے کم ہورہا۔ انہیں یقین ہے کہ ضیاء الحق انہیں پھانسی لگائے گا مگر پاکستان پیپلز پارٹی کے صف اول کے رہ نما نہیں سمجھ رہے۔ حتیٰ کہ پارٹی کا ترجمان روز نامہ ’’مساوات‘‘ بھی صفحہ اول پر بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ یہ تاثر دینے میں مصروف ہے کہ ساری عالمی برادری اور اس کے صف اول کے راہ نما بھٹو صاحب کی جاں بخشی کروانے کو اکٹھے ہو چکے ہیں۔
بالآخر وہی ہوا جس کا بیگم صاحبہ کو خوف تھا ۔ ایک دوست کی طرف سے دی گئی ٹکٹ پر میں کراچی ان سے افسوس کرنے گیا۔ بجائے میرا افسوس لینے کے بعد وہ اس بات پر پریشان ہو گئیں کہ میں اب بے روزگار ہو چکا ہوں۔ ایک صحافی کو انہوں نے کسی طرح لاکھوں روپے دلوائے تھے ۔ ان پیسوں سے وہ ایک انگریزی اخبار نکالنا چاہ رہی تھیں۔ کسی نہ کسی طرح ایک ڈیکلریشن بھی لے لیا گیا تھا۔ مگر وہ صحافی ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ کراچی کے ایک مہنگے ہوٹل میں فیملی سویٹ لے کر رہ رہا تھا مگر ان سے افسوس کرنے بھی نہیں گیا تھا ’’اسے ڈھونڈو ۔ کسی نہ کسی طرح مجھ سے ملواؤ اور پھر ہم وہ اخبار شروع کریں گے ۔ ‘‘ ان کے حکم پر کچھ مہربانوں کے ہاں رہتے ہوئے میں نے وہ صحافی توڈھونڈ لیا مگر اس نے لچھے دار باتوں سے مجھے قائل کر دیا کہ فی الوقت اس کا بیگم صاحبہ سے ملنا مناسب نہیں ۔ بہتر ہے انتظار کیا جائے اور کچھ دن بعد چپکے سے وہ اخبار نکال لیا جائے۔ ضیا ء الحق اور اس کے سراغ رسانوں کو یہ جاننے میں بہت دیر لگے گی کہ اس اخبار کا اصل مالک کون ہے ۔میں بے وقوف قائل ہو گیا۔ بیگم صاحبہ سے ملا۔ انہوں نے مجھے میری بے وقوفی پر شدید ڈانٹا مگر پھر اداس ہو گئیں ۔ تھوڑی دیر بعد کرید کرید کر پوچھا کہ میں بے روزگاری میں گزارا کیسے کر رہا ہوں۔ میں نے بڑے اعتماد سے جھوٹ بولتے ہوئے انہیں قائل کر دیا کہ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ صحافت تو میں شوقیہ کرتا ہوں۔ یہ میرا ذریعہ روزگار نہیں ہے۔
حقیقت مگر یہ تھی کہ میں کراچی میں مختلف لوگوں کی میزبانی اٹھاتے اٹھاتے شرمندہ ہو چکا تھا ۔ ایک دن ان سے اجازت لے کر اسلام اباد واپس آگیا۔ اس دلیل کے ساتھ کہ میرا وہاں غیر ملکی اخبار نویسوں سے رابطہ ضروری ہے۔ انہوں نے کھانا کھلائے بغیر جانے کی اجازت نہ دی۔
پھر ایم آر ڈی بنی ۔ وہ نظر بند ہو گئیں۔ میں ۱۹۸۲ء کے شروع میں لندن چلا گیا ۔ ڈاکٹر ظفر نیازی ان دنوں وہاں جلا وطنی بھگتا رہے تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنے چھوٹے سے فلیٹ میں بلو ایا اور آنکھوں میں تیرتے آنسوؤں کے ساتھ اطلاع دی کہ بیگم صاحبہ کو پھیپھڑوں میں کینسر کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے مگر ضیا ء الحق ان کو تشخیص اور علاج کے لیے غیر ملک آنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ یورپی اور سب سے بڑھ کر کچھ طاقتور امریکی سینٹروں کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ ضیا ء الحق پر دباؤ ڈالیں ۔ اس مقصد کے لیے وہ امریکہ جانا چاہ رہے تھے مگر لندن میں امریکی سفارتخانے نے ویزا ہی نہ دیا۔
پکا ڈلی سرکس کے پاس ایک گلی کی خستہ عمارت کی تیسری منزل پر انہوں نے ایک چھوٹا سا کمرہ لیا وہاں ادھر ادھر سے دو ٹائپ رائٹر حاصل کیے اور دنیا بھرکے تمام مشہور صحافیوں اور رہنماؤں کو چٹھیاں لکھنا شروع کردیں۔ انہیں ٹائپ کرنا نہ آتا تھا ۔ میں ٹائپ کرتا وہ چپڑاسیوں کی طرح لفافوں میں ڈال کر ان پر ٹکٹیں لگاتے ۔ صبح دس بجے سے تین چار بجے تک یہ عمل جاری رہتا ۔ پھر ہم دونوں کچھ کھاتے اور اپنے اپنے ٹھکانوں پر چلے جاتے۔ ان دنوں لندن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بہت سارے رہ نما اور سینکڑوں جیالے جلا وطن ہوئے بیٹھے تھے۔ کسی ایک نے بھی کچھ مدد نہ کی۔ بہت سارے تو بلکہ یہ دعویٰ بھی کرتے کہ ڈاکٹر ظفر نیازی کو شیخ زید اور کرنل قذافی نے بیگم بھٹو کے لیے مہم چلانے کے لیے لاکھوں ڈالر دیے ہیں۔ ’’بڈھا ‘‘ مگر کنجوسی کر رہا رہے اور بیگم بھٹو اور محترمہ بے نظیر کو ان کے بارے میں غلط سلط باتیں بھی پہنچا تا رہتا ہے۔
مہینوں کی جدو جہد کے بعد بالآخر ڈاکٹر ظفر نیازی فرانس کے اس وقت کے صدر سے مل پائے۔ اس نے ریگن کے ساتھ فون پر طویل بات کی اور ضیاء الحق بیگم نصرت بھٹو کو بیرون ملک بھیجنے پر رضامند ہو گیا۔ مگر بیگم صاحبہ کے پاکستان سے روانہ ہوتے ہی میں اپنے وطن واپس آگیا۔ کچھ اس ڈر سے بھی کہ اگر میں ان سے ملا تو زندگی بھر کے لیے ’’سیاسی ‘‘ ہو جاؤں گا ۔ مجھے تو صحافی بننا ہے۔
اس وقت سے اب تک میں صحافی ہی رہا ہوں اور اس حیثیت میں بیگم صاحبہ سے متعلق بہت سارے واقعات کا شاہد بھی۔ یہ سب مگر دکھوں کی ایک طویل داستان ہے جسے لکھنے کے لیے ایک ماہر مرثیہ نگار کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس)