کتاب میلہ
جہانگیر اردو لغت(جامع ترین)
ہر ذی روح کسی نہ کسی طرح اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتا ہے۔ انسان کے لیے یہ عمل ایک فطری تقاضا ہی نہیں بلکہ سماجی ضرورت بھی ہے۔ زبان انسان کے احساسات و خیالات کی ترجمانی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اسی طرح زبان کی نشوونما اور لغت سازی محض ایک علمی ضرورت ہی نہیں بلکہ تہذیبی اور سماجی ضرورت بھی ہے۔
ہر بولی بہت سے تخلیقی مراحل سے گزر کر زبان کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ سماجی ضروریات، رسوم ورواج، اختراعات و ایجادات اور نئے اندازِ فکر کی بدولت ذخیرۂ الفاظ اور اسالیب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جب کسی زبان میں ایک معقول نثری اور شعری سرمایہ جمع ہو جاتا ہے تو فرہنگوں اور لغات کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
ڈاکٹر رؤف پاریکھ اُردو لغت نویسی کو تین مراحل میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلامرحلہ وہ ہے جب اردو کے الفاظ اور محاورات اپنی اصل شکل یا ذرا مختلف شکل میں برِ صغیر میں لکھی جانے والی فارسی کتابوں یا لغات میں شامل ہو رہے تھے۔دوسرا مرحلہ وہ ہے جب اردو اور فارسی کی آمیزش کے بعد اردو اپنی علیحدہ ادبی زبان کی شکل میں ظاہر ہونے لگی۔اس دور میں وہ فرہنگیں اور تعلیمی نصاب سامنے آیا جن میں فارسی اور اردو استعمال ہوتی تھیں۔ ان نصابوں کا مقصد بچوں کو عربی اور فارسی الفاظ کے اردو مترادفات سے واقف کرانا تھا۔یہ تعلیمی نصاب یا منظوم لغات اردو لغت نویسی کا دوسرا مرحلہ ہیں۔ خالق باری کے بعد اسی طرح کے لغاتی نصاب ناموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ تیرہویں صدی ہجری میں تقریباً تمام موضوعات پر مشتمل نصاب نامے لکھے گئے۔ مثلاً خالق باری اکرم، صفت باری، اللہ باری وغیرہ۔ ان لغات ناموں کی تالیف کا سلسلہ تقریباً بیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک رہا۔ ایسے نصاب نامے بھی تالیف ہوئے جن کا مقصد تدریسی یا نصابی نہیں تھا۔
تیسرا مرحلہ ملّا عبدالواسع ہانسوی کی ’’غرائب اللغات‘‘ سے شروع ہوا۔ بلکہ یہاں سے اردو لغت نویسی کا باقائدہ آغاز ہوا۔ یہ اردو--فارسی لغت ہے۔پھر غرائب اللغات کو سراج الدین علی خان آرزوؔ نے تصحیح و ترمیم کے بعد ’’نوادر الالفاظ (۱۷۵۰ء)کے نام سے مرتب کیا۔ ۱۸۳۳ء میں مولوی محمد مہدی واصفؔ کی دلیل ساطع فارسی -- اردو لغت سامنے آئی۔ ۱۸۳۷ء میں مولوی اوحد الدین بلگرامی نے نفائس اللغات مدوّن کی۔ اس میں اندراجی لفظ اردو میں ہے اور تشریح فارسی میں ہے اور ان کے عربی اور فارسی مترادفات بھی دیے گئے ہیں۔
راقم کی رائے میں ’’اردو لغت (تاریخی اصول پر)‘‘ کو اردو لغت نگاری کے چوتھے دور سے موسوم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ اردو کی پہلی لغت ہے جس میں اندراجی الفاظ کی وضاحت کے لیے تشریحی جملہ موجود ہے، ہر لفظ کے لیے تین ادوار سے مثالیں پیش کی گئیں، اسناد پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، وغیرہ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ کام ایک ادارے کے سپرد ہے جو اس خاص شعبے سے وابستہ بیسیوں افراد کی خدمات حاصل کر رہا ہے اور ایک واضح نظام وضع کیا گیا ہے۔
اس وقت جہانگیراُردو لغت (جامع ترین) پیش نظر ہے۔ اس کے مؤلف جناب وصی اللہ کھوکھر صاحب ہیں، جن کا خصوصی میدان لسانی مباحث، ترجمہ اور لغت نویسی ہے۔ کوئی بھی لغت مرتب کرتے وقت پرانی لغات پر انحصار کرنے سے مفر نہیں۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ مرتب کی نظر زبان کا حصہ بننے والے نئے الفاظ ، تراکیب اور محاوروں پر بھی ، نیز یہ کہ وہ اہم کتابوں کے ذخیرہ الفاظ کو بھی استعمال میں لائے۔ وارث سر ھندی کی لغت کے بعد، جسے شائع ہوئے کم وبیش پینتیس (۳۵) برس ہو چلے ہیں، یہ لغت اس معیار پر پورا اترتی دکھائی دیتی ہے اور یہی چیز اسے قبول عام بخشے گی۔
لغت کی نمایاں خصوصیات حسب ذیل ہیں :
O
یہ اردو زبان کا پہلا لغت ہے جس میں مروجہ اعراب کو استعمال میں لا کر ملفوظی طریقہ سے تلفظ کا اندراج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے تلفظ کو بہتر طور سے بیان کیا جا سکتا ہے۔دوسرا یہ کہ علامات تلفظ کے لیے شان الحق حقی کی ’’فرہنگ تلفظ‘‘ کو فوقیت دی گئی ہے۔
O
یہ لغت صرف Advance Learner سطح کی لغت نہیں بلکہ کوشش کی گئی ہے کہ کلاسیکی ادب کا مطالعہ کرتے وقت بھی یہ لغت کار آمد ہو۔ اس لیے ممکنہ حد تک دریائے لطافت، طلسم ہوش ربا، فسانۂ آزاد، بوستان خیال وغیرہ جیسی فرھنگوں کو بھی اس لغت میں سمو دیا گیاہے۔ اس کے علاوہ ڈنکن فوربس، پلیٹس، فالن کی لغات سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے۔
O
محاورات و ضرب الامثال کو اندراجی لفظ کے تحت لایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد، علامہ محمد اقبال، میر امن دہلوی، مشتاق احمد یوسفی، وغیرہم جیسے مصنفین کے ذخیرۂ الفاظ کا احاطہ کیا گیا ہے۔
O
نئے الفاظ، تراکیب، محاورات کو لغت میں متعارف کروایا ہے۔لغت نگار کا کام الفاظ وضع کرنا نہیں بلکہ رائج الفاظ کو لغت کا حصہ بنانا ہے۔ تاہم اس کی دور بین نگاہوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بول چال میں شامل ہونے والے نئے الفاظ و تراکیب کو بھی جگہ دے گا، تاہم اُن کے مستقبل کا فیصلہ وقت ہی کرئے گا۔ اس پہلو سے بھی یہ لغت معیار پر پورا اترتی ہے، مثلاً’دہشت گرد ، شدت پسند‘، ’سستی شہرت‘، آزاد خیال‘، ’توپ چیز‘ ، ’جگاڑ‘، ’ٹوچن‘، ’کالی بھیڑ‘، ’لفٹ کرانا‘، خانہ پُری کرنا‘، ٹھرک جھاڑنا‘، ’پنگا لینا‘، کھڈے لائن لگانا‘ جیسے محاورات و تراکیب شاملِ لغت ہیں۔
O
لغت کا ایک اختصاص یہ بھی ہے کہ یہ پہلا لغت ہے جس میں مقتدر�ۂ قومی زبان کی طے کردہ حروفِ تہجی کی معیاری ترتیب کوپیش نظر رکھا گیا ہے۔ لغت نگار کو بہت پھونک پھونک کر قدم رکھناپڑتا ہے۔ ہمارے ہاں لغت سازی کیونکہ افراد نہ کہ اداروں کی مرہونِ منت ہے اس لیے بہت سے معاملات میں معیار قائم نہیں رہ سکتا، مثلاً کچھ لغات نے الف ممدودہ (آ) کو پہلے ہجے کے طور پر لیا ہے اور کچھ نے الف مقصورہ (ا) کو۔ اسی طرح ہائے ہوز (ہ) اور ہائے مخلوط (ھ) کے مسائل ہیں۔ لیکن اس لغت میں پہلی مرتبہ کئی معاملات میں مقتدرۂ قومی زبان کے طے کردہ اصولوں کو فوقیت دی گئی ہے، نیز بہت سی کشاف اور فرھنگوں کو شاملِ لغت کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں فاضل مرتب نے اپنے مقدمہ میں اس بات کی وضاحت کی ہے :
’’
کمپیوٹر‘‘ میں بنائے جانے والے کوائفیہ (database) میں چھانٹ کاری (sorting) کسی نہ کسی اصول کی بنیاد پر کی جاتی ہے جس میں حروف تہجی کی ترتیب بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ، جب کمپیوٹر کے ماہرین نے اردہ کا ذخیرۂ الفاظ تیار کرنے کی کوشش کی یا کسی قسم کی ’عمل کاری‘ کا آغاز کیا تو انھیں اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا کہ اگر ’’باپ، بہن، بھنگی، بیٹا، بھابھی اور بہنگی‘‘ کی طرح کے الفاظ ہی لے لیے جائیں جو کہ صرف ’’ب‘‘ کی تختی سے ہیں تو فیروز اللغات (جامع) اور فرہنگ آصفیہ وغیرہ میں درج حروف کی ترتیب کے لحاظ سے ان کی چھانٹ ’’باپ، بھابی، بہن، بھنگی، بہنگی اور بیٹا ‘‘ کی ترتیب سے ہو گی اور اگر انہی الفاظ کو فرہنگ تلفظ یا اردو لغت بورڈ کی لغت کی ترتیب سے دیکھا جائے تو یہ الفاظ ’’باپ، بہن، بہنگی، بیٹا، بھابھی اور بھنگی‘‘ کی ترتیب سے آئیں گے اور اگر آپ مزید جدید و قدیم لغات کو بھی اس میں شامل کرلیں تو معاملہ پیچیدہ تر ہوتا چلا جائے گا۔ اس پیچیدگی کا حل کمپیوٹر والوں کے لیے ناگزیر تھا۔ اس لیے مقتدرہ قومی زبان نے اپنے ۲۶ جنوری ۲۰۰۴ء کے اجلاس میں اردو حروف تہجی کی ترتیب اور تعداد کو حتمی شکل دے دی۔ ۔۔۔ لغت نویس کے لیے حروفِ تہجی کی ترتیب بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد پر لغت سے الفاظ کی تلاش کی جاتی ہے۔ کیونکہ موجودہ دور اور آنے والے وقت میں کمپیوٹر کا کسی بھی زبان کی اشاعت و ترویج میں بہت عمل دخل ہے اور ہو گا، چونکہ مقتدرہ قومی زبان کے طے کردہ حروفِ تہجی کی ترتیب اور تعداد کمپیوٹر سافٹ ویئرز میں شامل کی جا چکی ہے ۔۔۔اسی لیے میں نے مقتدرہ قومی زبان کی ہی طے کردہ ترتیب اور تعداد کو ہی پیش نظر رکھتے ہوئے لغت میں الفاظ درج کیے ہیں۔ ‘‘
لغت بڑے سائز میں تقریباً ۱۶۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس سے قبل کہ کوئی حادثہ ہو،تجویز ہے کہ اگلی طباعت میں اسے دو جِلدوں میں تقسیم کر دیا جائے اور پروف خوانی کے معیار کو بھی بہتر کیا جائے کیونکہ حوالہ جاتی کتب میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسی عمدہ لغت کی بروقت اشاعت پر فاضل مرتب وصی اللہ کھوکھر صاحب اور ناشر ہماری مبارک باد کے مستحق ہیں۔
۔۔۔ راؤ صفدر رشید
Our Lady of Alice Bhatti
دُنیا کے بہت کم ادیبوں کو یہ اعزاز حاصل ہے جنھوں نے بہت کم لکھا مگر معیاری لکھا۔ ایسے تخلیق کاروں میں محمد حنیف کا نام اس حوالے سے معتبر ہے کہ ان کے پہلے ناول " "A Case of Exploding Mangoesنے قارئین کو نہ صرف اپنی جانب متوجہ کیا بلکہ اس ناول کو دُنیائے ادب کی عالمی نگارشات میں بھی شمار کیا گیا۔بگرپرائز اور گارڈین فرسٹ بک ایوارڈ کے علاوہ دولت مشترکہ کے فرسٹ بک ایوارڈ کے لیے بھی اس ناول کا انتخاب کیا گیا۔
ان کے حالیہ ناول "Our Lady of Alice Bhatti"کی کہانی سادہ ہے لیکن اس کی مختلف فنکارانہ جہتوں نے اسے ممتاز بنا دیا ہے۔ناول میں ہمارے معاشرے کے سلگتے زخموں کی انتہائی خوبصورتی سے عکاسی کی گئی ہے ۔اس ناول میں نہ تو کرداروں کی بھر مار ہے اور نہ ہی اسے مرصع و مسجع الفاظ سے سجایا گیا ہے ۔
ناول نگار نے کراچی شہر کی موجودہ صورت حال کواپنے اس فن پارے کے ذریعے اجا گر کرنے کی کوشش کی ہے۔بے شک اس ناول کی کہانی دو مختلف پس منظر رکھنے والے افراد کی باہمی محبت کے جذبے کوپیش کرتی ہے لیکن اس کے تانے بانے اس شہر کے درودیوار سے جڑے ہوئے ہیں۔کراچی کے ماضی اور حال کا تقابل اور ناول کے کرداروں کے پیشوں کی نہایت چابک دستی کے ساتھ تصویرکشی کی گئی ہے۔ اس شہر میں مختلف علاقوں، زبانوں اور عقیدے سے تعلق رکھنے لوگ آبا د تھے لیکن مٹھی بھر لوگوں نے اسے اپنے ذاتی مفادات کے لیے کبھی مذہبی اور کبھی لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنا شروع کردیا اور آج نہ تو صبر و برداشت ہے اور نہ ہی انصاف اور کوئی قانون۔ اکثریت کا یہ دعوٰی ہے کہ ملک کو صرف ان کے عقیدے کے نفاذ کے لیے تشکیل دے دیا گیا تھا ۔ جس سے اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی راہ ہموار ہوتی ہے۔کیونکہ قومی پرچم کا رنگ اس بات کا گواہ ہے کہ اس ملک میں اقلیتوں کے حقو ق کا بھی خیا ل رکھا جائے گاجو یہاں صدیوں سے آباد ہیں۔ ناول کے مرکزی کردار ایلس بھٹی کا باپ جوزف بھٹی اس حقیقت سے پردہ اٹھاتا دکھائی دیتا ہے۔
معاشرے کے مختلف طبقات نے اس شہر کوایک میدان جنگ بنا رکھاہے اور ہر جگہ خوف، دہشت اور موت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ چند ایک مجرموں کو گرفتار کیا جاتا ہے ، انھیں سزا دی جاتی ہے ، اخبارات میں ان کی شہ سرخیاں دی جا تی ہیں اور پھر وہ منظر سے غائب ہو جاتے ہیں۔ایک ہولناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔پولیس کا ملازم ٹیڈی بٹ ایک ایسا جیتا جاگتا کردار ہے جو تمام فورس کی استعداد اور اہلیت کا پول کھول دیتاہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ناول کے دیگر کرداروں کے ذریعے یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان مخدوش حالات کے باوجود اس شہر کے باسی اپنے پیاروں کی خد مت میں کیسے لگے ہوئے ہیں ۔
ملک کے مجموعی اور شہر کے معروضی حالات ، سرکاری مشینری کی کارکردگی اور معاشرتی ماحول کے حوالے سے یہ سمجھایا گیا ہے کہ آج ہم جن حالات سے پریشان ہیں ، ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم سب لوگ اپنے مذاہب کے دیئے ہوئے انسانیت اور اخلاقیات کے آفاقی درس کو بھلا چکے ہیں اور اپنی ذات کے دائرے تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
ترجمہ و تلخیص : نذرحسین کاظمی
فلسفۂ تاریخ ،نوآبادیات اور جمہوریت
اشفاق سلیم مرزا ہمارے عہد کے ایک اہم دانشور ہیں۔ انھوں نے اپنی فلسفیانہ سوچ کی بنیاد مارکسی نظریات پر استوار کی ہے ۔ اس سلسلے میں ان کے کئی مضامین انگریزی اور اردو اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’فلسفہ تاریخ ،نوآبادیات اور جمہوریت ‘‘انھی منتخب مضامین کا مجموعہ ہے۔ ’’سانجھ پبلیکیشن لاہور‘‘ نے اسے شائع کیا ہے ۔ جسے انھو ں نے ’’چند نامکمل مباحث ‘‘کہا ہے ۔ ان مضامین میں انھوں نے کھل کر سماج ،معاشرے اور مسلط کردہ جبر پر اپنے نظریات کا اظہار کیا ہے ۔جہاں کہیں انھیں اپنے مارکسی نظریات کے کسی پہلو سے اختلاف ہے وہ بھی بلا جھجھک سامنے لانے کی کوشش کی ہے ۔جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے ’’ تاریخ، نوآبادیات اور جمہوریت ‘‘ کے پیدا کردہ پیچیدہ مسائل اور ان سے پھوٹنے والے معاشی جبر کے خلاف یہ آواز ہے جو اشفاق سلیم مرزا کے دل کی بھی آرزو ہے۔ تحریر رواں اور موضوع انتہائی سنجیدہ ہونے کے باوجود دلچسپ بھی ہے۔ گیارہ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں انھوں نے پاکستان کے اندر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی قوتوں کی جد وجہد کے ساتھ ساتھ ان کے فلسفے اور نظریات پیش کیے ہیں ۔ریاست میں آمریت سے جنم لینے والے نام نہاد استحصالی طبقے اس کتاب کا موضوع ہیں۔ بحر حال یہ کتاب ایک اہم دستاویز ہے جسے اہل دانش کا پڑھنا بہت ضروری ہے ۔
۔۔۔ علی اکبر ناطق
اُردو ادب میں نسائی تنقید (روایت ، مسائل ومباحث (
نسائی تنقید مطالعے کا ایک اہم رخ ہوتے ہوئے بھی اُردوادب میں اتنی ہی غیر واضح ہے جتنی روایتی معاشرے میں عورت کی شناخت۔ یہ شناخت اُسی وقت واضح ہوسکتی ہے جب عورت کو اُس کے شعور وآگہی کے ساتھ پہچانا جائے۔ نسائی شعور جس پر نسائی تنقید کی بنیاد ہے اب نامانوس اصطلاح نہیں رہی لیکن اُردو میں اس موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر عظمیٰ فرمان فاروقی کا مقالہ ’’اُردو ادب میں نسائی تنقید ‘‘ اگرچہ تعارفی نوعیت کا ہے تاہم موضوع کا مکمل احاطہ کر رہا ہے۔ اس کا کتابی شکل میں شائع ہونا اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ ادب کے قارئین خصوصاً طلبہ کو اس موضوع سے شناسائی حاصل ہوسکے۔ کتاب میں موضوع کا تعارف، ادوار ، تحریکوں اور مختلف مدرسہ ہائے فکر (School of Thoughts) کو واضح کیا گیا ہے۔ خصوصاً مغرب میں فمینزم کے آغاز اور ادوار کو جامعیت سے پیش کیا گیا ہے۔
اُردو میں نسائی تنقید وادب پر باقاعدہ کام فہمیدہ ریاض کے ’’وعدہ کتاب گھر ‘‘ سے شائع ہونے والی چار کتابیں ہیں۔ جن کے حوالے ڈاکٹر عظمیٰ نے دئیے ہیں۔ بھارت میں ڈاکٹرعظمیٰ کی معاصر ڈاکٹر شہناز نبی کا بھی ایک کتابچہ ’’ تانیثی تنقید‘‘ کے عنوان سے گزشتہ سال شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر شہناز نبی کلکتہ یونیورسٹی میں اُردو کی پروفیسر ہیں۔ ان دو ہم عصر اور ہم پیشہ خواتین کا بیک وقت نسائی تنقید پر توجہ دینا اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ اُردو میں اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم نسائی تنقید پر نصابی ضرورتوں اور تعارفی مراحل سے آگے بڑھ کر کام کرنا چاہیے۔ کتاب کی پشت پر ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے جن کاعصری ادب کا مطالعہ بہت وقیع ہے اپنی رائے میں بجا طور پر ژولیا کرسٹوا کا حوالہ دیا ہے اور یہ لکھنے میں حق بجانب ہے۔ ’’ اُردو ادب کی نسائی تنقید جولیا کرسٹوا کے انداز کی تنقید نہیں بن سکی۔‘‘بلا شبہ کراسٹوا نے نسائی تنقید کی حیاتیاتی سطح سے بلند کر کے فلسفیانہ سطح تک پہنچایا ہے، وہ اس سلسلے میں معاصر نسائی تنقید پر بھی تنقید کرتی ہے ، اس طرح نسائی شعور کو اعلیٰ مقام پر دیکھتی ہے جہاں فکر کی جہتیں انسانی گروہ کو تقسیم در تقسیم اور تصورِ وقت کی حدوں تک جاتی ہے۔ ان کی رائے بہت اہم ہے ۔
اُردو ادب میں نسائی تنقید کو مباحث اور تحریکوں سے وا بستہ ایسا حوالہ بنانا ضروری ہے جو ہمارے عہدکی رو سے ہم آہنگ ہو اور مطالعے کے اس در کو وا کرتا ہو جو عرصے سے بند ہے۔ جس کے پیچھے خواتین کی تحریر کورکھ کر یا تو بھول جایا جاتا ہے یا ’’خواتین کی طرف سے خواتین کے لیے‘‘ کی مہر لگا دی جاتی ہے۔ اگرچہ کسی عہد کامطالعہ کو اُس عہد کے تمام لکھنے والوں کی تحریر کے تنقیدی مطالعے کے بغیر ادُھورا ہوتا ہے تاہم زاہد خاتون شروانیہ (زخ ش ۱۹۲۲ء۔۱۹۸۴ء) جیسی باشعور شاعرہ وادیبہ اپنے ہم عصروں ، حالی ، شبلی ، آزاد ، اقبال ، جوش وغیرہ کے درمیان نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر عظمیٰ نے نسائی تنقید پر یہ کتاب لکھ کر اور خصوصاً اس موضوع کی جانب جو قدم بڑھایا ہے اس کے تعاقب میں سفر جاری رہنا چاہیے ۔نسائی تنقید و ادب پر تعلیمی اور تحقیقی اداروں کو بھی توجہ دینی چاہیے۔ اس ضمن میں ایک اور بات کہ ایسے تحقیقی مقالوں میں اب تک کیے جانے والے تمام کام اور مطبوعہ کتابوں کے حوالے ہونے چاہیے تاکہ دوسرے لکھنے والوں کو مدد ملتی رہے۔ ذرا سی تحقیق سے موضوع سے متعلق دستیاب کتابوں کا پتہ مل سکتا ہے۔
۔۔۔ڈاکٹر فاطمہ حسن
دیوانِ حافظ
یوں تو حافظ کے کلام کے اردو میں کئی ترجمے ہو چکے تھے جونثر میں تھے۔ یہ خواجہ حافظ کے کلام کا اوّلین منظوم اردو ترجمہ ہے۔
فارسی زبان کی جو جامعیت ہے اس کو اردو میں منتقل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ فارسی شعر اور خاص کر غزل کے شعر کے حسن اور اس کی روح کو گرفت میں لانا پانی کو مٹھی میں پکڑنے والی بات ہے۔ یہ کام مولوی احتشام الدین حقّی دہلوی نے انجام دیا اور بہ احسنِ وجوہ انجام دیا ہے۔ اردو تو ان کی گھٹی میں پڑی تھی اور وہ بھی دہلی کی اردو، پھر فارسی ان کے دور کی علمی زبان تھی ہی۔ مترجم کے ان دونوں زبانوں پر عبور اور فنِ شعر میں ان کی مہارت اور دیدہ وری نے غضب کا چمتکار کر دکھایا۔ اردو ترجمے میں اصل کا حسن جلوہ گر ہو گیا ہے۔ حافظ کی سرمستی اور سرشاری کو اردو میں منتقل کرنا کوئی کھیل نہ تھا لیکن یہ معجزہ حقی صاحب کے ہاتھوں سرانجام پایا۔ ہر غزل کا ترجمہ اسی کی بحر اور عموماً اسی کے قافیے کے التزام کے ساتھ کیا ہے۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ؂
معجزے ہو ہی جاتے ہیں اے دوست
ہم فقیروں کا دم غنیمت ہے
۔۔۔ مضطر مجاز
میرے نام کے آگے’ ’نواب زادہ‘‘ کا ناجائز بدنما دھبا لگا ہوا ہے۔ اگر میں خود نواب نہیں تو کیوں کر اپنے باپ کی نوابی سے اپنے آپ کو مشہور کروں۔ آج صبح اٹھتے ہی کسی بورڈ نویس کو دکان سے گھسیٹ کر لایا اور کہا جلدی اس نواب زادہ کے منحوس دھبے سے مجھے دھو ڈالو۔ تین بکس تھے سب کو صاف کروا کر صرف اپنا نام اصل لکھوا دیا اور مگسی کا لفظ بھی کھدوا ڈالا۔ صرف بلوچ لکھوایا۔ مجھے تو سچ اگر پوچھیں تو مسلمان اور بلوچ بس یہ لفظ ہی پیارے لگتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر’’ انسان‘‘ (۴۵،۴۶)
’’
معلوم ہو گیا کہ گورنمنٹ مجھے سرِدست سردار دیکھنا نہیں چاہتی۔ میں نے بجائے اس کے کہ ایک معزول شدہ سردار کہلاتا اور گورنمنٹ کی خدمت میں آہ وزاری کے بعد اس سے بھی مایوسی کا جواب پاتا۔ خود بیزاری کا اظہار کرنا شروع کیا۔
ایک طویل مستقبل سامنے ہے۔ سرمایہ ختم اور ہمت بے تجربہ۔ کبھی تجارت کا سوچتا ہوں مگر تجربہ ندارد۔ اتنے پیسے باقی نہیں رہے کہ گھر بیٹھ کر کھاتا جاؤں۔ ملازمت کے لیے جس تعلیم کی ضرورت ہے وہ میسر نہیں‘‘۔
’ ’
سات سمندر پار کا ایک بوزنہ نما انسان زمامِ قلات کے گھوڑے کو تھامے سرپٹ محو جولانی ہے اور ہم پاپیادہ بے زاد راہ ہیں‘‘ (ص ۸۶ (
’’
کوشش میں ہوں کہ بلوچستان کے اندر کوئٹہ جھل ، سبی، نوشکی اور مستونگ میں کسانوں اور مزدوروں کی ایک یونین بن جائے جس کے محاصل اور بٹائیوں کی ظالمانہ لوٹ کو معتدل درجے پر لانے کے لیے سرمایہ داروں سے اپنے حقوق حاصل کرنا اور مزدور کے لیے جن میں ریلوے کی تعمیر کے ہر قسم کے مزدور ہوں اجرت کے نرخ اور اوقات کام کو مناسب سطح پر لانا ہو۔
اگر بدقسمتی سے قدرت نے مجھے مہلت نہ دی اور میرا خیال میرے دل کے اندر رہ گیا تو میں اس محبت کے نام پر جو آپ کو اس ناچیز بھائی کے ساتھ ہے درخواست کروں گا کہ پھر آپ کوہی کو اس شیطانی لعنت کے خلاف کام کرنا ہوگا۔
ہمیں اصلاحات کونسل ، گورنری ، صوبہ کیا فائدہ دیں گے۔ علاوہ اس کے غیر ملکی سرمایہ داروں کی جگہ ملکی سرمایہ دار لیں۔ پچانوے فیصدی بلوچستان کی غریب آبادی کے لیے تو سو راج تب ہوگا جب وہ اس لوٹ سے بچیں گے۔ (۷۵،۷۶ (
’’
اپنی کافریت کی تردید لاحاصل، فضول اپنی بے ریشی اور اسی وجہ سے صف اسلام سے اخراج کے الزام پر بھی سرافگند گی ۔‘‘ (۹۳ (
)
مکاتیب یوسف عزیز مگسی ، مرتبہ ڈاکٹر انعام الحق کوثر (
مجلسِ ترقی ادب، لاہور، جون ۱۹۷۸ء۔