گوشۂ منشا یاد
منشا یاد کی یاد میں مقتدرہ کے زیر اہتمام ہونے
والے تعزیتی جلسے میں پڑھے گئے مضامین
ڈاکٹر رشید امجد
محمد منشا یاد : چند یادیں چند باتیں
منشا یاد کے ساتھ میری پہلی ملاقات ۱۹۵۶ء میں ہوئی ۔ وہ اس وقت افسانے لکھ رہے تھے اور ان کے افسانے چھپ بھی رہے تھے مجھے معلوم نہیں تھا کہ افسانہ کیا ہوتا ہے ؟ ہماری دوستی فلمیں دیکھنے، اکٹھے کھانا کھانے اور گپ شپ لگانے تک تھی۔ منشا افسانہ لکھتے تو سب سے پہلے مجھے سناتے میں بہتیرا بھاگنے کی کوشش کرتا لیکن وہ اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک افسانہ سنا نہ لیتے۔ دو باتوں کا چسکا مجھے منشا نے ڈالا ایک افسانہ اور دوسرا موسیقی، انہیں لکھنے کے ساتھ ساتھ جنون کی حد تک موسیقی سے لگا ؤ تھا ،خصوصا لتا تو ان کی کمزوری تھی۔ پہلی کو جونہی انہیں تنخواہ ملتی بھا گے بھاگے میرے گھر آتے، میں ان دنوں کشمیری بازار میں رہتا تھا۔ ہم راجہ بازار آتے وہ ریکارڈ جنہیں ہم توا کہتے تھے خریدتے ،پھر یہ ریکارڈ جب تک مجھے سنوا نہ لیتے ،انہیں چین نہ آتا ۔ پھر ان کا تبادلہ مری ہو گیا اور تقریبا تین سال میری ان کی ملاقات نہ ہوئی۔ ساٹھ کی دہائی میں جب وہ واپس پنڈی آئے اور اب و ہ سی ڈی اے میں آگئے تھے تو میری ان کی ملاقات بزم میر کے جلسے میں ہوئی۔ میں نے اس نشست میں افسانہ پڑھنا تھا۔ وہ حیران رہ گئے اور بولے یار یہ تم ہی ہو میں نے کہا ’’میں ہی ہوں ‘‘
اب وہ اسلام آباد میں ر ہ رہے تھے لیکن ہر شام باقاعدگی سے پنڈی آتے ہماری شب عروسی میں ساتھ ہوتے اور اکثر واپس جاتے جاتے رات کے بارہ بج جاتے۔
میری امی میرے دوستوں کو پسند نہیں کرتی تھیں لیکن دو شخص ایسے تھے جنہیں وہ میری ہی طرح پیار کرتی تھیں۔ یہ اعجاز راہی اور منشا یاد تھے۔ ان دونوں سے میرے ملنے پر انہیں کبھی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ اعجاز راہی تو ان دنوں ایک کمرے میں رہتا تھا،البتہ میں اکثر اسلام آباد آکر منشا کے گھر رہ جاتا تھا۔ ہوتا یو ں کہ ہفتے کی شام میں ان کے پاس آتا، اس زمانے میں آخری ویگن رات دس بجے آب پارہ سے چلتی تھی ساڑھے نو ہوتے تو میں منشا سے کہتا اب یار مجھے سٹاپ پر چھوڑ آؤ ساڑھے نو ہو گئے ہیں وہ کہتے بس ابھی چلتے ہیں ایک گیت اور سن لو پونے دس ہوتے تو میں کہتا ’’اٹھو بھئی ورنہ ویگن نکل جائے گی‘‘ وہ کہتے ہمارے پہنچتے پہنچتے نکل ہی گئی ہو گی اب آرام سے بیٹھو میں کبھی رات بھر رک جاتا ورنہ یو ں ہوتا کہ گیارہ بارہ بجے وہ اپنے سکوٹر پر مجھے کمیٹی چوک چھوڑنے آتے۔ اس وقت ہُو کا عالم ہوتا اور اسلام آباد ہائی وے پر ہمارے سکوٹر کے سوا دُور دُور تک کوئی دکھائی نہ دیتا ۔ کمیٹی چوک میں بھی ہم دیر تک کھڑے باتیں کرتے رہتے۔
منشا یاد جتنے اچھے افسانہ نگار تھے اس سے کہیں زیادہ اچھے انسان بھی تھے۔
نفاست رکھ رکھاؤ اور ملنساری ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ افسانہ نگاری کے حوالے سے ہمارے درمیان کچھ اختلافات بھی تھے کہ منشا اپنی طرز کے لکھنے والے تھے اور میرا اپنا ایک انداز تھا ۔ لیکن ہم نے اسے کبھی اختلافی مسئلہ نہیں بنایا ۔آگے پیچھے کے لکھنے والوں کے حوالے سے کبھی ان کا افسانہ پہلے اور کبھی میرا افسانہ پہلے چھپ جاتا تو دوسرے بہت سے لکھنے والوں کی طرح ہم اسے موضوع نہ بناتے ۔ ہمارے درمیان ایک خاموش معاہدہ تھا کہ ایک دوسرے کی غیر حاضری میں زمانے کے دستور کے مطابق ہم ایک دوسرے کے بارے میں اختلافی گفتگو کر لیتے لیکن جب ملتے تو جان لینے کے باوجود اس کا ذکر نہ کرتے ۔ مجھے نہیں یاد کہ ان پچاس سالوں میں میرے اور ان کے درمیان کبھی تلخی ہوئی ہو۔ جب بھی ملتے اسی خلوص او ر محبت کے ساتھ ۔