غزل
تری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں
میں نے ایک اور بھی محفل میں انھیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں
یہ بہ ہر لحظہ نئی دُھن پہ تھرکتے ہوئے لوگ
کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں
تیرا احسان کہ جانے گئے، پہچانے گئے
اب کسی اور کے کیا ہوں گے یہ جب تیرے نہیں
دربدر ہو کے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے
وہ ترے خانماں برباد بھی اب تیرے نہیں
اب گلہ کیا کہ ہوا ہوگئے سب حلقہ بگوش
میں نہ کہتا تھا کہ یہ سہل طلب تیرے نہیں
ہو نہ ہو دل پہ کوئی بوجھ ہے بھاری ورنہ
بات کہنے کے یہ انداز یہ ڈھب تیرے نہیں
۔۔۔ افتخار عارف

غزل
للہ الحمد کہ پھر شکر کے قابل ہوا میں
خود کو دیکھا جو نظر بھر کے تو کامل ہوا میں
جسم ہی جسم تھا لذت میں نہایا ہوا جسم
ہجر کی آگ سے گزرا ہمہ تن دل ہوا میں
کبھی میں سارے زمانے کو میسر آیا
کبھی یوں بھی ہوا، خود کو بھی نہ حاصل ہوا میں
پہلے بپھرے ہوئے گرداب سے کشتی باندھی
پھر اسی موجِ بلاخیز کا ساحل ہوا میں
علَم و خلعت و شمشیر کی بَر آئی مراد
دن نکلنے کو تھا جب شہر میں داخل ہوا میں
فتح رہوار کے قدموں سے لپٹتی ہوئی آئی
دل کی تائید پہ دشمن کے مقابل ہوا میں
روشنی میرے تعاقب میں رہی ساری عمر
عمر بھر خاک کی نسبت سے نہ غافل ہوا میں
میں نے اک سلسلۂ نور میں بیعت کی تھی
حلقۂ نُور میں پابندِ سلاسل ہُوا میں
۔۔۔ افتخار عارف
غزل
رفتہ رفتہ ختم قصہ ہوگیا، ہونا ہی تھا
وہ بھی آخر میرے جیسا ہوگیا، ہونا ہی تھا

دشت امکاں میں یہ میرا مشغلہ بھی خوب ہے
روزن دیوار چہرہ ہوگیا، ہونا ہی تھا

ڈوبتا سورج تمھاری یاد واپس کر گیا
شام آئی، زخم تازہ ہو گیا، ہونا ہی تھا

عہد ضبط غم پہ قائم تھا دم رخصت مگر
وہ سکوت جاں بھی دریا ہو گیا، ہونا ہی تھا

اب تو ہی یہ فاصلہ طے کر سکے تو کر بھی لے
میں تو خود اپنا ہی زینہ ہو گیا، ہونا ہی تھا

میں نے بھی پرچھائیوں کے شہر کی پھر راہ لی
اور وہ بھی اپنے گھر کا ہو گیا، ہونا ہی تھا
۔۔۔ اشعر نجمی

غزل
سکوت شب کے ہاتھوں سونپ کر واپس بلاتا ہے
میری آوارگی کو میرا گھر واپس بلاتا ہے

میں جب بھی دائروں کو توڑ کر باہر نکلتا ہوں
ہوا کے ناتواں جھونکے کا ڈر واپس بلاتا ہے

اسی کے حکم پر اس کو میں تنہا چھوڑ آیا تھا
خدا جانے مجھے وہ کیوں مگر واپس بلاتا ہے

اشارے کر رہا ہے دوریوں کا کھولتا ساگر
مجھے ہر شام اک اندھا سفر واپس بلاتا ہے

وہ جن کی ہجرتوں کے آج بھی کچھ داغ روشن ہیں
انھی بچھڑے پرندوں کو شجر واپس بلاتا ہے

سلگتی ساعتوں کا خوف اب کمزور ہے شاید
وہی سہما ہوا دست ہنر واپس بلاتا ہے
۔۔۔ اشعر نجمی
غزل
ڈھیروں پڑا ہے کام کیّا کچھ نہیں ابھی
عمر گزشت و رفت ہوا کچھ نہیں ابھی

عرصے کو ملنے آیا ہوں اتنے تپاک سے
پوچھو گے تب بھی تم سے گلا کچھ نہیں ابھی

درویش کو پڑی ہے تمھارے جہان کی
یہ اور بات میں نے کہا کچھ نہیں ابھی

موجیں سمندروں کی حدوں سے گزر گئیں
ہم جانتے ہیں پھر بھی گیا کچھ نہیں ابھی

اک آتشیں پہاڑ کے نیچے اماں کدہ
خوش ہیں تمام لوگ جلا کچھ نہیں ابھی

ان کو ترے قتیل سخن سے ملائیے
جن کی سماعتوں پہ کھلا کچھ نہیں ابھی
۔۔۔ رفعت اقبال

غزل
جسم و جاں سے پرے اس جہاں سے پرے ایک زرناب ہے قریۂ خواب ہے
وادیِ جبر میں خطۂ صبر میں اجر کا باب ہے قریۂ خواب ہے

بخت ویران ہے جو بھی عنوان ہے ایک بے چہرگی سب کی پہچان ہے
اجنبی شہر میں ہجر کی لہر میں بزمِ احباب ہے قریۂ خواب ہے

بے اماں بے یقین بستیوں کے مکیں گرد کے جانشیں
ان کے پیشِ نظر شام ہے بے سحر فخرِ انساب ہے قریۂ خواب ہے

بوجھ یادوں کا لادے ہوئے سارباں دل میں آنے لگے کارواں کارواں
شب کی آغوش میں حسن ہے جوش میں روئے مہتاب ہے قریۂ حواب ہے

زندگی کا سفر راہ سے بے خبر درد کی دھوپ ہے تابہ حدِ نظر
رنج و آلام ہیں بس یہی کام ہیں ربِّ اسباب ہے قریۂ خواب ہے

کس نے لمحوں کے جگنو کیے قید میں کس نے کرنوں کو پلّو میں باندھا کبھی
موج دریائے دل جو گھڑی دو گھڑی آج پایاب ہے قریۂ خواب ہے

کون ہے آشنائے معانی یہاں میں چکھاؤں کسے شعر کے ذائقے
آبروئے سخن خسرو خوش بیاں شعرکی آب ہے قریۂ خواب ہے
۔۔۔ فضل احمد خسرو

غزل
روئی کے گالے سے دھاگے کا سفر میرا ہی تھا
اور مٹی سے بنا چھوٹا سا گھر میرا ہی تھا

دھان کے کھیتوں میں میری انگلیوں کا لمس ہے
دانے کو کھانا بنانے کا ہنر میرا ہی تھا

پیڑ پودوں اور بچوں اور بزرگوں کی خوشی
سائے کی خاطر لگایا ہر شجر میرا ہی تھا
جس کے آنگن کو سجایا خواب سے اور پھول سے
خوشبوؤں کی راہ میں کُھلتا وہ در میرا ہی تھا

جس جگہ نفرت نہ ہو اور ظلم کی طاقت نہ ہو
خواب کی سرحد تلک پھیلا نگر میرا ہی تھا

گود میں میری جنم لیتی رہی ہے زندگی
زندگی کو زندگی کرنا ہنر میرا ہی تھا
۔۔۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن

غزل
جب بڑھا قد سے مرا سایہ مجھے ڈسنے لگا
عرصۂ ماضی کا ہر لمحہ مجھے ڈسنے لگا

سلسلہ در سلسلہ پھیلی ہیں یوں تنہائیاں
اب خیالِ یار جو آیا مجھے ڈسنے لگا

دھوپ دیواروں سے اُتری جب تھکن کو اوڑھ کر
ذات کا پھیلا ہوا صحرا مجھے ڈسنے لگا

منفعت کی داستاں کے ہم سبھی کردار ہیں
عصرِ بے چہرہ کا یہ چہرہ مجھے ڈسنے لگا

عدل کی زنجیر کو پگھلا دیا کس نے صفی
پھر مزاجِ دہر کا لہجہ مجھے ڈسنے لگا
۔۔۔ افضل صفی
***


شجر
کیکر تیرے پھول بھی کانٹے
کانٹے تیرا لباس
آئے بسنت بہار تو تیرے پھول ہنسیں بن باس
تیز جھلستی دوپہر میں
جوگیوں والا رنگ پہن کر
ریگستان کی تختی پر
تو لکھتا ہے اپنی پیاس
پیاس کی پیداوار ہے تو
تیرے سر پر دھوپ کی شال
صبر ترے تن پر کچھ ایسے کسا ہوا ہے
دیمک لگے ہوئے پنجر پر
مڑھی ہو جیسے
سناٹے کی کھال
کیکر
جنم جلی تیری چھاؤں
جس کی کوکھ سے ہر ساون میں
پھوٹیں نئے سراب
جن کو دیکھ کے چھلک پڑیں
آنکھوں سے کھارے خواب
۔۔۔ ایوب خاور

میری بیٹی چلنا سیکھ گئی
میری بیٹی انگلی چھوڑ کے
چلنا سیکھ گئی
سنگ میل پہ ہندسوں کی پہچان سے آگے
آتے جاتے رستوں کے ہر نام سے آگے
پڑھنا سیکھ گئی
جلتی بجھتی روشنیوں اور رنگوں کی ترتیب
سفر کی سمتوں اور گاڑی کے پہیوں میں
الجھی راہوں پر
آگے بڑھنا سیکھ گئی
میری بیٹی دنیا کے نقشے میں
اپنی مرضی کے
رنگوں کو بھرنا سیکھ گئی
۔۔۔فاطمہ حسن

میں پانی سے مخاطب ہوں
میرے اندر صبر کا تکیہ، میرے اندر خواب
میرے اندر باغ عُنابی، سینے میں تیزاب
میرے اندر مہر مہینہ، نیلا تا مہتاب
ہروں جیسا، نہروں جیسا، تُند، گھنا سیلاب
تند گھنا سیلاب ، جو آنکھیں، ابرو لیتا جائے
جُھکی ہوئی جُھریائی کمریں، گھبرو لیتا جائے
کُوڑھی یہ سیلاب بہائے کومل کومل خواب
برساتوں کا رہن بسیرا، خُنک تُنک گرداب
یہ کوڑھی سیلاب،لہو کی عُسرت سے بیزار
سینوں پر تلوار چلائے، دُکھ کا ٹھیکے دار
ٹیڑھے پاؤں، بہتے گاؤں، پانی کی دیوار
اتنا غصہ کا ہے پانی؛ کھیت مرے صحرائی !
شہروں شہروں، ملکوں ملکوں، ہاتھوں کی رُسوائی !
اتنا غصہ کا ہے پانی، نرم زمیں کی چھاتی
نرم روی سے بھی آئے تو یہ باہیں پھیلاتی
اتنا غصہ کا ہے پانی، نرم ہیں میرے دھان !
اتنا غصہ کا ہے بھائی !مشکل ہو گزران
اتنے تیز نہ چکر کاٹو، پُل ہیں میرے بوڑھے
اندر سوکھے پتوں جیسا، باہر کے رنگ گُوڑے
صدیوں کی تحقیر ہے تیری ، تیز روی میں بھّیا
اتنا ظلم روا نہ رکھے، سمے کا بیری پہیہ
بوڑھوں کی دستاریں ہوں یا سنتوں کی تہمند
تیرے آگے ترچھے آنسو کیسے باندھیں بند
دیکھو ہم نے گھر، گلیارے ، نذر تری کر ڈالے
ملک مرا اندھیر سرائے، شہر مرے مٹیالے
۔۔۔عامر سہیل

مشاطّہ
تمہارا یہ کہا کرنا
کہ میری زندگی چڑیا کے جیسی ہے
شجر کی شاخ پر صاحب نشیمن ایستادہ ہے
جہاں آندھی کا ڈر بھی ہے
نشیمن کیا ہے خاروخس کا مسکن ہے
ممولے تنکا تنکا نوچ کھاتے ہیں
یہ کیسا گھونسلا ہے جو ہوا کے ایک ہچکولے سے گر کر ٹوٹ جاتا ہے
کہا جاتا ہے چڑیا ڈر کے اُڑتی ہے
تمھیں ایسا نہیں کرنا !
تمھیں پرواز کی اس آخری حد کو بھی چھونا ہے
اُفق سے ہم جسے تعبیر کرتے ہیں
کہ تم آزاد رَو ہو
اور آزادی کا خط یہ تم کو فطرت سے ممیز ہے
بھلے تم خوبصورت ہو، اک عورت ہو
اور اس خالق کی صناعی کا مظہر ہو
جبلت میں وہی شانِ غنا تم کو میسر ہے
جسے آزاد کا قشقہ کہا جائے
تم عورت ہو سنورنا تم کو زیبا ہے
مگر تم آئینے سے بھی گریزاں ہو
کوئی مشاطہ کیا تم کو سنوارے گی
کہ تم مشاطگی کے اس ہنر سے خوب واقف ہو
تمہارا یہ کہا کرنا کہ میری زندگی چڑیا کے جیسی ہے
سنو تم خود کو کیوں دھوکے میں رکھتی ہو !
۔۔۔شوکت مہدی

کلیسا
ایک کلیسا ،جس کی بھیڑیں اس کا رستا بھول گئیں
تنہا اک ویرانے میں وہ سرد ہو اسے ٹھٹھر گیا
کالی رات میں برف کے گالے من کا بوجھ بڑھاتے ہیں
سکڑ گئے ہیں پت جھڑ رت سے دھند میں لپٹے لال ستون
کھڑ کھڑ باجتے پیلے پتے دوڑتے ہیں دالانوں میں
لمحہ لمحہ گھیر رہی ہے سانولے سالوں کی دیوار
شام ڈھلے میں پرسا دیتے کانپتے بوڑھے زرد چنار
ایک کلیسا ،جلی نہ جس میں چھ صدیوں سے اک قندیل
خواب ہوئے بپتسما والے اور یو حنا کی انجیل
دیواروں کو توڑ کے نکلے لمبی داڑھیوں والے پیڑ
خشک صلیبوں پر لٹکی ہے وقت کی ٹھنڈی کہنہ لاش
ٹوٹ گئیں سب کڑیاں چھت کی ،بکھر گئے فانوسی ہار
صبح کی گھنٹی کھانس رہی ہے نیند میں شاموں کے ناقوس
ایک اداس کلیسا جس کو گھیر لیا اندھیاروں نے
کوئی حواری آگ جلانے اب نہ یہاں پر آئے گا
مریم گود میں نور لیے پھر کس کا رستہ دیکھتی ہے؟
۔۔۔ علی اکبر ناطق