آپ بیتی میری خود کشی کی
عزیز نہ سن
ترجمہ : کرنل ) ر ( مسعود اختر شیخ
کچھ عرصہ ہوا میں ایک نہایت خطرناک موذی مرض میں مبتلا ہوا تھا۔ بیماری کے ہاتھوں تنگ آ کر پہلی مرتبہ میرے ذہن میں خود کشی کا خیال آیا۔ میری سب سے پہلی خود کشی کچھ اس طرح واقع ہوئی۔
میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ ’’اے عاشق مزاج مریض ، بتا تجھے کس قسم کی موت کا شوق ہے؟ پستول ٹھیک رہے گا یا چاقو؟ سمندر یا ٹرین کے پہیے؟ زہریا۔۔۔ ‘‘
دل نے جواب دیا: ’’میاں، موت تو ایک ہی دفعہ آنی ہے۔ موت کی آغوش میں جانے کے لیے کوئی آزمودہ شاہی طریقہ کیوں نہیں اختیار کرتے؟ ‘‘
چنانچہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ جس طرح تاریخ میں کئی بڑی بڑی ہستیاں شاہی محلوں کے نرم و گداز مخملیں بستروں پر لیٹ کر زہر پی کر زندگی کی مصیبتوں سے نجات حاصل کر لیا کرتی تھیں، میں بھی اسی طرح زہر کھا کر خود کشی کر لوں گا۔ گھر میں مخملیں بستر نہ سہی، اینٹوں کا فرش تو ہے۔
یہ فیصلہ کرتے ہی سیدھا بازار پہنچا۔ ایک نہایت مہلک قسم کا زہر خریدا۔ گھر آ کر اندر سے کمرہ بند کر لیا۔ پھر ایک لمبا چوڑا پررُومان خط لکھا جس کے آخری الفاظ تھے: ’’الوداع اے فانی دنیا الوداع۔ ‘‘
اور پھر زہر کاایک جام گلے میں انڈیل کر زمین پر دراز ہو گیا۔ اس خیال میں تھا کہ چند ہی لمحوں بعد ساری نسیں پھول جائیں گی۔ خون کی گردش رکنے لگے گی۔ ہاتھ پاؤں پھڑکنے لگیں گے۔ لیکن نہیں صاحب، ایسی کوئی بات نہ ہوئی۔ کافی دیر انتظار کے بعد اٹھا اور زہر کا ایک اور جام چڑھا کر دوبارہ فرش پر جا لیٹا۔ گھڑیاں تیزی سے گزرتی گئیں مگر میرے جسم پر زہر کا ذرہ بھر اثر نہ ہوا۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ اس وطن عزیز میں جہاں دودھ میں پانی ملا کر بیچا جاتا ہے، گھی میں آلو اور چربی کی ملاوٹ کی جاتی ہے، مرچوں میں سرخ اینٹیں پیس کر ملا دی جاتی ہیں، وہاں زہر بھی خالص نہیں ملتا۔ گویا ایک شریف انسان خاص کر مجھ جیسا سفید پوش سرکاری ملازم اگر زہر کھا کر خود کشی کرنا چاہے تو کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتا۔
بندہ طبعاً کافی ڈھیٹ ثابت ہوا ہے۔ جب اپنے ذہن میں ایک دفعہ کوئی دھن سما جائے تو جلد یا بدیر کچھ نہ کچھ کر گزرتا ہے۔ اب میں نے فیصلہ کیا کہ پستول کی ایک ہی گولی سے سرکا بھیجا اڑا دیا جائے تو خود کشی میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔ چنانچہ پستول میں گولیاں بھریں، پستول کی نالی کنپٹی کے ساتھ لگا کر آنکھیں بند کیں اور دانت بھینچ کر گھوڑا دبا دیا۔ ارے !یہ کیا؟ گولی کیوں نہیں چلی؟ ایک بار پھر گھوڑا دبایا، مگر نتیجہ جوں کا توں۔ بعد میں ماہرین سے پتا چلا کہ اپنا پستول امریکہ سے فوجی امداد کے تحت درآمد کیا گیا تھا۔
جب پستول سے خود کشی بھی بعید از امکان ثابت ہوئی، تو فوراً سوئی گیس کی طرف دھیان گیا۔ سوچا گیس سے یقیناً موت واقع ہونے کی گارنٹی مل سکتی ہے اور پھر گیس کی موت بھی بڑی شاہانہ موت تصور کی جاتی ہے۔ چنانچہ کمرے کے تمام دروازے کھڑکیاں بند کر کے دروازوں میں کاغذ اور کپڑے ٹھونس کر گیس کی ٹونٹی پوری کی پوری کھول دی۔ خود کرسی پر بیٹھ گیا۔ مختلف پوزٹرائی کیے۔ آخر ایک نہایت سنجیدہ پوز بنا کر اس خیال سے بیٹھ گیا کہ کم ازکم موت کے بعد لوگ مجھے سنجیدہ پا سکیں۔ یوں بیٹھے بیٹھے عزرائیل کے انتظار میں دوپہر ہو گئی۔ شام ہونے کو آئی مگر جان ہے کہ نکلنے کا نام نہیں لیتی۔ شام کے قریب ایک دوست آوارد ہوا۔ میں نے چلا کر کہا۔
’’
اندر منت آؤ فوراً باہر نکل جاؤ۔ ‘‘
’’
مگر بات کیا ہے مسٹر؟ ‘‘
’’
میں مرنے والا ہوں۔ ‘‘
’’
مرنے والا تو نہیں، البتہ پاگل ہونے میں تھوڑی ہی کسر باقی نظر آتی ہے۔ ‘‘
جب میں نے اسے اپنی اسکیم بتائی ، تو وہ قہقہہ لگا کر بولا :
’’
بھئی بڑے احمق ہو تم ۔ جانتے نہیں آج کل گیس کی پائپ سے خالص ہوا نکلا کرتی ہے؟ اگر تم واقعی خود کشی کے معاملے میں سنجیدہ ہو تو میرے مشورے پر عمل کرو، شاید اسی طرح میں تمہاری دوستی کا حق ادا کر سکوں۔‘‘ اس نے مشورہ دیا کہ ایک عمدہ کوالٹی کا چاقو خریدواور بہادر جاپانیوں کی طرح اپنے پیٹ میں گھونپ کر انٹڑیاں حون سے لٹ پت ہاتھوں میں سنبھالے اس دار فانی سے کوچ کر جاؤ۔
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ فوراً بازار جا کر ایک عدد کمانی دار چاقو خریدا۔ چاقو ہاتھ میں لیا تو دل دہل گیا۔ سچ پوچھیں تو چاقو سے انتڑیان باہر نکالنا ( اور وہ بھی خود اپنی انتڑیاں!) کوئی خوشگوار قسم کا کام نہیں۔ ادھر یہ فکر بھی لاحق کہ جب نعش کا پوسٹ مارٹم ہوا اور معدے یا انٹریوں سے خوراک نام کی کوئی چیز برآمد نہ ہوئی تو ڈاکٹروں کے سامنے کس قدر رسوائی اور شرمندگی ہو گی۔ بہرحال چاقو بغل میں دبائے طرح طرح کے خیالات سے دو چار گھر کی طرف آ رہا تھا کہ پولیس کے دوسپاہیوں نے روکا میں نے بڑی سنجیدگی سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی۔
’’
جناب عالی، ذرا میری بات تو سنیں۔ میں سرکار کے تمام ٹیکس بڑی باقاعدگی سے ادا کرتا ہوں۔ اپنی پیاری حکومت کے خلاف آج تک ایک لفظ زبان پر نہیں لایا۔ مجھ جیسے صاحب ناموس شہری آپ کو کم ہی۔۔۔ ‘‘
انھوں نے میری بات کاٹی اور میری بغل سے جھانکتا چاقو کھینچ کر چلائے۔
’’
ارے صاحب ناموس شہری، یہ چاقو تمہاری بغل میں کیا کر رہا ہے؟ ‘‘
اب پتا چلا کہ اپنی مڈبھیڑ پولیس کی اس خاص پارٹی سے ہو گئی ہے جو کبھی کبھی شہر میں چوری ڈاکے اور راہزنی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو روکنے کی غرض سے راستہ چلتے شریف آدمیوں کی تلاشی لینا شروع کر دیتی ہے۔ میں نے دل میں کہا:’’خداوندا تیرے اس ملک میں زندہ رہنا تو کبھی بھی ممکن نہ تھا، لیکن اب نظر آتا ہے یہاں مرنا بھی اتنا ہی ناممکن ہو گیا ہے۔ آخر ہم یہ مظالم کب تک برداشت کرتے رہیں گے؟ ‘‘
انسان صاحب عزم ہو تو ہم جیسا۔ جب ایک دفعہ فیصلہ کر ہی لیا کہ مرنا ہے تو پھر ہمیں مرنے سے کون روک سکتا ہے؟ پولیس والوں نے چاقو قبضے میں لے لیا تو کیا ہم نے اگلے ہی روز بقال کی دکان سے ایک موٹی سی رسی خریدی۔ ایک صابن کی ٹکیہ لے کر رسی پر اچھی طرح صابن ملا۔ رسی کا ایک سرا چھت میں لٹکے ہوئے لوہے کے کڑے میں باندھا، دوسرے سرے میں ایک حلقہ بنا کر اسے اپنی جھکی ہوئی گردن میں ڈال لیا۔ پھر زور سے لات مار کر نیچے سے رسی گرا دی۔ کرسی گرتے ہی دھڑام سے زمین پر آ رہا۔ رسی کمزور ثابت ہوئی۔ جا کر بقال سے شکوہ کیا۔وہ بولا :
’’
جناب آج کل اصلی مال آتا ہی نہیں تو ہم آپ لوگوں کو کہاں سے لا کر دیں۔ ‘‘
اب میرے ذہن میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ گئی کہ میرے لیے مرنا بالکل ناممکن ہے۔ سوچا: موت کی تلاش بے سود ہے، تو کیوں نہ زندہ رہنے کا سامان کیا جائے۔ چونکہ زندہ رہنے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان کا پیٹ بھرا ہوا ہو۔ چنانچہ ہم نے سیدھی ایک ریسٹورنٹ کی راہ لی۔ پہلے بڑے گوشت کے کباب بنوائے اور انھیں انڈوں میں تلوا کر مزے سے کھایا۔ پھر سبزی کا ایک بند ڈبہ کھلوا کر گھی میں تلوایا۔ ساتھ دہی اور پلاؤ کا آرڈر دیا۔ خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ ریسٹورنٹ سے نکلا تو سامنے ایک بیکر ی نظر آئی۔ اندر جا کر یکے بعد دیگرے پانچ پیسٹریاں اور کریم رول ہضم کر گیا۔ اتنے میں ایک اخبار فروش چلاتا ہوا پاس سے گزرا۔
’’
بیس پیسے میں سولہ صفحے، پورے سولہ صفحے۔ پڑھنا نہ چاہو تو لفافے بنا کر بیچو۔ فائدہ ہی فائدہ۔ آج کا تازہ اخبار۔ ‘‘
میں سرکاری ترجمانی کرنے والے اخباروں سے عموماً پرہیز کرتا ہوں۔
سوچا کئی روز سے اخبار نہیں دیکھا، چلو خرید ہی لیا جائے۔ گھر آ کر اخبار پر نظر دوڑا رہا تھا کہ نیند نے آدبوچا۔ سوتے سوتے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا ہو۔ ایسا درد کہ بیان نہیں کرسکتا۔ جب درد برداشت کی حد سے بڑھ گیا تو میں چلانے لگا۔ کسی شریف آدمی نے ایمبولینس منگوا کر مجھے ہسپتال پہنچایا۔ وہاں پہنچتے پہنچتے درد سے بیہوش ہو چکا تھا۔ جب آنکھ کھلی تو ایک ڈاکٹر میرے سرہانے کھڑا تھا۔ کہنے لگا۔
’’
آپ نے ضرور کوئی زہریلی چیز کھا لی ہے۔ ذرا بتائیے تو آج صبح سے آپ نے کون کون سی چیز کھائی ہے؟ ‘‘
’’
چند پیسٹری اور کریم رول۔۔۔ ‘’
’’
ہیں؟ کیا کہا؟ پیسٹری اور کریم رول؟ آپ پاگل تو نہیں ہو گئے کیا؟ نظر آتاہے آپ نے پچھلے چند روز سے اخبار نہیں پڑھا۔اگر پڑھا ہوتا تو آپ کبھی یہ حرکت نہ کرتے۔ اخباروں کے صفحے پیسٹری سے ہونے والے ہیضے کے نتیجے میں اموات کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں اور آپ ہیں کہ اس کے باوجود پیسٹری اور کریم رول کھائے چلے جا رہے ہیں۔ اچھا اور کیا کیا کھایا تھا؟ ‘‘
’’
جی ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا تھا۔ ‘‘
’’
کھانا؟ ریسٹورنٹ میں؟ کیا کھایا تھا کھانے میں؟ ‘‘
’’
بڑے گوشت کے کباب ‘‘ ڈبے کی سبزی کی بھجیا۔ دہی پلاؤ۔۔۔ ‘‘
’’
حیرت ہے کہ یہ سب کچھ کھا کر بھی آپ اب تک زندہ ہیں۔ اچھا اور کیا کھایا تھا؟ ‘‘
’’
خدا کی قسم اور کچھ نہیں کھایا، البتہ ایک حکومتی اخبار کا اداریہ پڑھ رہاتھ کہ درد۔۔۔ ‘‘
’’
صاحب آپ بڑے سستے چھوٹ گئے۔ خدا کا شکر کیجیے کہ آپ اس وقت زندہ ہیں۔ ‘‘
ہسپتال سے گھر آتے ہوئے میرا ذہن اس پریشانی میں مبتلا رہا کہ ہم غریبوں کی قسمت میں اگر آرام کی زندگی نہیں لکھی گئی تو پھر ہمیں آرام کی موت مرنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔ بہرحال اب کبھی خود کشی کا ارادہ کرتا ہوں تو زہر اور پستول کی گولی پر ریسٹورنٹ کے کھانے کو ترجیح دیتا ہوں۔ کبھی تو اپنے ارادے میں کامیابی ہوں گی۔