سید سردار احمد پیر زادہ
وہ بھی گھر والی تھی اور حکمرانوں والی تھی
روس کے مایہ ناز ناول نگار میکسم گورکی کا ایک شہرہ آفاق ناول The Mother ہے۔ اس میں ۱۹ویں صدی کے روس کا ذکر ہے جب زار بادشاہوں سے لوگ تنگ آگئے تھے اور بیداری کی تحریک شروع ہوا چاہتی تھی۔ ناول کی ہیروئن عام عورت ہے جس کا پہلے خاوند مرتاہے پھر اُس کا بیٹازار بادشاہوں کے خلاف تحریک کی نذر ہوجاتا ہے۔ وہ عورت بیٹے کی محبت میں اس تحریک کو آگے بڑھاتی ہے اور پورے معاشرے کی ماں کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ اسی طرح پچاس کی دہائی میں بننے والی ایک ہندوستانی فلم Mother India ہے جس میں ایک دیہاتی لڑکی ایک ساہوکار کے قرضوں کے منحوس پھیروں میں اپنے شوہر اور ایک بیٹے کو کھو دیتی ہے۔ اُس کا واحد بچ جانے والا جوان بیٹا ساہوکار سے انتقام لینے کیلئے ساہوکار کو قتل کرکے اُس کی بیٹی اغواء کرلیتا ہے۔ وہ عورت اُس کا تعاقب کرتی ہے اور اپنے بیٹے کو خود گولی ماردیتی ہے۔ معاشرے میں اعلیٰ اقدار پروان چڑھانے کیلئے اپنے خاندان کی قربانی دینے پر وہ عورت Mother India کہلاتی ہے۔ آئیے! ایک اور جانی پہچانی عورت کی کہانی لکھتے ہیں۔
وہ ۲۲برس کی تھی کہ سہاگن ہوگئی اور ۲۸ برس کے بعد سہاگن سے بیوہ کر دی گئی۔ وہ خوش قسمت تھی کہ اُس کا خاوند اور بیٹی وزیراعظم جبکہ داماد صدرِ مملکت بنے۔ وہ بدقسمت تھی کہ اپنی زندگی میں اس نے اپنے خاوند کو پھانسی چڑھتے دیکھا ۔ دونوں جوان بیٹوں اور بیٹی کو قتل ہوتے بھی دیکھا شاید اس لیے کہ اس کے گھر میں ایک بھوت گھس آیا جس نے آدم بو آدم بو کی بجائے بھٹو بو بھٹو بو کہنا شروع کیا اور پھر چن چن کر بھٹو بو والوں کو کھا گیا۔ لوگ اسے نصرت کہتے تھے اس لیے کہ وقت کے حکمران اس کے گھر میں تھے لیکن وہی جانتی تھی کہ حکمرانوں کی مقتل گاہ بھی اسی کا گھر تھا۔ کسی خاتونِ اول نے اقتدار کے اتنے روپ نہیں دیکھے اور اپنوں کی اتنی لاشیں نہیں اٹھائیں۔ اس کے کندھے بہت مضبوط تھے۔ اس نے خاوند، بیٹی اور دونوں جوان بیٹوں کے جنازے اٹھائے لیکن دیکھئے کہ اس کے چاہنے والوں سے اس اکیلی کا جنازہ نہیں اٹھایا گیا۔ آج کالم نہیں بلکہ ایک ماں کے جانے پر سسکیاں لکھنے کو دل کرتا ہے۔ اس کی ٹریجڈیز میں مقدر کا دخل تو ہے ہی مگر دوسروں کی حاسد نیتوں اور کم ظرفیوں کا دخل زیادہ لگتا ہے۔ ۱۹۹۶ء تک اس کا خاوند اور دونوں بیٹے مار دےئے گئے تو اس نے اب خون کا رنگ نہ دیکھنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنی Memories کو بھلا دیا ۔ اب وہ اگلے جہان جا کر حیران ہوگئی ہوگی کہ اس کی دو دفعہ وزیراعظم رہنے والی چہیتی اور لائق بیٹی بینظیر اس سے پہلے وہاں پہنچ چکی ہے۔ اس کا میکہ کہیں اور تھا لیکن سسرال یہاں۔ سسرال میں اس کے ایک بچے کے علاوہ خاوند سمیت سب بچے ہلاک کردےئے گئے لیکن خواتین پر تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے والے دنیا کے کسی ادار ے نے اسے اتنا ظلم سہنے کا ایوارڈ نہیں دیا۔ وہ جو نصرت تھی بھٹو سے شادی کرکے نصرت بھٹو بن گئی اور اپنے گھر کی بنیاد رکھی۔ اس نے تقریباََ سب کو باری باری رخصت کیا پھر خود گئی۔ آخر وہ گھر والی تھی ناں۔ اس کے گھر میں حکمران بستے تھے اور مرتے بھی تھے۔ نصرت بھٹو کی موت پر بھی کچھ لوگ اندر ہی اندر اس کے خلاف کینہ رکھتے ہیں۔ ان سے پوچھئے کہ آپ سب نے ایک عورت کی کوکھ سے جنم لیا۔ عورت کی کوکھ سے جنم لینے والے یہ سب نصرت بھٹو کو ایک عورت ہی سمجھ لیں۔اگر ایک روسی عورت اپنے ایک بیٹے کو ڈکٹیٹروں کے خلاف قربان کرکے معاشرے کی ماں بن سکتی ہے یا انڈین فلم میں ایک عورت معاشرے کی ظالمانہ روایات کو ختم کرنے کیلئے اپنے دو بیٹوں اور خاوند کو بھینٹ چڑھا کر Mother India بن سکتی ہے تو نصرت بھٹو اپنے وزیراعظم خاوند کو پھانسی، دونوں جوان بیٹوں کو قتل اور دو دفعہ وزیراعظم رہنے والی بیٹی کو شہید کرواکے Mother of Democracy کیوں نہیں بن سکتی کیونکہ اس کے خاندان کو ڈیموکریسی کے دشمنوں کے انتقام نے ہی تو ختم کیا۔ ورنہ وہ گھر والی تھی اور حکمرانوں والی تھی۔
بے حسی کی دنیا میں
دو سوال میرے بھی
کس طرح جیا جائے؟
کس لئے جیا جائے؟
(بشکریہ :روزہ نامہ ایکسپریس)