اردو زبان کے حوالے سے دل خوش کن منظر

کسی بھی زبان کی ترقی اساسی طور پراس کی تخلیقی صلاحیت کی مرہون احسان ہے۔ بڑا تخلیقی فنکار نہ صرف اپنی زبان کو تخیل، جذبہ اور احساس کی نئی سطحوں تک لے جاتا ہے بلکہ نئی تراکیب وضع کرتا ہے اور اس کے قارئین کو یہ مسرت بھرا احساس ہوتا ہے کہ وہ زندگی اور انسان کے ان پہلوؤں سے آشنا ہورہے ہیں جو پوری طرح ان سے عیاں نہیں تھے اور وہ خود کو اظہار کی نئی صلاحیت سے آراستہ کر رہے ہیں۔ اس کے پہلو بہ پہلو اس زبان کے محقق، عالم اور نقاد ہوتے ہیں جو نہ صرف دستاویز ی تاریخ کو توسیع دے رہے ہوتے ہیں بلکہ اس کی توضیح بھی کر رہے ہوتے ہیں اور یوں اپنے عہد کے بڑے سوالوں کو زیربحث لا رہے ہوتے ہیں۔ تیسری طرف وہ اشرافیہ ہوتی ہے جو اپنے محفوظ مگر اشتہا انگیزجھروکوں سے جھانک کر عوام الناس کے اضطراب، اشتیاق اور فخر کو نیا پیرایۂ اظہار ملنے کا محتاط مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اردو زبان اس اعتبار سے خوش قسمت ہے کہ اس میں نہ صرف بڑے تخلیق کار ہر دور میں رہے بلکہ اب بھی مشتاق احمد یوسفی، جمیل الدین عالی، انتظار حسین، کشور ناہید، اسد محمد خاں، انور مقصود،فہمیدہ ریاض، حسن منظر، شہزاد احمد، ظفراقبال ، اسلم انصاری، افتخارعارف، فاطمہ حسن، اصغر ندیم سید،شبنم شکیل ، منو بھائی،عطا ء الحق قاسمی ،امجد اسلام امجداورسینکڑوں تخلیق کاروں کے ساتھ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ، پروفیسر فتح محمد ملک ،ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا،ڈاکٹر تبسم کاشمیری ،ڈاکٹر سلیم اختراور اسی قبیلے کے نامور علما قابلِ رشک علمی کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک درجن سے زائد یونیورسٹیوں میں اردو شعبے بڑی فعال قیادت میں پی ایچ۔ڈی کی سطح کا کام کر رہے ہیں جن میں ڈاکٹر رشید امجد، ڈاکٹر فخر الحق نوری،ڈاکٹر طاہر تونسوی، ڈاکٹر روبینہ ترین، ڈاکٹر عظمیٰ فرمان، ڈاکٹر سید جاوید اقبال ، ڈاکٹر یوسف خشک، ڈاکٹر عقیلہ شاہین، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر شفیق عجمی، ڈاکٹر عبدالکریم خالد،ڈاکٹر فقیرا خاں فقری اور دیگر احباب شامل ہیں۔ ہائیرایجوکیشن کمیشن اور چیئرمین ادارے کے تعاون سے پاکستانی جامعات کے چار نوجوان محقق اور نقاد ڈاکٹر یوسف خشک، ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی، ڈاکٹر قاضی عبدالرحمن عابد اور ڈاکٹر ناصرعباس نیر پوسٹ ڈاکٹریٹ کرچکے ہیں۔ اتفاق سے ان چاروں نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ کی نگرانی میں کام کیا۔ اردو میں پی ایچ۔ڈی کے ایک طالب علم نے اوساکا یونیورسٹی کے پروفیسر سویا مانے کی رہنمائی میں نو ماہ تک تحقیقی کام کیا۔ اردو کے پرانے جرائد کے ساتھ کئی نئے جرائد اپنے جواں سال مدیروں کے حوصلوں کا مظہر بن رہے ہیں۔ اخبارات ادبی ایڈیشنوں کی طرف دوبارہ راغب ہورہے ہیں۔ میڈیا کے ذرائع بھی اس طرف راغب ہیں۔ اگرچہ کچھ افسردہ دل زبان کے بارے میں نئی نسل کے تصرفات سے کبھی اداس اور کبھی تلخ نوا ہو جاتے ہیں مگر ہمارے لیے یہ بات امید افزا ہے کہ اس قبیلے میں شاہ محمد مری کا رسالہ ’’سنگت‘‘ کوئٹہ سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے جس میں پاکستان کے سبھی قلم کار اپنی اپنی زبانوں میں لکھ سکتے ہیں۔ یہی عالم سندھی لینگوئج اتھارٹی، پشتو اکیڈمی، بلوچی اکیڈمی، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر اور سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کی مطبوعات کا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک دور اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور نیا دور پیدا ہو رہا ہے۔ بڑے سوال زیربحث آرہے ہیں اور آہستہ آہستہ اشرافیہ کے علم میں بھی آرہا ہے کہ اردو زبان میں بڑے سوالوں کو زیربحث لانے کی ایک صلاحیت ہے۔ مقتدرہ قومی زبان کوشش کر رہاہے کہ پاکستان کی اُن جامعات کے ساتھ اشتراک عمل بڑھایا جائے جہاں کئی اعتبار سے روشن دماغ قیادت موجود ہے۔ گجرات یونیورسٹی کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں جس کے تحت مقتدرہ قومی زبان وہاں اردو اور دیگر زبانوں کے شعبے کاقیام اور اسے منظم کرنے میں مدد دے گا اور ساتھ ہی ساتھ تحقیق اور اشاعت میں بھی ارتباط کو بڑھایا جائے گا۔ ایسی دستاویز کے لیے فرہنگستان زبان وادب فارسی ایران اور شعبہ اردو تہران یونیورسٹی کے ساتھ بھی معاہدہ پایۂ تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ کراچی یونیورسٹی، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان اور جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے ساتھ بھی بات چیت جاری ہے۔
انوار احمد