حقیقت کی تلاش از: میاں فاروق عنایت

مبصر:ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد
''حقیقت کی تلاس ''ایک انوکھی اور عجیب و غریب کتاب ہے۔ محیر العقول واقعات کی حامل بھی ہے اور نرالے تجربات و مشاہدات کی نقیب بھی۔ مصنف کہیں صاحب ارشاد، طریقت و شریعت کا شارع، اخلاقیات کا نقیب اور روحانیات کا مسافر دکھائی دیتا ہے تو کہیں پورا دنیا دار۔ کبھی وہ سائنس دان لگتاہے تو کبھی سیاست دان۔ انسانوں کے سماجی، معاشرتی، سیاسی، ثقافتی، روحانی، مذہبی، جغرافیائی اور جانے کن کن مسائل اور موضوعات کو اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف نے صرف مسائل کے ذکر اور مشکلات کے بیان پر اکتفا نہیں کی بلکہ انھوں نے ان مسائل کاحل اور ان مشکلات کا علاج بھی تجویز کیا ہے۔ ممکن ہے کہ کتاب کے بعض مندرجات اور مصنف کے بعض نظریات سے قارئین متفق نہ ہوں۔ مصنف کو اس پر اصرار بھی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے سفر کے حاصلات کو پیش کر دیا ہے جو حقیقت کی تلاش میں ان کا مقسوم ٹھہرے ۔ یہ کتاب بلا شبہ غور و فکر پر اکساتی اور ذہن میں سوال ابھارتی ہے۔ کتاب کے بارے مصنف اپنے دیباچے میں لکھتے ہیں:
اپنی ایک حقیر سی کاوش لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ کتاب آپ کے لیے یقیناً کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ آپ نے اپنی حیاتِ عزیز میں بلا شبہ بہت سی کتابیں پڑھی ہوں گی، اپنی پسند اور ذوق کے مطابق۔ کئی ایک نے آپ کو بور کیا ہو گا، کچھ دقیق ٹھہری ہوں گی اور غالباً ان میں سے چند ہی آپ کے معیار پر پوری اتری ہوں گی۔ کتاب اور قلم کا رشتہ بہت پرانا ہے لیکن جب تک قلمی نسخوں کا زمانہ تھا بات بڑی محدودتھی۔ کیا کیا جائے کہ جب سے پریس ایجاد ہوا اور پچھلی صدری سے جب کمپیوٹر نے اس میدان میں قدم رکھا تو اس کام میں انتہائی تیزی بلکہ برق رفتاری آگئی۔ اب حال یہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق ہر طرح کی بے حد و شمار کتب لائبریوں اور بک سٹالز پر بھری پڑی ہیں حتیٰ کہ ان میں بہت کثیر تعداد میں ایسی کتب شامل ہیں جنھیں پڑھنے والا کوئی نہیں۔ کچھ تو مطالعہ کا شوق فی زمانہ بہت کم رہ گیا ہے اور پھر سنجیدہ مطالعہ کرنے والے اصل علم و ادب کے شوقین چراغ لے کے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ رہی کسر آج کی انقلابی ایجاد انٹرنیٹ نے نکال دی ہے کہ اب آپ کو کسی اور شے کو ہاتھ لگانے کی ضرورت ہی نہیں۔ بس اس پر بیٹھیے اور اس میں گم ہو جائیے۔ آپ کو اس میں دنیا جہان میں موجود ہر شے مل جائے گی حتیٰ کہ ہر طرح مواد بھی اس میں بھرا پڑا ہے۔ لائبریریوں کی لائبریریاں پڑی ہیں اب کتاب خرید کر پڑھنے والے گنتی کے چند لوگ رہ گئے لیکن یقین جانیے جو لطف کتاب خرید کر پڑھنے کا ہے وہ انٹرنیٹ پر مطالعہ میں نہیں۔ یہ آپ کی قدم قدم کی اور جنم جنم کی ساتھی ہے۔ سو سفارش ہے کہ اسے اپنے ساتھ رکھیے اسے مت بھولیے۔
مختلف علوم وفنون پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ کچھ اور لکھنے کی ضرورت ہی بھلا کیا ہے لیکن میں آپ کو بتلاتاچلوں کہ میرا یہ کتاب لکھنے کا مقصد نہ تو پیسہ کمانا تھا ، نہ شعبہ جاتی علم میں اضافہ کرناتھا اور نہ ہی نام کمانا میرے پیشِ نظر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کسی بھی شعبہ علم کو اس مقصدکے لیے منتخب نہیں کیا۔ میں ایسے اچھوتے اور Untouchموضوعات پر لکھنا چاہتا تھا، ایسے سوالوں کے جواب تلاش کرناچاہتا تھا اور ان مدفون خزانوں کو کھودنکالنا چاہتا تھا جو کہیں گم گئے تھے۔ جنھیں یا تو لوگ ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے یا پھر یوں کہیں کہ جن میں سے اکثر معموں کے کسی کے پاس کوئی حل تھے ہی نہیں۔
آپ جوں جوں کتاب پڑھیں گے آپ کو احساس ہو گا کہ یہ مختلف و متنوع موضوعات و مضامین کا مرقع یا ناپید مگر حسین و دلربا اور حیران کن خوشبوئوں میں رچا ہوا پھولوں کا ایک ایسا گلدستہ ہے جو اس سے قبل کبھی آپ کے ہاتھ نہیں لگا۔ شرط صرف طلب ہے اگر آپ ''حقیقت کی تلاش'' کی راہوں کے مسافر ہوئے تو یقیناً آپ کو اسے پڑھنے میں نہ صرف مزا آئے گا بلکہ ایک اور کی گردان کریں گے اور اگر آپ بجائے سمندر کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کرنے والے تجسس پسندوں کے سطح پر بیٹھ کر بس مچھلیاں ہی پکڑنے والے ہوئے تو پھر آپ سے معذرت۔
ملنے کا پتا:کتب خانہ مقبول عام، اردو بازار اٹک، غالب کتاب گھر،
آئی ایٹ مرکز، اسلام آباد
……o……