پہلا آدمی(افسانے) از: شاہد رضوان

مبصر:زاہد ہمایوں(لیکچرار)
سائنسی دور کی گہما گہمی اور ہماہمی نے انسان کی مصروفیات میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان مصروفیات کے پیش نظر؛ عصری تقاضا یہ ہے کہ مختصر وقت میں انسان کو پڑھنے کے لیے ایسا کچھ ملے؛ جو اُس کے ذوق کی تسلی و تشفی کے ساتھ ساتھ تفریحی تقاضوں کو بھی پورا کر سکے۔ انسان کی یہ خواہش افسانہ نے پوری کر دی۔
افسانہ نگار اپنے قارئین کے وقت کا بھرپور احساس رکھتا ہے۔ وہ وقت کا ضیاع کرنے کے لیے خواہ مخوا پورے دجلہ کی تصویر نہیں دکھاتا؛ بلکہ وہ ایک قطرے کو ایسا شفاف بنا دیتا ہے کہ اُس میں پورا دجلہ دکھائی دیتا ہے۔ افسانہ؛ ناول کی ارتقائی شکل ہے۔ ناول میں زندگی کا کینوس وسیع ہوتا ہے؛ جب کہ ایجازو اختصار ایک اچھے افسانے کا خاصہ ہوتا ہے۔
بلا شبہ افسانہ وحدتِ تاثر کا حامل ہوتا ہے اور زندگی کے کسی ایک پہلو پر بھر پور روشنی ڈالتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ موضوعاتی حوالے سے افسانہ محدود ہوتا ہے بلکہ موضوعاتی کیا، اسلوبیاتی ، جمالیات اور تکنیکی حوالے سے اس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ صنفِ نثر باثروت ہوتی جا رہی ہے۔
افسانہ، یلدرم، پریم چند کے حب الوطنی، مقصدی، اصلاحی اور رومانوی افسانوں کے ساتھ ساتھ، عصرِ حاضر کے افسانوں نگاروں کے تحریکی، جذباتی، سیاسی ، مذہبی اور فطری اثرات کی وجہ سے ، فن کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ چکا ہے۔
خواجہ حسن نظامی کے افسانے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے متعلق ہیں۔ ترقی پسند تحریک نے افسانوں کو ایک نیا رُخ دیا۔ کرشن چندر، اختر حسین رائے پوری، ابراہیم جلیس اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں اس تحریک کے اثرات موجود ہیں۔
محبت کے قصوں، ظالم سماج، رسم و رواج کے ساتھ ساتھ ۱۹۴۷ء کے فسادات بھی افسانوں کا موضوع بنے۔ عزیز احمد، انتظار حسین، قرۃ العین حیدر، غلام عباس، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، جمیلہ ہاشمی، ممتاز شیریں، قدرت اللہ شہاب، شوکت صدیقی، ممتاز مفتی جیسے افسانہ نگاروں کی نہ ختم ہونے والی ایک لمبی فہرست ہے جو بڑی کامیابی سے افسانے کو تخلیقی سطح پر زندہ جاوید بنائے ہوئے ہیں۔
سعادت حسن منٹو اردو افسانہ کی روایت میں حقیقت نگاری، انسان دوستی، فنی پختگی، کردار نگاری، فطرت نگاری اورانسانی نفسیات کے گہرے شعور کو لے کر اترے۔ منٹو کے افسانوں میں موجود جنسی رویہ اُن کی حقیقت پسندی کا ایک پہلو ہے۔ جس کے بے نقاب ہونے سے بہت سی جبینوں پر بل پڑے ہیں۔ اسی بے رحم حقیقت نگاری پر عصمت چغتائی کو بھی فحش گوئی جیسے ناشائستہ الزامات برداشت کرنا پڑے۔
سعادت حسن منٹو کی حقیقت نگاری نے افسانے کو نئے جہان سے تخلیق کیا؛ اور نئی کرنوں سے روشناس کیا؛ ان ہی کرنوں کی روشنی میں عصر حاضر کے جواں سال شاعر اور افسانہ نگار، شاہد کامران اپنا سفر شروع کرتے ہیں اور اپنے افسانوں کے دو مجموعے ، تین سال کے عرصہ میں منظرِ عام پر لا کر اپنی ثابت قدمی اور فکری و فنی پختگی کامنہ بولتا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
ستمبر ۲۰۰۱ء میں ''شوقِ نا تمام'' اپنے پہلے شعری مجموعے کے بعد ۱۴ افسانوں پر مشتمل جنوری ۲۰۱۰ء میں افسانوی مجموعہ ''پتھرکی عورت'' پیش کیا۔ اپنی کہانیوں میں وہ متوسط طبقے کی عورت کے مختلف روپ دکھاتے ہیں۔ اب ۲۰۱۳ء میں انھوں نے اپنا افسانوی مجموعہ ''پہلا آدمی'' پیش کیا۔
''پہلا آدمی'' اردو افسانہ کی روایت میں بیش بہا اضافہ ہے۔ جو شاہد رضوان کے اظہار کے نئے قرینوں اور تجربات کا گہرا شعور پیش کرتا ہے۔ شاہد رضوان کے طرزِ بیان کی دل کشی و دل فریبی اور برجستگی و روانی قارئین کو مسحور کیے رکھتی ہے۔
موضوعاتی اور تکنیکی لحاظ سے اُن کے افسانے عصری تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے کردار زندہ جاوید ہیں۔ ان کے کردار صرف کسی جذبے کی کوئی علامت بن کر نہیں رہ جاتے، بلکہ ان کی سماجی شخصیت توانا رہتی ہے۔
''مآلِ کار'' میں انھوں نے سعادت حسن منٹو کی بے رحم حقیقت نگاری کی بھرپور عکاسی کرنے کی سعی کی ہے۔ جس کے حوالے سے نیلم احمد بشیر انھیں یہ تاکید کرتے ہیں کہ:
''رضوان منٹو کو اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں، اس میں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا؟ مگر منٹو کے ہاں عورت کے لیے ایک ہم دردی اور گہری انڈر سٹینڈنگ پائی جاتی ہے۔ ان کے ہاں عورت تلذّذ کا محور نظر نہیں آتی، رضوان کو یہ بات ذہن میں ضرور رکھنا چاہیے۔''(نیلم احمد بشیر:''بہادر افسانہ نگار'' مضمون مشمولہ ''پہلا آدمی'' ص:۱۷)
نیلم احمد بشیر نابغۂ روزگار شخصیت ہے۔ اُن کی نصیحت، اُن کی کُہنہ مشقی، دور اندیشی، ادبی بصیرت اور ادبی ریاضت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مگر وہ سعادت حسن منٹو تھے اور یہ شاہد رضوان ہیں۔ یہ دراصل ایک استاد اور شاگرد کے ارتقائی عمل کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ جو اپنی بالیدگی اور پختگی کی ایک قابلِ صد ستائش جھلک پیش کرتا ہے۔
ذرا جملوں کی کاٹ تو ملاحظہ فرمائیں:
''آدھے گھنٹے کے بعد وہ لوٹا تو لڑکی اس کے ساتھ تھی۔ لڑکی کیا حُور تھی، اپسراتھی، لمبا قد، چھمک جیسی کمر، موٹی موٹی آنکھیں، ستواں ناک، مخروطی انگلیاں، سیب کی طرح تنے ہوئے سرخ سرخ رخسار، کولہوں پر پڑتے سیاہ گھنیرے بال……اُن نے چادر اُتار کر کھونٹی پر رکھی، لٹکائی اور دوپٹا پشت پر پھینک کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی……… مقتل گاہ کس طرف ہے؟ لڑکی نے دیدہ دلیری سے پوچھا۔ اس طرف …… فیصل نے دوسرے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ چلو! یا ابھی کسی اور کا انتظار ہے۔ نہیں … چلو۔'' (مآل کار… ص نمبر ۱۶۲)
شاہدرضوان کے افسانے تہذیب اور دھرتی کی بُو باس سے رچے بسے ہیں۔ سائرہ احمد کے پیار میں کیا کیا جتن کرتی ہے۔!!!
''پل بھر کے لیے چوڑیاں پہنتی ہوں، پھر اُتار دیتی ہوں۔ چوڑی توڑ کر لعاب سے تر کرتی ہوں، ماتھے کو چھوتی ہوں، پھر تمہارا پیار نکالتی ہوں۔ جب میں اپنی طرف سے پیار نکالتی ہوں، تو ڈھیروں نکلتا ہے۔ جب تمہاری باری آتی ہے تو میں دکھ سے چور چور ہو جاتی ہوں۔ کیوں کہ تم مجھ سے پیار نہیں کرتے ہو۔ اگر تم بھی پیار کرو، تو چوڑی بتا دے ۔ پتا ہے چوڑیاں سچ بتاتی ہیں، کبھی جھوٹ نہیں بولتیں۔ (پہلا آدمی… ص۱۲۰)
چوڑی چُور چُورہوتی ہے اور دل کرچی کرچی ہوتا ہے۔ لفظوں کا چنائو بہت خوبصورت ہے۔ مرد ہو کر ایک عورت کے دل کی بے قراری بیان کرنا یہ شاہد رضوان کا ہی کام ہے۔ شاہد رضوان بلا شبہ انسان کی نفسیات کا بخوبی ادارک و فہم رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنی کہانی میں شروع سے آخر تک قارئین کو مسحور کیے رکھتے ہیں۔ان کے افسانوں میں حب الوطنی کے جذبات، اپنوں کے کھونے کا غم، خوشیوں کا احساس، زندگی کا کرب، عورت کی معاشرتی مجبوریاں، محبت کی پسپائی، ستم ظریقی، جنسی رویہ اور تہذیبی رکھ رکھائو، زندگی کا ہر پہلو اور ہر رُخ ملتا ہے۔
شاہد رضوان کی خوب صورتی اور کمال یہ ہے کہ وہ ہر کردار کو بڑی کامیابی سے نباہتے ہیں۔ وہ افسانہ لکھنے کے فن کا سلیقہ جانتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ایہام کا الزام عائد نہیں ہوتا۔
اردو افسانے کی روایت میں ''پہلا آدمی'' گراں قدر افسانوی مجموعہ ہے۔ اس بات کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اپنے اسلوب کی دل کشی اور جاذبیت سے انھوں نے اردو افسانے کو ایک نیا ذائقہ دیا ہے۔ ان کے افسانوں میں جدید معاشرت بولتی نظر آتی ہے۔
افسانہ ''مسلی ہوئی پتیاں'' دہشت گردی کے مسائل کتنی حساسیت سے بیان کرتا ہے۔ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں موضوعاتی تنوع ملتا ہے۔ مزدور، سفید بال، خود کشی اور آزادی یہ افسانے زندگی کی جس کرب ناک حقیقت کو آشکار کرتے ہیں، وہ قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
ملنے کا پتا: دانیال پبلی کیشنز ، چیچہ وطنی
……o……