بخت منیر صاحب آبادی
(گورنمنٹ کامرس کالج باجوڑ ایجنسی)
ہمارا معاشرہ اور منٹو

سعادت حسن منٹو کا شمارا اردو ادب کے مشہور اور عظیم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ترقی پسندوں نے اُن کو رجعت پسند قرار دے کر اپنی تحریک سے الگ کیا تھا اور رجعت پسندوں نے اُن کی تحریروں کو فحش گوئی قرار دے کر اُن کو مسترد کیا تھا۔ مگر بقول سید عابد علی عابد'' منٹو حقائق کا عکاس تھا وہ نہایت استغنا، بے پروائی اور بہ کمال اطمینان خاطر وہ تمام نقشے الفاظ میں اتارتا تھا جو اُس کو گردوپیش کی دنیا میں نظر آتے تھے'' منٹو انسانی نفسیات کے نباض تھے۔ انھوں نے معاشرے کا مکمل طو رپر مطالعہ کیا تھا اور ہمارے معاشرے میں جو ظلم، استحصال ، لاقانونیت ہے، کمزوروں کو بطور سیڑھی استعمال کر کے شہرت عام و بقائے دوام حاصل کرنے والے چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر جو کردار ہیں، خاص طورپر عورت کے ساتھ معاشرہ میں جو ظلم روا رکھا جا رہا ہے اور اُن کو جس انداز میں اپنی آتش ہوس بجھانے کے لیے بطور کھلونا استعمال کیا جا رہاہے اور آج بھی ہمارے اپنے پاکستان اور ہندوستان کا معاشرہ ایسے کرداروں سے بھرا پڑا ہے اور قانون کے محافظ تک اس حمام میں ننگے ہیں۔ منٹو نے اپنے افسانوں میں بڑی بے باکی اور جرأت کے ساتھ ان چہروں سے نقاب اٹھایا ہے جو بظاہر کچھ ، بہ باطن کچھ ہیں۔ مثلاً اُن کا افسانہ ''کھول دو'' میں کتنی جرأت کے ساتھ منٹو نے ان لوگوں کا پردہ چاک کیا ہے کہ جنھوں نے بظاہر رضاکاروں کا لبادہ اُوڑھ رکھا تھا مگر ان لوگوں نے ''سکینہ'' کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں جیلوں کے اندر ، Safe homesوغیرہ کے اندر ہمارے ملک کی سکینائوں کے سا تھ بھی وہی کچھ ہو رہاہے مگر کاش کوئی منٹو ہوتا اور اس کا پردہ چاک کرتا۔ منٹو کا خیال تھا کہ جب تک زندگی کی مکروہ صورتوں کو سامنے نہ لائو اور عوام کو اُن کی زبان میں انہی کے زخم نہ دکھائو، یہ معاشرہ کبھی اصلاح پذیر نہ ہو گا۔ وہ اس دور میں وعظ کے نہیں طنز کے قائل ہیں۔ اُن کا خیال تھا کہ برہنہ معاشرہ کو برہنہ گوئی سے زچ کیا جا سکتا ہے۔ ایک بارشورش کاشمیری نے اُن کے کسی فیچر پر تعارفی نوٹ میں لکھا کہ ''منٹو مومن کی طرح سوچتا ہے اور کافر کی طرح لکھتا ہے'' تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ ''یہ بات تم نے ٹھیک لکھی ہے۔''
کرشن چندر لکھتے ہیں کہ ''منٹو نے ''ہتک''، ''نیا قانون''، ''کھول دو''، ''ٹوبہ ٹیک سنگھ'' ایسے درجنوں بے مثال اور لا زوال افسانے تخلیق کیے جس نے سماج کی نچلی تہوں میں گھس کر وہ پسے ہوئے، کچلے ہوئے سماج کی ٹھوکروں سے مسخ شدہ کردار تعمیر کیے جو اپنی نادر مصوری اور حقیقت نگاری میں لویئر ڈیپتھس(Lower Depths)کے کرداروں کی یاد دلاتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ان لوگوں نے گورکی کے لیے عجائب گھر بنائے، مجسمے نصب کیے اور ہم نے منٹو پر مقدمے چلائے، اُسے بھوکا مارا، اُسے پاگل خانے پہنچا دیا، اُسے ہسپتالوں میں سڑایا اور آخر میں یہاں تک محدود کر دیا کہ وہ کسی انسان کو نہیں ، شراب کی بوتل کو اپنا دوست سمجھنے پر مجبور ہوئے'' آکے جا کر کرشن چندر لکھتے ہیں کہ ''منٹو ایک بہت بڑی گالی تھا۔ اس کا کوئی دوست ایسا نہیں تھا جسے اُس نے گالی نہ دی ہو۔ کوئی ایسا پبلشر نہ تھا جس سے لڑائی مول نہ لی ہو۔ کوئی مالک ایسا نہ تھا جس کی اُس نے بے عزتی نہ کی ہو۔ بظاہر وہ ترقی پسندوں سے خوش نہیں تھا کہ غیر ترقی پسندوں سے، پاکستان سے نہ ہندوستان سے ، انکل سام سے نہ روس سے۔ جانے اس کی مضطرب، بے قرار بے چین روح کیا چاہتی تھی۔ اس کی زبان بے حد تلخ تھی۔ انداز بیان تھا تو کسیلا اور خار دار نشتر کی طرح تیز اور بے رحم لیکن اس کی تلخ کلامی کو، گالی کو اُس کے تیز نوکیلے خار دار الفاظ کو ذرا سا کھرچ کر تو دیکھیے۔ اندر سے زندگی کا میٹھا میٹھا رس ٹپکنے لگے گا۔ اس کی نفرت میں محبت، عریانی میں ستر پوشی، آبروباختہ عورتوں کی داستان میں اس کی ادب کی عفت پنہاں تھی، زندگی میں لوگوں نے منٹو سے انصاف نہیں کیا لیکن تاریخ صرور اُن سے انصاف کرے گی۔'' منٹو کی تحریروں کو اٹھا کر آپ بغور مطالعہ کریں اور پھر گریبان میں سر ڈال کر خدا کو حاضر و ناظر کر کے سوچیں کہ اس کے باوجود کہ لوگوں نے اس پر فحش نگاری اور جنسی مریض کے فتوے جڑ دیئے مگر کیا یہ سب کچھ جو منٹو نے افسانوں کی آڑ لے کر لکھا ہے، ہمارے معاشرے میں نہیں ہو رہا ہے؟ دور کیوں جائیں ابھی چھ سات سال پہلے پشاور میں قانون کے محافظ اور ایک بی بی کاقصہ جو اخباروں کی زینت بنا۔ کیا یہ کام ہمارے معاشرہ میں نہیں ہو رہے ہیں؟ ابھی پچھلے سال کی بات ہے کہ کرک کی ایک خاتون کے ساتھ قانون کی حفاظت کرنے والوں نے معاشرہ کے اوباشوں کے ساتھ مل کر ایک بے بس عورت کے ساتھ کیا کیا؟ اُن کا بھائی کس جرم کی پاداش میں مارا گیا؟ اگر عدالت اُن کے کیس کا از خود نوٹس نہ لیتی تو پتہ نہیں اور کتنا اُن کو ذلیل اور رسوا کیا جاتا؟ کس جرم کی پاداش میں اُن کی عزت تار تار کی گئی؟ اس نے جو بچی جنم دی اس کے باپ کا پتہ چلانے کے لیے پشاور ہائی کورٹ اب بھی کوشاں ہے ۔ ۱۶ دسمبر کو نئی دہلی میں میڈیکل کی ایک طالبہ کو جس انداز میں پہلے جنسی تشدد کا نشانہ اور پھر بڑی بے دردی کے ساتھ اُس کے جسم کے نازک اعضاء کو استری سے داغا گیا اور پھر استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح اُس کو چلتی گاڑی سے باہر پھینکا گیا۔ کیا یہ سب کچھ اس معاشرے میں نہیں ہو رہا ہے؟
معصوم بچیوں کے ساتھ کیا کیا ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ نام لیے بغیر لڑکیوں نے جو تاثرات اخبار میں قلم بند کیے تھے وہ پڑھ کر انسان تو کیا ایک درندہ بھی کانپ کے رہ جاتا ہے۔ کیا سب کچھ ہمارے معاشرہ میں نہیں ہو رہا ہے؟
یقیناً ہو رہا ہے لیکن ہم آنکھیں بند کیے ہوئی ہیں۔ ہمیں منٹو کو مطعون کرنے کی بجائے اپنے معاشرہ کے اندر پھیلی ہوئی غلاظتوں پر نظر ڈالنی چاہیے ۔ اپنے اُن گہرے زخموں کا علاج سوچنا چاہیے جس کے علاج سے ہم اغماض برت رہے ہیں اور وہ ناسور بنتے جا رہے ہیں۔ منٹو نے ہمارے انہی کھردرے حقائق کو بے رحمی سے موضوع بنایا اور ہمیں برقی جھٹکا لگا کر چونکا دیا۔ وہ تختہ سیاہ پر ہمارے معاشرہ کے اندر پھیلے ہوئے گناہوں کو سفید چاک سے لکھتے رہے تاکہ سیاہی اور بھی نمایاں ہو۔ انھوں نے نام نہاد مہذب معاشروں اور اس کے شریف النفس انسانوں کے اندر چھپی ہوئی غلاظتوں کو باہر لانے کی کوشش کی ہے۔ منٹو نے معاشرے کی زندگی کے اُن پہلوئوں کو موضوع بنایا ہے۔ جنھیں ہاتھ لگاتے ہوئے دوسروں کو گھن آتی ہے کیونکہ ان کو علم تھا کہ جنسی بے راہ روی اور جنسی گھٹن معاشرے میں کیسے گھنائونے اقدار کی تشکیل کرتی ہے۔ انھوں نے جنسی اور نفسیاتی نوعیت کے افسانے لکھ کر مکروہ صورت انسانوں اور شرافت کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو معاشرہ کے روبرو ننگا کر دیا۔
مشہور نقاد سید عابد علی عابد رقم طراز ہیں ''منٹو کے افسانوں کے موضوعات اور کردار زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے کرداروں میں طوائفیں بھی ہیں، دلال ، کلرک ، مولوی، استاد ، کوچوان منافق چہرے والے لوگ بھی۔ قریب قریب ہمارے معاشرے کے ہر طبقے کے افراد کو منٹو نے بہت قریب سے دیکھا ہے اور جس کے افراد کم وبیش منٹو کے حمام میں سب ننگے ہیں۔''
ہمارے معاشرہ میں اس وقت جو ظلم جبر، استحصال اور خاص طو رپر عورت کا استحصال ہو رہا ہے۔ منٹو کے افسانوں میں کھل کر اس پر نشتر چلایا گیا ہے۔ اگرچہ منٹو کی اس طرح کھلی سچائی پر مذہبی اجارہ داروں، منافقوں اور سخت گیر اقدار کے داعیوں نے الزامات لگائے مگر اُن کے جذبہ استقامت پر ضرب لگانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں جو دور دور تک پھیلی ہوئی جنسی برائیاں ہیں۔ انہی برائیوں کے خاتمے کے لیے منٹو نے ان پر قلم اٹھایا ہے۔ وہ ہمارے معاشرے کی رگوں میں بہنے والے خون سے گندگی کے جراثیم علیحدہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ برائیاں منٹو کو مرغوب ہرگز نہ تھیں۔ ان برائیوں کو سامنے لانے کا مقصد ان کا خاتمہ اور اعلیٰ انسانی اقدار کا تحفظ تھا۔ اس بارے میں ڈاکٹر انور سدید اپنی شہرہ آفاق کتاب ''اردو ادب کی تحریکیں'' میں رقم طراز ہیں۔ ''منٹو کے افسانوں میں جنس ایک غالب قدر کی حیثیت رکھتی ہے لیکن جب یہ ارتکاب گناہ میں معاون بنتی ہے تو روح کو بھی زخمی کر دیتی ہے۔ ہر چند منٹو نے اس کے اظہار میں بے باکی اور فنکارانہ آزادی کا حق استعمال کیا ہے۔ لیکن ''کالی شلوار''، ''ٹھنڈا گوشت''، ''بلائوزر''، ''پھاہا'' ، ''سرکنڈوں کے پیچھے'' جیسے افسانے ناپختہ ذہنوں پر منفی اٹر ڈال سکتے ہیں لیکن گندگی کے ڈھیر پر ڈھکنا قائم رکھنے کی ضرورت کو منٹو نے نظر انداز کر دیا۔''
منٹو نے اپنے افسانوں میں جنس کے ساتھ ساتھ ظلم اور جبر پر بھی بڑی بے باکی کے ساتھ قلم اٹھایا ہے اور ہمارے معاشرے کی دکھتی ہوئی رگ پر انگلی رکھی ہے۔ ان کے افسانوں کو پڑھ کر اس کے آئینے میں عورت کے جسمانی استحصال پر ایک طرف ہم آبدیدہ ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف اُن کی تحریروں کے آئینے میں ہمیں اپنے معاشرے کی ظاہر داری، جھوٹ، منافقت، نام نہاد شرافت اور پارسائی کا پردہ بھی سرکتا ہوا نظر آ جاتاہے اور معاشرہ کے لوگوں کا اصل چہرہ اور روپ ہمیں نظر آ جاتا ہے۔ اُن کے افسانے اصل انسان کی تلاش کے تجربے ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے بعد بھی منٹو نے خوب لکھا۔ مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کے دوران جواپنوں اور غیروں نے ظلم کیے سب کا پردہ چاک کیا۔ عورتوں کا جسمانی استحصال مردوں کی ہوسناکی، ظلم و جبر اور جنسی جنون کا نقشہ بڑی خوبی سے کھینچا ہے۔ ''ٹھنڈا گوشت''، ''کھول دو''، ''سڑک کے کنارے''، ''سوکینڈل پاور کا بلب''، ''ڈھارس''، ''چغد''، پڑھیے کلمہ''، ''او میرا نام رادھا ہے'' ہمارے معاشرہ کے عکاس ہیں۔
ہم اپنے معاشرہ میں مردوں کی ہوسناکی اور عورت کی مظلومیت اور جسمانی استحصال کاتماشا کرنا چاہتے ہیں تو ''سڑک کے کنارے'' کو اٹھا کر پڑھیں۔ اگر اپنے معاشرہ میں ہیرا منڈی وغیرہ میں اپنے جسم کو فروخت کرنے والی عورتوں کی مجبوریاں ملاحظہ کرنا چاہتے ہوں۔ تو ''سوکینڈل پائور کا بلب'' پڑھیے۔ اگر اپنے معاشرے کے نفسیات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ''بابو گوپی ناتھ'' اور ''میرا نام رادھا ہے'' کو ملاحظہ فرمائیں تاکہ ہمارے معاشرے کے اُن ریاکاروں کا اصل چہرہ آپ کو نظر آ جائے جو بظاہر پاک باز اور شریف بنے ہوئے ہیں۔ ''میرا نام رادھا ہے'' میں راج کشور جو کہ ایک سراپا دھوکہ ہے۔ ایسے لوگ آپ کو ارد گرد اپنے معاشرہ میں بہت سے نظر آئیں گے۔
منٹونے ہمارے منافق اور ریاکار معاشرے کے منہ پر بھرپور طمانچے رسید کیے ہیں وہ خود لکھتے ہیں ''زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔ اگر آپ اس کو برداشت نہیں کر سکتے ، تو اس کامطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں وہ اس معاشرہ کی برائیاں ہیں۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ، دراصل وہ موجودہ معاشرے اور نظام کا نقص ہے۔''
بقول ممتاز مفتی ''منٹو کے تخیل میں بجلی کی سی تیزی اور چمک تھی۔ اُن کامطالعہ بے حد وسیع تھا۔ اُن کی نگاہ میں مناسب تفصیل پا لینے کی صلاحیت تھی اور اس کاقلم بے تکان تھا۔ منٹو کو یہ ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو کہ منٹو مر جائے اور سعادت حسن پیچھے رہ جائے۔ لیکن آج منٹو کانام زندہ اور زبان زد عام ہے۔''
ہمارے معاشرے میں زنانہ کالجز اور تعلیمی اداروں کے باہر ڈیرہ ڈالنے والے اوباش نوجوان ، بازاروں میں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نکلنے والی خواتین کا سر سے لے کر پائوں تک ایکسرے لینے والے مرد ملک کے بیشتر علاقوں میں مسلمانوں کے خون میں ہاتھ رنگنے والے کردار، قانون کو مکڑی کا جالا سمجھ کر توڑنے والے سیاست دان، زور اور زر کے ذریعے دوسروں کو غلام بنانے والے اور روزانہ اخباروں کی زینت بننے والی بیبیاں تحریروں کے زندہ اور جیتے جاگتے کردار ہیں اور ہمارے منہ پر ایک بھرپور طمانچہ ہیں۔ ہاں ہمارا معاشرہ وہ معاشرہ ہے، جس کے بارے میں منٹو نے کہا تھا کہ ''اس برہنہ معاشرے کو برہنہ گوئی ہی سے زچ کیا جا سکتاہے۔''