اشاریہ اردو جرائد

ادارہ فروغ قو می زبان (حکومت پاکستان) نے پاکستان میں اعلیٰ اردو تحقیق کو بین الاقوامی معیار پر لانے کے لیے اعلیٰ تعلیم کمیشن (ایچ ای سی) کی دیرینہ سفارش پر اشاریہ اردو و جرائد کے سلسلے کاآغاز مجلہ 'علم و فن' کے اولین شمارہ ہی سے کردیا تھا۔ جامعات اور ڈگری دہندہ تعلیمی اداروں نے محکمہ قومی زبان کی اس کاوش کو نہایت وقعت دی۔ اس پذیرائی کے عملی اظہار کی فوری صورت تو یہ ہوئی کہ اردو کے تحقیقی جرائد نے علم و فن کے اسلوب کو اپناتے ہوئے اپنے ہر شمارے کا اشاریہ مرتب کرکے خود بھی شائع کرنا شروع کردیا ہے۔ البتہ کئی ایک جرائد نے اسی اسلوب میں اپنی ترجیحات کے مطابق کچھ حذف و اضافہ یا ترتیب میں قدرے ردوبدل لاکر اپنا اشاریہ شائع کیا ہے۔ بہرحال محکمہ قومی زبان ان مجلات کے شمارہ وار اشاریہ جات کو اپنے شائع کردہ مجموعی اشاریہ اردو جرائد کے اسلوب پر ہی شائع کرے گا تاکہ تمام محققین سب جرائد کو یکجا پاکر اپنے تحقیقی عمل کو آگے بڑھاسکیں۔
علم و فن کے اولین شمارہ میں آٹھ ڈگری دہندہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اردو تحقیقی جرائد کا اشاریہ شائع کیا گیا تھا۔ دوسرے شمارے میں بھی یہ تعداد آٹھ ہی تھی مگر اس میں بعض اولین جرائد کی جگہ دوسرے جرائد شامل تھے۔ اس بار سات مجلات کا اشاریہ شامل اشاعت ہے۔ یہ کمی بیشی تو ہوتی رہے گا کہ کبھی کوئی ایک اور کبھی کوئی دوسرا جریدہ تاخیر اشاعت کے باعث شامل نہیں ہوگا۔ یہ معمول کی تبدیلیاں ہیں۔ اصل مقصد یہ ہے کہ ان اردو جرائد کی اشاعت میںرکاوٹ نہ آئے اور اعلیٰ تعلیم کمیشن انھیں بہتر درجہ میں شامل رکھے۔
اگرچہ مجلہ 'علم و فن' ماہرین اردو اور مدیران کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے مگر ہم اس میں مزید استقلال و توسیع کے متمنی ہیں۔ چنانچہ یہ کوشش جاری و ساری رہے گی۔ ہمیں صرف آپ کا تعاون درکار ہے۔

صفدررشید

اشاریہ اُردو جرائد
اعلیٰ تعلیم کمیشن کے تسلیم شدہ اردو جرائد کا اشاریہ

بازیافت (اردو): ۲۰: جنوری تا جون ۲۰۱۲ئ، شعبۂ اردو، یونیورسٹی اوریئنٹل کالج، لاہور

آغاز: جنوری ۲۰۰۲ء اوّلین مدیر: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، موجودہ مدیر: ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری کل شمارہ جات: ۲۰

صفحہ نمبر

تلخیص ِمقالہ

مقالہ نگار

عنوان

نمبرشمار

۹
تا
۳۸
ہجرتِ حبشہ تاریخِ اسلام کا نہایت اہم واقعہ ہے۔ اس مقالے میں ہجرتِ حبشہ کے اسباب، محرکات، ہجرت کا احوال اور صحابہ کا حبشہ میں قیام اور نجاشی کے حسنِ سلوک کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔
ظہور احمد اظہر
ہجرتِ حبشہ: تاریخ اور عبرتیں
۱
۳۹
تا
۷۰
مقالہ سیم التواریخ آخری تاجدارِ اودھ واجد علی شاہ کے خطوط کا نو دریافت شدہ مجموعہ پر بحث کرتاہے جو انھوں نے اپنی عزیز ترین ملکہ سیمتن کے نام لکھے تھے۔ اس کتاب کا نادر نسخہ آسٹرین نیشنل لائبریری کے مخطوطات میں محفوظ ہے۔
محمد اکرام چغتائی
سیم التواریخ
۲
۷۱
تا
۹۰
وحدت الوجود تصوف کی اصطلاح ہے۔ مختلف صوفیہ اور علماء نے اس کی مختلف تعریفیں کیں۔ اس مقالے میں اکابر اہل تصوف کے وحدت الوجود کے حوالے سے نظریات اور وحدت الوجود کے مخالفین کے نظریات بھی مقالے میں شامل کیے گئے ہیں۔
حنیف خلیل
وحدت الوجود
۳
۹۱
تا
۱۰۰
اردو عروض تاحال اپنی مستقل حیثیت اور جداگانہ شناخت منوانے میں ناکام رہا ہے۔ اردو عروض میں جو پیچیدگیاں اور اغلاط ہیں ان کے ادراک کے نتیجے میں دو طرح کے ردِعمل سامنے آئے۔ اس مقالے میں اردو عروض کے نقائص اور پیچیدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کی اصلاح بھی کی گئی ہے۔
محمد زبیر خالد/روبینہ ترین
اردو عروض: تنقیحات اور اصلاحات
۴
۱۰۱
تا
۱۱۱
اس مقالے میں جدید دور میں ادب کی تدریس پر بحث کی گئی ہے۔ مقالہ نگار نے ادب کا قدیم اور جدید تصور بھی پیش کیااور اس بات کی بھی وضاحت کی کہ ادب کی تدریس کے ذریعے زندگی کے کن کن شعبوں سے انسان کو آگہی ملتی ہے۔
محسنہ نقوی
عہدِ جدید میں ادب کی تدریس کا جواز
۵
۱۱۳
تا
۱۲۸
اردو کے آغاز کے متعلق ابھی بھی ماہرینِ لسانیات تحقیق کر رہے ہیں۔ اردو کی ابتداء کے حوالے سے زیادہ تحقیقات فارسی کے حق میں ہیں تاہم مقالہ نگاروں کا مفروضہ یہ ہے کہ اردو ترکی زبان سے بنی ہے۔ مقالے میں دعوے کو ثابت کرنے کے لیے مختلف حقائق اکٹھے کیے گئے ہیں اور ان کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
میاں مشتاق احمد/صغریٰ بیگم
ترکی اور اردو کا تعلق
۶
۱۲۹
تا
۱۴۴
اس مقالے میں اردو گیت نگاری میں مجلہ ''سیپ'' کے کردار کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ مقالہ نگاروں نے گیت نگاری اور اردو کے اہم گیت نگاروں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے گیتوں کے موضوعات کا تجزیہ کیا ہے۔
ممتاز خان کلیانی/ محمد آصف جہانگیر
اردو گیت نگاری کے فروغ میں مجلہ ''سیپ'' کا کردار
۷
۱۴۵
تا
۱۵۶
اردو پاکستان کی قومی زبان ہے جو خط نستعلیق اور نسخ دونوں میں لکھی جاتی ہے۔ اردو رسم الخط کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں عربی، فارسی اور ہندی زبانوں کے صوتیے بھی شامل ہیں۔ اس مقالے میں اردو رسم الخط میں ہائے دو چشمی (ھ) کی حیثیت اور اس کے استعمال کا جائزہ لیا گیا ہے۔
محمد سلمان اطہر
اردو رسم الخط میں ہائے دو چشمی (ھ) کی حیثیت اور استعمال: ایک تنقیدی جائزہ
۸
۱۴۵
تا
۱۵۶
اردو پاکستان کی قومی زبان ہے جو خط نستعلیق اور نسخ دونوں میں لکھی جاتی ہے۔ اردو رسم الخط کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں عربی، فارسی اور ہندی زبانوں کے صوتیے بھی شامل ہیں۔ اس مقالے میں اردو رسم الخط میں ہائے دو چشمی (ھ) کی حیثیت اور اس کے استعمال کا جائزہ لیا گیا ہے۔
قمر عباس
اردو شاعری میں اسالیب کا ارتقائی مطالعہ
۹
۱۸۳
تا
۱۹۰
اردو شاعری پڑھنے والوں کی بڑی تعدادجعفر طاہر کے کانتوز کو پسند کرتی ہے۔ اگرچہ وہ اچھے کانتوز لکھتے ہیں لیکن جعفر طاہر نے اردو غزل کو مذہبی رنگ دیا نیز رزمیہ انداز کی غزل بھی کہی۔ وہ ترقی پسند شاعر ہیں لیکن کسی ترقی پسند تحریک کے رکن نہیں ہیں۔
طارق ہاشمی
جعفر طاہر کی غزل
۱۰
۱۹۱
تا
۲۱۳
اردو ادب ترجمے کی مضبوط روایت موجود ہے۔ اس مقالے میں مختلف ادوار میں ہونے والے اردو تراجم کی تاریخی حیثیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔
پروین کلو
اردو ادب میں ترجمے کی تاریخی حیثیت
۱۱
۲۱۵
تا
۲۳۴
خاکہ نگاری ادب کی ایک تخلیقی صنف ہے جو فنِ خاکہ نگاری، انسانی فطرت کے مطالعے کے بہت قریب ہے۔ خاکہ نگاری ایک ایسا آئینہ ہے جس میں کسی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔ مقالہ میں اسی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
محمد افتخار شفیع
مطالعۂ انسان اور فنِ خاکہ نگاری
۱۲
۲۳۵
تا
۲۴۶
۱۹۶۰ء کی دہائی کے آغاز میں حلقۂ اربابِ ذوق کے کچھ نقادوں نے لسانیات کا جو نیا نظریہ پیش کیا اسے ''نئی لسانی تشکیلات'' کہا جاتا ہے۔ اس مقالے میں اس تحریک کے نقطۂ نظر اور تنقید میں اس کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اورنگ زیب نیازی
لسانی تشکیلات کی تحریک اور تنقید
۱۳
۲۶۴
تا
۲۷۴
اردو غزل ہر دور میں اپنے عہد کی ترجمان رہی ہے۔ موجودہ عہد میں لکھی جانے والی غزل کاایک بڑا موضوع دہشت گردی کا ہے۔ مقالہ میں اسی کو موضوع بنایا گیا ہے۔
عمران ظفر
معاصر عالمی حالات میں دہشت گردی کے موضوع پر لکھی جانے والی غزل
۱۴
۲۶۵
تا
۲۸۴
اورینٹل کالج کو ابتداء ہی سے ایسے اردو اساتذہ میسر آئے جو عربی اور فارسی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ ان اساتذہ نے چند متون کی تدوین کی لیکن تدوین کے اصول بھی وضع کیے ہیں اور اس فن کو حقیقی معنوں میں سائنسی بنا دیا۔ اس مقالے میں اورینٹل کالج میں تدوین متن (اردو) کی روایت کا جائزہ لیا گیا ہے۔
عظمت رباب
یونی ورسٹی اوریئنٹل کالج میں تدوین متن (اردو) کی روایت
۱۵
۲۸۵
تا
۲۹۲
مشفق خواجہ اردو کے نامور ،محقق، نقاد، مدیر، شاعر اور کالم نگار تھے۔ ان کے کالموں میں ادبی موضوعات کا ایک جہاں نظر آتا ہے۔مقالہ زیر نگاہ میں مشفق خواجہ بحیثیت ادبی کالم نگار محاسن کا احاطہ کیا گیاہے۔
شفیق احمد شنواری
مشفق خواجہ: بطور ادبی کالم نگار
۱۶
۲۹۳
تا
۳۰۲
اس مقالہ میں جدید نظم نگاری کے فروغ میں حلقۂ اربابِ ذوق کے بنیادی رکن شعرا ء میں میرا جی، ن۔م۔راشد، یوسف ظفر، قیوم نظر، مختار صدیقی اور ضیاء جالندھری پر مباحث شامل ہیں۔
حنا کنول
حلقۂ ارباب ذوق کے شعرأ
۱۷
۳۰۳
تا
۳۱۰
جاپان میں اردو لغت نویسی کا اردو کی ترویج میں اہم کردار ہے۔ جاپان میں اردو کی تدریس کے دو بڑے مراکزمیں لغت نویسی کے حوالے سے اس مقالے میں ان اساتذہ کی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے جنھوں نے لغت نویسی کے حوالے سے نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔
محمد فخر الحق نوری
جاپان میں اردو… لغت نویسی کے تناظر میں
۱۸
۳۱۱
تا
۳۱۸
زبان ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ زبان کے ذریعے ایک خیال کا اظہار کئی طرح سے کیا جا سکتا ہے۔ جب ایک زبان سے خیال کو دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا ہے تو بعض اوقات مکمل ابلاغ نہیں ہو سکتا کیوں کہ ترجمے کے دوران زبان کے کئی طرح کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ اس مقالے میں ان مسائل کی نشاندہی کے ساتھ اردو شاعری کے انگریزی تراجم کا جائزہ لیا گیا ہے۔
محمد کامران
اردو شاعری کے انگریزی تراجم اور زبان کے حوالے سے ترجمے کے مسائل
۱۹

تحقیق (اردو):جلد ۲۰ شمارہ :۱؛ جنوری تا جون ۲۰۱۲ئ، شعبۂ اردو، سندھ یونیورسٹی، جام شورو

آغاز: ۱۹۸۷ء اوّلین مدیر: ڈاکٹر نجم الاسلام، موجودہ مدیر:ڈاکٹر سید جاوید اقبال کل شمارہ جات: ۲۰

۱
تا
۵
اس مقالہ میں اردوادب میں خطوط نویسی کے حوالے سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ خط کی پہلی خوبی یہ ہے کہ وہ اصل ہو۔ اسے مصنف نے خود تحریر کیا ہو۔ قاری خط پڑھنے سے مصنف کی شخصیت کا اندازہ لگا سکے۔ ایسے خطوط تحقیق میں اپنے متن اور سیاق و سباق کے حوالے سے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں۔
عطش درانی
تحقیق میں خطوط کی اہمیت
۱
۶
تا
۶۱
یہ مقالہ اردو ادب میں خطوط نویسی کی ابتداء اور روایت پر تحریر کیا گیا ہے۔ خط نویسی کی تاریخ لمبی اور روایت مضبوط ہے۔خطوط صرف باہمی میل ملاپ کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ یہ پرمزاج بھی ہوتے ہیں۔
نسرین ممتاز شبیر
خط کے معنی، ابتداء اور خطوط نویسی کی روایت
۲
۶۲
تا
۹۳
یہ مقالہ نقشبندی مشائخ دبستانِ سندھ کی خطوط نویسی کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ مشائخ خطوط کے ذریعے برصغیر پاک و ہند کے مختلف خطوں میں رہنے والے اپنے مریدوں کو اسلام کی تبلیغ کرتے تھے۔
ذوالفقار علی
نقشبندی روحانی رہنمائوں(سکالرز۔ مشائخ) کی خطوط نویسی
۳
۹۴
تا
۱۰۸
اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں رسالوں کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ ان رسالوں نے اردو نثر اور شاعری کے ساتھ ساتھ خطوط بھی شائع کیے۔ یہ مقالہ اردو رسالہ ''سب رس''کراچی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس رسالے نے برصغیر کے بہت سے نامور اہل علم کے خطوط شائع کیے۔
سید طارق حسین رضوی
اُردو خطوط نویسی میں ماہنامہ ''سب رس'' کا کردار
۴
۱۰۹
تا
۱۳۰
اس مقالے میں پیر حسام الدین راشدی کے ۳۴ خطوط بنام پروفیسر ڈاکٹر احمد حسین قریشی قادری شامل ہیں۔ فارسی ادب اور تاریخ سندھ میں پیر صاحب کی تحقیقی خدمات کو تسلیم کیا گیا ہے۔
عارف نوشاہی
حسام الدین راشدی کے خطوط بنام احمد حسین قادری
۵
۱۳۱
تا
۱۳۵
مولوی عبدالحق نے بڑی تعداد میں نادر مخطوطوں کو مدون کیا۔ انھوں نے اپنی زندگی اردو زبان وادب کی ترویج و ترقی کے لیے وقف کر دی۔ مقالہ میں ان کے چند خطوط بنام مرزا ظفر الحسن نامور مصنف، براڈ کاسٹر اور سول سرونٹ شائع کیے گئے ہیں ۔
رؤف پاریکھ
بابائے اُردو کے خطوط مرزا ظفر الحسن کے نام
۶
۱۳۶
تا
۱۳۸
مولوی عبدالحق نے ایوب قادری ( - ۱۹۲۶ئ۔۱۹۸۳ئ)کے نام کئی خطوط لکھے۔ ان خطوط میں انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان چند نایاب کتابوں کو دیکھنا چاہتے ہیں جو ایوب قادری کی ملکیت ہیں اور ایوب قادری نے اپنے خطوط میں ان کا ذکر کیا ہے۔
فائزہ حنیف
بابائے اُردو کے خطوط: ایوب قادری کے نام
۷
۱۳۹
تا
۱۶۳
یہ مقالہ ضیاء الدین برنی کولکھے گئے اسّی نامور افراد کے ۳۰۰ خطوط پر مشتمل ہے۔اس مقالہ کے کچھ خطوط ماہرالقادری کے بھی موضوع زیرِ بحث رہے جو اپنے مواداورسادہ زبان کی بناء پر اردو ادب کا اہم حصہ ہیں۔
رؤف احمد
مولانا احسن ماہروی اور ضیاء الدین احمد برنی کے مابین خطوط نویسی
۸
۱۶۴
تا
۲۸۷
یہ مقالہ برصغیر کے دو ادیبوں نثار احمد فاروقی اور لطیف الدین الزمان کے مابین تعلق کو واضح کرتے ہیں۔ دونوں افراد کے درمیان ۱۴ سال تک خطوط کے ذریعے رابطہ رہا۔یہ خطوط ان دونوں کے درمیان بدلتے ہوئے تعلقات اور رویوںکی عکاسی کرتے ہیں۔
ابرار عبدالسلام
خطوط نثار احمد فاروقی بنام لطف الزمان خان
۹
۲۸۸
تا
۳۰۵
یہ جگن ناتھ آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ خطوط ڈاکٹر آفاقی کے ذاتی خطوط کے مجموعے سے لیے گئے ہیںجو دو دہائیوں پر مشتمل ہیں۔
عبدالکریم
جگن ناتھ آزاد کے ڈاکٹر صابر آفاقی کے نام خطوط
۱۰
۳۰۶
تا
۳۴۴
ڈاکٹر ظہور الدین گیان چند کے پسندیدہ شاگرد ہیں جو کہ اردو میں ۲۲ کتابوں، سو تحقیقی مقالوں اور انگریزی کے ۲۵ مقالات کے مصنف ہیں۔ خطوط کا یہ مجموعہ اُن کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات کا بہت اہم ذریعہ ہے۔ مقالہ میں گیان چند کے اکیس خطوط شامل ہیں ۔
دردانہ جاوید
ڈاکٹر گیان چند کے پروفیسر ظہور الدین کے نام خطوط
۱۱
۳۴۵
تا
۳۶۰
نئی نسل نے تحقیق مظہر محمود شیرانی سے سیکھی ۔ خطوط کا یہ مجموعہ اردو ادب میں مظہر محمود شیرانی کے تحقیق میں مقام پر مبنی ہے۔
مظہر محمود شیرانی
مکتوبات رشید حسن خاں بنام ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی
۱۲
۳۶۱
تا
۴۱۴
یہ تحقیقی مقالہ انمختلف شخصیات کے خطوط کا مجموعہ ہے جو محمد علی اثر کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
محمد علی اثر
محمد علی اثر کے نام خطوط
۱۳
۴۱۵
تا
۴۲۵
یہ مقالہ مالک رام کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے یہ خطوط حیرت کو تب لکھے جب وہ مصر اور عراق میں تھے۔ یہ خطوط ۱۹۵۰ء میں برصغیر کے سیاسی حالات اور انتشار کی بحث پر مشتمل ہیں۔
انیس شاہ جیلانی
مکتوباتِ مالک رام بنام حیرت شملوی
۱۴
۴۲۶
تا
۴۶۸
یہ مقالہ حیرت شملوی کے۱۹۴۹ء ۔۱۹۶۲ء کے درمیان لکھے گئے خطوط پر مشتمل ہے۔ یہ خطوط ہم عصرشاعروں اور ان کے اردو ادب میں کردار کے تنقیدی جائزے پر مشتمل ہیں۔
شاہ انجم
حیرت کے جلیل قدوائی کے نام خطوط
۱۵
۴۶۹
تا
۴۸۷
ڈاکٹر سیّد امام ( ۱۹۱۰ئ۔۱۹۹۳ئ) نے علی گڑھ سے ایم اے ،بون سے ڈاکٹریٹ کیا اور کلکتہ اور سیلون کی یونیورسٹیوں تک میںپڑھایا۔ بعد میں پاکستان کی فارن سروس میں شمولیت اختیار کی۔اس مقالے کا موضوع وہ پانچ خطوط ہیں جو انھوں نے کولمبو، برسلز، کینڈی اور کراچی سے لکھے تھے۔
محمد سلیم اختر
ڈاکٹر سید اختر امام کے نئے دریافت شدہ خطوط
۱۶
۴۸۸
تا
۴۹۶
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ایک طالب علم پاکستان بننے کے دس سال بعد نواب مشتاق احمد گورمانی (۱۹۰۵ئ۔۱۹۸۱ئ) ایک ممتاز سیاستدان کے نام سے اُبھرے۔ اس مقالے میں ان خطوط کا جائزہ لیا گیا ہے جو انھوں نے خواجہ عبدالرشید کو تحریر کیے تھے۔
محمد سلیم اختر
نواب مشتاق احمد کے خطوط بنام لیفٹیننٹ کرنل خواجہ عبدالرشید
۱۷
۴۹۶
تا
۵۴۴
ڈاکٹر ابن فرید ( ۱۹۲۵ئ۔۲۰۰۳ئ) ماہر نفسیات، علم الانسان،کہانی نویس، نقاد اور ماہر عمرانیات ادیب تھے۔ آپ ''نئی نسلیں''، ''دانش''، ''معیار''اور''جرنل'' کے مدیر بھی تھے۔اس مقالے میں ڈاکٹر ابن فرید اور مشفق خواجہ کے مابین لکھے گئے خطوط کا جائزہ لیا گیا ہے۔
خالد ندیم
ڈاکٹر ابن فرید اور مشفق خواجہ کے مابین خطوط نویسی
۱۸
۵۴۵
تا
۵۸۷
یہ مقالہ ۲۵ خطوط کا مجموعہ ہے جو لطیف الزماں نے نذیرصدیقی کو لکھے۔ یہ خطوط مختلف ادیبوں کو ۱۹۷۵ء سے ۲۰۰۶ء کے دورانیے میں لکھے گئے اور ان کی کاوشوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
نثار احمد
خطوط بنام نذیر احمد صدیقی
۱۹
۵۸۸
تا
۶۲۷
یہ مقالہ ان ۴۵ منتخب خطوط پر مشتمل ہے جو ڈاکٹر سیّد منیر احسان نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو لکھے۔ یہ خطوط ۱۹۶۴ء سے ۲۰۰۲ء تک تقریبا ۴ دہائیوں کے ادوار کا احاطہ کرتے ہیں۔
محمد سعید
ڈاکٹر سید منیر رحمان کے خطوط بنام ڈاکٹر فرمان فتح پوری
۲۰
۶۲۸
تا
۶۴۲
یہ مقالہ ابو محمد سحر (بھوپال) کے خطوط بنام پروفیسر حنیف نقوی پر مشتمل ہے جس میں مختلف مقامات کی لائبریریوں کی شائع شدہ کتب کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
سید حسن عباس
ابو محمد سحر کے خطوط بنام پروفیسر حنیف نقوی
۲۱
۶۴۳
تا
۶۴۴
اس مقالے میں محمد حسین عنقا کے مختلف ادبی شخصیات کو لکھے گئے چند خطوط کا جائزہ لیا گیا ہے۔
خالد محمود خٹک
محمد حسین عنقا ۔ ایک مسئلہ اور تین خطوط
۲۲
۶۷۰
تا
۶۹۲
رشید احمد صدیقی کے خطوط میں طنز و مزاح کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اس مقالے میں اسی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تزئین گل
رشید احمد صدیقی کے خطوط میں طنز و مزاح کے عناصر
۲۳
۶۹۳
تا
۷۰۰
یہ مقالہ فیض کی خط نویسی کے فن سے متعلق ہے۔انھوں نے اپنے خطوط میں ذاتی اور جذباتی زندگی کا بہت ذکر کیا ہے۔ انھوں نے تب بھی خطوط لکھے جب وہ علاج کی غرض سے بیروت میں مقیم تھے۔
روبینہ شہناز
فیض کا فن خط نویسی
۲۴
۷۰۱
تا
۷۱۶
منٹو کے ندیم کو لکھے گئے خطوط ان کی شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ ان کی سیاست، معاشرت اور ماحول کو بھی دکھاتے ہیں۔ یہ خطوط ان کے فنونِ لطیفہ اور ادب کے متعلق خیالات، مختلف ادیبوں کے ساتھ ان کے تعلقات کو ظاہر کرتے ہیں۔
محمدآصف
تحقیق اور تنقید کی روشنی میں منٹو کے خطوط
۲۵
۷۱۶
تا
۷۳۹
مہاراجہ کشن پرشاد اقبال کے حیدر آباد کے دوستوں میں سے ہیں۔ اقبال اور مہاراجہ پرشاد کے مابین لکھے گئے خطوط کو ڈاکٹر محی الدین قادری زورنے ۱۹۴۲ء میں پہلی بار شائع کیا جس کا نام ''شاد اقبال'' تھا۔یہ مقالہ شاد اقبال میں موجود خطوط میں غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے جنھیں اگلی طباعت میں درست کیا جانا چاہیے۔
محمد سفیان صفی
اقبال کے مہاراجہ کشن پرشاد کے نام خطوط
۲۶
۷۵۵
تا
۶۷۰
اس مقالہ میں پریم چند کے خطوط میں ادب کے متعلق پیش کیے جانے والی اقسام کی زندگی، ادب اور تجاویز کے ساتھ ساتھ پریم چند کے ادبی فلسفہ کے پس منظر کو بھی حوالہ جات کے ساتھ زیر بحث لایا گیا ہے یہ تجویز کیا جاتا ہے
خاور نوازش
پریم چند کے خطوط کے کچھ پہلو۔ اُن کے خطوط کی روشنی میں
۲۷
۷۳۹
تا
۷۹۴
اس مقالہ میں مختلف علماء کے خطوط شامل ہیں جو کہ ڈاکٹر بشیر محمود اختر کو لکھے گئے ہیں۔ علامہ سلمان ندوی ،عبدالملک ساجد وغیرہ کے خطوط مختلف علمی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔
اشفاق حسین بخاری
خطوط بنام بشیر محمود اختر
۲۸
۷۹۵
تا
۸۲۵
حفیظ ہوشیارپوری اردو غزل میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کے ذاتی دوستوں کو لکھے گئے خطوط ان کے گہرے مطالعہ کلاسیکی ادب میں دلچسپی اور بہترین یادداشت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان خطوط کا کسی بھی بہترین علمی تحقیقی مقالہ سے موازنہ کیا جا سکتاہے۔
قرۃ العین طاہرہ
حفیظ ہوشیاری پوری کے منفرد خطوط
۲۹
۸۲۵
تا
۸۶۷
خاطر غزنوی (۱۹۲۵ئ۔۲۰۰۸ئ) کی ادب اور فن میں بہت سی خدمات ہیں ۔یہ مقالہ ان کے غیر شائع خطوط کا مجموعہ ہے جو انھوں نے چین سے اپنے دوستوں کو لکھے۔ یہ خطوط چین کے لوگوں کے طرز رہن سہن اور ثقافت کی ہلکی سی عکاسی کرتے ہیں۔
سلیمان علی
محمد ابراہیم بیگ کے چین سے سفری خطوط
۳۰

تحقیق نامہ (اُردو): شمارہ ۱۳؛ جولائی تا دسمبر۲۰۱۳ئ؛ شعبۂ اُردو؛ جی سی یونیورسٹی، لاہور

آغاز: ۱۹۹۱ء اولین مدیر: ڈاکٹرسید معین الرحمن موجودہ مدیر : ڈاکٹر شفیق عجمی کل شمارہ جات: ۱۱

۷
تا
۱۶
ابن العربی، جلال الدین رومی اور محمد اقبال نے قرانِ مقدس سے اپنے افکار کی آبیاری کی ہے۔ یہ اس ممتاز تہذیب سے منسلک ہیں جس نے بنی نوع انسان کو بہترین طرزِ معاشرت کی ترغیب دی۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ذاتِ حقیقی ہی واحد خالقِ کائنات ہے۔مقالے میں ان مفکرین کے نظریۂ وحدت الوجود سے بحث کی گئی ہے۔
سعادت سعید
ابنِ عربیؒ، مولانا روم اور نظریہ وحدۃ الوجود
۱
۱۷
تا
۲۰
غالب کی شاعری کا انگریزی اور بہت سی دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ قارئین کے لیے یہ مقالہ غالب کی عظمت کو جاننے کے لیے ایک بنیادی دستاویز ثابت ہو گا۔
محمد کامران
غالب آن لائن تنقید کی روشنی میں
۲
۲۱
تا
۲۵
اُردو ادب میں پریم چند اپنے افسانوں کے طفیل امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس مقالہ میں پریم چند کے افسانوں میں خود کلامی کے عنصر کی پیشکش کا جائزہ لیا گیا ہے۔
سلمان علی
پریم چند اور مونو لاگ بحوالہ افسانہ نگاری
۳
۲۶
تا
۲۹
ایران اور برصغیر کے درمیان مضبوط ثقافتی، مذہبی، سیاسی، فنونِ لطیفہ اور صنعتی روابط قدیم ادوار سے موجود ہیں۔مقالہ میں دونوں آریائی قوموں کے درمیان کبھی نہ ٹوٹنے والے تعلق کے پس منظر میں ان کے آبائو اجداد کی مشترکہ معاشرت، یک زبانی کو قبل از اسلام تناظر میں پرکھا گیا۔
محمد اقبال ثاقب
ایران اور برصغیر کے درمیان پیش از اسلام روابط کی مختصر تاریخ
۴
۳۰
تا
۳۳
احمد بشیر کے ناول ''دل بھٹکے گا'' کے حوالے سے یہ مباحث سامنے آئے کہ یہ ناول ہے یا خود نوشت سوانح عمری؟ اس مقالہ میں دونوں پہلوئوں سے دلائل دیے گئے ہیں۔ ان نکات کی وجہ سے اس ابہام نے جنم لیا کہ مستقبل میں شاید اپنی ترقی یافتہ صورت میں ایسے ناول، ناول کے نئے اسالیب کے ظہور کا باعث بن جائیں۔
خالد محمود سنجرانی
''دل بھٹکے گا'' ناول یا آپ بیتی
۵
۳۴
تا
۴۵
اس مقالے میں رشید حسن خاں کے تحقیقی طریقہ ہائے کار میں سے مختلف مثالوں کے ذریعے یہ نکتہ سامنے لایا گیا ہے کہ اُردو ادب میں رشید حسن خاں کو ترقی پسند محقق کے طور پر شناخت کیا جانا چاہیے۔
محمد سعید
اُردو کا پہلا ترقی پسند محقق: رشید حسن خاں
۶
۴۶
تا
۵۳
''فرہنگ قواس'' فخر الدین قواس نے علاء الدین خلجی کے دور میں لکھی۔ یہ فارسی کی فرہنگ ہے جو فردوسی کے شاہ نامہ میں موجود بہت سے عربی الفاظ اور ان کے مختلف پہلوئوں کو بیان کرتی ہے۔یہ سب سے پہلی فرہنگ ہے جو کہ برصغیر پاک و ہند میں مکمل کی گئی۔ اس فرہنگ میں فارسی الفاظ کو اُردو کے مترادف الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔
محمد سلیم خالد
ایک قدیم فرہنگ ''فرہنگ قواس'' میں مستعمل اُردو الفاظ کا مطالعہ
۷
۵۴
تا
۵۷
علامہ اقبال کے خطبات ''اسلام میں مذہبی افکار کی تجدید نو''میں علامہ اقبال نے برصغیر میں موجود مسلمانوں کو درپیش مسائل کا ذکر کیا ہے۔ مقالہ میںان کی ثقافت پر مغربی اثرات کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔
شگفتہ حسین
اقبال کا نظریۂ اسلامی ثقافت
۸
۵۸
تا
۷۰
ڈاکٹر خیال امروہوی معروف شاعر اور مفکر تھے۔ اس مقالہ میں ان کی شاعری میں موجود مزاحمتی فکر کے عناصر کو پیش کیا گیا ہے۔ وہ ترقی پسند فکر کے ذریعے سماجی تبدیلی کے متمنی تھے۔
رضیہ سلطانہ
ڈاکٹر خیال امروہوی شاعرِ فکر و انقلاب
۹
۷۱
تا
۷۹
اس مقالہ میں کلاسیکی پنجابی شاعر علی حیدر ملتانی کے ایک ترجمے کا تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ شفقت تنویر مرزا کی مذکورہ ترجمے کی کاوش ایک ادبی کارنامہ ہے ۔
محمود الحسن بزمی
کلامِ علی حیدر ملتانی کا ایک منظوم اُردو ترجمہ
۱۰
۸۰
تا
۸۹
اُردو زبان و ادب کی شاعری کی قدیم روایات کی جڑیں دکن اور گجرات میں موجود ہیں۔ یہ مقالہ دکن کے شعرا کا فارسی اور ہندی روایات کی قربت کے نڈر اقدام پر بحث کرتا ہے۔ اٹھارھویں صدی میں دکنی غزل کے یہ کردار دِلّی کی غزل میں منتقل ہوئے اور اس طرح ان کرداروں کی ترویج کا عمل شروع ہوا۔
ثمینہ ندیم
دکنی دبستان شاعری میں غزل کے کردار
۱۱
۹۰
تا
۹۷
حافظ محمود شیرانی کی تحریروں کا ایک کثیر حصہ مختلف تاریخی ادوار کی صداقتوں سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ تاریخی واقعات مختلف پڑھنے والے کو زیر بحث موضوع پر زیادہ موزوں رائے قائم کرنے کا بہتر موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس تحقیقی مقالہ کا مقصد شیرانی کی تحریروں کے تاریخی مواد کی سچائی اور مستند ہونے کو جانچنا ہے۔
فیض رسول
مقالات شیرانی میں واقعات و سانحات کا تحقیقی و توضیحی جائزہ
۱۲
۹۸
تا
۱۰۴
عبد الحلیم شرر ( ۱۸۶۰ئ۔۱۹۲۶ئ) نے ۱۸۸۷ء میں ایک ادبی رسالہ ''دلگداز'' شروع کیا جو کہ ۱۹۳۳ء تک جاری رہا۔ شرر نے ''دلگداز'' سے منتخب مضامین اکٹھے کیے اور ۱۹۲۰ء میں انھیں آٹھ جلدوں کی شکل میں شائع کرایا۔ مقالہ میں ان جلدوں کا تحقیقی مطالعہ کیا گیا ہے۔
محمد امین خاور
''دل گداز'' ایک عہد ساز رسالہ
۱۳
۱۰۵
تا
۱۳۰
سارتر کے فلسفہ وجودیت کے بیسویں صدی کے ادب پر نمایاں اثرات ہیں لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ سارتر کے فلسفے کے بہت سے عناصر غالب کے فلسفے میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ یہ مقالہ اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے۔
محمد اسرار خان
غالب اور سارتر
۱۴
۱۳۱
تا
۱۳۴
اس مقالہ میں رتن سنگھ زخمی کے چند اشعار پیش کیے گئے ہیں۔ یہ اشعار اُردو قارئین کے لیے پہلی دفعہ رتن سنگھ کے بنیادی تعارف کے ساتھ سامنے لائے گئے ہیں۔
بابر نسیم آسی
رتن سنگھ زخمی کے اُردو اشعار
۱۵
۱۳۵
تا
۱۳۹
اس مقالہ میں مقبول اور درویش شاعر پیر مہر علی شاہ کے اوائلِ زیست کے واقعات کے تناظر میں ان کی زندگی کے ابتدائی خدوخال سامنے لائے گئے ہیں۔ جو بعد ازاں ایک تخلیقی، پراثر اور اپنے عہد کی نمائندہ شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔
میاں غلام مصطفی
پیر مہر علی شاہ … جمالِ اوائلِ زیست
۱۶
۱۴۰
تا
۱۴۸
جدید شعرأ کی شاعری میں اساطیری قصے بطور موضوع اور علامت جابجا سامنے آتے ہیں۔ انسانی نفسیات اور سماجی پہلوئوں کے بہترین اظہار میں اساطیر کا اہم کردار ہے۔ اس مقالہ میں اُردو نظم میں اساطیر کے نفوذ پر بحث کی گئی ہے۔
صائمہ سلیم
اُردو نظم میں دیو مالائی عناصر
۱۷
۱۴۹
تا
۱۵۵
احمد فراز ایک جدید اور مقبول اُردو شاعر ہیں۔ اس مقالہ میں ان کی شاعری میں مزاحمتی عناصر کو اُجاگر کیا گیا ہے۔
عائشہ سلیم
انقلابی و مزاحمتی شاعری کا علمبردار … احمد فرازؔ
۱۸
۱۵۶
تا
۱۶۵
سبط حسن نے سیاسیات، صحافت، ادب اور تاریخ کے حوالے سے بہت کچھ تحریر کیا ہے جس کا بنیادی مقصد مارکسی فلسفے کی ترویج تھا۔ ان کی کوشش یہ رہی کہ توہم پرستی اور فرسودہ روایات سے معاشرے کو آزادی دلائی جائے۔مقالہ اسی کا علمی جائزہ ہے۔
میمونہ سبحانی
سبطِ حسن … بائیں بازو کا اہم دانشور
۱۹
۱۶۶
تا
۱۷۵
اُردو غزل خواہ وہ جدید ہو یا قدیم ہمارے ناقدین اور محققین کے لیے نہایت دلچسپی کا باعث رہی ہے۔ اس مقالہ میں اُردو غزل کو اس کی ابتداء سے دورِ ناسخ تک تمام ردوبدل اور ترقیاتی ادوار کے حوالے سے زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
عاصمہ اصغر
اُردو غزل کا تاریخی، لسانی اور فکری جائزہ (ابتدا سے ناسخ تک)
۲۰
۱۷۶
تا
۱۸۸
اس مقالہ میں ابتدائی اُردو ادب پر مذہبی اثرات بیان کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ کس طرح اُردو ادب کی ترویج و ترقی میں مذہبی احساسات نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
شازیہ مختار
ملفوظاتی ادب بحیثیت اہم تاریخی ماخذ
۲۱
۱۸۹
تا
۲۰۲
پاکستانی اُردو غزل ہمیشہ تصوف کے عناصر سے فیض یاب ہوتی رہی ہے۔ تصوف نے پاکستانی اُردو غزل کو صوفیانہ فلسفہ و فکر سے آبیاری کی ہے۔ ۱۹۴۷ء سے تاحال پاکستانی غزل میں تصوف کی اہم جہات کی عکاسی ہوئی ہے اور یہ اس کا طرّئہ امتیاز ہے۔
پریا تابیتا
پاکستانی اُردو غزل میں صوفیانہ جہتیں
۲۲
۲۰۳
تا
۲۰۸
غالب کی خطوط نگاری مستقبل کے سوانح نویس کے لیے انتہائی ممد و معاون ہو سکتی ہے۔ اُردو خطوط نگاری میں منفرد انداز و اسلوب اظہار کی وجہ سے غالب کے خطوط امتیازی مقام رکھتے ہیں۔
فریضہ اشرف
غالب کے خطوط میں سوانحی عناصر
۲۳
۲۰۹
تا
۲۱۴
باغ و بہار اُردو ادب کا کلاسیکی شاہکار ہے۔ اس مقالہ میں باغ و بہار سے متنی مثالوں کے ذریعے اس داستان میں موجود تحیر و تجسس کے عنصر کی نشاندہی کی گئی ہے۔
محمد اقبال
باغ و بہار میں تحیر و تجسّس کے عناصر
۲۴
۲۱۵
تا
۲۱۹
اس مقالہ میں یہ نکتہ اجاگر کیا گیا ہے کہ ممتاز مفتی کے ناول ''علی پور کا ایلی'' کے مرکزی کردار ''ایلی'' کا سماجی اور نفسیاتی مطالعہ اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نفی کو اثبات میں بدل کر ہر حادثے سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر از سرِ نو تشکیلِ ذات کر لیتے ہیں۔ ایلی بھی ان میں سے ایک ہے۔
سفیر حیدر
نفی سے اثبات کا سفر … علی پور کا ایلی
۲۵
۲۲۰
تا
۲۳۱
''ذکرِ میر'' ایک دلچسپ آپ بیتی ہے جس میں بہت سے غیر اہم واقعات کی تفصیل شامل تھی۔ اس مقالہ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کیسے میر پر معمولی معاشرتی بے ہنگم حالات اثر انداز تھے۔
محمد ہارون قادر
ذکرِ میرکی تاریخی افادیت
۲۶

تخلیقی ادب(اردو):۸؛۲۰۰۹ء ؛، نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز،اسلام آباد

آغاز: جون ۲۰۰۴ء اولین مدیر: رشید امجد موجودہ مدیر : ڈاکٹر روبینہ شہناز، ڈاکٹر شفیق انجم کل شمارہ جات :۹

۱۱
تا
۲۳
برطانوی ہند میں ''اودھ '' کی ریاست اپنی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک منفرد حیثیت کی حامل تھی۔ یہ ثقافتی اقدار کا مرکز تھی۔ اودھ کی تاریخ مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچی اور ان میں اہم ذریعہ اس وقت کے لوگوں کی خود نوشتیں ہیں۔ اس مقالے میں ان ذرائع اور ان کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے۔
معین الدین عقیل
اودھ کی تاریخ و تہذیب کے بنیادی ماخذ
۱
۲۴
تا
۴۱
احمد یار یکتا (وفات - ۱۷۳۴ئ) فارسی زبان کے ایک ممتاز شاعر ہیں۔ کچھ سال پہلے دانش کدہ خاور شناسی، پنجاب یونیورسٹی نے ان کا دیوان شائع کیا۔ شائع کنند گان کا دعویٰ ہے کہ یہ احمد یاریکتا کا کلام ہے مگر تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ان کا کلام نہیں۔ اس مقالہ میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ یہ ان کا کلام نہیں بلکہ ان کے ایک ہم عصر کا کلام ہے۔
عارف نوشاہی
احمد یار یکتا خوشابی سے منسوب مطبوعہ دیوان کی اصلیت
۲
۴۲
تا
۴۷
صغریٰ ہمایوں مرزا، ۱۸۸۴ء میں حیدر آباد کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ صغریٰ نے بچپن ہی سے ادب میں دلچسپی لی اور آخر کا ر ادب میں اپنا نمایاں مقام بنایا۔ اس مقالے میں ان کی مختلف شعبہ جاتِ ادب میں کی گئی خدمات کا تذکرہ ہے۔
محمد علی اثر
صغریٰ ہمایوں مرزا: سماجی اور صحافتی خدمات
۳
۴۸
تا
۵۸
قاضی سجاد حسین برصغیر کے معروف عالم اور مترجم تھے۔ انہوں نے فارسی ادب کی کئی تحریروں کا ترجمہ کیا۔اُن کی اِن خدمات پر ان کو ایران حکومت کی طرف سے اعزاز بھی دیا گیا۔ اس مقالہ میں ان کے ''دیوانِ حافظ'' کے ترجمے کے معیار پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔
علی بیات
قاضی سجاد حسین کا مترجمہ دیوانِ حافظ کا ترجمہ
۴
۵۹
تا
۱۲۵
غالب کی عظمت، بحیثیتِ منفرد نثر نگار اور شاعر، عالمی سطح پر مسلمہ ہے۔ اس مقالہ میں غالب کے دور سے قیامِ پاکستان تک کے ادیبوں، نقادوں اور شعراء کے خراجِ تحسین کا ذکر کیا گیا ہے جو انھوںنے غالب کو پیش کیا۔
شکیل پتافی
اردو میں غالب شناسی کی روایت: ۴۷ ء تک

۵

۱۲۶
تا
۱۵۱
انگریز بنیادی طور پر تو ہندوستان میں تجارت کی غرض سے آئے تھے مگر یہاں کے حاکم بن بیٹھے۔ حکومت کے لیے انھیں زبان کا مسئلہ در پیش تھا،جس کے حل کے لیے انھوں نے فورٹ ولیم کالج بنایا۔ اس کالج کا مقصد اردو کی خدمت نہ تھا مگر پھر بھی اس کالج نے اردو زبان و ادب کو بہت ترقی دی۔ اس مقالہ میں وہ خدمات بیان کی گئی ہیں۔
محمد ہارون قادر
فورٹ ولیم کالج: تاریخ کے آئینے میں
۶
۱۵۳
تا
۱۸۱
اقبال نے بہت سے بیرونی ممالک کے سفر کیے جن میں ان کی کئی مشاہیر سے ملاقات بھی ہوئی۔ اس مقالہ میں اقبال کے خطوط کی روشنی میں اس کے ان اسفار کا ذکر کیا گیا ہے۔
محمد سفیان صفی
بیرونِ ہند اقبال کے اسفار: خطوط کی روشنی میں
۷
۱۸۲
تا
۱۹۴
مولانا غلام رسول مہرنے غالب پر بہت زیادہ کام کیا جس میں غالب کے خطوط کی روشنی میں ان کے حالات ِ زندگی بیان کرنا اور غالب کے کام کو اکٹھا کرنا شامل ہے۔ اس مقالہ میں اُن کی اِن خدمات کا ذکر کیا گیا ہے۔
محمد آصف اعوان
مولانا غلام رسول مہر: بحیثیتِ غالب شناس
۸
۱۹۵
تا
۲۰۸
سرقہ اور جعل سازی کی روایت اردو کے ادباء کے ہاں عام ہے اور اس کی کئی اقسام ہیں۔ اس مقالہ میں ان اقسام کی وضاحت کی گئی ہے۔
نذر خلیق
سرقہ اور جعل سازی کی اقسام
۹
۲۰۹
تا
۲۱۵
اردو گرامر کے قواعد و ضوابط کو مرتب کرنے کے ضمن میں مولوی عبد الحق کی گراں بہا خدمات قابل تحسین ہیں۔ اسی ضمن میں ان کی کتاب ''قواعد اردو'' کا بار بار طبع ہونا اس کی اہمیت کی بڑی دلیل ہے۔ اس مقالہ میں اِس کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
محمد اشرف کمال
مولوی عبدالحق اور ''قواعد اردو''
۱۰
۲۱۶
تا
۲۳۶
اقبال بہت بڑے مفکر تھے اور انھوں نے زندگی کے بہت سے مسائل کے حل کی کوشش کی جن میں ایک مسئلہ''عورتوں کے مسائل'' بھی ہے۔ اس مقالہ میں ان کی شاعری، تقاریر اور خطوط کی روشنی میں ان کے بتائے گئے عورتوں کے مسائل اور ان کے حل کو بیان کیا گیا ہے۔
بصیرہ عنبرین
اقبال، وجودِ زن اور عقدہ مشکل کی کشود
۱۱
۲۳۷
تا
۲۵۵
الفاظ کسی بھی زبان کی بنیادی اکائی ہوتے ہیں۔ تمام زبانیں دوسری زبانوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ اس مقالہ میں دوسری مشرقی زبانوں کے حوالے سے اردو زبان کے چند منتخب الفاظ پر بحث کی گئی ہے۔
غازی علم الدین
منتخب الفاظ: ذولسانی تحقیقی مطالعہ
۱۲
۲۵۶
تا
۲۷۲
تحقیق اور تنقید کے میدان میں رشید حسن خاں کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھوں نے تحقیق کو سائنسی بنیادیں فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مقالہ میں ان کی تحقیق اور تدوین کے ضمن میں خدمات کا ذکر کیا گیا ہے
شمیم طارق
رشید حسن خاں: بحیثیت ِ محقق و مدون
۱۳
۲۷۳
تا
۲۸۱
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ایک نامور محقق،مؤرخ، دانشور اور ماہرِ تعلیم تھے۔ انھوں نے سندھی زبان کی ترویج کے لیے بہت کوشش کی۔اس کے علاوہ فارسی زبان میں ان کی خدمات بھی قابلِ ذکر ہیں۔ اس مقالہ میں ان کی انہی خدمات کا ذکر ہے۔
سمیرا اکبر
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ: علمی و ادبی خدمات
۱۴
۲۸۲
تا
۲۸۹
خود نوشت،شخصیت کا ایک مکمل اظہار ہوتا ہے۔ اس مقالہ میں کچھ خواتین اہل قلم کی آپ بیتیاں شامل ہیں جنھوں نے نہ صرف اپنی آپ بیتیاںلکھیں بلکہ اپنے ادبی کام کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا۔
عائشہ حمید
خواتین اہلِ قلم کی آپ بیتیاں
۱۵
۲۹۰
تا
۲۹۴
ڈاکٹر مہر عبد الحق، کا اردو میں کیا گیا کام بھی قابلِ ستائش ہے۔ ان کی کتاب ''ملتانی زبان اور اس کا اردو سے تعلق'' اردو کے آغاز کا ایک نیا نظریہ پیش کرتی ہے۔ اس مقالہ میں ان کی اس کتاب اور دوسرے کام کا ذکر کیا گیا ہے۔
شفیق انجم
ڈاکٹر مہر عبد الحق کی اردو خدمات
۱۶
۲۹۷
تا
۳۰۱
شبلی نعمانی ایک بلند پایہ عالم، شاعر، مؤرخ اور نقاد تھے۔ آپ سر سید کے ساتھی تھے مگر اس حلقے سے نکلنے کے بعد آپ کے نظریات اور ادبی سرگرمیوں میں نکھار آیا۔ اس مقالہ میں ان کے کام کی موجودہ زمانے میں انفرادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
عبدالعزیزساحر
عہدِ جدید میں شبلی نعمانی کی معنویت
۱۷
۳۰۲
تا
۳۱۶
لسانیات کے شعبہ میں ''ڈسکورس'' تقریباً ایک نئی اصطلاح ہے جو تقریباًبیسویں صدی کے نصف آخر میں استعمال ہونا شروع ہوئی۔ اس مقالہ میں اس اصطلاح کی وضاحت کی گئی ہے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یہ ہمارے لیے اجنبی نہیں۔
علمدار بخاری
کلام/ڈسکورس: تعاون و تجزیہ
۱۸
۳۱۷
تا
۳۲۱
سلجوق یونیورسٹی قونیہ میں دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ اردو بھی پڑھائی جاتی ہے اور ان کا شعبہء اردو تحقیق و ترجمے میں کافی اعلیٰ ہے۔ اس مقالہ میں، اس علاقے میں اردو کی ترویج و اشاعت کے ضمن میں اس یونیورسٹی کی کوششوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
محمد کامران
اردو: سلجوق یونیورسٹی قونیہ میں
۱۹
۳۲۲
تا
۳۳۳
افلاطون دانشِ انسانی کا نقطہء آغاز ہے تاہم یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ بہت سارے دیگر تصورات اور نظریات کی طرح طنز و مزاح کے بارے میں بھی اولین خیالات افلاطون نے ہی پیش کئے تھے۔ اس مقالہ میں افلاطون کا یہ تصور پیش کیا گیا ہے۔
وحید الرحمٰن خان
افلاطون کا تصورِ تبسم: ایک بحث
۲۰
۳۳۴
تا
۳۴۱
ایزرا پائونڈ ایک امریکی شاعر اور نقاد تھے جن کا شمار بیسویں صدی کی اہم ادبی شخصیات میں ہوتا ہے۔ انھوں نے تنقید کو نئے زاویے عطا کیے۔ اس مقالہ میں تنقید کے میدان میں ان کے کیے گئے کام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
رابعہ سرفراز
ایزرا پا ئونڈ: جدید شعری تنقید کا اہم نام
۲۱
۳۴۲
تا
۳۶۱
شاعر اپنے دور اور حالات کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس مقالہ میں باقی صدیقی کی شاعری میں موجود اس دور کی تلخی کو بیان کیا گیا ہے۔
یاسمین سلطانہ
باقی صدیقی: عصری غزل کا منفرد لب لہجہ
۲۲
۳۶۲
تا
۳۶۷
اردو دنیا میں جدیدیت کا تصور قدرے نیا ہے۔ نقادوں میں جدیدیت کے مختلف تصورات ہیں جو اس مقالہ میں بیان کیے گئے ہیں۔
عاصمہ اصغر
اردو ادب میں جدیدیت کی بحث
۲۳
۳۶۸
تا
۳۷۲
مشرق و سطیٰ خصوصاً فلسطین کا تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رجحان کی بناء پر اردو ادب میں بہت زیادہ ذکر ہے۔ اس موضوع پر ایڈورڈ سعید نے کام کیا۔ اس مقالہ میں اس کی تین کتابوں کے حوالے سے اس کی تنقید کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
ظفر احمد
ایڈورڈ سعید کی تنقیدِ مغرب
۲۴
۳۷۳
تا
۳۷۸
اردو افسانہ ہمیشہ جدید رجحانات سے ہم آہنگ رہا ہے۔ اس مقالہ میں اردو افسانے میں پیدا ہونے والے ان رجحانات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
رشید امجد
اردو افسانہ اور عصری آگہی
۲۵
۳۷۹
تا
۳۸۷
گزشتہ ایک صدی کے دوران اردو افسانے نے بہت سے سنگ میل طے کیے اوراس میں کئی نئے رجحانات پیدا ہوئے۔ اس مقالہ میں اردو افسانے میں پیدا ہونے والے ان رجحانات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
مرزا حامد بیگ
اردو افسانے کے اسالیب بیان
۲۶
۳۸۸
تا
۴۲۵
اس مقالہ میں اردو ناول کا آغاز، اس کا پسِ منظر، اس کے اصطلاحاتی اور اشتقاقی تناظر وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انیسویں صدی میں بر صغیر کے ادبی ماحول اور ناول اور داستان میں فرق پر روشنی بھی ڈالی گئی ہے
بلال سہیل
اردو ناول کا پس منظر اور شروعات
۲۷
۴۲۶
تا
۴۳۶
اردو رومانویت کے کئی فنی اور تکنیکی پہلو ہمارے قارئین کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ان پہلوئوں میں سے ایک کہاوتی پس منظر ہے۔ اس مقالہ میں اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
سہیل عباس بلوچ
اردو داستانوں میں کہاوتوں کا منظر نامہ
۲۸
۴۳۳
تا
۴۳۸
ایک مترجم کے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ اصل مصنف کو زندہ رکھتے ہوئے تحریر کو اپنا انداز دے۔ اس مقالہ میں ان مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔
عابد سیال
افسانوی ادب: ترجمے کے مسائل
۲۹
۴۳۹
تا
۴۵۲
فیض احمد فیضؔ نے کچھ تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں جو ان کی وفات کے بعد ''میزان'' کے نام سے شائع ہوئے۔ اس مقالہ میں ان کے اردو فکشن نگاروں پر لکھے گئے تنقیدی مضامین کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
ایم خالد فیاض
اردو ناول نگار اور فیضؔ کی تنقید
۳۰
۴۵۳
تا
۴۷۸
انیسویں صدی میں جو ناول لکھے گئے وہ زیادہ تر انگریزی استعمار کے زیرِ اثر اور اس سے متاثر ہوکر لکھے گئے۔ اس مقالہ میں اردو ناول اس استعماری اثر کا جائزہ لیا گیا ہے۔
محمد نعیم
اردو ناولوں اور استعمار زدگی
۳۱
۴۷۹
تا
۴۸۹
اس مقالہ میں قیام پاکستان کے بعد کی خواتین ناول نگاروں کے تانیثی اظہار کے مختلف مراحل کو بیان کیا گیاہے اس کے ساتھ ساتھ اس میدان میںبیگم شائستہ اکرام اللہ کی خدمات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔
فوزیہ رانی
پاکستانی افسانے کے دورِ اول کی خواتین کا تانیثی اظہار
۳۲
۴۹۰
تا
۴۹۵
احمد جاوید اردو کے ایک ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے اپنے وقت کی اقدار کے خلاف افسانے لکھے۔ اس مقالہ میں ان کے افسانوں کی تیسری کتاب ''گمشدہ شہر کی داستان'' کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
نوازش علی
احمد جاوید: ''گمشدہ شہر کی داستان''
۳۳
۴۹۶
تا
۵۱۲
انتظار حسین نے قومی اور بین الاقوامی مسائل اور حالات کو ماضی، اسرار، مذہبی اقدار اور معجزاتی واقعات کی داستانوں کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ اس مقالہ میں ان کے مجموعے ''شہر زاد کے نام'' کے حوالے سے ان کے فن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
محمد آصف
انتظار حسین: ''شہر زاد کے نام''
۳۴
۵۱۳
تا
۵۱۷
کرشن چندر نے بیس ناولوں اور تیس سے زائد افسانوں میں عورت کی مختلف انداز میں عکاسی کی ہے۔ اس مقالہ میں اس حوالے سے اس کے افسانوی مجموعے ''پانی کا درخت'' کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
صوفیہ یوسف
کرشن چندر کے نسوانی کردار
۳۵
۵۱۸
تا
۵۲۴
عبد الحلیم شرر اسلامی تاریخی ناول نگار ہیں۔ ''فردوسِ بریں'' بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس مقالہ میں اس ناول کے مختلف کرداروں کا معاشی اور تاریخی حوالوں سے تجزیہ کیا گیا ہے۔
شبیر احمد قادری
''فردوسِ بریں'': کرداروں کا تجزیہ
۳۶
۵۲۵
تا
۵۳۴
عرش صدیقی کا افسانوی مجموعہ '' باہر کفن سے پاؤں''آدم جی انعام یافتہ ہے۔ یہ مقالہ ان کے عنوانات، کاری گری، کرداروں اور منفردانداز کا تجزیہ ہے۔ اس مقالہ میں خاص طور پر اس کے کرداروں کی سوچ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
فہمیدہ تبسم
عرش صدیقی ''باہر کفن سے پائوں''
۳۷
۵۳۵
تا
۵۴۶
اس مقالہ میں معروف افسانہ نگار، ڈاکٹر انوار احمد کی کتاب ''آخری خط''کے تناظر میں ان کا نفسیاتی اور تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
صفوان محمد چوہان
ڈاکٹر انوار احمد: ''آخری خط''
۳۸
۵۴۷
تا
۵۵۲
عزیز احمد بنیادی طور پر ایک فکشن نویس اور نقاد ہیں مگر انھوں نے تاریخ نویسی شروع کی اور اس ضمن میں سات افسانے لکھے جو '' صدیوں کے آرپار''کے عنوان سے شائع ہوئے۔ یہ افسانے اس مقالہ کا موضوع ہیں۔
شہناز کوثر
عزیز احمد: ''صدیوں کے آر پار''
۳۹
۵۵۳
تا
۵۶۵
اس مقالہ میں معروف افسانہ نگار غلام عبا س کے افسانہ ''کتبہ '' اور احمد ندیم قاسمی کے مشہور افسانے ''گھر سے گھر تک'' کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
فریحہ نگہت
''کتبہ'' اور ''گھر سے گھر تک': تقابلی مطالعہ
۴۰
۵۶۶
تا
۵۷۲
کسی بھی ناول میں کردار بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس مقالہ میں مشہور ناول نگار عبد اللہ حسین کے ناول ''باگھ'' کے کرداروں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اصغر علی بلوچ
عبداللہ حسین کا ناول ''باگھ'' کاکرداری مطالعہ
۴۱
۵۷۳
تا
۵۸۲
''جرم و سزا'' مشہور روسی ناول نگاردوستور فسکی کا مشہور ناول ہے۔ اس مقالہ میں اس ناول کے کرداروں، فن اور کاری گری کا ماہرانہ جائزہ لیا گیا ہے ۔
نازیہ ملک
''جرم و سزا'': کرداری مطالعہ
۴۲
۵۸۳
تا
۵۹۰
ڈاکٹر انور نسیم اردو کے معروف افسانہ نگار ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک سائنس دان بھی ہیں اس لیے وہ انسانی فطرت کا سائنسی تجزیہ کرتے ہیں۔ اس مقالہ میں اس حوالے سے ان کے افسانوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
عمران اختر
ڈاکٹر انور نسیم: افسانوں کا فکری تناظر
۴۳
۵۹۱
تا
۵۹۹
اس مقالہ میں معروف صوفی سلسلے ''سلسلہء نوشاہیہ'' پر لکھی گئی کتاب ''تذکرہ نوشاہیہ'' کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
محمد اصغر یزدانی
تذکرئہ نوشاہیہ- ایک مطالعہ
۴۴
۶۰۰
تا
۶۰۹
اس مقالہ میں دو تحقیقی کتب ''علامہ اقبال: شخصیت اور فکر و فن'' اور ''سیرِ دریا'' کا تنقیدی تجزیہ کیا گیا ہے جس میں نہ صرف ان کی خوبیوں کا ذکر ہے بلکہ ان میں موجود اغلاط کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔
ارشد محمود ناشاد
دو تحقیقی کتابیں: ایک جائزہ
۴۵
۶۱۰
تا
۶۱۴
اس مقالہ میں ڈاکٹر رشید امجد مشہور افسانہ نگارکی نو طبع ''عبادت برق کی'' کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب چھ رپوتاژوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے ہر ایک انتہائی معلوماتی ہے۔
صفیہ عباد
''عبادت برق کی '': ایک مطالعہ
۴۶
۶۱۵
تا
۶۱۸
ڈاکٹر ممتاز احمد خان کا نام اردو کے منفرد نقاد، اردو فکشن کے محقق کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس مقالہ میں ان کی نئی کتاب جو اردو ناول کی تنقید سے متعلق ہے، کا ایک جائزہ لیا گیا ہے۔
نعیم مظہر
''اردو ناول کے ہمہ گیر سروکار'' تعارف و تجزیہ
۴۷

جرنل آف ریسرچ(اُردو)،شمارہ نمبر۲۱،جون۲۰۱۲ئ، شعبہ اُردو؛بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
آغاز: ۲۰۰۱ء اولین مدیر: ڈاکٹر شیریں زبیر موجودہ : ڈاکٹر روبینہ ترین، ڈاکٹر قاضی عبدالرحمن عابد کل شمارہ جات : ۲۱

۱
تا
۹
یہ تحقیقی مقالہ اقبال ؔ کے تصورِ جمہوریت سے بحث کرتا ہے، یہ تصور انھوں نے خالصتاً اسلامی تعلیمات و تصورات اور اسلامی تاریخ کے وقیع مطالعے کے بعد پیش کیا تھا۔مقالہ نگار نے اقبال ؔ کے اس نقطۂ نظرکو مختلف حوالوں کے روشنی میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔
پروفیسر فتح محمد ملک
اقبال اور سلطانی ٔ جمہورکا اسلامی تصور
۱
۱۱
تا
۲۲
جوش ملیح آبادی کا شاعرانہ مرتبہ اس قدربلند ہے کہ اُن کی نثر کو ماسوائے آپ بیتی، بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔جوش کی طباعی ، ذخیرہ ٔ الفاظ ، ڈرامائیت اور ایسی دیگر خصوصیات اُن کی نثر کونہ صرف تصنع سے بھرپور کرتی ہیں۔ اس مقالے میں جوش کی نثر نگاری کا خاص تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر انوار احمد؛
حماد رسول
نثر ِ جوش، ایک مزین تصنع یا آزادیٔ فکر کی مثال؟
۲
۲۳
تا
۳۰
زہرا نگاہ اُن چند خواتین شعراء میں سے ایک ہیں جنھوں نے تانیثیت کو اپنی شاعری کا موضوع ایسے وقت میں بنایا جب سماجی فضا اس کے لیے زیادہ سازگار نہ تھی۔یہ تحقیقی مقالہ اُن کی شاعری کا اسی تناظر میں جائز ہ لیتا ہے۔
بشیر احمد؛
ڈاکٹر نجیب جمال
زہرا نگاہ کی شاعری میں نسائی اظہار کی جہتیں
۳
۳۱
تا
۴۶
فرانسیسی افسانہ نگار موپاساں اور سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کے موضوعات اور کردار نگاری میں حیران کن حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔دونوں نے جیتی جاگتی زندگی کے نمائندہ کرداروں کو ہمیشہ اپنی کہانی میں پیش کیا۔ یہ تحقیقی مقالہ ان دونوں کہانی کاروں کے افسانوی کرداروں میں مماثلتیں تلاش کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ریاض قدیر؛
ڈاکٹرعقیلہ شاہین
موپاساں اور منٹو کے افسانوی کرداروں میں مماثلت
۴
۴۷
تا
۵۸
اس تحقیقی مقالے میںبلوچستان میں اُردو شاعری کی روایت اور امکانات پرروشنی ڈالنے کے علاوہ ان محققین اور ناقدین کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے جنھوں نے بلوچستان میں گزشتہ دو صدیوں سے زند ہ اُردو کی ادبی روایت کے تحریری آثار کا کھوج لگایا۔
ڈاکٹر آغا ناصر
بلوچستان میں اُردو شاعری کی روایت اور امکانات
۵
۵۹
تا
۷۷
تجنیس سے مراد کلام میں ایسے الفاظ لانا ہے جو صورت ، تلفظ یا کسی اور بنا پر ایک دوسرے سے مشابہ ہوں مگر معنی میں مختلف ہوں ۔ میرؔ سے قبل کسی شاعر نے اس صنعت کو اتنی عمدگی کے ساتھ پیش نہیں کیا تھا جیسے میرؔ کے ہاں ملتی ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ میرؔ کے کلام میں صنعتِ تجنیس کی مختلف مثالوں سے وضاحت کرتا ہے۔
ڈاکٹر محمد ساجد خان
کلامِ میر میں صنعت ِ تجنیس
۶
۷۹
تا
۸۶
تحقیق میں رسمیاتِ تحقیق کی یقینا اپنی جگہ ایک اہمیت ہے۔ ان رسمیات میں سے ایک عنوان سازی ہے۔ اس پر بھی محققین کو بالخصوص توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ تحقیقی مقالہ عنوان سازی کے بنیادی اصولوں سے بحث کرتاہے۔
ڈاکٹر شفیق انجم
تحقیقی مقالات میں عنوان سازی:
بنیادی اصول و مباحث
۷
۸۷
تا
۹۴
ڈاکٹر وزیر آغااُردو تنقید کا ایسا بڑا نام ہیں جنھوں نے نئی تنقیدی تھیوریز سے بحث کے علاوہ کچھ مستقبل کے موضوعات پر بھی متوازن تنقید لکھی ۔ مقالہ نگار کے مطابق وزیر آغا کی فکر کا بنیادی نقطہ در باب ِ غالبؔ یہ ہے کہ غالبؔ انیسویں صدی کا شاعر ہو کر بھی اپنے جدید خیالات اور فکر کی بدولت بیسویں صدی کا شاعر معلوم ہوتا ہے ۔
ڈاکٹر سعدیہ طاہر
ڈاکٹر وزیر آغا اور تحسین ِ غالب
۸
۹۵
تا
۱۰۵
رام بابو سکسینہ کی اُردوا دب کی تاریخ جو بنیادی طور پر انگریزی زبان میں لکھی گئی اوراس کا اُردو ترجمہ مرزا محمد عسکری نے کیا ہے۔ اس مقالے میں رام بابو سکسینہ کی تاریخ نویسی کا طریق کار اور اس کے مواد کا تحقیقی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
فضیلت بانو
رام بابو سکسینہ کی 'اُردو ادب کی تاریخ' کا تجزیاتی مطالعہ
۹
۱۰۷
تا
۱۲۰
اُردو ادب کے تناظر میں دیکھا جائے تو صرف خواتین ہی نہیں بلکہ بہت سے روشن خیال اور خرد افروز ادیبوں اور دانشوروں نے نسائی تحریک کو اپنی ادبی تحریروں کے ذریعے جلا بخشی۔ مقالہ نگاروں نے اس میں ان تمام معروف شخصیات کا ذکر کیا ہے جنھوں نے اپنی تحریروں میں خواتین کے مسائل اور اُن کے ساتھ امتیازی سلوک کو موضوعِ بحث بنایا۔
کاشفہ چودھری؛
ڈاکٹرشازیہ عنبرین
نسائی تحریک: ادبی تناظر میں
۱۰
۱۲۱
تا
۱۳۲
کچھ ناقدین نے غالبؔ کو اس لیے ہمیشہ منفی تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ غالبؔ نے انگریزوں کے ساتھ ہمیشہ مفاہمانہ رویہ اختیار کیے رکھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غالبؔ کا کلام اور اُن کا خطوط کو سامنے رکھتے ہوئے بحیثیتِ مجموعی اُن کا انگریزوں کی طرف رویہ جاننے کی کوشش کی جائے۔ مقالہ نگار نے غالبؔ کی انگریز مخالفت کو موضوع بنایا ہے ۔
محمد اسرار خان
غالبؔ کے انگریز مخالف تاثرات
۱۱
۱۳۳
تا
۱۵۶
غزل صرف ایک صنف ِ سخن نہیں بلکہ برصغیر کی سیاست اورثقافت کی ایک بڑی واضح جھلک اُردو غزل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں اُردو غزل اور مختلف ادوار میں اس پر ہونے والے سیاسی اثرات کا مثالوں کے ساتھ ایک جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
طارق ہاشمی
اُردو غزل اور نیرنگی ٔ سیاست ِ دوراں
۱۲
۱۵۷
تا
۱۶۶
اس تحقیقی مقالے میںجدیدیت کے اُس مشرقی تصور سے بحث کی گئی ہے جو شمس الرحمن فاروقی ایسے ناقدین نے پیش کیا اور بنیادی طور پر یہ ہیتی تنقید سے انسلاک رکھتا ہے۔مقالہ نگار نے جدیدیت کے مغرب میں ادبی تصور اور تحریک دونوںکو سامنے رکھتے ہوئے اس کے اثرات سے بھی بحث کی ہے۔
ایم خالد فیاض
جدیدیت کی تحریک : مستقبل کے امکانات
۱۳
۱۶۷
تا
۱۷۶
عہد ِقدیم کا ادبی شاہکار'شکنتلا' عہد ِ جدید میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور قدیم روایات کی ایک علامت بن چکا ہے۔گیان چند جین نے اس ناٹک کے دو تراجم از کاظم علی جوان اور اختر حسین رائے پوری میں کچھ غلطیوں کی نشاندہی کی ہے ۔یہ مقالہ اُن غلطیوں کی روشنی میں گیان چند جین کے اعتراضات سے بحث کرتا ہے ۔
محمد خاور نوازش
'شکنتلا' اپنی تلاش میں
۱۴
۱۷۷
تا
۱۸۹
اس تحقیقی مقالے میں ابراہیم جلیس کے غیر مطبوعہ ریڈیو ڈراما سیریل 'سو بات کی ایک بات' اور فلمی کہانیوں'موم کی گڑیا'اور'لاکھوں فسانے' کے موضوعات اور کرداروں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر امتیاز حسین بلوچ
ابراہیم جلیس کی غیر مطبوعہ تخلیقات
(ریڈیو ڈرامے، فلمی کہانیاں)
۱۵
۱۹۱
تا
۲۰۴
ہندوستان میں جب سرسید دور کے بعد سیکولر ازم ، اشتراکیت، فسطایت ایسے نظریات پر مباحث شروع ہوئے تو مختلف طبقات میں ایک انتشار کی فضا پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ ایسے میں لوگوں کی نظریں اقبالؔ ایسے جید علماء اور مفکرین کی طرف لگ گئیں۔ یہ تحقیقی مقالہ فکرِ اقبال کی دینی اساس کا تحقیقی انداز میں جائزہ لینے کی ایک کوشش ہے۔
ڈاکٹر شکیل پتافی
فکر ِ اقبال کی دینی اساس
۱۶
۲۰۵
تا
۲۱۸
احمد ندیم قاسمی کی ادارت میںمجلہ 'فنون' کے مباحث میں سے ایک اقبال کے علم ِ کلام پر علی عباس جلالپوری اور بشیر احمد ڈار کی بحث شامل ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں مختلف مغربی دانشوروں کے خیالات کی روشنی میں اس فکری بحث کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ڈاکٹر ابرار آبی
مجلہ 'فنون' کے فکری مباحث
۱۷
۲۱۹
تا
۲۲۸
تانیثیت پر نظری بحث کا جائزہ لینے کی کوشش کریں تو بہت سے نامور ناقدین کی اس فکری تحریک پر عمدہ تحریریں مل جاتی ہیں لیکن ہمارے یہاں ادبی نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے تخلیقات پر اُن کا اطلاق کرنے کی کوششیں نسبتاً کم ہوئی ہیں۔ یہ تحقیقی مقالہ ڈاکٹر انور نسیم کے ایک ناولٹ 'دھرتی اور آکاش' کا تانیثی مطالعہ پیش کرتا ہے۔
ڈاکٹر قاضی عابد
عورت بطور بیانیہ: مرد کی زبان سے
(دھرتی اور آکاش۔ تانیثی پڑھت)
۱۸
۲۲۹
تا
۲۳۳
محمد علی ردولوی کے نام سے اُردو کی ادبی دنیا میں بہت کم لوگ واقف ہوں گے۔ مذکورہ ادیب اورکہانی کار بھی اسی کھیپ میں شمار ہوتے ہیں۔اس تحقیقی مقالے میں اُن کی افسانوی تحریروں کی روشنی میں ڈاکٹر سلمان علی نے اُن کے افسانوی اسلوب کی منفرد بنت کاری کا جائز ہ لیا ہے۔
ڈاکٹر سلمان علی
محمد علی ردولو ی کے افسانوی اسلوب کی بنت کاری
۱۹

زبان و ادب: جولائی تا ستمبر۲۰۱۰ئ؛ شعبہ اردو؛ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد

آغاز : ۲۰۰۶ء اولین مدیر: صباحت قمر، رابعہ قمر موجودہ مدیر: ڈاکٹر احمد قادری کل شمارہ جات : ۷

۱
تا
۸
ہر تحریر میں اسلوب کو نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے مگر اردو میں ان اصول و ضوابط کو زیادہ زیر بحث نہیں لایا گیا ۔ موجودہ مقالے میں اسی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ تحقیق میں اسلوب کیا اہمیت رکھتا ہے ۔
ڈاکٹر شفیق انجم
تحقیقی مقالے کا اسلوب : بنیادی لوازم اور شناختیں
۱
۲۵
تا
۱۴
مولانا غلام رسول مہر کا علامہ اقبال سے ملاقاتوں کا سلسلہ ۱۹۲۲ء سے شروع ہوا اور آپ علامہ اقبال کے قریبی دوستوں میں شامل ہو گئے۔ یہ سلسلہ علامہ اقبال انتقال تک یعنی ۱۶ برس کو محیط ہے۔ ان کے علاوہ مولانا نے اقبال پر بہت سے مضامین و مقالات اور چار کتابوں کی شرح تحریر کی ۔ یہ مقالہ اسی موضوع پر ہے۔
ڈاکٹر محمد آصف اعوان
مولانا غلام رسول مہر :بحیثیت اقبال شناس
۲
۳۸
تا
۲۶
ڈاکٹر رشید جہاں کا شمار ترقی پسند تحریک کے ہر اول دستے میں خواتین کے حقوق کی علمبردار بھی تھیں۔اس مقالے میں دکھایا گیا ہے کہ اپنے افسانوں ، ڈراموں اور مضامین میں ڈاکٹر رشید جہاں ایک انسان دوست اور روشن خیال مفکر کے طور پر ابھر کرسامنے آئی ہیں ۔
حمیرا اشفاق
ڈاکٹر رشید جہاں : اردو ادب میں انسان دوستی کی مثال
۳
۳۹
تا
۴۸
دونی چند رائے زادہ بارھویں صدی عیسوی میں فارسی کے شاعر اور مؤرخ ہیں۔ دونی کا تعلق پنجاب و پوٹھوار سے تھا ۔ دونی چند کی ایک تصنیف ، گیگوہونامہ لاہور سے شائع ہو چکی ہے لیکن اٹھارہ مثنویاں ابھی تک منظر عام پر نہیں آ سکیں ۔ زیر نظر مقالہ دونی چند کی مثنوی مادھونل و کام کندلا کا تحقیقی جائزہ ہے ۔
ڈاکٹر محمد ناصر / ڈاکٹر محمد صابر
مثنوی مادھونل و کام کندلا
سرودہ دونی چند رائے زادہ
۴
۴۹
تا
۶۹
ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے ایک تنقیدی مقالہ ''ادب اور زندگی'' کو حالی کے '' مقدمہ شعر و شاعری '' کے بعد ایک اہم مقالہ کہا جاتا ہے۔ اسی کی بدولت آپ کو پہلا ترقی پسند نقاد کہا جاتا ہے ۔ اس مقالے میں اختر حسین رائے پوری کے تنقیدی تصورات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔
خالد ندیم
ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کا انتقادی زاویہ نظر
۵
۷۰
تا
۷۸
پاک و ہند کے صوفی شعرا ٔنے اپنی شاعری میں ہمیشہ خدا کی وحدانیت اور انسان دوستی کی تبلیغ کی ۔ پنجابی کی صوفیانہ شاعری میں نظریہ وحدت الوجود اوروحدت الشہود کو خصوصی اہمیت حاصل کی ۔ اس مقالے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بلھے شاہ نظریہ وحدت الوجو د کے قائل تھے جس کا اظہار بلھے شاہ کی شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے ۔
ڈاکٹر محمد ریاض شاہد
بلھے شاہ کا نظریہ
و حدت الوجود۔
۶
۹۲
تا
۹۹
زبان کی تحریری شکل کو رسم الخط کہا جاتا ہے اور درست طور پر حروف کی اشکال کو ظبطِ تحریر میں لانے کا نام املا ہے ۔ماہرین ِ زبان کے ہاں بعض حروف اور الفاظ کے املاکے طریقہ کار میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اس مقالے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ایک متفقہ اور معیاری اسم الخط کے لیے معیاری املا اشد ضروری ہے۔
ڈاکٹر اصغر علی بلوچ
اردو زبان ادب میں املا کی اہمیت اور بنیادی قاعدے
۷
۱۰۰
تا
۱۱۰
محقق اور مدون کی حیثیت سے مشفق خواجہ خواص میں شہرت رکھتے ہیں لیکن عوام میں ان کی شہرت کا باعث ان کے ادبی کالم ہیں ۔ یہ کالم ۱۹۷۰ء سے لے کر ۱۹۹۷ء تک '' جسارت '' '' زندگی '' اور '' تکبیر'' میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔اس مقالے میں مشفق خواجہ کی ادبی کالم نگاری کوچار ادوار میں تقسیم کرکے اس کا جائزہ لیا گیا ہے ۔
طارق کلیم
مشفق خواجہ کی ادبی کالم نگاری ۔۔۔ تحقیقی مطالعہ
۸
۱۱۱
تا
۱۲۸
بابا گرو نانک سکھ مذہب کے بانی ہیں ۔ آپ نے توحید کا درس دیا اور انسانوں کی بھلائی کے لیے زندگی وقف کی ۔ اس مقالے میں بابا گورو نانگ کی حیات اور کردار کا سکھ مت کے مقدس متون کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے ۔
اخلاق
حیدر آبادی
گورو نانک : حیات اور فکر پر ایک نظر
۹
۱۲۹
سر ئیلزم فن مصوری کی ایک شاخ ہے جسے ادب تخلیق کرنے کے سلسلے میں بھی بروئے کار لایا گیا ہے ۔ سر ئیلزم نے ظاہری حقیقت اور شعور کے مدار سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔ اس مقالے میں سر ئیلزم پر نظری بحث کے علاوہ اردو افسانہ پراس کے اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
عاصمہ اصغر
سر ئیلزم (Surrealism )
۱۰

معیار (اُردو):شمارہ:۹؛ جنوری-جون ۲۰۱۳ئ؛ شعبہ اُردو؛ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد

آغاز: جون ۲۰۰۹ء ؛ اوّلین مدیر:ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر نجیبہ عارف؛ موجودہ مدیر:ڈاکٹر رشید امجد کل شمارہ جات:۸

۹
تا
۴۶
مصنف انجمن پنجاب کے ماخذات کی تلاش کافی عرصہ سے کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں چند مصادر دست یاب ہوئے ہیں۔ ان کا عکس موجودہ شمارے میں شائع کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر تبسم کاشمیری
انجمن پنجاب کی ایک نایاب رپورٹ
(۱۸۶۹ئ-۱۸۷۴ئ)
۱
۴۷
تا
۸۰
اس مقالہ میں نو آبادیاتی دور کے نظام ِتعلیم،کلاسیکی اور ورنیکلر زبانوں کی تعلیم ،اردو نصابات کی تیاری کے عمومی مقاصد اور مابعد نو آبادیاتی مطالعے کی نہج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر
سائوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ،ہائیڈل برگ یونیورسٹی ،جرمنی میں موجود نوآبادیاتی عہد کے اردو نصابات (حصہ دوم)
۲
۸۱
تا
۸۶
مقالہ نگار نے جامعات میں مشرقی زبانوں کی تدریس کی اہمیت واضح کی ہے اور تدریس کے مقاصد کے تعین کی کوشش کی ہے۔مقالہ نگار کا خیال ہے کہ واضح مقاصد، سہل نصاب اور مؤثر طریقہ تدریس اختیار کرکے زبانوں کی تدریس سہل بنائی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ
جامعات میں السنۂ شرقیہ کی تدریس: تاریخ؛ مسائل اور امکانات
۳
۸۷
تا
۹۸
زیر نظر مقالہ میں مصنف نے برصغیر میں مسلمانوں کی آمد اور مسلمان معاشرے کے مختلف تشکیلی ادوار کا جائزہ لیا ہے۔مصنف نے واضح کیا ہے کہ بعثت اسلام کے بعد برصغیر میں عرب اور بعداز ترک اور افغان مسلمان فاتحین نے اسلامی اقدار اور طرز معاشرت رائج کرنے میں کون کون سی نمایاں خدمات سر انجام دیں۔
ڈاکٹر اسلم انصاری
برصغیر میں مسلم حکومت اور معاشرے کا تشکیلی دور
۴
۹۹
تا
۱۱۸
مصنفین نے اس مقالہ میں اردو افسانے میں کردار نگاری اور جاگیر داری کردار کا توضیحی مطالعہ کیا ہے۔ اس کردار کو نوآبادیاتی پس منظر میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مقتدر قوتوں کے حامی کے طور پر بھی جائزہ لیا ہے۔ نیز جاگیرداری کردار کی وجہ سے ایک خاص ذہن اور شعور کی عکاسی افسانے کے حوالے سے بھی کی ہے۔
لیاقت علی؍ ڈاکٹر قاضی عبدالرحمن عابد
پاکستانی اردو افسانے میں پنجابی دیہات کا ایک نمایاں کردار :جاگیردار
۵
۱۱۹
تا
۱۳۰
عالم گیریت بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں بحث کا عنوان بنا اور دنیا میں ایک عالمگیرتہذیب کے وقوع پذیر ہونے کی بات شروع ہوئی۔زیر نظر مقالہ برصغیر پرعالمگیریت کے مختلف ادوار اور بالخصوص مغربی عالمگیریت کے موجودہ عہد تک کا مفصل جائزہ ہے۔
ڈاکٹر سید عامر سہیل؍احمد عبداللہ
عالم گیریت: تناظرات و امکانات
۶
۱۳۱
تا
۱۴۲
نوآبادیاتی عہد کے ناول نگاروں میں نذیر احمد سب سے اہم ہیں۔ ان کا ناول ''ابن الوقت'' بالخصوص نوآبادیاتی عہد اور اس کے سیاسی و سماجی محرکات سمجھنے میں معاون کی حیثیت رکھتا ہے۔ مقالہ نگار نے اس ناول کا نوآبادیاتی پس منظر میں مطالعہ کیا ہے۔
صفدر رشید
نوآبادیاتی پس منظر میں ''ابن الوقت'' کا مطالعہ
۷
۱۴۳
تا
۱۵۰
اُردو شاعری کا آغاز اور عروج مغلیہ عہد کا ہی مرہون منت ہے۔ زیر نظر مقالہ میں مصنفہ نے بادشاہی نظام اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جاگیردارانہ تمدن کے حوالے سے اردو شاعری کا جائزہ لیا ہے۔
سیدہ افصح عابد
مغلیہ عہد میں جاگیرداری نظام کا عروج اور اردو شاعری
۸
۱۵۱
تا
۱۵۸
پاکستانی تہذیب و ثقافت دانشوروں کا ہمیشہ سے موضوع رہا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں مصنفہ نے پاکستانی تمدن کی ماضی کے حوالوں سے شناخت اور اس کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے۔
عاصمہ اصغر
پاکستانی کلچر کا مسئلہ
۹
۱۵۹
تا
۱۸۰
عروض شعر کی میزان ہیں۔ اس مقالہ میں مصنف نے علم عروض کے آغاز اور اس کی اصطلاحات پر عربی شاعری کے حوالے سے بحث کی ہے۔ مترجم نے پوری کوشش کی ہے کہ اصل مباحث کی روح کو اردو کا قالب پہنایا جائے کیونکہ اردو شعری عروض عربی سے ہی مستعار ہے۔
ڈاکٹرجواد علی، ترجمہ: عمرفاروق
علم عروض کا آغاز اور نشأت (ایک غیر تقدیسی، معروضی جائزہ)
۱۰
۱۸۱
تا
۲۰۰
شاعری کا وسیلہ الفاظ ہوتے ہیں اور الفاظ اصوات سے ترکیب پاتے ہیں۔ اصوات کی کوئی ایک یا متعدد خاصتیں جب کسی خاص ترتیب اور ترکیب میں آتی ہیں تو بحریں کہلاتی ہیں اور بحور کے مطالعے کا نام علم عروض ہے۔اس مقالہ میں علم عروض کی مختلف بحور اور ان کے استعمالات پر بحث کی گئی ہیں۔
محمد زبیر خالد ؍ ڈاکٹر روبینہ ترین
اردو عروض : ارتقائی مطالعہ
۱۱
۲۰۱
تا
۲۰۸
زیر نظر مقالہ میں ایچ ای سی کے منظور شدہ اردو کے تحقیقی جرائد کی درجہ بندی اور ان کو درپیش مختلف مسائل کا جائزہ لیا ہے۔ مقالہ نگار نے ایسے معیارات بنانے کی کوشش کی ہے جن سے اردو کے تحقیقی جرائد کی درجہ بندی بہتر کی جاسکے۔
ڈاکٹر عطش درانی
اردو کے تحقیقاتی جرائد
۱۲
۲۰۹
تا
۲۲۶
ارسطو نے جہاں فلسفہ اور سائنس کے میدان میں اہم کارنامے انجام دیے ہیں وہیں اس نظریہ شعرو فن کو مستقل بنیادیں فراہم کیں، شعریات اور قدر شناسی کے معیارت مقرر کیے۔زیر نظر مقالہ میں مقالہ نگار نے ارسطو کی شعریات سے بحث کی ہے۔
ڈاکٹراقبال آفاقی
ارسطو کے تصور شعر و فن کی نئی تشریح
۱۳
۲۲۷
تا
۲۳۸
علامہ عرشی ایسے ہی شعرأ میںشامل ہیں جو اپنے شعری موضوعات اور اسلوب کے حوالے سے اپنے ہم عصر شعرأ سے امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ زیر نظر مقالہ علامہ عرشی کی شاعری کے فنی و فکری جائزے پر مشتمل ہے۔
زاہد حسن چغتائی
علامہ محمد حسین عرشی کی شاعری: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ
۱۴
۲۳۹
تا
۲۸۰
شاہ حسین کے کلام کی تدوین کے لیے مربوط شعوری اور انفرادی کوششوں کی ابتدا کہیں بیسویں صدی کے آغاز سے ہو گئی تھی۔ مختلف قلمی بیاضیں' قلمی نسخے اور قلمی مسودے اس باقاعدہ تدوین کی بنیاد بنے۔ اس مقالے میں مصنف نے شاہ حسین کے مختلف متون کا تقابلی جائزہ لیا ہے۔
فرخ یار
شاہ حسین کا متن: ایک تجزیاتی مطالعہ
۱۵
۲۸۱
تا
۲۹۲
مقالہ نگار نے زیر نظر مقالے میں غالب کی زندگی اور اس کی شخصیت کو غالب کے خطوط کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ غالب کا عہد ان کے خطوط سے صاف جھلکتا ہے اور منشائے مصنف بھی یہی ہے کہ خطوط غالب کی روشنی میں شخصیت غالب کو پرکھا جائے۔
ڈاکٹر عزیز ابن الحسن
غالب کی نیرنگیٔ اظہار اور اس کی شخصیت
۱۶
۲۹۳
تا
۲۹۸
دیوان غالب کے مختلف متون اور ان کی تدوین میں محققین کا اختلاف موجود رہا ہے۔ اس مقالے میں مقالہ نگار نے نسخہ عرشی کے مطابق تدوین دیوان غالب کی بعض مشکلات کا ذکر کیا ہے۔
ڈاکٹر عظمت رباب
دیوانِ غالب(نسخہ عرشی) کی ترتیب و تدوین ۔ایک تجزیہ
۱۷
۲۹۹
تا
۳۱۴
مقالہ نگار نے اقبال کی شاعری کے حوالے سے ان کے تصور فن کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مقالہ نگار نے شعری حوالوں سے اقبال کے تصور فن پر روشنی ڈالی ہے۔
ڈاکٹرراشد حمید
اقبال کاتصورِ فن
۱۸
۳۱۵
تا
۳۲۰
علامہ اقبال کی زندگی میں بہت سی شخصیات ان کے قریب رہی ہیں۔اس مقالہ میں مقالہ نگار نے اقبال اور مخدوم الملک کے مابین خاندانی روابط پر روشنی ڈالی ہے۔
ڈاکٹر نذر خلیق
اقبال کے ایک ممدوح: مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ
۱۹
۳۲۱
تا
۳۲۸
مقالہ نگار نے اقبال کے فارسی مجموعہ کلام 'اسرار خودی' کے حوالے سے تصوف کے متعلق ان کے نظریات سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مقالہ اس حوالے سے اہم ہے کہ اقبال کے ان تصورات پر اختلافی نقطہ نظر سے بہت کم مباحث کیے گئے ہیں۔
محمد خاور نوازش
اقبالؔ: 'اسرارِخودی' سے' تاریخ ِ تصوف' تک (سعی ِ بازیافت)
۲۰
۳۲۹
تا
۳۳۲
اس مقالہ میں مصنف نے منٹو صدی کے حوالے سے عہد جدید میں منٹو کی فکر کو واضح کرنے کے علاوہ مصنف نے جدید مسائل اور منٹو کے نقطہ نظر میں ان کی تفہیم کی بھی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر تبسم کاشمیری
منٹو اور موجودہ انسانی رویے
۲۱
۳۳۳
تا
۳۴۲
منٹو کو اس کے عہد میں ہر طرح سے مطعون کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اب منٹو فہمی کا آغاز ہوچکا ہے۔ مقالہ نگار نے پاکستان میں آنے والی سماجی تبدیلیوں کا جائزہ منٹو کے افسانوں کی روشنی میں لینے کی کوشش کی ہے۔مصنف نے واضح کیا ہے کہ منٹو کے خیال میں مذہب یا تہذیب ایسی شے نہیں ہوتی جو کسی خطرے سے دوچار ہو۔
ڈاکٹر خالد سنجرانی
پاکستان میں سماجی تبدیلیاں اور منٹو کے افسانے
۲۲
۳۴۳
تا
۳۵۰
منٹو کے تخلیقی ذہن کی تشکیل میں فرانسیسی اور روسی ادب کا کردار نمایاں ہے۔ اس مقالے میں مصنفہ نے تین اہم افسانہ نگاروں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ مصنفہ نے تینوں کے اسلوب کے اشتراکات پر بھی بحث کی ہے۔
ڈاکٹر پروین کلوّ
گورکی،چیخوف اور سعادت حسن منٹوایک تجزیاتی مطالعہ
۲۳
۳۵۱
تا
۳۵۸
منٹو کی تخلیقی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہندوستان میں متکلم فلموں کو بھی فروغ حاصل ہو رہا تھا۔ منٹو نے کئی فلموں کی کہانیاں لکھیں۔ اس کا تخلیقی ذہن فلموں کے افادی پہلوئوں پر زیادہ مرکوز رہتا ہے ۔مقالہ نگار نے منٹو کو بطور فلمی نقاد پرکھنے کی کوشش کی ہے۔
سید کامران عباس کاظمی
منٹو بحیثیت فلمی نقاد: تجزیاتی مطالعہ
۲۴
۳۵۹
تا
۳۶۴
'شام اودھ' ایک رومانی اور نیم تاریخی ناول ہے۔ اس ناول میں نسائی کرداروں کا جدید تصورات کی روشنی میں مصنفہ نے جائزہ لیا ہے۔ مصنف کے دوسرے ناول 'سنگ گراں' کا بھی تانیثی مطالعہ کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر عقیلہ بشیر
''شام اودھ'' اور ''سنگِ گراں'': عورت؛ تصور اور نمائندگی
۲۵
۳۶۵
تا
۳۷۴
عزیز احمد کا تاریخی اور تہذہبی شعور ان کی افسانوی اور غیر افسانوی تحریروں میں جا بجا منعکس ہوتا ہے۔ اس مقالے میں مصنفہ نے عزیز احمد کے ناولٹوں کے حوالے سے ان کے تہذیبی اور تاریخی شعور کی بازیافت کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر حمیرا اشفاق
عزیز احمدکے ناولٹس : تاریخ و تہذیب کی بازیافت
۲۶
۳۷۵
تا
۳۸۲
قرۃ العین حیدر اردو افسانے کا ایک اہم نام ہے۔ ان کے ہاں وہ تمام طبیعیاتی و مابعد الطبیعیاتی تصورات موجود ہیں جو ان کے افسانوں میں سحر کاری اور اسراریت پیدا کرتے ہیں۔مصنفہ نے قرۃ العین کے افسانوں میں ان کے استعمال پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر فریحہ نگہت
قرۃ العین حیدر کے افسانوں میں مابعد الطبیعیاتی عناصر
۲۷
۳۸۳
تا
۳۹۲
داستانوں نے اردو زبان و ادب کو نہ صرف موضوعات کی وسعت بخشی بلکہ ذخیرۂ الفاظ میں بھی اضافہ کیا۔مصنفہ نے اس مقالے میں داستانوں کے بعض اہم کرداروں کا تجزیاتی مطالعہ کیاہے۔
ڈاکٹر فہمیدہ تبسم
اردو کی نثری داستانیں اور ان کے مرکزی کردار : مجمل جائزہ
۲۸
۳۹۳
تا
۴۰۲
نذر سجاد حیدر اپنے عہد کی زیرک تخلیق کار تھی۔مصنفہ نے اس مقالے میں ان کے سوانحی تحریروں کا مفصل جائزہ لیا ہے اور ان سے ان کی خاندانی زندگی کے علاوہ ان کی سماجی زندگی کو بھی پرکھنے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر ریحانہ کوثر
نذر سجاد حیدر کی سوانحی تحریریں
۲۹
۴۰۳
تا
۴۲۰
قرآن کے اُسلوبِ بیان پر مختلف زاویوں سے غور کیا گیا ہے۔اِس سلسلے میں تمثیلات قرآنی کا مطالعہ ایک اہم فکری میدان کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مقالہ نگار نے اس مقالے میں تمثیلات قرآنی کی تفہیم کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر محمد جنید ندوی
''تفہیم القرآن''کی تمثیلات وتشبیہات :ایک اِنتخاب
۳۰
۴۲۱
تا
۴۲۸
مولانا غلام رسول مہر کی شخصیت کی کئی جہات ہیں۔ مقالہ نگار نے مولانا کی سیاسی زندگی کو اس مقالے میں موضوع بحث بنایا ہے۔مقالہ میںتحریک خلافت اور دیگر سیاسی مقالہ میں بالخصوص مسلم لیگ اور قراردادپاکستان کے حوالے سے مولانا موصوف کی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمد آصف اعوان
مولانا غلام رسول مہر- بحیثیت سیاست دان
۳۱
۴۲۹
تا
۴۳۶
عبدالحلیم شرر نے یوں تو کئی رسائل نکالے لیکن 'دلگداز' نے علم و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ مصنفہ نے 'دلگداز' کی علمی، ادبی اور دیگر خدمات پر اس مقالے میں روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر روبینہ شاہین
دلگداز تنقیدی و تحقیقی مطالعہ
۳۲
۴۳۷
تا
۴۴۴
اردو ادب میں 'ادب لطیف' جریدے کو ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس کے مدیران بالعموم ترقی پسند تخلیق کار رہے ہیں۔ انتظار حسین جب اس جریدے کے مدیر بنے تو اس کے ترقی پسند رحجان کو یکسر تبدیل کر دیا۔ مقالہ نگار نے ادب لطیف کے اسی دور کا جائزہ لیا ہے۔
ڈاکٹر شگفتہ حسین
ایک ترقی پسند مجلّے کا غیر ترقی پسند مدیر
۳۳
۴۴۵
تا
۴۶۰
سلیم الرحمن جدید تر نظم کے نمائندہ شاعر ہیں۔ ان کے موضوعات عہد جدید کے مسائل کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ مقالہ نگار نے ان کے موضوعات کا تجزیاتی مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر ناہید قمر
جدید اُردو نظم اور محمد سلیم الرحمن کی شعری کائنات
۳۴
۴۶۱
تا
۴۶۶
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں اردو ، فارسی ، عربی اور انگریزی زبانوں اور ادبیات میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔اس مقالہ میں مصنفہ نے ان کی زندگی کے جائزے کے علاوہ ان کی اردو زبان و ادب کے لیے خدمات کا جائزہ لیا ہے۔
زینت افشاں
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کی اُردو خدمات
۳۵
۴۶۷
تا
۴۷۴
رحجان ساز نظم نگار ضیاء جالندھری نے اقتصادی نا ہمواری اور معاشی عدم مساوات کے باعث معاشرے میں افلاس، بھوک اور بیماری کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے۔مصنفہ نے ان کی شاعری میں ایسے ہی معاشرتی عناصر کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔
شیراز فضل داد
ضیاء جالندھری کی شاعری میں معاشرتی عناصر
۳۶
۴۷۵
تا
۴۸۲
فیض کی شاعری کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے واقعی انسانی فلاح کو اپنے فن کا تقاضا سمجھا۔ اس مقالے میں مصنف نے فیض کے انسان دوست روئیے کا ان کے شعری حوالوں سے جائزہ لیا ہے۔
ڈاکٹرخالد اقبال یاسر
فیض: ایک انسان دوست شاعر
۳۷
۴۸۳
تا
۴۸۶
فیضؔ کی شاعری اُن کے اس تجربۂ حیات کی ترجمان ہے جو ان کی ہم عصریت کے دائرے سے وسعت پا کر آنے والے زمانوں کا احاطہ کرتی ہے۔اکیسویں صدی کے منظر نامے کے حوالے سے مقالہ نگار نے شعر فیض کی تفہیم کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر عبدالکریم خالد
فیض اور اکیسویں صدی کا منظر نامہ
۳۸
۴۸۷
تا
۵۰۰
فیض اپنی تخلیقی زندگی کے آغاز ہی میں اقبال سے متاثر تھے۔ فیض نے اپنے افکار میں جابجا اقبال کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس مقالے میں مصنف نے فیض کی اقبال فہمی کا جائزہ لیا ہے اور تفہیم اقبال کے نئے در وا کیے ہیں۔
ڈاکٹر خالد ندیم
فیض کی اقبال فہمی
۳۹
۵۰۱
تا
۵۱۰
فیض کی شاعری کومقالہ نگار نے مابعد نوآبادیاتی تصورات کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے یہ اہم مقالہ ہے کہ خود فیض کا تعلق نوآبادیات اور مابعدنوآبادیات سے ہے۔نوآبادیات تخلیقی فنکار کی تخلیقات پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں، فاضل مقالہ نگار نے ان تصورات سے بحث کی ہے۔
ڈاکٹر محمد سفیر اعوان
فیض، انقلاب مابعد نوآبادیاتی نظریہ
۴۰
۵۱۱
تا
۵۲۴
فیض نے اپنی تخلیقات کی بنیاد ترقی پسند تحریک کے عطاکردہ سیاسی شعور پر رکھی اور جمالیاتی تقاضوں سے بھی عہدہ برآ ہوئے۔مصنفہ نے اس مقالے میں فیض کے سیاسی شعور کا جائزہ ان کی شعری تخلیقات کی روشنی میں لیا ہے۔
ڈاکٹرعنبرین تبسم شاکر
فیض احمد فیضؔ کا سیاسی شعور
۴۱
۵۲۵
تا
۵۳۰
زبان کا نظام ہزار ہا سال کے ارتقاء سے وضع ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں زبان کا مسئلہ ازمنہ قدیم سے حل کرنے کی تگ و دو ہو رہی ہے۔ اس مقالہ میں اردو زبان کے لسانی پس منظر کو جدید مباحث کی روشنی میں پرکھا گیا ہے اور زبان کے ارتقأ کے عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ
اُردو زبان کا متنوع لسانی پس منظر اور چند مباحث
۴۲
۵۳۱
تا
۵۳۴
اس کتاب میں جیون خان نے اپنے عہد کے چند ایسے لوگوںکو متعارف کرانے کی سعی کی ہے، جن میں اکثر عالمی شہرت رکھتے ہیں۔کچھ شخصیتیں ایسی بھی ہیں جن کی شہرت کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں لیکن اُن کی انسانی خوبیاں نمایاں ہیں۔ زیر نظر مقالہ جیون خان کی کتاب 'نرالے لوگ' پر ایک بھرپور تبصرے کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر طالب حسین سیال
''نرالے لوگ'' :ایک مطالعہ
۴۳
۵۳۵
تا
۵۴۲
سید کامران کاظمی؛
محمد اسحاق خان
انڈیکس
(شمارہ ۹)
۴۴