علاج معالجہ میں قومی/مشترکہ زبان کے مثبت اثرات کا تجزیاتی مطالعہ

Abstract


This research paper is intended to identify the language barriers exist in therapeutical communication between the doctors frequently using medical terms and English jargons and their illiterate or Non English speaking patients in Pakistan. Language barrier badly hinder optimal utilization of health budget and the access of illiterate or less educated patients to the available health care facilities and medical services. The national language and the mother tongue can play a vital role in bridging this communication gap and build mutual trust between patients and the health service providers. The study based on the literature review on the subject as well views of 90 registered medical practitioners of varied disciplines serving in different public and private hospitals of Rawalpindi and the federal capital. Research data collected through opinion survey shows inability of most of the patients in comprehending medical prescription, clinical instructions and other health guidelines conveyed in a foreign language i.e English. A vast majority of the patients and their caretakers coming to public health facilities are illiterate or under matriculation and feel better if they are communicated in their mother tongue or the national language i.e Urdu. Study recommends strengthening the role of national language as medium of instruction in medical colleges and training institutes to build communication skills of doctors, paramedical staff and all other health service providers. National and regional language can also help a lot in promotion of medical literacy among the masses which in turn would yield better understanding of the health and hygiene issues.

ابتدائیہ


صحت کا مسئلہ براہ راست انسان کی نقد جاں سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے یہ ایک حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق''صحت و تندرستی سے مراد انسان کی ہر قسم کی بیماری ، درد، تکلیف اور بے وقت موت سے مکمل نجات ہے۔ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ وہ جسمانی اور سماجی طور پر پوری طرح خوش و مطمئن ہو۔'' دستور پاکستان کی شق 138 کی رو سے پاکستان کے عوام کو صحت و تندرستی کی جملہ طبی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔پاکستان میں اس وقت 167759رجسٹرڈ ڈاکٹر؛ 13716 ماہرین دنداں؛86183نرسیں اور لاکھوں کی تعداد میںمعاون طبی عملہ کی افرادی قوت طبی خدمات انجام دے رہی ہے۔گزشتہ سال۲۰۱۳۔۲۰۱۴ء کے مطابق صحت کا وفاقی بجٹ 79ئ46 ارب روپے کے مقابلے میں 26 فی صد کے اضافہ سے رواں مالی سال میں 102ئ33 ارب ہوچکا ہے۔ اس کے برعکس صحت کی بحالی و نگہداشت کے نظام کے تحت پیش کی جانے والی خدمات کو عوام تک پہنچانے میں کوئی مؤثر طریقہ کار نہیں اپنایا جاسکا۔
تمام شعبہ ہائے زندگی میںاظہار مدعا، مطالب و معانی کی ترسیل اور پیغامات کی درست تفہیم میں فریقین کے مابین ایک مشترکہ زبان نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔معالج اور مریض کے مابین باہمی اعتماد سازی کی فضا کا پایا جانا جلد صحتیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔اعتماد کا یہ رشتہ اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب معالج پوری ہمدردی کے ساتھ مریض کے احوال و کوائف جان کر مرض کی صحیح تشخیص کرنے کی کوشش کرے۔ دوسری جانب مریض معالج کے تجویز کردہ نسخہ اور طبی ہدایات کو مکمل طور پر سمجھے کیوں کہ ان پر عمل کیے بغیر کوئی بھی مریض شفا یابی کی امید نہیں کرسکتا۔اس پورے عمل میں مریض اور معالج کے درمیان حائل لسانی تفاوت اور رکاوٹوں کو دور کرنا ضروری ہے۔ہمارے ملک میں بھی دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح قومی و مادری زبانیں بولنے والے مریضوں اور روز مرہ زندگی میں انگریزی زبان کا کثرت سے استعمال کرنے والے معالجین کے مابین شدید لسانی فرق پایا جاتا ہے۔سماجی و ثقافتی اختلافات سے قطع نظر فریقین کے مابین بری طرح حائل یہ لسانی دوریاں حکومت کی جانب سے صحت و نگہداشی سہولیات پر ہر سال اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود ان سہولیات کے ثمرات کو پوری طرح عوام تک پہنچانے میں ایک اہم رکاوٹ سمجھی جاتے ہیں۔


مقاصد


اس تحقیقی مقالہ کا مقصد جدید تحقیقا ت اور معالجین کی آرا ء کی روشنی میں ملک میں دستیاب صحت کی خدمات و سہولیات سے بھرپوراستفادہ میں حائل لسانی رکاوٹوں کی نشاندہی و تجزیہ اور معالج و مریض کے درمیان قومی/ مشترکہ مادری زبان کے کردار و اہمیت کاجائزہ لینا ہے۔


طریق کار


اس سلسلے میں معلومات کے حصول کے لیے بنیادی اور ثانوی دونوں ذرائع اختیار کیے گئے ہیں۔ ثانوی ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کے لیے اہم کمپیوٹر ڈیٹا بیس کو استعمال کرتے ہوئے اس موضوع پر انٹر نیٹ پر دستیاب لٹریچر سے مدد لی گئی۔ علاوہ ازیں اردو اور انگریزی زبان میں شائع ہو نے والی بعض کتب و رسائل بھی اس مطالعہ میں شامل رہے۔ لٹریچر کے باقاعدہ مطالعہ کے لیے زبان کا ابلاغLanguage) Communication) اور زبان کی رکاوٹیں (language barriers) جیسے کلیدی الفاظ(Key words) اور ان کے منطقی روابط کے حوالے سے کئی ایک ویب سا ئیٹیں تلاش کی گئیں۔ویب سائٹ تلاش کاری کو صرف انگریزی اور اردو میں شائع ہونے والے مطبوعہ مواد تک محدود رکھا گیا ہے۔بنیادی معلومات(Primary Information) کے حصول اور موضوع سے متعلق معالجین کے خیالات جاننے کے لیے رائے عامہ کے جائزہ(Opinion Survey) کا طریقہ اپنایا گیا۔


مطالعاتی جائزہ


کوئی مریض زبان کے ذریعہ ہی صحت کے بارے ا پنی نگہداشت کے نظام (Health care system ) تک رسائی حاصل کرتا اور اپنی صحت کے بارے اپنے طرز عمل سے متعلق فیصلے کرتا ہے(Wolshin,Schwrtz, Kaytz and Welch, 1977 ) ۔
زبان ہی کے ذریعے صحتی خدمات فراہم کرنے والے صحت و بیماری اور مریضوں کے اعتقادات کے متعلق شعور و آگاہی حاصل کرتے اور مختلف اعتقادی نظاموں (Belief Systems) کے مابین ربط و تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح نرسوں اور مریضوں کے مابین ابلاغ کو نرسنگ خدمات (Nursing Care )کی روح سمجھا جاتا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ہاں صحتی خدمات فراہم کرنے والوں اور عام مریضوں کے درمیان لسانی عدم مطابقت صحتی نگہداشت کی راہ میں تیزی سے حائل ہو رہی ہے۔ انگریزی سے نابلد مریضوں کی بحالی صحت کی راہ میں حا ئل دستیاب صحتی سہولیات تک ان افراد کی رسائی کو محدود اور غیر مؤثر بنانے میں منفی کردار اداکرتی ہیں۔ یوں صحتی نگہداشت کا عمل ان پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔
زبان کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ ذخیرۂ الفا ظ (vocabulary) اور گرامر کا آمیزہ ہے (,1997 Lewis)جو سیاق و سباق، تزویراتی علم ، پس پردہ معلومات اور زندگی کے عملی تقاضوں جیسے دیگر عوامل کے ساتھ مل کرابلاغ میں مدد دیتی ہے(2000 Douglas,) ۔لافر (Laufer,1991) کاکہنا ہے کہ ذخیرۂ الفاظ کا میاب مطالعات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ کارور (Carver,1994)کے مطابق اگر متن میں نامانوس الفاظ کا تناسب ضرورت سے زیادہ ہو تو اس سے اس کی تفہیم پر منفی اثرپڑتا ہے ۔زیرتربیت سامعین کے لیے ضروری ہے کہ وہ سمعی مواد کے کم ازکم 95 فی صد الفاظ سے واقف ہوں تاکہ وہ اس سے مناسب حد تک صحیح مفہوم اخذ کرسکیں Nation,2001))۔لسانی رکاوٹ کا اشارہ بنیادی طور پر ان لوگوں کی جانب کیا جاتا ہے جو ایک باہم مشترک زبان کے بغیرہی ایک دوسرے کے ساتھ ابلاغ کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک نیم خواندہ اورکثیر لسانی معاشرے کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ اس میں کثیر لسانی رکاوٹیں پائی جاتی ہیں۔ دنیا کے کثیر لسانی معاشروں میں رابطے کی ایک زبان بھی پائی جاتی ہے جو مختلف لسانی گروہوں کے مابین روزمرہ ابلاغ کا کام دیتی ہے۔ صرف لندن میں تین سو سے زائد زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیںلیکن ان معاشروں میں لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا اور رابطہ کی مشترکہ زبان میں بات چیت کرنا سیکھ لیا ہے۔
بعض تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق لسانی رکاوٹوں کا نتیجہ مریض کا طویل وقتوں کے بعد معالج سے رابطہ، ایک کلینک پر کافی دیر بات چیت میںوقت کا زیاں، معالج کی پیش کردہ توضیحات کی کم تفہیم،لیبارٹری ٹیسٹوں میں اضافہ اور رپورٹوں کو نہ سمجھ سکنا، بار بار ایمر جنسی روم میں داخلہ مگر افاقہ کا نہ ہونا، مریضوں کی جانب سے معالج کی ہدایات اور مشوروں سے اغماض اور کم پیروی (less follow up )اور صحتی خدمات کے بارے عدم اطمینان کے اظہار کی صورتوں میں برآمد ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق امیر ، نوجوان اور مردوں کی نسبت غریب، ادھیڑ عمر اور خواتین کوعلاج معالجہ میں حائل لسانی رکاوٹوں کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہیلتھ ریسورسز اینڈ سروس ایڈمنسٹریشن (HRSA ) کے مطابق صحتی امتیاز سے مراد بیماری، صحتی نتائج یا نگہداشتی خدمات تک رسائی میں کسی مخصوص آبادی کے حوالے سے پایا جانے والا تفاوت ہے(ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں صحتی اونچ نیچ کا خاتمہ 2001 ) ۔لسانی رکاوٹیں ان تینوں نتائج پر اثر انداز ہوتی ہیں یعنی امراض کی وقوع پذیری، صحتی نتائج اور صحتی نگہداشت کے وسائل تک رسائی۔کلچر یا ثقافت انسانی رویوں کا مربوط انداز ہے جس میں تصورات، ابلاغ، اعمال، مذہبی یا سماجی گروپ شامل ہیں Cross et al 1989)) اورزبان ان کے شانہ بہ شانہ چلتی ہے۔ایک تحقیقی مطالعے کے مطابق 26 فی صد انگریزی جاننے والے ہسپانوی باشندوں کے مقابلے میں 43 فی صد انگریزی نہ جاننے والے ہسپانوی باشندے ابلاغی مسائل کا شکار ہیں۔ ایشیائی باشندوں میں یہ تناسب بالترتیب 39اور 26 پایا جاتا ہے(Anonymaes 2002) ۔ بعض مطالعات کے مطابق صحتی خدمات کے متعلق مریضوں کے خیالات، نقطہ نظر اور لسانی رکاوٹوں میں کوئی واضح تعلق نظر نہیں آتا(Carry Jakson et al 2000/Meredith et al 2001, Morales et al 1999)۔
بہت کم تعداد میں ویب مطالعات لسانی رکاوٹوں کی صحتی سہولیات تک رسائی اور صحتی نتائج کے مابین روابط کے تجزیہ میں مدد دیتے ہیں۔ جاپانی مریض انگریزی کو بہت مشکل اور امریکہ میں صحتی سہولیات تک رسائی میں کھلی رکاوٹ خیال کرتے ہیں(Yeo Fethers, Maeda, 2000 )۔ جہاں تک لسانی رکاوٹوں کا تعلق ہے بہت سارے ایشیائی افراد بھی انہی نقصانات کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں(Cexy بہت کم تعداد میں ویب مطالعات لسانی رکاوٹوں کی صحتی سہولیات تک رسائی اور صحتی نتائج کے مابین روابط کے تجزیہ میں مدد دیتے ہیں۔ جاپانی مریض انگریزی کو بہت مشکل اور امریکہ میں صحتی سہولیات تک رسائی میں کھلی رکاوٹ خیال کرتے ہیں(Yeo Fethers, Maeda, 2000 )۔ جہاں تک لسانی رکاوٹوں کا تعلق ہے بہت سارے ایشیائی افراد بھی انہی نقصانات کا خدشہ ظاہر کرتے ہیں(Cexy Jachson et al. 2000, Auanzo, 1992 )۔
تاریخی اعتبار سے لسانی رکاوٹوںکو سول رائٹس ایکٹ مجریہ 1964 ء کی توسیع کے مطابق ایک عدم اہلیت یا معذوری خیال کیا گیا تھا (Waloshin et al. 1995 )۔ ایک ایسی زبان جو قومی اساس کے حوالے سے منفرد اور بنیادی خصوصیات کی حامل ہو، اسے ہر لحاظ سے مضبوط و مستحکم بنانا چاہیے نا کہ اس سے بے اعتنائی برتی جائے ۔جب مریض اور معالج کے مابین لسانی رکاوٹ کی تشخیص ہو جائے تو مختلف ترجمہ کاروں کی خدمات حاصل کرنا ہی بظاہر ایک عام حل کے طور پر تجویز کیا جاتا ہے۔
امریکہ میں31 ملین سے زائد افراد انگریز ی زبان بولنے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ وہاں مریضوں اور معالجین کے مابین پائے جانے والے لسانی تفاوت کے باعث کم خرچ صحتی سہولیات کی مؤثر انداز میں ان تک فراہمی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے ایک نئی لینگوئج سروس یعنی تفہیم زبان خدمات کا سلسلہ شروع کیا گیا جس میں ترجمانی کے فرائض انجام دینے والے ماہرین(interpreters)کو بین الاقوامی کانفرنسوں کی طرز پر بیک وقت اور فوری ترجمانی کے شعبہ میں تربیت فراہم کی جاتی ہے۔


حاصل مطالعہ


دستیاب مواد کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ سماجی معاشی حیثیت اور رتبہ سے قطع نظر لسانی رکاوٹ بذات خود بطور ایک آزاد عامل صحت و نگہداشتی سہولیات تک رسائی کو منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔لسانی رکاوٹوںکے نتائج غلط ابلاغ (Miscommunications ) سے لے کر صحتی نگہداشت کی سہولیات کے غیر مؤثر استعمال تک محیط ہیںDavid & Rhee, 1988, Hampers et al. 1999) (Kravitz et al, 2000 معالج اور مریض کے مابین ابلاغ کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے صحتی خدمات کی فراہمی پر مامور افراد و ماہرین کی ثقافتی اہلیت (cultural Competence)ا ور ابلاغی مہارتوں (Communication skills)کو فر وغ دینے کی ضرورت ہے۔
ایسے ہی تحقیقی و تجزیاتی مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ انگریزی نہ بولنے والے مریض صحتی نگہداشت کے نظام کے بارے میں دوسروں کی نسبت زیادہ تشویش میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ایسے مریضوں میں مرض بگڑنے ، معالج کی دی ہوئی ہدایات پر عمل درآمد اورتجویز کردہ ادویہ کے استعمال میں مشکلات کا سامنا کرنے اور دیگر افراد کی نسبت زیادہ وقت ہسپتال میں داخل رہنے کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ اس صورت حال کے ازالہ کے لیے مترجم یا ترجمان کا سہارا لینا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ البتہ بعض اوقات معالج اور مریض کے مابین لسانی تفاوت اتنا گہرا اور وسیع ہوتا ہے کہ ایک مترجم اپنی مہارت تامہ اور مریض کے ساتھ پوری ہمدردی کے باوجود اس کے دکھ اور احساسات کی حقیقی ترجمانی کا حق ادا نہیں کرسکتا۔
اکثر و بیشتر مریض کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اُس کے مر ض کی حقیقی کیفیت کیا ہے اور اسے کن مناسب ترین الفاظ میں بیان کرنا ہے۔ بسااوقات کم شدت کی صورت میں وہ زیادہ شدید الفاظ میں بتادے تو ڈاکٹر نے تو بتائی گئی کیفیت کے مطابق ہی ٹیسٹ لکھنے اور ادویات تجویز کرنی ہیں۔ اس سارے عمل میں قومی /مشترکہ زبان اہم کردار اداکرسکتی ہے۔ ایسا اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے کہ زیادہ شدید کیفیت میں مریض اسے نہایت معمولی علامات کے الفاظ استعمال کرکے اپنے ہی مرض کی شدت کو کم کروا بیٹھے اور حسب ضرورت ادویات تجویز نہ کروا پائے۔ ہر دو صورت میں زبان کا کردار بنیادی ہے۔


معلوماتی سروے اور نتائج
اصول تحقیق


علاج معالجہ کے حوالے سے مریضوں اور ان کے تیمارداروں کے لسانی رجحانات اور ذریعہ ابلاغ سے متعلق ان کی ترجیحات جاننے کے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی کے اہم سرکاری ونجی ہسپتالوں میں طبی خدمات انجام دینے والے سو ڈاکٹروں سے براہ راست انٹرویو لے کر پہلے سے تیار شدہ سوال نامہ کی مدد سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ان میں سے صرف 90 سوالنامے(90 فی صد) پوری طرح مکمل اور قابل تجزیہ پائے گئے ۔ وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے ہسپتالوں کے انتخاب میں سہولت کے علاوہ یہ حقیقت بھی پیش نظر تھی کہ یہ دونوں شہر لسانی حوالے سے پورے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔مذکورہ ہسپتالوں میں آنے والے مریض پورے ملک سے تعلق رکھتے ہیں اور معا لجین کا تعلق بھی مختلف لسانی گروہوں سے ہے جن میں اُردو ، پنجابی ، سندھی ، سرائیکی ، بلوچی ، پشتو ، بلتی ، ہندکو ،کشمیری، پوٹھوہاری اور دیگر زبانیں بولنے والے شامل ہیں۔
اس جائزہ میں 2 ہومیو پیتھک اور 27 ماہرین نفسیات سمیت 90 معالجین (مردو خواتین)کی آرا ء شامل کی گئی ہیں۔ معلوماتی جائزہ سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق مختلف سرکاری ہسپتالوں اور نجی کلینک پر طبی خدمات انجام دینے والے یہ معالجین تحقیق کے اصولوں کے مطابق صحت کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں نفسیات (27)؛ امراض چشم (2) ؛ سرجری (17)؛ہڈی جوڑ (7)؛ ناک کان گلا(5)؛ میڈیسن (9)؛ماہر اطفال (2)؛ زچہ و بچہ(2)؛ایمر جنسی(2)؛ جلدی امراض (2)؛ فیملی ہیلتھ (4)؛ امراض دنداں (1)؛ امراض گردہ و مثانہ (3) اور 2 ہومیو فزیشن شامل ہیں۔

ڈاکٹرکا مریضوں سے براہ راست رابطہ کا مقام
ان معالجین میں سے 21 فی صدکا تعلق بیرونی مریضوں کے شعبہ ، 6 فی صدکا اندرونی مریضوں کے شعبہ اور زیادہ تر (73فی صد) کا تعلق دونوں شعبوں سے ہے۔طبی خدمات کی فراہمی کے حوالے سے اس جائزہ میں شامل معالجین 5سال سے کم ( 50فی صد)؛ 5سے10 سال (29فی صد) اور 10 برس سے زائد (21 فی صد) کا تجربہ رکھتے ہیں۔ دس برس سے زائد تجربے والوں میں کئی ایک تو پچیس سے چالیس سال کے تجربے والے بھی شامل ہیں۔اس لیے لسانی حوالے سے مریضوں اور ان کے تیمار داروں کی نفسیات اور رویوں کے بارے درست معلومات کے حصول کی غرض سے ان معالجین کی آراء پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔

جدول # 1: جائزہ میں شامل معالجین بلحاظ تجربہ

تجربہ/سال
تعدد /فریکونسی
فی صد
5 سال سے کم
45
50
5 سے 10 سال
26
29
دس سال سے زائد
19
21

اس جائزہ کے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی کے اہم ہسپتالوں میں طبی خدمات انجام دینے والے 90 ڈاکٹروں سے براہ راست انٹرویو کے ذریعے پہلے سے تیار شدہ ایک سوالنامہ کی مدد سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔جائزہ سے حاصل ہونے والے اعدادو شمار کے تجزیہ کے لیے کمپیوٹرسے ایم ایس آفس ایکسیل کے ذریعہ تعدد(فریکوئنسی ) اور فی صد معلوم کرنے کا سادہ طریقہ اپنایا گیا ہے۔ سوال نمبر 5 سے 14 تک کے جوابات کو اعدادوشمار کی زبانی جدول # 3 میں بیان کیا گیاہے۔اس جدول کی مدد سے نتائج کے لیے ہر سوال سے حاصل ہونے والی معلومات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔معالجین کے تجربہ اوران کے مریضوں کی تعلیمی استعداد کو مختلف جدولوں اور گراف سے بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
سوال4 : ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے آ نے والے مریضوں /تیمارداروں کا اوسط تعلیمی معیارکیا ہے؟
معلوماتی جائزہ کے دوران معالجین سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق ان کے ہاں آنے والے مریض/ تیماردار10 فی صد ان پڑھ؛ 49 فی صد میٹرک سے کم ؛ 30فی صد میٹرک اور صرف 2 فی صد میٹرک سے زائد تعلیمی قابلیت کے حامل ہیں۔ دیکھیے جدول : 2

جدول 2:جائزہ میں شامل معالجین کے مریضوں کی اوسط تعلیمی استعداد کا شماریاتی جائزہ

فی صد
تعدد /فریکونسی
تعلیمی سطح
10
10
نا خواندہ
55
49
میٹرک سے کم
33
30
میٹرک
1
1
انٹر میڈیٹ
1
1
گریجویشن یا زیادہ

جدول 3: معا لجین سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کا شماریاتی جائزہ

سوال نمبر
صفر
10 % سے 30 %
70% to 31 %
70 %سے زائد
کل
تعدد
فی صد
تعدد
فی صد
تعدد
فی صد
تعدد
فی صد
تعدد
فی صد
5
8
9
77
85
5
6
0
0.00
90
100
6
0
0.0
4
4
40
44
46
52
90
100
7
0
0.0
2
3
61
67
27
30
90
100
8
0
0.0
25
27
50
56
15
17
90
100
9
1
1
12
14
47
52
30
33
90
100
10
0
0.0
14
15
33
37
43
48
90
100
11
18
20
57
64
12
13
3
3
90
100
12
0
0.0
7
7
42
47
41
46
90
100
13
0
0
11
12
47
52
32
36
90
100
14
0
0
0
0
50
56
40
44
90
100

 

سوال 5: آپ کے کتنے فی صد مریض /تیمادار ڈاکٹر کی انگریزی طبی اصطلاحات (جارگن) کو سمجھ سکتے ہیں؟


94 فی صد معالجین کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کی انگریزی میں درج یا بیان کردہ طبی اصطلاحات کو سمجھنے کی استعداد رکھنے والے مریضوں کی تعداد تیس فی صد سے زیادہ نہیں۔صرف 6فی صد معالجین ایسے پائے گئے جن کے پاس آنے والے 40 سے 70 فی صد مریض انگریزی زبان میں طبی ہدایات کے سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔


سوال 6:آپ کے زیر علاج کتنے فی صدمریض/ تیماردار قومی زبان اردو سمجھ سکتے ہیں؟

4 فی صد معالجین کے مطابق 30 فی صد سے کم مریض /تیماردار قومی زبان اردو سمجھ سکتے ہیں۔44 فی صد ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ ایسے مریضوں /تیمارداروں کی تعداد 40 سے 70 فی صد ہے جبکہ 52 فی صد معالجین نے قومی زبان اردو سمجھنے والے ایسے افراد کی تعداد 70 فی صد سے زائد بتائی ہے۔


سوال 7: آپ کے زیر علاج کتنے فی صد مریض/تیماردار قومی زبان اردو بول سکتے ہیں؟

67 فی صد معالجین کے زیر علاج مریضوں اور ان کے تیمارداروں کی بھاری تعداد ( 40سے ستر فی صد ) قومی زبان اردو بولنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن 30 فی صد نے انکشاف کیا کہ 70 فی صد سے زائد مریض اور تیماردار آسانی کے ساتھ قومی زبان میں بات چیت کرسکتے ہیں۔صرف 3 فی صد ڈاکٹروں نے بتایا کہ اردو بول سکنے والے مریضوں / تیمار داروں کا تناسب تیس فی صد یا اس سے کم ہے۔


سوال 8: آپ کے زیر علاج کتنے فی صد مریض / تیماردار اپنی مادری /علاقائی زبان بول کر اپنا ما فی الضمیر ٹھیک ٹھیک بیان کرسکتے ہیں؟

17 فی صد ڈاکٹروں کے خیال میں ایسے مریضوں / تیمارداروں کی تعداد جو اپنی مادری زبان میں اپنا ما فی الضمیرآسانی سے بیان کرسکتے ہیں 70 فی صد سے زائد; 56 فی صد کے خیال میں یہ تناسب 40 سے 70 فی صد جبکہ 27 فی صد معا لجین کے نزدیک ان کی تعداد 30 فی صد سے کم ہے۔


سوال 9: آپ کے زیر علاج کتنے فی صد مریض / تیماردار قومی اور مادری دونوں زبانوں میں بات کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں ؟


زیر نظر جائزہ میں شامل 15 فی صد معالجین کے مطابق 30 فی صد سے کم مریض اور ان کے تیماردار قومی اور مادری دونوں زبانوں میں بات کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔52 فی صد ڈاکٹروں کے نزدیک ایسے افراد کی تعداد 40 سے 70 فی صد جبکہ 33 فی صد کے خیال میں 70 فی صد سے زائد مریض اور تیماردار یہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

سوال 10:آپ کے پاس آنے والے کتنے فی صد مریض/ تیمار دار انگریزی کے بجائے اردو میں لکھی ہوئی ہدایات کو زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں؟


48 فی صد معالجین کے پاس آنے والے 70 فی صد سے زائد مریض /تیماردار انگریزی کے بجائے اردو میں لکھی ہوئی ہدایات کو زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔37 فی صد ڈاکٹروں کے خیال میں ایسے افراد کی تعداد 40 سے 70 فی صد کے درمیان ہے۔ دوسری طرف 15 فی صد معالجین اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کے خیال میں صرف 30 فی صد سے کم مریض / تیماردار اردو میں لکھی ہوئی طبی ہدایات کو سمجھنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔

سوال 11: آپ کے کتنے فی صد مریض / تیماردار ادویات کے ساتھ انگریزی میں دیا ہوا کمپنی کا معلوماتی لٹریچر پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں؟

20 فی صد معا لجین کے خیال میں ایسے افراد کی تعداد جو ادویات کے ساتھ انگریزی میں دیا ہوا کمپنی کا معلوماتی لٹریچر پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں بالکل نہ ہونے کے برابر ( صفر ) ہے۔64 فی صد ڈاکٹروں نے ایسے مریضوں کا تناسب 10 سے 30 فی صد بتایاہے جب کہ 16فی صد ڈاکٹروں کے نزدیک ایسے افراد کی تعداد 40 فی صد سے زائد ہے۔

سوال 12 : آپ کے زیر علاج کتنے فی صد مریض / تیماردار ادویاتی لٹریچر کو قومی زبان اردو میں پڑھنا چاہیں گے؟

 

جائزے میں شامل 7 فی صد ڈاکٹروں کی رائے میں 10 سے30 فی صد مریض / تیماردار ادویاتی لٹریچر کو قومی زبان اردو میں پڑھنا چاہیں گے۔ 47 فی صد کے خیال میں یہ تعداد 40 سے 70 فی صد جب کہ 46 فی صد معالجین کے نزدیک ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ یعنی 70 فی صد سے اوپر ہے۔

سوال 13 : آپ کے کتنے فی صد مریض ان کی اپنی زبان بولنے والے ڈاکٹر کے پاس ہی علاج کرانا پسند کرتے ہیں؟

مریضوں اور تیمارداروں کے لسانی رویوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے 12 فی صد ڈاکٹروں نے رائے دی کہ ان کے نزدیک ایسے مریضوں کی تعداد جو علاج معالجہ کی غرض سے ان کی اپنی زبان بولنے والے ڈاکٹر کے پاس ہی جانا پسند کرتے ہیں 10 سے 30 فی صد ہے۔ اس کے برعکس 52 فی صد معالجین نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایسے افراد کی تعداد 40 سے 70 فی صد ہے جبکہ 36 فی صد ڈاکٹروں نے اس رجحان کی تائید کرتے ہوئے ایسے افراد کی تعداد 70 فی صد سے زائد بتائی ہے۔

سوال 14: ڈاکٹر اور مریض کی باہمی اعتماد سازی میں قومی زبان اور مادری زبان کتنے فی صد کردار ادا کرتی ہیں؟

صحت اور نگہداشتی سہولیات سے استفادہ میں قومی و مادری زبان کی اہمیت کی توثیق کرتے ہوئے 56 فی صد معا لجین نے رائے دی ہے کہ ڈاکٹر اور مریض کی باہمی اعتماد سازی میں قومی زبان اور مادری زبان کا کردار 40 سے 70 فی صد ہے۔ البتہ 44 فی صد معالجین نے باہمی اعتماد سازی میں قومی و مادری زبان کے کردار کو 70 فی صد سے بھی زیادہ اہمیت کاحامل قرار دیا۔

مباحث

پاکستان میں شرح خواندگی، خاص طور پر عورتوں میں، انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے آبادی کا بڑا حصہ صحت کی بحالی و نگہداشت کی سہولیات کے بارے میں بہت کم جانتا ہے۔ دستیاب وسائل و سہولیات سے عدم واقفیت اور طبی ناخواندگی شدید غربت کے ساتھ مل کر ان کی مذکورہ سہولیات تک نا رسائی کو اور بھی سنگین بنا دیتی ہے۔ حفظان صحت، علم الابدان، علم الادویہ اور لیبارٹری جیسی علاج معالجہ کی تکنیکی اصطلاحات کی تفہیم ایک مشکل امر ہے۔انگریزی زبان میں لکھا ہوا نسخہ، ادویات کے بارے امدادی لٹریچر،ادویہ کے اجزائے ترکیبی اور معالج کی ہدایات کو سمجھنا نیم خواندہ اور انگریزی کی سوجھ بوجھ نہ رکھنے والے مریضوں کے بس کی بات نہیں۔
بعض معالجین کے بارے عام مشاہدہ ہے کہ وہ مریضوں اور ان کے تیمارداروں سے پیش آتے ہوئے لاشعوری طور پر قومی و مادری زبان کے باطن میں پنہاں لسانی توانائی کو یکسر انداز کرتے ہوئے ایک ایسی انگریزی زدہ زبان میں بات کرتے ہیں جسے سمجھنا اور ان کی دی ہوئی ہدایات پر عمل کرنا اکثر مریضوں کے لیے شاید ممکن نہ ہو۔ مثال کے طور پر اگر کبھی کسی ہسپتال کے شعبہ حادثات یا بیرونی مریضوں کے شعبہ میں بعض نوجوان ڈاکٹروں کی مریضوں کے ساتھ گفتگو سننے کا اتفاق ہو تو درج ذیل قسم کے مناظر بھی دیکھنے میں آتے ہیں :
٭ دیکھیے میڈم آپ کی ڈاٹر کی چیسٹ میں سخت انفیکشن ہے۔ پر ہیپس اسی وجہ سے اسے فیور بھی ہے۔آپ ہر دو گھنٹے کے بعد اس کا ٹمپریچر چیک کریں ۔ میں نے میڈیسن لکھ دی ہیں۔ کسی کیمسٹ یا ڈرگ اسٹور سے پرچیز کرالیں۔
٭ بابا آپ کا شوگر لیول بہت ہائی ہے۔اگر اسے کنٹرول نہ کیا تو اس سے باڈی کے دوسرے آرگن بھی ایفیکٹ ہوسکتے ہیں……آپ فوری طور پر کسی سرٹیفائیڈ پیتھالوجیکل لیب سے اپنے بلڈ شوگر اور یورین کا ٹیسٹ کرائیں ، اپنا ویٹ کم کریں ، ڈائٹ پر کنٹرول کریں اور اپنی ہیلتھ پر فوکس کریں۔ ڈونٹ وری ان شا اللہ۔ نیکسٹ وزٹ پر آپ یہ سب ٹیسٹ مجھے چیک کرائیں گے۔
٭ جینٹلمین میںنے پریسکرپشن لکھ دی ہے۔آپ ایسا کریں اس میڈیسن کی ایک ڈوز مارننگ میں بریکفاسٹ کے بعد، ایک آفٹر لنچ اور ایک ٹیبلیٹ ڈنر سے پہلے لیں۔ یہ سیرپ بھی لکھ دیا ہے جس کے ٹوٹی اسپون فل بیڈ میں جانے سے پہلے لے لیں۔ پلیز ری میمبرکہ سونے سے پہلے اور ارلی مورننگ اسٹیم لینا نہ بھولیں۔
آپ نے دیکھا کہ ہمارے بعض معالجین غیر شعوری طور پر اپنے ان پڑھ ، کم تعلیم یافتہ اور مختلف لسانی اور ثقافتی پس منظر کے حامل مریضوں سے عام طور پر کس جنا تی زبان میں بات کرتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہر معالج بنیادی طور پر ایک ماہرنفسیات بھی ہوتا ہے جس کے دو میٹھے بول مریض کا پچاس فی صد مرض دور کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دو میٹھے بول وطن کی قومی/مشترکہ زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں ہوہی نہیں سکتے۔ کیا ہمارے ہاں ہسپتالوں میں مریضوں کے روزافزوں اضافہ اور نت نئی بیماریوں کے نہ ختم ہونے کا کوئی تعلق معالج اور مریض کے مابین زبان سے بھی ہے؟اس صورت حال میں یہ جاننا انتہائی اہم ہے کہ اپنے مریضوں اور ان کے تیمار داروںکے ساتھ معالجین کی انگریزی الفاظ سے بھرپور گفتگو کس حد تک ان کے مخاطبین کے لیے قابل فہم ہوسکتی ہے اور مریض کس حد تک ان ہدایات کو سمجھے بغیر ان پر عمل درآمد کرسکتے ہیں۔
ادویات کے ساتھ دیا جانے والا دواسازکمپنی کا ہدایتی لٹریچر نہایت باریک خط میں انگریزی میں تحریر کیا جاتا ہے جو محض ایک رسمی کارروائی معلوم ہوتی ہے۔ دوا کی ڈبی پر قیمت اور تاریخ زائد المیعاد کا پڑھنا تو اور بھی دشوار ہے۔ اسے چھاپا نہیں بلکہ مشین سے محض کھودیا گیا ہوتا ہے جس کا پڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ کثیرالقومی ادویہ ساز ادارے اس امر کے پابند ہیں کہ وہ تمام معلومات انگریزی کے ساتھ اس ملک کی عام رابطہ کی زبان یعنی قومی زبان اردو میں پیش کریں تاکہ ان ادویہ کے صارفین یعنی مریض اپنی صحت کے حوالے سے ان سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔
اظہار مدعا، مطالب و معانی کی ترسیل اور پیغامات کی درست تفہیم میں فریقین کے مابین ایک مشترکہ زبان نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔صحت کا مسئلہ براہ راست انسان کی نقد جاں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے یہ ایک حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ معالج اور مریض کے مابین باہمی اعتماد سازی کی فضا کا پایا جاناجلد صحتیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔اعتماد کا یہ رشتہ اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب معالج پوری ہمدردی کے ساتھ مریض کے احوال و کوائف جان کر مرض کی صحیح تشخیص کرنے کی کوشش کرے۔ دوسری جانب معالج کے تجویز کردہ نسخہ اور طبی ہدایات کو مریض مکمل طور پر سمجھے اور ان پر عمل کیے بغیر کوئی بھی مریض شفا یابی کی امید نہیں کرسکتا۔اس پورے عمل میں مریض اور معالج کے درمیان حائل لسانی تفاوت اور رکاوٹوںکو دور کرنا ضروری ہے۔چنانچہ ہمارے ملک میں بھی لوگ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح قومی زبان کے ساتھ مختلف حصوں میں اپنی مادری زبانیں بولتے ہیں۔ انسانوں میں یہ ایک مثبت فطری عمل ہوتا ہے۔ البتہ ترقی یافتہ اور باشعور قوموں نے اس لسانی رنگارنگی کو برقرار رکھتے ہوئے دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرح علاج معالجہ میں بھی قومی زبان کے استعمال کا احسن راستہ اختیار کررکھا ہے۔ اس سے ان کے ہاں صحت کی ملکی صورت حال بہتر رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں ابھی ایسا اہتمام نہیں کیا جاسکا۔ مریضوں اور روز مرہ زندگی میںانگریزی زبان کا کثرت سے استعمال کرنے والے معالجین کے مابین شدید لسانی فرق و تفاوت پایا جاتا ہے۔سماجی و ثقافتی اختلافات سے قطع نظر فریقین کے مابین بری طرح حائل یہ لسانی رکاوٹیںحکومت کی جانب سے صحت و نگہ داشتی سہولیات پر ہر سال اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود ان سہولیات کے ثمرات کو پوری طرح عوام تک پہنچانے میں ایک اہم رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔

نتائج…

علاج معالجہ کی خدمات و سہولیات پر مامور عملہ اور مریضوں / تیمارداروں کے مابین وسیع اور گہری لسانی رکاوٹیں حائل ہیں جنھیں قومی زبان کے آسان اور سادہ الفاظ کے استعمال کو فروغ دے کر دور کیا جاسکتا ہے۔
§ معالجین اور مریضوں میں اعتماد سازی کے لیے انگریزی کی بجائے ایک مشترک زبان میں ابلاغ ناگزیر ہے ، جسے دونوں فریق مناسب حد تک لکھ، پڑھ، سمجھ اور بول سکتے ہوں اور وہ صرف اور صرف قومی اور مادری زبان ہی ہوسکتی ہے۔
§ موجودہ حالات میں معالجین اور مقامی و کثیر القومی ادویہ ساز اداروں کا انگریزی زبان پر بے جا انحصار صحتی سہولیات سے کامل استفادہ میں بری طرح حائل اور قومی سرمائے کے ضیاع کا باعث ہے۔

سفارشات

صحت و حفظان صحت کی سہولیات تک عوام کی آسان رسائی کے لیے انگریزی زبان کی بجائے قومی زبان اردو اور حسب ضرورت علاقائی زبانوں کو لازماً فروغ دیا جائے۔
§ اہم طبی اصطلاحات اور ان کے روزمرہ استعمالات کو قومی و علاقائی زبانوں میں رواج دینے کے لیے شعوری کوششیں کی جائیں تاکہ عوام میں میڈیکل لٹریسی یعنی طبی خواندگی کو عام کیا جاسکے۔اس طرح معالج اور مریض کے درمیان اعتماد سازی اور مؤثر ابلاغ میں مدد ملے گی۔
§ اپنی صحت اور اس سے متعلق وسائل و معلوماتی ذرائع تک آسان رسائی ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے۔ اس لیے مقامی اور کثیر القومی ادویہ ساز کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اندرون ملک تیار یا فروخت ہونے والی ادویات کے لیبل، طریقہ استعمال، احتیاطی تدابیر، امکانی خدشات و مضر صحت اثرات، قیمت، تاریخ پیداوار و تاریخ زائد المیعاد وغیرہ جیسی تمام اہم معلومات اور دیگر رہنما ہدایات قومی زبان اردو میں طبع کریں۔
§ میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم طلبہ کو مختلف علاقوں کے مریضوں کے ساتھ طبی معاملات پر تبادلہ خیال کے قابل بنانے اورقومی و مادری زبان میں ان کی ابلاغی مہارتوں کو پروان چڑھانے کے لیے خصوصی تربیتی کورس کرائے جائیں۔
طبی نگہداشت کی سرگرمیوں کی ابلاغی حوالے سے بھی باقاعدہ نگرانی کا مؤثر نظام قائم کیا جائے۔
§ سرکاری و نجی شعبہ میں دستیاب طبی سہولیات اور معالجین کی خدمات سے مریضوں اور ان کے تیمارداروں کو زیادہ سے زیادہ استفادہ کے قابل بنانے کی غرض سے ہسپتالوں ، دواخانوں ، کیمسٹ کی دکانوں ،ڈسپنسریوں ، مراکز صحت، میڈیکل لیبارٹریوں اور دیگر صحتی نگہ داشت کی سہولیات سے متعلق تمام سہولیات، خدمات ، شعبوں اور افراد کے نام کی تختیاں اور دیگر بورڈ قومی و علاقائی زبانوں میں تحریر کرنا لازمی قرار دیا جائے۔
§ مختلف امراض ، علامات، کیفیات، دردوں، زخموں، چوٹوں، ضربوں ، جسمانی و ذہنی نقائص و معذوریوں، طبی عوارض ، گھریلو ٹوٹکوں، گھریلو فارمیسی، دیسی نسخہ جات،مفردات، مرکبات، جری بوٹیوں، ان کے طبی فوائد و استعمالات، احتیاطی تدابیر، حفظان صحت اور پرہیز، مدافعتی تدابیر اور طریقوں، خوردونوش کی پسندیدہ عادات و روایات، پھلوں، پھولوں، سبزیوں، اناج، ادویاتی خصوصیات کے حامل پودوں، طبی معائنہ اور اس کے لیے مستعمل آلات و مشینری، مختلف قسم کے طبی ٹیسٹوںکی تفصیلات، نتائج و اثرات اور معیارات وغیرہ جیسے امور سے متعلق بنیادی اور اہم نوعیت کی طبی معلومات کو قومی و مادری زبانوں میں یک جا اور مدون کرکے افادہ عام کے لیے شائع کیا جائے تاکہ معاشرہ میں طبی امور و مسائل سے آگاہی میں اضافہ ہوسکے اور ان مسائل کے حل کے لیے مختص وسائل اور سہولیات سے کامل استفادہ کیا جاسکے۔

خلاصہ

صحتی سہولیات اور خدمات سے بھرپور استفادہ کے لیے ان سے واقفیت، آسان دسترس اور مروجہ طریقہ کار سے کامل آگاہی درکار ہے تاکہ ضرورت مند مریض قومی سرمائے سے قائم ان طبی سہولیات اور خدمات سے فائدہ اٹھا کر ایک صحت مند زندگی گزارتے ہوئے قومی تعمیرو ترقی کے عمل میں حصہ لے سکیں۔ طبی شعور و معلومات کی فراہمی اور بہتر طبی خدمات کی فراہمی میں قومی زبان اردو اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ دستیاب صحتی و نگہداشتی خدمات و سہولیات تک عوام کی بلا امتیاز رسائی کو ممکن بنانے، مختلف علاقوں کے مریضوں اور صحتی خدمات فراہم کرنے والے معالجین اور معاون طبی عملہ کے مابین لسانی رکاوٹوں کو دور کرنے، معالجین اور مریضوں کے مابین اعتماد سازی کو فروغ دینے ، علاج معالجہ کی سہولیات کو مریضوںکی انفرادی ضروریات کے مطابق بنانے کے لیے صحت اور حفظان صحت کے شعبوں میں انگریزی زبان کے محتاط استعمال اور قومی زبان کے استعمال کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

تحقیقِ مزید کے امکانات

اس جائزہ کی روشنی میں درج ذیل تحقیق طلب امور کی نشاندہی کی جاتی ہے:
زیر نظر جائزہ معالجین کی اپنے مریضوں اور تیمارداروں کے رویوں کے بارے آرا ء پر مبنی ہے جو انھوں نے اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کے بعد ان کے متعلق قائم کی ہیں۔اسی نوعیت کا ایک تحقیقی جائزہ مریضوں اور تیمارداروں کی معالجین کی ابلاغی مہارت اور عادات کے متعلق بھی کیا جاسکتا ہے جس سے یہ پتا چلایا جاسکتا ہے کہ مختلف علاقوں میں واقع ہسپتالوں، ڈسپنسریوں، مراکز صحت، بنیادی مراکز صحت اور لیبارٹریوں میں تعینات معالجین اور طبی و معاون طبی عملہ اور مریضوں کے مابین غیرملکی زبان کے مقابلے میں قومی اور علاقائی زبانوں کے ذریعے ابلاغ کس قدر مؤثر ہے۔

اظہار تشکرات

مصنفین اس سروے کی تیاری میں ڈاکٹر مظہرعباس رضوی ، صدر شعبہ اطفال، قومی ادارہ برائے بحالی معذوراں اور ڈاکٹر خالد رحیم ، ماہر شعبہ فاصلاتی علاج، شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی کوششوں کے علاوہ ان تمام ڈاکٹروں کے شکر گزار ہیں جنھوں نے سوال نامہ پر کر کے اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار فرمایا۔

حوالہ جات

 

۱۔ ڈاکٹر فضل حکیم خٹک؛ پاکستان میں صحت کی اقتصادیات اور منصوبہ بندی ؛اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان ؛ 2009ء

2. Constitution of Islamic Republic of Pakistan, 1973.
3. Pakistan Economic Survey 2013-14; Govt. of Pakistan, Finance Division Economic Adviser's Wing; Islamabad. (www.finance.gov.pk)
4. SEON AE YEO "Language Barriers and Acess to Care"
(www.springerpub.com/..../9780826141347_ch..accessed on 20-06-2014
5. en.wikipedia.org/wiki/Language barrier (accessed on 27-06-2014)
6. www.thefreedictionary.com/language+barrier (accessed on 27-06-2014)
7. National Standard for culturally and linguistically appropriate services in health care: Final report (Report). Washington, DC:U.S. Department of Health Resources and Service Administration, (www.springerpub.com/....9780826141347_ch...(accessed on 12-07-2014)
8. RAND A. DAVID, M.D: "The Impact of Language as a Barrier to Effective Health Care in an Underserved Urban Hispanic Community" OCTOBER/NOVEMBER 1998 NUMBER 5&6 VOLUME 65:393-397.
9. www.nccccurricula.info/culturalcompetence.html (accessed on 14-07-2014)
10. Eliminating Health Disparities books among Racial and Ethnic...Civil Rights of 1964 (Waloshin et al.,1995 (google.com.pk/books, isbn=0826198031-accessed on 18-07-2014)
11. Lippincott-Raven Publishers "Eliminating Language barriers for non-English-speaking patients" Medical Care,34,845-856,1996 (www.jstor.org/stable/3766401 accessed on 18-07-2014)
12. E'Lousie Ondash, RN, "Overcoming Language Barriers Faced in Health Care"
13. www.nursezone.com (accessed on 18-07-2014)
14. www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/journals/182/ (accessed on 18-07-2014)

۱۵۔ فریدہ حفیظ؛ عوامی نمائندے اور قومی زبان(سروے رپورٹ) ؛اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان ؛ 1987ء
۱۶۔ ڈاکٹر گیان چند ؛تحقیق کا فن؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان؛ 1994ء