جمشیدعالم

وفاق اور صوبوں کے مابین تعلقات اور طریق کار
جائنٹ سیکریٹری (ر)


باب نمبر ۱ وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات قانون سازی کی تقسیم
۱۔ وفاقی و صوبائی قوانین کی وسعت:
آئین کے تحت، مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) پورے پاکستان یا اس کے کسی حصے کے لیے قوانین (جن میں بیرونِ ملک قابل عمل قوانین شامل ہیں) بناسکے گی اور کوئی صوبائی اسمبلی اس صوبے یا اس کے کسی حصے کے لیے قوانین بناسکے گی۔
۲۔ وفاق اور صوبائی قوانین کے موضوعات : اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے تحت،
(الف) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی امر کے بارے میں قوانین بنانے کا بلاشرکت غیرے اختیار ہوگا؛
(ب) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلی کے پاس قانون فوجداری، فوجداری طریق کار اور اشتہارات کے ضمن میں قوانین وضع کرنے کا اختیار ہوگا*۔
۳۔ صوبائی اسمبلی کااختیار :
صوبائی اسمبلی کو کسی ایسے معاملے میں قانون سازی کرنے کا اختیار ہوگا جو وفاقی قانون سازی کی فہرست میں بیان نہیں کیا گیا۔ یہ اختیار مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو حاصل نہیں ہوگا*۔
۴۔ وفاق کے زیرانتظام علاقہ جات میں مجلس شوریٰ کا اختیار:
مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے پاس ایسے تمام معاملات سے متعلق قوانین وضع کرنے کا مکمل اختیار ہوگا جن کا تعلق وفاق کے ایسے علاقوں سے ہو جو کسی صوبے میں شامل نہ ہوں*۔
۵۔ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی ایک سے زیادہ صوبوں کی رضامندی سے قانون سازی کا اختیار:
اگر ایک یا زیادہ صوبائی اسمبلیاں اس مضمون کی قرارداد منظور کریں کہ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کسی ایسے معاملے کو جو آئین کی جدول چہارم میں دی گئی وفاقی قانون سازی کی فہرست میں درج نہ ہو، قانون کے ذریعے منضبط کرے، تو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے لیے جائز ہوگا کہ وہ مذکورہ معاملے کو بجنسہٖ منضبط کرنے کے لیے ایک ایکٹ منظور کرے لیکن اس طرح منظور کردہ کسی ایکٹ میں ایسے صوبے کی بابت جس پر وہ اطلاق اگر ایک یا زیادہ صوبائی اسمبلیاں اس مضمون کی قرارداد منظور کریں کہ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کسی ایسے معاملے کو جو آئین کی جدول چہارم میں دی گئی وفاقی قانون سازی کی فہرست میں درج نہ ہو، قانون کے ذریعے منضبط کرے، تو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے لیے جائز ہوگا کہ وہ مذکورہ معاملے کو بجنسہٖ منضبط کرنے کے لیے ایک ایکٹ منظور کرے لیکن اس طرح منظور کردہ کسی ایکٹ میں ایسے صوبے کی بابت جس پر وہ اطلاق پذیر ہو اس اسمبلی کے ایکٹ کے ذریعے ترمیم یا تنسیخ کی جاسکے گی۔
۶۔ وفاقی اور صوبائی قانون میں تناقض:
اگر کسی صوبائی اسمبلی کے کسی ایکٹ کا کوئی حکم مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ایکٹ کے کسی حکم سے متناقض ہو جسے مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) وضع کرنے کی مجاز ہو تو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا ایکٹ، خواہ وہ صوبائی اسمبلی کے ایکٹ سے پہلے بنا ہو یا بعد میں، غالب رہے گا اور صوبائی اسمبلی کا ایکٹ تناقض کی حد تک باطل رہے گا۔*

باب نمبر۲ وفاق اور صوبوں کے درمیان انتظامی تعلقات

۱۔ صدر مملکت کا گورنر کو اپنے عامل کے طور پر بعض کارہائے منصبی انجام دینے کا حکم یا اختیار:
صدر کسی صوبے کے گورنر کو حکم دے سکے گا کہ وہ اس کے عامل کی حیثیت سے، بالعموم یا کسی خاص معاملے میں، وفاق کے ایسے علاقوں کی بابت جو کسی صوبے میں شامل نہیں ہیں، ایسے کارہائے منصبی انجام دے جن کی حکم میں صراحت کی گئی ہو۔
۲۔ وفاق کا بعض صورتوں میں صوبوں کو اختیارات وغیرہ تفویض کرنے کا اختیار:
(۱) آئین کے آرٹیکل ۱۴۶ کے تحت ،وفاقی حکومت کسی صوبے کی حکومت کی رضامندی سے کسی ایسے معاملے سے متعلق جو وفاق کے عاملانہ اختیار کے دائرہ میں آتا ہو کارہائے منصبی، مشروط /غیرمشروط طور پر اس حکومت کو یااس کے عہدے داروں کے سپرد کرسکے گی۔
(۲) مجلس شوریٰ کا کوئی ایکٹ، باوجود اس امر کے کہ اس کا تعلق کسی ایسے معاملے سے ہو جس کی بابت کسی صوبائی اسمبلی کو قانون سازی کا اختیار نہ ہو، کسی صوبے یا اس کے عہدے داروں اور ہیئت ہائے مجاز کو اختیارات تفویض کرسکے گا اور ان پر فرائض عائد کرسکے گا۔
(۳) جب کسی صوبے یا اس کے عہدے داروں یا ہیئت ہائے مجاز کو آئین کے آرٹیکل ۱۴۶ کی رُو سے اختیارات اور فرائض تفویض عائد کیے گئے ہوں، تو مذکورہ اختیارات کے استعمال یا مذکورہ فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں صوبے کی جانب سے برداشت کیے جانے والے زائد انتظامی اخراجات کی بابت وفاق کی طرف سے صوبے کو ایسی رقم ادا کی جائے گی جو آپس میں طے ہوجائے، یا طے نہ ہونے کی صورت میں ، ایسی رقم جو چیف جسٹس کے مقررکردہ کسی ثالث کی طرف سے متعین کی جائے۔
۳۔ صوبے کا وفاق کو کارہائے منصبی سپرد کرنے کااختیار:
کسی صوبے کی حکومت وفاقی حکومت کی رضامندی سے کسی ایسے معاملے سے متعلق جو صوبے کے عاملانہ اختیار کے دائرہ میں آتا ہو، کارہائے منصبی، مشروط طور پر یا غیرمشروط طور پر، وفاقی حکومت یا اس کے عہدے داروں کے سپرد کرسکے گی۔ تاہم صوبائی حکومت اس طرح سپرد کردہ کارہائے منصبی کی ساٹھ دن کے اندر صوبائی اسمبلی سے توثیق کرائے گی۔
۴۔ صوبوں اور وفاق کی ذمہ داری:
(۱) ہر صوبے کا عاملانہ اختیار اس طرح استعمال کیا جائے گا کہ اس سے ان وفاقی قوانین کی تعمیل کی ضمانت ملے جو اس صوبے میں اطلاق پذیر ہوں؛
(۲) کسی صوبے میں وفاق کے عاملانہ اختیار کو استعمال کرنے میں اس صوبے کے مفادات کا لحاظ رکھا جائے گا؛
(۳) وفاق کا یہ فرض ہوگا کہ ہر صوبے کو بیرونی جارحیت اور اندرونی خلفشار سے محفوظ رکھے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ صوبے کی حکومت آئینی احکام کے مطابق چلائی جائے۔
۵۔ بعض صورتوں میں صوبوں کے لیے ہدایات: (۱) آئین کے آرٹیکل ۱۴۹ کے مطابق ہر صوبے کا عاملانہ اختیار اس طرح استعمال کیا جائے گا کہ وہ وفاق کے عاملانہ اختیار میں حائل نہ ہو یا اسے نقصان نہ پہنچائے اور وفاق کو یہ عاملانہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی صوبے کو ایسی ہدایات دے جو اس مقصد کے لیے
وفاقی حکومت کو ضروری معلوم ہوں۔
(۲) وفاق کویہ عاملانہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی صوبے کو ایسے ذرائع مواصلات کی تعمیر اور نگہداشت کے لیے ہدایات دے جنھیں قومی یا فوجی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہو۔
(۳) وفاق کو عاملانہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی صوبے کو ایسے طریقے کی بابت ہدایات دے جس میں اس کے عاملانہ اختیار کو پاکستان یا اس کے کسی حصے کے امن و سکون اور معاشی زندگی کے لیے کسی سنگین خطرے کے انسداد کی غرض سے استعمال کیا جانا ہو۔
۶۔ سرکاری کارروائیوں وغیرہ پر مکمل اعتماد و اعتبار:
ہر صوبے کی سرکاری کارروائیوں اور ریکارڈوں اور عدالتی کارروائیوں کو پاکستان بھر میں پورے طور پر معتبر اور وقیع سمجھا جائے گا۔
۷۔ بین الصوبائی تجارت :
(۱) پاکستان بھر میں تجارت، بیوپار اور رابطہ کی آزادی ہوگی ؛
(۲) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) قانون کے ذریعے، ایک صوبے سے دوسرے صوبے کے مابین یا پاکستان کے اندر کسی حصے میں تجارت، بیوپار یا رابطہ کی آزادی پر، ایسی پابندیاں عائد کرسکے گی جو مفاد عامہ کے لیے درکار ہوں۔
(۳) کسی صوبائی اسمبلی یا کسی صوبائی حکومت کو اختیار نہیں ہوگا کہ
(الف) کوئی ایسا قانون بنائے یا کوئی ایسی انتظامی کارروائی کرے جس میں اس صوبے میں کسی نوع یا کسی قسم کی اشیاء کے داخلے یا اس صوبے سے ان کی برآمدگی کی ممانعت یا تحدید کی گئی ہو؛ یا
(ب) کوئی ایسا محصول عائد کرے جو اس صوبے کی تیارکردہ یا پیداکردہ اشیاء اورپاکستان کے کسی دوسرے علاقے میں تیارکردہ یا پیداکردہ ویسی ہی اشیاء ہوں، کے درمیان اور اول الذکر اشیاء کے حق میں امتیاز پیدا کرے، یا جو اس صوبے سے باہر تیارکردہ یا پیدا کردہ اشیاء کے معاملہ میں، پاکستان کے کسی ایک علاقے میں تیارکردہ یا پیدا کردہ اشیاء اور کسی دوسرے علاقے میں ویسی ہی تیارکردہ یا پیداکردہ شیاء کے درمیان امتیاز پیدا کرے۔
(۴) کسی صوبائی اسمبلی کو کوئی ایسا ایکٹ جو صحت عامہ، امن عامہ، اخلاق عامہ، جانوروں یا پودوں کو بیماری سے محفوظ رکھنے یا اس صوبے میں کسی ضروری شے کی شدید قلت کو روکنے یا کم کرنے کی غرض سے کوئی مناسب پابندی لگاتا ہو، ناجائز نہیں ہوگا، اگر وہ صدر کی رضامندی سے بنایا گیا ہو۔
۸۔ وفاقی اغراض کے لیے اراضی کا حصول:
اگر وفاق کسی ایسی اراضی کو جو کسی صوبے میں واقع ہو، کسی ایسے مقصد کے لیے جو کسی ایسے معاملے سے متعلق ہو جس کے بارے میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو قوانین وضع کرنے کا اختیار ہو، حاصل کرنا ضروری خیال کرے تو وہ اس صوبے کو حکم دے سکے گا کہ وہ اس اراضی کو وفاق کی طرف سے اور اس کے خرچ پر حاصل کرے یا، اگر اراضی صوبے کی ملکیت ہو تو اسے وفاق کے نام ایسی شرائط پرمنتقل کرے جو طے پاجائے یا طے نہ پانے کی صورت میں، چیف جسٹس پاکستان کے مقررکردہ کسی ثالث کی طرف سے طے کی جائیں۔
باب نمبر۳ وفاق اور صوبوں کے درمیان مشترکہ معاملات و مفادات
پر فیصلہ سازی اور تنازعات کا تصفیہ

۱۔ قومی معاشی کونسل:
آئین کے آرٹیکل ۱۵۶ کے تحت صدرمملکت ایک قومی معاشی کونسل تشکیل دیں گے۔ کونسل کے ارکان مندرجہ ذیل ہوں گے۔
(۱) وزیراعظم جو کونسل کا چیئرمین ہوگا۔
(۲) وزراء اعلیٰ ؛
(۳) ہر صوبے سے ایک رکن جس کی نامزدگی وزیراعلیٰ کرے گا۔
(۴) دوسرے چار ارکان جن کی نامزدگی وقتاً فوقتاً وزیراعظم کرے گا۔
۲۔ کونسل کے کارہائے منصبی:
قومی معاشی کونسل ملک کی مجموعی معاشی حالت کا جائزہ لے گی اور وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو مشورہ دینے کے لیے مالیاتی، تجارتی، معاشرتی اور معاشی پالیسیوں کے بارے میں منصوبے تشکیل دے گی اور ایسے منصوبے تشکیل دیتے وقت دوسرے عناصر سمیت متوازن ترقی اور علاقائی مساوات کو یقینی بنائے گی اور پالیسی کے ان اصولوں سے رہنمائی حاصل کرے گی جو آئین کے حصہ دوم کے باب ۲ میں درج ہیں۔
۳۔ کونسل کا اجلاس:
کونسل کا اجلاس چیئرمین بلائے گا یا کونسل کے نصف ارکان کی درخواست پر کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا۔ کونسل کا اجلاس سال میں کم از کم دو مرتبہ ہوگا اور کونسل کے اجلاس کا کورم اس کی کل رکنیت کا نصف ہوگا۔
۴۔ سالانہ رپورٹ :
کونسل مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ)کے سامنے جواب دہ ہوگی اور مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ہر ایوان کو سالانہ رپورٹ پیش کرے گی۔
۵۔ بین الصوبائی کانفرنس:
بین الصوبائی کانفرنس کا اجلاس بین الصوبائی رابطہ ڈویژن منعقد کرے گا جس کی صدارت وزیراعظم کرے گا۔
۶۔ کارہائے منصبی:
بین الصوبائی کانفرنس میںمندرجہ ذیل اُمور پیش کیے جائیں گے۔
(۱) معاشی، معاشرتی اور انتظامی دائرہ کار میں صرف قومی اہمیت کے معاملات، جن پر پالیسی فیصلوں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان باہمی گفتگو کی ضرورت ہو، بین الصوبائی کانفرنس میں پیش کیے جائیں گے۔
(۲) اس کانفرنس کا ایک بڑا مقصد قومی مفاد کے تمام معاملات میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان پالیسی کی تشکیل اور اس کے نفاذ میں یکساں انداز نظر کو فروغ دینا ہے۔
(۳) یہ کانفرنس صوبائی حکومتوں کے تجویز کردہ ایسے پالیسی مسائل پر بھی گفتگو کرتی ہے جو ملک کے لیے بحیثیت مجموعی معاشی، معاشرتی یا انتظامی مضمرات کے حامل ہیں۔
۷۔ مشترکہ مفادات کونسل
آئین کے آرٹیکل ۱۵۳ کے تحت ایک مشترکہ مفادات کونسل کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کونسل کی تشکیل صدرمملکت کریں گے اور یہ کونسل مندرجہ ذیل ارکان پر مشتمل ہوگی۔
(۱) وزیراعظم جو کونسل کا چیئرمین ہوگا؛
(۲) صوبوں کے وزراء اعلیٰ؛
(۳) وفاقی حکومت کے تین ارکان جنھیں وقتاً فوقتاً وزیراعظم نامزد کرے گا۔
۸۔ سالانہ رپورٹ:
کونسل مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے سامنے جواب دہ ہوگی اور دونوں ایوانوں کے سامنے ایک سالانہ رپورٹ پیش کرے گی۔
۹۔ کارہائے منصبی اور طریق کار:
کونسل کے کارہائے منصبی اور طریق کار مندرجہ ذیل ہیں؛
(۱) کونسل وفاقی قانون سازی فہرست کے حصہ دوم میں درج شدہ معاملات کی پالیسیوں کی تشکیل اور ضابطہ بندی کرے گی اور متعلقہ اداروں کی نگرانی اور ان پر کنٹرول کرے گی۔
(۲) وزیراعظم کے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے تیس یوم کے اندر کونسل کی تشکیل کی جائے گی۔
(۳) کونسل کا مستقل سیکریٹریٹ ہوگا اور نوے دن میں کم از کم ایک دفعہ کونسل کا اجلاس ہو گا مگر شرط یہ ہے کہ کسی ہنگامی معاملہ کی صورت میں کسی صوبہ کی درخواست پر وزیراعظم اجلاس منعقد کرسکے گا۔
(۴) کونسل کے فیصلوں کا اظہار کثرت رائے سے کیا جائے گا۔
(۵) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اپنے مشترکہ اجلاس میں، قرارداد کے ذریعے ، وفاقی حکومت کے توسط سے کونسل کو عمومی طور پر یا کسی خاص معاملے میں، ایسی کارروائی کرنے کے لیے جو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) مبنی برانصاف اور مناسب خیال کرے، وقتاً فوقتاً ہدایات جاری کرسکے گی اور کونسل ایسی ہدایات کی پابند ہوگی۔
(۶) اگر وفاقی حکومت یا کوئی صوبائی حکومت کونسل کے کسی فیصلے سے غیرمطمئن ہو تو وہ اس معاملے میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے مشترکہ اجلاس سے رجوع کر سکے گی جس کا فیصلہ اس بارے میں حتمی ہوگا۔
(۷) اگر وفاقی حکومت کسی صوبے میں بجلی پیدا کرنے کی غرض سے انتظامات کرے اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت میں کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے تو اس تنازعہ کے حل کے لیے کوئی بھی حکومت مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے معاملہ اٹھا سکتی ہے۔
۱۰۔ آب رسانی میں مداخلت کی شکایات:
اگر کسی صوبے ، وفاقی دارالحکومت یا وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں یا ان کے باشندوں میں سے کسی کے، کسی قدرتی سرچشمہ آب رسانی یا ذخیرۂ آب سے پانی کے حصول کے مفادات پر مندرجہ ذیل امور کی وجہ سے مضر اثر پڑا ہو، یا پڑنے کا امکان ہو؛
(الف) کوئی عاملانہ کارروائی جو زیرعمل لائی گئی ہو، یا قانون جو منظور کیا گیا ہو، یا جس کے زیرعمل لائے جانے یا منظور کیے جانے کی تجویز ہو، یا
(ب) مذکورہ سرچشمے سے پانی کے استعمال اور تقسیم یا کنٹرول کے سلسلے میں کسی ہیئت مجاز کی طرف سے اپنے اختیارات میں سے کسی کو بروئے کار لانے میں کوتاہی ہو تو وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کونسل سے تحریری طور پر شکایت کرسکے گی۔
۱۱۔ وفاقی حکومت کے اختیارات :
کسی صوبے میں بجلی پیدا کرنے کی غرض سے وفاقی حکومت کو مندرجہ ذیل اختیارات حاصل ہیں۔
(۱) پن بجلی /حرارتی برقی تنصیبات:پن بجلی (ہائیڈروالیکٹرک) یا حرارتی برقی(تھرمل پاور) تنصیبات یا گرڈاسٹیشن تعمیرکر یا تعمیر کراسکتی ہے؛
(۲) صوبائی حکومت سے مشاورت:پن بجلی اسٹیشن کی تعمیر کرنے یا کرانے کا فیصلہ کرنے سے قبل، وفاقی حکومت متعلقہ صوبائی حکومت سے مشاورت کرے گی۔
(۳) بین الصوبائی ترسیلی تار: وفاقی حکومت بین الصوبائی ترسیلی تار بچھاسکے گی یا بچھواسکے گی۔
۱۲۔ صوبائی حکومت کے اختیارات : بجلی پیدا کرنے، ترسیل کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے کسی صوبائی حکومت کو مندرجہ ذیل اختیارات حاصل ہیں۔
(۱) بجلی کی بڑی مقدار کا مطالبہ: صوبے کو قومی گرڈ سے جس حد تک بجلی فراہم کی گئی ہو، صوبائی حکومت یہ مطالبہ کرسکتی ہے کہ صوبے کے اندر ترسیل و تقسیم کے لیے بجلی بڑی مقدار میں فراہم کی جائے؛
(۲) بجلی کے استعمال پر محصول: صوبائی حکومت اپنے صوبے کے اندر بجلی کے استعمال پر محصول عائد کرسکتی ہے؛
(۳) بجلی گھر کی تعمیر: صوبے کے اندر استعمال کی غرض سے بجلی گھر اور گرڈاسٹیشن تعمیر کرسکتی ہے؛
(۴) ترسیلی تار بچھانا: صوبائی حکومت بجلی کے ترسیلی تار بچھا سکتی ہے۔
(۵) نرخنامہ بجلی : صوبے کے اندر بجلی کی تقسیم کے لیے نرخنامے کا تعین کرسکتی ہے۔
۱۳۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بجلی پیدا کرنے، ترسیل کرنے اور تقسیم کرنے پر تنازع: بجلی کے کسی معاملے کی بابت وفاقی حکومت اور کسی صوبائی حکومت کے درمیان کسی تنازع کی صورت میں مذکورہ حکومتوں میں سے کوئی بھی حکومت اس تنازع کے حل کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کے پاس جاسکتی ہے۔
۱۴۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن نشریات: (۱) صوبائی حکومت کو نشریاتی کارہائے منصبی کی سپردگی: وفاقی حکومت کسی صوبائی حکومت کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشریات کے بارے میں ایسے کارہائے منصبی سپرد کرنے سے غیرمعقول طور پر انکار نہیں کرے گی جو اس حکومت کے لیے مندرجہ ذیل اغراض کے لیے ضروری ہوں:
(الف) صوبے میں ٹرانسمیٹر کی تعمیر اور اس کا استعمال؛
(ب) وصول کنندہ آلات کے استعمال کے بارے میں حسب قاعدہ فیس مقرر کرنا اور اسے عائد کرنا
(۲) وفاقی حکومت اس امر کی پابند نہیں ہے کہ وہ ان ٹرانسمیٹروں کے استعمال پر، جو وفاقی حکومت یا وفاقی حکومت کے مجازکردہ اشخاص کے تعمیر کردہ یازیرتحویل ہوں، یا اس طرح مجازکردہ اشخاص کی طرف سے وصول کنندہ آلات کے استعمال پر کوئی اختیار کسی صوبائی حکومت کو سپرد کردے۔
(۳) کوئی کارہائے منصبی جو کسی صوبائی حکومت کے سپرد کئے گئے ہوں، وفاقی حکومت کی عائدکردہ شرائط، بشمول مالیاتی شرائط، کے تحت انجام دئیے جائیں گے، لیکن وفاقی حکومت کے لیے کوئی ایسی شرائط عائد کرنا جائز نہ ہوگا جو ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر صوبائی حکومت کی طرف سے یا اس کے حکم سے نشرکردہ مواد کو منضبط کرتی ہوں۔
(۴) ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات کے بارے میں مذکورہ بالا احکام وفاقی قانون کے ذریعے نافذ ہوں گے۔
(۵) اگر یہ سوال پیدا ہو کہ آیا صوبائی حکومت پر عائدکردہ شرائط جائز ہیں یا صوبائی حکومت کو کارہائے منصبی سپرد کرنے سے وفاقی حکومت کا انکار غیرمعقول ہے تو اس سوال کا تصفیہ چیف جسٹس کا مقررکردہ ثالث کردے گا۔

 

 

باب نمبر ۴ وفاق اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم

۱۔ قومی مالیاتی کمیشن:
وفاق اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کے لیے آئین کے آرٹیکل۱۶۰ کے تحت قومی مالیاتی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ کمیشن وفاقی حکومت کے وزیرمالیات، صوبائی حکومتوں کے وزرائے مالیات اور ایسے دیگر اشخاص پر مشتمل ہے جنھیں صدر صوبوں کے گورنروں سے مشورے کے بعد مقرر کرے گا۔
۲۔ کمیشن کی سفارشات:
(۱) قومی مالیاتی کمیشن کا فرض ہے کہ وہ صدرمملکت کو حسب ذیل کے بار ے میں سفارشات پیش کرے۔
(الف) مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے اختیار کے تحت مندرجہ ذیل وصول شدہ محصولات کی خالص آمدنی (وہ آمدنی جوو صولی کے اخراجات وضع کرنے کے بعد باقی بچے اور اس کی تحقیق و تصدیق آڈیٹر جنرل کی طرف سے کی جائے گی۔ ) کی وفاق اور صوبوں کے درمیان تقسیم:
(اول) آمدنی پر محصولات جس میں محصول کارپوریشن شامل ہے لیکن وفاقی مجموعی فنڈ میں سے اداشدہ معاوضے پر مشتمل آمدنی پر محصولات شامل نہیںہیں؛
(دوم) درآمد شدہ، برآمد شدہ، پیداکردہ، مصنوعہ یا صرف شدہ مال کی فروخت اور خرید پر محصول؛
(سوم) کپاس پر برآمدی محصولات اور ایسے دوسرے برآمدی محصولات جن کی صراحت صدر کرے؛
(چہارم) آبکاری کے ایسے محصولات جن کی صدر صراحت کرے؛
آئین کے آرٹیکل ۱۶۰ میں اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے یہ اضافہ کیا گیا ہے۔
(پنجم) ایسے دوسرے محصولات جن کی صدر صراحت کرے؛
(ب) وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو امداری رقوم دینا
(ج) وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے قرضہ لینے کے ان اختیارات کا استعمال جو آئین نے عطا کیے ہیں۔
(د) مالیات سے متعلق کوئی اور معاملہ جسے صدر نے کمیشن کو ارسال کیا ہو
(۲) قومی مالیاتی کمیشن کے ہر ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ پچھلے ایوارڈ میں ادا کردہ حصے سے کم نہیں ہوگا۔
(۳) قومی مالیاتی کمیشن کی سفارشات وصول ہونے کے بعد کسی فرمان کے جاری کرنے سے پہلے کسی بھی وقت، صدر، فرمان کے ذریعے، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کے بارے میں قانون میں کوئی ایسی ترمیم یا ردوبدل کرسکے گا جسے وہ ضروری یا قرین مصلحت سمجھے۔
(۴) صدر، فرمان کے ذریعے، امداد کے ضرورت مند صوبوں کے محاصل کے لیے امدادی رقوم دے سکے گا اور ایسی امدادی رقوم وفاقی مجموعی فنڈ سے واجب الادا ہوں گی؛
۳۔ سفارشات پر عمل درآمد :
قومی مالیاتی کمیشن کی سفارشات موصول ہونے کے بعد، جتنی جلد ہوسکے، صدر ،فرمان کے ذریعے، کمیشن کی سفارشات کے مطابق، مذکورہ محاصل کی اصل آمدنی کی اس حصے کی صراحت کرے گا جو ہر صوبے کے لیے مختص کیا جائے گا اور وہ حصہ متعلقہ صوبے کی حکومت کو ادا کردیا جائے گا اور وفاقی مجموعی فنڈ کا حصہ نہیں بنے گا۔
۴۔ ایوارڈ پر عمل درآمد:
(۱) وفاقی وزیرخزانہ اور صوبائی وزرائے خزانہ ہر سال دو مرتبہ ایوارڈ پر عمل درآمد کا جائزہ لیں گے اور اپنی رپورٹیںمجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے دونوں ایوانوں (سینیٹ و قومی اسمبلی) اور صوبائی اسمبلی کے سامنے پیش کریں گے۔*
۵۔ قدرتی گیس اور پن بجلی:
۱۔ (الف) قدرتی گیس کے سرچشمہ پر عائد کردہ اور وفاقی حکومت کی طرف سے وصول کردہ وفاقی محصول آب کاری اور وفاقی حکومت کی جانب سے وصول کردہ رائلٹی کی خالص آمدنی، وفاقی مجموعی فنڈ کا حصہ نہیں بنے گی اور وہ اس صوبہ کو ادا کردی جائے گی جس میں قدرتی گیس کا سرچشمہ واقع ہو۔
(ب) تیل کے سرچشمہ پر عائد کردہ اور وفاقی حکومت کی جانب سے وصول کردہ خالص آمدنی، وفاقی مجموعی فنڈ کا حصہ نہیں بنے گی اور وہ اس صوبہ کو ادا کردی جائے گی جس میں تیل کا سرچشمہ واقع ہو۔
۲۔ وفاقی حکومت یا کسی ایسے ادارے کی طرف سے جو وفاقی حکومت نے قائم ہو یا اس کے زیرانتظام ہو کسی پن بجلی گھر سے بجلی کی تھوک مقدار میں پیداوار سے کمائے ہوئے اصل منافع جات اس صوبے کو ادا کردیے جائیں گے جس میں وہ پن بجلی گھر واقع ہو۔
۶۔ کسی صوبے کو محصولات سے تفویض کردہ کلی یاجزوی آمدنی سے متعلق قانون سازی پر صدرمملکت کی پیشگی منظوری:
مندرجہ ذیل محصولات پر اثرانداز ہونے والا مسودہ قانون (نیا قانون یا ترمیم) صدرمملکت کی پیشگی منظوری کے بغیر نہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا اور نہ ہی اس کی تحریک کی جائے گی۔
(۱) ایسا ٹیکس یا ایسی ڈیوٹی عائد کرنا یا تبدیل کرنا جس کی اصل آمدنی کلی یا جزوی طور پر کسی صوبے کو تفویض کی جاتی ہو؛
(۲) ایسا بل جس سے ''زرعی آمدنی'' کی اصطلاح کا وہ مفہوم تبدل ہوتا ہو جو آمدنی ٹیکس سے متعلق وضع کردہ قوانین کی اغراض کے لیے متعین کیا گیا ہو۔
(۳) ایسا مسودہ قانون یعنی بل جو ان اصولوں کو متاثر کرتا ہو جن کی بنیاد پر مندرجہ ذیل صورتوں میں رقوم صوبوں میں تقسیم کی جاتی ہیں یا کی جاسکتی ہیں۔
(۳) ایسا مسودہ قانون یعنی بل جو ان اصولوں کو متاثر کرتا ہو جن کی بنیاد پر مندرجہ ذیل صورتوں میں رقوم صوبوں میں تقسیم کی جاتی ہیں یا کی جاسکتی ہیں۔
(الف) قومی مالیاتی کمیشن کی سفارشات پر؛
(ب) قدرتی گیس اور پن بجلی پر وفاقی حکومت کی طرف سے وصول کردہ وفاقی محصول آب کاری اور حق ملکیت پر معاوضہ/رائلٹی ۷۔ پیشوں وغیرہ کے بارے میں صوبائی محصولات :
کوئی صوبائی اسمبلی، ایکٹ کے ذریعے، ایسے ٹیکس، جو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی طرف سے منظورشدہ ایکٹ کے ذریعے وقتاً فوقتاً مقررکردہ حد سے تجاوز نہ کریں، ان اشخاص پر عائد کرسکے گی جو پیشوں، کاروبار، روزگار یا پیشہ ورانہ کاموں میں مصروف ہوں، اور اس اسمبلی کے ایسے کسی ایکٹ سے یہ تصور نہیں کیا جائے گا کہ آمدنی پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

باب نمبر ۵ جائیداد کی ملکیت اور اس کے بارے میں اختیارات

۱۔ لاوارث جائیداد :
(۱) آئین کے آرٹیکل ۱۷۲ کی رُو سے ایسی کوئی جائیداد ، جس کا کوئی جائز مالک نہ ہو، اگر کسی صوبے میں واقع ہو، تو اس صوبائی حکومت کی ملکیت ہوگی، بصورت دیگر ایسی جائیداد وفاقی حکومت کی ملکیت ہوگی۔
(۲) تمام اراضیات، معدنیات اور دوسری قیمتی اشیاء جو پاکستان کے براعظمی کنار آب کے اندر یا پاکستان کے علاقائی سمندر کی حد سے باہر، سمندر کے نیچے ہوں، وفاقی حکومت کی ملکیت ہوں گی۔
(۳) صوبہ کے اندر معدنی تیل اور قدرتی گیس یا ان میں علاقائی پانی اس صوبہ اور وفاقی حکومت کی مشترکہ اور مساوی ملکیت ہوں گے، تاہم موجودہ وعدوں اور ذمہ داریوں کو پورا کیا جائے گا۔ *
۲۔ جائیداد حاصل کرنا اور معاہدے کرنا:
(۱) ہر صوبہ کو مندرجہ ذیل انتظامی اختیار حاصل ہے:
(الف) متعلقہ صوبائی حکومت کی ملکیت میںموجود کوئی جائیداد کسی کو عطا کردے، فروخت کردے، بذریعہ دستاویز کسی کو منتقل کردے یا رہن رکھ دے؛
(ب) متعلقہ صوبائی حکومت کی طرف سے جائیداد خریدے یا حاصل کرے اور اس سلسلے میں معاہدات کرے۔
(۲) کسی صوبہ کی اغراض کے لیے حاصل کردہ تمام جائیداد، اس صوبائی حکومت کی ملکیت ہوگی؛
(۳) کسی صوبہ کا انتظامی اختیار استعمال کرتے ہوئے ، تمام معاہدات میں یہ اظہار کیا جائے گا کہ وہ صوبہ کے گورنر کے نام سے کیے گئے ہیں اور مذکورہ اختیار استعمال کرتے ہوئے کیے گئے تمام معاہدات اور تکمیل کی گئی تمام دستاویزات جائیداد پر گورنر کی جانب سے ایسے اشخاص دستخط کریں گے اور ایسے طریقے پر کیے جائیں گے جن کی وہ ہدایت کرے یا اجازت دے۔
(۴) کسی صوبہ کے انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی معاہدہ یا تکمیل کردہ کسی جائیداد کے بارے میں کسی صوبے کا گورنر ذاتی طور پر ذمہ دار نہیں ہوگا۔ اسی طرح کوئی ایسا شخص جو گورنر کی جانب سے کوئی ایسا معاہدہ کرے یا کسی دستاویز جائیداد کی تکمیل کرے اس سلسلے میں ذاتی طور پر ذمہ دار نہیں ہوگا۔
(۵) انتقال اراضی: وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی طرف سے اراضی کے انتقال کو قانون کے ذریعے باضابطہ کیا جائے گا۔
۳۔ مقدمات و کارروائیاں:
وفاق کی جانب سے اور اس کے خلاف، پاکستان سے مقدمہ دائر کیا جاسکے گا اور کسی صوبے کی جانب سے اور اس کے خلاف اس صوبہ کے نام سے مقدمہ دائر کیا جاسکے گا۔
باب نمبر ۶ متفرق مالیاتی احکامات

مجموعی فنڈ سے عطیات:
کوئی صوبہ کسی غرض کے لیے عطیات دے سکے گا، بلالحاظ اس امر کے کہ غرض وہ نہ ہو جس کے بارے میں کوئی صوبائی اسمبلی قانون وضع کرسکتی ہے۔
صوبائی حکومت کا قرض لینا:
(۱) کسی صوبہ کو صوبائی مجموعی فنڈ کی ضمانت پر، صوبائی اسمبلی کے کسی ایکٹ کے ذریعے مقررہ حدود کے اندر، اگر کوئی ہوں، قرض لینے اور ضمانتیں دینے کا انتظامی اختیار حاصل ہے۔
(۲) کوئی صوبہ وفاقی حکومت کی رضامندی کے بغیر درج صورتوں میںکوئی قرضہ حاصل نہیں کرسکے گا۔
(الف) اگر صوبہ کے ذمہ اس قرضے کا جو وفاقی حکومت کی طرف سے اسے دیا گیا ہو، کوئی حصہ ابھی تک باقی ہو؛
(ب) اگر صوبہ کے ذمہ ایسا قرضہ باقی ہو، جس کی بابت وفاقی حکومت نے ضمانت دی ہو۔
(۳) مذکورہ بالا صورتوںمیں، ایسی شرائط کے تحت جو وہ عائد کرنا مناسب سمجھے، وفاقی حکومت اپنی رضامندی دے سکتی ہے۔
(۴) وفاقی مجموعی فنڈ کی ضمانت پر، ایسی حدود کے اندر اور ایسی شرائط کے تحت جو قومی معاشی کونسل نے طے کی ہوں، کوئی صوبہ ملکی یا بین الاقوامی قرضہ حاصل کرسکے گا۔
۲۔ وفاقی املاک/آمدنی کا صوبائی محصول سے استثنیٰ :
وفاقی حکومت کی املاک یا آمدنی پر کسی صوبائی اسمبلی کے ایکٹ کے تحت کوئی محصول عائد نہیں کیا جائے گا۔
۳۔ صوبائی املاک/آمدنی کا وفاقی محصول سے استثنیٰ :
کسی صوبائی حکومت پر اس کی املاک یا آمدنی پر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ایکٹ کے تحت کوئی محصول عائد نہیں کیا جائے گا۔
۴۔ ایک صوبے کی املاک /آمدنی کا دوسرے صوبے کے محصول سے استثنیٰ :
کسی صوبائی حکومت پر اس کی املاک یا آمدنی پر کسی دوسرے صوبے کی صوبائی اسمبلی کے تحت کوئی محصول عائد نہیں کیا جائے گا۔
۵۔ تجارت/کاروبار میں مستعمل املاک اور تجارت /کاروبار سے حاصل شدہ آمدنی پر محصول :
اگر کسی صوبے کی حکومت کسی قسم کی تجارت یا کاروبار، اپنے صوبے سے باہر کرتی ہو، یا اس کی طرف سے کیا جاتا ہو، تو اس تجارت/کاروبارمیں مستعمل املاک، یا اس تجارت/ کاروبار سے حاصل شدہ آمدنی پر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ایکٹ کے تحت، یا جس صوبے میں وہ تجارت یا کاروبار کیا جاتا ہو، اس صوبے کی صوبائی اسمبلی کے ایکٹ کے تحت محصول عائد کیا جاسکے گا۔ اس سلسلے میں خدمات پر فیس عائد کرنے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہوگا۔کتابیات
۱۔ قواعد کار ۱۹۷۳ء (مسودہ) ؛ حکومت پاکستان ؛ مترجم : قاضی عزیزالرحمن عاصم، نظرثانی : جمشیدعالم؛ اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان۔
۲۔ قواعد کار حکومت بلوچستان، ۱۹۷۶ئ۔
۳۔ قواعد کار حکومت پنجاب، ۲۰۱۱ء ۔
۴۔ قواعد کار حکومت شمال مغربی سرحدی صوبہ، ۱۹۸۵ئ۔
۵۔ قواعد کار حکومت سندھ، ۱۹۸۶ئ۔
۶۔ پاکستان کا نظام حکومت اور سیاست؛ ڈاکٹر ایم اے فاروق؛ کراچی،مکتبہء فریدی،؛ ۱۹۷۶ئ۔
۷۔ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت؛ محمدسرور، گلزارمحی الدین ؛لاہور، علمی کتاب خانہ؛ طبع دوم؛ ۱۹۷۴ء
۸۔ قانونی انگریزی اُردو لغت (بلیکس لاء ڈکشنری سے ماخوذ) ؛ نگران ؛ پروفیسر فتح محمد ملک؛ اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان، ۲۰۰۲ئ۔
۹۔ قومی انگریزی اُردو لُغت؛ تدوین: ڈاکٹر جمیل جالبی ؛ اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان، ا۱۹۹۲ئ۔
۱۰۔ اوکسفرڈ انگلش اُردو ڈکشنری؛ مرتب و مترجم : شان الحق حقی؛کراچی، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، ۲۰۰۳ئ۔
۱۱۔ پاکستان کا نظامِ حکومت اور سیاست ؛ ڈاکٹر ایم اے رزاق؛ کراچی،مکتبۂ فریدی،کراچی؛ ۱۹۷۶ئ۔
۱۲۔ محکموں اور اداروں کے نام؛ مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۸۵ئ۔


13. Constitution of the Islamic Republic of Pakistan; 1973
14. Constitution (Eighteenth Amendment). Act, 2010
Constitution (Twentieth Amendment) Act, 2012
15. Government and Administration in Pakistan; by: Dr Jameel-ur-Rehman; MS Wing,(PPRC); Islamabad; 2003.
16. Rules of Business 1973; Government of Pakistan (Cabinet Division); Islamabad.
17.. A Hand book for Drawing & Disbursing Officers; MS Division (PPARC), Islamabad; Revised Edition 1988 (Reprint 1989)
18. Distribution of Legislative Powers;Lecture, by G.M.Chaudhary; Islamabad, Ministry of Law, Justice and Human Rights.
19. Constitutional Integrity and the Constitution of 1973; by M.Amjad Khan; Frontier Post; Dt: April, 9, 2000.
20. Official website Governments of Balochistan, Khyber Pakhtun Khwa, Punjab and Sindh.