استقبال

اﷲ کے نام سے جس نے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور زبانوں اور رنگتوں کی رنگارنگی کو غورکرنے والوں کے لیے اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔
دنیا میں ایسی کسی بھی زندہ، آزاد اور باعزت قوم کا وجود نہیں ملتا جو اپنا نظام مملکت اپنی قومی زبان کے بجائے کسی غیرزبان میں چلائے اور ترقی یافتہ بھی کہلائے۔ دراصل ایسا کرنا فطرت کے عین خلاف ہے۔ اگر آزادی ایک نعمت ہے تو ہر قوم کے نظریے کے اظہار کے لیے قومی زبان کا ہی تصور مسلّمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی آزاد ریاستیں آج بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر قومی زبان کی طویل المیعاد اور قلیل المیعاد، ہر دو طرح کی، منصوبہ بندی کرکے اپنے پیغام کو آگے بڑھاتی ہیں۔ قوموں نے ہمیشہ اسی سے عروج پایا ہے۔
مجلہ 'علم و فن' کے اجراء پر ہمارے پیش نظر بھی یہی تھا کہ ہم قومی زبان کے نفاذ و فروغ کے عبوری دور سے گزررہے ہیں۔ قومی زبان کو اس مملکت کے نظام کا جزولاینفک بنانے کے لیے حقائق ، اعدادوشمار اور جدیدتر تحقیقی مقالات کی بنیاد پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اس کے مقالات اس بات کا مکمل اظہار ہوں کہ اردو آج بھی علوم و فنون کو بہ سہولت بیان کرنے کی پوری قدرت رکھتی ہے۔ لسانی اخذ و ماخوذ کے وصف سمیت اس کے اندر دنیا کے دیگر ممالک کی قومی زبانوں سے کہیں زیادہ خدادادلسانی صلاحیتیں موجود ہیں۔ یوںاردو کو مجلہ 'علم وفن'کی وساطت سے جہاںنئے موضوعات ملیں گے وہاں اردو کے ذخیرہ ٔاصطلاحات اور بالآخر ذخیرۂ الفاظ میں بھی اضافہ ممکن ہوسکے گا۔ گویا جدید علوم و فنون کے ذریعے نظام مملکت کو بھی قومی زبان آمیز کرنے کی فطری راہ ہموار ہوگی۔
آپ کو یہ جان کر مسرت ہوگی کہ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران بہت سی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں۔' علم و فن' کا دوسرا شمارہ ادارہ فروغ قومی زبان (حکومت پاکستان) کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے جو ان شاء اﷲ قومی زبان کے فروغ و نفاذ کا باعث ہوگا۔ 'علم و فن' کے پہلے شمارے کی اشاعت کے بعد سب سے پہلی اور خوشگوار تبدیلی یہ ہوئی کہ حکومت پاکستان نے آئینی فرض کو پورا کرنے کے لیے 'مقتدرہ' نامی سابق خودمختار ادارے کو ۱۷۔ اگست ۲۰۱۲ء سے وزارت کا ملحقہ سرکاری محکمہ قرار دے کر قومی زبان کے لیے عملی پیش رفت کردی ہے۔ نفاذ قومی زبان کے لیے بلاشبہ خودمختار ادارے کی حیثیت سے ۳۳ سالہ جدوجہد اس عمل کا ایک لازمی لیکن پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے لیے ۱۹۸۱ء اور ۲۰۰۵ء میں پیش کی گئی جامع سفارشات حکومت پاکستان کے زیرغور ہیں۔
مجلہ 'علم و فن' کی پہلی کاوش نہایت خوشگوار رہی۔ اولین شمارے میں پاکستان اعلیٰ تعلیم کمیشن کے تسلیم شدہ اردو جرائد کے تلخیصی اشاریہ کا آغاز کیا گیا تھا۔اس کی علمی و تحقیقی ضرورت کے پیش نظر پاکستان اعلیٰ تعلیم کمیشن کی سبجیکٹ کمیٹی نے اشاریہ اردو جرائدکی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے سراہاہے۔
مجلہ 'علم و فن' میں شائع شدہ مقالہ ''قومی زبان اردو اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے منشورات۔ ایک تجزیاتی مطالعہ'' پر ملک کے مؤقر اخبارات اور بڑی قومی سیاسی جماعتوں کے ذمہ دار عہدے داران کا مثبت ردعمل سامنے آیا۔

اولین شمارے میں ''قومی زبان کا پروگرام نئی اصطلاحات'' کو خطوط کے ساتھ اندرون اور بیرون ملک چھ سو سے زائد اہل علم و دانش اور اپنے اپنے شعبے کے صائب الرائے اصحاب کو ای میل کے ذریعے ارسال کیا گیا جن میں ۸۱ جامعات کے وائس چانسلر، سرکاری افسران، نامور صحافی، علمی و تحقیقی اداروں کے ماہرین، محققین، سائنس دان اور جملہ شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے صاحبان فکرونظر شامل تھے۔ خطوط میں انھیں اپنے شعبے کے حوالے سے نئے الفاظ و اصطلاحات اور تحقیقی مقالات بھی ارسال کرنے کی درخواست کی گئی۔
مجلہ کی تیاری میں جہاں دستیاب جدید تکنیکی سہولیات سے استفادہ کیا جاتا ہے، وہاں اشاعت کے بعد اسے ادارے کی ویب سائٹ پر بھی فوری ڈالنے کا اہتمام موجود ہے۔ اس سے دنیا بھر میں مجلہ بلاقیمت دستیاب اور قابل استفادہ ہے۔
اس شمارے میںبھی قومی زبان کی ضرورت و اہمیت پر نئے حوالوں سے بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن کا تصور قومی زبان اس کا واضح اظہار ہے۔ آثار اردو میں بیسویں صدی عیسوی کے اولین ربع میں سائنسی اردو کا تشکیل پذیر اسلوب دکھایا گیا ہے تو زراعت کے دو تحقیقی مقالات کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو آج کے مسائل کو پہلے سے بھی بہتر انداز میں بیان کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔
نظام حکومت کے حوالے سے اس بار پاکستان میں صوبوں کے نظام حکومت اور وفاق کے صوبوں اور خود صوبوں کے باہمی تعلقات اور طریق کار پر وقیع مقالات شامل ہیں۔'' قومی زبان کا پروگرام نئی اصطلاحات'' میں مزید نئی اصطلاحات دی جارہی ہیں جو صاحبانِ علم کی توجہ کی منتظر ہیں۔ آپ سے بھی التماس ہے کہ اپنے شعبہ علمی کا کوئی نیا لفظ یا اصطلاح فی الفور ارسال فرمائیں تاکہ اس قومی خدمت کو قومی دانش کے ساتھ انجام دیا جاسکے۔اشاریہ اردو جرائد میںنئے شماروں کا اشاریہ بھی حسب معمول شامل ہے۔

محمداسلام نشتر
مدیر