غزل
جلا کے راکھ نہ کر دے یہ اشتعال کی آگ
جو لمحہ لمحہ بھڑکتی ہے قیل و قال کی آگ

کوئی جواب تو ہو اضطرابِ خاطر کا
جلا کے رکھ دے گی ورنہ مجھے سوال کی آگ

پھر اس کے بعد پرندہ کہاں بسیرا کرے؟
جو آشیاں کو جلا دے لچکتی ڈال کی آگ

وہ اپنی تیغ کی تیزی سے کیا سوال کرے؟
کہ جس کو راکھ بنا دے خود اس کی ڈھال کی آگ

ہے کام اس کا جلانا جلائے گی ہر طور
کسی جنوب کی ہو یا کسی شمال کی آگ

یہ پہلے دیکھ لیں کیا کیا ہے برقی بار اپنا
وگرنہ راکھ اڑا دے گی اِتصال کی آگ

غمِ فراق میں جلتے دلوں کا مرہم ہے
خنک خصال ہے کتنی ترے جمال کی آگ

جو اس میں جلتا ہے ثاقبؔ سکون پاتا ہے
خیالِ یار میں دیکھی ہے وہ کمال کی آگ
منظور ثاقب
o
غزل
محبت کے سفر میں فاصلوں کو کون دیکھے گا
ہمارے بعد ایسے راستوں کو کون دیکھے گا

حجابوں سے نکل آئے گی جب چہرے کی تابانی
تو پھر رخسار پر ان آنچلوں کو کون دیکھے گا

تجھے برسوں کی جب کھوئی ہوئی یادیں ستائیں گی
تری آنکھوں سے بہتے آنسوئوں کو کون دیکھے گا

ترے ہونٹوں پہ جب کھلنے لگیں گے پھول خوشبو کے
تو پھر میرے جنوں کی وحشتوں کو کون دیکھے گا

جہاں پر دل ہمیشہ اپنی بازی جیت جاتا ہو
وہاں عقل و خرد کے مشوروں کو کون دیکھے گا

فزوں تر ہو گی جب آلودگی شفاف پانی میں
سمندر میں سنہری مچھلیوں کو کون  دیکھے گا
ہمارے بعد ہر جذبہ فنا ہو جائے گا فیصلؔ
جلا کر کشتیاں پھر ساحلوں کو کون دیکھے گا
پروفیسر فاروق فیصلؔ
o
غزل
تمہارے درد کا موسم مجھے سنوارتا ہے
پڑے ہیں بَل جو انائوں کے وہ اُتارتا ہے

میں شب کو خواب سجاتا ہوں اپنی آنکھوں میں
کہ دن نکلتے ہی جنگل مجھے پکارتا ہے

یہ سچ ہے مجھ کو امائوس نے گھیر رکھا ہے
تِرا وجود مری راہ کو نکھارتا ہے

یہ سچ ہے بَین الگ سا ہے ان پرندوں کا
جنھیں ستا کے کوئی اپنا گھر اُسارتا ہے

وصال کا کوئی موسم کہاں نصیب انجمؔ
یہ عشق ہے جو ہمیں ہجر سے گزارتا ہے
محمد امین انجمؔ
o
غزل
 لکھ رہی ہے فسانہ شبستان کا بھیگتی روشنی
خواب گاہ سے ادھر، کو بہ کو پھیلتی ملگجی روشنی

میرے حرفوں سے باب ہنر میں پڑے قفل کھلنے لگے
دیکھ شہر تمنا میں تار اُفق روشنی روشنی

ریگزارِ نظر میں بتاتی ہے کیا خوش نما دائرے
بادلوں کے دریچوں سے آتی ہوئی سرمئی روشنی

ریگِ صحرا کی موجوں پہ مہتاب کے نقش پا ضوفشاں
پانیوں میں کنول اور کنول کی جبیں پر لکھی روشنی

صحن قریۂ شب میں اترنے لگے قافلے نور کے
اور اگلے سفر کے لیے تازہ دم چل پڑی روشنی

ارسلانِ وفا، ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں
کوچۂ دوستاں، چاند، خوشبو، مشفق، زندگی روشنی
ارسلان احمد
o
تھکی آتمائیں
میرے بولے گئے سچ،
میری جوتیوں میں مسکراتے ہیں،
میری ٹھوکروں سے پتھروں کی شریانیں
پھٹ گئی ہیں،
جراحتوں کے عمل
آسمانی کتابوں میں درج ہیں
نوری سالوں کا عکس، آنکھوں میں،
ریت کی طرح چمکتا ہے،
پانیوں کے نواح میں کوئی جہاز
لنگر انداز نہیں ہو پاتا،
قبریں ان کا رستہ روک لیتی ہیں،
سفید بالوں والے ، جسموں پر
جھوٹ کی پوٹلیاں باندھے
دھماکوں میں ملوث ہیں،
آدھی صدی برف میں دبی ہے،
نیچے پڑی لاشوں کی روحیں نکالی نہیں جا سکیں
چھ فٹ زمین میں تنہائی قید ہے،
تھکی آتمائیں، اسم خفی کا ورد کرتے
قربان گاہ میں اپنی باری کا انتظار کرتی ہیں
شاہد زبیر
o
محبت اور ہی شیٔ
بھلا دو خواب کے قصے
حقیقت اور ہی شئے ہے

ایسے جینا نہیں آسان
محبت اور ہی شئے ہے

یہ سانسوں کا تسلسل ہے
اسے آنے دو جانے دو
اگر تم روک لیتے ہو
تو دم گھٹنے کا اندیشہ

اگر تم چھوڑ دیتے ہو
تو غم بڑھنے کا اندیشہ

سو اس پہلے قدم سے
لوٹنے کا عہد کر لو
نسیم سکینہ صدف، ڈسکہ، سیالکوٹ