’’ہواپر لکھی کہانیاں‘‘ سے ماخوذ کہانی 

غیر معمولی دعوتیں

 شاہد زبیر

میں اپنی زندگی میں تین حیرت انگیز دعوتوں میں شریک ہوا ہوں، میرے ایک امریکی دوست کا خواب تھا کہ وہ ایک منفرد پارٹی دے گا جس میں بہت ہی مخصوص لوگوں کو دعوت دی جائے گی جو بہت اعلیٰ ظرف اور بہترین کردار کے مالک ہوں اور اس پارٹی میں شرکت کے بعد اس کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ صرف یہی شرط نہیں تھی، ان کا بے حد امیر ہونا بھی شرط تھا۔ انھیں اس دعوت میں ایک مخصوص لباس پہن کر شرکت کرنی تھی جو کچھ وردی قسم کی چیز ہو گی، خاص طو رپربہت اعلیٰ سلوائے گئے ایک ہی رنگ کے کوٹ جن پر سونے کے بڑے بڑے بٹن لگے ہوں۔ آخر وہ دن آ گیا جب مجھے بھی اس کا دعوت نامہ موصول ہوا تھا ۔میں شاید ان سب کی طرح تو امیر نہیں تھا لیکن اس کی بیوی میری کلاس فیلو رہ چکی تھی اور یہ مہربانی یقینا اس کی وجہ سے کی گئی تھی۔ دعوت ایک ایئر شپ پر ہونے والی تھی جو بحرالکاہل پر پرواز کر رہا ہو گا۔ ایئر شپ ایک بہت بڑے ہوٹل میں تیار کیا گیا تھا، بالکل مصنوعی طو رپر مگر حیرت انگیز۔ یوں لگتا تھا کہ شاید یہ ایک حقیقی دنیا کا ایئر شپ ہے جس پر ایک بہت بڑی پارٹی دی گئی ہے۔ یہ دن میرے دوست کی پچاسویں سالگرہ کا دن تھا۔ سمندر کو موضوع بنا کر ہوٹل کے کھلے میدان کو پانی سے بھر دیا گیا تھا جس کو بہت سا نیلا رنگ ڈال کر سمندری شکل میں بدل دیا گیا۔ سمندر کے ایک کنارے پر آ کر مصنوعی لہریں ٹکراتی تھیں جن کے ایک کنارے پر تقریباً چار سو روشنیاں بنائی گئی تھیں جو کسی ساحل کا نظارہ دے رہی تھیں اس کے دو درجن سے زائد مہمان سلک کے بادبانوں سے مزین اڑنے والی کشتی میں بیٹھ گئے جس کے اطراف میں دس سے بارہ ہزار پھولوں کے پودوں کی کیاریاں بنائی گئی تھیں۔ ہزاروں گلاب دھرے تھے جن سے فضا معطر ہو گئی تھی۔ سب لوگوں نے پندرہ بہترین پکویوں chefsکے تیار کردہ بے شمار قسم کے کھانے کھائے جن کو چست اور تربیت یافتہ  بیروں نے برتایا۔
شام کے کھانے کے بعد ایک اوپیرا دکھایا گیا جس میں دنیا کی بہترین گلو کارہ کی مدبھری آواز نے ماحول کو اور بھی مسحور کن بنا دیا۔ درمیان میں ایک چھوٹے ہاتھی برابر اونچا تقریباً پانچ فٹ کا کیک دھرا تھا۔ اس کیک پر سوکے قریب سفید مرغابیاں چھوڑ دی گئیں، کھانے اور کیک کاٹنے کے بعد ہمارا دوست ہمیں ہوٹل کے ایئر شپ سے اُس جانب لے گیا جہاں اس نے ایک برفیلی جنت بنا رکھی تھی ، پلاسٹر سے بنی سفید برف نے میدان کو ڈھانپ رکھا تھا اور دیواروں پر جمی سفیدی نارتھ پول کا منظر پیش کر رہی تھی۔ برسوں گزر گئے ہیں لیکن میں نے پھر ایسی پارٹی نہیں دیکھی۔
ایک بارمیں فرانس میں رہائش پذیر تھا جب مجھے ایک حیران کرنے والے کھانے کی دعوت موصول ہوئی ۔ مجھے عجیب و غریب پارٹیوں میں شامل ہونے کا بے حد شوق ہے۔ مجھے امریکہ کی وہ پارٹی یاد تھی، میں نے سوچا دیکھیں کہ اس بار کیا مختلف ہو گا۔ دنیا میں ایسے لوگ بھرے پڑے ہیں جن کے دماغ میں خلل اور خواب بھرے رہتے ہیں اور کچھ ہٹ کر کرنا چاہتے ہیں۔ سو میں نے اپنے اس فرنچ دوست کی دعوت قبول کر لی۔ پارٹی ایک قبرستان کے پس منظر میں دی گئی تھی۔ کھانے پر مدعو ہر شخص کی کرسی کے پیچھے ایک کفن تھا۔ سطح زمین سے تھوڑا اوپر پلیٹ فارم تھا۔ جس پر جنازہ رکھتے ہیں، انوکھی بات یہ تھی کہ میرے دوست نے اس پارٹی کو دیکھنے والوں کا بھی اہتمام کیا تھا اور ڈنر ٹیبل کے سائیڈ پر کھلے میدان میں چاروں طرف بالکونی بنائی گئی تھی جس سے وہ کھانے میں شریک مدعوئین کو ڈنر لیتا ہوا دیکھ سکتے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ ماتم میں شریک ہونے کے لیے آئے ہیں اور ان سب نے سیاہ لباس پہن رکھے تھے۔ اس قدر ہولناک منظر تھا کہ جو کھانا رکابیوں میں چنا گیا اس کی رنگت بھی سیاہی مائل تھی اکثر لوگ خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے کو دیکھتے تھے اور شکر کر رہے تھے کہ وہ اکیلے اس میں شریک نہیں ہیں لیکن گیلری سے اٹھنے والی آہ و بکا نے ڈنر میں شریک لوگوں کے پسینے نکال دیئے تھے، وہ جلد از جلد وہاں سے چلے جانا چاہتے تھے، شایدبہت کم لوگوں نے کھانا چکھنے کی کوشش کی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ لوگ جنھوں نے کھانا کھایا،  وہ ان کی زندگی کا سب سے اچھا اور خوش ذائقہ کھانا تھا۔ زیادہ ترکھانے پرندوں اور سمندری حیات سے تیار کیے گئے تھے اور میٹھے میں آئس اور چاکلیٹ زیادہ استعمال کی گئی تھی۔
تیسری بار مجھے اس عجیب و غریب کھانے میں بلائے جانے کا اعزاز نصیب ہوا جس میں بہت سارے برطانوی سائنس دانوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ ایک میدان میں پلاسٹک، اینٹوں اور لوہے سے کچھ ماڈل جانور بنائے گئے تھے جن کے اندر بمشکل ایک آدمی بیٹھ سکتا تھا۔ ڈیزائنر نے خیال رکھا تھا کہ وہ ماضی بعید کا ماحول تیار کر پائے۔ یہ سب کچھ میرے ایک برطانوی دوست نے اپنے محل میں تیار کیا تھا۔ کھانے کے میدان کو شیشے کے ایک بڑے وسیع غلاف سے ڈھکا گیا تھا۔ یہ نمائش اپنی نوعیت اور شکل میں بالکل منفرد تھی۔ اس میں بائیس مدعوئین نے مختلف جانوروں کے اندر بیٹھ کر سرو کرنے والوں سے کھانا لیا اور کھایا، یہ نئے سال کا پہلا دن تھا۔ گھوڑے، عقاب، شیر یا ہاتھی کے پیٹ میں بیٹھ کر کھانا لینا اور کھانا عجیب صورت حال سے دوچار کرتا تھا۔ کھانے کے بعد سب لوگوں کو بذریعہ لندن ٹرین رخصت کیا گیا۔
مجھے بازاری کھانے راس نہیں آتے لیکن اچھے کھانوں کی آرزو اپنے ساتھ خوشگوار یادیں ساتھ لاتی ہے، مزا آیا…؟