ڈاکٹرہلال نقوی
انیس شناسی اور فرمان فتح پوری

            مرثیے کے متعلق فرمان صاحب کا بیشتر ادبی کام میر انیس کے حوالے سے ہے۔ اپنے مطالعہ کے مختلف مراحل میں وہ انیس شناسی کی جن منازل سے گزرے ہیں اس میں انیس کی صرف مرثیہ نویسی ہی نہیں بلکہ سلام، رباعی اور غزل کو بھی انھوں نے سامنے رکھا۔
انسانی سفر کی تہذیبی ، سیاسی، سماجی، تمدنی اور ادبی تاریخوں میں ایسے کم ہی لوگ زندگی کے منظر ناموں میں ابھر کر سامنے آئے ہیں جنھوں نے اپنی ذات میں ایک انجمن تشکیل  دے کر جہد و عمل کے اتنے جاوے طے کیے ہیں کہ ان کے اثر و نفوذ کے نشانات آج بھی بہت دور تک نظر آتے ہیں۔ ادب کی تنقیدی، تحقیقی تاریخ میں بہت سے لوگ آئے اور ہر عہد میں آتے رہیں گے لیکن وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ ان میں سے بیشتر کے نام ذہنوں میں نہیں رہتے۔ البتہ چند ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی کے کسی بھی موڑ پر نمودار ہوتے ہیں اور بہت جلد ان کی ذات اپنی انتھک محنتوں سے ایک ایسا بہائو اور پھیلائو پیدا کر لیتی ہے جو کسی قافلے اور قبیلے کے بغیر، مسلسل رواں دواں رہتا ہے۔ اردو شعر و ادب کے محققوں اور تنقید نگاروں میں فرمان صاحب کی شخصیت اسی قسم کے امتیازات سے عبارت ہے۔ انھوں نے ہم عصر آوازوں کی باز گشت میں، مرثیے کی تحقیق و تنقید کی ایک الگ راہ تراشی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ الگ راہ کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ میر انیس کی مرثیہ نگاری یا مرثیے کی تاریخ کو ماضی و حال کے تمام تر مآخذ کے درمیان اس طرح اجاگر کرنا اور دیانت دارانہ تحقیق کی جھلیوں میں اسے اس طرح چھاننا کہ طاہر و خالص مواد سے ادب کے باشعور اور بااصول قارئین کے لیے حقیقی استفادے کی راہیں کھل  سکیں ان کے تنقیدی و تحقیقی رویے میں نکات و معاملات کو از سر نو کھنگالنے کا عمل سب سے نمایاں ہے۔
صنف مرثیہ کے تعلق سے فرمان صاحب کی ادبی اعتبار سے سب سے اہم کڑی ان کی کتاب ’’میر انیس حیات اور شاعری‘‘ ہے۔ یہ کتاب ۱۹۷۶ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ممکن الحصول ادبی دستاویزات اور دستیاب مآخذ کے پس منظر میں انیس کی سوانح اور کلام سے متعلق انتہائی بنیادی نوعیت کے مباحث کو از سر نو کاغذ پر لایا گیا ہے۔
٭٭٭٭